The Latest

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

وحدت نیوز (آرٹیکل) رواں سال اگر شرمین عبید چنائی نے آسکر جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا تو ہمارے حکمران اور کر کٹ ٹیم بھی کسی سے پیچھے نہ رہ سکی۔ ٹیم نے انڈیا سے ہارنے کا ریکارڑ بر قرار رکھا تو دوسری جانب حکمران طبقہ کرپشن میں بازی لے گیا۔ ہم اور ہمارا ملک خوش نسیب ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے انتہک محنت سے پاناما لیکس کی ٹاپ ٹن شخصیات میں اپنا نام درج کرایا۔

پاناما لیکس نے ساری دنیا میں ہنگامہ خیز انکشافات سے تہلکہ مچایا ہوا ہے دنیا بھر کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیات کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

اس کے علاوہ وزرا، جج صاحبان ناجانے کن کن لوگوں کا نام شامل ہیں جن کی اپنی ایک فہرست ہے ان سب کو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مر جانا چاہیے خصوصا حکمرانوں کو جن کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، ملک کی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہیں، عوامی حقوق کا خیال رکھتیں ہیں اور بھاری مینڈیٹ سے یہ ایوانوں میں آتے ہیں فرض کریں اگر یہ بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہوئے ہیں اور جمہوریت اور آئین و پاکستان کا ان کو اتنا ہی خیال ہے بلکہ ان کو اگر اپنی عزت کا ہی خیال ہے تو چاہیے کہ وہ مستعفیٰ ہوں یا کم سے کم اس کیس کی تحقیقات ہونے تک کنارہ کشی اختیار کریں جب تک اس معاملہ کا کوئی راہ حل نہیں نکلتا یا اس کیس کا شفاف تحقیقات مکمل نہیں ہوتا، لیکن سب اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائےصفائیاں دینے میں مصروف ہے ۔

ہمارے حکمران اور عوام یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ پاناما پیپر ز نے تو کچھ ہی شخصیات اور خاندان کا زکر کیا ہے، پاناما لیکس نے ڈاکومنٹس کی تعداد میں اب تک کی تمام لیکس کے رکارڑ توڑے ہیں لیکن اگر تحقیقاتی ٹیم صرف پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کی تحقیقات کرے تو پاناما کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔

پاکستانی عوام کے لئے پاناما لیکس کوئی نئی بات نہیں ہے یہاں کا ہر بچہ بچہ جانتا ہے کہ چپڑاسی سے لیکر اوپر تک کرپٹ ہیں، کسی اچھے ڈاکٹر سے روجوع کرنا ہو، یونی ورسٹی ،کالج اسکول میں داخلہ کرانا ہو،روزگار کی تلاش ہوچاہے وہ حکومتی ہو یا سول ادارے، بینک میں بل جمع کرانا ہو، امتحان میں نقل کرانا ہو، جعلی ڈگری نکلوانی ہو، ٹھپہ مارنا ہو غرض کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کروانا ہو تو کرپشن، رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر سب کچھ ممکن ہیں۔

ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ ہر تیسرا فرد غربت کا شکار ہے، بیروزگاری کی شرح پڑے لکھے لوگوں میں زیادہ ہے،اسکول نہ جانے والے صرف پانچ سے نو سال کے عمر کے بچوں کی تعداد ۶۸ لاکھ ہیں، صحت کا تو کوئی پرسانے حال نہیں ہے اور ۶۵ ارب دس کروڈ ڈالر کا مقروض ہے۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کو اس ملک کے باشندوں پر رحم نہیں آتا۔

ان حکمرانوں اور کرپٹ لوگوں کو عوام اور پاکستان پر رحم نہیں ہے تو ان کو اپنے آپ پر رحم کرنا چاہیے کہ روز قیامت وہ ان آف شور کمپنیوں کا حساب کتاب کہاں سے دیں گے، غریب عوام کے لوٹے ہوئے پیسوں کا حساب کہاں سے دیں گے، بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کا حساب کہاں سے دیں گے؟؟ کیا ان حکمرانوں اور کرپٹ لوگوں کو ان غریب عوام کے بارے میں خیال نہیں آتا؟ کم سے کم لوٹے ہوئے پیسوں کو ملک سے باہر تو نہ لے جائیں اگر ان کی سرمایہ کاری پاکستان میں ہی کریں تو لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے لاکھوں فاقوں سے بچ سکتے ہیں، پاکستان کا ہر بچہ تعلیم یافتہ اور ملک مستحکم ہو سکتا ہے پاکستان کی ترقی ہو سکتی ہے۔ ستم ظریفی کی حد ہے کہ یہ کرپٹ لوگ اپنے آپ کو سب سے زیادہ محب وطن اور عوامی نمائندہ تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ان ہی نام و نہاد حکمرانوں سے پہنچا ہے۔

ان سب کا یہ مقصد یا مفہوم نہیں کے پاکستان لاوارث ہے یا یہاں کوئی قانون آئین نہیں الحمد اللہ ہمارے یہاں آئین بھی ہیں قانون بھی ہے صرف ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے جس دن ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کریں اور اپنے اپنے زمہ داریوں کا احساس کرنا شروع کریں اور اپنی غلطیوں کا احساس کریں، یا کم سے کم اپنی زاتی زندگیوں کو سکون سے گزارنے کے لئے اصول و قانون کا احترام اور ان پر عمل کرنا شروع کریں تو پھر لوٹ مار، غربت، تعلیم، صحت تمام تر مشکلات حل ہو سکتیں ہیں۔ چھوٹی سی مثال اگر ہم کسی سگنل پر کھڑے ہوں اور اشارہ بتی لال ہوں تو ہمیں روکنا چاہیے سگنل پر روکنے کے دو اہم فائدے ہیں ایک زاتی اور ایک اجتماعی۔ زاتی فائدہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ حادثہ سے بچ سکتے ہیں اور اجتماعی یہ کہ حکومتی اصول و قوانین کی پاسداری یعنی کہ قانون پر عمل اور ملک کی قانون کا احترام۔ قانون پر عمل کرنے سے زاتی بھی فائدہ ہوا اور اجتماعی بھی اسی طرح ہر محکمہ میں انسان اپنے فرض کو احسن طریقہ سے نبھاے تو ملک کو درپیش مسائل چند سالوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔ ویسے تو ملک کے اندر ہزاروں اسکینڈلز، ہزاروں کیس عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں جو کھبی سیاسی نظر ہوتی ہے تو کبھی مزہبی اور کبھی شخصی بھر حال اب پاناما پیپز نے دنیا کو ہلا کر دکھ دیا ہے، آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے بھی اسعفیٰ دے دیا ہے اور برطانوں وزیراعظم کی کرسی کو بھی خطرہ ہے، ادھر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی بوکھلاہٹ میں اپنی صفائی پیش کی ہےاور اس وقت وہ بیمار بھی ہوئے ہیں اور لندن جانے کی تیاریاں ہو رہی ہے لیکن یہ نہیں معلوم وہ علاج اپنا کرائیں گے یا پاناما پیپر کا۔ لیکن اس وقت یہ انتہائی خوش آئین بات ہے کہ پاناما پیپرز پر تمام اپوزیشن ارکان بھی متفق ہیں تو قانون نافظ کرنے والے اداروں اور ان کیسیس کے ذمہ دار اداروں کو چاہیے کہ وہ اس کیس کی شفاف طریقہ سے تحقیقات کروائیں اور اس لسٹ میں موجود تمام لوگوں کو عدالت کے کٹھرے میں کھڑا کریں اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوٹیروں کے خلاف متحد ہوں اور ان پر نظر رکھیں کہی دوسرے کیسوں کی طرح کچھ دن بعد یہ کیس بھی فائلوں تلے دب نہ جائے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ناصررینگچن

وحدت نیوز (ہری پور) یونیورسٹی آف ہری پور میں ایک روزہ بین المسالک ہم آہنگی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں ضلع بھر سے مختلف مسالک کے علمائے کرام نے شرکت کی۔اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبرپختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ وحید عباس کاظمی نے بھی خصوصی شرکت کی اور شرکاءسے خطاب کیا۔ مقامی غیر سرکاری تنظیم سپارکو کے زیر اہتمام منعقدہ ایک روزہ سیمینار میں معروف کالم نگار خورشید ندیم مہمان خصوصی تھے، اس موقع پر علماء کا کہنا تھا کہ اتحاد و حدت ہی امت مسلمہ کے تمام مسائل کا پائیدار حل ہے۔ آپسی فروعی مسائل کو بھلا کر امت مسلمہ کی عظمت و بلندی کے لئے تمام مسالک کو بلاتفریق اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مسلمانوں کی دشمن طاقتیں اس وقت امت کے مابین موجود تفرقات کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ دشمن کی تمام چالوں کو ناکام بنانا ہوگا، عالمی سطح پر بھی مسلمان ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اسلام کی سربلندی اور عظمت کا باعث بنیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) آج کل گلگت بلتستان کے کونسل انتخابات میں بعض امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبرٰ گردش کررہی ہے تو چاہا کہ اس حوالے سے تاریخی صفحات پر ذرا نظردوڑائی جائے کی کس سیاسی رہنما نے کتنی پارٹیاں تبدیل کی سیاسی وپارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں

حاجی فدا محمد ناشاد: موجودہ سپیکر وسابق چیف ایگزیکٹو گلگت بلتستان اسمبلی

 انتخابات میں

1994 میں پی پی  .

۔ ق لیگ2005

2009 ن لیگ

یوں گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں پارٹی وفاداری تبدیل کرنے کاسب سے بڑا  سہرا ناشاد صاحب کے سر سجتاہے

: حجۃ الاسلام والمسلمین سید عباس رضوی ( صوبائی صدر شیعہ علماٗ کونسل ورکن جی بی کونسل

 1994   سے2005 تحریک جعفریہ

2005 ق لیگ

2015 دوبارہ تحریک جعفریہ

یوں شیعہ علماء کونسل کے موجودہ صوبائی صدر و موجودہ جی بی کونسل کے رکن  کو بھی سیٹ کی خاطر 2004اور 2015 میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا اعزاز حاصل ہے

ملک مسکین: 2005 کو ق لیگ کی ٹکٹ پر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوا 2009 میں دوبارہ ق لیگ کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ناکام ہوا جبکہ 2015 میں کونسل کی سیٹ کی خاطر ن لیگ میں شمولت اختیار کی لیکن نصیب نے ساتھ نہیں دیا

حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد علی شاہ

  1994 کو تحریک اسلامی کی ٹکٹ پر تمام تر مذہبی وسائل بروے کا لاکر کامیاب ہوا 2005 میں ق لیگ کی طرف سے رکن اسمبلی منتخب ہوا  2009 میں پی پی  اور 2015 میں ن لیگ میں جاکر مذہبی رہنماوں میں سب سے زیادہ پارٹی تبدیل کرنے والوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا

5:وزیر شکیل احمد : 1994 سے 2005تک تحریک اسلامی (تحریک جعفریہ) 2009 میں پی پی اور پھر اب قانون کے رکھوالے جج کے منصب پر( اس سے پہلے انکی خاندانی سیات کا آغاز پی پی سے ہوتا ہے جبکہ 2015 کے انتخابات میں ان کی جگہ وزیر سلیم نے مجلس وحدت کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لیا

6: غلام حسین سلیم 1994 سے 2005تک تحریک اسلامی ، 2005 ٹیکنوکریٹس کی لالچ میں ق لیگ اور وہ بھی نصیب نہیں ہوئی  اور پھر 2009  کونسل کی سیٹ کے لے پی پی میں شامل ہوے یوں لسان وترجمان ملت کے دعویدار اپنے ذاتی مفادات کے لے تمام تر حدود کو کراس کرگے

اسی طرح موجودہ گورنر غضنفر علی خان، عمران ندیم ،سکندر ، حاجی اقبال ، ابراہیم ثنائی ،اکثر سیاسی نماینوں کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے اور سیاسی خیانت کاریوں کا اعزاز حاصل ہے اسی طرح جی بی کونسل کے انتخابات میں بھی اپنے ووٹ فروخت کرنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن کسی مذہبی وسیاسی پارٹی نے پارٹی وفاداری تبدیل کرنے یا ووٹ فروخت کرنے والے کسی فرد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور صرف اخباری بیانات پر اکتفا کیا ۔

لیکن مجلس وحدت مسلمین پاکستان 1994 سے 2015 تک کی جی بی اسمبلی کی تاریخ میں واحد جماعت ہے جس نے اپنے نمایندے کو وفاداری تبدیل کرنے کی بناپر پارٹی رکنیت معطل کی اور فوری ایکشن لیا    جوکہ سیاسی تاریخ میں ایک اہم قدم ہے ۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین شہر قائد کے تمام ضلعی دفاتر میں چراغاں و محفل میلاد جشن ولادت علی علیہ السلام منقبت خوانی کے محافلوں کا انعقاد کیا گیا جبکہ صوبائی سیکرٹریٹ وحدت ہاؤس نمائش چورنگی سولجر بار میں جشن مولود کعبہ کے حوالے سے محفل منعقد کی گئی جس سیے خطاب میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تیرہ رجب المرجب مرجب کی مبارک تاریخ مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت سے منصوب ہے آپ نے آج ہی کے دن اللہ گھر یعنی خانہ کعبہ کے اندر دنیا کو نور امامت سے منور فرمایا اور آنکھ کھولی تو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش مبارک میں اور یوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ختم رسالت اور آغاز امامت کی نوید دے کر کفر و شرک نفاق کے خلاف اس عظیم تحریک میں شامل ہونے کا گویا اعلان کردیا کہ جس کا آغاز حضرت اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سرزمین حجاز پر شروع کرچکے تھے اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی آغوش مبارک میں پلنے والا بچہ ہی تھا کہ جس نے بھرے مجمع میں آپ کی رسالت کی تصدیق کی اور تبلیغ رسالت کے ہر مرحلے میں آپ کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا اور جواب میں آنحضرت (ص)نے بھی آپ کو اپنا وصی وزیر اور جانشین مقرر فرمایا چنانچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے عہد کو بخوبی نبھایا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد نے کار رسالت کو آگے بڑھانے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔اس کے برعکس ناصبی ٹولہ جو بغض علی علیہ سلام کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح عام عوام کو امام علی علیہ سلام کے جائے ولادت جو خانہ کعبہ میں ہے کہ حوالے سے گمراہ کرسکے۔

دریں اثناء حضرت علی علیہ سلام کے یوم ولادت کے سلسلے میں کراچی میں 13 رجب کو عبداللہ ہارون روڈ سے حیدری کو نسل کے زیر اہتمام ایک عالیشان جلوس نکالا گیا جس میں مختلف اسکاؤٹس گروپس نے سلامی دی اور جلوس کی سیکورٹی انتظامات میں حصہ لیا جلوس کی قیادت شیعہ سنی علما کرام مولانا شہنشاہ حسین نقوی، علی کرار نقوی ،علی حسین نقوی،مولانا مرزا یوسف حسین،علی نقی نقوی سمیت دیگر موجود تھے جلوس میں شہر کے مشہور و معروف شیعہ و سنی علماٗ کرام و رمنقبت خواں،شعراء، سیاسی شخصیات، بزنس کمینوٹی اور دیگر شخصیات شریک ہوکر امیر المومنین علیہ سلام کی مداح سرائی کی اور مختلف منقبت خواں وشعراء کرام نے جشن مولود کعبہ کے حوالے سے شرکاء کی خدمت میں اپنے کلام عقیدت پیش کئے جلوس ریگل چوک ،شاہراہِ عراق ،کریم سینٹر،جہانگیر پارک ، ایم جناح روڈ سے ہوتے ہوئے نمائش چورنگی پہچا جہاں مجلس وحدت مسلمین کے رہنما مولانا احسان دانش مولانا صادق جعفری ،ناصر حسینی ،رضوان پنجوانی،سمیت ایم ڈبلیو ایم کے کارکنان نے شرکاء جلوس کا استقبال کیاجبکہ جلوس محفل شاہ خراساں پر اختتام پذیر ہوا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خاتمے کے لیے فوج کے اندر سے کاروائی کا آغازکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ احتساب کے عمل سے کوئی بھی مبرا نہیں۔کرپٹ عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور کرپشن نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔پاک فوج جس طرح دہشت گردی کے خاتمے میں پُرعزم ہے اور قابل قدر نتائج حاصل کر چکی ہے اسی طرح کرپشن کے خلاف بھی فیصلہ کن کاروائی ملک کی سالمیت و استحکام کے ازحد ضروری ہے۔

انہوں نے کہا ہمارے ملک میں روز اول سے قانون کی بجائے طاقت کی حکمرانی رہی جو عدل و انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔کرپشن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری شدید متاثر ہوئی اور ملک معاشی عدم استحکام کا شکار بنا۔کرپشن کے خاتمے کے لیے تطہیر کے عمل کو اوپر سے نیچے کی طرف لایا جائے تو بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ملکی ترقی کے لیے تمام محکموں سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔کرپشن کے خاتمے میں آرمی چیف کی مخلصانہ کوششوں کو بھرپور قومی پذیرائی حاصل ہے۔وطن عزیز کے اقتصادی استحکام کی اس کوشش میں پوری قوم آرمی چیف کے ساتھ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کرپشن کے خاتمے میں عدلیہ سمیت دیگر حکومتی ادارے اپنامثبت کردار ادا کرتے تو آج وطن عزیز کی حالت یکسر مختلف ہوتی۔دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب کے بہترین نتائج کے بعد پوری قوم کی یہ خواہش ہے کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بھی کوئی بھرپور آپریشن شروع کیا جائے۔پاکستان کا کوئی بھی ریاستی ادارہ کرپشن سے خالی نہیں۔ فوج احتساب کے عمل کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے تمام اداروں میں اسے بلاامتیاز شروع کر ے۔کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہواسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ کو آئینی و قانونی حیثیت حاصل ہے۔تمام محب وطن سیاسی قوتوں کو فوج کے اس اقدام کی مکمل تائید کرنا چاہیے بصورت دیگر ان کی حب الوطنی شکوک و شبہات کا شکار ہو گی۔

وحدت نیوز(جھل مگسی) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی ضلع جھل مگسی کے تنظیمی دورے پر پہنچے تو ضلعی رہنماء سید گلزار علی شاہ کی قیادت میں کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے درگاہ فتح پور شریف پر حاضری دی اور مرحوم منظور حسین کھوکھر کی وفات پر لواحقین سے تعزیت کی۔

اس موقع پر گنداواہ میں منعقدہ تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دھشت گردی کے اڈوں کی حمایت کرنے والے قوم، ملک اور دین سے مخلص نہیں ہیں۔ جنہوں نے دھشت گردوں کے وکیل صفائی بن معصوم انسانوں کے خون ناحق بہانے میں کردار ادا کیا ہے وہ مجرم ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ کرپشن اور دھشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کی جائے۔ آرمی چیف دھشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے جو کوشش کریں گے اسے قوم ویلکم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ قوم فوج کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں، مگر دھشت گردی کے خلاف ان کی کوششوں کی بھر پور حمایت کرتی ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) یوم ولادت باسعادت مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پرمسرت موقع پر امت مسلمہ کیلئےمرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے تہنیتی پیغام میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ امیر المومنین ؑکی شخصیت اعلیٰ صفات کے کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، بہادری کو کمال انہوں نے دیا، ہر فضیلت کو معراج انہوں نے بخشی، لہٰذاعلی ؑاور اولاد علی ؑوہ ہستیاں ہیں جن سے ہر شریف محبت کرتا ہے، ہر باضمیر محبت کرتا ہے، بلاتفریق مذمت اور ملت ہندواور عیسائی بھی ان سے محبت کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ امام علی ؑصاحب کرامت اور ولایت ہستی ہیں ، ولایت یعنیٰ دین وحکومت کی وحدت ، دین اور سیاست کی وحدت، دین ومعیشت کی وحدت لہٰذاہمیں ان تمام دنیاوی (سیکولر، لبرل، کمیونسٹ )ولایتوں سے نجات پانے کیلئے ولایت علیؑ کی چھتری تلے جمع ہونا ہوگا، انہوں نے کہاکہ امام علی ؑکی سیرت متقاضی ہے کہ موجودہ ابترمعاشی، سیاسی اور اجتماعی حالات میں اس پر عمل کرتے ہوئے راہ نجات اختیارکی جائے، ہمارے ملک میں عدل وانصاف کی کمی، جہالت ، کرپشن، بدامنی جیسے موضی امراض سے چھٹکارہ سیرت امام علی ؑکی عملی اتباءمیں مضمرہے، خداکا شکر عظیم ہے کہ اس نے ہمیں سیاسی وروحانی یتیمی سے محفوظ رکھا اورولایت علی ؑجیسی نعمت عظمیٰ سے نوازا،عالمی سطح پر پیروان مکتب اہل بیتؑ نے وجود مقدس ولایت امام علی ؑسے استفادہ کرتےہوئے عصرکی طاغوتی قوتوں کو شکست فاش دی اور اسلام کا پرچم پوری دنیامیں سربلند کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کاروحانی اور سیاسی پیشوافقط علی ابن ابی طالب ؑہے۔

ملک سدھارنا ہے تو خود سدھر جایئے!

وحدت نیوز (آرٹیکل) سکندر ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا۔ ایک دفعہ اس نے  کسی شہرکا  دورہ کیا۔ وہاں کی حالت دیکھ کر وہ دھنگ رہ گیا۔ نہ وہاں پولیس تھی نہ فوج۔ نہ دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ وہاں کا ہر شخص بروقت اپنے کام پر جاتا تھا۔ مخلصانہ ڈیوٹی دیتا تھا۔ وقت مکمل کرکے واپس گھر آتا تھا۔ نہ انھیں روکنے والا ہے اورنہ ٹوکنے والا۔ وہاں اس نے ایک اور عجیب حالت بھی دیکھی۔ ہر گھر کے سامنے دوتین قبریں تھیں۔ اس کے  استفسار پر کسی نے  جواب دیا کہ ہم اپنے عزیزوں کو گھروں کے سامنے دفناتے ہیں۔ روزانہ صبح کام سے جاتے وقت ہم ان قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبروں  پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہی تئیں یہ بات کرتے ہیں کہ ان کا جو انجام ہوا ہے وہی انجام ہمارا بھی ہوگا۔ آخر کار پانچ میٹر کپڑا اور پانچ فٹ کی زمین ہی ان کے کام آئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو کارنامے انجام دیئے وہی ان کے کام آئیں گے۔ انھوں نے جو انسانیت کی خدمت بجا لائی ہے وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے۔ خدا کی جو خوشنودی مول لی ہے وہی انھیں فائدہ پہنچائے گی۔ حلال و حرام کی جو رعایت کی ہے اسی کا صلہ انھیں ملے گا۔ نمازیں جو انھوں نے وقت پر  پڑھی ہیں وہی ان کے لیے نجات بخش ثابت ہوں گی۔ ایسی ہی باتیں کرنے کے بعد ہم بروقت اپنے کام پر نکلتے ہیں اور اہم میں سے ہر کوئی ایسا ہی کرتے ہیں۔ دن بھر اپنے روزمرہ کاموں میں ان باتوں کو اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ نہ دوران زندگی ہم کسی کا حق چھینتے ہیں۔ نہ کسی چوری ڈاکے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی دل آزاری کرتے ہیں۔ نہ کسی کو بے جا تنگ کرتے ہیں۔ نہ کسی کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ نہ کسی چغلی ا ور تہمت میں وقت گزارتے ہیں۔ نہ کسی کی غیبت میں ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ نہ ہم  انسانیت کے حدود کو عبور کرتےہیں۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے احترام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر مطمئن ہوکر شام گئے ہم گھروں کو واپس لوٹتے ہیں ۔ اس وقت ان قبروں پر ایک دفعہ پھر حاضری ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔ یہاں حاضر ہوکر پورے دن کی ڈائری ہم  وہاں پیش کرتے ہیں۔ آج کے دن دفتری کاموں سے لیکر محنت مزدوری  تک کے امور میں ہم نے کسی سے خیانت نہیں کی۔ حق الناس نہیں کھائے۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ مروت کا لحاظ رکھا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ برادرانہ سلوک روا رکھا۔ نہ کسی نے عہدہ دار ہونے پر ناز کیا اور نہ ہی کسی مزدور کی دل شکنی کی گئی۔ نہ کسی نےاپنی بڑائی کا لوہا منوانے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو اس کی  غربت کا احساس ہونے دیا۔ کیونکہ ہمیں احساس ہے کہ بادشاہ اور غلام سب نے آخر اسی پانچ فٹ کی مٹی کے اندر ہی جانا ہے۔ یہ تمام باتیں ہم دہرانے کے بعد ہم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہی ہم میں سے ہر ایک کے روزانہ کا معمول ہے۔ لہذا نہ ہمیں کسی پولیس کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کی۔ کیونکہ ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھاتے ہیں۔
کاش آج ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہوتا! نفرت کی جگہ محبت ہوتی۔ دوری کی جگہ قربت آجاتی۔ ایک دوسرے کا احترام روز کا معمول بن جاتا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے حالت رشد میں ہوتے۔ 25،30 سال عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے نہ پڑتے۔ لاکھوں کروڑوں روپے انصاف کے حصول کے نام پر تلف نہ ہوجاتے۔طبقاتی نظام کو روز بہ روز فروغ نہ ملتا اور اشرافیت کی زیر سلطہ ہماری عمریں نہ کٹ جاتیں۔ نہ کوئی فقیردکھائی دیتا نہ کوئی بھیکاری،نہ کوئی قاتل دکھائی دیتا نہ کوئی غاصب،نہ کوئی ظالم دکھائی دےدیتا نہ کوئی مظلوم،نہ کوئی چوردکھائی دیتانہ کوئی ڈاکو،نہ کہیں دہشتگردی ہوتی اورنہ کہیں قتل وغارت کابازارگرم ہوتا،نہ جھگڑافسادہوتااورنہ نفرت وکدورت،نہ جھوٹ روزمرہ کامعمول ہوتااورناہی چغلخوری ایک عام سی بات بن جاتی،نہ بھائی بھائی کاگلاگھونٹنےکادرپےہوتا۔ ہماری اکثر غلطیوں کا بنیادی سبب موت کو فراموش کرنا ہے ورنہ اولیائے الہی تو موت کو گلے لگانے کے آرزومند ہوتے  ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی  کے ہر موڑ پر خدا کی اطاعت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ ہم سب ابدی بن بیٹھے ہیں۔ حضرت بلال حبشی کا یہ واقعہ بھی کتنا دل انگیز ہے۔ بلال حبشی پیغمبر کے مؤذن تھے۔ جب آپ بیمار ہوکے بستر بیماری پر پڑ گئے۔ تب آپ کی  بیوی سراہنے آکر کہنے لگی: افسوس میں مشکلات میں پھنس گئی!حضرت بلال نے کہا: یہ وقت تو خوش و خرم ہونے کا ہے نہ کہ پریشانی کا۔ ابھی تک میں پریشانی میں مبتلا تھا۔ تجھے کیا معلوم کہ موت ہی حقیقی زندگی کی شروعات ہیں۔ بیوی کہنے لگی: اب جدائی کا وقت آگیا۔ بلال کہنے لگے: فراق نہیں اب وصال کا وقت آپہنچا ہے۔ بیوی کہنے لگی: آج آپ دیار غیر کی طرف عازم سفر ہو۔ بلال کہنے لگے: میں اپنے اصلی وطن کی طرف جارہا ہوں۔ بیوی کہنے لگی: اس کے بعد میں تمہیں کہاں دیکھ پاؤں گی۔ بلال نے کہا: خاصان الہی کے زمرے میں۔ بیوی کہنے لگی: ہائے افسوس تیرے جانے کے بعد گھربار سب اجڑ جائیں گے۔بلال کہنے لگے: یہ ڈھانچہ مختصر وقت کے لیے بادل کی مانند آپس میں جڑے رہتے ہیں پھر جدا ہوجاتے ہیں۔ کاش آج ہمارے درمیان میں بھی بلال و بوذر و قمبر کے صفات رکھنے والے افراد موجود ہوتے تو ہمارا معاشرہ کتنا بہترین ہوتا۔ آج ان ہستیوں کی صفات سے آراستہ پیراستہ  افراد کی تربیت کی ضرورت ہے۔

اسی طرح رحمت عالم کے شب معراج کا واقعہ کتنا سبق آموز ہے۔ رسول اللہ ص نے فرمایا: شب معراج مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی۔ وہاں میں نے ایک فرشتے کو دیکھا کہ نور کی ایک تختی اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فرشتہ اس تختی کی طر ف ایسے دھیان سے دیکھ رہے تھے کہ دائیں بائیں کی طرف بھی اس کی توجہ نہیں جاتی تھی۔ ایک غمگین شخص کی مانند وہ اپنی دنیا میں غرق تھا۔ میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ اس نے جواب میں کہا: یہ موت کا فرشتہ عزرائیل ہے۔ یہ روحوں کو قبض کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے تقاضا کیا کہ مجھے اس کے پاس لے چلیں تاکہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں! جبرئیل نے مجھے اس کے پاس لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اس سے  یہ سوال کیا: اے موت کا فرشتہ کیا جتنے انسان مرتے ہیں یا آئندہ جو مریں گے ان  کی روح تم ہی نکالتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ پھر کہنے لگا: اللہ تعالی نے پوری کائنات کو میرے ہاتھ میں ایسے قرار دیا ہے جیسے کوئی پیسا ہاتھ میں ہو۔ جس طرح وہ شخص اپنی مرضی سے پیسوں کو آگے پیچھے کر سکتا ہے  ویسے ہی  لوگوں کی قبض روح  میرے لیے ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مکان نہیں جس میں، میں پانچ مرتبہ روزانہ نہ جاتا ہو۔ جب کسی کی فوتگی پر اس کے رشتے دار اس  پررونے لگ جاتے ہیں تب میں ان سے کہتا ہوں کہ رونا نہیں میں  پھر تمہارے پاس حاضری دیتا رہوں گا یہاں تک کہ تم سب کی قبض روح  مکمل ہوجائے۔ علامہ مجلسی کا  واقعہ صاحبان عقل کے لیے کتنا سبق آموز ہے۔آپ کے قریبی شاگرد نعمت اللہ جزائری نقل کرتے ہیں کہ میں اور میرے استاد علامہ مجلسی کے درمیان یہ وعدہ ہوا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے اس دنیا سے چلا جائے تو وہ خواب میں آکر دوسرے کو وہاں کی بعض حال احوال  بیان کرے گا۔ اتفاق سے مجھ سے پہلے میرے استاد کی رحلت ہوئی۔ سات دن تک فاتحہ خوانی کا سلسلہ چلتا رہا۔ یکایک میرے ذہن میں وہی وعدہ یاد آیا۔ میں ان کی قبر پر گیا۔ قرآن کی تلاوت کی۔ ان پر گریہ کیا۔ اتنے میں مجھے وہاں نیند آگئی۔ خواب میں نے اپنے استاد کو خوبصورت لباس میں ملبوس پایا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ قبر سے باہر آگئے ہیں۔ان کی جدائی کا داغ میرے دل پر تھا۔ میں نے ان کےداہنے ہاتھ کا انگوٹھا تھام کرعرض کیا  کہ جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے نبھا لیجیے!علامہ کہنے لگے: میں بیمار تھا۔ آہستہ آہستہ بیماری اتنی شدت اختیار کرگئی کہ میری برداشت سے باہر ہوگئی۔ اس وقت میں نے خدا کو پکارا۔ اے اللہ!اب میرے اندر اسے مزید سہنے کی طاقت باقی نہ رہی ۔ تو ہی اپنی رحمت واسعہ سے میرے لیے کوئی راستہ نکال لیجیے! اتنے میں ایک نورانی بزرگوار میرے سرہانے سے نمودار ہوکر  میرے پاؤں کی جانب بیٹھ گئے۔ اس نے میری احوال پرسی کی۔ میں نے  انھیں اپنے حالات سے آگاہ کیا۔ اس ہستی نے اپنا ہاتھ میرے پاؤں کی انگلی پر رکھ کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا درد میں کچھ افاقہ ہوگیا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے میرے سینے کی طرف لایا۔ ساتھ ہی درد بھی ٹھیک ہوتا گیا۔ جونہی سینے تک اس کا ہاتھ پہنچ گیامیرا جسم وہاں پڑا رہا اور میری روح اس سے  الگ ہوگئی۔ مکان کے کنارے سے  وہ اس  جسم کی طرف دیکھتی رہی۔ میرے رشتے دار، دوست احباب اور ہمسائے آکر رونے  اور آہ و فغان کرنے لگے۔ میری روح ان سے کہہ رہی تھی کہ میری حالت ٹھیک ہے، میں پریشان نہیں ہوں، کیوں تم مجھ پر رو رہے ہو؟  لیکن کوئی میری باتوں کو سن نہیں پاتا تھا۔ پھر انھوں نے آکر میرے جنازے کو اٹھایا، غسل و کفن دیا، نماز جنازہ ادا کردی اور میرے جسم کو  قبر میں اتارا گیا۔ اتنے میں منادی ندا دینےلگا!اے میرا بندہ محمد باقر!آج کے لیے تم کیا چیز تیار کرکے لائے ہو؟ میں نے جتنا بھی نماز ، روزہ، کتاب کی تالیف  وغیرہ کو گنا لیکن ان میں سے کوئی بھی مورد قبول قرار نہیں پایا۔ اتنے میں ایک اور عمل میرے ذہن میں آیا۔ ایک دن بازار میں قرض ادا نہ کرپانے کے جرم میں کسی مؤمن کی پٹائی ہورہی تھی۔مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے خود اس کا قرض ادا کرکے قرض خواہ  کے چنگل سے اسے نجات دلا دی۔ میں نے جونہی اس کاتذکرہ کیا۔ تب اللہ تعالی نے میرے اس کام کی بدولت میرے دوسرے اعمال کو بھی مورد قبول قرار دیا۔ جنت کا پروانہ دیکر  مجھے جنت (بہشت برزخی) کی طرف روانہ کردیا۔  کاش آج ہمارے درمیان بھی قرض خواہوں کے قرض کو ادا کرنے والے ،دکھیاروں کا دکھ بانٹنے والے اور غریبوں کی مدد کرنے والے افراد ہوتے تو کتنا خوبصورت معاشرہ ہوتا۔غریبوں کی زندگی بھی سنور جاتی۔ ان کی مدد کرنے والے بھی دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے۔موت  اور قبر کی تاریکی کو یاد کرکے خود سدھر جائیے معاشرہ اور ملک خودبخود سدھر جائے گا۔
(یکصد موضوع پانصد داستان،صفحات:720-723)


تحریر۔۔۔۔۔۔ ایس ایم شاہ

منشیات کی لعنت کا فروغـــ حل کے لیے 16 تدابیر

وحدت نیوز (آرٹیکل) منشیات کی عادت ایک خطرناک موذی مرض ہے۔ یہ  خود انسان ، اس کا گھر، معاشرہ اور پورے ملک و قوم کو تباہ کردیتی ہے۔  اگر آپ خود اس نشہ کرنے والوں  سے بھی سوال کرئے کہ نشہ کرنا کیسا ہے تو وہ بھی اس کی مذمت کرنے لگیں گے۔وہ خود تو اس کے ہاتھوں اسیر ہوچکے ہوتے ہیں لیکن اس کے دام میں پھنسے کے بعد اس کے مضر اثرات کا اسے ادراک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جاری ہے لیکن اس کے باوجود اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔آخر کیوں؟  شروع شروع میں غلط سوسائٹی، زندگی کی مشکلات، بے چینی اور بے سکونی کے باعث اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ نشے کی لت لگنے کے بعد پھر اس سے نجات پانا  ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ جتنے بھی ممالک ترقی یافتہ بنے ہیں ان میں سے اکثر نے اس بلا کا سختی سے مقابلہ کیا ہے۔ یہ انسان  کے جسمانی سسٹم کو مکمل درہم برہم کردیتا ہے۔ ایسے افراد ہمیشہ خوف کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اپنے اس نشے کو پورا کرنے کے لیے انھیں بہت سارے دوسرے جرائم کا بھی مرتکب ہونا پڑتا ہے۔ چوری ڈاکہ لگانا پڑتا ہے۔مکرو فریب کے ذریعے لوگوں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ یوں یہ موذی مرض بہت ساری دوسری معاشرتی بیماریوں کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ نشے میں شدت آنے کے بعد گٹر نالوں اور کچرہ خانوں کی وہ زینت بن جاتے ہیں۔ انھیں گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ کی مانند پڑے  رہنا پڑتا ہے۔

منشیات کے اسباب بے روزگاری، گھریلو پریشانیاں، زندگی میں ناکامیاں اور بری صحبت وغیرہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ جن کی تعداد میں سالانہ چھ لاکھ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان میں اسی فیصد مرد اور بیس فیصد خواتین ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کے ذریعے منشیات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر منشیات کی لعنت کو ختم کرنا مشکل ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ معاشرے کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ منشیات کی عالمی رپورٹ کے مطابق نوے فیصد پوست جس سے ہیروئن بنائی جارہی ہے افغانستان میں کاشت کی جارہی ہے۔ افغانستان میں پوست کی کاشت انیس سو اسی کی دھائی میں کل عالمی پیداوار کا تیس فیصد تھا۔ اب اس میں تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی نوے فیصد افیون اور ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے اور اس منشیات کا سالانہ چالیس فیصد پاکستان کے راستے بین الاقوامی منڈی کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ اس کی سالانہ مالیت 130 ارب  ڈالرہے۔ پاکستان سے اسمگل ہونے والی منشیات میں سے 350 ٹن سے زائد افغان منشیات پاکستان میں ہی استعمال ہوجاتی ہے۔ اس وقت منشیات میں مبتلا افراد کے  علاج کے لیے 75 ادارے ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے اور مشنری جذبے کی ضرورت ہے۔(1) بی بی سی رپورٹ کے مطابق شراب نوشی ہیرئن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔   

پاکستان میں گزشتہ سال 67لاکھ بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔42لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے صرف 30ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولت فراہم ہے۔ کل آبادی کے تین چوتھائی افراد ایک دن میں 2امریکی ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزارتے ہیں۔ کل آبادی کا 4فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار افیون اور ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔(2)
اب گلگت بلتستان جیسے پاکیزہ معاشرے میں بھی یہ  وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں چند دہائی پہلے ایسی چیزوں کا تصور ہی نہیں تھا۔ مختلف قسم کے این جی اوز ہماری ثقافت کو تباہ و برباد کرنے اور حیا و عفت کی پیکر ماں بہنوں کو انسانی حقوق کا نام دیکر گلی کوچوں کی زینت بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ جب ان سے حیا و عفت چھن جائے گی تب ہر قسم کے فحشا  و منکر میں مبتلا ہونا ان کے لیے  کوئی مشکل بات نہیں رہے گی۔  بعض اطلاعات کے مطابق یہاں کی  بعض خواتین بھی منشیات  کےجرائم میں مبتلا پائی گئی ہیں۔  اب بعض نمائندوں کے بقول حکومتی سرپرستی میں یہاں منشیات  کو فروغ دیا جارہا ہے۔  یہ لابی اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ جو پولیس  آفیسر ان کے خلاف ایکشن لیتا ہے اس کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔تاکہ آئندہ کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات ہی نہ کرے۔(3)  بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش نہ کرے۔ ورنہ بعد میں حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔ جو جوان آج قوم و ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور باڈروں پر سینہ سپر ہیں اگر نئی نسل بگاڑ کی شکار ہوجائے تو گلی اور کوچوں کی زینت اور ملک و ملت کی شرمندگی کا سبب قرار پائے گی۔ اس وبا سے نجات کے لیے چند راہ حل یہ ہیں: 1: والدین اپنے بچوں کا مکمل خیال رکھیں اور انھیں سختی سے غلط سوسائٹی میں پڑنے سے روک لیا  کریں۔ساتھ ہی  اپنے بچوں کو ان افراد کا انجام دکھا دیں جو گلیوں کی نکڑ پر بوسیدہ لباس میں حالت غیر ہوکر پڑے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو کتا ان کا منہ چاٹتا ہے پھر بھی انھیں  معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔  2: معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں موجود ایسے شر پسند عناصر سے نجات کے لیے مل کر کوشش کریں۔3: علماء کرام محراب و ممبر سے اس کےدنیوی اور اخروی  نقصانات بیان کرنے میں خوف محسوس نہ کریں۔ 4: نشے میں  مبتلا تمام افراد کے علاج معالجے کا انتظام ہو اور اس عادت سے نجات پانے تک دوسرے لوگوں کو ان کے ساتھ پھرنے سے روکنے کا منظم سسٹم بنایا جائے۔ 5: نشہ آور چیزیں سپلائی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے اور ان کے سرغنے کو پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ کوئی ایسے جرائم میں پڑنے کی جرات ہی نہ کرے۔ 6: معاشرے میں جو بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو  پہلے ان کو سمجھائیں پھر ان کے والدین کو اطلاع دیں اس سے بھی کا م نہ  بن جائے اور وہ منشیات کا شکار ہوجائے تو  ان کوعدالتی کٹہرے میں ڈالا جائے۔ 7: نفسیاتی طور پر ان کو سدھارنے کے لیے ایسی پروگرامینگ کی جائے کہ خود نشہ کرنے والے  ایک دوسرے کو اس کام کو چھوڑنے کی نصیحت کرنے لگ جائیں۔ 8: نشے سے حالت غیر ہونے والے افراد کو ٹی وی پر ان کی انٹرویو نشر کی جائے اور ان کی شکل غیر کرکے دکھائی جائے تاکہ بچوں کے تحت شعور میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ ایک خطرناک چیز ہے۔ 9: جو پروگرامز  جرائم سے مربوط شکیل پاتے ہیں ان  پروگراموں  کے ذمہ دار افراد ان اڈوں پر بھی چاپے ماریں جہاں نشہ  کرنے والے افراد جمع ہوکر رہتے ہیں اور ان کا حقیقی چہرہ لوگوں کو دکھادیں۔ اس سے ایک طرف ان کی  مضبوط لابی کمزور پڑ جائے گی تو دوسری طرف  ان سے مربوط افراد جو ابھی تک ان کی حالت زار سے نابلد ہیں وہ آگاہ ہوجائیں گے  اور ان کے خلاف اقدامات اٹھانا شروع کریں گے۔ 10: حقیقی اسلام کا چہرہ تمام لوگوں کے لیے متعارف کرایا جائے اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کے نقصانات سے  اسلامی معاشرے کو آگاہ رکھا جائے۔11: حکومت کو چاہیے کہ منشیات کی سپلائی میں ملوث افراد خواہ وہ بیوروکریٹ ہو یا کسی دوسرے بڑے عہدے پر فائز ہو سب سے پہلے ان کے خلاف ایکشن لینا شروع کرے۔ 12: اس سرطان میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کے لیے ہر صوبے میں الگ الگ  زیادہ سے زیادہ سنٹرز بنائے جائیں تاکہ کافی حد تک یہ وبا مزید پھیلاؤ سے بچ سکے۔ 13: افغانستان سے آنے والی منشیات کے روک تھام کے لیے فوج کی زیر نگرانی  ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔14:  یہاں سے سپلائی کرنے والوں کو  پکڑ کر فوجی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔15: تعلیمی نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔16:   لوگوں کی سطح زندگی کو بلند کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جائے۔ غرض اس خطرناک وبا سے نجات اس وقت ممکن ہے جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی قومی، ملی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوجائیں گے۔   
1:(اویس فاروقی، اردو پوائنٹ27-6۔2013)
2: (ڈیلی کے ٹو، 15فروری2016)
3: ایضا، 3 اپریل

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد شاہ حسینی

وحدت نیوز (بھٹ شاہ) اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے زیر اہتمام تعمیر کردار کنونشن کے آخری روز یوم علی ؑ کی پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اصغریہ جوانوں نے وادی مہران میں تعمیر کردار اور نظام ولایت و امامت کی شناسائی کے لئے قابل قدر جدوجہد کی ہے، قوم کو ماضی میں گم ہونے کی بجائے عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ جس قوم کے قتل عام کے لئے مشرق سے مغرب تک تمام شیاطین اکھٹے ہوچکے ہوں اسے غفلت کی نیند سونے کا کوئی حق نہیں۔ اسی ملکوں کے دھشت گردوں پر مشتمل داعشی لشکر کا پہلا ھدف شیعہ ہیں۔ کربلا جیسی عظیم درسگاہ کی حامل قوم کو عصر حاضر کی یزیدیت کو پہچاننے اور اس کا مقابلہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئیے۔
انہوں نے کہا جن کا ماضی کربلا ہو اور مستقبل مہدی ؑ برحق کا عالمی انقلاب ہو ، وہ زرداری یا نواز شریف کے طاغوتی نظام پر راضی نہیں رہ سکتے۔ ملت کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ھمآھنگ حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ آج ایسے باکردار انسانوں کی ضرورت ہے جو باطل کے لئے خوف کی علامت اور دشمن خدا کی آنکھ کا کانٹا بن جائیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree