وحدت نیوز(آرٹیکل) آج سترہ اگست ہے ، آج کا دن ہمارے دانشمندوں کو جگانے کا دن ہے۔ کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔

اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔

جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔

یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔

کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔

کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔

جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔

صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔

ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔

چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔

جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں بھی  ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔

پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔

اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔

علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے۔

اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اورمخصوص دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان  اور جمہوریت کی شہ رگ کوآج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی کے سائے میں ١١سالوں کے اندروہ کام کرگیاجواٹلی کے میکاویلی نے١٥سالوں میں کیا تھا۔

 چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔

حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:

سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]

اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوںکی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:

"سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔

موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]

اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔

اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا،

کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،

اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا تھا۔

یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے  تھا جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پ

پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔

اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔

جس کی ایک واضح مثال یہ  بھی ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے  کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔

آج سترہ اگست ہے اور آج کے دن ہمارے دانشمندوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے آج تک ضیاالحق کو کتنا سمجھا ہے اور اس کے اثرات سے اپنے معاشرے اور جمہوریت کو کتنے فیصد پاک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے دانشمندوں سے بحیثیت قوم بھول ہوئی ہے کہ ہم نے ضیاالحق کی باقیات اور نظریات کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔

منابع

جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل

ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد

· جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد

· اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد

· بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی

تحریر۔۔۔نذر حافی

جشن آزادی پاک وطن

وحدت نیوز(آرٹیکل)14اگست 1947 ہماری قوم و ملت کے لئے وہ دن ہے کہ جس دن شہیدوں کے خون کی سرخی سبزہ میں بدلی اور امن وامان کے سورج کی صبح سفیدی افق پہ طلوع ہوئی، آزادی کا چاند مملکت کے آسمان پہ ابھرااور ستاروں نے اپنی خوبصورتی کے ساتھ چاند کو چار چاند لگا دئیےیوں ہلالی پرچم کو اٹھائے قوم و ملت ایک آزاد و خود مختار پاکستان کی تلاش میں نکلی۔

یہ وہ عظیم قوم ہے کہ جس نے برصغیر میں سب سے پہلے قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر آزادی و استقلال کا شعار بلند کیا اور فکر اقبال کی روشنی میں ایک آزاد اسلامی مملکت کی خواب کی تعبیر کے لئے  جدوجہد شروع کی-

امنگیں اتنی عظیم تھیں کہ عصر حاضر کے سب سے بڑے ،منفرد اور عظیم انقلاب کے عظیم رہبر امام خمینی پاکستانی قوم کو ایک عظیم انقلابی ملت سے یاد کرتےتھے کہ جس نے استعمار و سامراج کے ناپاک عزائم نقش بر آب کر کے ایک ایسی مملکت کو حاصل کیا کہ جہاں شر و فساد،ظلم و بے عدالتی،قوم پرستی،بے انصافی،جھوٹ فساد و فحاشی ، بے راہ روی اور کرپشن سے پاک ایک معاشرہ تشکیل پائے۔

 جہاں ایک پاک و پاکیزہ،عدل و انصاف پر مبنی ایسا الہی نظام ہو جو انبیا علیھم السلام کی امنگوں کی عکاسی کرے-

پاکستان ایک ایسے عظیم اس تصور کے نتیجے میں معرض وجود میں آیاتھا کہ ایسا تصور کہ جو دوسروں کے لئے بھی مشعل راہ بنے۔

 ایران کےموجودہ رہبر حضرت آیت اللہ آلعظمی خامنہ ای فرماتے ہیں موجودہ جمہوری اسلامی ایران کا خواب علامہ اقبال رح نے دیکھا تھا جو ایران میں جا کر شرمندہ تعبیر ہوا-

معلوم ہوتا ہےکہ براعظم ایشیا میں جس قوم نے اسلامی جامع نظام کا تصور پیش کیاتھا وہ اسی خطے میں پروان چڑھنے والے فرزند اسلام و قرآن ہیں اگرچہ ممکن ہے اس زمانے میں قومی شعور اتنا بیدار نہیں تھا کہ فکر اقبال کو حقیقی معنوں میں درک کر سکیں،لیکن معاشرے میں اس قدر شعور ضرور تھا کہ وہ ایک ایسی مملکت چاہتے تھے جو ان کے دین اور آئین کے عین مطابق ہو اور جہاں وہ آزادی سے اپنےدین پرعمل کر سکیں-

البتہ جہاں قوم و ملت کی یہ امنگیں تھیں وہاں زخم خوردہ دشمن بھی آرام سے نہیں بیٹھا تھا اور اس نے ابتدا ہی سے اس مملکت خداد کو نشانہ بنانا شروع کر دیااور سازشوں میں جت گیا ،چنانچہ پہلے روز سے قوم کے سربراہوں کو نشانہ بنانا، ملک میں عدم استحکام کے لئے سازشیں،ملک پہ ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنا جو ملک کے مفادات کے خلاف اور بیرونی طاقتوں کے مفادات میں کام کرتے رہے،ملکی سرحدوں کو بے امنی کا شکار کرنا اور ہمسایہ ممالک کے زریعے جنگیں مسلط کرنا،فرقہ واریت اور قوم پرستی جیسی جنگوں میں جھونکنےکی کوشش کرنا۔۔۔

یہی وہ سازشیں اور منجملہ مسائل ہیں کہ آج بھی ملک کو دیمک کی طرح کھائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب لیکن اس عظیم ملت کی استعمار اور سامراج مخالف سوچ اواستقامت میں بھی کوئی کمی نہیں ،یہ قوم ان سازشوں کا ڈٹ کرمقابلہ کررہی ہے ۔

مسلمان ممالک میں سے پاکستان ان گنے چنےممالک میں سے ہےجس کے پاسپورٹ پہ آج بھی غاصب ریاست اسرائیل سفر کرنے پر پابندی ہے ،پاکستان نے آج تک اسرائیل کو جائز ملک کے طور پہ تسلیم ہی نہیں کیا ،اسی طرح تمام بین الاقوامی مسائل میں پاکستانی عوام ہمیشہ مظلوموں کی حامی اور ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ہو ئی دیوار بنکر سامنے آئے ہیں ،پاکستانی قوم ہمیشہ اسلام کے خلاف ہو نے والی عالمی سازشوں کے مقابلے میں آہنی چٹان بنکر سامنے آئی ہے ،ان گذشتہ سالوں میں سلمان رشدی کا فتنہ ہو یا پیامبراسلام ص کی شان اقدس میں گستاخی، جس قوم نے سب سے پہلے رد عمل دکھایا وہ پاکستانی قوم ہی توہے بلکہ سلمان رشدی کے خلاف امام خمینی رح کے فتوی سے پہلے پاکستانی قوم نے اپنی غیرت و حمیت اسلامی کا اعلان کیا جس میں کچھ لوگ گولیوں کا نشانہ بنے تو امام خمینی نے فرمایا عشق پیامبر اکرم ص اور عزت اسلام کے دفاع میں جتنے لوگ لقمہ اجل بنے وہ سب شہید ہیں-

پاکستانی قوم آج دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی پیغام کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پہ بھرپور طریقے سے پہنچانے کے لئے دن رات کوشاں ہے،آج اکثرغیر اسلامی ممالک میں مساجد اور اسلامی مراکز کو قائم کرنے والی یہ قوم جذبہ اسلامی میں سرشار نظر آتی ہے اور غیرمسلم ممالک میں رہتے ہوئے بھی اپنی قوم و مملکت کے ساتھ محبت اور رشتے کو برقرار رکھا ہے ،خواہ انہیں اپنے وطن سے نکلے ہوئے سالہا سال گذر گئےہوں خواہ ان کی دوسری نسل بیرون ملک پیدا ہو ئی ہو لیکن آج بھی اپنے سینوں میں اپنے وطن سے محبت لئے ہو ئے ہیں ،آج بھی ان کا دل وطن اور اہل وطن کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔

یہ جذبہ ہر مرحلے میں امٹ کر سامنے آتا ہے یہاں تک کھیل کے میدان سے لیکر ملکی اہم ایشوز تک ۔

بین الاقوامی سطح پہ جتنی اسلامی تحریکیں چلیں ملت پاکستان ہمیشہ ان تحریکوں کا حصہ بنی یا ان تحریکوں کی بھر پور حمایت کی،آج بھی حرمین شریفین اور کربلا و نجف یا پھر حرم زینبی ہو یا دیگر مقامات مقدسہ ہوں ان  کی حفاظت کے لئے ہماری قوم پیش پیش ہے،جس زمانے میں آل سعود نے اپنے بے بنیاد عقائد پہ عمل کرتے ہوئے مقامات مقدسہ کو مسمار کرنا شروع کیا تو یہ پاکستانی عوام ہی تھی کہ جس نے سب سے پہلے احتجاج کیا۔

آج بھی یہ مملکت اور قوم استعماری و سامراجی سازشوں کا  براہ راست نشانہ ہیں-چنانچہ اج گذشتہ کئی دھائیوں سے ملک میں کبھی سنی اور کبھی شیعہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اس سر زمین کے فرزندوں کو بموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے-بیرون ملک قوتوں  نے ملک میں ایسے مدارس جنم دئیے جو فرقہ واریت کو ہوا دیں اور مسلح گروہوں کو وجود لایاگیا تاکہ ملک کو خانہ جنگی میں جھونکا جا سکے لیکن یہ توپاکستانی قوم کی بیداری اور شعور کا نتیجہ ہے کہ ٓاج بھی اس ملک میں اسلامی اخوت اور رواداری باقی ہے-
اور ملک میں دونوں مکاتب فکر شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ زندگی بسر کر رہے ہیں آج جہاں ہم ایک طرف سترہویں یوم آزادی منا رہے ہیں تو دوسری جانب ہمیں بہت سی سازشوں کا بھی سامنا ہے۔

اور اس میں اہم سازش سیاسی عدم استحکام کی سازش ہےیہ سیاسی عدم استحکام ہی ہے کہ جس کے سبب معدنی اور مادی وسائل سے مالا مال ملک اور محنت کش قوم فقر و غربت میں زندگی بسر کرتی ہے-

 ملک پرایسے نا اہل حکمران مسلط ہوگئے ہیں جو ملک اور عوام کے ساتھ نہ صرف مخلص نہیں بلکہ دانستہ یا نادانستہ انہی سازشوں کا حصہ ہیں ۔

 حال ہی میں معزول ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کہ جن کو سپریم کورٹ نے بہت سی بدعنوانیوں کے الزام میں وزارت کے عہدے سے معزول کیاہے اس کا ایک بڑا نمونہ ہیں۔

 آج جب ہم جشن آزادی منا رہے ہیں تو ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ جن مقاصد کے لئے اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی مل کر ان مقاصد کے لئے جدو جہد کریں گےاور ملک کو نااہلوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں سے نکال کر اس کی بھاگ ڈور امانت دار لوگوں کے ہاتھوں میں دیں گے اور اس آزاد و خود مختار ریاست کی ترقی و بہتری کے لئے کام کرے گے ۔

ہمارا سلام ہو بانی پاکستان محمد علی جناح کہ جن کا نام دو عظیم شخصیات کے ناموں کا امتزاج ہےپرسلام ہوان مجاہدین پر جنہوں نے اس مملکت خدادکی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی اور مسلسل حفاظت کررہے ہیں سلام ان ہزاروں شہدا پر جنہوں نے اس ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کی قربانی کا نذرانہ پیش کیا- سلام ملت کے ہر فرزند پہ جو آج بھی اس وطن کی خدمت میں مصروف ہیں -

پاکستان زندہ باد

تحریر۔۔۔غلام حر شبیری

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر سال ہوگئے، اور ان شاء اللہ تا قیامت اس کا وجود اپنے جاہ و حشم سے برقرار رہے گا،آزادی ہند میں جن تحریکوں کا آغاز ہوا ان میں نمایاں گانگریس اور مسلم لیگ تھیں کہ جن کا نقطہ نظر بھی واضح تھا یعنی برطانوی استعمار سے ہندوستان کو آزاد کرانا لیکن نقطہ افتراق جو ان دونوں میں تھا وہ یہ تھا کہ مسلم لیگ ایسے خطے کو آزاد کرانے کے درپے تھی جو اکثر مسلمانوں کی امنگوں کا ترجمان ہو اور وہ تھا ایسی مملکت کا قیام کہ جو فقط مسلم امہ کے لئے مخصوص ہو اور سب مسلم مسالک اس میں برابر کے شریک ہوں اور اقلیتوں کو بھی ان کے جائز حقوق تک رسائی حاصل ہو وغیرہ، کیونکہ دو قومی نظریہ یعنی ہندو اور مسلم ایک سیریس معاملہ تھا کہ جس کا تجربہ کئی دہائیوں سے حاصل تھا، یعنی ہندو اور مسلم ایک سرزمین پر ایک جھنڈے تلے رہ نہیں سکتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر برتری کا خواہان تھا اور اسکا نتیجہ گذشتہ اور حالیہ ہندو مسلم فسادات کی صورت میں قابل دید ہے۔

ایک فلاحی ریاست کا خواب دیکھ کر ہمارے بزرگوں نے جو کہ ہر مسلک سے وابستہ تھے سر فہرست قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، شہید ملت، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ، بین المسالک اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ملک کے حصول کے لیے کوششوں کو تیز کیا اور آخر کار وہ حاصل کر ہی لیا کہ جو ان کا اور ہندوستان کی امت مسلمہ کا خواب تھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آزادی کا فلسفہ جو انہوں نے اپنے اہداف میں شامل کیا وہ کیا تھا اور موجودہ پاکستان اس آزادی کے اصولوں پر کتنا کاربند ہے؟
مہم ترین اور جامع ترین آزادی کے حصول کا مقصد ایسی سرزمین کی تاسیس کہ جس میں تمام اسلامی مسالک اپنے رسومات اور عبادات کو آزادانہ طور پر انجام دے سکیں اور مشترکات میں ایک پلیٹ فارم پر اس وطن کی فلاح و بہبود کے لئے باہم مل کر کام کرسکیں اور اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں اور ان کو بھی محترم شہری کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس وطن کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کا موقعہ دیں۔

تبھی تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے آزادی پاکستان کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا: آج سے تم آزاد ہو، جو چرچ جانا چاہے وہ جائے جو مسجد جانا چاہے وہ بھی آزادی سے جائے اسی طرح مندر وغیرہ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔

لیکن یہ سہانا خواب، خواب ہی رہ گیا، آزادی کے نام پر حاصل شدہ مملکت فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئی، جہاں اقلیتوں کے حقوق کو دن دھاڑے سرکاری سرکردگی ميں پامال کیا جانا روز کا معمول ہے، جس ریاست کے مکین دنیا بھر میں دہشتگردی کے نام سے مشہور ہیں، جس کے شہری بنیادی ضروریات جو کہ سب کا بنیادی حق ہے یعنی روٹی کپڑا اور مکان سے محروم، سو سو لاشین اٹھانے کے بعد بھی پاکستانی زندگی پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہوتی اور سو سو بچوں کو بے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے، دنیا میں زر مبادلہ کے ذخائر سے مالامال ملک کے حکمران بین الاقوامی ایوانوں میں بھیک تک مانگنے سے نہیں کترا رہے، اور مساجد، عبادات، عزاداری، میلاد، ائر پورٹ، فوجی اور پولیس تنصیبات غیر محفوظ، قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی، جہاں پاکستان کے محب وطن اور مخلص شہری حکومتی اداروں کے زیر عتاب، دہشتگرد اور ان کے سہولت کار آزاد،یہ آزادی تو اس برطانوی غلامی سے بدتر ہے،ہمارے ان بزرگوں کے روح قبر میں آج اپنی ملت کے فرزندوں کی اس حالت پر خون گریاں ہونگے.
صرف چند لوگوں کے پیٹ کے مسئلے نے ملت کو دیوالیہ پن کا شکار بنادیا ہے۔

آئیے ہم عہد کریں کہ ایک بار پھر پاکستان پر قابض ان بہروپیوں سے مادر وطن کو آزاد کرا کر جشن آزادی منائیں گے۔


*تمام اہل وطن کو جشن آزادی مبارک.*

 

 


تحریر۔۔۔محمد جواد عسکری

وحدت نیوز(آرٹیکل) میں سردیوں میں بہت سرد اور گرمیوں میں جلادینے والی گرمی کا حامل ہوں، خشک پہاڑوں کے ان گنت سلسلے میرے اطراف کو گھیرے ہوئے ہیں، لہذا نہ میرے ہاں زیادہ بارش ہوتی ہے اور نہ ہی حیات انسانی اور حیوانی کے آثار ہیں۔

ایران کا بارڈر قریب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے مجھے بسانے کا فیصلہ کیا اور محدود تعداد میں لوگوں نے بسیرا ڈالا کہ جن میں سے اکثر دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔

پھر کیا تھا؟ مقدس مقامات پر زیارت کرنے والے لوگ جب یہاں جاتے ہوئے پہنچتے تو نہ راستہ ان کے لئے کٹھن تھا، نہ میری سرزمین ان کے لئے تنگ، جاتے ہوئے کھلکھلاتے چہرے سے مجھے خدا حافظ کہتے تھے اور وطن کی محبت کا اظہار ادھر دیکھنے کے لائق تھااور حسب حال میں بھی انکی جو خدمت ہوتی وہ کرتا، اگرچہ نہ میں اتنا سرسبز تھا اور نہ ہی خوش آب و ہوا۔

اور جب یہی مسافر واپس میری سرزمین میں قدم رکھتے تو فرط محبت سے میری مٹی کو چومتے، مادر وطن میں ہونے کا احساس ان کے آنکھوں کے بند توڑ دیتا اور جذبات اور احساسات کے ملے جلے انداز کا نشیمن گاہ بھی میں ہی تھا۔

کہتے ہیں زمانہ ایک جیسا نہیں رہتا، مجھے بھی کسی بدنظر کی نظر لگ گئی اور جہاں مجھے سرزمین استقبال و بدرقہ کہا جاتا تھا آج میرے مسافروں کو اذیتناک مراحل سے گذرنا پڑ رہا ہے۔

میرے سینے پر انکا لہو بہایا گیا، ان کو لوٹا گیا، ان کے دلوں میں خوف ڈالا گیا، انکی خواتین کی بیحرمتی کی گئی، ان کے بچوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ان کے آنے اور جانے کے راستے میں جیل بنایا گیا۔

جہاں میں ہر روز اس بات کا شاہد ہوں کہ نہ انکو صحیح رہائش دی جاتی ہے، نہ مناسب کھانا، وہ پانی کی بوند کو ترستے ہیں، گرمی کی شدت اور سردی کے زور کے آگے بہت سوں نے جان کی بازی ہار لی، بہت سے لاعلاج مرض میں گرفتار ہوئے۔

اب میں کیا کروں کیسے ان معصوم مسافروں کی دل گیری کروں کہ مجھ کو اپنوں نے ایسے حال میں دھکیلا ہے، مجھے رحمت سمجھنے والے اب میرے نام سے لرز جاتے ہیں۔


تحریر۔۔۔محمد جواد عسکری

وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ عجیب دور ہے، مصلح کو مفسد بنا کر رکھ دیا گیا ہے! سپیکر کے استعمال پر پابندی، جلسے پر پابندی، جلوس پر پابندی، نعرے پر پابندی،شہر سے باہر نکلنے پر پابندی ، شہر میں داخل ہونے پر پابندی ، فورتھ شیڈول میں نام۔۔۔ عجیب نفسانفسی کا عالم ہے کہ کوئی طالب علم  مدرسے سے گھر جاتے ہوئے گم اور کوئی گھر سے مدرسے جاتے ہوئے لاپتہ …

کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا  ہے کہ یہ ساری پابندیاں دیندار حضرات خصوصا مولوی حضرات پر ہی کیوں  لگائی جاتی ہیں۔۔۔!

 اس کی وجہ یہ ہے کہ  بعض شخصیات نے اپنے مفادات کے لئے چند  نا سمجھ دیندار لوگوں کو استعمال کر کے مکمل طور پر علمائے دین کو ہی بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔

اگر ان پابندیوں اور فورتھ شیڈول کا تعلق شدت پسندی ، تعصب ، گالی گلوچ اور الزامات و تہمات سے ہے تو  باعرض معذرت ہمارے سیاستدانوں میں یہ سب کچھ  مولوی حضرات کی نسبت کہیں گنا زیادہ پایا جاتاہے۔

ہم پرانے مردے نہیں اکھاڑتے ، ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ جب  کسی چھوٹے موٹے سیاستدان نے نہیں بلکہ  پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزاد کشمیر کے صدر کو زلیل آدمی کہا،  شیخ رشید نے کہا کہ اس فاروق حیدر کو سی ایم ہاؤس سے نکال کر جو تیاں مارو، پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان نے  جہاں اور بہت کچھ کہا وہاں یہ بھی کہا کہ کیا پدی اور پدی کا شوربا، اپنی اوقات کے اندر رہو، اپنی حیثیت کے اندر رہو اپنے پاجامے کے اندر رہو یہ جو تمہارا پاجاما ہے نا اس کے اندر رہ کر بات کرو۔

ایسے میں عامر لیاقت نے  اپنے پروگرام میں کہا کہ میں’’ تُو‘‘ کر کے بات کر رہاہوں’’ُ تُو‘‘ کر کے، تیری اوقات کیا ہے!

یہ سب کچھ  ایک ملک کے وزیراعظم ، ایک ملت کے  سربراہ، ایک ایوان کے قائد ایوان اور ایک ریاست کے رہنما کے بارے میں کہا گیا ۔  لیکن کسی ادارے نے ازخود نوٹس کی زحمت نہیں کی، کسی  سیاسی رہنما نے اسے شدت پسندی نہیں کہا، کسی عالم دین نے اس طوفان بدتمیزی پر بد اخلاقی کا فتوی نہیں لگا یا، کسی قاضی نے اس گستاخی پر وارنٹ جاری نہیں کئے چونکہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ شدت پسندی نہیں ہے، سیاستدان جو مرضی ہے کریں ، ہمیں یہ باور کرایا گیا ہے  کہ شدت پسند صرف مولوی حضرات ہوتے ہیں۔

اسی طرح گلالہ لئی نے جو انکشافات کئے ہیں ان پر بھی تحقیقات کے بجائے ، مسلسل الزامات اور تہمات کا سلسلہ جاری ہے۔

اگر اس طرح کے بیانات کوئی عالم دین دیتا اور اس پر گلالہ لئی جیسے الزامات ہوتے تو پھر ہمارے عوام ، میڈیا اور سیاستدانوں کے مذمتی بیانات کا تانتا لگ جاتا۔

 یہ ہماری ملکی تاریخ  کی کڑوی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں نے  چند نافہم مولوی حضرات کو اپنے مفاد کے لئے  استعمال کر کے دینی مدارس اور علما حضرات کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ  ہمارے ہاں ایسا سیاستدان جسے عدالت نااہل قرار دے کر اس کے کرپٹ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے وہ بھی ریلیاں نکالتا ہے،کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آیا عدالتی فیصلے کو عوامی ریلیوں  کے ذریعے  چیلنج کرنا بھی شدت پسندی ہے یا نہیں!

مقام فکر ہے کہ اگر کسی عدالتی فیصلے کے بعد کوئی مولانا صاحب اسی طرح کی ریلی نکالتے تو کیا انہیں اس کی اجازت دی جاتی!؟

عجیب افسوسناک صورتحال ہے کہ جس وقت کرپشن کے حق میں ریلی نکالی جارہی تھی عین اسی دوران  اپر دیر کے علاقے تیمر گراہ میں پاک فوج کے جوان،   ایک میجر سلمان علی اور تین دیگر فوجی شہیدوں کے غم میں آنسو بہا رہے تھے لیکن ان کی دلجوئی کے لئے کوئی ریلی نہیں نکلی۔

 یعنی اس ملک کے دارلحکومت میں عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے والے شدت پسندوں کی ریلی تو نکلی لیکن   شدت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے جوانوں کے حق میں کوئی ریلی نہیں نکلی۔

آج اس ملک میں جو کچھ بھی ہے ، وہ پاک فوج کی قربانیوں کے باعث ہے، لیکن ہمیں تو دینی مدارس کی طرح پاک فوج پر بھی فقط تنقید کرنا ہی سکھایا گیا ہے۔  چنانچہ  ہمارے میڈیا نے بھی تیمر گراہ  کے ان شہدا کے بجائے کرپشن نواز ریلی کو ہی  بھرپورکوریج دی ۔

اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاون کوہی لیجئے، بے گناہ افراد کو شہید کرنا ایک جرم ہے لیکن اس جرم کے خلاف بغیر احتجاج کے ایف آئی آر کا درج نہ ہونا بالکل سیاسی انتہا پسندی ہے لیکن  کسی نے  بھی اسے انتہا پسندی نہیں کہا۔

فرض کریں، سانحہ ماڈل ٹاون کا  یہی واقعہ اگر کسی دینی مدرسے سے منسوب ہوتا تو کیا اسے انتہا پسندی نہ کہا جاتا!؟

یہ پاکستان کے دیندار حلقوں اور باشعور علمائے کرام کی زمہ داری ہے کہ وہ  نام نہاد سیاستدانوں کے آلہ کار بننے ، ان سے اتحاد کرنے اور انہیں گلے لگانے کے بجائے اپنے دینی حلقوں کی طرف محبت اور اخوت کا ہاتھ بڑھائیں اور معاشرے میں سیاسی آلودگیوں سے پاک ایک دینی و  سیاسی کلچر متعارف کروائیں۔

 

 

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

سفر عشق

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں  جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب  کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتا نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی  شروع سے ہی یہی کوشش  رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔

اللہ تعالی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا  را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں  جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اورالہی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اوراس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منی میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں  ہزار ہا  رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حثیت  و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے  گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔

حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیہم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتا اللہ تعالی کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعہ قرب الہی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر غیر سلی ہوئی کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام مین اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارات ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ آک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔

حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے،حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ  مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج  کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میںسے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ  عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاء ُ عَلی الکُفّارِ رُحَمَاء  ُ بَيْنَہُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔

متعصب آل سعود کی نالائقی سے پیش آنے والے منٰی کے ہولناک سانحے کو تقریبا دو سال کا عرصہ ہو رہا ہے جس میں کئی ہزار افراد عید قربان کے دن، احرام کے لباس میں، شدید دھوپ میں، تشنہ لب اور مظلومیت کے عالم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ مسجد الحرام میں بھی کچھ لوگ عبادت، طواف اور نماز کے عالم میں خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے۔ سعودی  متعصب حکام دونوں سانحوں میں قصوروار ہیں۔ زخمی حجاج کو، جن کے مشتاق قلوب اور فریفتہ وجود عید قربان کے دن ذکر اللہ اور آیات الہیہ کے ترنم میں ڈوبے ہوئے تھے، بچانے میں کوتاہی کی گئی۔ قسی القلب اور مجرم سعودی افراد نے زخمی حجاج کو شہید حجاج کے ساتھ بند کنٹینروں میں محبوس کئےیہاں تک کہ ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کے چند قطرے پہنچانے کے بجائے انھیں موت کے منہ میں پہنچا دئے۔ آل سعود کی ناہلی اورنالائقی کی وجہ  سے مختلف اسلامی ممالک کے بہترین  افراد،نخبگان، ڈاکٹرز، وکلاء،دانشمند،  قاری قرآن، علماءاور پروفیسرز سر زمین منی میں  تڑپتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔

 فتنہ انگیز آل سعودنے اسلام سے خیانت کرتے ہوئے شیطان صفت تکفیری گروہوں کوتشکیل دے کراور انھیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر کےبے گناہوں مسلمانوں کاقتل عام کیا ہے ۔ یمن، عراق، شام اور لیبیا اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔ یمن کے  مظلوم مسلمانوں کو حج جیسی عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ حجاج کرام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے دعا کریں کیونکہ مسلمان ایک خدا ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والے ہیں اور ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے بھی دعا کریں۔

 

 

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree