The Latest

وحدت نیوز (خیرپور) مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام عظمت علی و فاطمہ زھرؑ ا کانفرنس کاکنب کرکٹ اسٹیڈیم میں انعقاد کیا گیا جس میں ملت تشیع کی مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت شہدا کے لواحقین،مقتدرشخصیات اور بڑی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی،کانفرنس سے قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ٹیلی فونک خطاب کیا، جبکہ مجلس وحدت مسلمین کی شورائے عالی کے معزز رکن بزرگ عالم دین علامہ حیدر علی جوادی،سندہ کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی ، مرکزی ترجمان علامہ مختار احمد امامی ،صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا نشان حیدر ساجدی، مولانا محمد نقی حیدری ، مولانا سید ثمر نقوی، علامہ احمد علی طاہری، مولانا سجاد محسنی و برادر آفتاب میرانی ودیگر نے خطاب کیا۔

 کانفرنس سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ شہدا کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ملک سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ہم چین سے نہیں بیٹھں گے۔ شدت پسندی کے خلاف تمام معتدل جماعتوں سے مل کر جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ کالعدم جماعتوں اور انتہا پسندوں سے حکومتی شخصیات کے دوستانہ روابط افسوسناک اور شہدا کے خون سے غداری ہے پوری قوم اس منافقانہ طرز عمل پر سراپا احتجاج ہے۔ وطن عزیز میں قومی سطح پر دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان ملت تشیع کو اٹھانا پڑا۔ہمارے بہترین پروفیشنلز،ڈاکٹرز،وکلا، پروفیسرزاور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو دن دیہاڑے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد بھی ہمیں انصاف فراہم نہ ہو سکا ۔شیعہ کلنگ میں ملوث دہشت گردوں کے ساتھ لچک کا یہ مظاہرہ ملک میں رائج انصاف کے دوہرے معیار پر دلالت کرتا ہے۔ہمارے بے گناہ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ تک عقوبت خانوں میں جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔انہیں نہ عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی تحقیقاتی ادارے ہمارے لاپتہ افراد کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔حکومت کے یہ انتقامی حربے قانون و انصاف کا قتل اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔اعلی عدلیہ ان واقعات کا فوری نوٹس لے تا کہ عوام کو تحفظ اور سکون میسر ہو۔
انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ہمارے لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب نہ کیا گیا تو پھرہم احتجاج پر مجبور ہوں گے۔انہوں نے کہا لاپتا افراد کے معاملے پر دیگر جماعتوں کی مشاورت سے پارلیمنٹ کے باہر بھرپور احتجاج بھی کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک میں امریکہ کی مداخلت امت مسلمہ کی تنزلی کا بنیادی سبب ہے۔اسلامی ریاستیں امریکی ڈالر کے استعمال پر پابندی لگا کر ٹرمپ کی ساری رعونت کو خاک میں ملا سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام کے لبادے میں چھپ کر یہو د و نصاری کے مفادات کے لیے سرگرم نام نہاد مسلم حکمرانوں کو آشکار کرنے کا وقت اب آگیا ہے۔داعش،النصرہ، طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا تعلق اسلام سے نہیں صیہونیت سے ہے۔روشن اسلامی تشخص کو داغدار کرنے کے لیے ان اسلام دشمن قوتوں کو متحرک کیا گیا ۔شام اور عراق میں ان دہشت گرد عناصر کی پسپائی پر عالمی طاقتوں کا واویلا تعلقات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔یہود و ہنود کے آلہ کار یہ تکفیری گروہوں ہر اسلامی ریاست کے لیے خطرہ ہیں۔ان کی بیخ کنی ہی عالمی امن کی ضمانت ہے۔

مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے کہاکہ شیعہ سنی اتحاد ملک دشمن عناصر کے عزائم کی موت ثابت ہو گا۔اس اتحاد کی تکمیل کے لیے ہر سطح پر بھرپور کوششیں کی جانی چاہیے۔جو عناصرشیعہ سنی اخوت و اتحاد میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں وہ ملک و قوم کے دشمن ہیں۔حلب میں داعش کی شکست کا نوحہ پڑھنے والے نام نہاد مذہبی رہنما اب موصل میں دہشت گردوں کی شکست پر آہ و بقا کرنے کے لیے تیار رہیں۔شام سے بھاگنے والے دہشت گردوں نے اپنا رُخ پاکستان کی طرف موڑ لیا ہے۔انہیں پاکستان میں داخل ہونے دینا ملکی سلامتی کوسنگین خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔یزیدی فکر کے ان پیروکاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کو غدار وطن سمجھا جائے گا۔

علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ ملت تشیع ملک کے قانون و آئین کی محافظ ہے ۔ملکی سالمیت و استحکام کے لیے ہم نے ہمیشہ ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔حکمران ہمیں دیوار سے لگانے کا خیال دل سے نکال دیں۔ہم اپنے حقوق کا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں، سانحہ سہون شریف کے مجرموں کو بے نقاب کیا گیا اور نہ ہی متاثرین کی مدد کی گئی۔ حکمرانوں کا منافقانہ رویہ اور دھشت گردوں سے ہمدردی ، دھشت گردی کے خاتمہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ زائرین کے خلاف نواز حکومت کی پالیسی قابل مذمت ہے، اپنے ہی ملک میں این اوسی طلب کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، زائرین کے مسائل کے لئے بھرپور آواز اٹھائیں گے۔علامہ نقی حیدری نے کہا کہ شیعہ قوم ملک کی سالمیت و بقا کی ضامن ہے۔ہم ملک دشمن عناصرکی سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے رہنماء علامہ سید مبشر حسن نے کہا ہے کہ مخصوص اسلامی ممالک کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے نتائج افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے سے زیادہ بدترین ثابت ہونگے، حکمرانوں نے ہمیشہ ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بھینٹ چڑھایا ہے، آج ایکبار پھر پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفادات کے خلاف 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد میں شمولیت کا حکومتی فیصلے سے پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا، جس سے نکلنا شاید ممکن نہ ہو، ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہید حسینی ہاؤس جعفرطیار سوسائٹی ملیر میں ایم ڈبلیو ایم ملیر کی ضلعی تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مبشر حسن نے کہا کہ مشرقی وسطیٰ میں امریکا و اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں، امریکی اسرائیلی بلاک کو اسلامی مقاومتی بلاک کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو چکا ہے، اس لئے وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ مسلمانوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے لینا چاہتا ہے، مخصوص ممالک کا فوجی اتحاد امریکی ایما پر بنایا گیا ہے، جو عالم اسلام کی وحدت کے خلاف امریکی سازش کا تسلسل ہے، لہٰذا پاکستان کو کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیئے، جو عالم اسلام کی تقسیم اور مسلم امہ میں انتشار کا سبب بنے۔

علامہ مبشر حسن نے کہا کہ پاکستانی قوم آج تک امریکا کی افغان وار کے قرض اتار رہی ہے، افغانستان میں امریکی جنگ کا حصہ بننے کے باعث پاکستان کے 80 ہزار عوام کی قربانیوں کے باوجود ابھی تک ہم امریکا نواز ناسور دہشتگردوں سے جان نہیں چھڑوا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین عالمی حساس صورتحال کے پیش نظر اور عالم اسلام کی تقسیم پر مبنی امریکی اسرائیلی سازشوں سے ہوشیار رہتے ہوئے ملک و قوم کو مشرق وسطیٰ کی دلدل میں دھکیلنے والوں کا راستہ روکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ارباب اختیار کو چاہیئے کہ ملکی عظیم تر مفاد میں ملکی داخلہ و خارجہ معاملات میں امریکی مداخلت کا فی الفور نوٹس لیں، اس سے پہلے کہ پاکستان خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل پر مبنی پالسیوں کا شکار ہو جائے، ارباب اختیار کو خارجہ پالیسی کو امریکی مداخلت سے پاک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی ہیں اور بانیان پاکستان کے اولادوں میں سے ہیں، ہمیں پاکستان کی سلامتی و استحکام سب سے زیادہ عزیز ہے، ملکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی جان مال کی قربانی دی ہے، اور ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ انشااللہ وقت آنے پر اس ملک کی بقا و سلامتی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، پاکستان کو امریکی سازشوں کا تر نوالہ نہیں بننے دینگے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی  مجلس وحدت مسلمین کے رکن شوریٰ عالی ، معروف عالم دین علامہ محمد امین شہیدی سے ملاقات، علمائے شیعہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت، تفصیلات کے مطابق ۱۶اپریل کو جامعہ امام صادق ؑ اسلام آباد میں منعقدہ علمائے شیعہ کانفرنس کے دعوتی عمل کے سلسلے میں علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور سید ناصرشیرازی نے علامہ امین شہیدی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں علمائے شیعہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی علامہ راجہ ناصرعباس اور علامہ امین شہیدی کے درمیان اہم قومی وملی امور سمیت ملکی وبین الاقوامی سیاسی صورت حال پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی، علامہ راجہ ناصرعباس نے علامہ امین شہیدی سے کہا کہ وہ بذات خود علمائےشیعہ کانفرنس میں لازمی شرکت کریں اور اپنے  رابطے میں موجود تمام علمائے کرام کو ملک گیر علمائے شیعہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیں جس پر علامہ امین شہیدی نے کہا کہ انشاءاللہ تعالیٰ وہ  تمام علمائے کرام کوعلمائے شیعہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دیں گے  اور آپ (قائد وحدت )کے حکم پر اپنی ذمہ داری بھر پور طریقے سے ادا کریں گے۔

وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت ڈویژن کے بزرگ رہنماعلامہ شیخ محمد بلال سمائری کو انسداددہشت گردی عدالت سے ضمانت پر رہا کردیا گیا،علامہ شیخ بلال سمائری کی سینٹرل جیل گلگت سے رہائی کے موقع پر شاندار استقبال کیا گیا، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رکن گلگت بلتستان اسمبلی ڈاکٹر حاجی رضوان علی، صوبائی رہنما ڈاکٹر علی گوہر ، غلام عباس اور دیگر نے پھولوں کے ہار پہناکر ان کا استقبال کیا،  تفصیلات کے مطابق دو برس قبل یمنی مسلمانوں پر آل سعود کے وحشیانہ مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے کے جرم میں بدنیتی پر مبنی درج ایف آئی آرکے نتیجے میں پہلے ایم ڈبلیوایم کے رہنما عارف قنبری ، غلام عباس، مطہر عباس اور آئی آیس اوکے ڈویژنل صدر کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اسی مقدمے میں نامزد علامہ بلال سمائری کی گرفتار تین روز قبل عمل میں آئی تھی واضح رہے کہ علامہ بلال سمائری اس بے بنیاد مقدمے میں نامزد ایم ڈبلیوایم کے آخری رہنما تھا جن کی گرفتاری کے بعد ضمانت عمل میں آئی ہے ۔

وحدت نیوز(دمشق) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے حوزۃ علمیہ السیدۃ زینب (ع) کے فاضل مدرس اور حوزۃ امام باقر علیہ السلام کے مدیر داخلی جناب علامہ حافظ شیخ وحید حسین صادقی کو ایم ڈبلیو ایم شعبہ دمشق کا سیکریٹری جنرل  نامزد کر دیا. حافظ وقاری قرآن مجید جناب شیخ وحید حسین کا تعلق ضلع سیالکوٹ سے ہے اور گذشتہ تیس سال سے زیادہ عرصہ سے وہ شام میں مقیم ہیں اور وہاں پر تبلیغ اور تدریس کی مصروفیات کے ساتھ وہ دفتر آیۃ اللہ العظمی مرزا شیخ جواد تبریزی طاب ثراہ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں،جب رہبر معظم کے حکم پر مختلف شخصیات اور تنظیموں کے ما بین اختلافات کو دور کرنے کے لئے پاکستان میں شوری وحدت اسلامی تشکیل پائی تھی موصوف نمائندہ شوری وحدت اسلامی دمشق کے معاون اول تھے،انکا شمار حوزہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے فاضل پاکستانی علماء میں ہوتا ہے۔

تنگ نظری

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروںکی کمیوں پرنظررکھتاہے،اسے اپناعیب نظرنہیںآتا۔ہمارے مسلم معاشرے میں یہ مرض کچھ زیادہ ہی سرایت کرگیاہے اس لیے ہم دوسروں کے ردعمل پرچیخ پڑتے ہیںاوراحتجاج اورمظاہرے کرکے پورے دنیاکویہ بتادیتے ہیں کہ مسلمان واقعی بڑابے صبرا،کمزوراوربے شعورہے ۔دینِ اسلام کو پھیلانے کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں حضرت اما م حسین علیہ اسلام نے اپنا سر سجدے میں قلم کروا کر جس دینِ اسلام کی شان کو بچایا کیا لاج رکھی ہے جا رہی ہے آج اس اسلام کی میں یہ کہنا چاہوں گا آج کے مسلمانوں کو کہیں فرقوں میں بٹے ہو کہیں ذاتوں کا رونا ہے باعثِ شرم میرے لیے تمہارا مسلمان ہونا ہے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے انسان ہو کر انسانیت کا کوئی خیال نہیں ہے اور مسلمان ہو کر مسلمان ہونے کا خیال نہیں ہے کیا بدلاو لاو گے تم دھرنا دے کر ؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہو ؟ آزادی ؟مجھے ان مسلمانوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں مجھے تو ان مسلمانوں سے شکوہ ہے جو آزاد ہو کر بھی غلام ہیں میرا ایک سوال ہے آج کے مسلمانوں سے ؟ہم زندہ قوم ہیں باہندہ قوم ہیں کیا یہ ترانہ سننے کا حق ہے تمہیں ؟ کیا تم زندہ باہندہ قوم ہو؟جاگو مسلمانو جاگو جاگنے کا مطلب نیند سے جاگنا نہیں ہے اپنے ایمان کو جگاو اپنے اسلام کو جگاو اپنے دلوں میں قرآن کو جگاو ایک سچا مسلمان بن کر دکھاو پھر دھرنا دو کے ہمیں اسلام کے قوانین کے تحت نیک اور ایماندار حکمران چاہیے پھر دیکھو بدلتی ہے کے نہیں اس ملک کی تقدیر بدلتے ہیں کے نہیں تمہارے حالات چپ چاپ تماشہ دیکھنے والوں میں سے رہو گے تو ایک دن تم بھی تماشہ بن کے رہ جاو گے دشمنوں کو کہاں ڈھونڈتے ہو سر حد پار ؟دشمن تو تم خود ہو اپنے آج مسلمان ہی مسلمان کا قاتل ہے یہ تمہارے اعمال کی سیاست ہے جو حکمران تمہارے ساتھ کر رہے ہیںاگر یعی حال رہا مسلمانو تو یاد رکھنا تم جلد ہی اپنے وجود کو مٹا دو گے بدلاو لانا ہے تو پہل اپنے آپ سے کرو پہلے خود کو بدلو پھر دوسروں میں بدلاو لانے کی کوشش کرو ، لیکن آزادی خواب ہے اس بہن کی جس کے بھائیوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ یہ خواب ہے اس باپ کا، جس کے بڑھاپے کے سہارے کو کِر پانوں نے چیر ڈالا۔ یہ خواب ہے اس ماں کا، جس کی مامتا کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ یہ خواب ہے یہ خواب ایک سچے مسلمان بیٹے عتیق اسلم کا بھی ہے کہ فلسطین،شام ،کشمیر،انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو آزادی ملنی چاہیے یہ خواب ہے اس بچے کا ،جس کی غلیل نے انگریزی جہازوں پر شستیں باندھی تھیں۔ یہ خواب ہے اس بچی کا، جو گڑیوں کی شادی میں انگریزی ٹائی والے گڈے نکا ل باہر کرتی ہے۔ یہ خواب ہے اس بخت نامہ کا جو آخری ہچکی سے پہلے اپنے لہو سے آزادی کا لفظ مکمل کر تی ہے۔کہ آج نام نہاد ترقی یافتہ، مذہب کو بنیاد پرستی کے نعروں میں گم کرنے والے خود صلاح الدین کی قبر کو ٹھو کر یں مار مار کر غیرتِ مسلمان کو للکارتے ہیں، اور مسلمان کرے تو کیا کرے، ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان کی وسعتوں سے ابابیلوں کا منتظر ہے۔تو کوئی طوفاں ہی آیا کر تا ہے کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو یہ تلقین کر تا ہے۔

 امریکہ جو بڑے بڑے دعوئے حقوق انسانیت پر کرتا ہے آج شام میں وہ جو کر رہا ہے پوری دنیا کو معوم ہے تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں سرزمین فلسطین ،شام ،کشمیر پر ظالم اور سفاک یہودیوں ،کافروںکا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جوروز ازل سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کا عکاسی کرتا ہے۔سرزمین فلسطین پر یہودی آبادیاں تعمیر کر کے جس طرح فلسطین کے مقامی باشندوں اور یہودی مہاجرین کے توازن کو بگاڑا گیا اس نے عربوں میں پھوٹ ڈال کر نہ صرف ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا بلکہ نئے معاشی واقتصادی حربوں کے ذریعے انہیں ایسا قلاش اور مفلوک الحال بنا دیاکہ اپنی اراضی یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔اور اس طرح ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی کاری ضرب لگی اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اگر مسلمان اسی وقت ایک ہو جاتے اوریہ تہیہ کر لیتے کہ ان مٹھی بھر یہودیوں کا سر کچلنا ہے تو آج یقینا حالات مختلف ہوتے۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے اور متحد ہونے کے بجائے باہم دست و گریبان رہے۔ یہ جوبھی دینا میں ہو رہا ہے ایک تنگ نظریہ ہے جو انسان کو انسا ن سے لڑوا رہا ہے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا اس سے ذیادہ امریکہ شام میں کر رہا ہے ۔

جہاں تک فلسطین ،شام کے معاملے میں پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستان دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کا شرف حاصل ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بغیر کسی خوف و خطر اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہوئے امت مسلمہ کا یکجا کرنا ہوگا۔ بلکہ اس کی قیادت کرنا ہو گی اوریقینا ہمیں عالمِ اسلام کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کا بھرم رکھنا ہو گا۔

 

 

تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم رانا

وحدت نیوز (اسلام آباد) شام پر امریکہ کا وحشیانہ حملہ قابل مذمت ہے، ایک اسلامی ملک پر امریکی سامراج کی جارحیت کی بھر پور مذمت کرتے ہیں ، امریکہ کایہ ظالمانہ اقدام اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے ، ایک مشکوک قسم کے اقدام کے بعد کے جس کے نتیجے میں ادلب شہر میں زہریلی گیس کا حملہ ہوا اور سینکڑوں شہری مارے گئےاور اس کا الزام شامی حکومت پر لگاکرایک ایسے فضائی اڈے کو نشانہ بنایاجانا جہاں سے داعشی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں عمل میں آتی تھیں یہ دہشت گردوں کی بھرپور حمایت ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے گذشتہ روز شام پر امریکہ کے فضائی حملے خلاف سماجی رابطے کی ذرائع پر اپنے مذمتی بیان میں کیا ۔

انہوں نے کہا کہ  سعودیہ اور ترکی جیسے بعض نام نہاد اسلامی ممالک نے اس امریکی جارحانہ اقدام کی حمایت کی ہےوہ بھی قابل مذمت ہے،شام پر امریکی حملہ اور سعودیہ واسرائیل کی حمایت انکےباہمی گٹھ جوڑ کی واضح دلیل ہے، یہیں سے آل سعود کی خطے کے لئے ترجیحات اور اہدافات واضح ہو جاتے ہیں ، آل سعود اسرائیلی بلاک کا حصہ ہیں، عالمی صہیونی اژم کے نوکر ہیں ، ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ آل سعود جوکہ صہیونی اژم کے حامی اور امریکہ کے غلام ہیں ان کے بنائے گئے اتحاد میں جاناکس حد تک عاقلانہ اقدام ہے اور پاکستان کے حق میں کس حد تک مفید ہو سکتا ہے، یہ سراسر پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے، پاکستان کے عوام بالعموم اہل تشیع بالخصوص اور اہل سنت کی بڑی تعداداس اتحادمیں شمولیت کی بھر پور مخالفت کرتی ہے، یہ اقدام پہلے ہی سے پولرائزیشن کے شکار پاکستانی معاشرے کو مذید تقسیم کردے گا ،لہٰذا گذشتہ روز مشرق وسطیٰ ، گلف اور ویسٹرن ایشیاء کے اندر امریکہ کی جانب سے ہونے والے جارحانہ اقدامات اور سعودی حکومت کی جانب سے ان کی حمایت ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں ، اس طرح کے احمقانہ الائنس میں شمولیت سے گریز کیاجائے، یہ پاکستان کے باشعور عوام کی آراء کے خلاف ہےجوکہ اس کی مذمت کرتے ہیں ،ناپسند کرتے ہیں اور اسے پاکستان کے حق میں نقصان دہ سمجھتے ہیں ۔

بین الاقوامی فوجی اتحاد کس کے خلاف ؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب کوئی فوجی اتحاد بنتا ہے تو وہ کسی مشترکہ دشمن کے خلاف بنتا ہے. قوم کو بتایا جائے کہ یہ اتحاد کس کے خلاف ہے.؟
1- یہ اتحاد پہلے تو اتحاد ہی نہیں کیونکہ اتحادی نہ اکٹھے ہوئے اور نہ ہی مشترکہ دشمن کا تعین کیا۔

2- عموما مسلمانوں کا علی الاعلان دشمن اسرائیل تھا اب تو وہ بھی سب کا دشمن نہیں رھا کیونکہ بہت سے عرب ممالک جن میں سعودیہ سر فہرست ہے اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں مانتے بلکہ بہترین دوست اور پارٹنر مانتے ہیں .تو پھر اس کے خلاف تو یہ اتحاد نہ بنا۔

3- انڈیا بھی ہمارے نزدیک دشمن ہے اسکی فوجی مداخلت سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا .اور کشمیر میں تقسیم ہند کے وقت سے فوجیں اتار کر بیگناہ ہمارے بھائیوں کو قتل کر رھا ہے اور طاقت کے ذریعے قابض ہے. لیکن عربوں اور دیگر اتحاد میں شامل ممالک کا انڈیا گہرا دوست بھی ہے. اس لئے یہ اتحاد انڈیا کے خلاف بھی نہیں۔

4- کہتے ہیں کہ یہ دہشتگردی کے خلاف ہے۔اگر خطے کے حالات کا جائزہ لیں تو گذشتہ 2011 سے خطے میں دو بلاکوں کے مابین جنگ جاری ہے. ایک طرف امریکی بلاک ہے اور دوسری طرف مقاومت کا بلاک.
اب دھشت گرد کون ؟
ہر بلاک دوسرے کو دھشتگرد کہتا ہے۔

امریکی بلاک : ایک طرف امریکہ ، فرانس ، اسرائیل ، ترکی ، سعودی عرب ، قطر ، امارات پوری طاقت کے ساتھ پیسے ، جدید ترین اسلحہ ، انٹیلیجنس معلومات اور ٹریننگ مختلف مسلحہ گروہوں کو فراہم کر رہے ہیں. جن میں النصرۃ فرنٹ ، القاعدہ اور داعش سر فہرست ہیں. اور انکے روابط کسی سے پوشیدہ نہیں . بلکہ بنانے والے خود بھی ان تعلقات کا اعتراف کر چکے ہیں. ان تکفیری مسلح گروہوں کو سعودی عرب اور اسکے اتحادی دشمن نہیں سمجھتے بلکہ جہاں پر بھی قابض ہوئے وہ علاقہ ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا. جیسے لیبیا میں قذافی حکومت گرا کر اب انہیں وھاں مضبوط کر دیا گیا ہے . یمن میں بھی جو علاقے سعودیہ اور اسکے اتحادیوں کی بمبارمنٹ سے خالی ھوئے وھاں پر یہی گروہ مسلط ہوئے. اور اسی طرح باقی ممالک میں بھی. تو ثابت ہوا کہ یہ فوجی اتحاد ان تکفیری مسلح گروہوں کے خلاف بھی نہیں بن رہا۔

5- مقاومت کا بلاک : انکے مد مقابل اس مسلط کردہ جنگ میں اپنا دفاع کرنے والے ممالک اور انکے اتحادی ہیں. جن میں شام ، عراق ، ایران ، حزب اللہ ، انصار اللہ ، حشد الشعبی ، روس اور چین ہیں۔

عقل ومنطق اور تازہ ترین صورتحال تو یہی کہتی ہے کہ یہ اتحاد تکفیری مسلح گروہوں کے عراق و شام سے قدم اکھڑ جانے اور پے در پے شکست کھانے کے بعد بنایا جا رھا ہے. اس کا ہدف انھیں زندہ رکھنا اور جن قوتوں کے خلاف یہ لڑ رھے تھے انکے خلاف جنگ کرنا ہی ہو سکتا ہے ۔

یا تو یہ اتحادی سب کے خلاف علی الاعلان لڑیں گے یا ان میں تقسيم کی پالیسی اختیار کی جائے گی.اور بعض کے خلاف جنگ لڑی جائے گی. اب ہر پاکستانی اپنی حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا یہ مقاومت کا بلاک ہمارا دشمن ہے.؟ یا اس بلاک کے اندر ہماری دشمن قوتیں شامل ہیں ؟ اگر کوئی ہے تو وہ کون ہے.؟ کیا وہ شام ہے یا عراق، ایران ہے یا حزب اللہ ، یا انصار اللہ یا یمن ، یا روس ہے یا چین.؟ ہمارے حکمرانوں کو اسے پاکستانی عوام کے سامنے واضح کرنا ہو گا. البتہ دوسرا بلاک (امریکی بلاک ) پاکستان کے دوست نما دشمنوں سے بھر پڑا ہے. جس میں امریکہ ہے جو پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے. پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے. وغیرہ وغیرہ ۔

اسرائیل ہے جسے پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا اور نہ ان سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں. جو ہمیشہ سے اس گھات میں ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر عراق اور سوڈان کی طرز کا حملہ کر دے۔

اس بلاک کی سرپرستی میں وہ مسلح تکفیری گروہ ہیں جو پاکستان کے خلاف جہاد کے فتوے دے چکے ہیں. جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہم نے ضرب عضب اور رد الفساد جیسی عسکری کارروائیوں کا اعلان کیا. کیا ہم پاکستان میں ان سے لڑیں گے اور بیرون ملک انکی تقویت کریں گے۔

اور کیا اس اتحاد کا بانی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی پاکستان میں دہشگردی کرنے والے مدارس ، شخصیات ، مراکز اور تنظیموں کی مدد اور پاکستانی امور میں مداخلت کسی سے پوشیدہ ہے. کیا گوادر پورٹ کو یہ ہضم کر پائیں گے یا اس اقتصادی ترقی کی امید کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے ؟

براہ کرم اس فاسٹ میڈیا کے دور میں پاکستان عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش نہ کی جائے اور اس حساس فیصلے پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور تمام شکوک وشبہات کی وضاحت کی جائے اور اسے مذھنی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی مخصوص سوچ کی تاثیر میں اتنا بڑا قومی فیصلہ کیا جائے۔

 

 

تحریر۔۔۔ڈاکٹرعلامہ سید شفقت حسین شیرازی

امریکی میزائلوں کی سمجھداری

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج علی الصبح کا واقعہ ہے، سات اپریل ۲۰۱۷کو ، جمعۃ المبارک کے دن ، مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے،  شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا،   شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔ شام پر امریکی کارروائی کے بعد روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے ،  روسی دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ دہشت گردی کے خلاف مقابلے کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف  عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے شام میں امریکی فضائی کارروائی پر مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے  اور اسی طرح  اسرائیل نے بھی  شام پر امریکہ کے حملے کی حمایت کی ہے۔

امریکہ کا شام پر حملہ کرنا اور سعودی عرب اور اسرائیل کا حمایت کرنا  اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ اتحادی نہیں ہیں بلکہ ان تینوں ممالک میں سعودی عرب کی حیثیت فقط ایک قربانی کے بکرے کی سی ہے۔  سچ بات تو یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب سعودی عرب جو کام بھی کرتا ہے وہ در اصل امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس نہ ہی تو کوئی اپنا ایجنڈا ہے اور نہ ہی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کندھا ملانے کے بعد اپنے کسی ایجنڈے کا اعلان کر سکے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے جو اسلامی ممالک کا اتحاد بنایا ہے ، اس میں بھی  صرف وہی ممالک شامل نہیں ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ناپسندیدہ ہیں، اسی طرح اس اتحاد کا ایجنڈا اگر اسلامی ممالک کی حفاظت ہے تو یہ اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلا کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی لا تعلق کیوں ہے!؟

باقی رہا  جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کا ایشو، اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ  یہ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عالمی اسلامی فوج کی قیادت کرے۔ یہ اعزاز سر آنکھوں پر، البتہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اعزاز ہمیں تبھی حاصل ہو سکتا ہے کہ جب یہ اتحاد واقعتا اسلامی اتحاد ہو اور دنیائے اسلام کے دفاع کے لئے کام کرے ۔ لیکن اگر یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو ہمیں اعزاز نصیب ہونے کے بجائے مزید ذلت، رسوائی اور عالمی سطح پر تنہائی نصیب ہو گی۔

سعودی حکام کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد اسلامی اتحاد ہے تو پھر اس اتحاد کے داعی سعودی عرب کو فوری طور پر چند قدم اٹھانے چاہیے:۔

۱۔ سعودی عرب کو اپنے برادر  اسلامی ملک یمن  کے خلاف فوج کشی کو فورا روکنا چاہیے

۲۔ بحرین کے مسلمانوں  سے  جذبہ خیر سگالی کے  اظہار کے طور پر  شیخ عیسی قاسم  کو عزت و احترام کے ساتھ تمام مقدمات سے بری کیا جانا چاہیے

۳۔ قطیف میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیا جائے اور ان سے قید و بند کی صعوبتوں کو ہٹایا جائے

۴۔  عالم اسلام کے قلب یعنی مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں کشمیر اور فلسطین  کی آزادی  کے لئے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی جائے

۵۔ سعودی عرب اپنے تمام ہم فکر جہادی گروہوں کو  آفیشل طور پر فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرے

۶۔ سعودی عرب میں موجود تمام صحابہ کرام ؓ  اور اہلبیت اطہار ؑکےمزارات کو از سر نو تعمیر کر کے امت مسلمہ کے درمیان  وحدت و مواخات کی فضا قائم کی جائے

۷۔دہشت گردی کے خلاف فرنٹ رول اداکرنے والے مسلم ممالک خصوصا ، شام، عراق، اور ایران کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے خصوصی مدد لی جائے

۸۔ سعودی عرب اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ امریکہ اور اسرائیل کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور ان  کا کوئی بھی مستقل دوست نہیں ہے۔ لہذا اگر  سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی تحاد قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ خود سعودی عرب کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔

امریکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ  امریکہ نے طالبان سے فائدہ اٹھا یا اور پھر خود ہی ان کا کام تمام کردیا، صدام سے استفادہ کیا ہے اور پھر خود ہی اسے تختہ دار پر لٹکا دیا، قذافی کو امیرالمومنین بنایا ہے اور پھر خود ہی اسے نشانِ عبرت بنادیا، حسنِ مبارک کو پٹھو بنایا اور پھر اسے وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔۔۔

اگر سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل سے دوری اختیار نہیں کی تو پھر یہ ٹھیک ہے کہ آج  ۲۰۱۷ میں ، سات اپریل کو ، جمعۃ المبارک کی صبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے،  شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا، لیکن جب امریکہ نے اپنے مفادات ، شام  ، روس ، عراق اور ایران کو خوش کرنے میں دیکھے  تو پھر طالبان اور صدام کی طرح امریکی  میزائلوں کا رخ سعودی عرب کی طرف بھی مڑ سکتا ہے، شاہ فیصل کی طرح ، مزید سعودی حکمران  بھی قتل ہو سکتے ہیں اور سعودی شہزادے ہی سعودی بادشاہت کو خاک و خون میں غلطاں کر سکتے ہیں۔

یہ سعودی عرب کے لئے ، انتہائی سنہرا موقع ہے کہ   سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے “ اسلامی اتحاد”   کا نام استعمال کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اسلامی اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدگی ختم کرے، یمن اور بحرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترک کرے ، کشمیر و فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور امریکہ اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کرے،  اسی میں سعودی عرب کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ  امریکی میزائل  اپنے دوست اور دشمن کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا کہ پاک فوج کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف آپریشن رد الفساد کے فیصلہ کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے اسے حالات کے عین متقاضی قرار دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت سیکریٹریٹ سولجربازار میں پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر کراچی ڈویژن کے سیکرٹری سیاسیات تقی ظفر،ندیم جعفری ،حسن عباس ودیگر موجود تھے۔

 ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے پاک فوج کے موثر اقدامات عوامی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے میں اگر حکومت کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کیے جاتے تو آج ملک کو اتنے سانحات نہ دیکھنے پڑتے۔ شرپسندوں کے خلاف آپریشن میں رینجرز کو مکمل اختیار دیئے جانے چاہیے تاکہ سیاسی دباؤ سمیت کوئی بھی بیرونی مداخلت ان پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فوج کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ردالفساد مطلوبہ نتائج کے حصول تک جاری رہنا چاہیے تاکہ وطن عزیز دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں اچھے برے طالبان کے نام پر منفی قوتوں کی سرپرستی کی گئی جس کے نقصانات پوری قوم کو اٹھانا پڑے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل آپریشن ردالفساد کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree