وحدت نیوز(آرٹیکل)حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام  علی  ابن  موسی  الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے  کہ امام وقت نے تین بار فرمایا:{فداھا ابوھا} یعنی باپ اس پر قربان جائے۔  کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔

مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی رہ اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی قبر کا جگہ معلوم  کرنے کے لئےایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:{علیک بکریمہ اھل البیت} یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر ہے"۔ پھر فرمایا:"کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے ۔

امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں ۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور  حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کواہل قم نے گلبارن کرتے  ہوئےموسیٰ بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔

بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے ۔ جس جگہ  آج حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ س کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں : {من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی } یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں.امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ إنَ لِلّہِ حَرَماً وَ ہُوَ مَکَہُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ ہُوَ الْمَدِینَۃُ وَ إِنَ ِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ ہُوَ الْکُوفَۃُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ ہُوَ بَلْدَۃٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیہَا امْرَأَۃٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَۃَ فَمَنْ زَارہَا وَ جَبَتْ لَہُ الْجَنَۃ} خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے، اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے۔ اور عنقریب میری اولاد میں سے موسی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی  اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جوادعلیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی قم میں پوری شوق اور شناخت سے
میری پھوپھی کی زیارت کرے گا وہ اہل بہشت ہو گا.حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم} یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔


منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸.
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی.
3۔دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹ ۔
4۔زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴ ، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔
5۔دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲ ، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری ۔
6۔تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳ ۔
7 ۔مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہماراسماج ایک حصار میں تبدیل ہوچکا ہے،آپ مجبور ہیں کہ اس حصار کو ہی اپنا معاشرہ سمجھیں، اس حبس کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور اس زندان کو ہی بہشت بریں کا لقب دیں۔

آپ کو یہاں صرف قصیدے لکھنے کی اجازت ہے لیکن سرگزشت لکھنے کی نہیں، یہاں ہر نوسر باز نے اپنے آپ کو تقدس کے خمیر سے مخلوط کیا ہوا ہے، آپ فرقہ واریت پھیلانے والے مولوی حضرات کے احتساب کی بات کریں تو گویا آپ دینی مدارس کے خلاف ہیں،  آپ سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف بولیں تو گویا آپ جمہوریت کے خلاف ہیں، آپ ریاستی اداروں میں رشوت  کے کے خلاف بات  کریں تو گویا آپ ریاستی اداروں کے خلاف ہیں، آپ انٹرا پارٹی  الیکشن کی بات کریں تو گویا آپ پارٹی کے استحکام کے خلاف ہیں۔آپ زرد صحافت کے خلاف بولیں تو گویا آپ آزادی صحافت کے خلاف ہیں۔

اگر آپ ایک غیر جانبدار صحافی ہیں تو آپ کے ہر طرف ایک” گویا “ہے  اور ہر گویا کے پیچھے ایک نیزہ بردار کھڑا ہے۔ آپ کویہ  اجازت نہیں ہے کہ آپ مسٹر ٹرمپ کے دورہ ریاض پر تنقید کریں، آپ کویہ  حق نہیں ہے کہ آپ  رمضان المبارک میں قطر کے مسلمانوں کے محاصرے پر لب کشائی کریں ، آپ  کو یہ اختیار نہیں ہے کہ آپ یمن کے نہتے عوام پر سعودی بمباری کو رکوانے کے لئے احتجاج کریں ، آپ کو  یہ اذن نہیں ہے کہ آپ سعودی فوجی اتحاد سے مسئلہ کشمیر پر ایک بیان دینے کا مطالبہ کریں، آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ ریاض میں فلسطین کی آزادی کے لئے کانفرنس کے لئے احتجاج کریں۔

جی ہاں! ہم ایک ایسے سماج میں جینے اور سانس لینے کے عادی ہو چکے ہیں جہاں صرف بادشاہوں، حکمرانوں ، شخصیات، تنظیموں، پارٹیوں اور سیاستدانوں کے قصیدے لکھنے کے اجازت ہے۔

اگر آپ نے قصیدہ نویسی ترک کر کے کشمیر کا مسئلہ اٹھا دیا، فلسطین کے ایشو کو ہائی لائٹ کیا، دہشت گردوں کے سہولت کا روں پر لب کشائی کی، شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا ،فقر، غربت اور پسماندگی کے اسباب بیان کئے تو آپ  دین دشمن، ملک دشمن اور جمہوریت دشمن ہیں۔

یہ عجیب  معاشرتی حصار ہے،  جہاں قلم کی نوک کے ہرطرف نیزہ بردار کھڑے ہیں،  اور ہرنیزہ بردار نیزے کی انّی پر اپنے تقدس کا لوہا منوانا چاہتا ہے۔

ہر طرف سے یہی کچھ سنائی دے رہا ہے کہ خبردار فلاں تنظیم کو بے نقاب نہیں کرنا، فلاں شخصیت کے بارے میں کچھ نہیں لکھنا، فلاں سیاستدان کی کتاب نہیں کھولنا، فلاں مدرسے کی سرگرمیوں پر قلم نہیں اٹھانا۔

آج فکر کے مقتل میں، عقل کے دشمن ، مقدس ماب نیزہ بردار،  ہر سو کھڑے ہیں،حالت یہ ہے کہ  قلم اشک بہارہا ہے، کاغذ خوں مانگ رہا ہے اور ملت سچ جاننا چاہتی ہے۔

سچ جاننا صرف ملت کا مطالبہ ہی نہیں، ہر انسان کا پیدائشی اور جمہوری حق ہے لیکن بتائیے کہ جھوٹے تقدس کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے قلم، بے لگام  جمہوری گھوڑوں کے سموں سے روندے ہوئے پارہ پارہ  کاغذوں پر سچ کی داستان کہاں تک لکھ سکتے ہیں۔

جب  جگر کی کڑھی ہوئی روشنائی  سے ،دن کے سفید کا غذ پر سچ کی تحریر کو تعصب کے کٹہرے میں  قبول نہ کیا جائے،  تو پھر سچ کی دستاویزات کو ہر روز کتنے کفنوں میں لپیٹ کر دفنایا جائے۔

ہر روز سچ دفنا دفنا کر ہم کتنے قبرستان بھریں گے، سچ کے قبرستانوں سے انقلاب اور تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں،  انقلاب اور تبدیلی کے لئے سچ کو سننا پڑتا ہے، ماننا پڑتا ہے ، قبول کرنا پڑتا ہے اور سچ کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔

جب دنیائے اسلام کے مرکز سے  اور حرمین شریفین کی وادی سے،  اسرائیل کے لئے دوستی کے پیغامات جانے لگیں

جب جمہوری حکمران عوام کو لوٹ کر کھانے لگیں، جب کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کا لہو نیلام ہونے لگے تو پھر قلم کی سچائی کے  دو ہی تقاضے ہیں  کہ یہ قلم جھوٹے حصاروں سے ٹکرا کر ٹوٹ جائے اور یا پھر ان حصاروں کوتوڑ دے ۔ جب تک قلم ٹکراتا نہیں تب تک تبدیلی اور انقلاب ناممکن ہے۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مسافرین گرامی! طیارہ کچھ ہی دیر بعد لینڈ کرنے والا ہے۔یہ اعلان سنتے ہی ہر مسافر خوشی سے پھول جاتا ہے، ابھی ہم اپنے ملک کے ائیر پورٹ کے گیٹ سے نکل ہی رہے ہوتے ہیں کہ  ٹھگوں کا ایک ٹولہ ہماری طرف لپکتا ہے، کوئی سامان کو چمٹتا ہے، کوئی ہاتھوں کو چومتا ہے، کوئی دامن کو کھینچتا ہے اور کوئی بیگ کو پکڑتا ہے۔

آپ لاکھ شور کریں کہ بھائی میری جان چھوڑیں لیکن وہ بغیر کچھ لئے ٹلنے والے نہیں ہوتے،  بہر حال ہم انہیں غریب اور فقیر سمجھ کر کچھ نہ کچھ دے کر جان چھڑوا لیتے ہیں۔

جب  کچھ آگے آئیں تو ٹیکسیوں اور رکشوں والوں کے غول مسافروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،ہر ایک کا اپنا کرایہ اور اپنا ریٹ ہوتا ہے، ہمیں   آنکھیں بند کر کے یہاں پر بھی یہی سوچنا پڑتا ہے کہ اس غربت اور مہنگائی میں یہ بے چارے بھی کیا کریں!؟

گھر آجائیں تو ہر روز  گوالا بلاناغہ کیچڑ ملا کر دودھ دے کر چلا جاتا ہے۔  ہم یہاں بھی آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ بے چارہ غریب آدمی ہے کیا کرے۔

گھر سے باہر نکلیں اور پبلک ٹراسپورٹ سے سفر کر کے دیکھیں،  مسافروں کو فحش فلمیں  اور گانے سنائے جارہے ہوتے ہیں ، ہم یہاں بھی یہ سوچ کر چپ کر لیتے ہیں کہ غریب ڈرائیوروں کی یہی تفریح ہے اور بے چارے اس کے علاوہ کیا کریں!

کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافروں کو نصف راستے میں یہ کہہ کر اتار دیا جاتا ہے کہ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے یا فلاں پرزہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہم اس وقت بھی چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آخر اس میں ڈرائیور بے چارے کا کیا قصور ہے اور ڈرائیور باقی کرایہ واپس کئے بغیر اگلی منزل کو روانہ ہو جاتا ہے۔

ہم اپنی سڑکوں پر ہر روز خراب اور خستہ حال مسافر گاڑیوں کو چلتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن کبھی لب نہیں ہلاتے چونکہ ہمارے نزدیک غریب لوگوں کو انہی خستہ حال گاڑیوں میں ہی سفر کرنا چاہیے  اور جب ایکسیڈنٹ ہوجائے تو حکومت سے معاوضے کا مطالبہ کرکے ہلاک ہونے والوں  کے ورثا کو کچھ پیسے  دینے سے مسئلہ رفع دفع ہوہی جاتا ہے۔

ہم خود بھی ایسی بڑی  بڑی مسافر بسوں کو دیکھتے ہیں کہ جن میں سوار ہونے کے لئے  صرف ایک گیٹ ہوتا ہے۔اور اس ایک گیٹ سے بھی سوار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اگر خدا نخواستہ گاڑی میں آگ لگ جائے تو گیٹ سے بھاگ کر نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ لیکن ہم نے کبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ اس ملک میں عوامی مسائل کے حل کے لئے کوئی ادارہ ہے ہی نہیں اور یا پھر عوام میں کوئی ایسا ایک آدمی بھی نہیں جو جہاں مسئلے کو دیکھے وہیں کسی متعلقہ ادارے کو رپورٹ کرے۔

ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ بھی ان پڑھوں کی طرح  مسائل کو دیکھتے ہیں اور انہی کی طرح مسائل سے گزر جاتے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ صرف اس دن طیش میں آتے ہیں جس دن کہیں کوئی ٹارگٹ کلنگ ہوجائے  اور یا پھر کوئی خود کش دھماکہ ہوجائے۔

ہم ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھے کہ یہ جتنے بھی نوسرباز  ہیں یہ سب جسد واحد کی طرح ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مذموم اور ہر ایک قابل گرفت ہے۔ ائیر پورٹ کے گیٹ پر ملنے والے ٹھگوں اور نوسر باز ٹیکسی ڈرائیوروں اور لوگوں کو ملاوٹ شدہ دودھ اور جعلی دوائیاں  فروخت کرنے والوں اور ٹارگٹ کلرز میں انسانیت دشمنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔

یوں نہی ہو سکتا کہ ہم بعض جگہوں پر تو  جرائم سے نظریں چرائیں اور بعض جگہوں پر مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں۔ جب تک ہم خود عوامی سطح پر  نوسر بازوں، ٹھگوں اور حرام خوروں کے خلاف ایکشن نہیں لیتے  تب تک کلبھوشن یادو جیسے بنئے ایسے بے ضمیر لوگوں کو خرید کر انسانی جانوں سے کھیلتے رہیں گے۔

آج  دم تحریر  مستونگ کے قریب دہشت گردوں نے کوئٹہ سے کراچی جانے والی گاڑی پر فائرنگ کر کے  ہزارہ برادری کے چار افراد کو شہید کردیا  گیاہے ۔ جبکہ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والا ڈرائیور عبدالستار زخمی ہے۔

اب اگر بے ضمیر حملہ آور کو گرفتار کر بھی لیاجائے تو تب بھی یہ سلسلہ نہیں رک سکتا اس لئے کہ اس ملک میں ہم نے بے ضمیری ، بے حسی ، اور ظلم و شقاوت کے خلاف کبھی قلمی اور عملی  احتجاج کیا ہی نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان پڑھ لوگوں کی طرح جینا چھوڑ دیں۔  عوام کے حقوق اور جان و مال  کا دفاع کریں ، پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر  بے ضمیر ، وطن فروش اور نوسر باز کو روکیں اور اس کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔

جب تک پڑھے لکھے اور باشعور لوگ جہالت ، نادانی  اور نوسربازی کے خلاف  لڑنے کا فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تب تک کلبھوشن جیسوں کو نت نئے نوکر اور ایجنٹ  ملتے رہیں گے۔ تب تک اگر ایک احسان اللہ احسان ہتھیار ڈالےگا  تو دس دیگر نوسر باز ،وطن فروشی کا کاروبار شروع کر دیں گے۔ تب تک اگر ہم  ایک نوسرباز حکمران کو اقتدار سے ہٹائیں گے تو دوسرا اس سے بڑا نوسر باز نکلے گا۔ نوسر باز تبدیل کرنے سے نوسربازی اور کرپشن نہیں رک سکتی بلکہ ہمیں عوامی سطح  پر اور عوامی طاقت کے ساتھ ، دہشت گردی، نوسربازی اور کرپشن کو روکنے کی ضرورت ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) تقیہ {وقایہ}سے ہے اور اس کا لغوی معنی کسی چیز کوخطرے سے بچاناہے جیساکہ تقوی بھی اسی مادہ سے ہے ۔تقوی سے مراد محرمات الہی سے نفس کو بچانا ہے لہذا تقیہ سے مراد اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اپنے مذہب  کے خلاف  کسی عقیدےاور عمل کا اظہار کرنا ہے ۔شرعی اصطلاح میں تقیہ سے مراد انسان کا ممکنہ ضرر سے بچنے کی خاطر  حق کےخلاف کسی کے قول یا فعل کی موافقت کرناہے۔دوسری عبارت میں تقیہ سےمراد اپنے قول و فعل سے ایسی چیزوں کا اظہار کرنا جو احکام دینی کے خلاف ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنی یا کسی دوسرے شخص کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کر سکے ۔

تقیہ حقیقت میں ایک اصل عقلی ہےجو قاعدہ اہم و مہم پر استوار ہے ۔عقلاءکی سیرت بھی یہی ہے کہ جب ان  کے جان ،  مال اور عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی تو وہ  ان کی حفاظت کی خاطر اپنے عقائد کے خلاف  اظہار کر کے اس خطرے کو برطرف کرتےتھے۔آج بھی انسانی معاشرےمیں یہ سیرت جاری ہے جیساکہ بعض موارد میں جان ،مال اور عزت و آبرو سے اہم کوئی فریضہ خطرے میں پڑ جائے تو  اس چیز کو مقدم قرار  دیتے ہوئے جان ، مال اور عزت و آبرو سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔اگرچہ مختلف  مذاہب  کے پیروکاروں  کے درمیان اہم و مہم کے مصادیق میں اختلاف نظر ممکن ہے لیکن یہ اختلافات  عقلاء کا  اصل تقیہ پر متفق ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا جیساکہ بعض مواردکے اہم ہونےمیں تمام عقلاء متفق ہیں مثلا معاشرے میں امن و امان قائم کرنا۔عقلاء معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے  جان ومال تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتےہیں۔

قرآن کریم کی بعض آیتیں واضح طورپر تقیہ کو ایک شرعی اصل  کے طور پر بیان کرتیں ہیں قرآن کریم  میں ارشاد رب العزت ہے:{ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ  وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِکَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّہِ فیِ شئٍَ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَئۃ}مومنین کو چاہیےکہ وہ اہل ایمان کوچھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے ، اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگرتم ان {کے ظلم}سےبچنےکے لئے کوئی طرز عمل اختیار کرو{تو اس میں مضائقہ نہیں}۔اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی نہ بنا ئیں اور اگر کوئی ایسا کرے توخدا کی بارگاہ میں اس کے لئےکوئی مقام نہیں ہے یعنی یہ کام خدا کی رضا اور خوشنودی کے خلاف ہے مگر یہ کہ کافروں سے خوف محسوس کرے اور تقیہ کے شرائط فراہم ہو ں تو اس وقت کفار سے دوستی اوران کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دوسرے مقام پر فرماتا ہے:{ مَن کَفَرَ بِاللَّہِ مِن بَعْدِ إِيمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَ قَلْبُہُ مُطْمَئنِ بِالْايمَانِ وَ لَکِن مَّن شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِيم}جو شخص اپنے ایمان کےبعد اللہ کا انکار کرے{اس کےلئے سخت عذاب ہے}بجز اس شخص کے جسےمجبورکیا گیا ہواور اس کا دل ایمان سےمطمئن ہو {توکوئی حرج نہیں }لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پراللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑاعذاب ہے ۔اس آیت کی روشنی میں جو شخص ایمان لانے  کےبعد اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے تووہ عذاب الہی کا مستحق ہے مگر وہ افراد جو کفر اختیار کرنےپرمجبور ہو اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر کفر اختیارکرے حالانکہ ان کے دل ایمان سےسرشار ہو تو ایسے افراد عذاب الہی کا مستحق نہیں ہیں اور یہ قانون تقیہ ہے ۔ مذکورہ آیت  جناب عمار یاسر کے بارےمیں نازل ہونے پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے ۔جناب عمار، ان  کے والدین {یاسر اورسمیہ}اور بعض اصحاب کفار کے ہاتھوں سخت اذیت و آزار سے دوچار ہوئے جنہیں ان لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برائت کرنے کا حکم دیا تھا ۔جناب عمار کے والدین نے ایسا  کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں انہیں شہید کر دیا گیا مگر جناب عمار نے تقیہ کرتے ہوئے کفر کا  اقرار کیا جس کی وجہ سےوہ بچ  گئے لیکن اپنے  اس عمل پر پشیمان ہو کر روتے ہوئےپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپؐ کو اس واقعہ سے آگا ہ کیا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:پھرکبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جوبھی تم سے کہلائیں کہہ دینا اسی وقت آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:{وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَکْتُمُ إِيمَانَہُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبی الله ۔۔۔} اور آل فرعون میں سے ایک مومن جواپنا ایمان چھپا ئے ہوئے تھا کہنےلگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہوجو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔آل فرعون کےمرد مومن نے حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لایا تھا اور اس نے آپؑ سے خفیہ رابطہ رکھا ہوا تھا ۔علاوہ ازیں اس نے آپ ؑکو فرعون کےپیروکاروں کے منصوبےسےآگاہ کیا جو آپ ؑکو قتل کرنا چاہتے تھے ۔{ قَالَ يَامُوسیَ إِنَّ الْمَلاء یاْتَمِرُونَ بِکَ لِيَقْتُلُوکَ فَاخْرُجْ إِنی ّ لَکَ مِنَ النَّاصِحِين}اس نےکہا اے موسی!دربار والے تیرےقتل کے مشورے کر رہےہیں،پس {یہاں سے}نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میں سےہوں۔ یہ شخص اپنےعقائد کوفرعونیوں سےچھپاتا تھا اور خود فرعونیوں  کے عقائد کے مطابق عمل کرتا تھا اگرچہ یہ حق کے خلاف تھا لیکن اپنی اور حضرت موسی علیہ السلام کی جان بچانے کے لئے وہ تقیہ کرتا تھا۔قرآن کریم اس کےاس عمل کو بڑے احترام سے یاد کیاہے ۔

فخر الدین رازی اس آیت {لَّايَتَّخِذِالْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَمِن دُونِ الْمُؤْمِنِين۔۔} کی تفسیرمیں لکھتےہیں: آیت کا  ظہورصرف کفار سے تقیہ کرنے پر دلالت کرتاہے لیکن امام شافعی  کا نظریہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان ایسے حالات رونما ہو جائیں جیسے مسلمان اور کفار کےدرمیان ہوا کرتا ہے تو اس صورت میں بھی جان کی حفاظت کےلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔امام شافعی کی نظر میں جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرنا مسلما ًجائز ہے جبکہ مال  کے نقصان کی صورت میں بھی تقیہ کے جائز ہونے کو ترجیح دی گئی ہےکیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :{حرمۃ مال المسلم کحرمۃدمہ}مسلمانوں کا مال ان کے خون کے مانند محترم ہے۔نیز آپؐ نےفرمایا:{من قتل دون مالہ فہوشہید}اگرکوئی شخص اپنے مال کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ شہید ہوگا۔یعقوبی اور دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ جب بسربن ابی ارطاۃ نے مدینہ پر حملہ کیا اور جابربن عبد اللہ کو  اپنےپاس بلا یا تو جابر نے ام سلمہ سےکہا :اس شخص کی بیعت کرنا ضلالت ہے لیکن اگر بیعت نہ کروں تو یہ مجھےقتل کر دےگا ۔ام سلمہ نے کہا :اس کی بیعت کرو کیونکہ اصحاب کہف تقیہ کر  کے اپنی قوم کے مخصوص مراسم میں شرکت کرتے تھےاور ان کی طرح مخصوص لباس پہنتے تھے ۔طبری اپنی  کتاب تاریخ میں مامون عباسی کی حکومت کےزمانے میں پیش آنے والے واقعات مخصوصاً قرآن  کےمخلوق اور حادث ہونے کے بارےمیں لکھتے ہیں:بہت سارے قضات اور محدثین نے مامون کے خوف سے بچنے کے لئے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کیا تھا لیکن جب بعض  لوگوں نے تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا اور ان کے اس عمل کی مذمت کی تو انہوں نے کفار کے مقابلے میں جناب عمار یاسر کی مثال پیش کی ۔یہ واقعہ اس بات پر واضح طورپردلالت کرتا ہے کہ تقیہ ایک عمومی قاعدہ ہے جو صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔جب بھی تقیہ کے شرائط فراہم ہوں تو انسان اس پر عمل کر سکتا ہے خواہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہو یا کفار کے مقابلے میں ۔

آئمہ اہل بیت علیہم السلام اس عقلی و شرعی قاعدے کےبارے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:{لاایمان لمن لاتقیۃلہ}جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں  ہے{ولا دین لمن لا تقیۃ لہ}جوتقیہ نہیں کرتااس کا کوئی دین نہیں ہے{التقیۃ من دینی ودین آبائی}تقیہ میرےاور میرے آباءواجداد کے دین میں شامل ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے ۔ تقیہ کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سےمعلوم ہوتاہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام دوقسم کے تقیہ پر عمل کرتے تھے اوراپنے پیروکاروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرماتے تھے۔1۔تقیہ خوفی 2۔تقیہ مدارائی تقیہ خوفی کےبارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔تقیہ خوفی کبھی انسان کی اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر ،کبھی دوسرے مومنین کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر اور کبھی دین ومذہب کی حفاظت کی خاطر کیاجاتا ہے ۔ تقیہ مدارائی بھی تقیہ کی ایک قسم ہے اور یہ اس مقام پر ہےجہاں انسان کی جان ،مال اور عزت و آبرو کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس روش پر عمل کرنے سے انسان بہتر طریقے سے دینی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے اورمسلمانوں کے درمیان اخوت کی فضا قائم کرسکتا ہے۔ جن احادیث میں تقیہ کوسپر اور ڈھال قرار دیا ہے جیسا کہ  امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: التقیۃ ترس المؤمن و التقیۃ حرز المؤمن}تقیہ مومن کے لئےڈھال ہے اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ہے ۔اس سے مراد تقیہ خوفی ہے اور جن احادیث میں آداب معاشرت اور اچھے اعمال کےبارے میں کہا گیا ہے وہ اکثرتقیہ مدارائی ہیں  ۔یعنی ان احادیث کا مقصد مخالفین کو مذہب شیعہ کی طرف جذب کرنا ہے اگرچہ اس کے ذریعے شیعوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے ۔

جناب ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:جن کاموں کی وجہ سے ہماری سرزنش ہوتی ہو ان سے پرہیز کرو کیونکہ ناصالح فرزند کے کاموں کی وجہ سے اس کےباپ کی بھی سرزنش ہوتی ہے  ۔جن افرادکے بارے میں تمہاراخیال ہو کہ  وہ تم میں سے ہیں ان کے لئے باعث زینت بنو نہ باعث شرمساری وذلت۔ان کے{اہل سنت} نماز جماعت میں شریک ہو جاوٴ،ان کے بیماروں کی عیادت کرو،ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ہر نیک عمل کو ان سے پہلے انجام دو۔اس کے بعد آپ ؑنے فرمایا:{والله ماعبدالله بشئی احب الیہ من الخباء}خدا کی قسم خداوند متعال کی خباء سےزیادہ محبوب کسی چیز کےذریعےعبادت نہیں ہوئی ہے۔ہشام نے {خباء} کےبارےمیں سوال کیا تو  آپؑ نے فرمایا:{التقیۃ}ائمہ اہل بیت علیہم السلا م کی متعدد احادیث میں آیت کریمہ{اورنیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے، آپ{بدی کو} بہترین  نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عدوات تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔اور یہ {خصلت}صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو برے نصیب والے ہیں }سے مرادتقیہ لیا ہے ۔واضح رہے کہ اس تقیہ سے مراد تقیہ مدارائی ہے۔اس بات پر واضح دلیل اس آیت سے پہلی والی آیت ہے جو توحید اور خدا پرستی کی طرف دعوت دیتی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلی اللہ وَ عَمِلَ صَلِحًا وَ قَالَ إِنَّنی مِنَ الْمُسْلِمِين}ا
اور اس شخص کی بات سےزیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایااور نیک عمل کیا اورکہا:میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔


حوالہ جات:
1.    سید محسن امین ،نقض الو شیعۃ،ص181۔
2.    آل عمران،28۔
3.    نحل،106۔
4.    مجمع البیان،ج3،ص388۔تفسیر الکشاف،ج2،ص430۔تفسیر ابن کثیر،ج4،ص228۔
5.    غافر،28۔
6.    قصص،20۔
7.    آل عمران،28۔
8.    مفاتیح الغیب ،ج6،ص13۔تفسیررازی ،ج8،ص13۔
9.    تاریخ یعقوبی،ج2،ص100۔
10.    تاریخ طبری،ج10،ص292۔
11.    وسائل الشیعۃ،ج6،
12.    وسائل الشیعۃ،ج11،حدیث،6۔
13.    وسائل الشیعۃ،باب26،حدیث،2۔
14.    فصلت،34،35۔
15.    فصلت،33۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) حضرت عیسی ٰ ؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ تمہاری جیب میں کچھ ہے؟ اس نے کہا میرے پاس دو درہم ہیں۔حضرت عیسیٰؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا یہ تین درہم ہو جائیں گے، قریب ہی آبادی ہے تم وہاں سے تین درہموں کی روٹیاں لے آؤ۔ وہ گیا اور تین روٹیاں لیں راستے میں سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹی حضرت عیسی ؑ بھی کھائیں گے اور آدھی روٹی مجھے ملے گی بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھالوں چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا۔ دونوں نے ایک ایک روٹی کھالی اور اس کے بعد حضرت نے پوچھا تین درہم کی کتنی روٹی ملی تھیں؟ اُس نے کہا دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔ حضرت عیسیٰؑ نے مزید کچھ نہیں فرمایا اور وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا ، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا اے اللہ کے نبی ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی؟ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا، میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہو اہو گا۔ آپ نے فرمایا : یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟ اُس نے کہا جی ہاں، میرا دل نور سے بھر گیا ہے، پھر آپ نے فرمایا : اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں؟ اس نے کہا :حضرت روٹیاں بس دو ہی تھی۔پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا یک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا، جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھا پر ٹھوکر مار کر کہا"اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا" ہرن زندہ ہوگیا اور دوڑتا ہوا اپنی منزل کی جانب راوانہ ہوا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر مزید حیران ہوا اور کہنے لگا خدا کا شکر ہے کہ جس نے مجھے آپ جیسے نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے۔حضر ت نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟ شاگرد نے کہا اے اللہ کے نبی میرا ایمان پہلے سے دگنا ہو چکا ہے، پھر آپ نے فرمایا بتاو روٹیاں کتنی تھیں؟ شاگرد نے کہا روٹیاں دو ہی تھیں۔ بحر حال دونوں نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچا اور دیکھا کہ سونے کی کچھ اینٹیں پڑی ہیں۔ آپ نے فرمایا ان کے نزدیک نہ جانا یہ باعث فتنہ و فساد ہے اور آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا دور چلنے کے بعد شاگرد سے رہا نہ گیا اس کا فکرسونے کی اینٹوں پر تھی اس نے کسی نہ کسی طریقے سے حیلے بہانے سے حضرت سے اجازت لی اور اپنے راہ کو جدا کر دیا اور حضرت عیسی سے چھپ کر وہ اس پہاڑ کے دامن میں پہنچا اور سونے کی اینٹوں کو گھر لے جانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ تین چور وں کا وہاں سے گزرا ہوا انہوں نے جب یہ منظر دیکھا تو شاگرد کو قتل کر دیا اور اینٹوں کو آپس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ لوگ سفر اوربھوک کی وجہ سے نڈھال تھے۔ لہذا انہوں نے ایک کو روٹیاں لینے بھیجایہ شخص راستے میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو میرے دونوں ساتھی مر جائیں گے اور یہ ساری اینٹیں مجھے مل جائے گا۔دوسری طرف باقی دو چوروں نے بھی مشورہ کیاکہ جب ان کا ساتھی واپس آئے گا تو وہ دنوں مل کر اسے قتل کریں گے اور سونے کی اینٹوں کو آپس میں تقسیم کریں گے۔جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبے کے مطابق اس کو قتل کیا اور انہوں نے روٹیاں بھی کھائی تو وہ دنوں بھی وہی پر مر گئے۔ حضرت عیسیٰؑ کا جب واپسی پر وہاں سے گزرا ہوا تو دیکھا کہ ان اینٹوں کے پاس چار لاشیں موجود ہیں، آپ نے ٹھنڈی سانس بھری اور فرمایا"دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے"مال و دنیا کسی کی جاگیر نہیں ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے سیالکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا:"احتساب کرنے والے بتائیں الزام اور مقدمہ کیا ہے؟کون سے پیسے دئے جو ہم لوٹ کر دبئی لے گئے، الزام لگانے والو!! کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آئی"۔ جسٹس عظمت سعید نے آبزرویشن دی کہ یہ درست ہے کسی اثاثے کے ساتھ وزیر اعظم کے براہ راست تعلق کو نہیں جوڑا جاسکا لیکن ایک چیز واضح ہے سب سے زیادہ فائدہ 88فیصد وزیر اعظم کو ہوا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گایا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کئے، سرمایہ دبئی سے جدہ، قطر اور لندن کیسے گیا، اس بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے گی لیکن فلیٹس کی معلومات چھپانے کیلئے تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں بنائی گئیں، منی ٹریل کی دستاویزات نہیں تھیں تو وزیر اعظم نے بیان کیوں دیا؟منی ٹریل معمہ ہے، وزیر اعظم سے کیسے یہ توقع رکھیں کہ بیان وہ دے اور ثابت کوئی اور کرے، دستاویزات نہیں دینگے تو کوئی اور نکال لائیگا، فاضل بنچ۔نواز شریف خود کو بری لزمہ ثابت نہیں کر سکے، شریف فیملی نے طے کیا تھا جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانا، فیصلہ کرلیں ثبوٹ ہمیں دینگے یا ٹرائل کورٹ میں: عدالت۔
میاں صاحب یہ آنکھ مچولی کا کھیل زیادہ دیر نہیں چلے گا ، سب سے پہلے تو ہمیں آپ سے پوچھنا چاہئے" میاں صاحب بار بار کعبہ کس منہ سے جاؤ گے؟؟" اس ملک میں کرپٹ کون ہے کون نہیں ہے آپ کو توضیح کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارے حکمران کتنے مخلص اور دیانت دار ہیں۔ یہ مال دنیا کسی کا ساتھ نہیں دیتا ، آپ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھیں آپ سے زیادہ چالاک ہوشیار اور ثروتمند حکمرانوں کے اس وقت نام و نشان بھی نہیں ہے پھر آپ کو تو بار بار کعبہ جانا ہوتا ہے نا، لہذا کچھ خدا کا ہی خوف کریں اور مسلمان ہونے کا ثبوت دیں آپ ابھی نہیں مانیں گے تو کسی نہ کسی دن تو اس کی پوری پول کھلنی ہے، اور خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، دریائے نیل میں ڈوبنے کے بعد جتنا بھی موسیٰؑ و موسیٰؑ کے خدا پر ایمان لے آئیں فائدہ نہیں ہوگا اور اگر آپ سیدھا سیدھا حساب کتاب دیں گے تو آپ کو گلو بٹ پالنے و سانحہ ماڈل ٹاون جیسے واقعات بھی کروانے نہیں پڑئیں گے۔


تحریر : ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) پانچ اگست تاریخ تشیع پاکستان کا وہ دردناک دن ہے جس میں فرزند صادق سید الشھداء  و انقلاب اور اسلام ناب محمدی ؐ  کے حقیقی علمبردار، محروموں اور مظلوموں کی آواز قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ نے جام شہادت نوش کی اور اپنے آبا و اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کربلا کی سرخ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ آپ نے اپنی مظلومانہ شہادت سے قوم و ملت کو اسلام ناب محمدی ؐکے حقیقی چہرے سے روشناس کرایا اور لوگوں میں فکر و شعور کی خیرات تقسیم کی۔ یہی وہ چیز تھی جسے زندہ رکھنے کی رہبر کبیر روح اللہ خمینی ؒنے ملت پاکستان کو تاکید کی۔

آج جب پوری دنیا دو بلاک میں تقسیم ہو چکی ہے ایک بلاک امام مھدی آخرزمان ؑکے ظہور کی زمینہ سازی کرنے والوں کا بلاک جبکہ دوسرا اس کاراستہ روکنے والوں کا بلاک ہے۔آج آل یہود،آل ہنود، آل سعودکا گٹھ جوڑکھل کراس جنگ کی تیاری کر رہاہے ۔آج قائداعظم ؒ اور اقبالؒ کاپاکستان تکفیریت اور انتہاء پسندی کی لپیٹ میں ہےاور دشمن پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو پارہ پارہ کرنے کے در پے ہے۔ایسے میں اہل حق، اہل اسلام اور انسانیت کے حقیقی غمخواروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لبیک یارسول اللہؐ، لبیک یا حسین ؑ اور لبیک یامھدی ؑکی صدائوں میں اپنا کردار ادا کریں۔

 آیئے!!!    

٭  آج شہید قائدؒ کی 29 ویں برسی کے موقع پر انکی روح سے تجدید عہدکریں کہ ہم اُنکے افکار و نظریات کو زندہ رکھیں گے اور انکے رستے سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
٭ ہم عہد کریں کہ ہم عدل و انصاف اور حق کے پرچم کو سرزمین پاکستان میں کبھی گرنے نہیں دیں گے۔
 ٭ امت مسلمہ کی وحدت کا خواب جو آپ نے دیکھا جس کے لئے آپ وطن عزیز کے گوش و کنار میں گھر گھر گئے اور عوام کو بیدار کیا، آج ان کے نظریاتی فرزند اسی پیغام کو لیکر آگے بڑھ رہیں ہیں اور مسلسل بڑھتے رہیں گے۔
٭  آپ کی قیادت میں ہونے والی جدوجہد محرومین و مظلومین پاکستان کے لئے امید اور بالخصوص امام عصر عج کے عالمی انقلاب کے لئے مقدمہ تھی ۔ہم اس جدوجہد کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ جاری و ساری رکھیں گے اور امام عصر عج کے عالمی انقلاب کی زمینہ سازی کے لئے اپنی جان ومال اور اولاد کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
٭ آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مستضعفین اپنے نجات دہندہ حضرت امام مہدی عج کے منتظر ہیں۔ انشا اللہ ہم پوری طاقت اوروحدت کےساتھ ہر میدان میں حاضر رہ کر انتظار امام زمانہ عج کے تقاضوں کو پورا کریں گے تاکہ ہمارا شمار بھی امام زمانہ عج کے اصحاب و انصار میں ہو۔

رونق شاخ کردار بنو!        
  لشکر ظلم سے لڑنے کے لئے        
وقت کے میثم تمار بنو!       
  دست مظلوم کی تلوار بنو!
صبر کے سر کو جھکانے کیلئے  
صبر سجاد  ؑکا معیار بنو!
ہاتھ سے ہاتھ نہ چھٹنے پائے  
  تم سے زنداں بھی لرزجائیں گے
آہنی عزم کی دیوار بنو!
جرأت جذبہ مختار بنو!

تحریر۔۔۔ظہیر الحسن کربلائی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree