The Latest
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری سیاسیات کا اجلاس جامع مسجد الحسین نیو ملتان میں منعقد ہوا، اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی، صوبائی سیکرٹری سیاسیات جنوبی پنجاب مہر سخاوت علی، کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا علی انور جعفری، سابق مرکزی سیکرٹری تعلیم یافث نوید ہاشمی اور صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے شرکت کی۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے اضلاع بھکر سے ضلعی سیکرٹری جنرل سفیر حسین شہانی، اُمیدوار قومی اسمبلی احسان اللہ خان، ظہیر عباس، مظفرگڑھ سے علی رضا طوری، سید نعیم عباس کاظمی، علی پور سے سید اعجاز حسین زیدی، سید مجتہد حسین رضوی، بہاولپور سے سید اظہر عباس نقوی، رحیم یارخان سے سید علی رضا زیدی سمیت دیگر موجود تھے۔ اجلاس میں آئندہ الیکشن کے حوالے سے حکمت عملی طے کی گئی اور اپنے اپنے علاقے میں سیاسی عمل کو تیز کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین آئندہ الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی، مختلف جماعتیں ہمارے ساتھ الائنس بنانے کی خواہشمند ہیں تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، آئندہ الیکشن میں اپنی شناخت کے ساتھ یا الائنس کے ساتھ حصہ لینے کے حوالے سے شوری عالی فیصلہ کرے گی۔ اس موقع پر اسد عباس نقوی نے جنوبی پنجاب کے سیکرٹری سیاسیات کو اپنے اپنے اضلاع میں فعالیت کے حوالے سے ٹاسک بھی دیے۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے وفد کے ہمراہ ملتان میں برصغیر کے عظیم روحانی پیشوا حضرت شاہ شمس تبریز کے دربار پر حاضری دی، اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی، مرکزی سیکرٹری شماریات علی مہدی، صوبائی سیکرٹری جنرل جنوبی پنجاب علامہ اقتدار حسین نقوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، محمد اصغر تقی، سید وسیم عباس زیدی اور دیگر موجود تھے۔ علامہ احمد اقبال رضوی نے دربار پر فاتحہ خوانی کی اور مزار پر چادر بھی چڑھائی، بعدازاں سجادہ نشین مخدوم طارق عباس شمسی سے ملاقات کی اور دربار کے مسائل اور ولی خدا کی زندگی کے بارے میں گفتگو کی۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اولیاء اللہ کی زندگی امن، محبت، بھائی چارے اور ایثار پر مبنی ہوتی ہے، برصغیر پاک ہند میں اسلام کی ترویج میں اولیاء اللہ کا اہم کردار ہے، حکومتی سطح پر اولیائے کرام کی تعلیمات کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، درگاہوں پر حاضری دینے والے لوگوں کا دہشتگردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، حکومت درگاہوں کی حالت زار پر رحم کرے، سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ ساتھ تزئین و آرائش پر بھی خصوصی توجہ دے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔
-1علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے۔
-2آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں۔
-3آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے۔
-4علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں \پرندوں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے۔
-5روضۃ الصفاء میں ہے : خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں۔ علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن ، تفسیر قرآن ،علم السیرۃ ،علوم وفنون وادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اورسے ظاہرنہیں ہوئے۔
-6صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں : عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارکے راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔
-7علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے۔
8۔علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔
-9امام باقرعلیہ السلام نے تقریبا چار سال کی عمر میں کربلاکا خونین واقعہ دیکھا۔آپ اپنے جد امام حسین علیہ السلام کےپاس موجود تھے۔آپ کی شرافت اور بزرگی کو اس حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک نیک صحابی جابربن عبد اللہ انصاری سے فرمایا:اے جابر : تم زندہ رہوگے اور میرےفرزند محمد ابن علی ابن الحسین سے کہ جس کا نام توریت میں باقر ہے ،ملاقات کروگے ،ان سے ملاقات ہونے پر میرا سلام پہنچادینا۔جابر نے ایک طویل عمر پائی اور یوں وہ دن بھی آیا کہ امام باقرعلیہ السلام کے سامنے جابر کھڑا تھا۔جب معلوم ہوا کہ آپ امام باقر ہیں توجابر نے آپ کے قدموں کا بوسہ لیا اورکہا اے فرزند پیغمبر میں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام و درود قبول فرمائیں۔انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا تھا۔
آپ کا علم بھی دوسرے تمام ائمہ علیہم السلام کی طرح چشمہ وحی سے فیضان حاصل کرتا تھا۔جابر ابن عبد اللہ انصاری آپ کےپاس آتے اور آپ کے علم سے بہرہ مندہوتے اور بار بار عرض کرتے تھے کہ اے علوم کو شگافتہ کرنےوالے،میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بچپن ہی میں علم خدا سے مالا مال ہیں ۔آپ کا علمی مقام ایساتھا کہ جابر بن یزیدجعفی ان سے روایت کرتے وقت کہتے تھے،وصی اوصیا اور وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن حسین نے ایسا کہا ہے ۔حضرت امام باقر علیہ السلام نے علوم و دانش کے اتنے رموز و اسرار وضع کئے ہیں کہ سوائے دل کے اندھے کے اور کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔اسی وجہ سے آپ نے تمام علوم شگافتہ کرنے والے اور علم و دانش کا پرچم لہرانے والے کا لقب پایا۔آپ نے مدینہ میں علم کا ایک بڑا دانشگاہ بنایا تھا جس میں سینکڑوں درس لینےوالے افراد آپ کی خدمت میں پہنچ کر درس حاصل کیا کرتے تھے۔امام باقر علیہ السلام کے مکتب فکر میں مثالی اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائی تھی ان میں سے کچھ افراد یہ ہیں :
1۔ ابان بن تغلب: ابان نےتین اماموں کی خدمت میں حاضری دی ،چوتھے امام ،پانچویں امام اور چھٹے امام۔ابان کی فقہی منزلت کہ وجہ سے ہی امام باقر علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کےلئے فتوی دو تاکہ لوگ ہمارے شیعوں میں تمہاری طرح کے میرے دوست دار کو دیکھیں ۔
2۔زراۃ ابن اعین:امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں : ابو بصیر ،محمد ابن حکم ، زراۃ بن اعین اور بریدہ ابن معاویہ نہ ہوتے توآثار نبوت مٹ جاتے یہ لوگ حلال اور حرام کے امین ہیں ۔
3۔ کمیت اسدی: ایک انقلابی اوربامقصد شاعر تھے ۔دفاع اہل بیت کے سلسلے میں لوگوں کوایسی جھنجھوڑنے والی اور دشمنوں کواس طرح ذلیل کرنےوالی شاعری تھی کہ دربار خلافت کی طرف سےموت کی دھمکی دی گئی۔جب کمیت نے امام کی مدح میں چند اشعار پڑھ لئے تب
امام نے اسے اپنا لباس دے دیا۔
4۔ محمد ابن مسلم: امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے سچے دوستوں میںسےتھے۔آپ کوفہ کے رہنےوالے تھے لیکن امام کے علم بیکراں سے استفادہ کرنےکے لئےمدینہ تشریف لائے۔ایک دن ایک عورت محمدابن مسلم کے گھر آئی اور سوال کیا کہ میری بہو مر گئی ہے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ موجود ہے۔ہم کیا کریں؟ محمد نے کہا کہ امام باقرعلیہ السلام نےجو فرمایا ہے اس کے مطابق توپیٹ چاک کر کےبچہ کو نکال لینا چاہئے اور پھر مردہ کو دفن کر دینا چاہئے۔پھر محمد نے اس عورت سےپوچھاکہ میرا گھر تم کو کیسےملا؟ عورت بولی میں یہ مسئلہ ابو حنیفہ کےپاس لے گئی۔انہوں نے کہا محمد ابن مسلم کےپاس جاو اور اگر فتوی دیں تومجھے بھی بتادینا۔
امام باقر علیہ السلام کی رہبری کا ۱۹ سالہ زمانہ نہایت ہی دشوار حالات اور ناہموار راہوں میں گزرا۔اپنے آخری ایام میں امام نے اپنے بیٹےامام جعفر صادق علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان کے پیسوں میں سےایک حصہ ۸۰۰ درہم دس سال کی مدت تک عزاداری میں صرف کریں۔عزاداری کی جگہ میدان منی اور عزاداری کا زمانہ حج کا زمانہ قرار دیا گیا۔حج کا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا لوگوں اور دوستوں کی وعدہ گاہ ہے اگر کوئی پیغام ایسا ہو کہ جسے تمام عالم اسلام تک پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں اور امام نے بھی عزاداری کے لئے حج کے ایام اور اس جگہ کو معین کیا تاکہ ہر سال مجلس عزاء برپاہونےپر ہر آدمی یہ سوال کرنے پر مجبور ہو کہ آخر کس کے لئےیہ مجلسیں برپا ہوتی ہیں اور عالم اسلام کی بلند شخصیت محمد ابن علی ابن الحسین علیہ السلام کی موت آخر طبیعی نہ تھی ۔ان کو کس نے قتل کیا اور کیوں؟ آخر ان کا جرم کیا تھا،کیا ان کا وجود خلیفہ کے لئے خطرے کاباعث تھا؟دسیوں ابہام اور اس کے پیچھے اتنے ہی سوالات اور جستجو والی باتیں اور صاحبان عزاء اور صاحبان معرفت کی طرف سے جوابات کا ایک سیلاب۔
۷ ذی الحجہ ۱۱۴ ہجری کو ۵۷ سال کی عمر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ظالم و جابربادشاہ ہشام ابن عبد الملک نے آپ کو زہر دلوایا اور اس زہر کےاثر سے آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دنیائے علم و دانش ہمیشہ کے لئے سوگوار ہوگئی۔اس آفتاب علم و ہدایت کو بھی ظالموں نےباقی رہنےنہ دیا۔شہادت سےپہلے امام جعفرصادق علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: میں آج کی رات اس دنیا سےکوچ کر جاوٴں گاکیونکہ میں نے اپنےپدر بزرگوار کو خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے شربت پیش کر رہےتھے جسے میں نےپیا ہے وہ مجھے زندگی جاویداوراپنے دیدار کی بشارت دےرہے تھے۔ دوسرےدن اس آفتاب علم و دانش کے دریائے بیکران کوجنت البقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کےپہلو میں دفن کر دیا لیکن وقت کے ظالم و جابر حکومتوں نے اس قبر مطہر پر سائباں بھی گوارہ نہ کیا۔
دن کی دھوپ اوررات کی شبنم میں یہ قبر مطہر آج بھی مطلومیت کی مجسم تصویر ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵۔
۲۔جلاء العیون ص ۲۵۹۔
۳۔ مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱
۴۔اعلام الوری ص ۱۵۶۔
۵۔ مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۔
۶۔ کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷۔
۷۔صواعق محرقہ ص ۱۲۰
۸۔ وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰ ۔
۹۔ تذکرۃالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱۔
۱۰۔ تاریخ اسلام۔
تحریر۔۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی پولیٹیکل سیل کے کوآرڈینیٹر آصف رضا ایڈووکیٹ نے تنظیمی صورت حال اور آئندہ قومی انتخابات کی حکمت عملی ، ترجیحات کے تعین اور عوامی رابطہ مہم میں تیزی کیلئے کوئٹہ کا پانچ روزہ تنظیمی دورہ کیا ، اس دوران انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی، رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضا، ایم ڈبلیوایم کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی اور دیگر اراکین ڈویژن کابینہ سے خصوصی ملاقاتیں کیں ، جبکہ حلقہ پی بی ۱اور پی بی ۲کے عمائدین اور نوجوانوں سے ملاقات سمیت یونٹ رسول اللہﷺ، یونٹ حسین آباد، یونٹ اتحاد حسینی، یونٹ حیدری اور امام رضا ؑ یونٹ کےدورہ جات کیئے اور کارکنان اور عہدہداران سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں ایم ڈبلیوایم کی قومی سیاسی پالیسی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے سعودی قیادت میں تشکیل پانے والے امریکی واسرائیلی اتحادکی قیادت قبول کرنے کے حوالے سے اعتراضات اور خدشات پرمبنی کھلا خط جاری کردیاہے، ذرائع کے مطابق یہ خط ذرائع ابلاغ کے ساتھ جنرل (ر) راحیل شریف کو بھی بذریعہ ڈاک ارصال کردیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ اہم خط علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی جانب سے ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے کہ جب پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل (ر)نے امریکہ واسرائیل کی چھتری تلے تشکیل پانے والے 39ملکی سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کو قبول کرلیا ہے۔
علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے اپنےخط میں جنرل (ر) راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی شخصیت پوری پاکستانی قوم کے درمیان بلاتفریق قابل احترام ہے ، سعودی فوجی اتحاد جس کے قیام کا مقصد داعش کے خلاف اقدامات ہیں اس اتحاد میں داعش کو شکست دینی والی قوتوں کا شامل نہ کیا جانااس اتحاد کو متنازعہ بنا رہا ہے، پاکستا ن کے محب وطن عوام پہلے ہی ایک آمر کی افغان جہاد پالیسی کا خمیازہ بھگت رہے ایسے میں یہ ایک اور سنگین غلطی شمار ہو گی، یمن کے نہتے عوام گذشتہ دو سال سے سعودی جارحیت کا شکار ہیں جنہیں انسانی اور خواراک کے المیہ کا بھی سامناہے ہزاروں شہری سعودی بمباری کے نتیجے میں مارے جا جا چکےہیں ، پاکستان کو دو اسلامی ممالک کے درمیان گشیدگی کے خاتمے کیلئے فریق کے بجائے ثالت کا کردار اداکرنا چاہئے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہےسعودی، امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شمولیت پاکستان کے استحکام ، سلامتی اور خودمختاری کے خلاف انتہائی سنگین ہوگی، جس کے نتائج افغان جہاد میں پاکستان کی شمولیت کے بعد ملنے والی دہشت گردی، بدامنی، مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کے تحفوں کی طرح ہیں ہوں گے،انہوں نے جنرل راحیل شریف سے کہاکہ پاکستان کی سلامتی ، استحکام اور خودمختاری کی خاطر سعودی امریکی اور اسرائیلی اتحادکی سربراہی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں اورعوام کے دلوں میں اپنے لیئے موجزن محبت کا پاس رکھتے ہوئے کسی ایسے اقدام سے پرہیز کریں جو کہ آپ کی شاندار ماضی پر بد نما داغ بن جائے۔
خط کا مکمل متن درج ذیل ہے
محترم جناب جنرل (ر) راحیل شریف صاحب
السلام علیکم :
امید ہے آپ اور آپ کے اہل خانہ خیریت سے ہوں گے۔جناب عالی یہ مادر وطن جسے میں اور آپ پاکستان کہتے ہیں جس کی سر حدوں کے تحفظ کیلئے ہزاروں پاک فوج کے جوانوں نے اپنا خون دیا ہے،جس کی قدر و منزلت شاید آپ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ہے کیوںکہ آپ نے ہی تو ان جواں مردوں کی سالاری کا شرف حاصل کیا ہے،آپ ہی تو ہیں جنھوں نے ان ایثارو قربانی کی زندہ مثالوں کی دھڑکنوں کو محسوس کیا ہے۔اور آپ ہی ہیں جنھوں نے اس دھرتی کی منتخب شدہ ،چنیدہ بلکہ زمیں کے ان تاروں کی فدا کاریوں کو لمحہ با لمحہ بہت ہی قریب سے دیکھا ہے ۔پس آپ سب سے بہتر منصف ہیں اس پاک لہو کی قیمت کے۔یقینا یہ بہت قیمتی ہے اور حق تو یہ ہے کی سوائے مادر وطن پر نچھاور ہونے کے اس دنیا کی کوئی شے اس کا حق ادا نہ کر سکتی ہے۔
جنرل صاحب آج جس طرح دشمن اس نشیمن میں آگ لگانے کے درپے ہے ہمارے جوان اسی جذبے سے ان شعلوں کو اپنے لہو سے بجھا رہے ہیں پر کب تلک ہم ان فرزندان وطن سے لہو کا خراج مانگتے رہیں گے ،خاص طور پر جب آگ لگنے میں ہماری اپنی بھی غلطیاں ہوں۔کیا یہ جائز ہے کہ ایک طرف تو ہم انگاروں سے کھیلیں اور دوسری طرف جب شعلے بھڑک اٹھیں تو ان کو بجھانے کیلئے اپنے مستقبل اپنے فخر کا خون بہاتے رہیں ۔
سوویت یونین کے ساتھ جنگ افغانستان میں ایک مخصوص انداز میں شامل ہونے کی جو غلطی ہم نے کی تھی اسی جہنم سے نکلنے والے سانپوں نے جس طرح اس قوم و ملت پاکستان کو ڈسا ہے وہ تو اظہر من الشمس ہے اس پر طرہ یہ کہ یہ بھیانک باب ایک آمر کے دور حکومت میں شروع ہوا۔ملک کو کبھی فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا گیا تو کبھی منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کی کھائی میں۔ملک و قوم کی اذیتوں کا نہ ختم ہونے والا ایک ایسا باب ہے جو آپ کے سپہ سالار ی کی ذمہ داریوں کو سنبھالتے وقت ایک نہ ختم ہونے والی رات کا روپ دھار چکا تھا۔آپ نے جس وقت اس اہم ذمہ داری کو اپنے مضبوط شانوں پر اٹھایا تو اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد ہمارے دشمن نے ہمیں پشاور میں ایک ایسا تحفہ دیا جس کی تکلیف آج تک وطن کی ماؤں کے سینوں میں آگ لگائے ہوئے ہے۔
آپ نے ملک و قوم سے اس دن یہ عہد کیا تھا کہ بس اب ہم اس دشمن کا قلعہ قمع کیے بغیر چین سے نہ بیٹھیں گے۔قوم جو مایوسی کی دلدل میں جانے کو تھی آپ کے عزم کو دیکھ کر آپ کے ہمراہ ہو گئی۔قوم و ملت نے آپ کی آواز پر لبیک کہا۔فوجی جوانوں نے جوانیاں نچھاور کرنے کی قسم کھائی اور ملک عزیز پاکستان بہتری کی جانب چلا۔ملک و ملت کے ساتھ آپ کی استواری کو دیکھ کر قوم آپ کی دیوانی بنی۔ آئین پاکستان سے آپ کی وفاداری کو دیکھ کر قوم نے آپ کو مسیحا مانا ۔سابقہ آمروں سے جدا آپ کی پروفیشنل روش نے قوم کے سامنے آپ کو سرخرو کیا اور آپ کو قومی ہیرو مانا جانے لگا۔
محترم !آپ کیلئے دعائیں ماؤں کے لبوں سے نہیں دلوں سے نکلیں تھیں ،یہی وجہ ہے کہ آج جب آپ اپنی اور ملک و قوم کی زندگی کا نہایت اہم فیصلہ کر رہے ہیں، میں آپ سے مخاطب ہوں۔آپ نے ہمیشہ ثابت کیا کہ اس وطن عزیز کیلئے آپ سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہے توآج بھی میں آپ سے یہی امید رکھوں گا کہ آپ جب چونتیس ملکی جنگی اتحاد کی سربراہی کا فیصلہ کریں گے تو اس بات کو مد نظر ضرور رکھیں گے ۔
پاکستان مجموعہ ہے مختلف مسالک اور فرقہ ہا ئے اسلامی کا جن میں آپسی ہم آہنگی وطن عزیز کی بقا و سلامتی کیلئے بہر طور ضروری ہے۔ پس ہر ایسا عمل جو اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبو تاژ کرنے کا سبب بنے پاکستان کے خلاف ہے۔یہ جنگی اتحاد جس کی سربراہی کرنے کی آپ کو پیش کش کی گئی ہے خود اس کی ہیئت ترکیبی سے مسلکی و فرقہ وارانہ تعصب کی بُو آتی ہے ۔پاکستان جو ابھی تک دہشتگردی کے ناسور کے خلاف برسر پیکار ہے ،ایسی نازک صورت حال میں فرقہ واریت اور تعصب کی نئی لہر اس مادر وطن کی امن و آتشی کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گی۔اور دوسری طرف جنرل صاحب آپ نے ساری زندگی پروفیشنل فوجی کے طور پر گزاری ہے ۔ اس پاک فوج میں جس کا طرہ امتیاز ہی جہاد اور جذبہ شہادت ہے ۔آپ نے تو اپنی سپہ سالاری کے دور میں بھی اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں میں انہی جذبات کو مہمیز دی تھی مگر یہاں تو اس جنگی اتحاد کی کارروائیاں یمن کے غریب مسلمانوں کے خلاف ہیں ،جو کہ جنگ سے پہلے بھی اس خطے کی غریب ترین ریاست کے شہری تھے اور اب اس دو سالہ جنگ نے اس برادر اسلامی ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے۔اس لاحاصل جنگ میں اقوام متحدہ کے مطابق انچاس ہزا چھ سو (49600) افراد جاں بحق زخمی ہوئے ہیں ملک کی انہتر فیصد (69%) آبادی کو امداد کی ضرورت ہے جبکہ دس اعشاریہ تین فیصد (10.3%)آبادی کو تو فوری جان بچانے والی امدادکی ضرورت ہے ۔یمن کے غریب اور نہتے مسلمان عالمی اداروں کے مطابق بوجو ہ اس جنگ کے تقریبا قحط کی سی صورت حال میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔کیا بہادر پاکستانی افواج کا ہیرو ان غریب اور نہتے مسلمانو ں سے جہاد کرے گا ۔میرے خیال میں تو آپ کی شخصیت اس بات سے بہت بڑی ہے کہ آپ ان مسلمانوں کے قتل عام میں شامل ہوں ۔
ہمیں اپنی مادر وطن کی عزت و وقار اور خوش حالی کی خاطر ان نکات پر ضرور غور کرنا ہو گا کہ افغان جنگ کی وجہ سے جو فرقہ واریت اس ملک میں وارد ہوئی تھی کیا اس چونتیس ملکی جنگی اتحاد میں جانے سے اس کو دوام نہیں ملے گا ؟ کیا آپ کی شخصیت جو سب کے نزدیک محترم ومعتبر ہے اس پر حرف نہ آئے گا؟ کیا ہر مسلک و مکتب سے تعلق رکھنے والا جو آپ کا گرویدہ ہے اس سے مایوس نہ ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کیا یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کے حق میں ہے کہ وہ پرائے جھگڑے میں فریق بن جائے۔مجھے آپ جیسے صاحب فراست شخص سے یہ امید ہے کہ آپ ذاتی منفعت کو پس پشت ڈال کر اس مادر وطن کی خاطر اس فوجی اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کریں گے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کے مفادات کو اول رکھیں گے۔
والسلام!
راجہ ناصر عباس جعفری
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان
وحدت نیوز (آرٹیکل) 23مارچ کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں واقع ’’منٹو پارک‘‘ موجودہ ’’اقبال پارک‘‘ میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور 23 مارچ ہی کے دن 1956 ء میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا. 23 مارچ کی تاریخی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سال 23 مارچ کو سرکاری طور پر یوم پاکستان منانے کا اعلان کیا گیا، اس تاریخی دن کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں. 23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظمؒ کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونکی, جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا اور بالآخر 14 آگست 1947 کو وطن عزیز پاکستان وجود میں آیا۔
اس سال 23 مارچ یوم پاکستان ایک دفعہ پھر قومی جوش و جذبے سے منایا گیا جس میں بری، بحری اور فضائی افواج نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور وطن عزیز کے دشمنوں کو بتا دیا کہ پاکستانی فوج جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ 23 مارچ کے حوالے سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ "آج پھر عہد کریں کی فسادیوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے"۔
یقیناً اس عظیم موقع پر تمام پاکستانیوں کو اپنے آباء و اجداد کے عظم، نظم، جرات اور بہادری کو یاد کرتے ہوئے ملک کو فسادیوں، دہشت گردوں، دہشت گردوں کے سہولت کاروں، کرپٹ لوگوں اور غداروں سے پاک کرنے کے لئے پھر سے عہد کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ہر قسم کے ناپاک لوگوں سے پاک کیا جاسکے۔ پہلے تو ہندو مسلمان کا مسئلہ تھا، آج مسلمان اور منافقین کا مسئلہ ہے، محب وطن اور غداروں کا مسئلہ ہے، ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے، آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان تھا۔ قائد اعظم، علامہ اقبال اور دیگر رہنماؤں نے پاکستان اس لیے تو نہیں بنایا تھا کہ ہم مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوں, پاکستان بنانے کا اصل مقصد سادہ الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد پر آزادانہ طریقے سے عمل کر سکیں مگر افسوس کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں آج اسلام محفوظ نہیں ہے, اقلیتوں کی بات تو دور نہ تو کوئی مسجد محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی امام بارگاہ.۔
لہذا اب یوم پاکستان کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کو اور خصوصاً پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک میں غداروں، لٹیروں اور امن و سلامتی کے دشمنوں کو سر چھپانے کی بھی کوئی جگہ نہیں دیں گے۔ ہمیں آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانا ہوگا اور فساد کی جڑوں کو کاٹنا ہوگا، ہمیں اس ملک میں بسنے والے ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو, ہمیں تمام مذاہب و فرقوں کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، ہمیں خاکروب کی اسامیوں سے مذہب کی قید کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ ایک اسلامی معاشرے کو کسی صورت یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مذاہب کی تذلیل کریں. ہمیں ضرب عضب، ردالفساد اور نیشنل ایکشن پلان کے زریعے قائد کے اس قول کو عملی جامہ پہنانا ہوگا کہ "آپ آزاد ہیں، آپ کو اس ملک پاکستان میں آزادی ہے۔ آپ مسجد میں جائیں, مندر، چرچ یا اور کسی جگہ اپنی عبادت کے لئے جائیں ہماری ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کس ذات اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم سب اس ملک میں برابر کے شہری ہیں."
ہمیں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو پھر سے بحال کرنا ہوگا، ہمیں روشنیوں کے شہر کراچی کو پھر سے روشن کرنا ہوگا، ہمیں لعل شہباز قلندر کے مزار پر پھر سے دھمال ڈالنا ہوگا، ہمیں لاہور سمیت پنجاب بھر سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے زندہ دل لاہور کی رگوں میں محبت و اخوت کے خون کو دوڑانا ہوگا، ہمیں نو گو ایریاز کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں کسی کے فریق بننے کے بجائے ثالث کا کردار نبھانا ہوگا، ہمیں غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ہوگا. اس وقت ہم میں سے ہر ایک فرد ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا مقروض ہے, ہمیں پاکستان کو بچانا ہے تو پاناما اور سوئیس اکاونٹز سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا ہوگا اور عالمی بینک کے قرضوں کو چکانا ہوگا. مگر اس سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا کرنا ہوگا، ہمیں ہر اچھے کام کرنے اور برے کام سے روکنے کا عہد کرنا ہوگا، ہمیں صرف قائد اعظم کے ان دو مندرجہ زیل فرامین پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہوگا:-
1- "ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئیے۔" (15 جون، 1948)۔
2- "انصاف اور مساوات میرے رہنماء اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔" (قانون ساز اسمبلی 11 اگست ، 1947)۔
اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی مصلحتوں اور آپس کی رنجیشوں کو بھلا کر پھر سے متحد ہو جائیں. آج 71 سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظم اور دیگر قومی رہنمائوں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا اور دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا، ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں مملکت خدادا ,پاکستان, کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شاہین بننا ہوگا۔ خدا تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو۔ آمین.
تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے تحت شدید گرمی اور ہیٹ اسٹروک کے خطرے کے پیش نظر کراچی سمیت سندھ بھر میں شہریوں کی سہولت کیلئے سبیل شہدائے کربلا لگائی جائیں گی، اس کے ساتھ ساتھ ہیٹ اسٹروک سے بچاو کی آگاہی مہم بھی چلائے جائے گی، یہ اعلان انہوں نے صوبائی وحدت آفس میں کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں شدید گرمی اور ہیٹ اسٹروک سے بچاو کیلئے صوبائی حکومت نے ابتک کسی بھی قسم کے عملی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں، ہیٹ اسٹروک کے خطرے سے عملاً لاتعلقی کااظہار سندھ حکومت کی بے حسی کا کھلا مظہر ہے، گزشتہ برسوں کے دوران بھی کراچی سمیت سندھ بھر میں ہیٹ اسٹروک کے باعث سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں تھیں اور گھر گھر کہرام مچ گیا تھا اور اس سال بھی کراچی میں شدید گرمی پڑنے اور ہیٹ اسٹروک کی پیشنگوئیاں کی جارہی ہیں، لیکن اس کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے ابتک کسی بھی قسم کے عملی اقدامات نہیں کئے گئے جو قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے ہر سطح پر مثبت اقدامات کرے اور صوبائی سطح پر ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی آگاہی مہم فی الفور شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو کراچی سمیت صوبے کی عوام کا احساس ہے تو وہ کے الیکٹرک و دیگر بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو گرمیوں میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا پابند کرے ، اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک وارڈ قائم کرے ، وہاں ادویات کی فراہمی یقینی بنائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ علامہ مقسود ڈومکی نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے مطالبہ کیا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں ہیٹ اسٹروک سے انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے فی الفور ہرسطح پر ٹھوس اور عملی اقدامات کئے جائیں اور تمام متعلقہ اداروں کو فعال اور متحرک کیاجائے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سید علی احمر زیدی نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔انہوں نے کہا حکمرانوں کی طرف سے عوام کو بدامنی، مہنگائی، عدم تحفظ،لوڈشیدنگ اور لاقانونیت جیسے تحفے دیے جا رہے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔ بھاری مینڈینٹ حاصل کرنے والی حکومت اپنی عوام کو ’’قابل قدر‘‘ صلہ دے رہی ہے۔ قیمتوں پر نظر رکھنے والے اداروں اور ضلعی حکومتوں کی موجودگی میں عام گھریلو اشیا کی من مانی قیمتیں وصول کیا جانا اداروں کی عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ملک کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہیں۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سفید پوش طبقے کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا جو تاجر مصنوعی قلت پیدا کر کے سبزیوں، چکن اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں کو بڑھا کر فائدہ حاصل کر رہے ہیں ان کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔انہوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں معمول پر لانے کے لیے مارکیٹوں کا دورہ کیا جائے اور ناجائز منافع خوروں کو موقع پر جرمانے کیے جائیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹر ی جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دفترخارجہ کی طرف سے پاکستان میں داعش کی موجودگی تسلیم کرنے سے انکار پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی دہشت گرد تنظیم کے حوالے سے حکومتی موقف اور اداروں کی رپورٹس میں واضح تضاد موجود ہے۔ملک کے مختلف حصوں میں مخصوص عناصر داعش کے نظریات کے پرچار میں مصروف ہیں۔دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کیا جانا ان ملک دشمن عناصر کی موجودگی کا ثبوت ہے۔دہشت گردی کا خاتمہ عوام کی اولین خواہش ہے حکومت اسے اولین ترجیح قرار دے۔حکومت کو چاہیے کہ عوام کو دھوکے میں رکھنے کی بجائے حقیقت سے آگاہ کرے۔اس وقت وطن عزیز کو لاتعداد داخلی و خارجی مسائل کا سامنا ہے۔پاک اکنامک کوریڈور کی بدولت ہم خطے کی مضبوط ترین قوت بننے جا رہے ہیں۔ہمارا معاشی استحکام دشمن کے ارادوں کی موت ثابت ہو گا۔پاکستان کو مختلف مسائل میں الجھانے کی کوشش کی جار ہی ہے تاکہ ترقی کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں میں نظریات کی بنا پر فکری اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن قومی ترقی اور دہشت گردی کے خاتمے جیسے امور پر پوری قوم ایک پیج پر کھڑی ہے۔جو جماعتیں سی پیک یا دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی مخالف ہیں وہ ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ان کا مقصدوطن عزیز کو غیر مستحکم اور عدم تحفظ کا شکار بنانا ہے۔آپریشن ردالفساد کے تحت ہر اس شخص ،گروہ اور جماعت پر گرفت مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو قومی مفاد کے منافی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکمرانوں کی غیر ضروری لچک نے ان عناصر کے حوصلے بلند کیے ہیں۔قومی امن وسلامتی ان مذموم عناصر کی بیخ کنی سے مشروط ہے۔
وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیرکی جانب سے پی پی آزاد کشمیر کے نو منتخب صدرچوہدری لطیف اکبر صاحب، سینئر نائب صدرچوہدری پرویز اشرف، جنرل سیکرٹری فیصل راٹھور، سیکرٹری اطلاعات سردار جاوید ایوب، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات شاہین کوثرڈار ، صدرپیپلز یوتھ آرگنائزیشن ضیاء القمراور چیئر پرسن شعبہ خواتین آزاد کشمیر فرزانہ یعقوب کو دل کی اتھا گہرایوںسے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی نئی کابینہ سازی نیک شگون ہے۔نو منتحب صدر چوہدری لطیف اکبر صاحب کی پیپلز پارٹی کیلئے لازوال خدمات ہیںجو کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں اور پر امید ہیں کہ وہ آئندہ بھی ریاست کے غیور عوام کی خدمت بھرپور انداز سے کرتے رہیں گئے۔ان خیالات کا اظہار سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر سید محسن رضا نے ریاستی دفتر سے جاری بیان میں کیا انہوں نے کہا ہم چوہدری لطیف اکبر کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ وہ ریاستی مسائل کے بھرپور آواز بلند کریں گے، ریاست کے مسائل سے واقف ہیں ، بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔