وحدت نیوز(آرٹیکل)1-کیا اس لئے کہ قطر اخوان المسلمین کی مدد کرتا ہے.؟ یا کیونکہ اسکے حماس سے تعلقات ہیں . اس موجودہ بحران کا یہ سبب ہرگز نہیں کیونکہ یہ تعلقات تو قدیمی ہیں اور سب کو اسکا علم ہے.

2- کیا بحران کا سبب قطر کے ایران سے تعلقات ہیں ؟ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کیونکہ امارات اور ایران کے مابین تجارت 6 بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے. اور کویت ایرانی صدر کا استقبال کرتا ہے. اگر یہ سبب ہو تو خلیجی ممالک کو سلطنت عمان سے زیادہ ناراض ہونا چاہیئے جس کے ایران سے اسٹریٹجک تعلقات ہیں.   اس لئے یہ ما سوائے پروپیگنڈے کے اور کچھ نہیں۔

3- کیا قطری بادشاہ امیر تمیم کا بیان ہے ؟ یہ بات بھی حقیقت سے عاری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قطر نے اپنے حصے کا فدیہ یا بھتہ یا جگا ٹیکس ان خلیجیوں کے سید وسردار امریکی صدر ٹرانپ کو ادا کرنے سے انکار کیا. کیونکہ اس وقت اقتصادی بحران میں مبتلاء ہے لیبیا کی جنگ کا سارا بل بھی ادا کیا اور شام کیخلاف جنگ میں بھی پہلے مرحلے میں پیش پیش رھا اور بہت پیسہ خرچ کیا. اب اس پوزیشن میں نہیں کہ برابر کا بل ادا کرے۔

جو کچھ میڈیا میں نشر ہو رھا ہے وہ حقائق چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں. سعودیہ اور قطر کے ما بین اس بحران کی چنگاری اس وقت بھڑکی جب ٹرامپ نے ریاض کا دورہ کیا اور تقریبا 500 بلین ڈالرز کا بھتہ وصول کیا. حقیقت میں امریکی بدمعاش نے ڈیڑھ ٹریلین ڈالرز آنے سے پہلے طے کیا تھا. اور ریاض سے جانے سے پہلے اس نے مذاکرات کی میز پر خلیجی سربراہان سے اس کا مطالبہ کیا تھا. کیونکہ وہ انتھا درجے کا مفاد پرست ہے. وہ سمجھتا ہے کہ ان خلیجیوں کے پاس بہت دولت ہے اور جس پر انکا حق نہیں اور نہ ہی اس کے اہل ہیں،ٹرامپ اور امریکی فقط خلیجی اموال پر نگاہیں رکھتے ہیں۔
ٹرامپ نے ٹویٹ کیا ہے کہ " مشرق وسطی سے سیکڑوں بلین ڈالرز لایا ہوں.  جاب جاب "

 سعودی عرب ،امارات اور قطر کی زمہ داری ہے کہ وہ 1500 بلین ڈالرز ادا کریں کیونکہ ان تینوں ممالک میں امریکی فوجی اڈے اور لاکھوں مارینز امریکی بحری افواج موجود ہیں. اس لئے ان تینوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کی بقاء کا یہ فدیہ یا جگا ٹیکس ادا کریں. لیکن قطر نے اپنے حصے کا یہ فدیہ یا جگا ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا. جس کی وجہ سے سعودیہ اور امارات سخت غصے میں آ گئے. اور امیر قطر سے انتقام کی ٹھان لی. لیکن تینوں ممالک کھل کر اس حقیقت کو بیان نہیں کر سکتے. اور اسی وجہ سے امریکہ بھی قطر سے سخت ناراض ہے،آج قطری وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ سے اسی سلسلے ميں مذاکرات کئے ہیں اور شاید اس بحران سے نکلنے کے لئے مجبورا قطر ذلیل ورسوا ہو کر یہ جگا ٹیکس ادا کرے گا  خواہ اسے آسان قسطوں میں ادا کرنا پڑے۔

تجزیہ وتحلیل : ڈاکٹر سید شفقت شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) عرب ممالک اور پاکستان دینی رشتے میں منسلک ہیں، ان کے آپس میں  گہرے روابط پائے جاتے ہیں، ان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس طرح کے جملے جتنے بھی لکھے جائیں ان کے لکھنے سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آجائے گی۔

مثلا اگر ہم  سارا دن بیٹھ کر چینی ، چینی، چینی کہتے رہیں تو اس سے ہمارا منہ میٹھا نہیں ہو جائے گا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ریاض کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان اور ملت پاکستان  کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی برا ہوا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمیں سچائی کو چھپانے کے بجائے عیاں کرنا چاہیے اور اپنے ملک کی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔

عرب ممالک  کی کسی سے نہ ہی تو دینی و مسلکی دوستی ہے اور نہ  ہی اس بنیاد پردشمنی، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود سوچ لیں کہ کیا  امریکہ اور اسرائیل کا عرب ممالک کے ساتھ دین یا مسلک مشترک ہے، نہیں ہر گز نہیں تو پھر یہ دوستی کیوں !؟ صاف ظاہر ہے کہ مفادات کی دوستی ہے۔

اسی طرح کیا پاکستان کو ریاض کانفرنس میں نظر انداز کرنا ، پاکستان  اور کشمیر کا ذکر نہ کرنا، دینی یا مسلکی اختلافات کی وجہ سے تھا!؟

نہیں ہر گز نہیں بلکہ یہ سب  موقع و مناسبت کے لحاظ سے   عرب ممالک  کے مفادات کے خلاف تھا۔

ہم ہیں کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر  مسئلہ کشمیر پر اپنی امیدیں عربوں سے لگائے بیٹھے ہیں ، اورسعودی عرب کی پالیسی دیکھ لیجئے کہ اس نے عالمی فوجی اتحاد کا کمانڈر تو پاکستان سے منگوایا لیکن اس فوجی  اتحاد کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کے علاوہ باقی سب کچھ ہے۔

ایسا فوجی اتحاد جس کا کمانڈر تو پاکستانی ہے لیکن اس کے ایجنڈے میں کشمیر نہیں، کیوں کیا سعودی مسلک اس سے منع کرتا ہے ، نہیں بلکہ سعودی  حکومت کے مفادات کو اس سے نقصان پہنچتاہے۔

جس طرح گزشتہ دنوں ٹرمپ کا ریاض میں شاندار استقبال کیا گیا ہے ،آپ خود بتائیں یہ کتنی بڑی اور اہم کانفرنس تھی ، صرف سعودی عرب سے ہی گلہ کیوں!؟ دیگر مقررین کی خبر بھی لیجئے ، کیا  اس کانفرنس میں  دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کے حوالے سے کسی ایک مقرر نے بھی کوئی  ایک لفظ  بولا، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو بھارت کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے !کیا انہیں ان کے مسلک نے بھارت کے خلاف بولنے سے روکا تھا!

نہیں ہر گز نہیں بلکہ بھارت کے خلاف بولنا ان کے حکومتی مفادات کے خلاف تھا۔

اچھا  ٹھیک ہے کہ  وزیر اعظم پاکستان کو خطاب کا موقع نہیں دیا  گیا اور  پوری کانفرنس میں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا گیا لیکن  مجال ہے کہ  کسی  مقررنے کوئی ایک لفظ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے میں ہی کہا ہو یا پاکستان کے بارڈرز پر بھارت کی گولہ باری  کے بارے میں کچھ کہاہو۔

سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا!؟ کیا ان  کے دین یا مسلک نے انہیں روکا تھا یا ان کے  حکومتی مفاد میں نہیں تھا۔

یاد کیجئے   ۱۹۵۶ ء   کا وہ دن  جب  مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر  تھا اور پاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے  تو  ایسے میں  جواھر لال نہرو نے  سعودی عرب کا دورہ کیا۔

اس وقت بھی  سعودی حکومت نے نہرو کا شاندار اور پرتپاک  استقبال  کیا اور  " مرحبا یا رسول الاسلام " کے نعرے لگائے۔

اس واقعے کے اگلے روز "روزنامہ ڈان " نے  نہرو کو رسول الاسلام  کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقع پر اظہار افسوس کیا۔

اگلے دن  سعودی عرب کی ایمبیسی نے اس کی یہ توجیہ پیش کی کہ اس سے مراد امن کا پیامبر ہے ،جس کے جواب میں روزنامہ ڈان نے لکھا کہ لاکھوں ہندوستانی ا ور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے امن کا پیامبر کیسے بن گیا ہے۔۔۔۔اور یہ بھی لکھا  کہ پاکستانی مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے: دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ اصطلاح پیامبر اسلام  ﷺسے مخصوص ہے۔

آپ  نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کو ہی لیجئے،  نریندر مودی  کا بھی اسی طرح شاندار استقبال کیا گیا اور شاہی محل میں، شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ نریندر مودی کو عطا کیا۔ باقی جو معاہدے اور معاملات طے پائے وہ اپنی جگہ محل بحث ہیں۔

کفار کے سرداروں کے یہ استقبال اور عزت افزائی  سعودی بادشاہوں  کے دین کا تقاضا نہیں بلکہ ان کے حکومتی مفادات کے لئے ضروری ہے۔

ہم میں سے کچھ لوگوں نے مسلک، فرقے اور دین کا کمبل اوڑھا کر آل سعود کی حقیقت کو چھپانے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ  رقص سعودی بادشاہ کرتے ہیں اور تاویل ہمارے ہاں کا ملاں کرتا ہے، نامحرم عورتوں سے مصافحے سعودی  حکمران کرتے ہیں اور جواز ہمارے ہاں کے جہادی ڈھونڈتے ہیں، کفار کے سرداروں کو آل سعود چومتی ہے اور اس کے جائز ہونے کے لئے احادیث ہمارے ہاں کے محدثین کرام تلاش کرتے ہیں۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ  بادشاہ  اپنے  حکومتی مفادات کے پیچھے چلتے ہیں اور ہم  میں سے بعض لوگ ان کے کرتوتوں کا دفاع مسلک کے مورچے سے کرتے ہیں۔ تاریخ ملوکیت و بادشاہت کا خلاصہ یہی ہے کہ بادشاہوں کی پالیسیاں مسالک کے تابع نہیں ہوتیں بلکہ وہ مسالک کو اپنے تابع رکھ کر مسالک سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ دو طرفہ قومی مصلحت ومفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں. اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں شرکاء آپس میں اعتماد اوراحترام متبادل جیسے اصولوں کی پاسداری کریں. اور ھر پارٹنر کو یہ اطمینان ہونا چاہیئے کہ ان تعلقات سے اس کے ملک کی سلامتی، وحدت واستقلال ، امن وامان ، قومی آبرو ووقار ، فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کسی بهی وجه سے متاثر نہ ہو گی.

حقیقی دشمن کی پہچان:

جہاں اس دنیا میں ہر ملک وقوم کے کچھ دوست ہوتے ہیں وہیں پر  اسکے دشمن بھی ہوتے ہیں. جیسے دوستوں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے ویسے ہی دشمنوں کی بھی درجہ بندی کی جا سکتی ہے. لیکن دنیا میں اکثریت انکی ہے جو نہ تو کسی کے قریبی دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن بلکہ کبھی دو طرفہ مفادات اور مصلحتیں انکو آپس میں قریب کر دیتی ہیں اور جب مشترکہ مفادات نہ ہوں تو رابطے نہیں ہوتے. اور فقط ہر ملک وقوم اپنے بنیادی اصولوں پر ثابت قدم رہ کر کامیاب اور لچکدار خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی بڑی تعداد میں دوست بنا سکتی ہے. یہ فقط استکباری طاقتوں کا نظریہ  ہے کہ جو ملک ہمارا دوست نہیں تو پھر وہ ہمارا دشمن ہے.اور اس کا اظہار سابق امریکی صدر جورج بش 2 نے نئی جنگیں مسلط کرتے وقت کیا تھا   ۔

حضرت امام علی علیه السلام نے دشمن کو تین گروهون مین تقسیم کیا ہے:
1- کهلا دشمن: کھلے دشمن وه ہوتے ہیں جنھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ حملہ کر دیتے ہیں۔
2- دشمن کا دوست : دوسرے وہ دشمن ہوتے ہیں جو اس کھلے دشمن کے وہ دوست ہوتے ہیں. حملے میں اسکے شریک ہوتے ہیں. یا اسکی  مدد کرتے ہیں اور اسکی تقویت کا سبب بنتے ہیں۔
3- دوست کا دشمن : تیسری قسم کے وه دشمن هوتے جو آپکے حقیقی دوست کے دشمن ہوتےہیں ۔

جس ملک کے حکمران اور عوام اپنے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رکھتے وہ ہمیشہ  دھوکے میں رہتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں . بین الاقوامی تعلقات میں دوست اور دشمن کا تعین کرنا حکومت کی زمہ داری ہے. اور جب کسی ملک کے تعلقات متوازن نہ ہوں اوراس كے قومی مفادات کو نقصان پہنچ رھا ہو تو سمجھ لیں کہ ملک کے حکمران یا تو نا اھل ہیں یا خود غرض، یا خیانت کار ہیں یا بزدل، یا پھر انکی وفاداریان اپنے ملک وقوم کے ساتھ نہیں بلکہ وہ  کسی دشمن کے آلہ کار اور وفادار ہیں .
ہمارا پیارا وطن مسلسل کئی دھائیوں سے مختلف بحرانوں کا شکار ہے .کئی ایک حکومتیں بدلیں اور فوجی انقلابات بھی آئے ہیں لیکن ہم مسلسل دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں. اس مختصر کالم کے ذریعے سارے مسائل ومشکلات کا احاطہ تو ممکن نہیں.البتہ آئیں غور وفکر کریں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر ایک سچے مسلمان اور محب وطن شہری کی حیثیت سے کم از کم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے حقیقی اور کھلے دشمن کون ہیں؟. کیونکہ آج تک بد قسمتی سے ہماری قوم یہ بھی فیصلہ نہ کر پائی کہ ہمارا پہلے درجے والا کھلا دشمن کون کون ہے.؟ اور جب دشمن کا تعین ہی نہیں ہوگا تو پھر قوم اسکا مقابلہ کیسے کرے گی. مثال کے طور پر ہمارے بعض حکمران انڈیا کو دشمن قرار دیتے ہیں اور بعض  دوست.جب ایسی گھمبیر صورتحال ہو تو یہ قوم اس دشمن کا ملکر کیسے مقابلہ کر سکتی ہے. اور جب دشمنوں کا کھل کر تعین ہو جائے گا تو پھر غداروں اور مفاد پرستوں اور خیانتکاروں کو قوم آسانی سے پہچان لے گی۔

ہمارے وطن عزیز کے حقیقی اور کھلے دشمن کون؟

حالانکہ پہلی قسم کا دشمن تو بالکل واضح دشمن ہوتا ہے اور اسکے پے درپے حملوں اور سازشوں سے اسکی دشمنی سب کو نظر آتی ہے.اور کوئی بھی اسکے دشمن ہونے کا انکار نہیں کر سکتا. لیکن ہمارے ہاں پھر بھی اختلاف پایا جاتا ہے،ویسے تو ہر ملک کی طرح ہمارے وطن عزیز پاکستان کے اندرونی وبیرونی دشمن لا تعداد ہیں . اندرونی دشمنوں میں کرپش ، بدعنوانی ، لا قانونیت اور غیر اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ بھی ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہمارے خطرناک دشمن ہیں. اور بیرونی طور پر ہر وہ ملک یا بین الاقوامی ادارہ جس کی پالیسیوں اور اقدامات سے ہمارا قومی مفاد متاثر ہوتا ہے یا وہ ہمارے دین مبین  اسلام پر کھلا حملہ کرتا ہے. یا ہماری آزادی وخود مختاری اور زمینی سرحدوں کے اندر حملہ آور ہوتا ہے . وہ ہمارا بیرونی دشمن ہے.
 
مذکورہ اصولوں کے تحت مندرجہ ذیل تین ہمارے کھلے دشمن ہیں. جنھوں نے بالکل کھل کر وطن عزیز پاکستان اور دین مبین اسلام کے ساتھ دشمنی کی ہے.

1- انڈیا        2-   اسرائیل         3- تکفیری دھشتگرد.

1- انڈیا :

انڈیا متعدد بار جارحیت کر چکا ہے. اور ہمارے وطن کا ایک بہت بڑا حصہ بنگلہ دیش ہم سے جدا کرنے کے بعد اس دشمن ملک کا وزیراعظم کھلے عام اس پر فخر وناز بھی کرتا ہے اور نریندر مودی ڈھاکہ سے اعلان کرتا ہے کہ پاکستان کو دولخت انھوں نے کیا تھا . اور ہمارے وطن کے ایک فطری حصے (كشمير) پر قابض بھی ہے. ھمارے لاکھوں ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کا قاتل بھی ہے. اور ہر وقت ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتا رھتا ہے. اور ہمارے بہت سے اندرونی بیرونی بحرانوں کے ماوراء اسکے ہی ھاتھ نظر آتے ہیں. اس لئے اپنی اس پالیسی کی وجہ سے بلا شک وریب یہ ہمارا پہلے درجے کا کھلا دشمن ہے.

2- اسرائیل:

 اسرائیل کا وجود سر زمین مقدس فلسطین پر غیر قانونی ہے اور عالمی طاقتوں کے تعاون سے قوت و طاقت کے بلبوتے پر اسے قائم کیا گیا. یہ لاکھوں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا قاتل ہے. متعدد جنگیں عالم اسلام پر مسلط کر چکا ہے. ہمارے قبلہ اول پر بھی قابض بھی ہے. اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے 70 سال گزر جانے کے باوجود ہم نے اسے تسلیم نہیں کیا. اسکے ہمارے پہلے درجے کے دشمن کے ساتھ گہرے تعلقات بھی ہیں.  ہمارا ایٹمی پروگرام اس کی آنکھوں میں چبھتا ہے. یہ وہ ملک ہے جس نے عراق ، شام  اور سوڈان پر اچانک فضائی حملے کر کے انکے ایٹمی ریکٹر تباہ کئے تھے.اسلام مسلمانوں کے کھلے دشمن ہونے کی وجہ سے اب خطرہ اس بات کا بھی رھتا ہے کہين یہ حماقت ہمارے خلاف بھی نہ کر دے. گو اسے انڈیا کے اکسانے اور اس کی اپنی پلاننگ کے باوجود آج تک اسے  ہمت نہیں ہوئی. ہم نے بھی ہمیشہ اسے اپنا دشمن ہی سمجھا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ اس کا حامل ما سوائے اسرائیل کے ساری دنیا کا سفر کر سکتا ہے.البتہ اب امریکی نفوذ اور پریشر کی وجہ سے اور عربوں کی امریکی غلامی اور خیانتوں کی وجہ سے پاکستان میں بھی یہ غلامی کی سوچ پھیلانے پر کام جاری ہے کہ جب عربوں نے صلح کر لی تو ہم کیوں عالمی برادری سے کٹ جانے پر بضد رہیں. یہاں پر چند ایک سوال جنم لیتے ہیں ۔

1- گویا آج تک ہماری پالیسی فقط عربوں کی اسرائیل دشمنی کی وجہ سے تھی . کیا آج تک ہم خود مختار ملک نہ تھے ؟

2- اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم کتنے بے وقوف تھے کیونکہ آج تک کسی بھی عرب ملک نے تو ہماری خاطر انڈیا سے تعلقات منقطع نہیں کئے ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے رہے.؟

3-  اسی اسرائیل کے ناجائز وجود اور فلسطینی عوام پر ظلم وستم ، بیت القدس کی آزادی اور فلسطین سمیت دیگر مسلمان ممالک کی زمینوں پر قبضے کے خلاف سارے اسلامی ممالک کا مشترکہ ادارہ     ( او آئی  سی) بنا. ہم اسکے بانی ممبران میں سے تھے اور اس ادارے کی کانفرنسز ہماری میزبانی میں ہوئیں اور ہم اسکے چیئرمین بھی رہے . اگر یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں تھا تو یہ سب کچھ ہم نے کیوں کیا گیا ؟

4- کیا بیت المقدس فقط عربوں کا پہلا قبلہ ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.؟ کیا ہمارے نبی کی معراج کی جگہ نہیں.؟

5- اگر بزدل اور خائن فلسطینی اور بعض عرب حکمرانوں نے اسے  تسلیم بھی کر لیا تو کیا اس حق کا اب مطالبہ کرنے والا وھاں پر کوئی نہیں.  جس کی حمایت ہمارا انسانی اور ایمانی فریضہ ہے؟

6- کیا ہمیں امریکہ اور اسرائیل اور عرب حکمرانوں کی خاطر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے اور اپنے تاریخی حق کا مطالبہ کرنے والے مسلمان بھائیوں اور آزادی خواہ تحریکوں کی حمایت اور مدد کرنا ترک کر دینا چاہیئے ؟

7- اگر ایسا ہی درست ہے تو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا رونا پھر ہم کیوں روتے ہیں ؟ اور تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟

نہیں ہر گز نہیں ہم ایک سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے. اور اسرائیلی سیاہ تاریخ اس بات کی شاھد ہے کہ جب بھی اس صہیونی دشمن کو موقع ملے گا وہ آپکو نقصان دے گا. ہمیں کسی مغالطے میں بھی  نہیں رہنا چاہئے۔

3- تکفیری دھشتگردی:

یہ وہ لعنت ہے جس نے ہمارے ملک پاکستان کا امن وامان چھین لیا ہے. اور اسے تباہ کر دیا ہے. خطے میں جس ملک نے ایک لمبا عرصہ اس کے خلاف جنگ لڑی ہے وہ پاکستانی عوام ہیں. اور ہماری فورسز نے اس کے خلاف متعدد آپریشن کئے اور بے پناہ قربانیاں دیں. اسی تکفیری دھشت گردی کی وجہ سے ہماری صنعت وتجارت متاثر ہوئی اور نا امنی کی وجہ سے ہمارا ملکی سرمایہ باہر منتقل ہوا. ملک میں فقر وفاقہ اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا. ہمارے آپس میں  اجتماعی تعلقات خراب ہوئے 80 ہزار سے زیادہ شہری اسکی وحشت وبربریت کی پھینٹ چڑھے . ہمارا انفرا اسٹکریکچر تباہ ہوا. اب تو انھیں تکفیریوں کے سرغنوں کے اعترافات بالکل لوگوں کے سامنے میڈیا پر آ چکے ہیں . کہ ہمیں انڈیا اور اسرائیل جیسے پاکستان دشمن ممالک سے مدد ملتی ہے. اور ان سے روابط ہیں. انکے جرائم اور پاکستان کے ہر طبقے کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی لسٹ بہت طویل ہے. اور ہر پاکستانی انہیں خوب پہچانتا ہے۔

اب ان تینوں کھلے دشمنوں کی پاکستان یا اسلام دشمنی سے جو بھی انکار کرے گا . اور انہیں  وطن دشمن قرار نہیں   دے گا وہ ملک کا عالم ہو یا مفکر ، سیاستدان ہو یا حکمران ، سول آفیسر ہو یا ملٹری آفیسر ، صحافی ہو یا رائٹر جو کوئی بھی ہو وہ کبھی بھی پاکستان کا مخلص نہیں ہو سکتا۔


 تحریر ۔۔۔۔ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) وطن عزیز پاکستان اس وقت داخلی طور پر شدید ترین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے. یہ سرزمین پاک شہدا ملت کی امانت ، ہمارے آباء و اجداد کی انتھک جدوجہد کا ثمر اور ہماری آنے اولی نسلوں کا مستقبل ہے. اس لئے جہاں حکمرانوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اس کی سلامتی وحفاظت اور تعمیر وترقی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ہر قسم کی قربانی دیں وہاں عوام کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ بھی بیداری اور احساس زمہ داری کے ساتھ اسکو بحرانوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں.

باقی تمام مسائل اور مشکلات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات اور روابط کے تناظر میں ہمارے درمیان داخلی طور پر مزید دوریاں اور دراڑیں پیدا کرنے کی سازش پر بھی کام ہو رہا ہے. اور بالخصوص خطے کے مسائل اور بحرانوں اور جاری جنگوں میں پاکستان کی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر ہمیں ان جنگوں کا ایندھن بنانے کی کوششیں ہو رہی ہے. ہمیں جان لینا چاہیے کہ جب بھی پاکستان پر کوئی برا وقت آیا ہماری خاطر کوئی بھی دوست ملک سر زمین پاکستان پر آکر نہیں لڑے گا. ممکن ہے کوئی دوست ملک ہماری مالی یا اخلاقی مدد کر دے لیکن خون ہماری قوم کو ہی دینا پڑے گا. اور ماضی کی جنگیں اسکی واضح مثال ہیں.  اگر آج ہمارے کسی برادر ملک پر کسی حملہ کیا ہے اور وہ وہ حملہ آور ہمارے دشمنوں میں سے ہے تو ہمیں بھی انکی مالی اور  اخلاقی انکی مدد کرنی چاہیئے. اور اگر جنگ کسی بھی وجہ سے ہمارے برادر ممالک کے ما بین چھڑ چکی ہے. تو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہمیں حکم دیتا ہے " کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ہمیں صلح کروانی چاہیئے. اور جس نے زیادتی کرتے ہوئے ہمارے ایک بھائی نے دوسرے پر حملہ کیا ہے تو ہمیں اس حملہ آور کو روکنا چاہیے. حتی کہ وہ حکم خدا کی طرف لوٹ آئے. اور جب وہ رک جائے تو ہمیں عدالت وانصاف سے انکے ما بین صلح کروانی چاہیے. " القران
مگر افسوس ہے کہ ایک طرف تو ہم خود بحرانوں کا شکار ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمران ذاتی مصلحتوں کی خاطر اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں. جس کی واضح مثال پارلیمنٹ کے فیصلے کے بر خلاف اور قومی مفاد کو داو پر لگا کر اس فرقہ ورانہ بین الاقوامی فوجی اتحاد کی فقط شمولیت ہی نہیں بلکہ سربراہی قبول کرنا ہے. اور اس اتحاد کی جانب بڑھنے والا ہمارا ہر قدم جہاں ہماری بدنامی کا سبب بنے گا وھاں ہماری فوج بھی اندر سے کمزور ہوگی.

امت مسلمہ پر ماضی میں بھی مختلف دور گزرے اور نشیب وفراز آئے .عصر حاضر کی تاریخ میں جب سے سرزمین مقدس فلسطین پر صہیونی ریاست کی بنیاد عالمی استکباری قوتوں کے تعاون سے رکھی گئی اس وقت سے لیکر آج تک جنگوں نے اس خطے میں گھر کر لیا ہے. اسرائیل کے خلاف ابتداء میں پوری مسلم امۃ متحد تھی. اور یہ فلسطین کا مسئلہ او آئی سی کی تاسیس کا سبب بنا.  جس کے ایک ابتدائی اجلاس کی میزبانی ستر کی دھائی میں پاکستان نے کی اور تمام اسلامی ممالک کے سربراہان اس بین الاقوامی سطح کی کانفرس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے. حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے مسئلہ فلسطین کو ایک مسلمان ملک ہونے اور مسلم امت میں دوسرا بڑا اسلامی ملک ہونے کے ناطے اپنا ذاتی مسئلہ قرار دیا. اسرائیل کے خلاف جنگوں میں ہماری مسلح افواج نے شرکت کی  اور بالخصوص ہمارے پائلٹوں نے یکے بعد دیگرے اسرائیلی طیارے گرا کر تمغے حاصل کئے اور جہان اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا.

دوسری طرف مغربی مداخلت اور پریشر میں بعض عرب ممالک کے سربراہان نے امت اسلامیہ کے اس مرکزی قضیہ سے خیانت کی اور سفارتی تعلقات قائم کر لئے.  جن پر پوری امت اسلامیہ نے لعنت کی اور انہیں خائن قرار دیا. لیکن پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناطے اپنے اصولی موقف پر ڈٹا رہا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دشمن نے امت اسلامیہ میں ایک نیا فتنہ کھڑا کیا. جب ایران میں اس خطے کے سب سے زیادہ امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے شہنشاہ کے خلاف ایرانی عوام نے قیام کیا.  جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا. اور اس امریکی واسرائیلی ایجنٹ کے اقتدار کا سورج غروب ہوا. اور تہران میں سالہا سال سے قائم اسرائیلی سفارتخانے کو بند کرکے اسے فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کیا . اور اسرائیل کے پرچم کی جگہ تہران میں فلسطین کا پرچم لہرایا. امریکہ اور اسرائیل اسے کب برداشت کر سکتے تھے انھوں نے اس انقلاب کو ختم کرنے اور اس حکومت کو گرانے پر کام شروع کر دیا.

امریکہ اور غرب نے اس اسلامی انقلاب سے انتقام کے طور پر  فتنوں کا آغاز کیا. اور عرب وعجم کے فتنہ کو ہوا دی اور ہمسایہ عرب ملک کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی. پاکستان نے حکیمانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے تعلقات تمام اسلامی ممالک سے قائم رکھے. آخر کا یہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا. لیکن مسلمانوں کی توجہ امت اسلامیہ کے مشترکہ دشمن  اسرائیل کی طرف کم ہوئی. اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرتا رھا یہاں تک کہ 80% فلسطین پر قابض ہوگیا. فلسطینی مجبور ہوکر ہجرت کرتے رہے اور یہودیوں کی آباد کاری ہوتی رہی. اور مسئلہ فلسطین سکڑتا گیا. پہلے امت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ تھا پھر اسے عرب اسرائیل کا رنگ دینے پر کام ہوا. جتنا جتنا مسلمان اور عرب پسپائی کرتے رھے اتنا ہی اسرائیل بڑھتا رھا. اس کے بعد اسے مشرق وسطی تک محدود کردینے پر کام ہوا. لیکن پاکستان اپنے موقف پر قائم رھا گو امریکہ وغرب کی خوشنودی اور رضایت کے لئے کچھ سیاستدان اور حکمرانوں شکست خوردہ ذہنیت کے ترجمان بنتے رہے.

عرب وعجم فتنہ کی ناکامی اور 2006 اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کے ذلیل ہونے اور حزب اللہ کی کامیابی کے بعد شیعی ہلال  کو خطرے کا بہانہ بنا کر 2011 سے اسلامی دنیا میں ایک نئے فتنوں کو ہوا دی اور شیعہ سنی جنگ کے ذریعے ہر مسلمان گھر میں اس فتنے کی آگ بھڑکانے اور پھیلانے پر کام شروع کیا. لیکن اس کے ماوراء انکا مقصد اسرائیل کو محفوظ کرنا اور پوری امت اسلامیہ کو اسکے قدموں میں جھکانا تھا. تاکہ کمزوری وناتوانی اور خوف وہراس کی حالت میں وہ اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی سفارت خانے کھولنے اور تعلقات بنانے میں سبقت لیں. امریکی تباہ کن ہتھیاروں اور پورے خطے میں پھیلے ہوئے فوجی اڈوں کے ڈر اور اقتدار وریال و ڈالرز کے لالچ میں سعودی عرب کے ذریعے سنی ممالک کے فوجی اتحاد بنانے کا اعلان ہوا. اور یکے بعد دیگرے مسلم ممالک کی حمایت اور ہمدردیاں خریدی گئیں. اور پھر اسکا پہلا اجتماع 20 مئی 2017 کو ریاض میں ہوا جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرانپ نے کی. اور 50 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسلام کے موضوع پر ایک امریکی غیر مسلم صہیونی کا خطاب ہی نہیں سنا بلکہ عملی طور پر اسکی ولایت و سربراہی وسرپرستی میں شیعہ سنی جنگ ہی نہیں بلکہ خاموش حمایت سے اسرائیل کی اس خطے پر سرداری قبول کی. جس کا اظہار سعودیہ کے دورہ کے دوسرے دن اسرائیل پہنچ کر امریکی صدر نے فاتحانہ انداز سے کیا اور کہا کہ اب سارے مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی طور پر تعلقات بنانے کے لئے تیار ہیں. اور اس طرح انکے حساب سے قانونی طور پر اسرائیل کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو گیا.  اور اب اگر کسی شیعی یا سنی ملک یا تنظیم نے اسرائیل کی مخالفت کی یا اس کے وجود کے  لئے خطرہ  بنا تو اسرائیل کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں.  کیونکہ اسکے نئے اتحادی اور امریکہ کے بقول سنی ممالک کا اسلامی اتحاد ان دہشتگردوں سے نپٹنے کے لئے جدید ترین امریکی و مغربی اسلحہ کے ساتھ تیار ہے جس کے سربراہ پاکستانی جنسیت کے حامل سابق فوجی جنرل راحیل شریف ہیں.

تحریر۔۔۔  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) میرا ملک، میرا وطن، میری پہچان ، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ہمارا نعرہ ایمان، اتحاد اورتنظیم ہے۔ اس کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہے، مکمل آبادی کا اندازہ مردم شماری کی روپورٹ کے بعد ہی ہوگا ۔ یہ دنیا کی آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک ہے، یہاں بسنے والے 96.4 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔دنیا کی بہترین اور طاقت ور ترین فوج اور انٹیلی جنس میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے نام کسی تعاروف کے محتاج نہیں ، بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں ایک بھارتی اخبار میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس ادارہ آئی ایس آئی اس وقت دنیا کے پانچ طاقتور ترین انٹیلی جنس اداروں میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی ملک بھی ہے ۔یہاں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر قومی زبان اردو ہے۔ محنت ذہانت میں پاکستانی نوجوان کسی سے کم ، شاید ہی کوئی ایسی فیلڈ ہو جس میں ہمارے نوجوانان قابل تحسین پوزیشن پر فائز نہ ہوں، یہاں اگر عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان جیسے دیگر لوگوں کی لسٹ بنالی جائے تو اس آرٹیکل کو کئی حصوں میں لکھنا پڑے گا ۔ اگرجذبہ، ایثار و وفاداری کو دیکھا جائے تونشان حیدر پانے والے اور اس دھرتی کے لئے خون بہانے والوں کی کمی بھی نہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، علما، سوشل ورکر، عام شہری غرض ہر مکتب فکر اور طبقے کے لوگ یہاں ملیں گے، جن کی محنت و خون پسینے سے یہ ملک قائم ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی فرقہ واریت و لثانیت پسندی ہوجب پاکستان کی سالمیت کی بات آئے توپوری قوم ایک جان ہو کر اس پرچم کے سایہ تلے جمع ہو جاتی ہے اور دشمن پھر کبھی منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتا۔ہمارے بدمعاش لڑکے بھی بس میں سفر کرتے ہوئے کسی بزرگ کو کھڑا دیکھتے ہیں تو فورا اٹھ کر اسے جگہ د یتے ہیں۔ اسی طرح خواتین سے ہمدردی بھی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے، کسی خاتون کو کوئی مشکل پیش آجائے تو ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اس کی مشکل کو حل کرے۔ہم جتنے رحم دل ہے اتنے ہی جذباتی بھی ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں بھی کہی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ظلم ہوتاہے تو یہاں کے باسیوں کے لئے یہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان، بلا اور شیر کے نعرے بھول کر مظلموں کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہیں،پھر اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ ہمارے مشکل وقت میں کوئی ہمارا ساتھ دے گا یا نہیں ۔

لیکن لوگ سوال کرتے ہیں اگر پاکستانی اتنے اچھے ہیں تو پھر وہاں لوٹ مار، فرقہ واریت، دہشت گردی کیوں ہے؟ ساری دنیا میں پاکستانی کیوں بد نام ہیں؟ تو مجبورا ہمیں پلٹ کر اپنے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کی عیاشیوں اور مفادات کی وجہ سے ہم آج اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ دوست، دشمن، ْ طالم مظلوم کی کوئی تمیز نہیں کرپاتے۔ہم طاقتور ہونے کے باوجود اس قدر کمزور ہوئے ہیں کہ ہر کوئی ہمیں دھمکی دے کر چلا جاتا ہے جس کا جب دل چاہتا ہے کسی بھی جگہ ہم پر حملے کر دیتا ہے۔ان سب سے زیادہ خطرناک ہمارے اندورونی دشمن ہیں۔ بنگالی اردو زبان کی جنگ سے لے کر پارٹیشن بنگال ، پھر جنرل ضیاالحق کے دورسے افغان جنگ، مجاہدین کے نام پر دہشت گردوں کی پروریش سے لیکر القاعدہ طالبان ، پھر پاکستانی، افغانی سے پنجابی طالبان تک، سانحہ آرمی پبلک اسکول سے گوڈ اینڈ بیڈ طالبان اور آپریشن ضرب عضب ، نیشنل ایکشن پلان سے آپریشن ردلفساد تک اگر ہم دیکھیں تو ہم صرف دو چیزوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں، ایک ذاتی مفادات، اقتدار کا حصول اور کرسی بچاؤ، دوسر ا امریکہ کی دوستی اور آل سعودسے یاری۔

یہی ہمارے صاحب اقتدار اور اسٹبلیشمنٹ کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا یہ حال ہوا ہے کہ ہمارے ابدی دوست آج دشمن نظر آرہے ہیں۔آج دشمنوں کے شر سے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ محفوظ نہیں بلکے ہمارے ہمسائیہ ممالک بھی اذیت کے شکار ہیں اور ان دہشت گردوں کی وجہ سے پہلی بار ہم دنیا میں اس قدرزلیل ہوئے ہیں۔دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کا لنک کہیں نہ کہیں سے ہمارے ملک میں ملتا ہے۔ چاہے وہ طالبان، القاعدہ ہوں، داعش، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جیش العدل یا جند اللہ۔۔۔ پھر پچھلے 37 سال سے ہم ان خاص آیڈیالوجی کے حامل دہشت گردوں کو پال بھی رہے ہیں ۔ یہ لوگ کھولے عام تبلیغات کے نام پر ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں اور ہر جگہ اپنے اثرورسوخ بڑھالیتے ہیں، جس کے بدلے میں ہماری سیکورٹی اور حکومتی ذمہ دار اداروں کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس صفر ہے بلکہ صفر تو نہیں ہوگا پٹرو ڈالر کے پولیٹکس کا اثر زیادہ دیکھائی دیتا ہے۔ اب جہاں سالوں سے دہشت گردوں کو ہیرو بنایا ہو ، کرپشن اور سفارش کے بل بوتے پر سارے کام ہوتے ہوں تو ظاہر سی بات ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑ لیتا ہے۔ جب اوپر والا ہی ٹھیک نہیں ہو تو پھر اُس کے انڈر میں کام کرنے والوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف جن سے ہماری امیدیں وابسطہ ہیں اور جن کو دیکھ کر ہم فخر کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیرو ہیں وہ لوگ بھی ریٹارمنٹ کے بعد اعلی عہدوں پر براجمان ہونے کی خواہش دل کے کونے میں دبائے" اوکے سر" کے نعرے لگا تے ہوے صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جسے دیکھ کر ملک کے کروڑوں محب وطنوں اور لاکھوں مظلوموں کی امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں اور یہ لوگ تمام تر حقائق سے نظریں چرا کرملکی و عوامی مفادات کو سات لحافوں میں منظم طریقے سے تہہ کرکے الماری میں بند کر دے دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ محفوظ فیصلے میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ملک کے اندورونی و بیرونی مسائل اور عالمی بدلتے حالات میں ہماری مثال کچھ اس طرح ہے کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہاکہ کون ہمارا دوست ہے کون ہمارا دشمن، کون ہمارے ساتھ مخلص ہے اور کون غدار۔

مثال کچھ عجیب سی ہے؛ ایک شخص کسی دن ضروری کام سے اپنی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس کی گاڑی خراب ہو گئی اور مشکل سے کوئی میکینک مل گیا(نوٹ: اُس شخص کا نام "کافی" اور میکینک کا نام "نعمت" تھا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے نام سے ناواقف تھے) میکینک گاڑی کے نیچے لیٹ کر گاڑی کا معائینہ کر رہا تھا، اتنے میں وہ شخص کہتا ہے کہ اس وقت اگر دو گدھے ہوتے تو کتنی" نعمت "ہوتی اورمیں جلدی اپنی منزل پر پہنچ جاتا، مکینک نے جب یہ سنا توغصے میں نکلا اور کہنے لگا نہیں جناب اگر ایک گدھا بھی ہوتا تو "کافی" ہوتا۔ یہ سن کر اُس شخص کا بھی چہرہ بگڑ گیا مگر دونوں کو ایک دوسرے کے غصے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ اس وقت ہمارے ملک کو بچانے کے لئے بھی دو "نعمت " اور ایک "کافی "کی ضرورت ہے جو مشکلات کا حل نکالے اور خراب پرُزوں کو نکال کر ایک دم نیو جاپانی پرُزے لگا دیں۔ تاکہ ہمارے ملک کی گاڑی صحیح راستے پر گامزن ہو سکے ۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

ڈان لیکس کے بعد

وحدت نیوز(آرٹیکل) ڈان لیکس کے مطابق ، پیر کے دن ۳،  اکتوبر۲۰۱۶ کو وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں  کابینہ اور صوبائی حکام   نیز ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر پر مشتمل،  وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد میں  ایک خفیہ اجلاس ہوا، اجلاس میں  سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وزیر اعظم ہاؤس میں سول و عسکری حکام کو خصوصی پریزینٹیشن دی اور  حالیہ سفارتی کوششوں کے نتائج کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اور حکومت پاکستان کے موقف  کو بڑی طاقتوں نے مسترد کر دیا ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کی وجہ سے  امریکہ کے ساتھ  ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں  اور مزید خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اسی طرح انہوں نے شرکا کو بتایا کہ بھارت کی طرف سے  پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور جیش محمد کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

چین  کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  چینی حکام نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر  کے سلسلے میں تعاون کرنے سے انکار تو نہیں کیا لیکن   دیگر پاکستان کے ساتھ تعاون میں اپنی ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے۔

اس کے بعد حاضرین کے درمیان تفصیلی بحث ہوئی جس کے بعد  ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں  سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے  مطالبے کے مطابق جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔

اس پر ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔

ڈی جی آئی ایس آئی کی بات مکمل ہوتے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے  کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو  سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے  کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔

اس موقع پر آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔

اس اجلاس میں دو اہم فیصلے کئے گئے :

ایک تو یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو  یہ  پیغام دیں گے کہ  فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔

دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کیے جائیں۔[1]

چھ اکتوبر کو۲۰۱۶ انگریزی اخبار ڈان میں صحافی سرل المیڈا کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے مذکورہ  اجلاس سےمتعلق دعوی کیا گیا کہ اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر عسکری اور سیاسی قیادت میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور سیاسی قیادت نے عسکری قیادت سے کہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے ورنہ عالمی تنہائی پاکستان کا مقدر ہو گی۔[2]

اس خبر کو کسی نے ’’ڈان لیکس‘‘ کا نام دیا تو کسی نے میمو گیٹ سے مماثلت کی بناء پر ’’نیوز گیٹ‘‘ کا نام دیا۔

10 اکتوبر کو خبر دینے والے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، 14 اکتوبر کو سی پی این ای اور اے پی این ایس کے وفد نے وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کی توسرل کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا، 29 اکتوبر کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، حکومت نے قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جو خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کرے، کمیٹی نے پانچ ماہ کے بعد قومی سلامتی سے متعلق خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کر کے اپنی سفارشات 26 اپریل کو وزارت داخلہ کو بھیجو ادیں، وزیراعظم نے کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق اپنے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو اکتوبر میں ہی فارغ کردیا گیا تھا ۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہو نیوالے اعلامیے پر وزیراعظم کےپرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کے دستخط ہیں، جس میں وزیراعظم نے انفارمیشن افسر راؤ تحسین کی خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی ہے اور پرنسپل سیکرٹری برائے اطلاعات راؤ تحسین کے خلاف کا رروائی انیس سو تہترکے قوانین کے تحت ہوگی جب کہ روزنامہ ڈان ظفرعباس اور خبر شائع کرنے والے سرل المیڈا کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کر دیا۔[3]

اس کے بعد یوں ہوا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ وزیراعظم کا عملدر آمد سے متعلق اعلامیہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور نہ ہی اس رپورٹ کی سفارشات پر من و عن عمل درآمد کیا گیا ہے اس لیے پاک فوج اس اعلامیہ کو مسترد کرتی ہے۔

دس مئی 2017  کو  وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ایک نیا اعلامیہ جاری کیا گیا  اور عسکری قیادت کی خواہش کے مطابق  بظاہر نامکمل  نوٹیفکیشن کو از سرنو ترتیب  دیا گیا  اور عسکری قیادت نے بھی نئے اعلامیے کے بعد اپنی سابقہ ٹوئٹ واپس لے لی ۔[4]

اس طرح   6 اکتوبر 2016  کو شروع ہونے والا یہ سلسلہ  10 مئی 2017 کو اپنے اختتام کو پہنچا،  اگرچہ ڈان لیکس کا طوفان بظاہر تھم گیاہے لیکن اپنے پیچھے پانچ اہم نکات  چھوڑ گیا ہے، قطع نظر اس کے کہ ڈان لیکس  میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ، اس سے ہٹ کر  ڈان لیکس کے بعد ہمیں ان پانچ نکات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ   ہمارے ملک میں اعلی سطح پر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جواس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ ملک کے حساس معاملات شئیر کئے جائیں اور ایسے لوگ یقینا قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔اس طرح کے حالات میں قومی سلامتی سے متعلق اداروں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ  جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ڈان لیکس چاہے سچ ہے یا جھوٹ ، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں البتہ ملکی سلامتی کے حوالے سے ہمارے پاس مستقل  داخلہ و خارجہ لائحہ عمل ہونا چاہیے۔  خصوصا دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے  خارجہ تعلقات  وقتی حالات اور موجودہ حکمرانوں کی منشا کے بجائے ، مستقل  پالیسی کے تحت آگے بڑھنے چاہیے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہم شروع سے ہی بڑی طاقتوں کے دباو کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب  دیتے چلے آرہے ہیں جس کی وجہ سے بڑی طاقتیں اپنے مفادات پورے کرنے کے  بعد ہمیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں لہذا ہماری مستقل قومی پالیسیوں پر بڑی طاقتوں کا دباو نہیں پڑنا چاہیے۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ہمارے معاون عسکری گروہوں کی از سرِ نو نظریاتی تربیت کی جانی چاہیے اور انہیں شدت پسندی  اور فرقہ واریت  کی لعنت سے باہر نکالا جانا چاہیے۔ پاکستان سے محبت ، نظریہ پاکستان کی آفاقیت ، اسلامی بھائی چارے  اور قانون کے احترام جیسے خطوط پران کی تربیت کی  جانی چاہیے۔یہ عمل ان ا داروں کی مضبوطی اور پاکستان کی سلامتی کا باعث بنے گا۔

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ  وطن عزیز پاکستان  کے باسیوں کی سالمیت  اور قانون  کے احترام سے کسی کو بھی  بالاتر نہ سمجھا جائے ۔ جوتنظیمیں اور افراد ، پاکستانی عوام  کی جانوں سے کھیلتے ہیں، بانی پاکستان کو کافر اعظم کہتے ہیں، پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں ، پاکستان کی فوج اور پولیس   کے خون کے پیاسے ہیں اورملک کے  قانون کو غیر اسلامی کہتے ہیں ، ان کے خلاف  ہر قیمت پر قانونی کارروائی  اور آپریشنز ہونے چاہیے۔ اسی میں وطن عزیز پاکستان،  پاکستانی عوام، سیاستدانوں اور فوج و پولیس کی بھلائی ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree