وحدت نیوز(آرٹیکل) کشتی سمندر کے وسط میں تھی، صرف ایک ملاح اور ایک مسافر سوار تھا، تاریک رات میں بارش شروع ہوگئی، ملاح بالکل کیمونسٹ  اور کافرتھا، مسافر مومن تھا، ملاح تیراکی میں ماہر تھا، مسافر تیراکی سے بے خبر تھا،  طوفان کی لہروں نے ابھر کر کشتی الٹ دی،  اگلے روز سمندر کے ساحل پر اخبار چھپے، ہر اخبار میں بہادر ملاح کے قصے تھے کہ اس نے بڑی ہمت سے کام لیا ، طوفان کا مقابلہ کیا، سمندر کی خوفناک موجوں کو چیرتا ہوا  ساحل تک پہنچ گیا۔

 اس کے اعزاز میں پارٹیاں دی گئیں، پروگرام منعقد کئے گئے لیکن ڈوب جانے والے مرد مومن کے حصے میں فقط چند آنسو آئے۔

 یہ قانون قدرت ہے کہ ہر شعبے میں ، وہی ساحل تک پہنچتاہے، اور اسی کی عزت ہوتی ہے جسے اس شعبے کا شعور ہوتا ہے۔جو فن تیراکی جانتا ہے وہی سمندر کی لہروں کو چیر کر ساحل تک جاسکتا ہے چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو اور جو فن تیراکی نہیں جانتا وہ ڈوب جائے گا خواہ مومن ہی کیوں نہ ہو۔

یہی حال جمہوریت کا بھی ہے، اگر لوگوں کو جمہوریت کا شعور ہوگا تو وہ اس سے استفادہ کریں گے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر عوام کو جمہوریت کا شعور نہیں ہوگا تو عوام  جمہوری حکومتوں میں اٹھنے والے طوفانوں  کے سامنے بے بس ہو جائیں گے۔

 آپ صرف  اپنی موجودہ جمہوری حکومت کے کارناموں پر نگاہ ڈالیے:

۱۔ اس وقت جہان اسلام کے تین بڑے دشمن ہیں، بھارت، امریکہ اور اسرائیل۔ مسلم دنیا کو دبانے کے لئے ان تینوں نے سعودی عرب کو قابو کیا ہوا ہے اور سعودی عرب نے پاکستان اور دیگر خلیجی ریاستوں کو جکڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب، مسلمانوں کو فلسطین اور کشمیر تو آزاد کرواکر نہیں دے سکتا لیکن اس نے  پوری عرب دنیا کو فلسطین کاز اور پاکستان کو کشمیر کاز سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔

 قائد اعظم نے تو   کشمیر کو پاکستان کی  شہ رگ کہا تھا ، لیکن  اب پاکستان کے عوام کو کچھ خبر نہیں کہ کشمیر کے ساتھ کیا ہو رہاہے۔ چنانچہ سجن جندل اور نواز شریف  کی  خفیہ ملاقات ہوجاتی ہے اور عوام دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ ہے ہمارے ہاں کی جمہوری حکومت!

کشمیر کاز کی اہم شخصیت ، بھارتی مطالبے اور سعودی دباو کے باعث ،حافظ سعید چودہ ماہ سے نظر بند  ہیں! عوام کو پتہ ہی نہیں کہ انہیں کیوں نظر بند کیا گیا ہے؟اس نظر بندی کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے اور نقصان کسے!؟عوام کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ نظر بندی کس کو خوش کرنے کے لئے لگائی گئی ہے؟ یہ ہے ہمارے عوام کا جمہوری شعور!

۲۔ جنرل (ر) راحیل شریف  کو  عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا اور اب ہماری نوّے فی صد  عوام کو پتہ ہی  نہیں  کہ انہیں کیا کرنا چاہیے!؟

سوچنے کی بات ہے کہ کیا یمن کوئی کافر ملک ہے جس پر سعودی عرب نے جنگ مسلط کر رکھی ہے اور کیا قطر کوئی غیر مسلم ملک ہے کہ جس  کے عوام کا رمضان المبارک میں  بھی محاصرہ کیا گیا ہے!؟

 یہ ہے  بادشاہوں کے ٹکڑوں پر پلنے والی ہماری موجودہ  جمہوری حکومت،  جہاں  عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ان حالات میں ان کے جمہوری اختیارات کیا ہیں!؟

 ۳۔ عمران خان صاحب نے حکومت کی کرپشن کے خلاف مقدمہ لڑا تو عدالت سے فیصلے کے بجائے جے آئی ٹی برآمد ہوئی۔ یہ ہمارے ہاں کی جمہوری حکومتوں میں اعلی اداروں کی کارکردگی ہے ، جبکہ  دوسری طرف فیس بک پیجز چلانے پر لوگوں کو اغوا کرنے اور پھانسیاں دی جانے کی  خبریں گشت کررہی ہیں۔

اس بادشاہت زدہ اور بادشاہت نواز جمہوری حکومت میں  عوامی حقوق کا یہ حال ہے کہ فیس بک کے پیجز کی وجہ سے لوگوں کو پھانسیاں ہو جاتی ہیں  اور دوسری طرف ملک کے معروف ترین ائیر پورٹ پر خواتین کی پٹائی کی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں سزا یہ  دی جاتی ہے کہ صرف ایک کانسٹیبل کو معطل کیا جاتاہے۔!یہ ہے  اس حکومت  کے نزدیک عوام کے جان و مال کی اوقات!

 آپ کو یاد ہوگا، یہ ابھی ابھی کی بات ہے کہ کسی مدرسے میں نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی میں، مشال خان جیسے قومی سرمائے کو قتل کردیا جاتا ہے ، اور سرکاری ادارے اسے تحفظ نہیں دے پاتے، اور اس کے قتل میں اپنے آپ کو جمہوری اور سیاسی کہنے والے لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔

 یہ ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر ڈگڈگی بجانے والا چند لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کرلیتا ہے اور پھر مشال خان جیسے لوگوں کو قتل کر کے یہ تاثر دیتا ہے کہ اسے عوام نے قتل کیا ہے۔

  مشال کے قتل سے عوام اور جمہوریت کی بدنامی ہوئی لیکن عوام کوئی رد عمل نہیں دکھا سکے چونکہ  قاتلوں میں جمہوری  لوگ ، سیاسی عناصر  اور کونسلر بھی شامل  ہیں۔  

یقینا یہ جمہوریت کے نام پر ڈھونگ ہے،  ہمارے ہاں نام جمہوریت کا استعمال ہورہاہے لیکن عملا سعودی عرب کی طرح کی بادشاہت ہی ہے۔  

اگر آپ آٹے کے اوپر چینی لکھ کر اسے چینی چینی کہتے رہیں تو کیا آٹا میٹھا ہو جائے گا!؟

ہماری موجودہ حکومت کشمیر اور فلسطین کاز سمیت تمام شعبوں میں سعودی عرب  کی ہدایات پر عمل کر  رہی ہے۔

ہمیں آٹےکو چینی کہنے کے بجائے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔

موجودہ حکومت نے فیس بک سے لے کر کشمیر کاز تک عوام کو سعودی عرب کی طرح  فرقوں، مسلکوں، مسجدوں، مدرسوں،مولویوں، وڈیروں، قوموں، قبیلوں، صوبوں اور علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، سب کو الگ الگ کر کے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔

ہسپتالوں میں لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں، لوگوں کے گردے نکال کر بیچ دئیے جاتے ہیں، جعلی دوائیاں  فروخت کی جاتی ہیں، راجپوتانہ جیسے ہسپتال میں مریضہ چیخ چیخ کر دم توڑ دیتی ہے لیکن ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرتے، مرحومہ  کے لواحقین   احتجاج کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹروں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔  

یہ سب پاکستان کی جمہوریت نہیں سعودی عرب کی بادشاہت ہے، جہاں عوام کو چاہوتو  فیس بک کی آڑ میں پھانسی دے دو،  قوم کے غیور جوانوں کو چاہوتو یونیورسٹیوں میں قتل کروا دو ، مریض لوگوں  کے  ہسپتالوں کے اعضا بیچ دو ، کرپٹ ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی صدائے احتجاج کو  مختلف حربوں سے دبا دو۔ ہر با شعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آمریت ہے جمہوریت نہیں۔

۱۹۴۷ میں ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا تھا،  آج پھر ہم سب کو اسلام کے نام پر جمع ہوکر، اس ملک میں، انسانیت کی توہین، اخلاقی اقدار کی پامالی، دوسرے ممالک کی غلامی اور مخصوص سیاسی  خاندانوں کی   آمریت کو روکنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مذہبی اسکالر ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کے خطاب سے اقتباس

تحریر : ناصر رینگچن

✒?اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں اور قارین کی آسانی کے لئے اس موضوع میں بیان ہونے والے کچھ اہم پوائنٹس مندرجہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔

*?الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی؟*
*? امریکہ ،فرانس ،اسرئیل اور سعودیہ کا گٹھ جوڑ*
*? عرب سپرنگ کے نام پر دہشت گردوں کو فنڈینگ کس نے کی؟*
*? خطے میں تین بلاکز ، کون کون شامل ہے؟*
? *بن سلمان اور بن زید امریکہ سے کہا چاہتے ہیں؟*
*? ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب سے قطر کو کیا پریشان ہوئی؟*
*? ایران کے مخالف قطر اور سعودیہ کے مابین تنازعہ کیوں؟*
*?پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟*
*? عالمی طاقتوں کا مقصد؟*
*? اتحاد وقت کی اہم ضرورت۔*

*مشرق وسطی کے بدلتے حالات سے پاکستان تک*

مشرق وسطی جو کہ تاریخی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہر زمانے میں یہ خطہ عالمی طاقتور اور حکومتوں کی نظروں میں رہا۔ اسی طرح آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مشرق وسطی کی اہمیت میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی بلکہ قدرتی وسائل، جغرافیائی اہمیت اور سیاسی لہذ سے اب بھی عالمی طاقتوں کے مفاداتی جنگ کا میدان ہے جہاں پر ڈائریکٹ انڈائرکٹ تمام طاقتیں موجود ہیں۔ایک بات یاد رکھیں بین الاقوامی سیاست میں کوئی ابدی دوست اور دشمن نہیں ہوتا تمام تر تعلقات مفادات سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ یہاں پر مشرق وسطی کے موجودہ حالات پر گفتگو کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ کو ان حالات کو سمجھنے اور پس پردہ حقائق کو جانے میں آسانی ہوگی ۔ ڈاکٹر عبدالمجید دشتی کویتی جو کہ کویتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا ایک دوست جو الجزائر کا سابق وزیر خارجہ تھا اس کا نام علی بن فلیس ہے ۔ وہ وزیر خارجہ کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اس نے الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی ؟ مجھے مفصل بتایا اور بیان کیا۔
علی بن فلیس کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں الجزائیر میں دہشت گردی عروج پر تھی جیسے ابھی شام عراق اور دیگر دہشت گرد متاثرین مملکوں میں ہیں۔90 کی دہائی میں متشدد اسلامی تحریک کی لہر زوروں پر تھی اور ان لہروں کے پیچھے یہی تکفیری آیڈیالوجی کارفرما تھی.اور جس نے الجزائر کے امن کو تباہ و برباد کردیا تھا اور لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ حکومت پریشان تھی کہ کیسے اس دہشت گردی کی لہر اور سوچ پر قابو پایا جائے مگر ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ الجزائر کا صدر نے مجھے یعنی علی بن فلیس کو طلب کیا اور اسے کہتا ہے کہ اج کچھ خاص مہمان آئنگے لہذا تمھاری شرکت نہایت ضروری ہے۔ علی بن فلیس کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ صدر کے ساتھ امریکی سفیر اور تین دیگر لوگ بیٹھے تھے جو امریکن سی آئی اے کے عہدہ دار معلوم ہوتے تھے۔ امریکی سفیر نے صدر سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں آپ کے ملک سے دہشتگردی ختم ہو؟؟ صدر صاحب پہلے سے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے باعث حیرانگی کہنے لگے کیا آپ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں؟؟ سفیر نے کہا جی بلکل مگر کچھ شرائط ہیں !! صدر نے کہا قبول ہے۔ امریکی سفیر نے کہا

اول۔ آپ کے ملک کے تیل کی فروخت کی امدن وغیرہ کے جو نفع ہے اسے امریکی بینکوں میں رکھیں گے۔
دوئم_ اور گیس کی فروخت کی آمدن فرانس کے بنکوں میں رکھیں گے.
سوئم - فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اسرائیلی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔
چہارم _ ایران اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔
پنجم _ اگر ترکی جیسی اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا.
اگر آپ ہماری شرطیں قبول کرتے ہیں تو آپکے ملک سے یہ مذھبی دہشتگردی ختم کرنے کی ہم ضمانت دیتے ہیں.

صدر نے کچھ سوچنے کے بعد مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر دی تو سفیر کہنے لگا ٹھیک ہے پھر ہم اپنے شرکاء اسرائیل، فرانس اور سعودیہ سے بات کریں گے ۔
صدر نے پوچھا کہ ان ممالک کا کیا تعلق ہےامریکی سفیر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیاکہ دہشت گردوں زیادہ تر اسلحہ فروخت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اور اس اسلحہ کا خریدار یعنی فنڈز فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب اور دہشت گردوں تک اسلحوں کو پہنچانے والا فرانس ہے. اسرائیل اسلحہ فرانس بھیجتا ہے اور فرانس کے الجزائر کے بعض فوجی آفیسرز سے تعلقات ہیں جنکےبذریعے یہ اسلحہ مسلحہ گروھوں تک پہنچتا ہے.اس کے بعد سفیر نےتمام معلومات اور حقائق ہمارے سامنے رکھ دئے ، اور کہا کہ ہم فرانس اور اسرئیل کو اس معاہدے سے اگاہ کر دیں گے آپ کسی کو سعودیہ بھیجیں جو سعودی حکومت کوقائل کرے .

اسی دوران صدر نے علی بن فلیس جو کہ وزیر خارجہ تھا کو حکم دیا کہ سعودی عرب سے بارگینگ تم کرو گے۔ علی بن فلیس سعودیہ پہنچتا ہے کنگ عبداللہ سے ملاقات کرتا ہے اور پلینگ سے آگاہ کرتا ہے مگر بادشاہ عبداللہ کسی صورت مانے کو تیار نہیں ہوا بالآخر علی بن فلیس ناکامی کے ساتھ محل سے باہر نکلتا ہے اور امریکی سفیر کو فون کر کے صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں سفیر کہتا ہے تھوڑی دیر انتظار کرو۔ اب تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ملک عبداللہ کا خصوصی ایلچی جلدی سے علی بن فلیس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے بادشاہ نے آپ کو بلایا ہے وہ کہتا جب میں کنگ عبداللہ کے پاس پہنچا تو وہ فورا مجھے مبارکباد دینے لگا ۔ اس کے بعد دہشت گردوں کی لعنت ہمارے ملک الجزائر سے ختم ہو گئی. امیرکن الجزائر میں دہشت گردوں کے مراکز کو جزائیری فوج کے سامنے رکھ ریتے ہیں یوں وہاں کی آرمی امریکیوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔

خلاصہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو ظاہری دہشت گرد نظر آتے ہیں یہ ایک روبوٹ کی طرح ہے ان کے پیچھے پورا ایک سسٹم کار فرما ہے جو شاید ہی صرف دہشت گردوں کے لیڈروں کو ہی پتا ہو۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے سعودی عرب میں دہشت گردوں کے تھینک ٹینک اسلامی ممالک کے سربراھان کا اجلاس ہوا اور امریکی سعودی اتحاد سے اس کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان حکمرانوں کو اسلام پر لیکچر بھی دیا. اس کے بعد برادر اسلامی ملک ایران کے خلاف اتحاد کے مقاصد کو بیان کیا گیا . جس کا پہلا اثر ایرانی پارلیمنٹ اور مرقد امام راحل پر دھشتگردی کے حملے کی صورت میں نظر آیا.

اور دوسرا اثر دہشت گردوں کی سب سے زیادہ مالی سپورٹ کرنے والے ممالک قطر ، سعودیہ اور امارات کے ما بین کشیدگی کی صورت میں نظر آ رھا ہے. اب ایران پر حملہ کیوں ہوا؟ پہلا نقطہ تو واضح ہے کہ سعودی اتحاد میں الاعلان کہا تھا کہ اب دہشت گردی کی جنگ کو ایران کے اندر لے جائیں گے۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان اور محمد بن زید نے امریکہ کے سے قریبی تعلقات قائم کئے اور امریکہ سے کہا کہ خطے کی چودراہٹ ہمارے ہاتھ میں آنے چاہئیے اور ساتھ ہی خزانوں کی چابیاں بھی دیکھا دیں۔ امریکہ جسے ان دہشت گردوں اور عرب بدووں کی جاہلانہ ذہنیت پر کمانڈ حاصل ہے ، اور ساتھ ہی اپنے مفادات کا بھی خیال تھا. انہوں نے کہا یہ معاہدہ برا نہیں ہے۔ابھی تو فقط امریکہ اور سعودیہ کا پانچ سو ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے. در پردہ 1500 ارب ڈالرز محمد بن سلمان طے کر چکا ہے. اور سعودیہ کی خاطر پہلے امریکہ نے شام کے شعیرات ائیر بیس پر حملہ کر کے ال سعود اور اس کے اتحادیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ اگر پیسے دو گے تو ہم یوں بھی کر سکتے ہیں لہذا پیسے دو کام لو۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی اتحاد کو یہ جراءت ہوئی کہ اس نے ایران سے جنگ کا اعلان کیا۔ اسی لئے ہمیں تہران حملے کی نوعیت داعشی اسٹائل سے الگ نظر آتی ہے چونکہ اس منصوبے میں ڈائریکٹ امریکہ اسرائیل بھی موجود ہے۔ دوسری طرف سی آئی اے نے سعودیہ کو گرین سگنل دیا ہے کہ 500 ارب ڈالر کا نتیجہ آرہا ہے۔

یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایران پر حملہ دو اہم رموز اور ستونوں پر حملہ ہے .اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلام اور جمہوریت دو اہم ستون اور رکن نظام ہیں. اس لئے حرم امام خمینی کو نشانہ بنانا اسلام ناب اور محمدی اسلام کو نشانہ بنانا ہے اور مجلس شوریٰ اسلامی یا پارلیمنٹ پر حملہ جمہوریت پر حملہ ہے. دوسرے لفظوں میں شام عراق کی شکست انھیں یہاں تک لے آئی ہے . کہ جمہوریت کی خاطر پر امن ممالک کو تباہ کرنے والے جمہوریت پر حملے کر رہے ہیں اور اسلام کے جھوٹے دعویدار اسلام پر ہی حملہ آور ہیں. لیکن ایک بار پھر استعماری طاقتیں اپنے اصل ہدف میں ناکام ہوئے۔

آج مقاومتی بلاک بڑی طاقت میں ہے جس کی وجہ سے شام، لبنان،یمن ، عراق اور ایران میں مضبوط روابط قائم ہیں۔ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کی شرمناک شکست اور پھر شام عراق میں تکفیریوں کی پے درپے شکست سے بلاک مقاومت کی طاقت دنیا بھر میں ظاہر ہوئی. اب امریکہ ڈائرکٹلی مقاومتی بلاک سے ٹکرانے میں احتیاط کرتے ہیں۔ ہم سنتے آرہے ہیں تھے کہ تہران سے بیروت تک اس ہلالی خطے میں شیعہ مظبوط ہونا چاہتے ہیں تو دینا آج دیکھ رہی ہے کہ ہلال شیعہ مکمل ہوچکا ہے آج تہران سے بیروت تک راستہ کلیر ہے اور یہ سب مقاومت کی بدولت ہے۔اس وقت خطے میں تین بلاکز موجود ہیں۔

1_مقاومت کا بلاک: امریکہ و اسرائیل کے خلاف یعنی ہر ظالم کے ظلم کے خلاف اور یہ لوگ خود سے کبھی پہل نہیں کرتے یہ اپنے اصولی موقف کا دفاع کرتے ہیں اگر کسی ملک میں جاتے بھی ہیں تو بین الاقوامی قوانین کا لحاظ رکھتے ہیں اور قانونی طور پر جاتے ہیں یعنی باقاعدہ دفاعی معاہدہ کی صورت میں جاتے ہیں۔ اس بلاک میں جو نمایاں ہیں وہ ایران، عراق، شام، حزب اللہ، انصاراللہ اور الحشد الشعبی ہیں۔ جنہیں عالمی طور پر روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے.
2۔ سعودی عرب ، خلیجی ممالک اور مصر کا بلاک : جو اپنے آپ کو سنی بلاک کہتے ہیں حقیقت میں تکفیری بلاک ہے. جو امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچتا ہے.
3۔ قطر ، ترکی ، اخوان المسلمین اور حماس کا بلاک : جن کی زیادہ تر مالی معاونت قطر کرتا ہے۔ تکفیری دہشتگردی کی پشت پناہی اور امریکہ و اسرائیل سے تعلقات میں دوسرے اور تیسرے بلاک میں کوئی فرق نہیں. دونوں کی کوشش ہے سنی دنیا کی خلافت وسربراہی فقط اس کے پاس ہو ایک خادم الحرمین کے لقب سے سنی ممالک کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے دوسرا خلافت عثمانیہ کے از سر نو احیاء سے مسلمانوں کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے. اور اس خلافت کو وہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

دوسرے اور تیسرے مقامات کا آئڈیولوجی تقریبا ایک ہی مگر نظریاتی و مفادات اختلاف موجود ہیں۔ شام، عراق میں یہ دونوں پہلے والے مقاومت کے خلاف متحد تھے.
جب عراق، شام میں ان تکفیریوں کو شکست ہوئی تو امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہوئی انھوں نے اب ایک نئی ڈرامہ بازی شروع کردی۔ اور شام، عراق، لیبیا وغیرہ کی جنگ میں جو ممالک متحد تھے اور دہشت گردوں کی مالی و نفری مدد کر رہے تھے انہوں نے اپنے الو ٹھیک کرنے شروع کئے ہیں ۔ امریکہ جس کی اقتصاد روز بہ روز تنزلی کی جانب بڑھ رہا تھا اس نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور عربوں کے دولت سمیٹنے لگا جس کی پہلی مثال دورہ ٹرمپ اور ٹرمپ کا یہ بیان ہے سعودیہ دودھ دینے والی گائے ہیں جب تک دودھ موجود ہے دودھ دھولو۔

یہاں سے قطر اور سعودیہ کا تنازع شروع ہوتا ہے اول تو مقاومتی بلاک کی وجہ سے اختلافات تھے دوسرا امریکہ سے سعودی قریبی تعلقات سے بھی قطر ناراض تھا اور یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے .جب سعودی عرب نے قطر کو جگا ٹیکس دینے کا کہا مطلب 1500 ارب ڈالر میں اپنا حصہ دیں قطر کو سعودی شرائط منظور نہیں تھیں لہذا اس نےانکار کردیا۔

یہ بات یاد رہے کہ سعودی قطعی تعلقات خراب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قطری اچھے ہوگئے ہیں۔ مشرق وسطی میں دہشت گردی کی آگ لگانے اور اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے والا ملک قطر ہے۔اور قطری چینل الجزیرہ عرب ممالک کی تباہی کی آگ لگانے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور مسلمانوں کی قتل وغارت میں دہشتگردوں کا برابر کا شریک ہے. انسانیت کے قتل عام میں قطر نے پانی کی طرح پیسا بہایا عرب سپرنگ کی آڑ میں دہشت گردوں کی خوب پرورش کی لیبیا میں تکفیریوں مکمل مالی تعاون کیا بلکہ امریکن نیٹو کے اخرات بھی قطر دیتا تھا۔ اس کے بدلے میں قطر کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ 10 سال تک لیبین تیل کی آمدنی حاصل کرے گا۔

صرف یہ نہیں شام کو عرب لیگ سے نکالنے میں بھی قطر کا ہاتھ ہے۔ خلاصہ یہ کی اب تک بین الاقوامی جنگ قطر لڑ رہا تھا۔ جب قطر نے اپنی ان تمام قربانیوں کے باوجود امریکہ کا سعودی عرب کی طرف جھکاو دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا یوں یاری میں دوریاں پیدا شروع ہوئی۔ شروع میں یہ خیال تھا کہ یہ ننھا قطر گھٹنے ٹیک دے گا مگر ترکی کی طرف سے فوجی، ایران کی طرف سے غذائی مدد پھر روس کی طرف سے بھی آسرا ملنے کے بعد قطر نے اپنی روش میں استقامت پیدا کی ہے۔

لیکن ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے یہ خلافت رسول اللہ کی جنگ نہیں یہ اقتدار بنی امیہ اور بنی عباس کی جنگ ہے اور اللہ کے نیک اور صالح بندے اور ذریت رسول اللہ ان دونوں اقتداروں میں ظلم کی چکی میں پستی رہی. یہ دونوں بلاک ہمارے ابدی دشمن ہیں ہمارے خلاف یہ دونوں ایک ہیں ۔ لیکن ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہیے چونکہ دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا اور ان سے دوستی کرنے میں فرق ہے۔ ہم کبھی بھی قطر اور سعودیہ کے جرائم پر پردہ نہیں ڈالیں گے بلکہ جب بھی موقع ملے گا ان کے جرائم اور مظالم کو آشکار کریں گے۔

پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں بھی غور و فکر کرنا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام بھی سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور دہشت گردی کے خلاف ہمارے جوانوں نے بے شمار قربانیاں پیش کی ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی دہشت گردی کی جڑیں مفادات سے وابسطہ ہیں، اس کے علاوہ تقریبا ہمارے ہر محکموں میں ایک خاص فکر دیوبندیت اور وہابیت سے تعلق رکھنے والے گروہ کا قبضہ ہے۔ اور ان کے منظم شکل کا نام جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ہے ۔۔جماعت اسلامی پاکستان میں ایسے ہی ہیں جیسے مصر میں اخوانالمسلمین لیکن جماعتی فکر کے لوگ پاکستان کے ہر سرکاری محکموں اور سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں۔ یہی لوگ ملکی نصاب بناتے ہیں تنگی نظری اور تعصب کی ترویج کرتے ہیں. پھر ملک میں فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے۔ جس پاکستان کو ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دے کر بنایا اور جن لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی بانی پاکستان کو کافر اعظم کہا آج وہ پاکستان کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس گروہ نے ہمارے نصاب میں ہر شیعہ دشمن کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے چاہئے وہ محمد بن قاسم ہو یا شاہ ولی اللہ تاریخ کے اندر جو متشدد گزرے ہیں وہ ان کے ہیرو اور آئیڈیل ہوتے ہیں۔ ابھی کی ہی مثال لے لیں اسامہ بن لادن ، صدام، قذافی، ملاں عمر ، مولوی فضل اللہ ، ابو مصعب زرقاوی اور ابو بکر بغدادی یہ سارے ان کے اسلامی ہیرو ہیں۔ اب آپ خود سوچیں جو لوگ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لئے نرم کوشہ رکھتا ہو وہ جب نیشنل ایکشن پلان، ردالفساد ترتیب دینے میں شامل ہوں گے تو یہ آپریشن کیسے کامیاب ہوگا۔

خلاصہ آج ہمیں انتہائی مشکل حالات درپیش ہیں اور ہر رنگ نسل سے تعلق رکھنے والے ظالم و ستمگر ہمارے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتوں کا مقصد نئے سرے سے اسلامی ریاستوں کی سرحدیں تعین کرنا ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی طاقت موجود نہ رہیں اور یہ سارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جائے۔ اسلام دشمن عناصر چاہتے ہیں افریقہ، مشرق وسطی، خلیجی ممالک ،ایران ترکی، پاکستان سے لیکر انڈونیشا تک کوئی سالم ملک باقی نہ رہے اور یہ سب فرقوں اور نسلوں میں تقسیم ہوجائیں اور ان کی آئندہ آنے والی نسلیں یہ جنگیں شیعہ سنی، عرب عجم و قوم کے نام پر اپنی گلیوں میں لڑیں۔ لہذا اس خطرناک دور میں ہوشمندی کے ساتھ آپس میں مضبوط اتحاد ضروری ہے اور یہی اتحاد ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اسلام تکفیری و اسلامی امریکائی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یقینا امام خمینی نے ہمیں اس خطرے سے پہلے ہی آگاہ کیا تھا اور نشاندہی کی کہ تھی شیطان اکبر امریکہ ہے۔ آج اسلامی اتحاد کے نام پر اسلامی امریکی و اسرائیلی کو فروغ دیا جارہا ہے جن کا اصل ہدف یہودی ونصاری کے مفادات کا تحفظ اور حقیقی اسلام کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ خدا نے اس پر خطر دور میں بھی ہمیں رہبر سے یتیم نہیں رکھا آج آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں دشمنان اسلام ہر محاذ پر ناکام ہو رہے ہیں اور ان کے پس پردہ مقاصد عیاں ہو رہے ہیں، آج ہر جگہ مقاومت اسلامی حقیقی اسلام کے مدافعین کو ہر جگہ چاہئے جنگ نرم ہو یا سرد فتح و کامرانی نصیب ہو رہی ہے ہمیں اس نعمت خداوندی کا شکر بجالانا چاہئے۔

فزت و رب الکعبہ

وحدت نیوز(آرٹیکل)  ایک آواز،ایک پکار،ایک ندا اب بھی فضا میں گونج رہی ہے اوروہ آواز ہے ایک ایسی ہستی کا جس نے انسانیت کو عدل کا تعارف کرایا۔وہ ہستی جس نے عدل کے موضوع کو جلا بخشی،وہ ہستی جس نے عدل کے حقیقی مفہوم کو مجسم کر کے سب کو  سمجھا دیا ،وہ ہستی جس نے ظالم کے ظلم  کرنے سے پہلے اسے ظالم نہیں کہا،وہ ہستی جس کے شہید ہونے کی وجہ سے شاعر نے اس طرح بیان کی: قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ ۔ آپ اپنے انتہائی عدل کی وجہ سے محراب میں شہید کر دئے گئے۔

یہ آواز اب بھی فضاوں میں گونج رہی ہے ۔یہ آواز انیس رمضان المبارک کو مسجد کوفہ سے بلند ہوئی اورآج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ گونج رہی ہے۔وہ آواز یہ تھی فزت و رب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔یہ اس سورما کے الفاظ ہیں جس نے بدر و احد میں لشکر اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا ،جس نے جنگ خندق کے دن کل ایمان کی شکل میں کل کفر عمرو بن عبدود کو واصل جہنم کر کے اسلام کو ایک اورفتح سے سرفراز کیا،جس نے در خیبر کو اکھاڑا  اورمرحب و عنتر کو خاک وخون میں ملا کر فتح خیبر کی زرین تاریخ رقم کی،جس کی تلوار نے ہر معرکہ میں دین حق کی وہ لاج رکھی کہ اس کا ثانی کوئی نہیں بن سکا۔لیکن عجیب بات ہے کہ کہیں اس نے یہ جملہ نہیں کہا اور یہ منفرد نعرہ نہیں لگایا جو آج اپنے ہی خون میں غلطاں ہونے پر لگا رہا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس کی نظر میں حقیقی کامیابی صراط مستقیم پر حاصل ہونے والی موت ہے  نہ کہ فتوحات اور ملک گیری۔

ہاں یہ اس کی آواز ہے جس کا زچہ خانہ کعبہ بنا  اوریہ ولادت اس مولود اور اس کے والدین کی طہارت و پاکیزگی کی دلیل بنی۔وہ اب ایک دفعہ پھر خدا کے گھر میں اس کا مہمان ٹھہرا ہے تا کہ واپسی  کاسفر بھی اللہ کے گھر سے ہی شروع کرے۔آج علی ابن ابی طالب  علیہ السلام اپنے اس حسن ختام پر کامیابی کا نعرہ لگا رہے ہیں اورپوری انسانیت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو حقیقی کامیابی کا معیار راہ حق میں مرنا ہے۔یہاں ہم  انسان کامل علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت بیان اور رقم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسے ہم جیسے ناقص انسان بیان اوررقم نہیں کر سکتے ۔

کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
 کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

یعنی فضائل علی ابن ابی طالب کی صفحہ شماری کے لئے انگی تر کرتے کرتے سمندر ختم ہو سکتے ہیں لیکن علی کی فضیلت ختم نہیں ہو سکتی۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام  انسان کامل ہیں ۔علی جب دنیا میں تشریف لائے تو مدینۃ العلم نے اس  نومولود کو اپنی زبان مبارک چوسائی اور اسے باب العلم  قرار دیا ۔رسول خدا نے فرمایا: انا مدینۃ العلم و علی بابہا ،نیز فرمایا: یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی، اے علی آپ کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔علی ابن طالب علیہ السلام نے پیغمبر خدا کے حکم پر دعوت ذوا لعشیرہ میں سب سے پہلے لبیک کہی تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی ،وزیر اور خلیفہ قرار دیا لیکن آپ نے فزت اور کامیابی کا نعرہ نہیں لگایا۔اسی طرح ایسے ایسے واقعات پیش آئے جو اسلام کو سرے سے ختم کر سکتے تھے لیکن علی نے نہایت بہادری سے نہ صرف رسول خدا کو بلکہ اسلام کو  بچا لیا اور سفینہ اسلام کو ساحل تک پہنچا دیا لیکن  پھرکبھی کامیابی کا دعوی نہیں کیا۔جب واقعہ مواخات میں رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی بنایا اس وقت بھی آپ نے کامیابی کا دعوی نہیں کیا اسی طرح جب وسیع و عریض اسلامی مملکت کا قتدار آپ کے ہاتھوں آیا اورخلیفۃ المسلمین کہلائے تب بھی آپ نےکامیابی کا دعوی نہیں کیا لیکن جب انیس رمضان المبارک کو ابن ملجم کے ہاتھوں جان لیوا ضربت کھائے تب علی ابن ابی طالب  علیہ السلام نے کامیاب ہونے کی قسم کھائی۔

ایک غیر مسلم دانشور کے بقول: علی ابن ابی طالب واقعی مظلوم ہیں کیونکہ ان کے فضائل ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے چھپا رکھیں۔دوستوں  نے دشمنوں کے  خوف  سےجب کہ دشمنوں نے حسد اور کینہ کے باعث۔

علی ابن ابی طالب کی پرورش خاتم الرسل نے خود کی تھی ۔رسول خدا آپ کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اپنے سینے سے لگاتے اور اپنے منہ سے غذا چپا کر لقمے کھلاتے تھے۔ہر روز ان کو علم کا ایک نیا باب سکھاتے اورعلی ابن ابی طالب ان پر عمل کرتے تھے۔

عرب کے اس ماحول میں جہاں انسانیت اورشرافت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور بھائی بھائی کا گلہ کاٹتا تھا،ایک آواز ابھری ۔یہ ہمارے نبی کی آواز تھی ۔وہ لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اوراسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔جاہل اوراحمق عربوں نےا پنے دل کے کان بند کر رکھے تھے لیکن یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور سب سے پہلے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔

کفار  قریش نے جب شب ہجرت شمع رسالت کو گل کرنے کی ناکام کوشش کی تو فرزند ابو طالب  ہی تھے جنہوں نے جان خطرے میں ڈال کر شمع رسالت کو بچا لیا۔یہ جان نثاری خالق الہی کو اتنی پسند آئی کہ آپ کی شان میں یہ آیت نازل کی: و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ ایسے  بھی ہے جو خدا کی خشنودی کے لئے اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں ۔آپ کی صرف ایک وار کے متعلق رسول خدا نے فرمایا تھا: خندق کے دن علی کی ایک وار تمام جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اگرچہ اپنے عدل کی وجہ سے شہید کئے گئے لیکن آج وہ اپنے عدل کی ہی وجہ سے زندہ و پائندہ ہے ۔جب تک دنیا میں عدل و انصاف  کا نام رہے گا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر بھی تابندہ رہے گا۔ایک دفعہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کنے لگے: آپ بڑے لوگوں کو بیت المال سے بڑا حصہ دیا کریں اگر ایسا نہ ہوا تو وہ آپ کے دشمنوں سے جاملیں گے۔ آپ نے فرمایا: ہمیں چاہئے کہ ہم حق و انصاف کا ساتھ دیں اورلوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنااطرف دار نہ بنائیں ۔یہ بات تھی کہ رسول خدا نے فرمایا :علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ۔حق و انصاف کے اسوہ کامل کا  یہ جملہ عدل علی کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے:اگر تم کہو کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں اور اس کے بدلے سارے دنیا میری قدموں میں ڈال دو تب بھی میں ایسا کرنے سے انکار کر دوں گا۔

محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ  کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے۔اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں  پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما}اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے  ۔
جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے  اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئک ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ}۔

حق  اورعدل و انصاف کے معاملہ میں آپ کی سخت گیری کے سبب  سے جاہل،تنگ نظراورمفاد پرست لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔جہل و عناد اورتنگ نظری کی شیطانی تلوار انیس رمضان المبارک چالیس ہجری کو نیام سے نکلی۔تنگ نظر دہشت گرد نے لا حکم لالا للہ کا نعرہ لگا کر مسجد کوفہ کو نفس رسول خدا کے خون سے رنگین کر دیا۔یہ دہشت گرد بھی علی ابن ابی طالب کو مسجد میں اورحالت سجدہ میں مار کر خدا کی رضا مندی مول لینا چاہتا تھا ۔عجیب بات ہے کہ آج کے دہشت گرد اورتکفیری گروہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں جس کی ابتدا ابن ملجم نے چالیس ہجری میں  کی تھی۔وہ علی جس ایک ضربت بقول رسول خدا ثقلین کی عبادت سے بہتر تھی آج اشقی الاولین و الاخرین کی زہر آلود تلوار کی ضربت سے لہولہاں تھے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کل ایمان کی زبان سے  یہ نعرہ بلند ہوا فزت و رب الکعبہ۔۔۔

پورے کوفہ میں اس حملے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔وہ علی جس کی زندگی کا ہر لمحہ کافروں اور منافقوں کا مقابلہ کرنے اوراسلام کا پرچم سر بلند رکھنے میں  گزرا تھا اب لمزور جسم لیکن روح کی طاقت کے ساتھ بستر شہادت پر آرام کر رہے تھے۔اصحاب علی بے چین تھے لیکن علی ابن   ابی طالب علیہ السلام پر سکون۔آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، سنت رسول خدا پر عمل کرو اورامر بالمعروف اورنہی از منکر کو ترک نہ کرو ورنہ ظالم لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے۔اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: قاتل پر صرف ایک وار کرنا۔جب آپ کے لئے دودھ لایا گیا تو اسے قاتل کو پلانے کا حکم دیا۔

امام کی شہادت کے بعد عدی بن حاتم نے آپ کی اس طرح سے تعریف کی: علی بڑے دانا،بینا،بہت طاقتور اورنڈر تھے۔وہ حق بات کہتے اورصحیح فیصلہ دیتے تھے۔وہ حق و دانائی کا سر چشمہ تھے،وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور رہتے تھے،وہ راتوں کو جاگتے اور تنہائی میں اپنا محاسبہ کرتے تھے۔وہ سادہ زندگی کو پسند کرتے تھے وہ ہمارے درمیان ہماری طرح رہتے لیکن اس کے دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ہم ان سے انکھ نہیں ملا سکتے تھے۔جب وہ مسکراتے تھے تو ان کی
دانت موتی کی طرح چمکتے تھے ۔وہ دیانت داروں اور پرہیزگاروں کی عزت کرتے،محتاجوں ، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔نہ طاقتور کو ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ،اورنہ کمزور ان کے انصاف سے نامید ہوتے تھے۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی منزلت کا ذکر اس شخص کی زبانی سنے جس نے امیر شام کی خصوصی فرمایش پر اپنی جان کی امان لے کر علی کی فضائل بیان کئے۔یہ ضرار نامی شخص ہے جو امیر شام اوردرباریوں کے سامنے کہتا ہے : علی ایسا شخص تھا جس کے ارادے بلند ، قوی اور مضبوط تھے۔اس کی پہلووں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے۔اس کی زبان پر حکمت کا پہرہ تھا۔وہ دنیا اور اس کی بہاروں اورلذتوں سے غیر مانوس تھے۔خوف خدا سے آنسو بہاتے  تھے۔ضرارکہتا ہے خدا کی قسم میں نے بعض حالات میں دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں علی محراب عبادت میں اپنی ریش کو پکڑتے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی مانند تڑپ رہے ہیں اور اس طرح رو رہے ہیں جس طرح کوئی غم کا  مارا۔ضرار فضائل بیان کرتا گیا یہاں تک کہ امیر شام سمیت تمام دربار اس حقیقت بیانی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوران کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک خطیب،ایک عالم ،ایک مومن، ایک مفتی،ایک عادل ،ایک قاضی ،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئ۔

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے، دنیا میں ہر جگہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں دشمن کا دوست ہمارا بھی دوست ہوتا ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے،  بھارت ہمارے پہلو سے اٹھا اوراس نے  عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب پر کمندیں ڈال لیں،  نہرو کے زمانے سے لے کر آج تک، بھارت سعودی عرب کو مسلسل  اپنے جال میں پھنساتا گیا اور ہم سعودی عرب کی دوستی  کے جال میں جکڑتے گئے۔ ہمارے  حکمرانوں نے  کبھی ٹھہرکر یہ دیکھا ہی نہیں کہ ہم کن راہوں پر چل رہے ہیں!

جماعت الدعوۃ نامی تنظیم کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ان کے چار قریبی ساتھیوں کی نظر بندی  کو  ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے،  یہ پابندی بھارت کی ضرورت تھی جو وہ براہ راست نہیں لگوا سکتا تھا ، یہ پابندی سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے   ان معائدوں کا نتیجہ ہے جن کی رو سے ۲۰۱۲ میں سعودی عرب نے  سید ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کردیا تھا۔  یاد رہے کہ بھارت  نے ابوجندل کو  ۲۰۰۸ کے بمبئی حملوں اور  بعد ازاں پونا میں ہونے والے دھماکوں  کا ماسٹر مائنڈ  اور دیگر متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

بعد ازاں  چند سالوں کے اندر سعودی اور بھارتی ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے  سے  سعودی حکومت نے محمد اسداللہ خان عرف ابو سفیان،  اور  محمد عبدالعزیز کو بھی  گرفتار کیا تھا۔  قابل ذکر ہے کہ مذکورہ افراد کئی سالوں سے بھارت کو مطلوب تھے۔ بھارت کو مطلوب افراد میں سے ایک بڑا نام حافظ سعید صاحب کا ہے جن  کو ہماری سعودی نواز حکومت نے  پاکستان میں ہی نظر بند کر دیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے بھارت کا دیرینہ مطالبہ تو پورا کردیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس سے  تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور دہشت گردوں کو کیا پیغام پہنچے گا!؟

دہشت گرد اچھی طرح جان چکے ہیں حکومت کی طرف سے ان پر کوئی دباو نہیں، کسی کو فیس بک پیجز  سے اٹھا کر سزا دی جاتی ہے اور کسی کو کشمیر کاز پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے،  لیکن خود دہشت گرد چونکہ  بھارت کے بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس لئے ان کے لئے کسی قسم کی نظر بندی نہیں ہے۔

اس وقت   تقریباً پچیس لاکھ بھارتی  باشندےسعودی عرب میں  اور ستر لاکھ دیگر خلیجی ممالک میں  مشغول کار ہیں۔ سعودی عرب کے لئے ایشا کی منڈی میں بھارت سے بڑی مارکیٹ کوئی اور نہیں چنانچہ   سعودی آرامکو جو کہ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ہے، اس نے  بھارتی آئل ریفائنریوں میں  بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اس وقت بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات فقط اقتصاد اور مشیشت تک محدود نہیں ہیں بلکہ    ان کے تعلقات کا دائرہ پالیسی افئیرز تک پھیل چکا ہے۔ بھارت سعودی پالیسیسز  کے اشتراک کی وجہ سے اب بھارت براہ راست بھی ہمارے حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے ، جیسا کہ  نریندر مودی کے قریبی دوست سجن جندال نے  وزیراعظم سے  مری میں خفیہ ملاقات کی۔

دوسری طرف  ہماری موجودہ حکومت نے سینٹ کو اعتماد  میں لئے بغیر جنر ل راحیل شریف کو سعودی اتحاد کی کمان سنبھالنے کے لئے بھیج دیا۔ بھیجنا تو آسان تھا لیکن  اس وقت سعودی اتحاد کا یہ حال ہے کہ    خود وزیراعظم نواز شریف سعودی قیادت سے ملاقات کر کے ان کے باہمی اختلافات کو حل کرنے کے چکر میں ہیں۔ اس موقع پر  سیانے کہتے ہیں کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔

ہماری سعودی عرب کے نزدیک کیا اہمیت ہے،  اس کا اندازہ ،ریاض کانفرنس میں ہی سب کو ہوچکا ہے۔ البتہ یہ دورہ خلیجی ممالک کے اختلافات سے ہٹ کر بھی ،   اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ریاض  کانفرنس میں   ہونے والی بے عزتی کو دھویا جاسکے اور عوام کو یہ کہا جا سکے  کہ دیکھو! دیکھو!  اب کی بار تو ہمیں  اچھی طرح لفٹ کرائی گئی ہے۔

اسلامی اتحاد کی آڑ میں  جنرل راحیل کو  سعودی عرب کی بارگاہ میں پیش کرنے والے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس اتحاد کے نزدیک اب تو قطر بھی دہشت گرد ہے۔ یعنی جو بھی اسرائیل اور امریکہ کی غلامی سے انکار کرے وہ اس سعودی  اتحاد کی نگاہ میں دہشت گرد ہے اوراس کا سارا منفی  کریڈٹ پاکستان کو جا رہا ہے  چونکہ اس شرمناک اتحاد کی کمان ایک  پاکستانی ریٹائڑڈ جنرل کے پاس ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے  ایٹمی قوت ہونے اور پاکستان کی  بہادرآرمی کی وجہ سے پاکستان کا پوری دنیا میں ایک وقار تھا جو نا اہل حکمرانوں نے اس سعودی اتحاد پر قربان کردیا ۔

 اس وقت سعودی عرب کی حالت یہ ہے کہ  آج  سعودی عرب کی حکومت نے قطری حمایت یافتہ عالم دین یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر سعودی عرب میں مکمل طورپر پابندی عاید کردی ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرضاوی کا کیا قصور ہے ؟ کیا قرضاوی  اب نعوذ باللہ کافر ہو گئے ہیں؟ کیا  کسی ملک کی مخالفت یا حمایت سے علما کا علم اور دین  بھی تبدیل ہوجاتاہے ؟

 یہ پابندی سراسر ،  ایک بزرگ  عالم دین اور علم دین کی توہین ہے۔  آخر ملکی و قومی  تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ،  عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے وزیر تعلیم احمد بن محمد العیسیٰ نے تصدیق کی ہے کہ  معروف مصری  عالم دین  یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر پابندی  لگا دی گئی ہے  اور اسکولوں اور جامعات کے نصاب سے ان کی تمام کتابیں  نکال دی گئی ہیں۔  نیز اس کے بعد ان کی کتب کی سعودی عرب میں طباعت و اشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

یہ کونسا اسلام ہے؟ کل تک  ایک عالم دین کی  کتابیں سعودی عرب کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل تھیں ۔ آج سعودی وزارت تعلیم  کی طرف سے  ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یوسف القرضاوی کی کتب کو نصاب سے نکالیں اور لائبریریوں میں موجود ان کی کتب کو وہاں سے ہٹایا جائے۔

ممالک کے درمیان اختلافات ہوتے رہتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی سعودی عرب کی مخالفت کرے تو وہ اسلامی اتحاد سے بھی نکلے گا اور اسلام سے بھی نکل جائے گا۔

پاکستان کی موجودہ نااہل اور کرپٹ حکومت ، ایک طرف سے قطری خطوط کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کی کھودی ہوئی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

ایسے میں پوری پاکستانی عوام اور پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ لاتعلق ہو کر نہ بیٹھیں اور  اس ملک کو حکمرانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے سے روکیں،  موجودہ  صورتحال   میں بین الاقوامی سطح پر عالمی لیڈروں کے  چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان چہروں کو بحیثیت قوم اچھی طرح پہچان کر اپنی  ملکی و قومی پالیسیاں بنائیں اور حقائق کے مطابق فیصلے کریں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) اتحاد امت پر سبھی زور دیتے ہیں، جو اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں تو وہ  بھی یہی کہتے ہیں کہ اتحاد امت بہت ضروری ہے۔ اس پر بہت کانفرنسیں ہو چکی ہیں اور بہت کچھ لکھا جا چکاہے۔  اب ضرورت  یہ ہے کہ اتحاد امت کی خاطر جدید خطوط پر سوچا جائے اور پرانی اور تجربہ شدہ راہوں کو ترک کیا جائے۔

اب تک جو اتحاد امت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ چند مسلمان فرقوں یا ممالک کا خود مسلمان فرقوں اور ممالک کے خلاف ہی اکٹھے ہو جانا ہے۔ درحقیقت،  اتحاد کسی  کے خلاف   اکٹھا ہونے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ردعمل میں جمع ہوجانے کا نام اتحادہے۔ اتحاد بھی نماز کی طرح  ایک دینی فریضہ اور مسلسل عمل ہے۔

تمام اسلامی فرق و مذاہب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ  وہ ان مشکلات اور اسباب، ان رویوں اور نظریات پر نظر ثانی کریں جن کی وجہ سے امت متحد  نہیں ہو سکتی۔   ہمارے ہاں  پاکستان میں سب سے معتدل ترین اور پیارو محبت بانٹنے والا مسلک بریلوی مسلک ہے۔ اس مسلک کو یہ خصوصیت اور خوبی حاصل ہے کہ اس نے اکثریت کے باوجود کبھی اقلیتوں پر زبردستی اپنے عقائد نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔  افسوس کی بات ہے کہ  کئی جگہوں پر اس مسلک کی مساجد پر قبضے کئے گئے اور اس کی کئی علمی شخصیات کو قتل کیا گیا اور اس کے نزدیک مقدس مقامات مثلا اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے کئے گئے لیکن اس کے باوجود اس مسلک نے  نفرتوں، دشمنیوں اور زیادتیوں کا جواب ، اولیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق پیارو محبت سے دیا ہے۔

پاکستان کا مورخ یہ لکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس مسلک نے اکثریت میں ہونے کے باوجود، اقلیتوں کا خیال رکھا اور ان سے محبت آمیز برتاو کیا۔

پاکستان میں دوسرا نمایا ں مسلک اہل تشیع کا ہے۔  اہل تشیع سے دیگر مسالک کو عرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ  بعض شیعہ خطبا  دیگر مسالک کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں۔ مجھے چند سال پہلے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جہان تشیع کے مرجع سید علی خامنہ ای ؒ نے  جہاں یہ فتوی  صادر کیا ہے   وہیں اپنی مختلف تقریروں میں بھی یہ کہا ہے کہ خبردار کسی بھی دوسرے مسلک کی دل شکنی  اور  ان کے مقدسات کے بارے میں نازیبا  الفاظ کا استعمال کرنا حرام ہے۔

اس کے بعد بھی  اگر کوئی شخص ایسا فعل انجام دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق اہل تشیع کی پڑھی لکھی اور باشعور کمیونٹی سے نہیں ہے۔ اب بے شعور اور ان پڑھ آدمی تو  کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ،  وہ تو خود اپنے ہی علما  اور شخصیات کے بارے میں بھی نازیبا   الفاظ کہہ سکتا ہے۔ لہذا ہماری مراد پڑھے لکھے  اور باشعورلوگوں کا طبقہ ہے۔

ہمارے ہاں تیسرا نمایاں مسلک ان احباب کا ہے جنہیں ہم سلفی، اہلحدیث یا دیوبندی کہتے ہیں۔جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں سرگرم ہونے کی وجہ سے یہ احباب کم ہونے کے باوجود زیادہ پررنگ ہیں۔ان مسالک کا عقیدتی  و فکری مرکز  تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ سعودی عرب  کی بادشاہت و خلافت ہے۔

ان کے دینی مدارس کی تعداد اور ان کے عسکری تربیت شدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر اس توانائی کو بھی مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں۔  اب انہیں بھی چاہیے کہ ملکی سلامتی اور اتحاد امت کے لئے اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اپنے مزاج میں لچک پیدا کریں اور سعودی عرب کو امریکہ و اسرائیل کے بجائے عالم اسلام سے قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

دیکھیں ! اگر سعودی عرب ، چھوٹے چھوٹے اور اپنے ہی بنائے ہوئے دہشت گردوں  کے خلاف ، انتالیس اسلامی  ممالک کا فوجی اتحاد بنا سکتا ہے، تو فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کیوں اسلامی  فوجی اتحاد نہیں بناسکتا، اگر پچپن اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ٹرمپ کے استقبال کے لئے جمع کر سکتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے،  ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس، ریاض میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی!؟

ویسے بھی یہ ماہ رمضان المبارک ہے ، اس کے آخری جمعہ المبارک کو مسلمان یوم القدس کے نام سے مناتے ہیں، عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس مرتبہ پاکستان کے تمام مذاہب و مسالک کو چاہیے کہ وہ مل کر یوم القدس منائیں۔

 مانا کہ سعودی عرب کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہاں  سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی لیکن پاکستان میں بسنے والے سلفی و اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ، یہ تو  پاکستان میں  یوم القدس کی ریلیوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔

 اگر  سعودی عرب  سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی تو پاکستان   سے ہی یہ آواز  بلند کی جائے۔  ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان بھی  کسی سے کم نہیں ، پاکستان میں ہی بھرپور طریقے سے ، مل کر یوم القدس منایا جانا چاہیے۔

ہم کب تک کشمیر اور قدس کی آزادی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے،  اگر پاکستان کے تمام مسالک و مکاتب  کے علما مل کر  یوم القدس کی ریلیوں میں  شرکت کریں  تو وہ پیغام جو  سعودی عرب سے امریکہ و اسرائیل کو نہیں مل رہا ، وہی پیغام پاکستان کی سر زمین سے انہیں مل جائے گا اور  انہیں سمجھ آجائے گی کہ  مسلمان، قدس کی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@ gmail.com

وحدت نیوز(آرٹیکل) گاہک میں قوت خرید ہونی چاہیے، اگر خریدار غریب ہے تو وہ ہیرے اور جواہرات نہیں خرید سکتا،  دنیا کا بہترین اسلحہ امریکہ بناتا ہے، اب اسے بہترین خریدار بھی چاہیے، چنانچہ عربوں سے زیادہ مالدار گاہک کون ہوسکتا ہے، اب عرب جب تک کسی سے لڑیں گے نہیں تو وہ اسلحہ کیوں خریدیں گے، لہذا امریکہ کے لئے عربوں کو جنگوں میں دھکیلنا ضروری ہے۔ ورنہ اختلافات کس کے درمیان نہیں، کیا عیسائیوں میں فرقے اور تنازعات نہیں، کیا یہودیوں میں مسالک و مکاتب نہیں۔؟ ریاض کانفرنس میں مسٹر ٹرمپ نے مسلمانوں کے درمیان مسلکی جنگ اور اسلحہ بیچنے کی بات تو کی، لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نہیں کی کہ تم بھی اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ہم سے اسلحہ خریدو۔ عربوں کا سب سے بڑا جھگڑا اسرائیل کے ساتھ ہے، لیکن مسٹر ٹرمپ نے یہ نہیں کہا کہ اسرائیل سے نمٹنے کے لئے ہم سے اسلحہ خریدو۔  نہیں ہرگز اس کی اجازت نہیں، اسلامی ممالک کو صرف آپس میں لڑنے کے لئے اسلحہ بیچا جاتا ہے، وہ اسلحہ خواہ یمن پر استعمال کیا جائے یا ایران کے خلاف۔

عرب ریاستیں، معدنی ذخائر خصوصاً تیل اور گیس سے مالا مال ہیں، ایران بھی معدنی ذخائر کے حوالے سے ایک بڑا ملک ہے، انقلاب کے بعد ایران کے ذخائر امریکہ اور دیگر استعماری ممالک پر حرام ہوگئے، لیکن استعماری طاقتوں نے عرب ریاستوں کو نکیل ڈال کر رکھی ہوئی ہے۔ اگر عرب ریاستوں اور ایران کے درمیان مسلکی اختلاف ہے تو عرب ریاستوں اور امریکہ کے درمیان کون سا مسلکی اشتراک ہے، یہ بات اندرون خانہ عرب ممالک کو بھی سمجھ آچکی ہے۔ اس وقت عرب ریاستوں کی مثال اس گلے کی ہے، جو ایک چراگاہ میں امریکی نامی چرواہے کی نگرانی میں چر رہا ہے، چرواہا ان کا دودھ بھی دوہ رہا ہے، ان کی اون اور پشم بھی اتار رہا ہے اور اگر اس کی بھوک نہ مٹی تو انہیں ذبح کرکے بھی کھائے گا۔ ابھی امریکی گلے میں سے قطر نامی بھیڑ بھاگی ہے، قطر نے بھی ماضی میں امریکہ کی خوب خدمت کی ہے، اس نے طالبان، القاعدہ اور داعش کے بنانے اور انہیں منظم کرنے کے حوالے سے بھرپور خدمات انجام دیں۔

اب قطر نے دیکھا ہے کہ وہ وقت آپہنچا ہے کہ امریکہ اسلحے کی فروخت کے لئے مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ نیز اب داعش اور طالبان امریکہ کی ضرورت پوری نہیں کرتے، چنانچہ یمن پر بھی سعودی عرب سے حملہ کروایا گیا ہے، لیکن اس سے بھی امریکہ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا، تبھی تو  اسلامی فوجی اتحاد کے نام سے ایک بڑی فوج بنائی گئی ہے، امریکہ عربوں کی کسی کے ساتھ ایک بڑی جنگ چاہتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ یا تو عرب ایران کے خلاف لڑیں اور یا پھر آپس میں خون خرابہ کریں، اگر عرب ایران سے لڑتے ہیں تو اس کا سارا فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا، ایران کے کمزور ہونے کی صورت میں اسرائیل عربوں کے ساتھ ماضی والا سلوک کرے گا اور اگر عرب ریاستیں آپس میں لڑتی ہیں تو یہ بھی اسرائیل کو مضبوط کرنے کا باعث ہے۔ چنانچہ قطر نے امریکی گلے سے فرار کیا ہے، یہ فرار بالکل غیر متوقع طور پر ہوا ہے، قطر بھی قدرتی گیس اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ قطر نہیں چاہتا کہ اسے یمن یا شام بنا دیا جائے، اب امریکی گلے سے مفرور قطر کو سعودی عرب اور امریکہ کے خطرے سے پناہ چاہیے، اگر قطر، امریکی گلے سے بھاگنے کے بعد واپس نہیں جاتا تو امریکہ جیسے حریص ملک کے لئے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔

ایسے میں اسلامی ممالک میں سے صرف ایران ہی ہے، جو قطر کو یہ حوصلہ دے سکتا ہے  کہ وہ امریکی و سعودی دباو کے سامنے ڈٹ جائے۔ چنانچہ آج ایران میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ دو مقامات پر دہشت گردانہ حملے کروائے گئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان حملوں سے امریکہ کو ایک فی صد فائدہ بھی نہیں پہنچا، ایرانی ہماری طرح نہیں ہیں کہ وہ دشمن کو پہچاننے کے بجائے مسلکی اختلافات میں الجھ جائیں، جب ایرانی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا، فائرنگ کے دوران پوری پارلیمنٹ مردہ باد امریکہ کے نعروں سے گونجتی رہی، دہشت گردوں کے قتل کے بعد اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے صحن میں نماز ظہر ادا کی اور کافی دیر تک مردہ باد امریکہ کے نعرے لگائے۔ یہ مردہ باد امریکہ کے نعرے امریکہ کے لئے واضح پیغام ہیں کہ امریکہ ایران کو دہشت گردی وغیرہ سے ڈرا کر اپنا نوکر نہیں بنا سکتا۔

چالبازوں اور سازشی عناصر نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس کے بعد ایران بھی، عرب ریاستوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا اور عرب ممالک کو جوابی کارروائی کی دھمکیاں دے گا اور پھر وہی ہوگا جو امریکہ چاہتا ہے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان حملوں نے دنیا میں امریکہ کو مزید بے نقاب کر دیا ہے، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی امریکہ کو ایران میں بری شکست ہوئی ہے اور اس کے عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔ اگر ہم سارے مسلمان، قطر کی طرح امریکی گلے سے فرار کر جائیں اور ایرانیوں کی طرح شعور اور بصیرت کا ثبوت دیں تو امریکہ اور اسرائیل اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ بحیثیت قوم امریکی و اسرائیلی مصنوعات اور ڈالر کی خرید و فروخت کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اگر صرف پاکستانی تاجر اور عوام ہی اس پر عملدرآمد شروع کر دیں تو یہ دین اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

تحریر۔۔ نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree