وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان نصاب کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ میں متنازعہ نصاب تعلیم پر ملت جعفریہ کے تحفظات کے عنوان سے کنوینیر نصاب کمیٹی علامہ مقصود علی ڈومکی کی زیرصدارت صوبائی مشاورتی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے نصاب کمیٹی کے کنوینیر علامہ مقصودعلی ڈومکی ،ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی، بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صدر انجینئر حاجی جواد رفیعی ،مجمع علمائے کوئٹہ کے صدر علامہ آصف حسینی، ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ برکت علی مطہری، المصطفی پبلک اسکول کے پرنسپل پروفیسر مختار حسین، ممتاز سماجی رہنماپروفیسر محترمہ عابدہ حیدری ،التوحید اسکول کے ڈائریکٹر پروفیسر تاج محمد فیض ،مجمع علمائے کوئٹہ کے جنرل سیکریٹری مولانا ابراہیم حسینی، اتحاد تاجران بلوچستان کے سرپرست حاجی طاہر نظری ،تیموری پبلک اسکول کے چیرمین مصطفی تیموری ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما مبارک علی ہزارہ، گورنمنٹ کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سید ظفر رضا ،پروفیسر سید ابوتراب جعفری، ذاکرہ معلمہ محترمہ یاسمین قاسمی، ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی سیکریٹری جنرل رقیہ کاظمی، مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ شیخ ولایت حسین جعفری و دیگر نے خطاب کیا۔
صوبائی مشاورتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی ترجمان مجلس وحدت مسلمین علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ پاکستان شیعہ سنی مسلمانوں کا مشترکہ وطن ہے۔ ہم صدیوں سے اکھٹے رہتے ہیں۔ نصاب تعلیم کو فرقہ واریت سے پاک اتحاد بین المسلمین کا عکاس ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی شیعہ کانفرنسز کے انعقاد کا مقصد عوامی سطح تک نصاب کے مسئلے کی تبیین ہے۔
علامہ برکت علی مطہری نے کہا کہ 21 اگست 2020 کو وزارت مذہبی امور نے امت مسلمہ میں رائج درود پاک کو بدلنے کی کوشش کی، وزارت مذہبی امور کے اس نوٹیفکیشن کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
علامہ آصف حسینی نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فرقہ وارانہ اختلافات پر مبنی قانون سازی سے اجتناب کیا جائے۔ انجینئرجواد رفیعی نے کہا کہ متنازعہ نصاب کو اعلی عدالتوں میں چیلنج کیا جائے۔
اس موقع پر مشترکہ قرار داد منظور کی گئیں۔
ملت جعفریہ بلوچستان کا یہ اجتماع
1- یکساں قومی نصاب کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اس میں مکتب تشیع کے عقائد اور دینی تعلیمات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے لہذا یہ نصاب تعلیم ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
2- مجوزہ یکساں قومی نصاب کے متنازع نکات کو حذف کرتے ہوئے نصاب اور کتاب دونوں کی نظر ثانی کے ذریعے مکمل اصلاح کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ یہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو۔
3- یہ اجتماع 1975 کے نصاب تعلیم کو موزوں قرار دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اس نصاب میں مختلف اسلامی مکاتب فکر کی تعلیمات کو مناسب طور پر شامل کیا گیا تھا لہذا نیا قومی نصاب 1975 کی طرز پر ترتیب دیا جائے۔
4- آئین پاکستان اور حقوق انسانی کا عالمی منشور ہر انسان کو اپنے مسلک اور مکتبہ فکر کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے حق کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ موجودہ نصاب ہمارے اس بنیادی حق پر حملہ ہے اور یہ ظلم کے مترادف ہے۔
5- وطن عزیز پاکستان میں ایک سازش کے تحت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے باوفا بیٹوں کے خلاف منظم سازش کے تحت انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی نمایاں مثال محرم اور صفر میں عبادت کے جرم میں عزاداروں کے خلاف ہزاروں ناجائز مقدمات کا اندراج ہے۔ اور متنازعہ نصاب تعلیم اور دہشتگردی کے نا ختم ہونے والے واقعات ہیں۔
6- یہ اجتماع وزارت مذہبی امور کی جانب سے اسمبلی قرارداد کا سہارا لے کر امت مسلمہ کے درمیان صدیوں سے رائج مسنون درود شریف کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے متنازعہ نوٹیفکیشن کی منسوخی کا مطالبہ کرتا ہے۔
7۔ یہ اجتماع کوئٹہ میں ھزاراہ شیعہ نسل کشی اور پشاور مسجد میں بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شیعہ نسل کشی کا تسلسل سمجھتا ہے جس کے سدباب کے لیے حکومت اور ریاستی اداروں کو سنجیدہ عملی اقدامات کرنے چاہیے۔