وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ علاقوں میں جنگ لے جانے کی حکمت عملی
اس منصوبے کو اس طرح آگے بڑھایا جائے گا:
۱۔ بعثی لیڈرز اور متشدد سنی گروہوں (القاعدہ، داعش) کے درمیان مختلف نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔  حکومت کے حصول کے علاوہ شیعوں کی مخالفت پر یہ سب گروہ آپس میں متفق ہیں۔
۲۔ اس معرکے کے لیے دو سال سے تیاری جاری ہے۔ جنگ کو عراق کے وسطی اور جنوبی علاقے تک لے جانا ہے۔ اس  سے "معرکہ کبری"  کا نام دیا جائے گا اور اس کے دو مرحلے ہوں گے۔ پہلے مرحلے کو "صرخۃ الحق" اور دوسرے کو "صرخۃ الامام " کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ بڑی بڑی عراقی لیڈر شپ اس وقت  سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دورے کر رہی ہیں اور یہ لیڈرز ان ممالک سے غیر محدود امداد وصول کر رہے ہیں۔
۴۔ حالیہ دنوں میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں جو مظاہرے اور احتجاجات دکھائی دئیے وہ کسی خاص مطالبے کی خاطر نہیں تھے، بلکہ پری پلانڈ تحرک تھا۔ یہ انہی حالات کے مشابہ ہے جب داعش کے قبضے سے پہلے بڑے لیول پر مظاہرے ہوئے تھے جو عراق کے ایک تہائی علاقوں تک پھیل گئے تھے۔ لیکن طریقہ کار مختلف تھا۔
۵۔ یہ مظاہرے وسطی اور جنوبی علاقوں تک محدود رہیں گے۔ مقصد لوگوں کو موجودہ حکومت سے متنفر کرنا ہے تاکہ دھرنوں تک کی نوبت آئے اور پھر حالات خرابی کی طرف نکلیں۔ اس مرحلے کو معرکہ کبری کا نام دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزارت دفاع  مختلف عناصر کی علیحدگی شروع ہوگی۔
۶۔ جو منصوبہ بنایا گیا ہے اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ داعش کو اس کے تمام عناصر (عربی، عراقی، اجنبی) وادی حوران میں منتقل کیا جائے گا ، اور پھر جنگ کو وسطی اور جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔
۷۔ مظاہروں اور دھرنوں کے بعد والے مرحلے میں حالات کو اچانک خراب کیا جائے گا۔ ایک ساتھ چار مختلف صوبوں میں جنگ چھڑ جائے گی۔نخیب اور بابل کے شمالی علاقے سے داعش، حلہ اور کربلا میں داخل ہوگی ۔ وزارت دفاع فورا بغداد کی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود لے گی اور پھر بڑی آسانی کے ساتھ بغیر جنگ کے بغداد کو ان کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خفیہ پلان بھی موجود ہے جس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ان سب کے علاوہ قوی امکان ہے آنے والے دنوں میں داعش کا نام تبدیل کیا جائے گا۔ ترکی سے  مختلف خفیہ راستوں  سے متعدد علاقوں میں اسلحے  کی منتقلی جاری ہے جن میں اسمگلنک کے سمندری راستے بھی شامل ہیں۔

معلومات بتا رہی ہیں کہ ترکی میں مختلف ٹریننگ سنٹرز ہیں جہاں سے منحرف جماعتوں کو جن میں "صرخیہ" "یمانیہ" اور "جند السماء" جیسی تنظیمیں شامل ہیں ، کو ٹریننگ دینے کے بعد جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہدف ان کا دینی اور سیاسی لیڈرز کو ٹارگٹ کرنا  اور مظاہرات ، احتجاجات کے ذریعے سڑکوں کو مشغول رکھنا  اور اپنےاہداف کا حصول ہے۔

جو لیڈرز اس فائل کودیکھ رہے ہیں:
۱۔ جنرل زیاد عجلی، جن کو زیاد موسوی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی کی دھائی میں پہلے بصرہ میں اور پھر عمارہ میں  سیکیورٹی آفیسر تھے۔ان علاقوں میں اس کے وسیع تعلقات ہیں۔
۲۔ محمد رجب حدوشی۔ حسین کامل کا معاون ہے اور اس کے بعد دوسرے درجے کا اہم شخص ہے۔
۳۔ احمد رشید
۴۔جنرل فاضل حیالی
۵۔ ابو محمد عربی۔ قطر کی ایجنسی کا بندہ ہے۔
۶۔ جنرل عیال۔ صدام کے دور کا سابق آفیسراور اس کا گارڈ۔
۷۔ سعودی عرب اور ترکی کے چند دیگر بڑے اہلکار۔
اس پلان میں ہے کہ (جنوہ، تل ابیض، درنہ، یلوہ، اسبارکہ) کے علاقوں میں دہشت گردی کے کیمپ بنانا۔
حملے والے دن کو "صرخۃ الحق" یعنی حق کی چیخ کا نام دیا ہے۔
بصرہ اور ناصریہ کے علاقے کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔  (انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔)


ترجمہ وترتیب۔۔۔سید عباس حسینی

وحدت نیوز(آرٹیکل) کھیل تو کھیل ہوتا ہے،  تاہم کھیل میں بھی اصولوں کی رعایت کرنی پڑتی ہے، بے اصول کھلاڑی کو سزا اور جرمانہ دونوں ہو سکتے ہیں، البتہ  آج کل انسانی سماج میں انسانی جانوں اور انسانی احساسات و جذبات کے ساتھ کھیلنے والوں کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔  اسی طرح انسانی سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے والوں  کو بھی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

کئی سالوں سے افغانستان اور وزیرستان میں انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کتنے ہزار انسانوں کا خون خاک میں مل گیا  ہے اور کتنے لاکھ بے گھر ہوگئے  ہیں لیکن ابھی تک اس منطقے میں  انسان کو انسان پر رحم نہیں آیا۔

 خبر رساں ادارے رائٹرز  اور  دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز ضلع صیاد کے علاقے مرزا اولانگ میں  غیر انسانی طریقے سے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا کر اور گردنیں کاٹ کر پچاس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،  اس سانحے پر عالمی انسانی برادری نے اسے ہزارہ کمیونٹی کا قتل کہہ کر اپنی طرف سے تعزیت کر دی ہے اور بس ۔۔۔

اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ آج کی مہذب دنیا میں انسان کی کتنی سی اوقات رہ گئی ہے، یقین جانئیے  اگر پچاس افراد کے قتل  کے بجائے کہیں پر تیل کے پچاس کنووں کو آگ لگا  دی جاتی تو ہماری اس سرمایہ دار برادری کی آہ و زاری قابل دید ہوتی۔

جب کسی کو جلانے کی بات ہوتی ہے تو بے ساختہ آرمی پبلک  سکول پشاور کی ان خواتین اساتذہ پر کئے جانے والے ظلم کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے جنہیں سکول کے بچوں کے سامنے آگ لگا دی گئی تھی۔[1]

 دوسری طرف ان دنوں  العوامیہ میں  شہری آبادی پر فائرنگ اور گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات میں بھی عام شہریوں کا   بھاری  جانی نقصان ہوا ہے، جبکہ یمن اور بحرین میں کشت و خون اپنی جگہ پر مسلسل ہو رہا ہے ۔

انسان کشی کا یہ دیو عراق اور شام سمیت  کتنے  ہی گھروں کو ویران کرچکا ہے، لیکن ہم میں یہ جرات نہیں کہ ہم اس انسان کشی کے خلاف آواز اٹھائیں۔

افغانستان میں سعودی سفارتخانے کے ناظم الامور شاری الحربی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قطر افغان طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی سربراہی کر رہا ہے۔ ثبوت سعودی عرب کے پاس موجود ہیں۔ [2]اس طرح کے الزامات گزشتہ چند ماہ سے طرفین ایک دوسرے پر مسلسل لگا رہے ہیں لیکن چونکہ دہشت گرد انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں لہذا کوئی بھی عالمی ادارہ ان الزامات پر تحقیقات کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔

اسلامی دنیا میں خصوصاً عرب ریاستوں میں انسانی جانیں مسلسل تلف ہو رہی ہیں کچھ لوگوں کو دہشت گردی  کے ذریعے اور کچھ کو مقدمات کے ذریعے  مارا جارہا ہے۔ ابھی گزشتہ روز بھی   مصری عدالت نے اخوان المسلمین کے 12 ارکان کو سزائے موت اور  157   افراد کو عمر قید کی سزا بھی سنائی ہے۔[3]

جمہوریت اگر ہر انسان کا پیدائشی حق ہے تو پھر عرب ممالک میں یہ برادر کشی،  زبردستی، دہشت گردی، مار دھاڑ اور  کشت و خون کیوں؟ اور اس کشت و خون پر جمہوریت کے ٹھیکداروں کی خاموشی کیسی!؟

جو حال بین الاقوامی سیاست کا ہے وہی ہماری مقامی سیاست  کا بھی ہے۔  چونکہ ہمارے سیاستدان مجوعی طور پرامریکہ اور  مغربی کلچر سے ہی متاثر ہیں لہذا ہمارے ہاں بھی  مالی کرپشن اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی تحقیقات بھی ہوتی ہیں اور ایک منتخب وزیراعظم  بھی نا اہل قرار پاتا ہے لیکن دوسری طرف انسانی جانوں سے کھیلنا ایک معمولی سی بات ہے، سانحہ ماڈل ٹاون ہو یا کوئی اور سانحہ کسی کی نااہلی تو دور کی بات ہے کوئی استعفی تک نہیں دیتا۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کے بے حس  تمدن  کی پروردہ جمہوریت بھی بے حس ہے، یہ بے حس  جمہوریت بھی بین الاقوامی  سرمایہ داروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔

اگر کسی تیل بردار جہاز میں سوراخ ہوجائے یا کہیں کسی  تیل کے کنویں میں آگ لگ جائے  اور یا پھر نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کٹ جائے تو عالمی سطح پر کہرام مچ جاتا ہے لیکن اگر کہیں نہتے  انسانوں کو جلاکر بھسم کردیا جائے،سول آبادیاں ہجرت پر مجبور ہوجائیں ، شہر لاشوں کی سڑاند سے بھر جائیں ، لوگوں کو  جمہوریت کا نام لینے پر سولی پر لٹکایا جائے تو عالمی برادری اپنے حاشیہ برداروں سے اتنا بھی نہیں کہتی کہ  جمہوریت قبرستانوں پر سجانے کے لئے نہیں ہے ، یہ عوام کا پیدائشی اور فطری حق ہے لہذا جمہوریت کا تقاضا کرنے پر کسی بھی قسم کی قتل و غارت ممنوع ہے۔

 کاش ہمارے سمیت عالمی برادری جتنی دلچسبی ڈالر  اور یورو کے اتار چڑھاو اور تیل کے کنووں میں لیتی ہے اگر اتنی دلچسبی انسانی اقدار اور انسانی حیات کی بقا  میں لے تو  بلا شبہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے ۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے خلاف دشمن نظریاتی جنگ میں مصروف ہے، سادہ لوح لوگ آج کل بھی اس غلط فہمی میں مبتلانظرآتے ہیں کہ اگر کہیں پر آگ ،دھویں اور بارود کی گھن گرج سنائی دے تو وہاں جنگ لگی ہوئی ہے ورنہ امن ہی امن ہے۔ جبکہ چالاک دشمن آگ ،دھویں اور بارود کی کالک میں اپنا منہ کالا کرنے کے بجائےامن کے سندیسے بھیج کر،محبّت کے نغمے گاکر ،امن و آشتی کی فلمیں بناکراور ثقافتی سیمینارز منعقد کرواکےمورچے مسمار کرنے ، قلعے ڈھانے اور سادہ لوحوں کی عقلوں پر سوار ہونے میں مصروف ہے۔

 اگرہم امن اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مکار دشمن وہ نہیں جو جغرافیائی سرحدوں پر ہمیں گھورتاہے بلکہ ہمارا مکاردشمن وہ ہے جو ہماری نظریاتی سرحدوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔جو ہماری نئی نسل کو یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر اسلامی ملک ہے ، جو ہمارے نو نہالوں کو یہ سکھا رہا ہے کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے جو ہمارے جوانوں کو یہ پڑھا رہا ہے کہ پاک فوج ناپاک فوج ہے۔

پاکستانیوں  کے درمیان ایک ایسا  پاکستان دشمن طبقہ موجود ہے جو پاکستانیوں  کوصرف اور صرف ایک مشین کے پرزےکی مانندسمجھتاہے۔یہ طبقہ پاکستانیوں  کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتاہے۔جب پاکستانی  طاقت گروہوں،فرقوں اور اکائیوں میں تقسیم ہوجاتی ہے تو یہ لوگ  پاکستانی وسائل اورحکومتی اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے کرنے شروع  ہوجاتے ہیں۔

یہ پاکستان  دشمنوں کی نظریاتی یلغارہی ہے جس کے باعث آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور علم و شعور کے دور میں بھی  بے گناہ انسان خود کش حملوں  میں مارے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کمزور اقبائل پر طاقتور قبائل  کا ظلم ، سیاسی پارٹیوں کی ناانصافی اور دھونس دھاندلی اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل تو بڑھے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے اور انسانی وسائل پر ماضی کی طرح آج بھی فرعونوں، ظالموں اور جابروں کا قبضہ ہے۔

ہم تاریخ پاکستان کا جتنا بھی مطالعہ کریں اور معاشرتی مسائل پر جتنی بھی تحقیق کریں، کتاب تاریخ میں جہاں جہاں انسان نظر آئے گا وہاں وہاں انسانی وسائل پر قابض فرعون ،شدّاد اور نمرود بھی نظر آئیں گے۔ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریہ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟

اس کی وضاحت کے لئے ہم مندرجہ ذیل دونکات کوبیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں:کسی بھی تحریک کی قوتِ متحرکہ کانام نظریہ ہے2۔ معاشرے کے اجتماعی شعور کانام نظریہ ہے،آپ معاشرے میں جیسا اجتماعی شعور پروان چڑھائیں گے ویسی ہی تحریک چلے گی۔ پس ہر تحریک کے پیچھے ایک اجتماعی شعور موجود ہوتاہے جسے نظریہ کہاجاتاہے۔

اسی طرح ہرنظریے کے پیچھے ایک خاص طبقہ سرگرمِ عمل ہوتاہے جو"دانشمند طبقہ"کہلاتاہے۔ یہ طبقہ ایک خاص قسم کے شعور کو پروان چڑھاتاہے۔جس معاشرے میں اجتماعی سطح پرمختلف قسم کے نظریات پروان چڑھ رہے ہوں وہاں پر مختلف نظریاتی طبقات جنم لیتے ہیں۔یہ نظریاتی طبقات رفتہ رفتہ عوام الناس کو اپنے اندر سمونا شروع کردیتے ہیں اور خود ایک نظریاتی طاقت کے طور پر ابھرنے لگتے ہیں۔

ابھرتے ہوئے مختلف نظریاتی طبقات کے درمیان اس وقت نظریاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے جب ایک طبقہ کسی ایک چیز کو "دیومالائی" حیثیت دے دیتاہے اور دوسرا طبقہ اس کی سرے سے نفی کرنے لگتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے نزدیک پاکستان ایک مقدس سر زمین ہے لیکن ہمارے مخلافین سرے سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

جب ایک معاشرے میں یہ صورتحال سامنے آجاتی ہے تو "اجتماعِ نقیضین"[1]محال ہونے کے باعث ایک نظریاتی طبقہ دوسرے نظریاتی طبقے کو ختم کرنے پر تُل جاتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل پاکستان کے دشمن ہمیں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس نظریاتی جنگ میں جیت کے لئے افرادی قوّت درکار ہوتی ہے،جسے حاصل کرنے کے لئے دانشمند "تولید نظریات"یا" افزائش نظریات"کاکام شروع کرتاہے۔ تولید یا افزائش نظریات کے کام کے لئے اسے نظریاتی کارخانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان نظریاتی کارخانوں کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں۔

شعروسخن، تحریروتقریر، فلم و ڈرامہ، آھنگ و موسیقی، اخبارو میگزین، ریڈیو اور ٹی وی، مدارس و سکول، میڈیا ومحافل۔۔۔
ان نظریاتی کارخانوں کے ذریعےدانشمند مختلف شہکار تخلیق کرتے ہیں جن کے باعث عوام النّاس مختلف نظریات سے آشناہوتے ہیں اور انہیں اپناتے ہیں۔

ایک اچھا شہکار تخلیق کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دانشور اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق اپنے لئےایک نظریاتی کارخانے کا انتخاب کرے اور پھر اسی نظریاتی کارخانے کے ذریعے اپنی نظریاتی مصنوعات کو معاشرتی سطح کے مطابق منظرِ عام پر لائے۔

ظاہر ہے کہ نظریاتی مصنوعات جتنی معیاری اور نفیس ہونگی لوگ اتنے ہی زیادہ ان کی طرف مائل ہونگے اور جس نظریاتی مکتب کی طرف لوگ جتنے زیادہ مائل ہونگے ، وہ مکتب بھی اتنے ہی جلدی غلبہ حاصل کرے گا اور اگر وہ مکتب مفید اور سودمند ہوا تو اس کے غلبے سے عوام النّاس کو بڑے پیمانے پر فائدہ بھی پہنچے گا۔

معیاری اور نفیس نیز ہردلعزیز نظریاتی مصنوعات تیار کرنے کے لئے ایک دانشمند کو کبھی بھی "سماجی سائنس" کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سماجی سائنس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک دانشمند جس علم پر عبور حاصل کرے اسی میں فنّی مہارت بھی حاصل کرے اور اسی میں "افزائشِ نظریات " کاکام بھی انجام دے۔

مثلاً اگر ایک شخص علمِ جغرافیہ میں عبور حاصل کرتاہے پھر فنِ خطابت بھی سیکھتاہے اورپھر بزمِ مشاعرہ میں جاکر داد لیناچاہتاہے تو وہ نہ صرف یہ کہ بزمِ مشاعرہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرےگا بلکہ اس نے جو علم حاصل کیاہے وہ بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گا اور اس کا فن بھی اس بزم میں کوئی رنگ نہیں لائے گا۔

پس دانشمند یانظریاتی رہبرکے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرتی ذہن سازی کے لئے حسبِ ضرورت "علم " حاصل کرے اور اس علم کے مطابق فن حاصل کرے اور پھر اسی علم و فن سے لیس ہوکر معاشرے میں اپنی مصنوعات پیش کرے۔

معاشرے میں "نظریاتی مصنوعات" پیش کرتے ہوئے دانشمند کو اس بات کا لحظہ بہ لحظہ خیال رکھناچاہیے کہ اس کی بنیاد اس کاعلم اور ہنر ہے اور یہ دونوں یعنی علم اور ہنر کسی ایک ملک ، قوم ، مذہب یا دین کی ملکیّت نہیں ہیں۔ اسی طرح دانشمند بھی کسی ایک ملک ،قوم ،مذہب یا دین سے وابستہ تو ہوتاہے لیکن ان میں سے کسی کی ملکیّت نہیں ہوتا۔ لہذا اسے تمام تر تعصّبات سے بالاتر ہوکر اپنے نظریاتی شہکاروں کے ذریعے پورے عالم بشریت کی خدمت کرنی چاہیے ۔

اسے ایسا کرنے کے لئے ان تما م رجحانات ، نظریات اور افکار کی مخالفت مول لینی پڑے گی جو عالمِ بشریت کو مختلف اکائیوں ، فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

کسی بھی ملت کے نظریاتی عناصر اس کے نظریاتی جغرافیئے کا تعین کرتے ہیں۔ نظریاتی عناصر سے ہماری مراد کسی بھی قوم کے بنیادی عقائد ہیں۔ مثلاً اگرایک قوم کا یہ نظریہ ہو کہ ملت مذہب سے تشکیل پاتی ہے تواس قوم کےنظریاتی عناصر اس کے مذہبی عقائد ہونگے۔

یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستانی ایک ملت ہیں تو ملت ِ  پاکستان  کے مذہبی عناصر توحید و رسالت و غیرہ ہونگے۔اب جب یہ ملت اپنے نظریاتی جغرافیے کا تعیّن کرلے گی تو لازمی طور پر اسے ایک زمینی جغرافیے کی ضرورت پڑھے گی۔ جب تک اس کا نظریاتی جغرافیہ محفوظ رہے گا یہ قوم ڈوب ڈوب کر ابھرتی رہے گی لیکن اگر اس کا نظریاتی جغرافیہ کھوگیا تو اس کا زمینی جغرافیہ بھی اپناوجود کھو دے گا۔

چنانچہ سمجھدار قومیں اپنی توانائیاں زمینی جغرافیئے تبدیل کرنے کے بجائے فکریں تبدیل کرنے پر صرف کرتی ہیں۔ چونکہ جہاں پر فکریں تبدیل ہوجائیں وہاں پر منٹوں میں جغرافیے خود بخود تبدیل ہوجاتے ہیں۔ہمیں پاکستانیوں کو نظریاتی طور پر پاکستانی بنانے کی ضرورت ہے۔

نظریات  میں تبدیلی لاکر جس طرح یمن کےمقداد، ایران کے سلمان، مدینے کے ایوب انصاری ، مکّے کے مہاجرین اور مدینے کے انصار کو آپس میں شیر وشکر کیا جاسکتاہے ، سب کو بھائی بھائی بنایاجاسکتاہے اسی طرح فکروں کو تبدیل کر کےخلافتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیراجاسکتاہے، عظیم ہندوستان کو ناکوں چنے چبائے جاسکتے ہیں اور ایک پاکستان کے شکم سے بنگلہ دیش جنم لے  سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلامی نے بھی نظریاتی جغرافیئے کو بہت اہمیّت دی ہے اور لوگوں پر زبردستی اپنے نظریات مسلط کرنے، ان کی جہالت سے فائدہ اٹھانے اور ان پر جبراً اپنی رائے ٹھونسنے کے بجائے انہیں تعقّل،تفکّر اور تدبّر کی طرف بلایاہے۔

 دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو قطعاً اس امر کی اجازت نہیں دی کہ وہ مالِ غنیمت اور کشور کشائی کے لئے پرامن اور صلح پسند اقوام پر شب خون ماریں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مجموعہ ءِ نظریات ہے۔ اسلام انسان کے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ایک جامع نظریہ رکھتاہے

۔مثلا اسلام کے پاس اقتصادی،سیاسی، علمی،اخلاقی، دشمن شناسی، دوست پروری الغرض ہر لحاظ سے ایک مکمل نظریہ موجود ہے۔آج امت مسلمہ کو اور خصوصا پاکستان کو  ضرورت ہے کہ اس کے دانشمند ،اسلامی نظریات کی علمبرداری اور رہبری کریں۔ اسلامی نظریات کو پاکستان میں  میں صحیح رہبریت اور مدیریت کی ضرورت ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے ظہور اسلام سے پہلے عربوں میں اور پوری دنیامیں پرستش کا نظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کو صحیح رہبری اور مدیریت کی ضرورت تھی۔ حضورِ اکرم  نے اس نظریے کی رہبری کی۔ اسی طرح سید جمال الدین افغانی سے پہلے بھی مسلمانوں میں "اسلامی تہذیب و تمدن" کانظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کی رہبری سید جمال الدین افغانی نے کی ،ا سی طرح مغربی تہذیب سے بیزاری کانظریہ پہلے سے موجود تھا لیکن علامہ اقبال نے اس نظریے کی رہبریت اور علمبرداری کی۔

موجودہ دور میں پوی دنیا، خصوصا پاکستان ، غیر  اسلامی نظریات کی زد پر ہے اورعالمِ بشریّت ظلم و ناانصافی اور جبر وتشدد کی چکی میں پس رہا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ افرادِ معاشرہ پرتحقیق و تعلیم کے دروازے کھولے جائیں ،نیز ایسے دانشمندوں کی پرورش اور تربیّت کی جائے جوتمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلامی تعلیمات و نظریات کی رہبری اور مدیریت کریں نیزاسلامی معارف کو پورے عالم بشریت کے سامنے بطریقِ احسن پیش کریں چونکہ مسلم دانشمندوں اور مفکرین کی نظریاتی کاوشوں کو منطرِ عام پر لائے بغیر شیطانی اور پاکستان کے دشمنوں کی نظریاتی یلغار کامقابلہ ممکن ہی نہیں۔

پاکستان کو حالیہ پاکستان دشمن نظریات کی یلغار سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ مختلف سیمینارز، پروگراموں اور نمائشوں کے ذریعےمسلم مفکرین اور دانشمندوں کی سائنسی و علمی اور قلمی خدمات کو سراہاجائے،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے سائنسی ، علمی و نظریاتی کارناموں کوپاکستانیوں تک پہنچایاجائے۔

اس وقت پاکستان کے سرحدی دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نظریاتی دفاع بہت ضروری ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

وحدت نیوز(آرٹیکل) تاریخ اپنے زمانے کی روح پرور اور بلند ہمت ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔25نومبر 1948کے روز اذان صبح کے وقت لا الہ الا اللہ کا حقیقی  عارف اپنی ماں کی گود میں جلوہ گر ہوا ۔شہید قائد ابھی بچہ تھا لیکن ان کی فکر اور سوچ ہر وقت اس خالق سے مربوط ہوتی کہ میں خالق حقیقی کے قرب اور بلند مقامات کو کیسے حاصل کروں۔ اسی مقصد کو لے کر دینی علوم حاصل کرنے میں محو ہوئے  اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عارف صرف طالب علم ہی نہیں تھےبلکہ وہ معنوی طور پر ایک  بلندمقام  پر فائز ہو چکے تھے ۔

راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

علوم دینی کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے  اور مختلف بزرگ اساتذہ سے کسب فیض حاصل کرنےکی غرض سےنجف اشرف اورقم المقدسہ کا انتخاب کیا۔ وہاں علمی وعرفانی معرفت کے اعلی مراتب طے کرنے کے بعد وطن عزیز کی محبت نے انہیں ایک  دفعہ پھر پاکستان کھینچ لایا ۔ پاکستان میں اس مرد قلندر نے ترویج اسلام کا ایک نیا باب کھول دیا ۔ان کا موضوع سخن اتحاد بین المسلمین ہوا کرتا تھا۔زندگی بھر مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیا وہی درس جو آج سے تقریبا چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کو دیا کرتے تھے اسی درس کو شہید قائد نے اپنا موضوع سخن بنا لیا اور عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ شہید قائد نے  پاکستان  میں مسلمانوں کے درمیان یک جہتی اور اتحاد کے عملی اظہار کی ضرورت پر خوب زور دیا ۔ جب مسلمانوں کے درمیان اختلافات ختم ہونے لگے تو وقت کے شیطان صفت ، ملک دشمن عناصر اورباطل قوتوں کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجتی گوارا نہ ہوا ۔ یوں سازشیں شروع ہو گئی لیکن شہید قائد نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز بلند کرنا شروع کیا ۔وقت کے شیاطین ،اتحاد بین المسلمین کے داعی کے چراغ کوخاموش کرنے کے لئے کمر بستہ ہوگئے لیکن شہید قائدکے لئے  راہ اسلام میں جان قربان کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ اپنے جد امجد امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے جان دینے کو  وہ آسان سمجھتے تھے۔شہید قائد بھی اپنے دور کے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے تھے۔آپ ہمیشہ فرماتےتھے کہ شہادت ہماری میراث ہے جو ہماری ماوں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے۔کس قدر عظیم  ہستیاں ہیں  وہ مائیں جن کی گود اور آغوش میں ایسی ہستیاں جنم لیتی  ہیں  جو اسلام پر قربان ہو جاتی ہیں ۔

5اگست کی منحوس صبح طلوع ہوئی ۔ظلمت پرست یزیدی و شیطانی ہاتھوں نے اپنے چمگاڈر صفت کارندوں کو ہدایت کے اس روشن چراغ کو خاموش کرنے پر مامور کر رکھا تھا۔شہید قائد آدھی رات سے اپنے معشوق حقیقی سے راز و نیاز میں مصروف تھے۔ نماز صبح کے بعد ایمان و عمل کی روشنی پھیلانے کے لئے معاشرے کے افق پر طلوع ہوہی  رہا تھا کہ شقی القلب اوروقت کے ابن ملجم کا نشانہ بن  گئے۔وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے زمین پر گر گئے ۔ارض پاک سے  ایک دفعہ پھرہدایت اوراتحاد بین المسلمین کے ایک روشن چراغ کو بجھا دیا گیا وہ بھی صرف اس لئے کہ اس نے افتراق پرور،باطل پرست اورظالم حکومت کے ہاتھوں بیعت نہیں کیں۔ یہ جابر و ظالم افراد اتنا بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ شہید قائد کی جسمانی موت سے ان کے بلند افکار و کردار کوختم نہیں کر سکتے۔
چھری کی دار سے کٹتی نہیں  چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

ایک دفعہ شہید قائد کسی سفر پر جا رہے تھے ۔اہل سنت کا ایک عالم دین بھی گاڑی میں آپ کے ساتھ اور دروازے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔شہید قائد نے کہا خدا ناخواستہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو گولی سب سے پہلے آپ کو لگی گی اس لئے آپ درمیان میں تشریف لائے اور میں دروازے کی طرف بیٹھتا ہوں ۔شہید قائد اس عالم کی احترام میں خود  دروازے کی طرف بیٹھ گئےیہ شہید قائد کا کردار تھا۔آپ ظاہری کردار کے ساتھ ساتھ کشف و کرامات کے مالک بھی تھے۔جب حساس مواقع آتے تو یہی مرد بزرگوار آسانی سے ہر مشکل معمے کو حل فرماتے تھے۔ رہبر کبیر امام خمینی قدس سرہ کی عارفانہ نگاہوں نے ان کہ ہمہ گیر شخصیت کو خوب سمجھ لیا تھا۔جب آپ کی شہادت کی خبر امام خمینی قدس سرہ نے سن لیا تو فرمایا: میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوا ہوں ۔ عارف حسین الحسینی ایک پاکیزہ عاشق خدا تھےجو صبح و شام بغیر کسی رکاوٹ کے کفر و شرک کے خلاف راہ خدا میں سراپا مبارزہ و قیام بنے ہوئے تھے۔ اس شخصیت(عارف حسینی) کی فکر کو زندہ رکھو! شیطان کے چیلوں کو اسلام ناب محمدی کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہ دو۔

پاکستان میں آج پھر ایک عارف الحسینی کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اوربھائی چارگی کو فروغ دے کر نفرتوں کو مٹا دے اورمسلمانوں کے دلوں کو نزدیک کر کے اپنے اصلی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار کریں۔ آج عالمی استعماری طاقتیں پاکستانی مسلمانوں کو ان کی اسلام دوستی کی سزا دینے پر تلی ہوئی ہیں جن کے لئے وہ طرح طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔آج استعماری طاقتیں تکفیری گروہ اورداعش جیسے درندہ صفت انسانوں کی تربیت کر کےمسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو ختم کر ا رہے ہیں۔اگر ہم آج بھی بیدار نہ ہوئے تو  ملک عزیز پاکستان کی حالت بھی عراق اور شام جیسے ملکوں کی طرح ہوگی جہاں امریکا و اسرائیل اور کچھ عرب ممالک نے درندہ صفت تکفیری گروہ اور داعش جیسی شیطان صفت تنظیموں کو وجود میں لا کر ہزاروں مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطان کر دئے ہیں اور ہزاروں بے گناہ معصوم بچوں اورعورتوں کو نہایت سفاکیت اوربربریت کے ساتھ ابدی نیند سلا دئے۔
شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی  ہمیشہ پاکستان میں استعماری سازشوں کو بے نقاب کرتے رہتے تھے۔ ہم یہاں آپ کے  بعض تاریخی کلمات نقل کرتے ہیں :

1۔اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں، تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔جب اکبر، اللہ ہے جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گاوہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا،پھر ان کی نظر میں امریکہ اور روس و اسرائیل کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہوجائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کہ خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔
2۔جس کا ارتباط خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ امریکہ کو ایک چوہے کی مانند سمجھتا ہے جیسے ایک چوہا اپنے سوراخ سے نکل کر آپ کو دھمکی دے تو کیا آپ اس چوہے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں !! اس لئے کے آپ چوہے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے لہٰذا وہ لوگ جن کا رابطہ خدا سے ہوتا ہے وہ
امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کو چوہا بھی نہیں سمجھتے۔
3۔جو چیز ہمارے لئے بہت ضروری ہے وہ مسلمانوں کاآپس کا اتحاد ہے کیونکہ ہمارے دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں جو ہر جگہ مختلف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو سرکوب کرنا چاہتے ہیں۔
4۔میں(عارف حسین الحسینی) اپنا گھر بار سب کچھ حتی کہ جان تک قربان کر سکتا ہوں لیکن ناب محمدی اسلام و نظریہ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔
5۔عزاداری سید الشہداء ہماری شہہ رگ حیات ہے اس مین رکاوٹیں اوراس کے عوض ہمارے نوجوانوں پر حکومتی مظالم ناقابل برداشت ہیں ۔ یہ ظلم یہ جبر ہماری جد و جہد کا راستہ نہیں روک سکتے۔ہم اتحاد بین المسلمین کا علم لے کر اٹھے ہیں اور اپنا پیغام اخوت پہنچا کے رہیں  گے۔ ہمارے خلاف پروپیگنڈا سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کی طرف سے ہے جو مسلمانوں کے اتحاد سے خائف ہے۔
6۔ہم سیاست میں عملی کردار اختیار کرنے سے قبل اپنی قوم کو منظم کریں گے اوراسے سیاسی شعور دین گے تا کہ ہماری قوم سیاست کے ہر پہلو میں ہمارا ساتھ دے تاکہ کوئی سیاسی موڑ مرنے پر ہماری قوم ہم سے پیچھے نہ رہ جائے۔
روشنی تیرے سفیروں کا نشان باقی ہے
دامن شب میں چراغوں کا دھواں باقی ہے
مسکرائیں بھی کسی رات میں تو کیسے عارف
آنکھ میں تیری جدائی کا سماں باقی ہے

آخر میں اس عظیم ہستی کی برسی کی مناسبت سے تمام عاشقان ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی خدمت میں تسلیت  و تعزیت عرض کرتاہوں ۔
 موت آ ئے بھلاتجھ کو کیسے
تو، تو زندہ ہے تا صبح محشر
اےمفکر، اے معلم، اے مجاہد
  حشر تک کا تجھ کو بھولےہم نہ شاید   

والسلام علیہ یوم یموت و یوم  یبعث حیا۔۔۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مذاکرات کسے کہتے ہیں، جب کسی ہدف کو جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا تو پھر مذاکرات   کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگ میں جہاز، توپ،  ٹینک اور گولی جیسے ہتھیاروں کا ستعمال کیا جاتا ہے جبکہ مذاکرات میں اخلاق، قلم ، دلیل، سنجیدگی، شائستگی ، احترام اور محبت جیسے ہتھیار کام آتے ہیں۔

جس طرح جنگ کے لئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح مذاکرات بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں، مذاکرات کے لئے بھی  پڑھے لکھے،تجربہ کار ، منجھے ہوئے اور سلجھے ہوئے افراد چاہیے ہوتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر اگر جنگوں سے حل ہونا ہوتا تو اس مسئلے پر اب تک تین بڑی جنگیں اور سینکڑوں مسلح جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو کشت و خون ، شدت پسندی اور دہشت گردی سے نکال کر عوامی و جمہوری بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

میرے مطابق اس کا مجوزہ حل درج زیل نکات پر مشتمل ہے:

۱۔ جموں و کشمیر کے مقامی ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اور محبت کی فضا قائم کرتے ہوئے سب کی عزت و ناموس کا احترام کیا جائے۔

جموں و کشمیر کے مقامی غیر مسلموں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی دینی تعلیمات کے مطابق  ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کی عزت و ناموس اور جان و مال کی حفاظت کریں،  اور ہندوستان کی قابض افواج اور ہر طرح کے دہشت گردوں سے عدم تعاون کریں۔ دینی بنیادوں پر قابض افواج یا دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کیا جائے اور مل کر عالمی اداروں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ ہم لوگ اس خطے میں آزادانہ رائے شماری چاہتے ہیں۔

۲۔ جموں و کشمیر کے مقامی ہندووں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے تحفظ اور دفاع کے لئے کھل کر سامنے آنا چاہیے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ مقامی ہندووں یا مسلمانوں کو ستائے اور رائے شماری کے موضوع پر مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے۔

۳۔رائے شماری میں ووٹ دینے کا جتنا حق  مسلمانوں کو ہے اتنا ہی ہندووں کو بھی ہے لہذا رائے شماری دونوں ادیان کی ضرورت ہے، اس کے لئے  ہندووں اور مسلمانوں کو مل کر  رائے شماری کے لئے فضا سازگار بنانی چاہیے۔

۳۔ ہندوستان کی قابض افواج یا شدت پسند گروہوں کے عوام دشمن اقدامات کی مذمت اور مخالفت بلاتفریق ہندو و مسلم ہونی چاہیے۔

۴۔ جموں و کشمیر کے ہندووں تک اسلام کا یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ دینِ اسلام محبت، امن اور بھائی چارے کا دین ہے اور اسلام کسی مسلمان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی پر امن ہندو کو قتل کرکے اس کی جائیداد پر قبضہ کر لے۔ اس لئے رائے شماری کی صورت میں ہندووں پر مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۵۔ اس بات کو حل کیا جانا چاہیے کہ رائے شماری کے لئے  کشمیر  یوں کے  سامنےتین آپشن ہیں :۔

ایک ہندوستان کے ساتھ الحاق

دوسرا پاکستان کے ساتھ الحاق

 تیسرا خود مختار کشمیر

اس وقت موجودہ صورتحال یہ ہے کہ رائے شماری کی صورت میں  ہندوستان کے  ساتھ کشمیر کا الحاق تو ناممکن ہے۔لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق میں پر امن انتقال اقتدار کا مسئلہ پیش آئے گا اور خود کشمیریوں کے درمیان حصول اقتدار کے لئے ماضی کے افغانستان جیسی  صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور یہی خطرہ  خود مختار کشمیر کی صورت میں بھی لاحق ہے۔

آیا ارباب حل و عقد اور ہمارے سیاست دانوں کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل ہے اور اگر ہے تو اسے بیان کیوں نہیں کیا جاتا!؟

۶۔ جموں و کشمیر میں مکمل میڈیا ٹرائل ہونا چاہیے ، انسانی حقوق کے اداروں کو جانچ پڑتال کا حق دیا جانا چاہیے اور  اس وقت جتنے گروہ بھی جموں و کشمیر کے مقامی لوگوں کے قتل اور ہتک حرمت  میں ملوث ہیں ،  وہ خواہ ہندوستان کے قابض فوجی ہوں یا دیگر مسلح  غیرمسلم دہشت گرد گروپ اور جتھے ہوں  یہ سب انسانیت کے مجرم ہیں، ان کے خلاف عالمی انسانی قوانین کے تحت مقدمات قائم ہونے چاہیے۔

اسی طرح اگر کسی مسلمان نے  دینِ اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے ، کشمیر کے غیر مسلموں پر شب خون مارا ہے، یا کسی کی عزت و ناموس پر ہاتھ اٹھا یا  ہے  تو اسے بھی  اسلامی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہیے تا کہ عوام کا مسلمانوں اور اسلام پر اعتماد بحال ہو اور جمہوری رائے شماری  اور ریفرنڈم کے لئے راستہ ہموار  ہو۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

وحدت نیوز(آرٹیکل) غیر ملکی میڈیا کے مطابق  گزشتہ روز عراق میں  بعقوبہ کے شمال مغربی علاقے میں ایک  دھماکے میں 5شہری ہلاک اور 9زخمی ہوگئے ۔ یہ بھی گزشتہ روز کی ہی خبر ہے کہ   افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغربی علاقے میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 36 افراد ہلاک جبکہ 42 زخمی ہوگئے۔

یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ  کابل کے مغربی حصے میں ہزارہ برادری  کے لوگ رہائش پذیر ہیں جنہیں وقتاً فوقتا حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہزارہ کشی فقط پاکستان تک محدود نہیں بلکہ کسی  عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ دوسری طرف  یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ روز ہی افغانستان میں طالبان نے دو مزید ضلعی ہیڈکواٹرز پر قبضہ کر لیا ہے۔

آج پاکستان میں پنجاب کے دارلحکومت    لاہور میں فیروز پور روڈ پرارفع کریم سنٹر اور پرانی سبزی منڈی کے سامنے پولیس اہلکاروں کو  خود کش حملے کا نشانہ  بنایا گیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق  اس خودکش دھماکے میں9پولیس اہلکاروں سمیت 28افراد شہید جبکہ56 زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہاہے کہ جب  انٹرپول نے مگربی ممالک کو  مطلع کیا ہے کہ   داعش کے  انتہائی ماہر اور تجربہ کار ایک سو تہتر دہشتگرد یورپ میں خودکش حملے کرنے اور دہشتگردی کو رواج دینے  کا حلف اٹھا چکے ہیں ۔

اگرچہ انٹرپول نے یورپی ممالک کو داعش کے دہشتگردوں کے ناموں کی فہرست بھی دی ہے۔ تاہم  لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بنایا جانے والا سعودی اتحاد اس سلسلے میں بالکل خاموش ہے۔

عین اس وقت پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر کشیدگی کے ساتھ ساتھ چین اور بھارت کے درمیان بھی زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے۔ چینی وزارت دفاع کے ترجمان ووقیان نے پریس بریفنگ میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ملکی دفاع کے حوالے سے چینی فوج کی صلاحیتوں سے متعلق غلط فہمی میں نہ رہے ،چین نے بھارت کو سرحد پار علاقے سے اپنی فوج فوری ہٹانے کو کہا ہے۔

اسی طرح ریاض کانفرنس کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے مسلسل ایران کے خلاف سفارتی محاز گرم رکھا ہوا ہے۔  اگرچہ امریکہ نے چند روز پہلے ہی ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے تسلسل پر تہران پر اقتصادی پابندیاں عاید کی  تھیں لیکن ایران نے  امریکی دباو  اور پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے  ایک  نئے میزائل’شکار 3‘ کا بھی افتتاح کیا ہے

   اس میزائل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ 27 کلو میٹر بلندی پر 120 کلو میٹر دور اپنے ہدف ٹھیک نشانہ بنانے کے علاوہ  جنگی طیاروں، ڈرون طیاروں، کروز میزائلوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کو  بھی  مار گرائے گا۔

امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ایران کے کے بگڑتے ہوئے حالات اپنی جگہ خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ انہی دنوں میں کویت نے بھی  ایران کو کویت میں اپنا سفارتی عملہ کم کرنے اور دفاتر بند کرنے کا حکم دیاہے۔

موجودہ عالمی تناظر میں   عالمی برادری اور خصوصا دہشت گردی سے متاثر تمام ممالک کو پرانی رنجشوں کو بھلا کر از سر نو پالیسیاں تریب دینے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی کے بیج بونے والے، دہشت گردوں کی سرپرستی اور  سہولت کاری کرنے والے،  دہشت گردوں کو ٹریننگ اور گرین کارڈز فراہم کرنے والے آج کے دور میں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

اسی طرح ممالک کے درمیان جغرافیائی اور سرحدی کشیدگی پر بھی عالمی برادری کو منصفانہ اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔

اس وقت صورتحال اس طرف جا رہی ہے کہ کسی بڑے انسانی سانحے سے بچنے کے لئے  عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کو   مختلف ممالک اور اقوام کو دہشت گردی میں ملوث قرار دینے کے بجائے اُن ممالک میں موجود شخصیات کو کے نامزد کر کے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیاجائے۔

ایسے افراد جنہوں نے اپنا اسلحہ فروخت کرنے، اور مختلف اقتصادی مفاد کے لئے  ملکی و قومی عہدوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ، مختلف ممالک کے درمیان کشیدگی کی فضا قائم کر رکھی ہے اور یا پھر داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس قائم کئے ہیں ان کو بلاتفریق ممالک نامزد کر کے ان کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔

عالمی جنگ  یا بین الاقوامی دہشت گردی سارے انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

 جس طرح یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مسلک نہیں ہوتا اسی طرح اب اس دعوے کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی ملک بھی نہیں ہوتا۔

دہشت گرد مسالک و ممالک کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسے القائدہ  و داعش کی دہشت گردی زبان زد عام ہے اسی طرح دوسرے ممالک کی سرحدوں پر کشیدگی پھیلانے اور فائرنگ کے واقعات کو بھی  دہشت گردی کے زمرے میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار افراد کو بھی انسانی جانوں کا دشمن قرار دے کر قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔

کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل کو بطور عادی لینے کا وقت گزر چکا ہے،  اس وقت دنیا تیزی سے آگ اور بارود کے ایک گولے میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔

ایسے میں اگر دنیا کے باشعور لوگوں نے اپنے اپنے ممالک میں موجود انسان دشمنوں اور دہشت گردی کے ذمہ داروں کو نامزد نہیں کیا تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔  عالمی برادری کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ دہشت گردی خواہ سرحدی ہو یا ملکی ، دہشت گرد  چند ممالک نہیں بلکہ مختلف ممالک کی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے   چند افراد ہیں لہذا انہیں نامزد کیا جائے ، ان کے جرائم بیان کئے جائیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

چند بیمار ذہن ، حریص دماغ اور کم فکر لوگ پوری انسانی برادری کے امن سے کھیل رہے ہیں۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree