وحدت نیوز(اسلام آباد) شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور حکومتی بے حسی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ نا صر عباس جعفری کی بھوک ہرتال کے گیارویں روز بھی ایم ڈبلیو ایم کے احتجاجی کیمپ میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے وفود اور عمائدین کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ملی یکجہتی کونسل پاکستان و جمیعت علمائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر ابو الخیر زبیر نے اپنے اعلی سطح وفد کے ہمراہ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر جعفری سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مکتب تشیع کے خلاف ہونے والے ظلم و بربریت کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔سانحہ پارہ چنار کے ذمہ داران کے خلاف فوری کاروائی ہونی چاہیے۔پاکستان کے مظلومین کی حمایت میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس نے جو جدوجہد شروع کی اس میں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت مجلس وحدت مسلمین کے تحفظات کو دور کرے۔علامہ ناصر عباس ملک کی ایک باوقار اور محب وطن شخصیت ہیں۔ان کی بھوک ہرتال کے معاملے میں حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ حکومتی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر امجد نے علامہ ناصر عباس کو مکمل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ملت تشیع کو درپیش مشکلات اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت کو فورا مذاکرات کرنے چاہیے۔ڈاکٹر امجد نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے تمام مطالبات شیعہ کمیونٹی اور ملک و قوم کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ہم ان کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔علامہ ناصر عباس نے علامہ ابو الخیر زبیر اور ڈاکٹر امجد کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمارے پرامن احتجاج کوکمزوری نہ سمجھے۔ہم قوم کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے ۔ہم اپنے اصولی مطالبات کو آئینی جدوجہد کے ذریعے منوانے کے لیے کوشاں ہیں۔مگرموجودہ حکومت شرافت کی زبان کو بزدلی سمجھ رہی ہے۔ وطن عزیز کے مفادات اور عساکر پاکستان کے خلاف برسرپیکار دہشت گرد گروہوں کو حکومتی آشیرباد حاصل ہے جبکہ ملک کی محب وطن جماعتوں سے بات کرنے کا بھی حکومت کے پاس وقت نہیں۔ حکومت کو اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانا ہو گی۔ حکومت اگر ہمارے مطالبات تسلیم کرنے سے گریزاں رہی تو ہم اپنے احتجاج کو ملک گیر تحریک میں بھی بدل سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد مذہبی و سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ کھڑی ہیں۔علامہ ناصر عباس نے کہا کہ مطالبات کی منظوری تک یہاں سے واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔