وحدت نیوز(کراچی)مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ باقرعباس زیدی نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اربعین کے جلوس میں شرکت کے لیے جانے والوں پر مقدمات کے اندراج کو قانون کے نام پر بدترین لاقانونیت قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیو کراچی،عائشہ منزل، شاہراہ فیصل اسٹار گیٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اربعین مارچ کے شرکا کو زدکوب اور ہراساں کئے جانے اور شاہراؤں پر سبیل حسین علیہ السلام کو بلا جواز ہٹانے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اسی طرح اندرون سندھ میں پیدل جلوسوں میں شرکت کرنے والے عزاداروں پر ٹنڈو الہیار میں چار مقدمات، ٹنڈو محمد خان میں ایک مقدمہ، بدین مین تین مقدمات، دادو میں چھ مقدمات،جامشورو میں ایک مقدمہ،شکار پور میں ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں نواسہ رسول ﷺ سے محبت کو جرم قرار دے کر حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ملت تشیع کے ساتھ جو سلوک موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت نے اختیار کر رکھا ہے ایسا سلوک تو سخت ترین آمریت میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ ہم سے مذہبی آزادی کا آئینی حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یزیدکے پیروکاروں کی خوشنودی کے لیے حسینؑ کے نام لیواؤں کے ساتھ ریاستی ظلم و بربریت ملک کے امن کو خراب کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ہم حکومت اور ریاستی اداروں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کربلا کے ماننے والوں کو طاقت یا اختیارات کے بل بوتے پر دبایا نہیں جا سکتا۔ہم ہر دور کے یزید سے ٹکرانے کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔پولیس کی جانب سے عزاداروں کے خلاف مقدمات کا اندراج متعصبانہ طرز عمل ہے۔یہ ان عناصر کی ایما پر کیا جارہا ہے جنہیں عشق امام حسین علیہ السلام ناگوار گزرتا ہے اور نواسہ رسول ﷺ کے ذکر کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ملت تشیع کو دیوار سے لگانے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے افسران کو فوری طور پر برطرف کیا جائے ورنہ اختیارات سے تجاوز کرنے والے افسران کے خلاف عدالتی چارہ جوئی سمیت تمام قانونی و آئینی آپشنز استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ عوامی ردعمل کی طرف جائیں لیکن اگران انتقامی کارراوئیوں کا سلسلہ بند نہ ہو ا تو ملت تشیع سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائے گی۔ملک گیر دھرنوں کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔انہوں نے کہا سندھ میں اجرک ڈے، روایتی و ثقافتی تہوار اور مختلف مواقعوں پر غیر معمولی تعداد میں افراد جمع ہوتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں سندھ کے مختلف حصوں سے لاڑکانہ تک پیدل مارچ کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں کارکنان آتے ہیں۔اس کے علاوہ سندھ میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جلسے جلوسوں کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے۔لیکن امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو قانون کی خلاف ورزی سمجھ لیا جاتا ہے۔ پولیس کا یہ دوہرا معیار تشویش و اضطراب کا باعث ہے۔اس طرح کے متعصبانہ اقدامات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات پر طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا ہے اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ ایک اسلامی مملکت کو مسلکی ریاست میں بدلنے کی کوشش بے سود ثابت ہو گی۔اگر پولیس نے اپنی روش نہ بدلی تو اس ظالمانہ سلوک کے خلاف عوامی سطح پر ردعمل کو روکا نہیں جا سکے گا۔انہوں نے کہا کہ
کورونا کے نام پر شیعہ زائرین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے گزشتہ رات کراچی ایئرپورٹ پر زائرین اور دوسرے ممالک سے پلٹنے والے مسافروں کے لیے الگ الگ قانون تعصب کی بدترین مثال ہے زائرین کا کورونا منفی ہونے کے باوجود 24گھنٹے کے لیے قرنطینہ میں رکھنا ناانصافی ہے مختلف حیلوں بہانوں سے ملت تشیع کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔
اس غیر آئینی اقدام کا نوٹس نہ لیا گیا تو ملک بھر کے ائیرپورٹ امام بارگاہیں بن جائیں گے زائرین اور عزاداروں کے ساتھ ناروا سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف، چیف جسٹس پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور حکومت سندھ,کور کمانڈر کراچی، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے سے پہلے ملت جعفریہ کے ان مسائل کو حل کیا جائے۔