The Latest

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین رہنماؤں کے وفد نے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں شہید امجد صابری کے جنازہ میں شرکت کی اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اس موقع پر علامہ باقر عباس زیدی, علامہ علی انور, علامہ صادق جعفری ,سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی موجود تھے رہنماؤں شہید امجد صابری کہ جنازہ کے بعد میڈیا گفتگو میں کہنا تھا کہ وفاقی و سندھ حکومت نے کراچی آپریشن کے نام پر اربوں روپے جھونک دیے مگر نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف بنائے جانے والا نیشنل ایکشن پلان بھی ناکام نظر آتا ہے دوسری جانب جس آپریشن کا کپتان اپنی ٹیم منتخب کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہو وہ آپریشن کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ شہر قائد کو اجرتی قاتلوں اور شدت پسند مذہبی تنظیم کے غنڈوں نے یر غمال بنا رکھا ہے۔ جب تک اداروں اور حکومت میں موجود ذمہ داران اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک نہیں اتاریں گے اسوقت تک کراچی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیئے جاسکتے۔

اس موقع پر علی حسین نقوی نے کہا کہ کراچی میں کالعدم مذہبی تنظیم کے دھشتگرد کھلے عام دندناتے پھرتےہیں جب کہ قانون کا اطلاق صرف امن پسند مظلوم عوام پر ھورھا ھے۔ کراچی میں چیف جسٹس کے بیٹے کو دن دھاڑے اغوا کرلیا جاتا ہے مگر تین دن گزرجانے کے باوجود کوئی سراغ نہیں ملتا اگر یہ نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ رہنماؤں نیامجد صابری کی شہادت پر انکے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ امجد صابری پاکستان کا ایک اثاثہ تھے یہ محب وطن عاشق رسول (ص) و اہلبیت علیہ السلام تھے اور امجد صابری وحدت مسلمین کے داعی تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی. رہنما ؤں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ امجد صابری کے قتل میں ملوث سفاک دہشتگردوں کو فلفور کرفتار کیا جائیاور کالعدم ملک دشمن مذہبی شدت پسند تنظیموں بھر پور کاروائی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

پاکستان خودسے کب ملے گا؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کی معیشت کا حجم ڈھائی سو بلین ڈالر ہے۔ اس معیشت میں پچھلے آٹھ برس سے ساڑھے چار تا چھ فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر گذشتہ انہتر برس میں اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں ( بائیس ارب ڈالر سے زائد )۔ڈالر کے مقابلے میں روپے نے پچھلے تین برس سے مسلسل کمر باندھ کے رکھی ہوئی ہے۔رواں برس پاکستانی اسٹاک ایکسچینج براعظم ایشیا میں سب سے بہترین پرفارمر ہے۔پاکستان میں موجودہ شرحِ سود گذشتہ بیالیس برس میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح تین فیصد کے آس پاس ہے جس کے سبب اشیائے زندگی کے نرخوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔

اگلے مالی سال کے لیے جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، وہ پچھلے کئی عشروں میں سب سے زیادہ زراعت و صنعت دوست کہا جا رہا ہے۔گذشتہ تین برس کے دوران قومی گرڈ میں مزید ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ڈالی گئی ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ محض ہوائی نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ تک لوڈ شیڈنگ پر بہت حد تک قابو پا لیا جائے گا۔موجودہ حکومت کے معاشی اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آنے والے دونوں کے معاشی انڈیکیٹرز کے بارے میں سوچ کر آئی ایم ایف کا ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے امدادی پروگرام کا کشکول اگلے چند ماہ کے دوران توڑ دینے کے لیے بے چین ہے۔

امن و امان کے حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ضربِ عضب کے نتائج نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔پراپرٹی ، اسٹاکس اور صنعتی سیکٹر میں جنبش محسوس ہو سکتی ہے۔ملکی معیشت کا انجن یعنی کراچی پھر سے ہارن بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا ہے۔مڈل کلاس  کی جیب میں پیسہ اچھل رہا ہے تو ریسٹورنٹ اور ہوٹل انڈسٹری بھی انگڑائی لے رہی ہے۔

یہ سب اس سب کے باوجود ہے کہ کرپشن کا زور اب تک نہیں ٹوٹا ، سیاسی حکومت تین برس بعد بھی خود کو تنے ہوئے رسے پر محسوس کر رہی ہے اور حزبِ اختلاف ہو کہ اسٹیبلشمنٹ ، بدلتے علاقائی حالات سمجھنے کے لیے سرنگی بینائی ( ٹنل ویژن ) کو بصیرت سمجھنے پر بضد ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اتنے حوصلہ افزا اقتصادی انڈیکیٹرز کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔گذشتہ نو ماہ کے دوران پاکستان میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ ملا اور وہ بھی پہلے سے موجود آٹوموبیل اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری وغیرہ میں۔

پاکستان کی تمام تر توجہ اس وقت پندرہ برس کے دورانئیے پر پھیلے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے کی طرف ہے۔اور بے یقین و مشکوک فیصلہ سازوں کو یوں لگ رہا ہے، گویا تمام ہمسائیہ ممالک اور امریکا پاکستان  کے گرد گھیرا تنگ کر کے اس منصوبے سے محروم کرنا چاہتے ہیں یا ہتھیانا چاہتے ہیں۔ہر طرف سازشوں کے جال تنے ہیں۔کون دوست ، کون دشمن ، کون دوست نما دشمن ؟  کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔بس جو ہو رہا ہے غلط اور خلاف ہی ہو رہا ہے۔

مزے کی بات ہے کہ دو برس پہلے جب چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے بارے میں صرف باتیں ہو رہی تھیں تو پاکستان خود کو اتنا تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا۔اقتداری کاریڈورز میں کچھ ایسی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ بس عالمی پابندیاں اٹھنے کی دیر ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن گیم چینجر بن جائے گی۔وسطی ایشیا سے ٹیپی ( ترکمان۔افغان۔پاک۔انڈیا ) گیس پائپ لائن آئے گی اور بجلی بھی اور جنوبی و وسطی ایشیا کی منڈی یکجائی کے خوشحال سفر پر روانہ ہو جائے گی۔

لیکن کل کے ممکنہ ساجھے دار آج کے دشمن نظر آ رہے ہیں۔پہلے صرف بھارت سے مسلح تصادم کی تاریخ تھی، اب افغانستان سے بھی مسلح جھڑپوں کی روایت پڑ گئی ہے۔جب تک یاریاں اور مفادات و امکانات تھے تب تک پاک افغان بارڈر ہو کہ پاک ایران سرحد ’’ حسابِ دوستاں در دل ’’ والا معاملہ تھا۔اب یہ ہے کہ سب سے پہلے بارڈر کنٹرول ، اس کے بعد کچھ اور۔

بارڈر کنٹرول یقیناً قائم ہونے چاہئیں تاکہ ناپسندیدہ عناصر کی آمد جامد اور غیر قانونی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔لیکن بارڈر کنٹرول احساس ِ عدم تحفظ  یا معاندانہ جذبے کے زیرِ اثر قائم کرنے کا مطلب اپنے خول میں سمٹنے جیسا ہے۔طورخم گیٹ چاہ بہار سمجھوتے سے پہلے قائم ہو جاتا تو معمول کی بات ہوتی۔لیکن اس کی تعمیر میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد سے غیر معمولی جلدی مچانا معمول کی بات نہیں۔ایران برسوں سے کہہ رہا تھا کہ تافتان پر بارڈر کنٹرول کے لیے پاکستان بھی گیٹ قائم کرے مگر پاکستان دوستانہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔اب پاکستان ازخود تافتان پر گیٹ بنا رہا ہے جس کا افتتاح چودہ اگست کو ہو جائے گا۔

حالانکہ بے چین چین کو ہونا چاہیے جو اربوں ڈالر کا سرمایہ لا رہا ہے۔مگر چین خاصا پرسکون ہے۔جو ممالک پاکستان کے خیال میں پاکستان  کا گھیراؤ  کر رہے ہیں، ان سب سے چین کے بہت اچھے عامل تجارتی تعلقات ہیں۔مثلاً بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے کوشاں امریکا چین کا سب بڑا اقتصادی پارٹنر بھی ہے۔خود بھارت تمام تر جھگڑوں اور مسابقت کے ہوتے چین کا دسواں بڑا اقتصادی پارٹنر ہے۔چین کی پاکستان سے جتنی دو طرفہ تجارت ہے اس سے تین گنا تجارت ایران کے ساتھ ہے۔

پاکستان کو خوف ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک کلیدی رول دینے  کے لیے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور بھارت اپنے سافٹ پاور امیج سے افغانیوں کے دل جیت رہا ہے۔ مگر چین کو افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ایسا کوئی خوف نہیں۔وہ افغان مسئلے کے حل کے لیے کوشاں چہار ملکی گروپ کا عامل فریق بھی ہے ، افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس کے تمام افغان فریقوں سے تعلقات بھی پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔

تو پھر پاکستان پر  اچانک اپنے گھیراؤ کا اتنا خوف کیسے طاری ہوگیا ؟ اگر واقعی یہ خوف حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ہر سمت ہاتھ پاؤں چلانے اور بار بار ’’ہم کسی سے کم نہیں’’  کی تکرار کیا دنیا کو سنانے  کے لیے ہے یا اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے ہے۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان پہلے تو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پئے۔پھر کچھ گہرے گہرے سانس لے کر اعصاب نارمل کرے اور پھر سوچے کہ اب تک اس سے کیا اچھا کیا برا سرزد ہوا۔اس کی خواہشات کیا ہیں اور وسائل کتنے ہیں۔کہیں اس کی خواہشات وسائل سے زیادہ تو نہیں ؟ اسے اپنی بقا کی جنگ معاشی اسلحے سے لڑنی ہے یا پھر ادھاری دساوری بندوق سے ؟ چین جو اس وقت واحد طاقتور دوست ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اتنی ٹینشن میں نہیں اور ہم اس کے سائے میں بیٹھنے کے باوجود اس قدر ٹینشن میں ہیں ؟ کیا چین کو ہماری طرح معاملات کی نزاکت کا ادراک نہیں یا پھر ہم نرگسیت کی دلدل میں  دھنستے  چلے جا رہے ہیں؟

یہ جائزہ معقولیت کی نگاہ سے تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کی خود سے ملاقات کا بندوبست ہو۔کوئی بتائے گا کہ ستر برس میں پاکستان کی اپنے سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟
متعصب ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے تکفیری افسران کے ہاتھوں لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار ہونے والی پاکستانی شہری سیدہ مسرت بانو رہا ہوگئیں، جبکہ انکی رہائی سے ریاستی اداروں میں چھپے تکفیری افسران کی سازشیں بھی ناکام ہوگئیں ،جبکہ یوں کہا جائے وہ ذلیل و خوار ہوگئے کہ جنہوں نے آل رسول (ص)  میں سے ایک سید زادی پر دہشتگردی اور فرقہ ورانہ فسادات کروانے کا بے بنیاد اور بھونڈا الزام لگایا تھا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان

بھوک ہڑتال کیوں ۔۔۔ ؟؟؟؟؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) عالمی استکباری صہیونی ایجنڈے کے مطابق یہ نااہل کرپٹ اور ظالم حکمران اور بعض اداروں میں موجود کالی بھیڑیں مملکت خدادادِ پاکستان کو ناامنی ، تباہی و بربادی کی آخری حد تک پہنچا چکے ہیں۔ جس کے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔پاکستان میں کراچی سے پارا چنارتک شیعہ ،سنی ،عیسائی،ہندواور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے عدم تحفظ اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی۔
۲۔تکفیریوں کا نام بدل بدل کر بھارت و اسرائیلی پلان کے مطابق ملک دشمن و اسلام دشمن سرگرمیوں کی ،ریاستی سرپرستی و حوصلہ آفزائی جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی رسومات  جیسے جشن میلاد،اذان میں درود و سلام ،  عزاداری کی مجالس اورجلوسوں میں حکومت کی طرف سے ناروا رکاوٹیں۔
۳۔ملک کے بعض علاقوں مثلاً پاراچنار و گلگت میں لوگوں کے ہزاروں ایکڑ رقبہ پر حکومت کے قبضے اورآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی حکومتی سازش۔
۴۔اسرائیلی و استکباری اشاروں پر بننے والے نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کے بعد، مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش ۔
۵۔کراچی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان، پشاور اور پارا چنار میں بے گناہ لوگوں(سیاسی و مذہبی شخصیات ، ڈاکٹرز، انجینئرز،ججز،وکلاء ، پروفیسرز، نمازیوں اور عزاداروں ) کے قتل عام روکنے میں حکومتی عسکری اداروں کی ناکامی، اور فورسسز میں موجود بعض کالی بھیڑوں( جیسے پارا چنار میں کمانڈنٹ ملک عمر) کے حکم پر بے گناہ عوام پر فائرنگ و قتل عام ریاستی و عسکری اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے سینکڑوں پریس کانفرسوں ، احتجاجوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کے بعدہم نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔
    
قارئین محترم ؛آپ گواہ ہیں کہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تعصب کی اندھی آگ میں یہ ملک جل کے راکھ ہو سکتا ہے،اگر حکمرانوں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہر سو دہشت و وحشت راج کرے گی،بد قسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ،ڈیرہ اسماعل خان میں جہاں کچھ عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ رک گئی تھی ایک بار پھر اس فتنے نے پورے زور کیساتھ سر اٹھا لیا ہے،اور اب دن دیہاڑے ،کھلے عام ،بھرے بازاروں اور پولیس چیک پوسٹس کے سامنے اہل تشیع کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،انہیں چن چن کے مارا جاتا ہے 19مارچ کے دن ایک شیعہ پولیس کانسٹیبل اظہر حسین کو شہید کیا گیا،اس کے بعد 22مارچ کو ایک امام بارگاہ کے متولی ایڈووکیٹ سید رضی الحسن کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں نے سر میں گولیاں مارکے شہید کیا گیا،جس کی سی سی کیمرہ فوٹیج میں نمایاں طور پہ دیکھاجا سکتا ہے،معلوم ہوا ہے کہ اس واردات کے مرتکب قاتلوں کو شہر میں لگے ہوئے چالیس کیمروں میں دیکھا گیا ہے پھر بھی کسی نے زحمت نہیں کی کہ دہشت گردوں کی تصویریں جاری کرتے تاکہ ان کو پہچان کے نشاندہی کی جا سکتی،اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ 5 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی دو مختلف وارداتوں میں ایک پروفیسر اختر علی،ایک ٹیچر مختیار بلوچ اور دو ایڈووکیٹس عاطف علی اور علی مرتجز کو سرکلر روڈ پر نشانہ بنایا گیا یہ دونوں وارداتیں چند منٹوں کے وقفے سے ہوئیں،ایک ہی دن چار پروفیشنلز کا قتل کسی قومی سانحہ سے کم نہیں تھا،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں 3اپریل کو جامعہ کراچی سے فزکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ہاشم رضوی کو نشانہ بنایا گیا،8  اپریل کو دو مومنین شاہد حسین اور علی سجاد کو ٹارگٹ کیا گیا،8 اپریل کو ہی سول سوسائٹی کے معروف قومی کارکن خرم ذکی کو نشانہ بنایا گیا خرم ذکی نے تکفیری قوتوں کو نتھ ڈالی ہوئی تھی اور ان کے خلاف توانا آواز بن چکے تھے،انہیں شدید جانی خطرہ تھا مگر سند ھ کی نااہل حکومت نے انہیں کسی قسم کی سیکیورٹی نا دی جس کا فائدہ دہشت گرد گروہ نے اٹھایا آخر انہیں ہم سے چھین لیا،خرم ذکی کو جن لوگوں سے خطرہ تھا وہ بہت ہی واضح تھے لہذا ن کیخلاف ہی ایف آئی آر کٹوائی گئی مگر نہایت افسوس کہ حکمران ان قاتلوں کو لگام ڈالنے کے بجائے انہیں کھلا چھوڑ رہے ہیں ، قاتل سرکاری گارڈز کی معیت میں پورے ملک میں گھومتے پھرتے ہیں ،جلسے جلوس کرتے ہیں،للکارتے ہیں،روزانہ نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ نکالتے ہیں اور اسے پائوں میں روندتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیںپوچھتا،خرم ذکی کا غم اور دکھ ابھی تازہ تھا کہ پاراچنار میں معصوم اور بے گناہ مومنین کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،امام حسین ؑ کے جشن ولادت کے عنوان سے جانے والے علما ء کو کرم گیٹ پر روک کر بری طرح ضدوکوب کیا جاتا ہے اس پر جب قبائلی احتجاج کرتے ہیں تو ایف سی کے متعصب اہلکار سڑک پر پرامن طور پہ بیٹھے عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ،تین مومنین شہید اور دس سے زائد زخمی ہوتے ہیںجنہیں ایف آئی آرز میں نامزد کیا جاتا ہے،یہ ظلم اور تشدد کسی بھی قوم و معاشرے کی تباہی کیلئے اور لوگوں کو بغاوت کیلئے تیار کرنے کیلئے کافی ہے مگر اس کے باوجود ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو زحمت اور سختی کا شکار کیا ہے ، اگر ہم اس ملک کے وفادار نا ہوتے تو تخریب کا راستہ اختیار کرتے ،اس ملک کے دشمنوں کی طرح خود کش دھماکے کرتے،بم چلاتے،فورسز کو نشانہ بناتے ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے مگر مکتب تشیع جو آئمہ کا مکتب ہے جو اہلبیت کا مکتب ہے جو کربلا کا مکتب ہے ہمیں اس کا درس نہیں دیتا ہم نے دنیا تک اپنے آواز پہنچانے کیلئے باوقار تہذیب یافتہ اقوام کا راستہ منتخب کیا ہے،ہم اس سے قبل جلوس نکال چکے،ریلیاں نکال چکے،دھرنے دے چکے،حتیٰ کہ لانگ مارچ کا تجربہ بھی کر چکے ،اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ دنیا ہماری آواز کو دبانہ سکے،ہمیں نظر اندازنہ کر سکے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیرالحسن کربلائی

وحدت نیوز(ٹھٹھہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹھٹھہ کی شوری کا اجلاس حسینی مسجد میں ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ کی صدارت میں ہوا۔ جس میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے 41 دن سے جاری بھوک ہڑتال پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان کی صحت و سلامتی اور توفیقات میں اضافے کے لئے دعا کی گی، جس کے بعد اجلاس کا باقاعدہ کاروائی شروع کی گئی۔

ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ نے گذشتہ روز صوبائی اجلاس کی کاروائی سے کابینا کو آگاہ کیا۔ اور اپنی باقی کابینہ کا بھی اعلان کیا جس میں سیکریٹری شعبہ نشر واشاعت کے لئے برادرخلیل الرحمان کھتری اور شعبہ تعلیم کے لئے برادر سجاد حسین رند کو منتخب کیا۔ پوری کابینہ نے انہیں مبارکباد پیش کی۔ ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ  نے کہا کہ عام پاکستانی کے لئے دو وقت کی روٹی مسئلہ بن گئی ہے پانی کا بحران سرچڑھ رہا ہے انرجی نام کی چیز ملک سے رخصت ہورہی ہے ایک مخصوص سوچ کو پاکستانیوں پر مسلط کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ہم اس صورتحال میں خاموش نہیں رہ سکتے ہم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں ملکی سلامتی کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہیں ہماری پر امن تحریک کو پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے ہم اپنی مظلومیت سے ظلم کا مقابلہ کریں گے اورمخصوص فرقہ اور مخصوص سوچ کے ہاتھوں قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو یرغمال نہیں ہونے دیں گے۔

صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ دوست علی سعیدی نے بھی ضلعی اجلاس میں خصوصی شرکت کی اور انہوں نے کہا کہ یہ ٹھٹھہ کی خوش قسمتی کہ اچانک میری آمد ہوئی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستاب وہ واحد جماعت ہے جو بلاتخصیص مذہب ومسلک ، رنگ ونسل وطن عزیزکے محروموں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری جیسا شجاع اور نڈرلیڈر ملت جعفریہ کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں، پاکستان کے اہل تشیع نہ صرف دہشت گردی کا شکار ہیں بلکہ حکومتی مظالم نے بھی ان کے لیے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اس دوران انہوں نے امام حسن مجتبیٰ کی ولادت کی مبارکباد دی اور کچھ منٹ جشن محفل خطاب کیا۔ بعد ازاں ضلعی کابینہ کی طرف سے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ دوست علی سعیدی کو ضلعی سیکریٹری جنرل سید اسداللہ شاہ نےاجرک کا تحفہ پیش کیا گیا آخر میں دعائے خیر ادا کی گئی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کا مقصد علامہ ناصر عباس جعفری کی حمایت اور کراچی میں معروف قوال امجد صابری کے بیہمانہ قتل کی مذمت کرنا تھا۔ ریلی میں خواتین اور بچوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر امجد صابری کی یاد میں شمعیں روشن کی گئی اور ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں مشعلیں اٹھا رکھیں تھی۔ ریلی کی قیادت علامہ حسن ظفرنقوی نے کی۔ شرکاء سے خطاب میں علامہ سید حسن ظفر کا کہنا تھا کہ ہماری پرامن جدوجہد مثالی ہے اور تاریخ میں ہم نے نام رقم کردیا ہے کہ ملت تشیع ایک پرامن قوم ہے، کوئٹہ میں 150 سو جنازے پڑے تھے تب بھی ہم نے ایک پتہ تک نہیں توڑا تھا اور آج بیالیس روز سے بھوک ہڑتال پر ہیں تو کوئی امن و امان کی صورتحال کا مسئلہ نہیں بننے دیا۔

وحدت نیوز (کراچی) عالمی شہرت یافتہ پاکستانی قوال امجد صابری کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کی جانب سے مسجد شاہ خراسان سے نمائش چورنگی تک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور علامتی دھرنہ دیا گیا۔ اس موقع پر علماء کرام، عہدداران اور کارکنان کی بڑی تعداد شریک تھی۔ شرکاء نے امجد صابری کے مظلومانہ قتل اور حکومتی نااہلی کے خلاف بینر اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرے کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی، علامہ عقیل موسیٰ، علامہ نشان حیدر، صغیر عابد رضوی، سہیل عباس، ناصر حسینی سمیت دیگر نے کی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ امجد صابری کو حب اہلبیت اطہار علیہم السلام کی سزا دی گئی ہے، دہشت گردوں نے اس ملک کو تختہ مشق بنا رکھا ہے، آئے دن بے گناہ مظلوم شہریوں کو دن دیہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے، حکومت اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، کراچی جیسے پررونق شہر کو دہشت گردوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہ بنایا ہوا ہے، اسی طرح پنجاب بھر میں لشکر جھنگوی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں آزادانہ طور پر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو حکومت اپنے مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، حاکمیت کے شوقین حکمران عوامی مشکلات سے انجان بنے بیٹھے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت بدنیتی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اگر کالعدم مذہبی تنظیموں کے خلاف ملک بھر میں بھرپور کارروائی کی جاتی تو آج وطن عزیز میں کافی حد تک امن قائم ہو جاتا، یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی مسلح کارروائیوں کی پیچھے کالعدم مذہبی تنظیموں کا ہاتھ ہے، جب تک یہ ہاتھ نہیں کاٹے جاتے، تب تک بے گناہ لاشیں گرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کراچی میں جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کا اغوا اور امجد صابری کا قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے، دہشت گرد عناصر نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ صوبائی رہنما ایم ڈبلو ایم نے مطالبہ کیا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں کالعدم مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے، ان مدارس کو بند کیا جائے، جہاں تکفیر کا درس اور وطن عزیز کے خلاف نفرت کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ مظاہرین نے امجد صابری کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سربراہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک مذمتی بیان میں کہا ہے کہ ملک کے نامور نعت خواں، منقبت خواں اور قوال امجد صابری کی شہادت دہشتگردوں، کلعدم جماعتوں کو کھلی چھوٹ دینے اور ان تکفیری دہشتگردوں کے خلاف ملک گیر آپریشن نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان میں کراچی جیسے اہم شہر میں اس شخصیت کا قتل ہونا سکیورٹی اداروں کی ناکامی اور دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن پر کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔ امجد صابری جو کہ عاشق رسولؐ اور محب اہلبیتؑ تھے ان کی شہادت تکفیری دہشتگردوں کی سیاہ کاریوں کا تسلسل ہے، جو ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔

آغا علی رضوی کہا کہ سکیورٹی ادارے کب بے گناہوں کے قاتلوں اور تکفیری دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ملک بھر میں دہشتگردی میں ملوث کلعدم جماعتوں کی پشت پناہی کا سلسلہ حکومت کی جانب سے کب ختم ہوگا۔ کب دہشتگردوں کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کی جائے گی اور کب ان کے خلاف ملک گیر آپریشن کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امجد صابری کو شہید کر کے مدحت محمد و آل کو روکنے کی یزیدی کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ امجد صابری نے نہ صرف نعت گوئی، منقبت خوانی اور قوالی کو معراج عطا کی بلکہ وہ میڈیا پر عملی طور پر امن و محبت کی پرچار کرتے رہے اور تکفیری نظریات کی بیخ کنی کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ دہشتگردوں اور تکفیریوں کے نظریات کی مخالفت کرتے رہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انکے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے۔

وحدت نیوز(کراچی)شہر قائد کے علاقے لیاقت آباد میں گاڑی پر موٹر سائیکل سوارتکفیری  دہشتگردوں کی فائرنگ سے عالمی شہرت یافتہ قوال امجد صابری شہید  ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق لیاقت آباد نمبر 10 میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے امجد صابری کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں امجد صابری زخمی ہوئے، جنہیں تشویشناک حالت میں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ امجد صابری کو چہرے اور سینے پر گولیاں لگی ہیں، تاہم سینے پر لگنے والی گولی انکے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قوال امجد صابری ٹی وی پروگرام میں شرکت کیلئے جا رہے تھے کہ گھات میں بیٹھے نامعلوم حملہ آوروں نے انکی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی۔

فائرنگ کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امجد صابری کی رہائش بھی اسی علاقے میں واقع ہے اور وہ ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کیلئے ڈرائیور کے ہمراہ جا رہے تھے کہ گھر سے 2 کلو میٹر دور ہی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ گاڑی میں امجد صابری کے ہمراہ انکے بیٹے اور بھتیجے بھی موجود تھے، تاہم وہ فائرنگ سے محفوظ رہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ امجد صابری کی گاڑی پر 11 گولیاں فائر کی گئیں، جبکہ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امجد صابری کو 6 گولیاں لگی ہیں۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے نامور قوال امجد صابری کی ٹارگٹ کلنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے کالعدم جماعتوں کی کارستانی قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات حکومت کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں تساہل پسندی کا نتیجہ ہیں۔ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔حکومتی صفوں میں دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی موجودگی ایسے واقعات کا باعث ہے جب تک ریاستی اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کا صفایا نہیں ہوتا تب تک دہشت گرد اسی طرح معصوم جانوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔انہوں نے کہا امجد صابری کو محب اہلبیت ہونے کی سزا دی گئی ہے۔ایک مصروف شاہراہ پر قتل کی یہ واردات قانون نافذ کرنے والوں کی نا اہلی اور لاپرواہی کی بدترین مثال ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امجد صابری کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دی جائے۔علامہ ناصر عباس نے مرحوم کی بلندی درجات اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے ایڈوکیٹ اویس سجاد کی پرسرار گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ماضی میں اس طرح کے واقعات میں کالعدم مذہبی جماعتیں ملوث رہی ہیں۔جب تک ان کالعدم جماعتوں کا مکمل صفایا نہیں ہوتا تب تک قانون و انصاف کی بجائے ظلم و بربریت کا راج رہے گا۔ملک دشمن عناصر نے ہائی کورٹ کے جسٹس کے بیٹے کو اغوا کر کے عدلیہ پر حملہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی گرفت تاحال مضبوط ہے اور انہیں کسی بھی شخصیت تک بآسانی رسائی حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر سندھ حکومت دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرتی اور کالعدم جماعتوں کو پنپنے کا موقعہ فراہم نہ ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ ملک میں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے باعث ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داریاں مزید چوکس رہ کر ادا کرنا ہو گئیں۔ اویس سجاد کی بازیابی کے لیے سندھ حکومت کی طرف سے فوری اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree