وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کے زیر اہتمام مھدی برحق ؑ تنظیمی و تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہو ئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ خواتين کسی ملک يا قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود ميں برابر کردار ادا کر سکتی ہيں ۔کسی بھی ملک کی تعمير و ترقی ميں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے ، مردوں کے ساتھ عورتيں بھی سماجی اور اقتصادی ميدان ميں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہيں ۔ انسان ہونے کے ناطے تو مرد اور عورت دونوں مساوی ہيں ،تمدن کی تعمير اورتہذيب کی تشکيل اور انسانيت کی خدمت ميں دونوں برابر شريک ہيں ۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ’’مساوات مرد وزن‘‘ کے کھوکھلے نعرے کے بجائے تمدن کی فلاح کيلئے دونوں کی دماغی تربيت اورعقلی وفکری نشونماکے مواقع بہم پہنچائے جاتے کيونکہ ہر تمدن کا فرض ہے کہ سماج کا يہ نصف حصہ اپنی فطری استعداد اور صلاحيتوں کے مطابق سماج کی ترقی ميں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرے عزت نفس کا بھی بہترين شہري صفات کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام دنيا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو مرد کے برابر مقام ديا ہے بلکہ سماج کی تشکيل ميں عورت کو مرد سے زيادہ اہميت دی ہے، اسلام کی نظر ميں عورت معمار اول کا درجہ رکھتی ہے، عورت اور مرد انسانيت کی گاڑی کے دو پہيے ہيں ، کسی ايک پہيے کے بغير انسانيت کی ترقی و عروج کا تصور نہيں کيا جا سکتا، قرآن حکيم نے عورت کے حقوق اور معاشرہ ميں اس کی اہميت پر بہت زور ديا ہے اور جو بھی احکامات دئیے ہيں ، ان ميں عورت اور مرد دونوں برابر کے شريک ہيں ، ایک موقع پر اردو کے معروف اسکالر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ قرآن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کيا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ميں عورتوں کے حقوق اور ان کی اہميت پر اتنا زور ديا گيا ہے کہ گويا يہ کسی عورت کا کلام ہو، ان حقوق و اختيارات کی لسٹ کافی طويل ہے جن کے عنوانات پر ہی نظر ڈال لينا کافی ہو گا، اسلام نے مرد اور عورتوں ميں حقوق کی مساوات رکھی ہے، عورت کی مستقل حيثيت کو تسليم کيا ہے، سزا اور معافی ميں مرد اور عورتوں کو برابر رکھا ہے، عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے ساتھ ساتھ وراثت ميں بھی حق حاصل ہے، جو اسے ماں باپ اور شوہر دونوں کی طرف سے ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ " من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم" ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
انہوں نے مذید کہا کہ اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔
مرکزی سیکرٹری شعبہ خواتین ،خواہر زہراء نقوی نے خطاب کیا اور تنظیم کے ثمرات اور افادیت کے بارے میں بتایا، انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے بھی ہمیشہ خواتین کو پاکستانی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدان فراہم کیا ہے ۔ اور ذمہ داریاں سونپی ہیں لہذا ہماری پاکستان کی تمام خواہران سے گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور مجلس وحدت مسلمین کا حصہ بن کراپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔قائد وحدت اور ان مخلص کابینہ نے ہمیشہ خواتین کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ اور خواتین کے ساتھ تعاون کیا ہے ۔
ورکشاپ کے دوسرے مقررعلامہ سید حسنین گردیزی نے خطاب کیا اور امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل کیلئے نہج البلاغہ کی نظر میں ان کا حل بتایا،گروپ ڈسکشن کی گئی جس میں انتظار امام ؑ کیسے کیا جائے اور اس میں ہماری ذمہ داری بتائی گئی۔سید حسنین گردیزی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مردوں کے ساتھ عورتوں کو شانہ بشانہ ساتھ چلنا ہو گا۔اور اپنے مسائل کا حل نہج البلاغہ سے لیناتلاش کرنا ہو گا اس وقت معاشرے کو تعلیمی پسماندگی ، جہالت،کمزور معیشیت، فقرو ناداری اورتفرقہ، دین میں تحریف و بدعت ۔ان سب کا حل نہج البلاغہ بآسانی لیا جا سکتا ہے۔تعلیم کو عام کیا ہے۔ جہالت کا خاتمہ علم ایک زندگی ہے۔ غربت و افلاس کو ختم کیا جائے۔
ورکشاپ کے آخر میں پنڈی ڈویژن کی خواتین کی سرگرمیوں سے متعلق سید قندیل کاظمی نے روشنی ڈالی ۔ انتظار امام اور اُس کی تیاری پرخواہر نگین نقوی صاحبہ نے سیر حاصل گفتگو کی اس ورکشاپ میں تنظیمی خواہران ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور خواہران اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی وکشاپس کا انعقادتنظیمی خواتین کی صلاحیتیوں کو بڑھانے کےلئے ازحد ضروری ہیں ۔ ان ورکشاپس کے انعقاد سے ہمیں کام کرنےکی روش کے علاوہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا حوصلہ اور جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور ایک معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ایک نئی جہت ملتی ہے جس سے بنحو احسن ہم اس الہی تنظیم میں اپنا رولادا کر سکتی ہیں ۔