The Latest
وحدت نیوز (آرٹیکل) مشی، اس کے اثرات، تاریخ اور موجودہ عراق پر بعد میں بات کریں گے، لیکن فی الحال اپنے قارئین کو عراق کی گذشہ 50 سالہ تاریخ اور درپیش بحرانوں سے سرسری آگاہ کرتے ہیں۔ عراق کی سرزمین مسلسل بحرانوں سے گزر رہی ہے، تقریباً 24 سال تک بلاشرکت غیرے صدام حسین اقتدار پر قابض رہا، 1980ء میں ایران پر جنگ مسلط کی اور 8 سالہ طویل جنگ کے ٹھیک 2 سال بعد یعنی 1990ء میں صدام حسین کویت پر چڑھ دوڑا، صدام حسین کے متعدد ایسے اقدامات تھے، جنہوں نے ناصرف عراق کو عالمی سطح بلکہ خطے میں بھی چاروں اطراف سے تنہا کر دیا، 22 ستمبر 1980ء سے شروع ہونیوالی ایران عراق جنگ 8 سال بعد یعنی اگست 1988ء میں اختتام پذیر ہوئی، لیکن اس جنگ نے تقریباً 10 لاکھ انسانوں کو نگل لیا۔ صدام حسین نے ایران سے یہ جنگ ایسے وقت میں شروع کی تھی، جب ایران میں رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا اور انقلابیوں نے ایک اسلامی حکومت کا احیاء کیا تھا، ایران عراق جنگ کا باعث دریائے شط العرب بتایا جاتا ہے۔ مگر مبصرین کے خیال میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور عراق نے امریکی ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں سوائے شام کے برطانیہ، اسرائیل سمیت تقریباً تمام عرب ممالک غیر اعلانیہ طور صدام حسین کو مکمل سپورٹ کر رہے تھے۔ 1990ء میں کویت پر حملے کے بعد تمام مذکورہ ممالک جو ایران کیخلاف جنگ میں عراق کے اتحادی تھے، صدام حسین کے مخالف ہوگئے اور عراق ایک بار پھر ایک نئے بحران سے دوچار ہوگیا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45 منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا، اس لئے عراق پر فروری 2003ء میں امریکہ نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن امریکہ آج تک یہ الزامات ثابت نہ کرسکا، حتٰی اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کچھ عرصہ قبل یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا، جس پر وہ معافی چاہتے ہیں، اگرچہ امریکی برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ کے کئے جانیوالے دعووں کی تائید بھی نہیں کی تھی، تاہم اس گٹھ جوڑ نے عراق حملہ کر دیا، اپریل 2003ء میں سقوط بغداد کے بعد صدام حسین روپوش ہوگئے۔ تاہم 14 دسمبر 2003ء کو بدترین ڈکٹیٹر کو اس کے آبائی علاقے تکریت سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کر لیا گیا، یوں 30 ستمبر 2006ء میں صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
صدام حسین کی پھانسی کے بعد عراق میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے، جو اب داعش کے فتنے کی شکل میں ظہور پذیر ہیں۔ امریکہ عراق سے تو نکل چکا ہے لیکن اپنے پیچھے تباہی اور بربادی چھوڑ گیا ہے، امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنے پیچھے فرقہ واریت، لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر فسادات اور تباہی چھوڑ کر جاتا ہے اور یہی حال اس نے عراق کا کیا۔ امریکہ نے ابوبکر البغدادی کو خود رہا کیا اور بعد میں اس کے ذریعے داعش کو منظم کرکے عراق پر ایک نئی جنگ مسلط کر دی، جو اب اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ امریکہ کا نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مخالف امیدوار ہلیری کلنٹن پر داعش کو جنم دینے اور اس کی مدد کرنے کا ذمہ دار قرار دے چکا ہے۔ یاد رہے کہ داعش نے کم وقت میں تکریت اور موصل سمیت عراق کے کئی علاقوں تک پیشرفت کر لی تھی، حتیٰ کئی آئل ریفائنریز قبضے میں لے لی تھیں، لیکن اب داعش سے تکریت سمیت متعدد علاقے چھن چکے ہیں اور اب موصل میں فیصلہ کن جنگ جاری ہے۔
دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں امریکہ اور عرب ممالک ایک طرف ہیں، جبکہ مزاحمتی بلاک ایران، شام، عراق اور روس دوسری طرف ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ شام کے مشرق میں واقع حلب بھی داعش اور جھبۃ النصرہ سے مکمل طور پر آزاد ہونے کے قریب ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد عراق اور شام کو کمزور کرکے لیبیا کی طرح حکومتوں کو گرا کر لبنان پر چڑھ دوڑنا تھا اور اپنی مرضی کی حکومتوں کا قیام تھا، ان تمام اقدامات کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا تھا۔ مسلسل جنگوں کے باعث عراق میں خواتین کی شرح بڑھ رہی ہے، 50 سال سے جاری مختلف جنگوں میں مسلسل قربانیوں کے باعث مردوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، جنگ کے آثار ہر طرف دکھائی دیتے ہیں، کمزور عراقی حکومت تاحال عراق کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ مرکوز نہیں کر سکی، یہی وجہ ہے کہ داعش کیخلاف جنگ میں ایران عراق کی پشت پر کھڑا ہے۔ عراق میں لوکل حکومتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
داعش نے عراق میں ایسے بدترین مظالم ڈھائے ہیں، جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، مخالفین کو تیل چھڑک کر زندہ آگ میں جلانا، ٹینکوں کے نیچے دیکر مارنا اور پانی میں ڈبو ڈبو کر مارنا داعش کے دہشتگردوں کا وطیرہ بن چکا ہے، انسانوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے خنجر کے ذریعے گردنیں اڑنے اور سروں میں گولیاں مار کر قتل کرنے کی ویڈیوز تک نشر کی گئیں۔ یہ ویڈیوز ایک عام انسان نہیں دیکھ سکتا، داعش کے فتنے سے فقط شیعہ ہی نہیں بلکہ اہلسنت اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ داعش کی جانب سے اصحاب رسول کے مزارات تک کو بم نصب کرکے اڑا دیا گیا، حتٰی سامرہ میں پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی آل تک کے مزارات کو نشانہ بنایا گیا، اب بھی ان مزاروں کو منہدم کرنے کیلئے اس فتنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ بغداد اور کربلا سمیت دیگر علاقوں میں بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے کاررائیاں کرکے ہزاروں انسانوں سے زندگی کا حق چھینا جا چکا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ موصل میں آخری معرکہ جاری ہے، جس میں عراقی آرمی کیساتھ رضاکار فورس بھی یہ جنگ لڑ رہی ہے، اس رضا کار فورس میں ریاست میں مقیم تمام طبقات شامل ہیں۔
مشی کے راستوں پر بھی اس جنگ کے حوالے سے آگاہی کیلئے بڑی سکرینیں نصب کی گئی تھیں، جن کے ذریعے عربی زبان میں لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا تھا اور داعش کیخلاف تشویق دلائی جا رہی تھی، داعش کے ہاتھوں مارے جانیوالے عراقی شہداء کی تصاویر بھی جگہ جگہ نصب کی گئی تھیں، حتیٰ وہ علماء جو داعش کے فتنے کیخلاف محاذ جنگ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے، ان کی قربانیوں کا بھی تذکرہ سننے کو ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ داعش کی جانب سے پھیلائے جانیوالے خوف کے باوجود کروڑوں انسانوں کا سمندر مشی میں شرکت کیلئے کربلا پہنچا، جو ایک بڑی کامیابی تصور کی گئی۔ مشی سے متعلق جو راقم نے درک کیا وہ یہ ہے کہ نجف سے کربلا پیادہ روی دراصل اپنی انا کو فنا کرنا، ایثار و قربانی کی لازوال مثالوں کو زندہ کرنا، انسانوں کا احترام اور اسلام کے صحیح پیغام کو اجاگر کرنے کا نام مشی ہے۔ کئی جگہوں پر دیکھا کہ اگر راستے میں کسی کو غلطی سے دھکا لگ بھی گیا تو جس کو دھکا لگا وہ معافی کا خواستگار دکھائی دیا۔
کربلا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال عوام کی شرکت بہت زیادہ ہے، داعش کے خوف پھیلانے کے تمام تر حربوں کے باوجود تقریباً 3 کروڑ 60 لاکھ لوگوں نے مشی میں شرکت کی اور داعش سمیت ان تمام طاقتوں کو پیغام دیا کہ تم بےگناہ انسانوں کو مار کر خوف کی فضا قائم نہیں کرسکتے، تم اپنے اہداف میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ داعش نے اس سال بھی زائرین کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، 10 صفر کو سامرہ اور 22 صفر کو حلہ کے مقام پر ایرانی زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد زائرین شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے، 17 صفر کے بعد سامرہ میں سکیورٹی صورتحال کے باعث 15 کلو میٹر پہلے گاڑیوں کو آگے نہیں جانے دیا جا رہا تھا، لیکن اس کے باوجود زائرین پیدل چل کر مقدس مقامات تک پہنچے۔
تحریر۔۔۔۔نادر بلوچ
وحدت نیوز(جہلم ویلی) انجمن جعفریہ جانثاران عباس ؑ ضلع جہلم ویلی کے زیر اہتمام مسجد امام علی(ع) نیالی مہاجر کیمپ میںجشن میلادالنبی( ص) وامام جعفرصادق (ع) کا انعقاد،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ا ٓزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی مہمان خصوصی تھے،جشن کے اختتام پر میلاد الصادقین ؑ کی مناسبت سے کیک بھی کاٹا گیا،،جشن میلاد سے خطیب اہلسنت قاضی محمد فہد ایڈووکیٹ کوآرڈینیٹر سیرت کمیٹی ضلع جہلم ویلی،علامہ سید یاسر حسین سبزواری،سید ریاض حسین ہمدانی،علامہ سید وزیرحسین کاظمی،سید ذاکر کاظمی،سید منور کاظمی اور دیگر نے بھی خطاب کیااس موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وحی الہی کے ٓاخری سفیر خاتم الانبیاء، فخر موجودات، سرور کائنات، حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مسرت آفرین دن کہ جب عالم بشریت کی پیشانی درخشاں ہوئی اورحضورکے وجود کی عطر بیزہواؤں سے آج بھی مشام ہستی مطہر و معطر ہے۔ہم خدا کے رسول حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو اپنے تمام برادران اسلام بلکہ پوری دنیائے بشریت کو لباس نور سے مزین، مادیت کے سایے سے بھی آزاد، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ورود مسعود کی مبارک باد پیش کرتے ہیں تمام مذاہب میں ان کے آنے کی بشارت دی گئی ہے اور ان پر ہی خدا کی نبوت الہی اور پیغام رسانی کا اختتام ہواہے،سبھی کو دور جہالت سے رہائی اور بشریت کی فلاح و نجابت کی فکر اور آرزو تھی اور ہر ایک ظلم و ستم کی برائیوں سے آزادی اور آدمیت کے کمال و ارتقاء کامتمنی اور خواہشمند تھا، امن و سلامتی سے معمور دنیا کی تعمیر کے لئے خدا کے آخری مبشر و نذیرکی دنیا راہ تک رہی تھی ۔
علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہاکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھااس خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں اور حضور کا اپنا وجود نوید مسیحائی اور دعائے ابراہیم ؑ تھا آپ نے امیر غریب کا نہ صرف فرق مٹایا بلکہ گلام کو آقا کے برابر مقام دیا حتیٰ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو موذن مقرر کرنا بھی جہاںحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے باعث عزت وشرف تھا وہیں عربوں کے غرور کو خاک میں ملانے کا ذریعہ تھا کل تک جس بلال کو عب اپنے اشاروں پہ چلاتے تھے آج وہی عرب اسی بلال کی آواز اذان اور اشارے پر چل کر نماز کے لئے آئیںآنحضرت کی پیدائش پروہ معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (ع) مٹی اور پانی کے درمیان تھے،میںحضرت ابراہیم (ع) کی دعا،حضرت عیسیٰ (ع) کی بشارت اور اپنی ماں کاوہ خواب ہوںجو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگے،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیھا بیان کرتی ہیں کہ وقت ولادت میں نے ہاتف غیبی کی آواز سنی کہ مشرق سے مغرب گھوم کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مثل تلاش کروان کے جیساکون ہوسکتاہے تمام انبیاء کے صفات ہم نے ان کو عطا کردیئے ہیں، آدم(ع) کی طرح صفا و پاکیزگی، نوح(ع) کی طرح نرمی و سادگی، ابراہیم (ع) کی طرح خلت ومحبت ،اسماعیل (ع) کی طرح رضا و خوشنودی ،یوسف (ع) کی طرح حسن و زیبائی اور عیسی(ع) کی طرح کرامت و بزرگواری، سب کچھ ان میں موجود ہے۔
علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضور کی سیرت کو پروردگار نے اسوہ حسنہ قراردیا اور آپ کی حیات مبارکہ بنی نوع انسان کے لئے ایک جامع اور کامل واکمل نمونہ ہے آج امت مسلمہ کی جملہ مشکلات کاحل اسوہ حسنہ کی پیروی میں مضمر ہے حضور نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اہم کتاب کو بھی اتحاد کی دعوت دی آج بھی واحد ذات حضرت رسالتمآب کی ہے جس پر امت مسلمہ کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے،انہوں نے کہا کہ الحمد للہ ریاست کشمیر میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم شمع رسالت کے پروانے شیعہ سنی کی تقسیم سے بالا تر ہوکرمحرم الحرام ہو یا ربیع الاول رسول اور خاندان رسول سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علی حسین نقوی نے ملیر سمیت کراچی کے مختلف علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے پُرسراروبائی مرض پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ صحت کی طرف سے خاطر خواہ توجہ نہ دینے کے باعث یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔صحت جیسی بنیادی سہولت سے متعلقہ حکام کی چشم پوشی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ مختلف امراض کے پھیلاؤ کا ایک سبب گنجان آباد علاقوں میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھی ہیں۔سیوریج کے پانی کی مناسب نکاسی نہ ہونے کے باعث جگہ جگہ غلیظ جوہروں کی شکل میں پانی جمع دکھائی دیتا ہے۔صحت و صفائی جیسے اہم مسئلہ پرحکومت کی عدم توجہی پورے شہر کے لیے خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔پُراسرار وائرس سے پھیلنے والی مرض کی تشخیص میں تاحال ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام صوبائی اداروں نے عوامی مشکلات سے خود کو بری الذمہ سمجھ رکھا ہے۔انہوں نے کہا اس مرض کی روک تھام کے لیے مناسب اور مطلوبہ اقدامات میں تاخیر متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔محض زبانی جمع خرچ،فوٹو سیشن یا اخباری بیانات سے مرض پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے اس کے لیے ہنگامی اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ہسپتالوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے اور اس غیر معمولی مرض کی تشخیص اور طبی امداد کے لیے الگ سے کاؤنٹر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو بہتر رویہ اپنانے کی تاکید کی جائے تا شہریوں کی مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔مفت علاج معالجے کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ مریضوں کو ادویہ کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کراچی کی اکثریتی آبادی کا تعلق متوسط یا غریب گھرانوں سے ہے۔ان کی معاشی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر مذید کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔متاثرہ علاقوں میں اگر وائرس کے انسداد کے لیے اسپرے کی ضرورت ہو تو اس پر بلاتاخیر عمل کیا جانا چاہئے۔
وحدت نیوز(گلگت) حکومت کی عدم دلچسپی اور بد نیتی سے سونیوال اور بٹو خیل قبائل آپس میں دست وگریبان ہوگئے ہیں،انتظامیہ کی بد عہدی اور بد شکنی کی وجہ سے علاقے میں مسائل جنم لے رہے ہیں۔سونیوال اور بٹو خیل قبائل کے رہنما اگر اعتماد کریں تو مجلس وحدت مسلمین دونوں قبائل کے تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات غلام عباس نے کہا ہے کہ جھگڑا فساد کسی مسئلے کا حل نہیں ،علاقے کے عوام آپس میں مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں تو فتنے کی سازش کرنے والوں کا منہ کالا ہوجائیگا۔ایک عرصے سے گلگت بلتستان کے مختلف ڈویژنوں میں عوام کے مابین اختلافات کو ہوا دیکر آپس میں لڑانے کی سازشیں ہورہی ہیں کہیں پر زمین کا تنازعہ کھڑا کیا جاتا ہے تو کہیں چراگاہ ،پہاڑ اور پانی پر لوگوں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔آج دیامر کے عوام دو حصوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں جو حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے اوراس کشت و خون کو روکنے کیلئے صوبائی حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی مصلحتوں کی شکار صوبائی حکومت عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہے جبکہ حالات خونی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں اوراس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر دونوں قبائل کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر سے کام لیں اور باہمی اختلافات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔اگر قبائل کے رہنما اجازت دیں تو مجلس وحدت مسلمین پورے گلگت بلتستان کی سطح پر جرگہ ترتیب دیکر دونوں قبائل کیلئے قابل قبول حل پیش کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ جو مسئلہ باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوسکتا ہے اس کیلئے کشت و خون ہرگز مناسب نہیں۔انہوں نے کہا کہ دیامر کے عوام گلگت بلتستان کے عوام کی طاقت ہیں اور ہم اپنی اس طاقت کو کمزور ہوتے دیکھنا گوارا نہیں۔انہوں نے دونوں قبائل کے عمائدین سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے عوام کو پرامن رکھیں اور اپنے حقوق کیلئے مناسب فورمز کا سہارا لیں۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی ،صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل یعقوب حسینی،صوبائی رہنما عالم کربلائی نے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان موجودہ دور میں غیر ملکی ملک دشمن قوتوں امریکہ،اسرائیل اور بھارت اور اسی طرح اندرونی طور پر ان شیطانی قوتوں کے مقامی ایجنٹوں کی سازشوں کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ملک کے کسی کونے میں ٹارگٹ کلنگ تو کسی کونے میں آبادیوں کو بم دھماکوں سے اڑائے جانے کے مناظر نظر آ رہے ہیں اسی طرح افواج پاکستان ،مساجد ،مزارات اولیاء اللہ،الغرض شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو خواہ وہ درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہو یا شعبہ طب سے وابستہ ہو یا پھر انصاف کی فراہمی کے شعبہ وکالت سے وابستہ ہو غرض یہ کہ ہر کسی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سر زمین پاکستان کے خلاف ایسی خطر ناک سازشیں کی جا رہی ہیں جس کا مقصد مملکت خداداد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور سامراجی شیطانی قوتوں کے ناپاک عزائم کی تکمیل کو انجام دینا ہے۔ ایسے حالات میں جب پورے ملک کے کونے کونے میں ان غیر ملکی دہشت گرد قوتوں کے مقامی ایجنٹوں نے پاکستان کے باسیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھا ہے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ملک دشمن قوتیں خواہ وہ بیرونی ہوں یا اندرونی ایجنٹ ہوں ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا کر خاک میں ملادیا جائے گا لہذٰا اسی حوالے مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ نے اعلان کیا ہے کہ25دسمبر بروز اتوار کوحیدرآباد میںعظیم الشان ’’لبیک یارسول اللہ کانفرنس منعقد کی جائے گی۔کانفرنس ملک میں جاری غیر ملکی و اندرونی سازشوں کا قلع قمع کرنے اور دشمنان اسلام و پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے اور استحکام پاکستان کی ضمانت کے مترادف ثابت ہو گی۔ جس میں سندھ بھر سے ہزاروںموالیان اہل بیت علیہم السلام اور شیعیان حیدر کرار (ع) محب وطن پاکستانی شریک ہوں گے اور ثابت کر دیں گے کہ پاکستان کے عوام سر زمین پاکستان پر امریکی و اسرائیلی اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔2دسمبر کا عظیم الشان اجتماع اولیاء اللہ کے ماننے والوں،صوفیوں کے چاہنے والوں اور محب وطن پاکستانیوں کا تاریخ ساز اجتماع ہو گا جو استحکام پاکستان کی ضمانت ثابت ہو گا۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ جشن میلادالنبی کی محافل ہمارے ایمان کا حصہ ہیں،پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ہفتہ وحدت ‘‘کی تقریبات عالم اسلام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کے لیے مجلس وحدت مسلمین عملی اقدامات کررہی ہے۔ ان خیالات کااظہار اُنہوں نے جامع مسجد الحسین نیو ملتان میں ’’محمدی دسترخواں‘‘کے شرکاء سے خطا ب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر علامہ اقتدار حسین نقوی، علامہ سلطان احمد نقوی،علامہ قاضی نادر حسین علوی،محمد عباسی صدیقی،سید عدیل عباس زیدی، سید ندیم عباس کاظمی،مولانا عمران ظفر،اقبال حسین خان کشفی(ایڈووکیٹ)،سمیع حیدر گردیزی اور دیگر موجود تھے۔ علامہ راجہ ناصر عبا س جعفری نے مزید کہا کہ پاکستان میں داعش کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے افراد موجود ہیں جو شام میں داعشی دہشتگردوں کے واصل جہنم ہونے پر احتجاج کررہے ہیں، اُس وقت یہ نام نہاد مسلمان کہاں تھے جب داعش عراق اور شام میں ہزاروں بے گناہوں کو شہید کررہی تھی، جب اسلام آباد میں داعش کی حمایت میں پریس کانفرنسز کی گئیں تھیں، آج پاکستانی حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اُسے کس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، امریکہ،اسرائیل ،داعش اور تکفیریت کے ساتھ یا روس،چائنااور ایران کے ساتھ؟ چین نے سلامتی کونسل میں داعش کے خلاف اور شام کے حق میں قرارداد کو 6دفعہ ویٹو کیا، اگر داعش اور تکفیری سوچ شام میں کامیاب ہوجاتی تو عراق،ایران،پاکستان اور چائنا کو بھی شکست ہوتی۔
علامہ ناصر عباس جعفری نے مزید کہاکہ اس وقت شام میں داعش کو ہونے والی شکست پر امریکہ،کینیڈا،برطانیہ،فرانس،آسٹریلیا اور مشرق وسطی کے ممالک سوگوار ہیں۔ کیونکہ جس مقصد کے لیے انہوں نے داعش کو بنایا تھا وہ ناکام ہوچکا ہے۔ امریکہ اور اُس کے اتحاد ایک منظم منصوبے کے تحت دہشتگردوں کو شام سے افغانستان منتقل کررہے ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفاقی وزیرداخلہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرداخلہ کے بقول اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کی نہ ہی اجازت لی گئی اور نہ ہی دی گئی لیکن اگر ہماری مجالس یا میلاد کی محافل ہوں تو ایف آئی آر درج کردی جاتی ہیں۔ جسٹس فائز عیسی کی رپورٹ اور جماعت اسلامی کے ترجمان نے وزیرداخلہ اور صوبائی وزیرقانون راناثناء اللہ کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہم پاکستان میں پُرامن سیاسی جدوجہد کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ہم نے 2013کے عام الیکشن میں حصہ لیا ۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی صفوں میں چُھپے دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور نرم گوشہ رکھنے والے وزراء کو بے بقاب کریں۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر ٹھیک طرح سے عملدرآمد کیا جاتا تو آج حکومتی صفوں میں چھپے سہولت کار سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کی جانب سے گذشتہ شب 60بسوں پر مشتمل زائرین امام حسین ؑکے قافلے کے کوئٹہ واپس پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا، ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ علامہ سید ہاشم موسوی ، ڈویژنل سیکریٹری جنرل سید عباس موسوی اور دیگرکارکنان کی جانب سے زائرین پر گل پاشی کی گئی ، اس موقع پر زائرین انتہائی مسرور دکھائی دیئے اورشانداراستقبال پر ایم ڈبلیوایم رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز (کراچی) خیر العمل فائونڈیشن شعبہ ویلفیئرمجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کی جانب سے محفل عابدیہ عمار یاسر سوسائٹی فیز ون اور امام بارگاہ شاہ نجف گلشن وقارجوگی موڑ میں فری ہیپاٹائٹس بی ویکسینیشن کیمپ کا انعقادکیا گیا،امامیہ میڈکس انٹر نیشنل (آئی ایم آئی)کے شتراک سے منعقدہ اس کیمپ میں سینکڑوں مریضوں کو بلا تفریق حفاظتی ٹیکے لگائے گئےجن میں خواتین ، بچے ،بزرگ اور جوان شامل تھے۔واضح رہے کہ ہیپاٹائٹس بی سے بچائوکے حفاظتی ٹیکے تین مراحل میں لگائے جاتے ہیں لہذٰا اگلا ٹیکہ بائیس جنوری بروز اتوار انہی مقامات پر صبح دس تا دوپہردو بجے تک لگایا جائے گا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ربیع الاول کا مہینہ ہے،مسلمان ایک دوسرے کو اپنے نبیﷺ کی ولادت کی مبارکباد دینے میں مشغول ہیں،ایسے میں امت مسلمہ کو حلب کی آزادی کی خوشخبری بھی مل گئی ہے۔جب حلب کی آزادی کی بات آتی ہے تو میری طرح بہت سارے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں کہ حلب کس سے آزاد ہوا!؟بعض کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ حلب واقع کہاں ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟!لہذا حلب کے بارے میں مختصرا عرض کرتا چلوں کہ ملک شام کے دارالحکومت دمشق کے شمال میں حلب واقع ہے۔اہمیت کے اعتبار سے یہ شام کا تجارتی دارالحکومت کہلاتاہے۔اسی طرح یہ شہر ترکی سے بھی صرف ۶۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اوردریائے فرات اور بحیرہ روم بھی اس کے ساتھ لگتے ہیں نیز یہ مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتاہے۔سال ۲۰۱۰سے ۲۰۱۲ کے درمیانی عرصے میں کچھ لوگ طاقت اور اسلحے کے زور پر اس شہر میں داخل ہوئے۔یہ اسلحہ بردار اجنبی ،اس شہر کے ساتھ بڑی بے دردی سے پیش آئے،انہوں نے غنڈہ گردی کی انتہا کرتے ہوئے اس شہر کی رونقوں کو وحشت میں تبدیل کردیا،بازار قبرستان بن گئے،عمارتیں کھنڈر بن گئیں اور لوگ اپنے ہی شہر میں بے گھر ہوگئے۔
حملہ آوروں کو بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی،چنانچہ مقامی لوگوں کی چیخ و پکار کو میڈیا نے بھی کوریج نہیں دی اور عالمی برادری نے بھی نوٹس نہیں لیا۔
حملہ آور اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اور اس شہر کو اپنی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے مقامی لوگوں کو دبانے کے لئے تمام جنگی حربے اختیار کئے،مسلکی تعصبات کو بھڑکایا،نہتے لوگوں پر شب خون مارا اور حلب کے نقشے کو زیروزبر کرنے کی پوری سعی کی۔
ان چھ سالوں میں حلب جلتارہا،عصمتیں لٹتی رہیں،انسانی حقوق پامال ہوتے رہے،درندے لوگوں کی لاشوں کو بھنبھوڑتے رہے،مارکیٹیں بند رہیں اور بازار سنسان پڑے رہے۔ان چھ سالوں میں کسی نے حلب کا نوحہ نہیں لکھا،حملہ آوروں کو بے نقاب نہیں کیا،ظلم اور بربریت کرنے والے وحشیوں کو برا نہیں کہا۔۔۔
چھ سال تک حلب کے مقامی لوگ اجنبیوں کے ظلم کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور حملہ آوروں کی جارحیت کے سامنے نہیں جھکے۔ چھ سال کے بعد ۲۰ نومبر ۲۰۱۶ کو شام کی فوج نے اپنے اس شہر کو حملہ آوروں سے آزاد کروانے کے لئے ایک فوجی کاروائی کا آغاز کیا۔پھر یہی فوجی کاروائی شہر حلب کی آزادی پر منتہج ہوئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کاروائی میں شام کی فوج نے اپنے ہی ملک کے دوسرے بڑے شہر کو حملہ آوروں سے آزاد کروایاہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری اور خصوصا امت مسلمہ کی طرف سے اہل شام کو اپنا شہر آزاد کروانے پر مبارکباد دی جاتی اوردنیا میں جہاں جہاں اسلحہ بردار ڈاکو اور غنڈے نہتے لوگوں پر حملہ آور ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی لیکن یہ دوغلے پن کی انتہا ہے کہ میڈیا نے اورغنڈووں کے ہم فکر و ہم نوالہ و ہم پیالہ ٹولوں نے عوام النّاس کو اصل صورتحال سے ابھی تک لاعلم رکھا ہوا ہے۔
جولوگ شہر حلب کو غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا مرکز بنانا چاہتے تھے،اب شہر حلب کی آزادی سے انہیں شدید دھچکا لگاہے۔ان میں سے بعض کو تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ شہر حلب کا نوحہ لکھیں تو کیسے لکھیں،وہ بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس افسوس کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں۔
ایسے ناسمجھ افراد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ افسوس کا مقام نہیں بلکہ خوشی کا موقع ہے،جب کوئی قوم اپنی سر زمین پر حملہ آوروں کو شکست دیتی ہے تو اس کی استقامت کو سراہا جاتاہے،اس کے جوانوں کو شاباش دی جاتی ہے اور اس کی شان میں قصیدے لکھےجاتے ہیں۔
حلب کی مظلومیت کا دوراب گزر گیا ہے، اب دنیا حلب اور اہل حلب کی شان میں قصیدے لکھے گی۔اب جہاں بھی دہشت گردوں اور غنڈوں کا منہ چڑھانا ہوگا لوگ حلب کا ذکر کیا کریں گے۔
حلب اپنے امتحان میں کامیاب ہوگیاہے۔اب حلب ہمیشہ سربلند و سرخرو ہی رہے گا۔حلب کی آزادی دنیا بھر کے غنڈوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تم طاقت اور اسلحے کے ساتھ وقتی طور پر کسی کا حق چھین تو سکتے ہو ،کسی کو عارضی طور پر دبا تو سکتے ہو لیکن انسانی اقدار اور شرافتِ بشر کو شکست نہیں دے سکتے۔
اب دنیا کے اطراف و کنار میں جب تک ایک بھی شریف انسان موجود ہے وہ حلب شہرکی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کے خلاف ڈٹا رہے گا۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(تہران) رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے ہفتے کے روز تہران میں اعلٰی حکام، تیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء، اسلامی ممالک کے سفیروں اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام سے ملاقات کی۔ شرکاء سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آج خطے میں دو طرح کے ارادے ایک دوسرے کے مدمقابل صف بستہ ہوگئے ہیں، "ارادہ وحدت" اور "ارادہ فرقہ واریت"۔ انہوں نے کہا کہ اس نازک صورتحال میں "قرآن کریم اور پیغمبر اعظم (ص) کی الٰہی تعلیمات پر تکیہ کرنا"، وحدت بخش معالجے کے عنوان سے دنیائے اسلام کی تمام تر مشکلات کے لئے راہ حل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) کے وجود مقدس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ پروردگار کریم نے قرآن مجید میں بشریت کو اتنی عظیم نعمت عطا کرنے پر احسان جتایا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے قرآن کی اصطلاح "رحمۃ للعالمین" پر استناد کرتے ہوئے، پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات کو تمام بنی نوع انسان کے لئے نجات راہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کے دشمن اور دھونس و دھمکی جمانے والے ان باسعادت تعلیمات کے مخالف ہیں اور اسی وجہ سے خداوند متعال قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ انکی پیروی اور کفار و مشرکین کی سازشوں سے اجتناب کرتے ہوئے ان سے جہاد کرو اور ان سے سختی سے پیش آئو۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام اور انسانیت کے دشمنوں سے شرائط کے مختلف ہونے کی وجہ سے بعض اوقات فوجی، بعض اوقات سیاسی، بعض اوقات ثقافتی اور بعض اوقات حتی علمی میدان میں بھی جہاد کیا جاتا ہے، امت مسلمہ، خاص طور پر دین کی تبلیغ کرنے والوں اور جوانوں کو چاہئے کے وہ مطالعے اور پیغمبر ختمی مرتبت (ص) کی الٰہی تعلیمات کی شناخت کے ذریعے اس حیات پرور مجموعہ سے استفادہ کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے استعمار اور استکبار کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو فروغ دینے اور انہیں کمزور کرنے کے لئے روز افزوں کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام آج بے تحاشہ رنج و الم اور مشکلات کا شکار ہے اور " اتحاد، ایک دوسرے سے تعاون، مذہبی اور کثیر تعداد میں موجود اسلام کے مشترکات کے سائے میں نظریاتی اختلافات کو فراموش کرنا" ان مشکلات اور مسائل سے راہ نجات ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی حکومتوں اور امت مسلمہ کے درمیان وحدت کے نتیجے میں امریکی اور صیہونی، مسلمانوں پر اپنی خواہشات مسلط نہیں کر پائیں گے اور فلسطین کے مسئلے کو فراموشی کے سپرد کرنے کی سازش ناکام ہوجائے گی۔
انہوں نے مشرقی ایشیا میں میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر مغربی افریقہ میں نائجیریا اور مغربی ایشیا جیسے اہم علاقے میں مسلمانوں کے تصادم کو فرقہ واریت پھیلانے کے لئے مستکبرین کی سازشوں کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ایسی صورتحال اور ان حالات میں برطانوی تشیع اور امریکی اہل سنت گروہ دو دھاری تلوار کی مانند اختلافات پھیلانے اور آگ بھڑکانے میں مشغول ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرقہ واریت کے شیطانی ارادے سے وحدت کے عزت بخش ارادے کے تصادم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کی پرانی سیاست یعنی اختلافات پیدا کرو اور حکمرانی کرو، اس وقت اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنڈا بنا ہوا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے خطے کے ممالک کے لئے گذشتہ دو صدیوں کے دوران برطانیہ کے اقدامات کو ذلت اور شر کا نام دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں برطانیہ نے نہایت بے شرمی کے ساتھ مظلوم اور عزیز ملک ایران کو خطے کے لئے خطرہ قرار دیا، لیکن سب جان لیں کہ ان الزامات کے برخلاف یہ برطانوی ہیں کہ جو ہمیشہ خطرات، فساد، ذلت اور رسوائی کا باعث بنے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد استکباری طاقتوں کی جانب سے اسلام مخالف سرگرمیوں میں اضافے کو طاقتور، پیشرو اور مثالی اسلامی نظام کے مسلسل باقی رہنے سے خوف کھانے کی واضح علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دشمن مطمئن اور ظاہری طور پر آراستہ ہو کر بھی سامنے آئے تو وہ باطنی طور پر وحشی اور درندہ ہے اور اقوام عالم کو چاہئے کہ وہ ان بے ایمان، بداخلاق اور بے دین دشمنوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہو جائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اتحاد کو عالم اسلام کی آمادگی کا اہم ترین محرک گردانتے ہوئے کہا کہ تمام اسلامی فرقے چاہے سنی ہوں یا شیعہ اختلاف پیدا کرنے سے گریز کریں اور پیغمبر اکرم (ص) کے وجود نازنیں، قرآن مجید اور کعبہ شریف کو وحدت اور بھائی چارے کا محور قرار دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تسلط پسند شیطانوں کے مدمقابل حکومتوں اور ملتوں کی ہوشیاری کی تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ بظاہر مسلمان ممالک عالم اسلام میں اندرونی طور پر اختلافات اور خطرات پیدا کرنے کے لئے دشمن کی بات قبول کرتے ہیں اور صراحت کے ساتھ اسکی سیاست کی بیعت کرتے ہیں۔؟ انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں ایران کی امتحانوں میں کامیابی حاصل کرنے والی اور عزیز ملت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ "امام خمینی اور انقلاب کے راستے کو جاری رکھنے"، "دشمن کے مدمقابل قیام"، اور"حق و حقیقت کا بغیر کسی تعارف کے دفاع کرنے" کی وجہ سے دنیاوی اور اخروی سعادت آپ کے شامل حال ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے ایران کے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت باسعادت کے یوم کو حق اور تمام اخلاقی صفات کی جانب دعوت دینے کا دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت حق اور باطل میں درمیانی راستہ نہیں تھی بلکہ آپ نے حق کے میدان میں بہترین راستے کا انتخاب کیا اور اعتدال اسی کو کہتے ہیں۔ ایرانی صدر نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر معنوی اور مادی پیشرفت پر تاکید کی اور کہا کہ آج ہمارے ملک کے جوان پہلے سے زیادہ روحانیت کی جانب مائل ہیں اور مادی لحاظ سے بھی سینٹرل بینک کی رپورٹس کے مطابق ملک اقتصادی طور پر سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران سات اعشاریہ چار فیصد ترقی کر چکا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح خطے کی صورتحال بیان کرتے ہوئے بعض گروہوں کا ذکر کیا کہ جو پیغمبر رحمت (ص) کے نام پر دین کے چہرے کو دہشتگردی اور شدت پسندی کے ذریعے مسخ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ خطے کی مظلوم قوموں کے ساتھ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہے۔
ایرانی صدر مملکت نے بعض اسلامی ممالک کی حکومتوں کہ جو دہشتگردی کے مقابلے میں عراق اور شام کے عوام اور فوج کی کامیابیوں پر پریشان اور غم و غصے میں مبتلا ہیں، کہا کہ بعض اسلامی حکومتیں بجائے اسکے کہ شام کے مظلوم عوام، عورتوں اور بچوں اور زخمیوں اور حلب میں دربدر ہونے والے افراد کے لئے پریشان ہوں، دہشتگردوں کو حلب سے صحیح اور سالم باہر نکالنے کے لئے اور انکی سرنوشت کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں۔ ایرانی صدر نے پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت طیبہ کو ظلم کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات انکی عظمت اور پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور عالم اسلام کی نجات کی تنہا راہ بھائی چارے اور اتحاد میں مضمر ہے۔ اس ملاقات میں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے بعض شرکاء نے رہبر انقلاب اسلامی سے صمیمانی ملاقات اور گفتگو بھی کی۔