وحدت نیوز(آرٹیکل) 399سال قبل از مسیح عدالت لگ چکی تھی سقراط اپنے ہی شہر ایتھنز کے منصفوں کی عدالت میں پیش تھا ا لزام تھا کی وہ ریاست کے خدائوں کو تسلیم نہیں کرتا نو جوانوں کے ذہن خراب کر تا ہے اور اپنے عقائد و فکر پھیلانے کی کوشش کر تا ہے کمال مقدمہ تھا نہ چوری کا نہ کرپشن کا نہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا یہ تو صرف عقائد و نظریا ت پھیلانے کا مقدمہ تھا ،سقراط بہت بڑا فلاسفر تھا جس نے کہا تھا کہ "سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے"یہ بات عیسائی مذہب کی میتھالوجی کے خلاف گئی تو معاملہ عدالت میں چلا گیا جب بات نظریات و عقائد پر آئی تو سقراط اپنی سوچ پر ڈٹ گیا اور اسے زہر پلا دینے کی سزا سنا دی  گئی جس بنا پر اس کی موت واقع ہوئی ۔وقت بہت بے رحم ہے سچائی اور حقیقت کو سامنے لے ہی آتا ہے ،وقت نے سقراط کے زہر پینے کے صدیوں بعد حقیقت سائنسی بنیادوں پر ظاہر کی اور واقعی سورج ساکن اورزمین اس کے گرد گھومتی ہے اسکے علاوہ سقراط جو بھی کہتا تھا سچ ہے اس بات پر یونان کے پادریوں اور چرچ نے سقراط سے معافی مانگی اور اس کو اپنا ہیرو قرار دیا وقت نے سقراط کو زندہ کیا اور اس کی سوچ کو امر کر دیاآج زہر پینے کے باوجو د سقراط پوری دنیا میں زندہ ہے سچائی اور حقیقت ہمیشہ زندہ رہتی ہے چاہے معاشرہ اس کے خلاف ہی کیوںنہ ہواس کو دبانا بھی چاہے تو یہ دب نہیں سکتی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں یہ سامنے ضرور آتی ہے، سچ چھپانے سے نہیں چھپتا اور حقیقت ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور معاشرے میں صرف وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو سچ اور حقیقت پر پورا اترتے ہیں نا کہ جو دھوکے اور فساد کا سبب بنتے ہیں خود دیکھ لیجیے آج دنیامیں کتنے چور ،کرپٹ ،ڈکیٹ اور لٹیرے موجود ہیں جن کی تعداد تو کم ہے لیکن ان کے متعلق نظریا ت بہت گندے ہیں کہ سننے سے کانوں میں چپ اتر آتی ہے، جبکہ اُن لوگوں کی گنتی زیادہ ہے جنہوں نے اچھے اسلوب ،نیک سوچ اور سچے جزبوںسے معاشرے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، سقراط ایک ذہین فلاسفر تھا جس نے اپنی ذہنی شعور سے تاریکیوں میں روشنیوں کی بات کی تھی مگر معاشرے نے اسے تسلیم نہ کیا جس کے سبب صدیوں تک معاشرہ اندھیرے میں رہا لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا سقراط سچا تھا۔

آج سے پھر ایک عدالت برپا ہے، جس میں عدالت کا منشی با آواز بلند بادشاہ سلامت نواز شریف صاحب حاضر ہوںکی صدا بلند کئے ہوئے ہے اور نواز شریف صاحب ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے پسینے پونچھ رہے ہیں،افسوس کہ آج انکے الفاظ انکی حسیات کا ساتھ نہیں دے رہے انکی آواز اکھڑ ی اکھڑ ی ہے سقراط اور نواز شریف کی شخصیا ت میں زمین آ سمان کا فرق ہے وہ ایک فلاسفر اور یہ ایک سیاستدان ہے ،اُس پر غلط نظریا ت پھیلانے کا الزام اور اس پر کر پشن جیسا بھیانک الزام وہ ایک عام شہری اور یہ ملک کا ایک کر پٹ حکمران وہ زہر پینے کے باوجود زندہ اور یہ زندہ ہونے کے باوجود ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے، میرے خیال سے زندگی کا کوئی مقصد ہے تو وہ عزت و نیک نامی ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک نہ سہی چلو کچھ عرصہ ہی لوگ اچھے لفظوں سے یاد تو کریں گے نہ کہ بستر مرگ پر آہو پکار سننے کو ملے یا پھر زندگی کے آخری وقت عدالتوں کے چکروں میں اور عدالت کو چکر دینے میں گزر جائے، جمہوریت و عوامی سیاست اور شریف خاندان کی نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اپنے اثاثے ملک میں واپس لے آئے عدالت کو حقیقت سے روشناس کرائیںاور عوام سے معافی مانگ لیں تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی نہ کہ علی بابا اور چالیس چور کے مترادف کہانیاںبنتی جائیںگی عدالتیں لگتی رہیں گیں اور بدنامی ،ذلت اور رسوائی کا سامنا رہے گا محترم وزیر اعظم صاحب کو یہ زہر کا پیالہ پینا ہی پڑے گا اسی میں ان کی بقا ہے اس کو پینے سے ہی آپ تاریخ میں امر ہوں گے اور لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے نہیں تو یہ عدالتیں قطر تو کیا قبرکی دیوار تک آپ کے ساتھ جائیں گی شاید کہ قبر کا بھی ٹرائل ہو۔ خدا نہ کرے۔


کالم نگار۔۔عابد حسین مغل

وحدت نیوز(آرٹیکل) علامہ اقبال اور مولوی حضرات کی کشمکش ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی، یہ دراصل اقبال کی ہی ایک نظم کا عنوان ہے۔[1] کچھ لوگوں نے اقبالیات کا مطالعہ کرنے کے لئے اور کچھ نے اقبالیات پر پردہ ڈالنے کے لئے،  اقبالیات کو کئی حصوں اور ادوار میں تقسیم کیا, تاکہ حسبِ موقع یہ کہا جاسکے کہ یہ تو اقبال کا ارتقائی یا ابتدائی دور تھا, لہذا فلاں شعر کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن ان درجہ بندیوں کے باوجود کلیات اقبال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور[2]

ظاہر ہے کہ اقبال ؒکی جنگ اس ملّا سے تھی، جو خود غرض تھا اور یا پھر دین کے پیغام کو نہیں سمجھتا تھا، پھر وقت گزرتا گیا اور یہ ناسمجھ مولوی بھی نسل در نسل  پھیلتے گئے، یہاں نتک کہ ممتاز مفتی کو بھی ان خود غرض یا ناسمجھ مولویوں سے شکوہ ہی رہا۔ ممتاز مفتی کے بعد تو خود غرض اور ناسمجھ مولوی حضرات کو گویا کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہمارے ہاں جگہ جگہ اقبال کا دھتکارا ہوا   ناسمجھ مولوی، دین کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔

ایک دن ہم نے بھی بزمِ خیال میں، سب سے پہلے پاکستان کہا تو ایک مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، رونی صورت بنا کر کہنے لگے نہیں نہیں! عزیزم یوں نہیں کہتے، سب سے پہلے اسلام اور حرمین شریفین ہیں۔ ہم نے عرض کیا چلیں ٹھیک ہے، سب سے پہلے وہی جو آپ کہیں! ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر آپ کے نزدیک سب سے پہلے اسلام ہے تو پھر یہ خادم حرمین شریفین نے ٹرمپ کی بیوی کے ساتھ مصافحہ کرکے حرام فعل انجام دیا یا نہیں!؟ وہ فوراً بولے نہیں نہیں، آپ نے دوسروں کی قبر میں تھوڑے ہی جانا ہے، اپنی اصلاح کی فکر کریں، اپنے ملک کا حال دیکھیں۔ ہم نے کہا بالکل بجا فرمایا آپ نے، سچ مچ میں  ہمارے ملک کا بہت برا حال ہے، ہماری فوج کے ریٹائرڈ جنرل کو بغیر سینیٹ کو اعتماد میں لئے، سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا ہے، وہ فوراً بولے کہ آپ نے راحیل شریف کی قبر میں تھوڑا جانا ہے، جو ہو رہا ہے ہونے دیں، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور بس۔ ہم نے کہا یہ بھی  ٹھیک ہے، آج کے بعد ہم صرف اپنی اصلاح کریں گے لیکن اگلے ہی دن، ہم نے دیکھا  کہ مولوی صاحب اِدھر اُدھر، ایّھا الناس! اٹھو اٹھو، شام میں جہاد کرنا ہے، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، حرمین شریفین کا دفاع کرنا ہے، کی صدائیں دے رہے تھے۔

ہم نے پوچھا مولانا صاحب! آپ نے ہی تو کہا تھا کہ دوسروں کو چھوڑو اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کرو، یہ اب آپ اپنے ہی قول کے خلاف لوگوں کو  جہاد اور قیام کی دعوت دے رہے ہیں، مولوی صاحب نے پھر پینترا بدلا  اور تجوید کے مخارج کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے بولے، برخوردار! تم سمجھے نہیں، اپنی اصلاح ضروری ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا عین فریضہ ہے۔ ہم نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے، چلیں ہم بھی آپ کے ساتھ لوگوں کو قیام و جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے پھر قلابازی لی اور کہنے لگے پہلے اپنے ملک کو آزاد کراو اور پھر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات کرو، کیا تمہیں نظر نہیں آرہا کہ کتنی کرپشن ہے اس ملک میں!؟ ہم نے کہا مولانا صاحب! بالکل سو فیصد، آپ کی بات  ٹھیک ہے۔ اب ہم کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں،  مولانا صاحب چونک کر بولے، ارے عمران خان، وہ تو خود یہودیوں کا ایجنٹ ہے! داماد ہے داماد یہودیوں کا۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا، مولوی صاحب! عمران خان نے تو کسی کو گالیاں  نہیں دیں، عدالت میں جاکر کیس کیا ہے؟ اگر آپ کے پاس عمران خان کے خلاف ثبوت ہیں تو آپ بھی کرپشن کا کیس دائر کروائیں، یہ گالیاں تو نہ دیں۔ کسی کا  داماد ہونا کوئی بری بات تو نہیں۔ فتح مکہ سے بھی پہلے خود ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ہاں ابوسفیان جیسے بدترین دشمن کی بیٹی تھی۔ آپ رشتے داری کی وجہ سے کسی کو کوسنے کے بجائے اصولوں کی بات کریں۔

اگر ایک ارب 65 کروڑ کے اثاثوں کی بدولت نواز شریف پاکستان کے پہلے امیر ترین شخص ہیں تو عمران خان بھی ایک ارب 40 کروڑ کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت ہیں، اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو آپ بھی عمران خان پر کرپشن کا کوئی مقدمہ دائر کروائیں۔ جب یہ سنا تو مولوی صاحب سٹپٹا گئے، پھر تیور بدلے اور فتوے کا استرا لہراتے ہوئے بولے بچے تم توبہ کرو، تم شخصیت پرستی کر رہے ہو، تم نے عمران خان کو بت بنا دیا ہے۔ ہم نے کہا قبلہ، ہمارا تو عمران خان سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ کبھی ان کے جلسے جلوس میں  جانا ہوا اور نہ ہی کبھی ان سے ملا قات ہوئی، ہم تو اصولوں کی بات کرتے ہیں، اگر آج بھی عمران خان پر آپ ایک پائی کی کرپشن ثابت کر دیں تو ہم ان کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں، لیکن۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ آپ  کے سامنے شاہ سلمان نے کفار کے ساتھ دوستی کرکے، ٹرمپ کے ساتھ رقص کرکے، اس کی بیوی سے مصافحہ کرکے، کفار کو اربوں کے ہدیے دے کر صرف اصولوں کو ہی نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کو توڑا ہے لیکن اس کے باوجود آپ سعودی خاندان اور شاہ سلمان کی حمایت سے ایک انچ  بھی پیچھے نہیں ہٹے، بتایئے بت پرستی اور شخصیت پرستی ہم کر رہے ہیں یا آپ۔ یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب مسکرا کر بولے! برخوردار عمرہ کرنے چلنا ہے، مفت میں ٹکٹ مل جائے گی۔ ہم نے عرض کیا جی نہیں، بہت شکریہ! البتہ وہ ایک صاحب ہیں، جنہیں سلیم صافی کہا جاتا ہے، انہی کو عمرہ کروا دیجئے گا، وہ بھی آپ کی طرح موجودہ حکومت اور سعودی خاندان کے پرستاروں میں سے ہیں، وہ آپ کی دعوت ضرور قبول کر لیں گے۔ عمرے کی دعوت اتنی پرکشش تھی کہ اس کے ساتھ ہی ہمارے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

 [1] بانگ درا (حصہ اول) زہد اور رندی
[2] بال جبریل، حال و مقام


تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)22ستمبر 1857ء کو بہادر شاہ ظفر نے گرفتاری دی اور کیپٹن ہڈسن کے سامنے شرط رکھی کہ انہیں گولی نہیں ماری جائے گی اس وقت معزول بادشاہ کے ساتھ اس کے دوبیٹے اور اس کا ایک پوتا بھی تھا جن کو کیپٹن ہڈسن نے اپنے ہاتھوں سے گولی ماری تھی اب بہاد ر شاہ ظفر بیگم زینت محل کے ساتھ قید کرلیا گیا اور طے ہوا کہ بادشاہ کا عدالتی ٹرائل کیا جائے کہ کیا وہ بغاوت میں شامل تھا کہ نہیں جس کے لیے بہادر شاہ ظفر کو اپنے دفاع اور وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا تھا اس دوران جیون بخت جیسے اپنے باپ بہادر شاہ ظفر اور ماں زینت محل بیگم کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا تھا اس کا بھی ٹرائل ہو نا تھا جبکہ شاہی خاندان کے دیگر افراد کے خلاف پہلے ہی کورٹ مارشل کرکے انہیں گولی مار دی گئی تھی اس دوران جب بہادر شاہ ظفر کے ٹرائل کی تیاریاں ہورہی تھیں بہادر شاہ ظفر بہت سخت بیمار ہو گیا اور یوں لگا جیسے ٹرائل کی شاید ضرورت پیش نہ آئے تاہم چند دن بعد بادشاہ تند رست ہوگیا اور ٹرائل کی تیاریا ں دوبارہ شروع ہو گئیں اور یوں 27جنوری 1858کو ہند وستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا عدالتی ٹرائل شروع ہوا ۔

غضب خدا کا ۔۔۔توبہ توبہ !!!!بادشاہ سلامت ۔۔۔وہ بھی عدالت میں ۔۔۔اور بطور ملزم ۔۔ہاں شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر کے عدالت میں داخل ہونے سے قبل دربار میں سناٹا چھا چکا تھا درباریوں کی نظریں عاجزی سے جھک گئی تھیں ،ہوا جیسے رک گئی ہو ، ذہین جیسے دبک گئے ہوں ۔ہر طرف خاموشی سناٹا عجب سماں تھا ۔جب بیاسی سالہ بوڑھے بیمار اور لاغر بادشاہ اور بیگم زینت محل کا بچ جانے والا آخری اکلوتا چشم وچراغ جیون بخت اپنے باپ کو عدالت لا رہا ہے اور قیدی بادشاہ حیران ہو رہاکہ بھلا بادشاہوں کے بھی ٹرائل ہوتے ہیں کبھی ہم خود عدالت لگاتے تھے فیصلے کرتے تھے آج ہماری عدالت لگی اور ہم قیدی اور ہمارا فیصلہ ہونے جارہا ۔بوڑھا ،بیمار، لاغر، بادشاہ کپکپاتے ہوئے سوچ کی گھتیوں میں الجھا کٹہرے میں جاکھڑا ہوا قیدی بہادر شاہ ظفر کے خلاف چارج شیٹ پڑھی جانے لگی اور بادشاہ سلامت اپنی سوچ میں الجھے اپنی عظمت غم گشتہ کا نظارہ کررہے ہیں ۔
وقت بڑا بے رحم ہے یہ حقیقت اور سچائی کو سامنے لے کر ہی آتا ہے ،قدرت جب انتقام لینے پر آئے تو صدیوں ہندوستان پر حکومت کرنے والوں کو بندوق کی نوک اور بیاسی سالہ بوڑھے ،لاغر، ضعیف،بیمار بادشاہ کو عدالت میں ملزم بن کر آنے پر مجبور کر دیتی ہے ہمیں قدرت کے انتقام اور تاریخی حقیقتوں سے انکاری نہیں ہو نا چائیے۔ وقت نے آج نواز شریف کو بہ طور کرپٹ ملزم عدالت آنے پر مجبور کر دیا اس کے دونوں بیٹے کیا پورا خاندان باری باری عدالت کے چکر لگا نے پر مجبور اور افسوس کہ مرحوم میاں شریف صاحب کی قبر کے عدالتی ٹرائل کی بات بھی کی جارہی ہے کیا قائدہ ایسی زندگی اور جمع پونجی کا جسکا حساب بے حساب دینا پڑے عوام کو جواب دہ ہو نا پڑے ۔آج کے مغل بادشاہ جناب میاں نواز شریف جب جے آئی ٹی میں پیشی کے لیے جارہے تھے تو انکے تاثرات بھیانک تھے رنگ اڑا ہوا اور چہرے پر بدحواسی نمایاں تھی پسینے سے شر ابور اوآواز اکھڑی ہوئی ،تین گھنٹے کٹہرے میں رہے نجانے کیا ہوا ہو گا وہاں لیکن اہمیت کی بات یہ کہ حکمران وقت اپنے ہی منصفوں کے سامنے ہاتھ باند ھے کیسا بیٹھا ہو گا ،نواز شریف اگر اخلاقی جرات کریں اور باعزت معاملات کو سلجھانے کی بات کر یں تو انہیں خاموشی سے عوام سے معافی مانگ لینی چائیے اور اپنے اثاثے ملک میںلے آنے چائیے لیکن دوسری طرف مقتدرحلقے یہ بات بھی کرتے ہیں کہ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ پر برقرار رہتے ہوئے بھلا کہاں انصاف ہوسکتا ہے یہ بات بھی بہت حد تک درست ہے کہ ہمارے ہاںتو عدالتیں خریدنے تک کی باتیں کی جاتی ہیں اور اگر خرید وفروخت پر معاملہ طے نہ ہوسکے تو عدالتوں پر حملے کروا دئیے جاتے ہیں لیکن معاشرے کی عزت تو قیر اور سلامتی کے لیے بہتر ہے کہ معاملات کو سلجھانے کی جانب لیجایا جائے نوازشریف باعزت طریقے سے حقیقت کو سامنے لے آئے اثاثے ملک میں لے آئے اور قوم سے معافی مانگ لے یاپھر وزات عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر خود کو عدالت کے سپر د کردے یہ دونوںطریقے اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے ایسے تاریخ میںامر کردیں گے لوگ اسے نسلوں تک یاد رکھیں گے اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ اپنا اوراپنی نسلوں کا انجام بہادر شاہ ظفر سے کم تصور نہ کریں ۔
                                                                             

کالم نگار:۔۔۔عابد حسین مغل

وحدت نیوز(آرٹیکل) جمعہ کا دن تمام ایام میں زیادہ فضیلت اور برکت رکھنے والا دن ہونے کے ساتھ ساتھ سید الایام ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات میں سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس دن ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کے اجزائے تخلیق جمع کئے گئے، جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس دن زمانہ جاہلیت میں قریش قصی بن کلاب کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جمعہ کو یوم العروبہ کہا کرتے تھے۔ اسلام میں جمعہ کے دن کا بڑا مقام اور درجہ ہے۔ یہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے دن کا خصوصی امتیاز اور شرف صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا، کسی اور امت کو نہیں بخشا گیا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل فرمائی ہے: رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بڑا اور افضل دن جس میں سورج طلوع ہوا، وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے۔‘‘ ایک اور روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن آدم علیہ السلام تخلیق کئے گئے اور اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا۔ اسی دن قیامت قائم ہوگی اور اسی دن ہی یعنی جمعہ کو ہی امام مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے، اسی دن مجھ پر درود بکثرت پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود شریف مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔"(شرح مسلم للسعیدی، جلد دوم صفحہ621)

خداوند کریم کا احسان و شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر ماہ رمضان المبارک کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع دیا اور یہ موقع عطا کیا کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے گناہوں کی تلافی کرسکیں اور اس ماہ مبارک کے فیض اور برکات کو سمیٹ سکیں، پوری دنیا کے گوش و کنار میں رمضان المبارک اپنی رحمتیں اور برکتیں لئے ہوئے ہمارے درمیان ہے اور عنقریب ہم سے رخصت ہو جائے گا۔ اسی مبارک مہینہ کی آخری عشرے کی طاق راتیں شب قدر کہلاتی ہیں، یعنی ان راتوں میں اللہ کی کتاب قرآن کریم جو پیغمبر اکرم (ص) کے سینہ پر نازل ہوئی، کے نزول کی راتیں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح انہی آخری ایام میں ایک یوم جمعہ ہے، جسے عام زبان میں ہم ’’جمعۃ الوداع ‘‘ کہتے ہیں۔ اس روز ہر مسلمان کی روح انتہائی پاکیزہ اور بلند درجات پر پہنچ چکی ہوتی ہے اور ہر مسلمان خود کو اپنے پروردگار سے بےحد قریب محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا، جن میں مسلمانوں کے لئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسا فضیلت اور برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لئے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔

رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے، رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دن کے وقت ان سے حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی چھڑوا دی جاتی ہیں، تاکہ یہ ماہ مبارک گزرنے کے بعد ان کے نفس حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہوں۔ پھر جمعۃ الوداع کے موقع پر انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ بھر کی مشق کا جائزہ لیں اور پوری دیانتداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں۔ اس انقلاب کا جو ان کے اندر پیدا ہوا ہے۔ مرکزیت اتحاد اور اطاعت امیر کے مظاہرے سے تجدید ایمان کریں اور خالق کائنات کے حضور اس کی عملی شہادت پیش کریں۔ تربیت یافتہ ان مقدس انسانوں کی جماعت زندگی کے میدان میں جس مقصد کو بھی لے کر آگے بڑھے گی، کامیاب و کامران ہوگی۔

مسلمان معاشروں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن کثیر تعداد میں لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں اور عبادات کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ آج جمعۃ الوداع ہے جو انتہائی عظمت و رحمت کا دن ہے۔ اسی طرح جمعۃ الوداع کے دن پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم و بابرکت سال کے سب سے افضل ترین دن کو قبلہ اول کی آزادی کے لئے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصٰی کی آزادی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ بیت المقدس کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے۔ سیدالمرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو ان کے نزدیک بھی مسجد اقصٰی نہایت محترم قرار پائی۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں آپ کے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی بھی تجلیل و تحسین کی گئی۔ ارشاد رب العزت ہوا: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک، وہی مسجد کہ جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ذات خوب سننے والی اور دیکھنے والی ہے۔‘‘

انقلاب اسلامی ایران کے بانی اور بیسویں صدی کے عظیم رہنما حضرت آیت اللہ العظمٰی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن کو یعنی جمعۃ الوداع کو مسلمانوں کے درمیان ’’عالمی یوم القدس‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’جمعۃ الوداع یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ (ص)، یوم اسلام ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا، وہ استعمار امریکہ اور اسرائیل کی خدمت کرتا ہے۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جمعۃ الوداع کو ہی کیوں یوم القدس قرار دیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں یقیناً ہر ذی شعور یہی جواب دے گا کہ آج کے دن جہاں ہر مسلمان اپنے اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، وہاں دنیا کے اندر مظلوم بنا دیئے جانے والے مسلمانوں اور انسانوں کو بھی یاد کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔‘‘ پس ثابت ہوتا ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیئے جانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جس روز پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہو کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوں اور رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں مصروف عمل ہوں، وہاں اللہ کی مخلوق کو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل میں یاد رکھیں اور حضرت محمد (ص) کی حدیث کا مصداق بنتے ہوئے دنیا کے ان مظلوموں کی نصرت کا عہد کریں کہ جن کو ان کی سرزمینوں سے نکال دیا گیا ہے، جن کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے ہیں، جن کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، جن کے گھروں کو بھاری مشینری سے مسمار کر دیا گیا ہے، جن کے اہل و عیال کو ان کے معصوم بچوں سمیت گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔

یقیناً رمضان المبارک کا برکتوں بھرا مہینہ ہم سے متقاضی ہے کہ ہم جہاں روزہ کی حالت میں تمام گناہوں سے پاک رہتے ہوئے اللہ کے قریب ہوں تو ایسے اوقات میں ہمیں اپنے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جسے بیت المقدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے بازیابی کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتا ہے، جس میں شب قدر بھی ہے، ایسی رات کہ جسے زندہ رکھنا سنت الٰہی ہے، اس کی رات ملائکہ اپنے رب کے حکم سے سلامتی نازل کرتے رہتے ہیں، مخلوقات کے مقدر کا فیصلہ اسی رات میں ہوتا ہے، تاہم جمعۃ الوداع یوم القدس ہے، یوم القدس اسی رات کے جوار میں ہے، مسلمانوں کے لئے اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہے، شب قدر میں اللہ سے راز و نیاز کے بعد جمعہ کو یوم القدس کے روز دنیا کی تمام شیطانی طاقتوں سے اظہار نفرت کریں۔ ایک عرصے تک آنحضرت (ص) مسجد اقصٰی کی طرف رْخ کرکے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپ (ص) مصروف نماز تھے کہ اللہ کا حکم آیا کہ رخ مسجد حرام کی طرف کر لیں، آپ نے دوران نماز ہی رْخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا۔ مضافات مدینہ میں اس مقام پر آج بھی مسجد قِبلتَین (یعنی دو قِبلوں والی مسجد) موجود ہے۔ زائرین مدینہ عام طور پر اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور ان کی امت کے نزدیک مسجد اقصٰی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے اور آنحضرت (ص) چونکہ مسجد حرام سے پہلے اس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے، اس لئے مسلمان اسے اپنا قبلہ اول جانتے ہیں۔

روایات میں ملتا ہے کہ جس رات اللہ تعالٰی نے حضرت محمد (ص) کو معراج کا سفر طے کروایا، اس رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف بلایا اور مسجد اقصٰی میں آپ (ص) نے نماز ادا کی اور اس نماز میں آپ کے پیچھے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح مقدسہ نماز ادا کر رہی تھیں۔ اسی اعزاز پر آپ کو امام الانبیاء کا شرف حاصل ہوا۔ مسجد اقصٰی ہی سے آپ (ص) معراج کے اگلے سفر کے لئے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور لامکاں تک چا پہنچے۔ مسجد اقصٰی کے ارد گرد اللہ تعالٰی کی نشانیاں ہیں اور وہ نشانیاں جہاں اللہ تعالٰی کی جانب سے برکتیں نازل ہوتی ہیں، انبیاء کرام کے مزارات ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ قبل ازیں بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء علیہم السلام یہاں تشریف لائے۔ اسی وجہ سے اس کو انبیاءؑ کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق یہی وہ جگہ ہے، جہاں سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کروایا تھا، جو مسجد اقصٰی کے قریبی علاقہ میں واقعہ ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ میری نشانیوں کی زیارت کرو۔ اللہ کی نشانیوں کی زیارت اور وہاں کی جانے والی دعائیں مقبول ہوتی ہیں، جیسے صفا اور مروہ کو اللہ تعالٰی نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ بیت المقدس مسجد اقصٰی قبلہ اول دنیا کی ایک چوتھائی قوم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے انتہائی متبرک، محترم اور دینی و روحانی مقام ہے اور ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے کہ وہ مسجد اقصٰی کی زیارت کرے اور یہاں نماز ادا کرے۔ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ’’کوئی سفر اختیار نہ کرو، سوائے تین مساجد کے ’’مسجد الحرام، مسجد نبوی (ص)،مسجد اقصٰی۔‘‘

کیونکہ دوسری کسی بھی مسجد کی نسبت مسجد الحرام میں عبادت کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر، مسجد نبوی میں نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اقصٰی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس! آج 69 برس گزر جانے کے بعد بھی انبیاء علیہم السلام کی سرزمین اور وہ مسجد کہ جہاں ختمی مرتبت حضرت محمد (ص) نے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح کو نماز ادا کروائی، غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے اور غاصب اسرائیلی دشمن آئے روز نہ صرف مسجد اقصٰی کی توہین کرتا ہے، بلکہ مسلمانوں کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں پر انسانیت سوز مظالم بھی ڈھاتا ہے۔ صیہونیوں کے دعوے کے مطابق القدس ان کی ملکیت ہے اور وہ کسی صورت بھی اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اسرائیل سے شائع ہونے والے عبرانی زبان کے ایک اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ یہودی تنظیموں نے اپنی حکومت اور یوکرائن کی مدد سے مسجد اقصٰی کے اندر معبد بنانے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل وزیر سیاحت نے اعلان کیا تھا کہ مسجد اقصٰی کی کھدائی سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی کان ملی ہے، جبکہ دوسری طرف حماس اور الاقصٰی فاؤنڈیشن نے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ حماس نے کہا ہے اسرائیل سینکڑوں سرنگیں مسجد اقصٰی میں کھودنے کے باوجود ہیکل سلیمانی کے آثار دریافت نہ کرسکا۔

ہیکل سلیمانی کے بارے میں یہودیوں کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
1۔ ہیکل سلیمانی عین اس مقام پر تھا، جہاں قبۃ الصخرہ واقع ہے۔ یہ موقف یہود میں قبول عام کی حیثیت رکھتا ہے۔
2۔ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر آشر کوف جن کی تحقیق کے مطابق ہیکل قبۃ الصخرہ کے شمال میں قبۃ الروح کے اندر موجود پتھر کی جگہ واقع ہے، جبکہ قبۃ الصخرہ کے شمال میں ایک سو دس میٹر یعنی تین سو تیس فٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
3۔ تل ابیب کے ممتاز ماہر تعمیر توویاسا کیر کی رائے کے مطابق ہیکل قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصٰی کے درمیان عین اس جگہ واقع ہے، جہاں فوارہ واقع ہے۔
اسرائیل اپنے آقاؤں خصوصاً امریکہ کی آشیرباد پر فلسطین اور بیت المقدس کا قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ 1967ء سے لے کر اب تک 700 قراردادیں اسرائیل کے خلاف پاس ہوگئیں، جن میں سے امریکہ نے 270 قراردادوں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے ناجائز وجود کو بچایا۔ دیگر قراردادیں اسرائیل نے مسترد کر دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پر ویٹو کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے جہاں اسرائیل کے ناجائز وجود کو استحقاق بخشا، وہاں یو این کے وجود کو غیر موثر اور عضو معطل بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جب تک امریکہ اسرائیل کی ناجائز حمایت کرتا رہے گا، اس وقت تک مڈل ایسٹ میں مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔

اسرائیل کی غنڈہ گردی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی اسرائیل مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ صد افسوس کہ اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی میں یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ اور عالمی امن و انصاف کے دوہرے معیار کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اسرائیل جارحیت پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور صیہونی ہر قیمت پر وسیع تر صیہونی ریاست یعنی گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مخصوص ذہنیت اور مذموم مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ کی مکمل آشیر باد سے اسرائیل کو ناقابل تسخیر بنایا جا رہا ہے۔ اس کی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے، اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ لبنان کے پہاڑی علاقہ، اردن اور مصر کے صحرا سینائی کے علاقہ پر اسرائیل نے ناجائز غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں بالخصوص 2000ء میں لبنان سے پسپائی، 2004ء میں دو اسرائیلی فوجیوں کے بدلے میں حزب اللہ اور حماس کے سیکڑوں رہنماؤں کی رہائی، 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں 33روزہ جنگ کے نتیجہ میں شکست کھانے، 2008ء میں غزہ میں حماس کے ساتھ ہونے والے معرکہ میں شکست، اسی طرح 2012ء اور 2014ء میں غزہ و فلسطین میں حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست کھانے کے بعد اسرائیل نے خطے میں ناامنی پھیلانے کے لئے نت نئی دہشت گرد تنظیموں کو پیدا کیا ہے، جو آج لبنان، شام، عراق و فلسطین اور لیبیا سمیت پاکستان اور دیگر ممالک میں داعش، النصرۃ اور نجانے کس کس نام سے کام کر رہی ہیں، ان تمام دہشت گرد گروہوں کو امریکی سرپرستی میں اسرائیل براہ راست مالی و مسلح معاونت کر رہا ہے، تاکہ پورے خطے میں موجود مسلمان ممالک کو دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے مسئلہ میں الجھا دیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو پس پشٹ ڈال دیا جائے۔

ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی بھی ملک کے اندر خانہ جنگی ہوگی تو وہاں کی حکومت اور عوام کس طرح مسئلہ فلسطین کے لئے جدوجہد کر پائیں گے، بہرحال اسرائیل کی اس مکروہ چال کو شام میں پانچ سال کی جدوجہد کے بعد ناکامی ہوئی ہے اور وہ تمام دہشت گرد گروہ کہ جن کو اسرائیل مدد کر رہا تھا اور یہاں تک کہ ان دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے زخمی دہشت گردوں کا علاج معالجہ اسرائیل کے گولان کی پہاڑیوں پر موجود اسپتالوں میں کیا جا رہا تھا، بالآخر ان دہشت گردوں کو شکست فاش ہوئی ہے، یہی صورتحال عراق میں ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی انہی دہشت گردوں کے خلاف ردالفساد آپریشن جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا کر خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جو مکروہ چال چلی تھی، وہ آخر کار انجام کو پہنچ چکی ہے، جس کے بعد امریکی سیاست نے ایک نیا رخ اپناتے ہوئے تمام مسلمان ممالک کی سربراہی کرنے کا اعلان کیا ہے اور حالیہ دنوں میں ہی مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے شیطان کا استقبال کیا گیا اور اسے اربوں ڈالرز کے تحائف سے نوازا گیا، نجانے یہ تحائف کس لئے پیش کئے گئے، شاید عراق، افغانستان، شام، یمن، لیبیا اور پاکستان سمیت فلسطین میں بہنے والی خون کی ندیوں کے عوض عرب حکمرانوں نے امریکی صدر کو یہ تحائف پیش کئے ہیں۔؟ بہرحال یہ لمحہ فکریہ اور سوچنے والا ایک سوال ہے۔ مسلم دنیا کے ممالک کو جمع کرکے دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گردی کے موجد امریکہ نے اسلام پر لیکچر دیتے ہوئے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، کسی میں یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکی صدر یعنی شیطان بزرگ کی زبان روک لیتا۔

آج دنیا میں ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ جس کے باعث القدس و فلسطین کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں، آج عرب دنیا کے حکمران دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گردوں کے بانی اور جعلی ریاست اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے ساتھ مل کر نہ صرف فلسطین و القدس پر سودے بازی کر رہے ہیں بلکہ اپنے سے اختلاف رکھنے والی عرب و غیر عرب ریاستوں کو بھی نیا شام، یمن اور لیبیا بنانے کی تیاری کرنے میں مصروف عمل ہیں، اس کی تازہ مثالیں عرب دنیا اور امریکہ کی جانب سے ایران اور قطر کے خلاف کیا جانے والا اعلان جنگ ہے، قطر اور ایران دونوں کا گناہ یہی ہے کہ وہ فلسطین کاز کی حمایت کرتے ہیں، فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ امریکہ اور اس کے عرب حواری فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد اور جعلی ریاست اسرائیل کو امن کا سفیر گردانتے ہیں۔ ان حالات میں قبلہ اول بیت المقدس کے تقدس کے تحفظ اور اس کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرضیت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام بیدار ہو اور مسلمان حکمران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اور وسیع تر اسرائیلی ریاست کے خواب اور صیہونیوں کے تمام تر ناپاک عزائم اور مذموم ارادوں کو خاک میں ملانے کے لئے دنیا کے اسلامی ممالک اپنی مشترکہ اسلامی فوج کا استعمال مسلمان ممالک کے خلاف کرنے کی بجائے اسرائیل کے خلاف پر عزم ہو جائیں۔ مسلم اقوام متحدہ کا اعلان کرکے یا پھر او آئی سی کو فعال ادارہ بنا کر اس پلیٹ فارم سے قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان، فلپائن، برما کے مظلوم مسلمانوں کے سلگتے مسائل حل کرنے کے لئے اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کریں۔

یہ ہر مسلمان کا مذہبی اور بنیادی حق ہے، کیونکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ انسانی حقوق چارٹر کے مطابق کسی بھی قوم کے مذہبی مقامات پر نہ تو قبضہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی عبادت گاہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ مگر صد افسوس کہ مٹھی بھر صیہونیوں نے بین الاقوامی سامراج اور دہشت گرد طاقتوں کی آشیر باد سے 1948ء میں فلسطین پر ناجائز غاصبانہ قبضہ کر لیا اور بیت المقدس کا کنٹرول سنبھال کر اسے مسلمانان عالم کے لئے بند کر دیا گیا۔ اس نازک مرحلے پر او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو او آئی سی کا قیام اسی لئے عمل میں آیا تھا کہ مسجد اقصٰی کو آزاد کرانا ہے، اس مقصد کے لئے باقاعدہ طور پر القدس فنڈ اور القدس فورس کی منظور ی بھی دی گئی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ القدس کی آزادی کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں، جبکہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ فلسطین کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ ہونے سے پہلے او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے، جس میں باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے کہ آزاد فلسطین کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا خصوصاً فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی صرف حمایت ہی نہ کریں بلکہ سیاسی، سفارتی، مالی اور معاشی اعتبار سے بھی ساتھ ہوں اور اسرائیل اور امریکہ کو مقبوضہ فلسطین کو آزاد کرنے پر مجبور کریں۔

جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا کی مسلمان تنظیمیں، جماعتیں اور افراد بیت المقدس کی آزادی کے لئے احتجاجی جلسے، جلوس، مظاہرے اور ’’القدس‘‘ ریلیاں نکالتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا آغاز ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوا۔ انقلاب ایران کے بانی حضرت امام خمینی ؒ نے کہا تھا کہ ’’یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جسے بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے، اسے صرف سرزمین قدس سے ہی وابستہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان مقابلے کا دن ہے۔‘‘ کیونکہ نصف صدی کے قریب بیت المقدس پر یہودی قبضہ اور بیت المقدس کے تقدس کی پامالی غیرت مسلم کو کھلا چیلنج ہے۔ غیور مسلمانو! بیت المقدس کی حرمت اور حفاظت درحقیقت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ ملت اسلامیہ کے حکمرانو! بیت المقدس کی آزادی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور آج مسجد اقصٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہے، اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور سپہ سالاروں میں کوئی سچا، کھرا، دلیر اور نڈر و بہادر مسلمان حکمران، سپہ سالار ہے جو قبلہ اول کو یہودیوں کے نرغہ سے آزاد کرا سکے۔ یوم القدس عالم اسلام کے مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ آیئے! بیت المقدس کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمان اپنے تمام تر اختلافات یکسر بھلا کر پوری طرح متحد ہو جائیں اور بیت المقدس کی آزادی ہر مسلمان کے دل کی آواز اور نعرہ بن جانا چاہئے۔

یاد رکھئیے! عالم اسلام کے اندرونی و بیرونی تمام دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسئلہ فلسطین و القدس کو فراموش کر دیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ دنیائے اسلام اس طرح اپنے داخلی مسائل میں الجھ کر رہ جائے کہ مسئلہ فلسطین اسے یاد ہی نہ رہے، تاکہ صیہونی حکومت کو اپنے خبیثانہ مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ فلسطین و القدس کی آزادی کی لڑائی اسلامی لڑائی ہے، ہم سب کی لڑائی ہے، یہ صرف عربوں کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں، جس طرح بھی ممکن ہے، یہ جنگ لڑیں، اس جدوجہد میں حصہ لیں، اس مہم کو جاری اور اس آواز کو بلند رکھیں۔ اس عظیم مسئلہ (فلسطین و القدس) کی اہمیت کو گھٹا کر اسے عربوں کا داخلی معاملہ سمجھ لینا بہت بڑی بھول ہے۔

 
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)کتاب فضل تو را آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
وہ علی :جو عین اسلام تھا۔
وہ علی :جو کل ایمان تھا۔
وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔
وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب تھا ۔
وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی تھا۔
وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔
وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔
وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔
وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔
وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔
وہ علی: جس نے تمام عمر محنت  و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔
وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔
وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔
وہ علی: جس کے عدل کی یہ شان تھی کہ اپنے دور خلافت میں اپنی زرہ کے  جھوٹےدعوی کے مقدمہ کے قاضی کی عدالت میں ایک معمولی یہودی کے برابر کھڑا ہو گیا اور اپنے خلاف قاضی کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
وہ علی :جس کی قوت فیصلہ کی شان یہ ہے کہ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اقضاکم علی
وہ علی :جس کی شجاعت ضرب المثل تھی اور ہاتف غیبی نے جنگ احد میں جسے یوں داد شجاعت دی: لا فتی الا علی  لا سیف الا ذوالفقار۔
وہ علی  :جس نے بدر و احد کی سخت جنگوں میں اسلام کو فتح مند کیا اورہر معرکے مین پرچم اسلام کو سر بلند کر کے نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دئے۔
وہ علی :جس کی جنگ خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری تھی اورجس نے کل ایمان بن کر کل کفر پر فتح حاصل کیا۔ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین۔
وہ علی: جس نے ایک ہاتھ سے در خیبر اکھاڑ کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اوررسول خدا سے سند افتخار لی۔
وہ علی :جس نے مشرکین مکہ کے سامنے سورہ برائت کی تلاوت کی۔
وہ علی :جس نے فتح مکہ کے دن علم اسلام کو اٹھایا۔
وہ علی: جو رسول خدا کے دوش مبارک پر بلند ہو کر  خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور{طہر بیتی لطائفین} کا حق ادا کیا۔
وہ علی :جو رزم و بزم  دونوںمیں یکساں تھا اگر میدان جنگ میں بے مثال سپاہی و سپہ سالار تھا تو مجلس میں ایک بے نظیر حاکم اورشفیق استاد  تھا۔
وہ علی: جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا عاجز تھی اورجس کے زور بیان کے آگے عرب و عجم کے خطبا زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔
وہ علی :جو شب ہجرت بستر رسول خدا پر بے خوف و خطر آرام کی نیند سویا اورنفس مطمئنہ کا لقب بارگاہ یزدی سے حاصل کیا۔
وہ علی :جو نماز فجر کے سجدے میں ابن ملجم کے تلوار کے وار سے زخمی ہوا اوراکیس رمضان المبارک  کے دن درجہ شہادت پر فائز ہوا۔
وہ علی: جس نے محنت و مزدوری کر کے اورباغوں کو پانی دے کر روزی کمانے کو فخر سمجھا۔
وہ علی :جس کا طرز جہانبانی قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے ۔
وہ علی : جس نے امیری اور غریبی کے فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
وہ علی  :جس کی فضیلت کے بارے میں جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ؛میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔
وہ علی  :جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا:{ یا علی ما عرف اللّہ حق معرفتہ غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّہ و غیری} اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔
وہ علی :جس کی فضائل حساب نہیں کر سکتے ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔
وہ علی  :جس میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔
وہ علی :جونفس پیغمبر  ’’ انفسنا‘‘  کی مصداق بن کر میدان مباہلہ میں اترا ۔
وہ علی :جن کی فضائل و کمالات بیان کرنے میں رسول خدا نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں
کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہے۔
وہ علی  :جو حق کا محور اور مزکر تھا۔  علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامہ؛علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے عمار سے فرمایا: اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔
وہ علی :جو قسیم النار و الجنہ ہے۔
وہ علی :جسے کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک انشاپرداز،ایک خطیب،ایک عالم،ایک مومن،ایک مفتی،ایک قاضی،ایک عادل،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک مجاہد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔آخر میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں چند اشعار ذکر کر کے اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
 جس نے اصنام کو کعبے سے نکالا وہ علی
 ہر اندھیرے کو کیا جس نے اجالا وہ علی
جس کا رتبہ ہے رسولوں سے بھی بالا وہ علی
جس نے اس دین کی کشتی کو سنبھالا وہ علی
جو ملائک سے بھی ہے رتبے میں برتر وہ علی
جس کے خدام ہیں سلمان و ابوذر وہ علی
جو ہر جنگ میں ہے سب سے مقدم وہ علی
جس نے مجمع کئے کفار کے برہم وہ علی

علی امام من است و منم غلام علی
هہزار جان گرامی فدای نام علی

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل)  یمن ایک عرب اسلامی ملک ہے جو کہ جنوب ایشیا میںواقع ہے۔اس ملک کی زمین بہت زیادہ زرخیز ہے اور کاشتکاری کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ یمن کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے تا ہم دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں۔اسلامی مکاتب فکر میں سے زیدی شیعہ اور اہل سنت کی آبادی دوسرے فرقوں سے زیادہ ہے۔یمن کی 60 فیصد آبادی زیدی شیعوں پر مشتمل ہے۔زیدی شیعہ بارہ اماموں میں سے چار اماموں کو مانتے ہیں اور چوتھے امامؑ کے بعدان کے بڑے بیٹے حضرت زیدرحمتہ ا ﷲعلیہ کو امام مانتے ہیں۔ زیدیوں کے بیشتر فقہی مراسم اہل سنّت برادران کی طرح ہیںجس کی وجہ سے ایک عام فرد کویمن میں  زیدی شیعوں اور اہل سنّت کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر رہنے والے زیدی شیعوں اور اھل سنّت کے درمیان کس قدر اخوت کا رشتہ اور ہم ّہنگی ہے۔یمن دنیا کی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اس کی زمینیں اگر چہ زرخیز ہیں تا ہم مختلف حکومتوں کی عدم توجہ اور لاپرواہی کی وجہ سے ملکی معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے جس کی وجہ سے ملکی سیاسی صورتحال بھی ہمیشہ بحران کا شکار رہا ہے۔  2011؁ میںیمنی عوام نے اس وقت کے صدر علی عبداﷲصالح کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے کیے جس کے دور میں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ملک میں بیرونی مداخلت بھی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔

حکومت کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کی وجہ سے آخر کار عوامی دبائو میں آکر علی عبداﷲصالح کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کی جگہ منصور الہادی صدر منتخب ہوا۔تاہم صدر منصور الہادی بہی سابقہ صدر کی غلط حکومتی پالیسیوں سمیت بیرونی ایجنڈوں پر عمل پیرا رہا۔ جس کے نتیجہ میں عوام کے غم و غصہ میںایک بار پھر شدید اضافہ ہوااور یمن کے شمالی علاقوں سے حوثی قبایل اور دیگر کثیر تعداد  میں عوام نے مل کر یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا۔ حوثی قبائل اور دیگر یمنی عوام کا صنعا پر قبضہ کے بعد صدر منصور الہادی نے عوامی طاقت کے سامنے بے بس ہو کر  22 جنوری 2015؁ء کو استعفیٰ دیاجس کے ساتھ ہی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ  بھی مستعفی ہوئی۔ انقلابیوں کی احتساب <Accounitability>اور بازپرسی <Investigation>کی خوف سے منصور الھادی اور کچھ  دیگر کرپٹ <Corrupt>اعلی حکومتی اراکین صنعا سے خفیہ طور پر فرار ہوئے۔صنعا پر قبضہ کے بعد حوثیوں کی مضبوط اور ملک گیر تنظیم ،انصاراﷲ نے 6  فروری 2015؁ء کو عبوری حکومت تشکیل دی جس کی تائید حوثیوں کے علاوہ یمن کے دیگر  مکاتب فکر اورعوامی حلقوں نے بھی کیں۔انصاراﷲ نے عبوری حکومت کیلئے ایک انقلابی کونسل <Revolutionary Council>تشکیل دی جس میں حوثیوں کے علاوہ اہل سنّت اور دیگر مکاتب فکر کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

انصاراﷲتنظیم کے بانی شیخ بدرالدین الحوثی تھے  جن کے وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے حسین بدرالدین الحوثی تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے۔حسین الحوثی کے بعد تنظیم کا موجودہ سربراہ عبدالمالک الحوثی ہیں۔ انصاراﷲتنظیم کا بنیادی نعرہ<Motto>ــ" اﷲ اکبر ، امریکہ مردہ باد ، اسرائیل مردہ باد ، یہود پر لعنت،اسلام فتح مند رہے!" ہے جو اس تنظیم کے مقاصد اور اہداف کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔اور شاید اسی نعرے کی وجہ سے آج اس تنظیم کو سخت سے سخت مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن تحریکوں نے بھی دنیا کے سامراجی اور استعماری طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا شعار بلند کیا اور ان کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کیا ،انہیں ہر طرح کے سازشوں اور مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انصاراﷲکی طرف سے انقلابی کونسل اور عبوری حکومت <Interim Government>کی تشکیل کے بعدیمن کے مستعفی صدر نے سعودی بادشاہ اور بعض دیگر عرب ،خلیجی بادشاہوں کے ایماء پر 21فروری2015؁ء کو اپنا استعفی واپس لینے کا اعلان کیا اور اپنے کچھ وفادار ساتھیوں کو بلا کر عدن شہر کو ملک کا عبوری دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے پھر سے یمن کا صدر ہونے کا دعویٰ کیا۔

یمن کی سرحدیں  سعودی عرب سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے  سعودی بادشاہ نے یمن کی انقلابی حکومت کو جس نے کچھ عرصے  کے بعد انتخابات کرنے کا اعلان بھی کیا تھا،اپنی بادشاہت<Monarchy>کیلئے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف اپنے بعض پٹو خلیجی بادشاہوں کو ملا کر ایک جنگی اتحاد> <War Allienceتشکیل دی۔اس مقصد کی خاطر سعودی عرب ایک خطیر رقم خرچ کر رہا ہے۔سعودی اتحادی فوج نے یمن کی عوامی انقلابی حکومت کو بزور بازو ختم کرنے کیلئے 26مارچ 2015 ؁ء کو فضائی اور زمینی حملے شروع کیا۔اس حملے کا مقصد خود سعودی عرب اور خطے کے دیگر خلیجی عرب ممالک کی بادشاہتوں کو بچانا ہے کیونکہ سعودی سرحد سے متصل ملک یمن میں ایک اسلامی جمہوری <Islamic Republic>نظام نہ صرف سعودی بادشاہت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خطے کی دیگر بادشاہتوں کیلئے بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یمن میں اسلامی جمہوری نظام حکومت کے قیام سے سعودی عرب اور خطے کے دیگر خلیجی ممالک کے عوام جو کئی عرصے سے بادشاہتوں کے قید و بند میں زندگی گزار رہے ہیں اپنے ممالک میں بھی اسلامی جمہوری نظام  کیلئے قیام کریں گے اور عوامی بیداری کی یہ لہر شدت اختیار کرسکتی ہے۔لہٰذا اس ٖفوجی اتحاد کی پوری کوشش ہے کہ یمن کی انقلابیوں کو شکست دے کر پھر سے اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسلط کرتے ہوئے عوامی بیداری <Public Awareness>کے اس عظیم لہر کو روکیں۔سعودی اتحادی افواج کے حملوں سے اب تک تیرہ ہزار  معصوم شہری شہیدجبکہ تیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تربچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔اس مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے یمن کی بنیادی ڈھانچہ <Infrastructure>تباہ ہوا ہے جبکہ ملک بری طرح غذائی اور طبی بحرانوں کا شکار ہے۔یمن جنگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور اس کے آلہ کار دیگر میڈیا ذرائع کا کردار نہایت غیر منصفانہ اور شرمناک ہے۔آپ نے بھی بارہا سنا ہوگا کہ ان میڈیا ذرائع کے اوپر یمن کی انقلابیوں) جن کی اکثریت حوثیوں پر مشتمل ہے( کیلئے لفظ "باغی"استعمال کیا جاتا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے اور اس سے بعض ذرائع ابلاغ کی اصل چہرہ  بھی ظاہر ہوتا ہے۔حوثی 2000 سالوں سے یمن میں مقیم ہیں اور ان کی سیاسی تنظیم"انصاراﷲ" نہ صرف ملکی طور پر رجسٹرد ہے بلکہ اسے باقی تمام مکاتب فکر خصوصااہل سنت ،سول سوسائٹی اوریمن کے 60 فیصد سے زیادہ سرکاری افواج کی حمایت بھی حاصل ہے جو اس بات کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ یہ لوگ نہ صرف باغی نہیں ہیں بلکہ ملک کے وفادار بھی ہیں۔ حوثیوں کے باغی نہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اب تک یمن میں انقلابیوں کے خلاف نہ تو کوئی بڑا عوامی مخالفت <Public Resistance>سامنے آئی ہے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل عام ہوا ہے۔ اگر حوثی باغی ہوتے تو شام و عراق میں جس طرح باغی داعش<ISIS>  کے ہاتھوں لاکھوں بے گناہ نسانوں کی قتل عام ہوا ،اسی طرح یمن میں بھی ہوتا۔باغی تو انہیں کہا جاتا ہے جو کسی جائز اور درست اکثریتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جبکہ یمن کے انقلابی تو صرف اپنے ملک کی دفاع کر رہے ہیں اور ملک کو استعماری قوتوں کی چنگل سے نجات دینا چاہتے ہیں  اورملک    کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے  ان کی تعداد 75فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

اس وقت یمن کے انقلابی گارڈز،رضا کار عوامی دستے اور سرکاری فوج اندرونی محاذ پر ملک کے مقبوضہ علاقوں کو القاعدہ کے دہشتگردوں اور منصور الھادی کے وفادار فوجیوں سے آزاد کرانے کیلئے بر سرپیکارہیں جبکہ بیرونی محاذ پر جارح سعودی اتحاد کے فوجیوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔اس وقت یمن کے اکثریتی علاقوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہے جبکہ عدن شہر سمیت چند دیگر علاقوں پر منصور الہادی کے فوجیوں اور القاعدہ دہشتگردوں کا قبضہ ہے تاہم انقلابی افواج کی سخت مزاحمت سے مقبوضہ علاقوں سے ان دہشتگردوں کا قبضہ ختم ہو رہا ہے۔یمن کی عوامی انقلابی حکومت نہ صر ف خلیجی بادشاہتوں کیلئے خطرہ ہے بلکہ دنیا کے دیگر استعماری طاقتوںامریکہ،اسرائیل ،برطانیہ اور فرانس کیلئے  بھی خطرہ ہے اس لیے برائے نام حقوق انسانی <Human Rights>کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ قوتیں نہ صرف خاموش  ہیں بلکہ سعودی اتحادی افواج کی فنّی ومالی مددort> <Financial & Logestic Suppبھی کر رہی ہیں۔تاہم ان کو سوائے معصوم شہریوں کے قتل عام کے سوا نہ صرف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ سعودی عرب کی معیشت بری طرح تباہ ہونے کے ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی بار عالمی بینک<World Bank>سے قرض لینا بھی پڑا ہے۔عالم اسلام کی ماتھے پر بد ترین داغ یہ ہے کہ یمن پر حملہ کرنے والے سارے عرب ممالک مسلمان ہیں ۔بعض حلقوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ انقلابیوں سے مقامات مقدسہ یعنی مکہ اور مدینہ کو خطرہ لاحق ہے  جو کہ ایک سراسر غیر منطقی  بات ہے کیونکہ یمن کے انقلابی عوام بھی مسلمان ہیں اور ان کو بھی دنیا کے دیگر تمام مسلمانوں کی طرح مکہ و مدینہ عزیز ہیں۔یہ شور و غل محض آل سعود کی بادشاہت کو بچانے کیلئے ہے جو ان کی نمک خواروں کی طرف سے کیا جارہا ہے!

 لہٰذا ہمارے ارباب اختیار کو چاہیے کہ  بادشاہتوں کی بقاء کیلئے لڑے جانے والے اس جنگ سے دور رہیں اور اپنے وطن عزیز کی ارضی و نظریاتی سالمیت کو  خطرے سے دوچارنہ کریں۔


تحریر۔۔۔۔محمد طحٰہ منتظری

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree