The Latest
وحدت نیوز (گلگت) برادر کاظم حسین مجلس وحدت مسلمین چھلت کے یونٹ سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ڈاکٹر علی گوہر ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان نے حلف وفاداری لیا۔
مجلس وحدت مسلمین ضلع نگر کی جانب سے چھلت یونٹ کے سیکرٹری جنرل کے انتخاب کیلئے مورخہ 12 مارچ کو عمومی اجلاس طلب کیا گیا جس میں چھلت کے علاوہ موضع بر،چھپروٹ کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں شیخ محمد یونس نجفی کے علاوہ صوبائی کابینہ کے اراکین ڈاکٹر علی گوہر، غلام عباس ،سیکرٹری سیاسیات بھی شریک ہوئے۔
سیکرٹری جنرل چھلت یونٹ کے انتخاب کے بعد صوبائی کابینہ کے اراکین کے ساتھ ضلعی شوریٰ کے اراکین کا اجلاس منعقد ہوا جس میں محمد علی شیخ کی اچانک رحلت سے حلقہ 4 کی خالی نشست پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور و خوض کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مجلس وحدت مسلمین روایتی سیاست سے ہٹ کر انتخابی سیاست میں میرٹ کو ترجیح دے گی ۔کسی بھی سیاسی اتحاد کیلئے مجلس وحدت کے دروازے کھلے رکھنے پر زور دیا گیا البتہ کسی بھی سیاسی جماعت سے الائنس کی صورت میں میرٹ پر ہرگزسمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔انتخابی سیاست میںجیت یا ہار ہمارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر میدان عمل میں استقامت دکھانا اصل معیار ہے۔اجلاس میں شریک کارکنان نے کہا کہ نگر قوم کسی بھی وقتی مفاد کی خاطر اپنے عزت و قار کی بالادستی کو برقرار رکھنے میں اہلیت کو ترجیح دینگے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) میں ایک سال میں تیسری مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں، دینی اداروں اور دینی مدارس کا موضوع انتہائی اہم ہے، اگر معیاری دینی اداروں؛ خصوصاً دینی مدارس کی بھرپور معاونت اور سرپرستی کی جائے تو بلاشبہ بڑی حد تک معاشرے سے جہالت، افلاس اور پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
معاشرہ سازی میں دینی مدارس اپنی مثال آپ ہیں، رضاکارانہ طور پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ،دینی مدارس کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے ہاں جہاں پر مخلص علمائے کرام اور با اصول لوگوں کی کمی نہیں وہیں پر دین کے نام کی تجارت کرنے والوں کی بھی بھرمار ہے۔
دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے اکثر اوقات دیندارلوگ خاموش رہتے ہیں۔ اس خاموشی کی ایک وجہ لوگوں کی دین سے محبت اور ہمدردی بھی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے تحقیق کا دروازہ کھولاتو شاید دین کا نقصان ہوجائے گا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کا نقصان تحقیق کے بجائے غیرمعیاری دینی مدارس سے ہورہاہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے نصاب اور اساتذہ کو بھی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے لیکن اس میں بحث کی گنجائش موجود ہے کہ کس مدرسے کو حقیقی معنوں میں ایک دینی مدرسے کا عنوان دیا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں ابھی تک علمائے کرام نے ملکی سطح پرایک دینی مدرسے کے عنوان کے لئے کوئی معیار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قسم کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ اس عدمِ معیار کی وجہ سے بعض اوقات ایسے بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ جگہوں پر دینی مدارس کا عنوان فقط پیسے جمع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
کسی بھی چاردیواری میں اِدھر اُدھر سے مجبوری کے مارے ہوئے چند بچے اکٹھے کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان کے نام پر صدقات و عطیات کی جمع آوری شروع ہو جاتی ہے۔بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں سے کئی کئی لاکھ روپے فطرانہ جمع ہوتا ہے لیکن وہاں موجود بیواوں اور یتیموں کی بدحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
بعض جگہوں پر ایسے بھی ہوا ہے کہ کچھ متولی کہلوانے والے حضرات پہلے تو صدقات و عطیات سے ایک مدرسے کی بلڈنگ کھڑی کرتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر ہوتی ہے پھر لائبریری اور پھر۔۔۔ ایک لمبے عرصے تک یہ تعمیرات ہی ختم نہیں ہوتیں اور پھر اس مدرسے کے طالب علموں کی مدد کے عنوان سے گھر گھر میں چندہ باکس رکھ کر منتھلی آمدن کا بھی انتظام کیا جاتا ہے، ا س کے علاوہ قربانی کی کھالیں اور فطرانہ بھی جمع کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ایک متولی کہلوانے والے فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتاہے اور پھر اسی شخص کی نسلوں کو آگےمنتقل ہوتا رہتا ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں دینی طالب علموں کے لئے کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں،تعلیم کے بعد روزگار نہیں، اگربیمار ہوجائیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگرخدانخواستہ حادثہ ہوجائے تو کوئی سہارا دینے والا نہیں ،اس ملک میں ایسے دینی مدارس بھی ہیں جنہوں نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی طلاب کی خدمت کے نام پر مختلف مارکیٹیں ، ہوٹل اور حسینئے(امام بارگاہیں)بھی بنا رکھے ہیں لیکن اگر کوئی دینی طالب علم کبھی مجبوری سے کسی ہوٹل یا حسینئے میں رہنے کے لئے چلا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی بلکہ سب سے گندے کمرے طالب علموں کو ہی دئیے جاتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے لوگوں نے اپنے اوپر مختلف اداروں کے لیبل بھی لگا لئے ہیں ، اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ فلاں تنظیم، انجمن یا ٹرسٹ کا مدرسہ ہے جبکہ عملاً سب کچھ فردِ واحد کے پاس ہی ہوتا ہے۔
حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر ہمارے ہاں کے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک طرف تو نصاب، اساتذہ اور طلاب کی تعداد کے حوالے سے دینی مدارس کے عنوان کے لئے ایک معیار طے کریں اور کسی بھی شخص کو دینی مدرسے کے معیار کو پامال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ جبکہ دوسری طرف مخیر حضرات کو یہ شعور دینا بھی علمائے کرام کی ہی ذمہ داری ہے کہ دیانت دار اور امین لوگوں تک وجوہات شرعی پہنچائے بغیر ان کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی۔
لہذا مخیر حضرات کسی بھی ادارے کے پمفلٹ پڑھ کر یا کسی کی باتوں سے متاثر ہوکر اسے عطیات و وجوہات دینے کے بجائے ممکنہ حد تک اس ادارے کا وزٹ کریں، اس کے طالب علموں کا رزلٹ دیکھیں، اس کے اساتذہ کی علمی صلاحیت اور معیار کا پتہ لگائیں، اس ادارے کے ممبران یا ٹرسٹیز کے بارے میں معلومات لیں کہ واقعتا سب کچھ چیک اینڈ بیلنس کے تحت ہورہاہے یا فقط ادارے کا نام استعمال ہورہاہے۔ یہ بھی دیکھنے والی چیز ہے کہ جو لوگ دینی و جدید تعلیم کے حسین امتزاج کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے بارے میں یہ بھی معلوم کیا جائے کہ وہ خود کس قدر جدید تعلیم سے آشنا ہیں۔
المختصر یہ کہ مخیر حضرات کو چاہیے کہ کسی بھی ادارے کی پراسپیکٹس اور ادارے کی حقیقی صورتحال کا خود یا کسی بھی ممکنہ طریقے سے ضرور جائزہ لیں۔
یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ ہم حکومتی کاموں پر تو تنقید کرتے ہیں اور حکومتی امور کوٹھیک کرنے کے لئے احتجاج کرتے ہیں لیکن دینی امور اور اداروں میں اصلاح کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم ملک کی بہتری کے لئے تو یہ سوچتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونے چاہیے، سربراہ کو بدلنا چاہیے، اقتدار کو موروثی نہیں ہونا چاہیے،نئے لوگوں کو موقع ملنا چاہیے لیکن دینی اداروں کی نسبت یہ سوچ ہمارے دماغوں میں کبھی نہیں آتی۔
عجیب بات ہے یا نہیں کہ پورے ملک کو چلانے کے لئے ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور ایک نیا مدیر مل جاتاہے لیکن بعض دینی مدارس کو چلانے کے لئے الیکشن اس لئے بھی نہیں ہوتے چونکہ نیا مدیر ہی نہیں ملتا اور اگر نیا مدیر مل بھی جائے تو وہ پہلے والے مدیر کا بھائی، بیٹا، پوتا، بھتیجا ، بھانجا یا داماد وغیرہ ہی ہوتا ہے۔یعنی پہلے والے مدیر کے خاندان کے علاوہ کسی اور میں مدیریت کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی۔
دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے لوگ احتجاج کی سوچتے بھی نہیں، اگر ایک مسلک کے دینی مدارس میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی ٹریننگ دی جائے تو دیگر مسالک کے لوگ اور علما خاموش رہتے ہیں، اگر کسی نام نہاد مولوی کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں تو اس کے خلاف کہیں کوئی ریلی نہیں نکلتی، اگر کوئی مولوی صاحب طالبان کے کتے کو بھی شہید کہیں تو لوگ اس پر بھی خاموش رہتے ہیں، شاید لوگ اس خاموشی کو بھی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ مخلص اور جیدعلمائے کرام کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دینی مدارس کا معیار طے کریں اور لوگوں میں دین کی نسبت درد کو بیدار کریں تا کہ وہ تحقیق سے ڈرنے کے بجائے خوب تحقیق کریں اور اس کے بعد حقیقی معنوں میں خدمت دین کرنے والےدینی مدارس کی مدد و معاونت کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (اسلام آباد) پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہے کہ یمن بارڈر پر پاک افواج کی تعیناتی کی خبروں میں صداقت نہیں ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر شیرازی سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کیا، تفصیلات کے مطابق سرتاج عزیز نے کہاکہ گلگت بلتستان کوپاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کی منظوری وزیر اعظم پاکستان جلد دیں گےلیکن یمن بارڈر پر پاکستانی فوج کی تعیناتی کی خبر میں صداقت نہیں، ذرائع کے مطابق سید ناصر شیرزای نے سرتاج عزیز سے بات کرتے ہوئےپاکستان کی یمن جنگ میں شمولیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے، پاکستان امت مسلمہ کا واحد ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے جسے مسلم ممالک میں مصالحت کارکا کردار اداکرنا چاہئے ناکہ فریق کا۔
وحدت نیوز(کراچی/ سکھر) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسدعباس نقوی نے قومی انتخابات 2018کی حکمت عملی کی ترتیب کے لئے صوبہ سندھ کے تین روزہ دورے کا آغاز کردیا، اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں وہ کراچی پہنچے جہاں انہوں نے صوبائی سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی سے ملاقات کی اور ممکنہ انتخابی حلقہ جات کی فہرست پر تبادلہ خیا ل کیا اس موقع پر کوآرڈینیٹر مرکزی پولیٹیکل سیل محسن شہریاربھی ان کے ہمراہ ہیں، سید اسد عباس نقوی نے کراچی میں قیام کے دوران صوبائی اور ڈویژنل رہنما علی حسین نقوی ، میثم رضا عابدی ودیگر کے ہمراہ ایم ڈبلیوایم ضلع ملیر کا دورہ کیا ، ضلعی سیکریٹریٹ میں منعقدہ ضلعی پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں خصوصی شرکت اورگذشتہ انتخابی نتائج اور حکمت عملی سمیت آمدہ انتخابی پالیسی پر تفصیلی بحث ومباحثہ اور مشاورت کی گئی، بعد ازاں دورہ سندھ کے دوسرے مرحلے میں سید عباس نقوی ، محسن شہریار اور سید علی حسین نقوی کے ہمراہ سکھر پہنچے جہاں انہوں نے ایم ڈبلیوایم سکھر ڈویژن اور لاڑکانہ ڈویژن کی پولیٹیکل کونسل کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور سندھ میں ایم ڈبلیوایم کی حکمت عملی کے حوالے سے دیگر مرکزی ، صوبائی اور ضلعی رہنماوں سے مشاورت کی ، اس موقع پر مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی سمیت صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی ، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے تنظیمی عہدیدار بھی موجود تھے ۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسد عباس نقوی کا کہنا تھاکہ مجلس وحدت مسلمین نے آئندہ قومی انتخابات کے حوالے سے تفصیلی مشاورت اور حکمت عملی کے تعین کا آغاز کردیا ہے ، ہمارا دورہ سندھ بھی اسی سلسلے کے ایک کڑی ہے ، پہلے مرحلےمیں ممکنہ انتخابی حلقوں کا تعین، بنیادی ضروریات اور تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی بنیادی اہداف ہیں انشاءاللہ جلد ایم ڈبلیوایم اپنے چنیدہ انتخابی حلقوں اور امیدواروں کا اعلان کرے گی۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ،مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ انتخابی اتحاد کی خواہاں ہیں ، البتہ کسی بھی ممکنہ انتخابی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ پارٹی کے پالیسی ساز ادارے کریں گے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے جدید ایل وائی 80 میزائل شکن نظام کو فوج میں شامل کرنے پر قوم کو مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ چین اور روس کے اشتراک سے تیار شدہ یہ ائیر ڈیفنس سسٹم خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں ایک غیر معمولی اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا وطن دنیا کے نقشے پر ایک ناقابل تسخیر قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ کسی کو ارض پاک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں۔ اس وقت ہم دہشت گردی سمیت لاتعداد مشکلات سے نبرد آزما ہیں۔ ان داخلی و خارجی مشکلات کے باوجود افواج پاک وطن عزیز کے دفاع سے لمحہ بھر غافل نہیں اور جدید جنگی آلات کے نت نئے تجربات ہماری اعلٰی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعلان ہے۔ بھارت سمیت ملک دشمن عالمی قوتیں وطن عزیز کی سلامتی کی دشمن ہیں۔ ہمیں دوستی کے لبادے میں چھپے ہوئے دشمنوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رہنے کی ضرورت ہے۔ جنگی ہتھیاروں کی زیادہ سے زیادہ تیاری ہماری شرعی فریضہ بھی ہے اور ملکی سلامتی کے لئے ضروری بھی۔ ہمیں ہتھیاروں کی تیاری میں اسی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے پولٹیکل سیکرٹری علی حسن نقوی نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب ہو یا ردالفساد مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے سیکیورٹی اداروں کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ریاست کو آپریشن ردالفساد کے مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے افغان اور کشمیر پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی، ریاستی ادارے دہشتگرد گروہوں کو اثاثہ سمجھنا چھوڑ دیں، درپیش چیلنجز کا مقابلہ موجودہ حکمرانوں کے بس میں نہیں، ملک بچانے کیلئے پڑھے لکھے جوانوں پر مشتمل حکومت کا قیام ناگزیز ہے، کراچی میں عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، سندھ حکومت کراچی میں ترقیاتی کام مکمل کرے، روشنیوں کا شہر کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی پولٹیکل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں کراچی ڈویژن کے پولٹیکل سیکرٹری تقی ظفر، ثمر عباس، حسن عباس و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
علی حسین نقوی نے کہا کہ ہمیں بلاخوف میدان میں حاضر رہنا ہے، ایک دوسرے سے مدد کریں، ملک کے تمام مکاتب فکر یک جان ہیں اور ملک کے دفاع کیلئے اپنی مزید لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں، افواج پاکستان سمیت تمام سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ ہیں، حکومت نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بے گناہ محب وطن شیعہ اور اہلسنت عوام کے بجائے مجرموں کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم و علامہ اقبال کے پاکستان کی جدوجہد کرتے رہیں گے، سندھ بھر میں کالعدم جماعتوں کو حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے، سانحہ درگاہ شہباز قلندرؒ میں ملوث دہشتگردوں کو فوری گرفتار کیا جائے، واقعہ میں ملوث سہولت کاروں کو منظر عام پر لایا جائے اور عبرت ناک سزا دی جائے۔
وحدت نیوز (پشاور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخوا کے زیراہتمام دوروزہ تنظیمی وتربیتی ورکشاپ کا انعقادجامعہ شہید عارف حسین الحسینی ؒ میں کیا گیا جس میں صوبے کے مختلف اضلاع سے اراکین صوبائی وضلعی کابینہ نے شرکت کی، دو روزہ ورکشاپ کے مختلف سیشنز سے ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی، مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسد عبا س نقوی، مرکزی سیکریٹری روابط ملک اقرار حسین ، علامہ سید جواد ہادی، علامہ اصغر عسکری ، علامہ اقبال بہشتی ودیگر مقررین نے خطاب کیا،مقررین نے اپنی گفتگو میں شرکاءکو تقوی ٰ الہٰی کے حصول اور امور میں نظم کی پابندی کی تاکید کی اور کہا کہ ملت مظلوم پاکستان کو محرومیوں اور استحصال سے نجات دلانے کیلئے مجلس وحدت مسلمین کے کارکنان کی خودسازی بنیادی عنصرہے ، عوام سے مسلسل اور مضبوط رابطہ قومی مسائل کے حل اور تنظیمی ڈھانچے دونوں کی پائیداری کے لئے نا گزیر ہے ۔
وحدت نیوز (گلگت) سیکرٹری ہیلتھ کی من مانیوں کی وجہ سے آئی سی یو اپ گریڈیشن منصوبہ غیر ضروری تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو اس منصوبے پر مختص بجٹ لیپس ہونے کا امکان ہے جس سے علاقے کے غریب عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہوگا جبکہ اس وقت سہولیات نہ ہونے کی وجہ کئی مریض بے اجل موت کے شکار ہورہے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر مذکورہ منصوبے پر بلاتاخیر عمل درآمد کروائیں۔عرصہ دراز سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو نظر انداز کیا جارہا ہے،نہ تو جدید آلات کی تنصیب کی جارہی ہے اور نہ ہی ہسپتال کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے جبکہ یہ ہسپتال گلگت کا قدیم ترین ہسپتال ہے اور تمام اضلاع کے مریض اسی ہسپتال کو ریفرہوتے ہیں۔آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر کے ضروری آلات ناقابل استعمال ہوچکے ہیںباوجود اس کے ان ہی آلات سے گزارہ چلایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام تر صورت حال کے پیش نظر آئی سی یو کو اپ گریڈ کرنے کیلئے بجٹ مختص کیا گیا ہے لیکن سیکرٹری ہیلتھ کی من مانی سے یہ منصوبہ غیر ضروری تعطل کا شکار ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ من پسند ٹھیکیدار کے ذریعے غیر معیاری آلات کی خریداری ہوگی ۔تجربہ کار ڈاکٹرز کو کمیٹی سے فارغ کردیا گیا ہے جس سے شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں اور علاقے کے غریب عوام کو سخت تشویش لاحق ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکرٹری ہیلتھ کو من مانیوں کی کھلی چھوٹ دینی ہی ہے تو اسsے کسی اور ادارے کا سیکرٹری تعینات کیا جائے تاکہ غریب عوام کی قیمتی جانوں کا ضیاع کم از کم نہ ہو۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کی صوبائی کابینہ کا اہم اجلاس صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کی زیر صدارت کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے خصوصی طور پر شرکت کی،خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ہدف کی صداقت پر یقین اور انتھک جدوجہد راہ حق کے مسافروں کی علامت ہے، ملامت کرنے والوں کے الزامات اور ناروا تہمتوں سے بے خوف ہوکر دین خدا کے لئے جدوجہد کرنا اہل حق کی نشانی ہے۔ امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ اگر ساری دنیا میرے خلاف ہوکر میری ملامت کرے تو بھی میں راہ خدا کو ترک نہیں کروں گا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے وڈیروں نے سندہ میں مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ خیرپور انتظامیہ اور منظور وسان کی جانب سے تکفیری گروہ کی سرپرستی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ شیعہ دشمنی پر مبنی اپنے روئیے میں تبدیلی لائے، اور بانیان مجالس پر دبائو ڈال کر مجالس عزا رکوانے کا سلسلہ فوری بند کرے۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی کے رویئے کے باعث ملک بھر میں ملت شیعہ کے اندر شدید تشویش پائی جاتی ہے، پیپلز پارٹی نے اگر انتقامی کاروائیوں کا سد باب نہ کیا تو معاملات سنگین صورت اختیار کریں گے اور ہم انتقامی کاروائیوں اور تکفیری دھشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک کا آغاز کریں گے۔
اجلاس نے فیصلہ کیا کہ جلد ہی شیعہ سیاسی شخصیات کا مشاورت اجلاس بلایا جائے گا جبکہ سندہ میں تبلیغی شعبہ کو فعال کرنے کے لئے شعبہ تبلیغات کے زیراہتمام مبلغین کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ اجلاس میں ڈویژن سطح پر تربیتی ورکشاپ کے شیڈول کی بھی منظور دی گئی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام میں عقل اور تفکر عقلی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے یہاں تک کہ اسلام کے منابع میں سے ایک عقل کو قرار دیا گیا ہے۔عقل کی حجیت کی واضح دلیل یہی ہےکہ خود وجود خدا اور ضرورت دین عقلی تفکر اور عقلی استدلال پر موقوف ہیں ۔
قرآن کریم اور تفکر عقلی :
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر تفکر عقلی پر زور دیا گیا ہے جیساکہ ارشادہوتا ہے :بے شک زمین وآسمان کی خلقت اورروز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔جولوگ اٹھتے ،بیٹھتے اورلیٹتے ہوئےخدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں ،کہ خدایا تو نے یہ سب بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے۔تو ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔۱
قرآن کریم نظام خلقت کے بارے میں غوروفکر کرنے والےافراد کی تعریف کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرتاہےجو دنیا کےحقایق کی شناخت کے لئے اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے تا کہ خدا شناسی کے مرحلے تک پہنچ جائیں۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔۲
اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ہوتا ہے : اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قراردیتاہے جوعقل سے کام نہیں لیتےہیں۳۔ اس کےعلاوہ قرآن کریم دینی عقائدکے اثبات کے لئے برہان اور عقلی استدلال سے استفادہ کرتا ہے ۔جیسے توحید خداوند کے بارے میں فرماتا ہے ۔ا گر زمین وآسمان میں اللہ کےعلاوہ اور خدا ہوتے توزمین وآسمان دونوں برباد ہوجاتے ۔۴۔ اسی طرح قیامت کےاثبات پراس دلیل کا ذکر کرتا ہے۔کیاتمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نےتمہیں بیکار پیداکیا ہےاور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاؤگے؟ ۔۵۔ اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کے لاز م ہونے کے بارے میں استدلال کرتا ہے ۔اورکیا جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے ؟ آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔۶۔
ان کے علاوہ اوربھی بے شمار نمونے موجود ہیں۔قرآن کریم مشرکین اور کفار سے ان کے عقائد کے بارے میں دلیل طلب کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل لے آوٴ۔” اس کے بعد صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یہ اپنے ظن پرعمل کرتے ہیں اور اہل یقین نہیں ہیں ۔۷۔یہ صرف گمان کا اتباع کرتےہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۸۔قرآن کریم کی نظر میں مشرکین و کفار کی سوچ یہی تھی کہ وہ اپنے آباءواجداد کی روش پر چلتے تھے حالانکہ ان کی روش غیر عاقلانہ تھی۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :جب ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس روش کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ و دادا کو پایا ہے ۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بےعقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہےہوں؟۹۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال احسن کے ذریعے لوگوں کو توحید اور دین کی دعوت دینےپر مامور تھے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتاہے:آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین ہو۱۰۔ اس عقلی روش کے مختلف مراحل ہیں۔موعظہ حسنہ پہلامرحلہ ہے، جدال درمیانی مرحلہ ہے جبکہ حکمت آخری مرحلہ ہے۔
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی عقائدکےبیان میں ان تین طریقوں سے استفادہ فرمایا ہے جیسا کہ اس کے کچھ نمونے قرآن کریم ، احادیث اورتاریخ کی کتابوں میں مذکورہیں ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے ۔ الف:خداوند متعال کہاں ہے ؟ ب:خداوند متعال کا وجودکیسا ہے ؟آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا:
الف: خداوند متعال کے لئے خاص جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ محدود نہیں ہے لہذا وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
ب:خدا وند متعال کو کیفیت کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتاکیونکہ کیفیت خود مخلوق ہے اور ہم مخلوقات کے ذریعے اس کی صفات بیان نہیں کر سکتے ۔۱۱۔اسی طرح ایک اور یہودی عالم نے آپ ؐسے مختلف چیزوں کے بارےمیں سوال کیا تو آپ ؐنے تمام سوالوں کے جوابات دیے۔
پہلا سوال :آپ وجود خداوند متعال کو کس طرح ثابت کریں گے ؟آپ ؐنے فرمایا:اس کی نشانیوں اور آیات کے ذریعے۔
دوسراسوال:تمام انسانوں کو اسی نے خلق کیا ہے ۔پھر صرف بعض افراد کو رسالت کےلئے کیوںمنتخب کیا ہے ؟
آپ ؐنے فرمایا : کیونکہ یہ افراد دوسروں سے پہلے خداوند متعال کی ربوبیت پر ایمان لائے تھے ۔
تیسرا سوال:خداوند متعال کیوں اور کس لئے ظلم نہیں کرتا؟
حضور ؐنے فرمایا:کیونکہ وہ ظلم کی قباحت کو جانتا ہے اور ظلم سےبے نیاز ہے ۔{لعلمہ بقبحہ و استغنائہ عنہ}۱۲۔علمائے عدلیہ عدل الہی کو اسی دلیل کے سےثابت کرتےہیں چنانچہ محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں:{و علمہ و استغناوہ یدلان علی انتفاءالقبح عن افعالہ}۱۳علم خدا اور اس کی بے نیازی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے فعل قبیح سرزد نہیں ہوتا ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے یہاں مختلف فرقے موجود نہیں تھے۔صرف بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ کلامی و اعتقادی بحث و گفتگو ہوتی تھی لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں بہت سارے فرقے نیز مختلف فکری و کلامی مکاتب وجود میں آچکےتھے ۔ایک گروہ قرآن و حدیث کےظواہر پر عمل کرتاتھا اور ہر قسم کی عقلی بحث و گفتگو کو ممنوع سمجھتا تھا۔یہ اہل حدیث کا گروہ تھا۔دوسرا گروہ تمام معارف و احکام کو اپنی عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا۔یہ معتزلہ کا گروہ تھا ۔لیکن ائمہ اطہارعلیہم السلام درمیانی راستے کو منتخب کر کے لوگوں کو ہر قسم کے افراط و تفریط سے منع فرماتے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام خدا وند متعال کی شناخت میں عقل کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ و لم یحجبہا عن واجب معرفتہ}۱۴اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت سے مطلع نہیں کیا اور بقدرضرورت معرفت حاصل کرنے کی راہ میں پردے بھی حائل نہیں کیے ۔
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے نزدیک عقل اصول دین اور مبادی دین کی شناخت کےلئے کافی ہے لیکن احکام کی تفصیل جاننے کے لئے اسےوحی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے خدا نے دو چیزوں کے ذریعے انسانوں پرحجت تمام کیاہے ۔ان میں سے ایک عقل ہےاور دوسری وحی ۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان لله علی الناس حجتین:حجۃ ظاہرۃو حجۃ باطنۃ،اماالظاہرۃ ، فالرسل والانبیاءوالائمہ واماالباطنہ فالعقول}۱۵خدا نےلوگوں پرحجت کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک ظاہری حجت ہےاور دوسری باطنی حجت۔ظاہری حجت انبیاء ورسل اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں جبکہ باطنی حجت عقول ہیں ۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں عقل اور وحی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ ایک طرف سے انبیائےالہی وحی الہی کے ذریعے انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں تودوسری طرف سے انسانی عقل حجت الہی کی تائید کرتی ہے ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بعثت انبیاءکا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انبیاء انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں۔ اس کےبعد آپ ؑفرماتےہیں :{ولیثیروا لہم دفائن العقول}۱۶وہ عقل کے دفینوں کوابھارتے ہیں۔اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان الله تبارک وتعالی،اکمل للناس الحجج بالعقول}۱۷خداو ند متعال نے عقول کے ذریعے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا ہے۔
شیعہ علماءاور تفکر عقلی :
شیعہ علماء قرآن و سنت سے الہام لیتےہوئے معرفت دینی میں عقل کے لئے خاص مقام کے قائل ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف شیعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کی حمایت کرتے ہوئے عدل الہی کو اسی کے ذریعہ ثابت کرتےہیں تودوسری طرف سےفقہائےامامیہ احکام شرعیہ کے استنباط میں عقل کو قرآن و سنت کے برابر قراردیتے ہوئے قاعدہ تلازم کو ثابت کرتےہیں۔یعنی ان کے مطابق حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان تلازم ہے کیونکہ قرآن و سنت کو سمجھنے میں عقل وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے نیز قرائن عقلی مفسرین اور مجتہدین کے لئے {قرآن کی تفسیر اور احکام الہی کے استنباط میں}رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہناچاہیے کہ انسانوں کے لئے جوچیز وحی کی طرح حجت الہی شمار ہوتی ہے وہ مستقلات عقلیہ اور ملازمات عقلیہ ہیں نہ کہ وہ ظنون جو قیاس واستحسان پر مشتمل ہو ں۔اسی وجہ سے مکتب اہل بیت علیہم السلام اور فقہ امامیہ میں شرعی احکام کے استنباط میں عقل کو ایک محکم وپایدار راستےکی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ قیاس و استحسان {جوظن و گمان پر مشتمل ہوتےہیں}کی پیروی ان کے ہاں سخت ممنوع ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلا م نے ابان ابن تغلب سے مخاطب ہو کر فرمایا :{ان السنۃ لا تقاس ، الا تری ان المراۃتقضی صومہا و لا تقضی صلاتہا یا أبان ان السنۃ اذا قیست محق الدین}۱۸سنت {شریعت الہی}میں قیاس {تشبیہ وتمثیل}کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔{یہ حجت نہیں}اسی لئے ماہانہ عادت کی وجہ سےاگرعورت روزہ نہ رکھے اورنماز نہ پڑھے تو اس پر روزے کی قضا واجب ہے لیکن نماز کی قضا واجب نہیں{حالانکہ اسلام میں نماز کی اہمیت روزے سے زیادہ ہے۔ }اے ابان: سنت کوقیاس سے ثابت کیاجائے تو دین الہی برباد اور نابود
ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ عقل کا دین شناسی اور معرفت دینی میں بہت زیادہ کردار ہے ۔جن میں سےبعض یہ ہیں:
1۔ عقل دین کی بنیادی باتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے وجود خدا ، بعض صفات الہی اورضرورت دین وغیرہ ۔
2۔عقل، وحی کی طرح بعض احکام شرعیہ کا استنباط کرتی ہے اور استنباط احکام کا ایک منبع شمار ہوتی ہے ۔
3۔عقل قرآن و سنت کو سمجھانے میں چراغ کا کام کرتی ہے اور خود ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔
4۔عقل محدود پیمانے پرفلسفہ احکام دین کو بیان کرتی ہے لیکن عبادات میں عقل کا کردار بہت ہی کم ہے۔ معرفت علمی اورتفکر عقلی کے ذریعے فلسفہ یا حکمت احکام الہی کے بارے میں جوکچھ کہاجا سکتا ہےانہیں اکثر اوقات احکام الہی کی علت اصلی کے طور پر اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کسی موضوع کے حکم کو دوسرے مشابہ موضوعات کے لئے بھی قیاس کے ذریعے ثابت کرنابہت مشکل او ردشوار ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔آل عمران ،190 – 191۔
۲۔انفال ،22۔
۳۔یونس،100۔
۴۔انبیاء،22 ۔
۵۔مومنون،115۔
۶۔یونس،35۔
۷۔بقرۃ ،111 ۔
۸۔انعام ،ص 116۔
۹۔بقرۃ،170۔
۱۰۔نحل ،125 ۔
۱۱۔وحید صدوق ،ص310،فصل 44،حدیث 1۔
۱۲۔توحید صدوق ،ص397،باب 61۔
۱۳۔کشف المراد،تیسرا حصہ،تیسری فصل۔
۱۴۔نہج البلاغۃ،خطبہ 49۔
۱۵۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۶۔نہج البلاغہ،خطبہ ،1۔
۱۷۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۸۔وسائل الشیعۃ ،ج18،ص25۔
تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی