پیکر وفا

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے ،جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کودنیا والوں کو سمجھا دیا۔وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند عباس ہے ۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ  روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے ،عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کر ینگے۔

عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی۔چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام  کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں جن کی کنیت ام البنین ہے۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھےایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا {کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے } اور کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھاجس کے آباؤواجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پاگئی۔ جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعدآپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر  تشریف لائی اور بچوں  کی دیکھ بال  اور ان کی خدمت شروع کی۔جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔

اللہ نے  آپ کوچار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان اور یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہو گئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام  پر قربان ہونے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کو اس طرح توصیف کرتے ہیں:{رَحِمَ اللَہُ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہُ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ يَداہُ فاَبْدَلَہُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ مِنہُما جِناحَيْن يَطيرُ بِہِما مَعَ الْمَلائِکَۃِ فی الْجَنَّۃِ کَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی طالِبْ عليہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہِ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃٌ يَغبِطَہُ بہا  جَميعَ الشُّہدَاءِ يَوْمَ القِيامَۃِ}

خدا میرے چچا عباس کو رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہو گئے۔   یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پر دیے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔

امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں:{کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَۃِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاہَدَ مَعَ أَبی عَبْدِاللَّہِ عليہ السلام وَأَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَہيدا}ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھے مستحکم ایمان کے مالک تھے ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخر کار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔

جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتی۔صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہیں۔

آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے ۔بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔

حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بہادر فرزند کی تمنا تھی جو اپنے بعد اسلام کی حفاظت کر سکے اور حسین بن علی علیہ السلام  کے لئے مددگار بنے۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ہوئی،حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بہادر قبیلے کی بہادرخاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ام البنین سیرت و کردار میں نہایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی ۔

عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ہونے کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔

معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اورنقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ہاشم شیر خدا کا فرزندتھا۔

قمر بنی ہاشم ہمیشہ  امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ بلایا  اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔

حضرت عباس علیہ السلام عرب کے عظیم بہادروں میں شمار ہوتے تھے کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک مقام پر جب اسلام کوخطرے میں دیکھا،نانا محمد[ص] کے دین کو سرے سے نابود ہوتے دیکھا، تو عباس سے برداشت نہ ہوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم  فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں اس لئے عباس[ع] نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلندکیا وہی علم جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا.
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا

تعداد میں بہتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل  تھےعباس علمدار  لیکن یہی بہترافراد یزیدی افواج  سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔حضرت عباس[ع] نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی ۔یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کر کے راہ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی تا کہ قمر بنی ہاشم حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیں اور وہ اکیلے میدان میں رہ جائیں لیکن قمر بن ہاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا

حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدارعلیہ السلام کو دو جہت سے باب الحوائج کہا جاتا ہے ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اہل بیت اطہار کی ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا تھا اور ہر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے جہاں سے ہزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ہوئے ہیں اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کہا جاتا ہے۔

سلام ہو اس عظیم غازی پر ،حسین[ع] کے علمدار پر،سقائے سکینہ پر ،جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ہاتھوں سیراب ہونے کے لئے اسلام پر قربان ہوئے ۔عباس علمدا رنہ صرف حسینی فوج کےعلمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں ۔یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھے کہ کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ہوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے  ارض و سماء  والے  سخی  عباس کہتے  ہیں

عباس علیہ السلام جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کر کے آئےتھے اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پہنچ جائے اور حسین علیہ السلام کی معصوم بچیاں سیراب ہوں ،اس لئے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی لیکن عباس علیہ السلام نےامام وقت کی دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّہِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينی
إنّی أُحامِی أبَداً عَنْ دينی
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبیِّ الْطَّاہِرالا مين

خدا کی قسم اگر میرا دائیں ہاتھ قلم کیا جائے تب بھی میں دین کا دفاع کرتا رہوں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔پیکر وفا نے اپنے دونوں ہاتھ اوراپنی  قیمتی جان اسلام اور وقت کے امام پرقربان کیا ۔
جنہیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ہی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے

امام  جعفرصادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّہَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للہِ وَلِرَسُولِہِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّی اللہ عَلَيْہِمْ وَسَلَّمَ  ۔سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام، کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"السلام علی ابی الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاہ بنفسہ، الآخذ لغدہ من أمسہ، الفادي لہ، الواقي الساعي إليہ بمائہ المقطوعۃ يداہ ۔ سلام ہو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کردی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت
کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ۴ ہجری میں شعبان المبارک کی تین تاریخ کو مدینۃ النبیﷺ میں تاریخ بشریّت کے ایک ایسے بچے نے جنم لیا،  جس نے  مفکرین کے افکار اور دنیا کی اقدار کو بدل دیا، اس نے فتح و شکست، اور بہادری و بزدلی کے پیمانے تبدیل کر دئیے۔اس نے  مقتول کو قاتل پر،مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب  پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ نومولود  اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کا نواسہ تھا لیکن اس کی فضیلت فقط اسی پر ختم نہیں ہوتی، یہ مولود کعبہ کا لخت جگر تھا، خاتونِ قیامت کے دل کا ٹکڑا تھا، حسنِ مجتبی ٰ ؑ کا بھائی تھا لیکن نہیں نہیں پھر بھی اس کی فضیلت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت رسولِ خدا ﷺ نے خود دی،  بعض روایات کے مطابق ولادت کے ساتویں روز حضرت جبرائیل ؑ نے  حضور اکرمﷺ سے فرمایا کہ اس بچے کا نام حضرت ہارونؑ کے چھوٹے بیٹے شبیر کے نام پر رکھیں جسے عربی میں حسین کہا جاتا ہے، [1]   سات سال تک یہ بچہ رحمۃ للعالمین ﷺ  کے سائے میں پروان چڑھا،  سائے میں نہیں بلکہ سینے پر پروان چڑھا، ان سات سالوں میں رسول اعظم ﷺ بار بار یہ اعلان کرتے رہے، میں حسینؑ سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔

ہمارے رسول کی آغوشِ تربیت کا کمال دیکھئے کہ جو بھی اس آغوش میں پروان چڑھا وہ دنیا میں بے نظیر و بے مثال بن گیا، اگر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو پروان چڑھا یا تووہ کل ایمان ٹھہرے، اگر سیّدہ فاطمہ کو پروان چڑھا یا تو  وہ  سیّدۃ النسا العالمین ؑ قرار ، پائیں اگر امام حسن مجتبیؑ کو پروان چڑھا یا تو  سیرت و کردار میں  شبیہ پیغمبر بنے اور اگر حسین ابن علی کو اپنی آغوش میں لیا تو جنت کے سردار بنے۔

ان مذکورہ شخصیات میں سے ہر شخصیت نے  عالم بشریت کی ہدایت  کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔

تعلیمات اسلام کی روشنی میں اور سیرت نبوی کے آئینے  میں یہ سب رسول گرامی ﷺ کی تربیت کا نتیجہ ہی ہے کہ ان ہستیوں کی  مادی زندگی اور معنوی زندگی میں کوئی فرق نہیں، بلکہ ان کی مادی زندگی ہی عین معنوی زندگی ہے، ان کی سیاست ہی عین دین ہے ، ان کی زندگی کے آداب، قرآن مجید کی آیات کی  عملی تفسیر ہیں اور ان کے فرمودات ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ہی تسلسل ہیں۔

دنیا میں اگر آج تک ان کے فضائل کا ڈنکا     بج رہاہے تو یہ در اصل رسولِ اسلام کی فضیلت کا ڈنکا ہے چونکہ ان کی تعلیمات عین تعلیمات رسالت ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں ان کے فضائل کو بیان کیا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، ان کا دشمن میرا دشمن ہے اور ان کا دوست میرا دوست ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے کئی مرتبہ ان کے دشمنوں پر لعنت اور بیزاری کا اظہار کیا ہے۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول گرامی ﷺ کی ان ہستیوں سے محبت  ، محض جذباتی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ یہ ہستیاں اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے  اس قابل تھیں   کہ ان سے رسولِ دوعالم اسی طرح والہانہ محبت کرتے۔

کفر کی ظلمت میں رسولِ اسلام ﷺ نے توحید کے جس نور کی شمع جلائی تھی اسے رسولﷺ کے بعد انہی ہستیوں نے اپنے عمل و کردار سے فروزاں رکھا ۔ ۶۱ ھجری میں جب ان ہستیوں میں سے اس دنیا میں فقط حسین ابن علی ؑ باقی رہ گئے تو رسول اکرم ﷺ کی تریبت کا تقاضا یہی تھا کہ حسین ابن علی ؑ ، سیرت رسولﷺ اور پیغام رسالتؑ کے اجرا کے لئے ، اپنی ماں، باپ اور بھائی کی طرح میدان عمل میں کھڑے رہیں۔

 چنانچہ ۶۱ ھجری میں  جب  یزید کے سامنے  پورا عالمِ اسلام سرنگوں ہو گیا تھا ،اس وقت فقط حسین ابن علیؑ شہکار ِ رسالت کے طور پر ابھرے۔ جس طرح رسولِ خدا نے زمانہ جاہلیت کے معیاروں کو بدلا تھا اسی طرح حسین ابن علی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے  جہالت و نادانی کے خلاف قیام کیا۔ جس طرح عرب سرداروں اور دنیا کے بادشاہوں کے منصوبوں کو نبی اکرمﷺ نے خاک میں ملایا تھا اسی طرح حسین ابن علیؑ نے بھی  سرداروں اور بادشاہوں کے منصوبے ناکام کر دئیے۔ یعنی حسین ابن علی ؑ کے پیکر میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تربیت  اپنے کرشمے دکھا رہی تھی۔

حکام وقت کے منصوبے کے مطابق، معرکہ کربلا کو وہیں کربلا کے صحرا میں  دفن ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ، سیرت النبیﷺ کے واقعات کی طرح  دفن ہونے کے بجائے ہروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہےلیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبےکو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا  اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین  عالی مقام کو سربلند بنادیا۔

ہمارے سامنے تاریخ بشریت، دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہےمگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّرنے اپنے علم ودانش سے امام حسینؑ جیسا کام نہیں لیا ۔  ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین  کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسین  عالی مقام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین  کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین  عالی مقام کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیاامامؑ عالی مقام نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامےمیں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟

 کیا امام حسین  نےمکّے میں روز عرفہ کو یہ نہں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہاہوں؟ اسی وصیت نامے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میری سیرت میرے جد محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔

 اگر امامؑ کاقیام حکومت کےلیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگرامامؑ کی کوشش فقط حکومت کےلیے تھی توجب آپؑ کوسامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی سازوسامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی  تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسین  عالی مقام کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہےکہ یہ دوشہزادوں یادوخاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی,چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی  تواس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔چونکہ جس شخص کوذراسی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین  محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذاحضرت امام حسین  سے بغض اور لڑائی کسی شہزادےیا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ رسولِ خدا ﷺ کی سیرت و کردار کے  ساتھ جنگ ہے۔

 کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری  ہے کہ  ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین  عالی مقام نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو سیرت النبیﷺ کے  ساتھ مرتب کیا ہے۔

بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام عالی مقام نے تیار کیا ہے۔آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو اپنے جد رسولِ خداﷺ کی طرح ، حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ  وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ  امام عالی مقام کا خدا کی ذات اور رسولِ اسلام ﷺ سے عشق اور لگاو تھا، اور    اسی عشق نےاس تحریک کو جاویداں بنا دیا ہے۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ سیرت النبیﷺ  سےگریز ہے۔

اپنی زندگیوں میں سیرت النبیﷺ کے  عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں،دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے سے، اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسینؑ کی طرح اپنے پیغمبرﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو  شکست نہیں دے سکتی اور ،ہم آج بھی عددی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود  فاتح بن سکتے ہیں۔

حضرت امام حسین مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ  آپ اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مانند  پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہیں، آپ کی عظیم شخصیت شہکار رسالت ہے لہذا شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کو زندگی کے تمام پہلووں میں آپ ؑ کی ذات کا طواف کرتے رہنا چاہیے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

اندھیرا اور ستارہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) وقت وقت  کی بات ہے  ۔۔۔ کبھی انسان زیادہ تھے اور مشینیں کم ۔۔۔جبکہ آج مشینیں زیادہ ہیں اور انسان کم  ۔۔۔ اور مصروفیت کا تو نام ہی نہ لو۔۔۔ اتنی زیادہ کہ مجھے اپنی بھی خبر نہیں  ۔۔۔ مہینہ ہوگیا   ہے۔۔ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ، اپنی ماں سے کبھی 5منٹ سے زیادہ بات نہیں کرپایا  ۔۔۔

میں بات کر ہی رہا تھا کہ مظہر میری بات کاٹ کر بولا:

کیا کروں میں بھی  ایسا ہی ہوں  ۔۔۔ ۔کل سے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں  ۔۔۔  جب لکھتا ہوں تو قلم نہیں چلتا  ۔۔۔ قلم چھوڑوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سانس رک  گئی ہو  ۔۔۔ ۔اور جب کبھی سونے کی کوشش کرتا ہوں تو ڈراؤنے سپنے آتے ہیں  ۔۔۔ ۔۔

ساتھ کھڑے ایک دوست نے  مسکراتے ہوئے کہا  کہ  مجھے لگتا ہے کہ تم پاگل ہو گئے ہو ۔۔۔ تمھیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے  ۔۔۔ اچھا چھوڑو  ۔۔۔  چلو باہر چلتے ہیں  ۔۔۔

 مظہر : ایک منٹ یار  ۔۔۔  کیا تمھیں یاد ہے  ۔۔۔  کل جب اس کار والے سے کہا تھا کہ  چپس کے خالی پیکٹ کو Dustbin میں ڈالو  ۔۔۔ تو اس نے کیا جواب دیا   تھا۔۔۔ ؟؟؟

دوست: یہی کہ اس کے ایک پیکٹ کی وجہ سے تھوڑا ہی گند پھیل رہا ہے  ۔۔۔ یا پھر ایک پیکٹ نہ پھینکنے سے کونسا پورا شہر صاف ہو جائے گا۔

 مظہر: یار مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب ٹھیک ہوگا  ۔۔۔  ہم غلط راستوں پرچل رہے ہیں  ۔۔۔ ۔

دوست:  اب کیا ہوگیا تمہیں ۔۔۔؟؟ چلو  باہر چلتے ہیں نا  ۔۔۔  پلیز  ۔۔۔

 مظہر  : ( قلم کو وہیں میز پر رکھتے ہوئے اٹھتا ہے )  ۔۔۔چلو  ۔۔۔ اور کچھ دیر خاموشی کے بعد   ۔۔۔واہ کیا بات ہے  ہماری  ۔۔۔  جب کسی سے کہو کہ لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرو  ۔۔۔ تو وہ  کہتا ہے کہ میرے  لائن میں لگنے  سے کیا ہونے والا ہے  ۔۔۔، سڑک پہ کھڑے کسی ملازم کو بولو کہ رشوت کیوں لیتے ہو ۔۔۔ ۔تو بولتا ہے کہ کیا میرے 50 ۔۔100 نہ لینے سے کیا  سسٹم تبدیل ہو جائے گا  ۔۔۔ ؟اگر کسی دودھ والے سے بات کرو کہ پانی کیوں ڈالتے ہو  ۔۔۔ تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ  ۔۔۔ صاحب کیا کریں  سب کرتے ہیں اور اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہوتا ۔۔۔حالت یہ ہے کہ لوگ بازاروں میں کسی کو کھمبے سے باندھ کر مار دیں یا یونیورسٹی میں کسی کو زدوکوب کر کے قیمہ بنا دیں ، ہمارے ہاں کا عام آدمی ، فوج اور پولیس سب  جو ہورہا ہے اسے ہونے دو کے مصداق بنے کھڑے رہتے ہیں۔

ہر کسی کا اپنا دین ، آئین ، قانون اور معاملہ ہے۔۔۔بس بندے کو کمزور نہیں ہونا چاہیے، اگر کمزور ہوا تو کوئی مولوی،  عوام، پولیس ، فوج اور قانون اس کی مدد کو نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ طاقت ور ہوا تو سب اس کی پشت پناہی کریں گے۔

مظہر کی بات ختم ہوئی تو دوست نے کہا کہ  اصل کرپشن تو اوپر سے ہے  ۔۔۔ اور اگر یہ سب ٹھیک کرنا ہے تو اوپر کے نظام و سسٹم کو بدلو  ۔۔۔

 مظہر  : یار اگر مکان کی چھت پہ چڑھنا ہوتو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے  ۔۔۔ ؟؟

دوست : اب یہ کیسا سوال ہوا  ۔۔۔ ؟؟ ظاہر بات ہے سیڑھی کی اور کس کی  ۔۔۔ ۔

 مظہر  : کتنی عجیب بات ہے نا  ۔۔۔کہ انسان مکان کی چھت پر جانے کے لیے اپنا پہلا قدم سیڑھی کے سب سے اوپر والے پلّے پہ رکھے ۔۔

دوست : یہ کیسی بات ہوئی  ۔۔۔  یہ توممکن نہیں  ۔۔۔ اگر کسی نے اوپر جانا ہے تو پہلے پلّے سے آخری کی طرف جائے گا  ۔۔۔ نہ آخری سے پہلے کی طرف  ۔۔۔

 مظہر : یہی تو ہم سمجھ نہیں پا رہے  ۔۔۔ ہم اوپر سے نیچے کی طرف آنا چاہتے ہیں  ۔۔۔

مظہر نے کچھ توقف کیا اور پھر بولا : آج ہم نے علم و معلومات اور ڈگریوں  میں جس قدر ترقی کی ہے  ۔۔۔ اسی قدر  سوچ و بچار اورشعور کی دنیا سے کٹ گئے ہیں  ۔۔۔  ہم جن باتوں کو محسوس نہیں کرتے اور ان پر خاموش رہتے ہیں وہی بڑے بڑے سانحات کا پیش خیمہ بنتی ہیں  ۔۔۔

ہماری غلط خاموشی کی وجہ سے آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ۔۔۔پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ۔۔۔کھلے عام انسان کو بے رحمی سے سڑکوں پہ مارا جانے لگا   ہے ۔۔۔ اور یہ کام کسی جاہل  یا ایک دو پڑھے لکھے انسانوں نے نہیں ۔۔۔بلکہ پورے شہر نے انجام دیا۔۔۔ جب سیالکوٹ میں یہ انسان سوز واقعہ ہوا  ۔۔۔ تو ۔۔یا ۔۔تو ہم خاموش تھے یا پھر مار نے والوں میں ۔۔۔جس ملک  کی بنیاد اس دین پر رکھی گئی کہ جس نے حتی کافر کی لاش کی بھی بے حرمتی سے منع کیا  ۔۔۔  اسی ملک میں ، اسی دین کے ماننے والے آج  مسلمانوں کی لاشوں کو پامال کر رہے ہیں ۔۔۔

ہمارے ہاں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے لیکن ہمیں وہ تذلیل محسوس نہیں ہوتی،  ہمارے ہاں یونیورسٹی کا اسٹاف اپنے طالب علم کو قتل کروا دیتا ہے لیکن ہمیں اس کا درد محسوس نہیں ہوتا ، وہ اس لئے کہ جب کوئی دودھ میں پانی ملاتا تھا تو ہمیں اس کی بھی کراہت محسوس نہیں ہوتی تھی،  جب پولیس اہلکار ہم سے 50 روپے لے رہا تھا تو ہم  نے چپ چاپ دے دیے تھےاور وجہ تک نہ پوچھی تھی، آج  ایف آئی اے اہلکار  سرعام ایئرپورٹ  پر خواتین کی درگت بناتے ہیں لیکن ہمارا قانون حرکت میں نہیں آتا ، چونکہ ہم نے قانون کو ہمیشہ طاقتور کے گھر کی لونڈی بنتے ہوئے دیکھا ہے اور خاموشی اختیار کی ہے ۔۔۔

آج ہمارے پاس معلومات ہیں مگر شعور نہیں  ہے ۔۔۔قلم ہے مگر درد نہیں ہے، میڈیا ہے مگر سوچ نہیں ہے، مولوی ہیں مگر امن نہیں ہے، ڈگریاں ہیں مگر شرافت اور اخلاق نہیں ہے۔۔۔

آج ہمیں علم  کے ساتھ ساتھ شعور کی ضرورت ہے ہم میں سے ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ   ۔۔۔ ایک خالی پیکٹ گند و الے ڈبے میں ڈالنے سے اگرچہ  پورا شہر صاف نہیں ہو گا  ۔۔۔  مگر اس  کی اپنی زمہ داری ادا ہو جائے گی  ۔۔۔ کیونکہ  ۔۔۔  ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ  ۔۔      حالات کی تاریکی میں ہر شخص کو ستارہ بن کر چمکنا چاہیے۔


تحریر۔۔۔ساجد علی گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)4- لا پرواہی اور جمود فکری:

1- قولہ تعالیٰ
((الذين اتخذوا دينهم لهوا ولعبا وغرتهم الحياة الدنيا.. ))
" جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنایا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا،"
2- قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
" ياتي على الناس زمان لا يبالي الرجل ما تلف من دينه اذ سلمت له دنياه "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا !
" لوگوں پر وہ وقت بھی آئے گا کہ شخص اتنا لا پرواہ ہو جائے گا  کہ اگر اس کے دین کا کچھ حصہ تلف بھی کر دیا جائے اور اسکا دنیاوی فائدہ محفوظ رہے گا تو اسے اس  بات کی پرواہ بھی نہیں ہو گی."

جب کسی بھی شخص کے اندر فکری جمود پیدا ہوتا ہے. اور احساس مسئولیت ختم ہوجاتا ہے.تو وہ لاپرواہی کے راست پر چل نکلتا ہے. اور اس طرح وہ اپنے ہم فکر دوستوں اور فعال کارکنوں سے عملی طور پر دور ہوتا چلا جاتا ہے. اور دوریوں سے اختلافات جنم لیتے ہیں۔

جمود فکری جب ٹوٹتا ہے تو انسان بہتری اور ترقی کے اقدامات سر انجام دیتا ہے. کیونکہ روٹین کی زندگی کا عادی اور اس پر راضی رہنے والا فرد ہو یا ملت یہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور جس حالت میں ہیں اسے وہ  تبدیل بھی نہیں کر سکتے. کیونکہ جب تک کسی ملت اور قوم میں زمہ داری اور فرائض کی انجام دہی کا اندرونی احساس اور جذبہ بیدار نہیں ہوتا وہ افضل اور احسن حالت کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی. اور اس اندرونی  احساس اور جذبے کا تعلق انسان کے یقین ، ایمان اور تقوی سے ہے. اس لئے کسی ملت اور قوم کو توڑنے کے لئے دشمن طاقتیں اسکے ایمان ، عقیدہ اور تدین پر حملہ آور ہوتی ہیں. اور یہیں سے ہی الہی تنظیموں کے کارکنان و مسؤولین کے لئے تربیتی نظام کی ضرورت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔

5- اخلاقی اور دینی کمزوریاں:

1- يقول الامام امير المؤمنين عليه السلام
" من لا يستقيم به الهدى يجر به الضلال الى الردى."
جس كو ہدايت صراط مستقيم پر کار بند نہیں کر سکتی اسے گمراہی پستیوں میں دھکیل دیتی ہے."

2- يقول الامام الصادق عليه السلام  عن رسول الله (ص)
" ان الله عزوجل ليبغض المؤمن الضعيف الذي لا دين له ، فقيل له:  وما المومن الذي لا دين له ؟ قال (ص) الذي لا ينهى عن المنكر "
" اللہ تعالیٰ  اس مومن کمزور سے محبت نہیں کرتا جو صاحب دین نہیں. پوچھا گیا کہ وہ کمزور مومن کون ہے.جو صاحب دین نہیں؟
آپ نے فرمایا  کہ وہ شخص برائیوں سے نہیں رکتا۔

جب انسان اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی نداء نہیں سنتا اور قرانی تعلیمات اور سیرت طیبہ انبیاء کرام و اھل بیت علیہم السلام سے دوری اختیار کر لیتا ہے. اور ان پر عمل پیرا ہونا اپنا وظیفہ اور فریضہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ انہیں وعظ ونصیحت کے طور پر لیتا ہے جب چاہتا ہے عمل بجا لاتا ہے اور جب حالات اسے سازگار نظر نہیں آتے ان واجبات کو ترک کر دیتا ہے.بلکہ وہ پھر اپنی نافرمانی اور کوتاہی کے شرعی بہانے بھی تلاش کرتا رھتا ہے۔

یہیں پر الہی تنظیم کے افراد کے ما بین دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں. اور اختلافات جنم لیتے ہیں.  بعض اوقات دینی واخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے بعض افراد گناہان صغیرہ وکبیرۃ کے مرتکب ہوتے ہیں.اور خلاف مروت زشت کام سرانجام دیتے ہیں. جو اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود اور شناخت کے لئے بدنامی کا سبب بنتے ہیں.

6- انفرادییت کو اجتماعیت پر فوقیت دینا:

1- قولہ تعالى
((ان الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا واحدا کانھم  بنيان مرصوص ))
" اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے ایک جماعت بن کر دشمن سے لڑتے ہیں ، جیسا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں. " جب انسان اپنی قدرت ونفوذ اور صلاحیتوں وغیرہ کا حد سے زیادہ قائل ہو جاتا ہے تو اسکی نظروں سے اجتماعی جدوجہد میں شریک دوسرے افراد کا کردار اوجھل ہو جاتا ہے. اور وہ نہ اسکی قدر کرتا ہے اور نہ ہی اسے اہمیت دیتا ہے. اور پھر یہی رویہ تنظمیی اختلافات اور دوریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

انفرادیت پر ایمان رکھنے والوں کیلئے اجتماعیت میں ڈھلن مشکل ہوتا ہے. اور جب انفرادی سوچ اجتماعی عمل میں سرایت کر جاتی ہے تو اجتماعی وجود کھوکھلا ہو جاتا ہے.
اور انفرادی حیثیت اور اپنی ذات کو اجتماعی ہدف کے لئے مٹا دینے سے ہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں،اپنے آپ کو عقل کل سمجهنا  بالآخر انسان کو تنہا کر دیتا ہے،ٹیم کی شکل میں کام سے فرار در اصل مطلق العنان لوگوں کا شیوا ہے ۔

 

 

تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

کالم کی موت

وحدت نیوز(آرٹیکل) میری دعا ہے کہ میرا یہ  کالم  بہت جلد مر جائے،یہ اپنا مفہوم کھودے اورحالات اس کے بر عکس ہوجائیں  لیکن مجھے لگتاہے کہ یہ ابھی کئی برس تک جئے گا۔ یہ  کالم  حُسن و دلکشی کے بارے میں ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ حسن و دلکشی انسان کی کمزوری ہے،انسان ہر لطیف و حسین شئے کو پسند کرتاہے،خدا نے بھی  جب انسان سے کلام کرنا چاہاتوانسان کی اس کی پسند کو مدنظر رکھا،اس نےخوبصورت الفاظ کو حسین پیرائے میں دلکش بیان کے ساتھ اس طرح سے پرویا کہ بڑے بڑے فصحا بھی اس کے کلام کا جواب نہیں لاسکے۔

دشمن بھی راتوں میں چھپ چھپ کر اس کے کلام کی شیرینی سے لطف اٹھاتے تھے اور شیاطین اس کی نزاکتِ الفاظ کو جادو کہہ کر فرار کرتے تھے۔

خدا نے الفاظ کے ساتھ  نعوذباللہ بازی نہیں کی بلکہ الفاظ کو وہ معانی اور مفاہیم عطا کئے ہیں  کہ ایک طرف تو طبیعت بشر کی نفاست پسندی اس حسنِ انتخاب سے محظوظ ہوئی اور دوسری طرف انسانی علم اور تہذیب و تمدن نے ارتقاء کیا۔یہ قرآن کا ہی دلکش اندازِ بیان اور اسلوبِ رواں تھا کہ جو مدتوں تک مسلمان دانش مندوں کی تحریر و تقریر پر حاوی رہا۔

معقولات و منقولات کے جو سوتے قلب اسلام سے پھوٹے ان کی تراوت عالم بشریت کی بریدہ شاخوں میں آج بھی لمس کی جاسکتی ہے اور ان سے لبریز جام  رومی،سینا،فارابی،خوارزمی اور الکندی کی صورت میں آج بھی مغرب کے علمی میکدوں میں چھلک رہے ہیں۔

انسانیت کے بے نطق معاشرے کو قرآن  اور اسلامی مفکرین نےہی آکر نطق بخشا،یہ وہ زمانہ تھا جب قلم خریدنے کی کوشش کی جاتی تھی،چونکہ قلم وزن رکھتے تھے، دانشمندوں کےسروں کی قیمتیں لگتی تھیں چونکہ سر قیمتی ہوتے تھے،تہہ خانوں کے زندانوں میں محبوس بدن فانوس بن کر جلتے رہتے تھےچونکہ تخیل کی چاپ کوآہنی حصاروں سے اسیر کرنامحال تھا، قلم کی سریرسے ایوان بالا کے کنگرے جگمگاتے تھے،طوفان بلا میں یہی تو اک نائو تھی ،جس کے بادبان منزل کا تعین کرتے تھے، کبھی کبھی کاخِ شاہی کے ستونوں کوقلم دیمک بن کر چاٹ بھی جاتے تھے،اس کی  خاموشی لشکروں کے غلغلے کو نگل جاتی تھی اور اس کی چھنکار ظِلّ الہی کی زنجیرعدالت پر  بھی بھاری تھی۔

ہمارے ہاں بر صغیر میں تو چشم فلک نے کئی مرتبہ یہ مناظر بھی دیکھے جب کسی بادشاہ   نے کسی ہیرے میں جڑ کر قلم کو اپنے تاجِ شاہی میں سجانا چاہاتوصاحبِ قلم نےطریقِ گدائی پر چلنا شروع کردیا،اپنے سماجی سفر میں  تاج کو اپنے تمام تر رعب و دبدبے کے باوجود تاراج ہوجانے کا خطرہ لاحق رہا لیکن قلم کو شاہ ولی اللہ جیسے سرپرست ملے جنہوں نے الفاظ کے برتاو میں خیانت نہیں کی اور اس عظیم مصلح نے شاہی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لایا،محمد حسین آزاد جیسے شمس العما ء ملے جنہوں نے اندازِ بیان میں سستی،کمی اور لغزشوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کی،حالی جیسے امین ملے جنہوں نے مفاہیم کی امانت کو الفاظ کی بھرپور صداقت کے ساتھ اداکیا،میر انیس اور میرزا دبیر جیسے مشّاق ملے جنہوں نے انسان کی قوت ناطقہ کو طائر تخیل کے ہمراہ پرواز کارنے کا حوصلہ بخشا لیکن اب زمانہ  اس دور میں داخل ہوچکا ہے کہ تجرید فکر کا گلا گھٹ گیاہے۔

اب جولوگ الفاظ کی  علامتی توانائی کو درک نہیں کرسکے تھے وہ اسے  خیالی کہہ کر بھاگ نکلتے ہیں اور جہاں پر قلمکار کو تجرید فکر کے بنیادی اصولوں کی ہوا نہ لگی ہو وہاں قلمکار تولید فکر کے نام پر گھسی پٹی عبارتوں،بے رنگ اندازِ بیان،پھیکی اصطلاحات اور غلط ملط جملوں کا انبار تو لگاسکتاہے لیکن کسی تمدن کی تعمیر نو اور علمی مباحث کی تعبیرِ جدید کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔

جہاں پر مفروضے کو تجربے میں ڈھالنے کے لئے فنّی اہتمام نہ ہو اور مفروضے اور تجربے کے ملاپ سے مشاہدے کی تولید کے لئے بنیادی عناصر کی خبر ہی نہ ہو اور پھر تولید شدہ مشاہدے کو نظریاتی قوانین سے گزارے بغیر  اور تجرید فکر کے اصولوں پر چانچے بغیر پیش کیاجاتاہو وہ ہاں پر پھر کہنے کو سوائے کیچڑ اچھالنے کے کیا رہ جاتاہے۔

تحریر کے ساتھ ساتھ آج کل ہمارے ہاں فن تنقید کابھی یہی حال ہے۔ جس طرح انسانی جسم کے لئے تنفس ضروری ہے اسی طرح  انسانی افکار کی بالیدگی کے لئے تنقید   بھی اہم ہےلیکن علمی تنقید کے بھی کچھ بنیادی اصول اور ضوابط ہیں۔جس معاشرے میں بیان [تحریر] اورتنقید ی جائزہ دونوں بے لگام ہوجائیں وہاں پرعوام کو دشنام دینا کسی طور بھی روا نہیں۔

آج ہمیں اس تاریکی کو محسوس کرنا چاہیے کہ نور کے نام پر ظلمت کا کاروبار ہورہاہے۔اس جدید اور ماڈرن تاریکی کے عہد میں یہ صاحبان علم و شعور کا کام ہے کہ وہ اس قوم کی آنکھ  بن کر رہنمائی کریں،دماغ بن کر اس کی فکر کریں اور عصاء بن کر اسے سہارا دیں۔

جس معاشرے میں صاحبان علم و شعور کی ہمتیں پست ،زبانیں گنگ ، قلم کُند ،افکار کہنہ،مجالس غیر علمی،محافل غیر مفید ہو جائیں وہاں پرعلمی نگارشات اور نظریاتی تولید کی جگہ الزام  و دشنام  اورغیبت و حسد کو مل جاتی ہے اور جہاں پر علمی و نظریاتی تولیدات کا حسن ماند پڑجائے وہاں ان کی طلب بھی کم ہوجاتی ہے اور جہاں پر ان کی طلب کم ہوجائے وہاں پر بدی فاتح اور نیکی مفتوح،ظالم حاکم اور عادل محکوم  ہو کررہتا ہے۔

جب تک ہمارے ہاں صاحبانِ علم و شعور کی ہمتیں پست ،زبانیں گنگ ، قلم کُند ،افکار کہنہ،مجالس غیر علمی،محافل غیر مفیدہیں تب تک ہمارے معاشرے میں بدی فاتح اور نیکی مفتوح،ظالم حاکم اور عادل محکوم   بن کر جینے پر مجبور ہے۔لہذا میری دعا ہے کہ خدا کرے حالات بدل جائیں یعنی ہمارے دانشمندوں کی ہمتیں بلند،زبانیں فصیح،قلم گویا،افکار نو،مجالس علمی اور محافل مفید ہوجائیں  اور اگر ایسا ہوجائے تو  یہ  کالم   خود بخود مر جائے گا ۔


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)1- خود پرستی اور انانیت (( افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوء عملہ واتبعوا اھواءھم)) القران / محمد /14
جب انسان اپنی ذات کو ہی جامع الصفات سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور اس کے لا شعور میں یہ بات داخل ہو جاتی ہے کہ وہ ہی تجربہ کار ، مخلص ، صحیح ادراک کرنے والا اور درست معلومات رکھنے والا شخص ہے اور وہ نہ کبھی خطا کا ارتکاب کر سکتا ہے اور نہ منحرف ہو سکتا ہے.  تو درحقیقت اسکا معبود ہوا نفس اور اسکی ذات بن جاتی ہے.اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ شیطان نے اسے مکمل طور پر ورغلا لیا ہے اور وہ اس کے نرغے میں پھنس چکا ہے. اس مرض میں مبتلا فعال لوگ بھی ہو جاتے ہیں اور غیر فعال بھی. اور اسی طرح اسکا شکار بڑے مسؤولین اور زمہ دار افراد بھی ہوتے ہیں اور نچلے اور متوسط درجے کے مسؤولین اور زمہ دار بھی.  اور ہر ایک آیات کریمہ ، احادیث شریفہ ، اقوال عظماء ومعصومین اور ضرب المثل کو اپنی قناعت اور سوچ کی تقویت کے لئے استعمال کرتا ہے۔

مثال کے طور پر عبداللہ بن عمر نے کربلا اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے اس لئے دوری اختیار کی کہ یہ  سلاطین کی جنگ ہے. اور شریح القاضی نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کو زمانے کے امام کےخلاف خروج قرار دیا. کیونکہ وہ یزید اور ابن زیاد کو شرعی اور قانون لحاظ سے زمانے کا امام سمجھتا تھا۔

انفرادی انانیت  سے آغاز  ہوتا ہے جو کہ بعد میں اجتماعی انانیت کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔

البتہ دشمن کے مقابلے میں اپنے حسب ونسب ،ایمان وعمل اور بہادری اور اچھے اقدامات پر افتخار کرنے کی مثال ہمیں سیرت معصومین میں ملتی ہیں. جو ہدف کے حصول میں مددگار  اور تقویت کا باعث ہوتی ہیں. جیسے دربارِ یزید میں امام سجاد علیہ السلام کا خطبہ اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعض خطبے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ

(( لابد للمؤمن من حمیۃ یدافع بھا عن دینہ ))
"ضروری ہے کہ ایک مومن کے اندر اپنے دین کے دفاع کا جذبہ ہونا چاہیئے "
اور مومن کو عزیز النفس ہونا چاہیئے۔

نتیجہ:
فقط کریم ،شریف ، بہادر اور عزیز النفس لوگ ہی قوموں کی آبرو ، عزت ، شرف وکرامت کے امین ہو سکتے ہیں.
اور ہمیشہ ذلیل ، پست، بزدل اور خود غرض افراد قوموں کو ذلت اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں.

2:  خود غرضی اور مفاد.پرستی:  

مذکورہ صفات کے لوگ:
1- ایسے افراد پر  اصلی ھدف اور مشن واضح نہیں ہوتا۔
2- اور یہ لوگ اپنے موقف پر ثابت قدم نہیں رہتے۔
3- نفسیاتی مسائل اور امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اور ان صفات کے پائے جانے کا اصل سبب یہ ہے کہ انکا  الہی تنظیم اور اس اسلامی مشن کے ساتھ تعلق سچائی اور صداقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا. اس لئے جب بھی واضح موقف اختیار کرنے کا مرحلہ آتا ہے وہ کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں. اور جہاں انہیں فائدہ نظر آئے وہاں پیش پیش ہوتے ہیں. اور اختلافات کا موجب بنتے ہیں.  جب طاغوتی طاقتوں کے خلاف قیام کی بات ہوگی یہ لوگ سرے سے غائب ہونگے. بلکہ ایسا موقف اختیار کریں گے کہ نہ پتہ چلے کہ وہ حق کے ساتھ ہیں یا باطل کے طرفدار ہیں۔

ایسے لوگ اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں. اور ہمیشہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں.  ہر محفل اور مجلس کے مطابق رنگ اختیار کر لیتے ہیں. خدا وند تعالی نے قران مجید میں اس طرح انہیں پیش کیا ہے.

(( يخادعون الله والذين امنوا وما يخدعون الا انفسهم )) القران / البقرة / 9
" اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں.  حقیقت میں وہ فقط اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں. "

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں ۔
(( اعلموا ان الله يبغض من خلقه المتلون فلا تزولوا عن الحق واهله ))
" جان لو الله تعالى اپنی مخلوق میں مختلف رنگ اختیار کرنے والے سے نفرت کرتا ہے. حق اور اہل حق کا ساتھ کبھی نہ چھوڑو. "

3- شکست خوردہ ، منفی سوچ کے حامل اور ناکام لوگ:

جب فعالیت ہوتی ہے تو اسکے مثبت اور منفی دونوں نتائج سامنے آتے ہیں. اور جتنا فعالیت کا دائرہ کار وسیع ہو گا اتنے ہی رواسب اور منفی اثار بھی نمودار ہونگے۔

جب بعض افراد کے پاس فعالیت اور کارکردگی کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت وصلاحیت اور کام کرنے کا ارادہ نہیں ہو گا تو وہ منفی سوچ والے ناکام اور شکست خوردہ لوگ اپنی اس حقیقت کو چھپائیں گے. تو یہیں سے اختلافات اور دوریوں کا آغاز ہو گا۔

1- وہ الزام تراشی کا راستہ اختیار کریں گے. لوگوں کی نیت اور اخلاص کو مشکوک انداز میں پیش کریں گے۔

2- حوصلہ شکنی کریں اور فقط کمزوریوں اور خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں گے۔

3- فعال اور میدان میں حاضر افراد کی کردار کشی کریں گے۔

4- اپنی ذات کی تعریف کرتے ہوئے اپنے موقف کو مخلصانہ ، عاقلانہ ، دانشمندانہ ، متوازن ، اجتماعی مصلحت اور جذبہ دفاع جیسی صفات کے طور پر بیان کریں گے۔

5- فعالیت کے سبب پیدا ہونے والی بعض سلبیات کو دوسروں کے سر تھونپیں گے. اور انھیں تمام تر آفات، پریشانیوں اور ناکامیوں کا موجب قرار دیں گے۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔

(( ومن عشق شيئاً اعشى بصره وامرض قلبه... فهو ينظر بعين غير صحيحة ،ويسمع باذن غير سمعية ، قد خرقت الشهوات عقله ، واماتت الدنيا قلبه... ))
"اور جب انسان کسی سے عشق کرتا ہے تو پھر اسے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا. اسکا دل بیمار ہو جاتا ہے ، اور صحیح آنکھ سے نہیں دیکھتا ، اور سننے والے کان سے نہیں سنتا ، شہوت اسکے دماغ میں گھس جاتی ہے ، اور دنیا اسکے دل کو مردہ کر دیتی ہے."

جاری ہے۔

تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree