وحدت نیوز(آرٹیکل)16برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود امریکہ بہادر افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ سپر پاور ہونے کے دعویدار کیلئے اعتراف شکست نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کے سر تھونپ رہا ہے اور ہندوستان کے انتہاپسند اور ماضی میں تسلیم شدہ دہشت گرد وزیراعظم مودی کو گلے لگانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کیخلاف سخت رویہ اپنانے کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا حالیہ دورہ پاکستان بھی پاکستان کو ناراضگی اور سخت پالیسی کا پیغام دینے کیلئے تھا۔ پاکستان پر افغانستان میں عدم استحکام کی ذمہ داری ڈالنا حقیقت پسندی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے، کیونکہ افغانستان کا امن و استحکام پاکستان کے قومی مفادمیں بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار قیام امن کا نہ صرف متمنی ہے بلکہ اس کیلئے اپنے تمام تر سفارتی و اخلاقی ذرائع بھی بروئے کار لا رہا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیئے کیونکہ پاکستان کی ترقی، داخلی استحکام ا ور امن امان کیلئے افغانستان میں پائیدار امن ناگزیر ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کو پاکستان کی اس ضرورت کا بخوبی ادراک ہے، جبھی وہ افغانستان میں قیام امن کی ہر کاوش کو نہ صرف سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے بلکہ پاکستان کی مغربی سرحد کو بھی مصروف رکھنے کیلئے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے ذریعے وطن عزیز میں اندرونی مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔امریکی تائید و حمایت سے بھارت پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کررہا ہے،جسکے ناقابل تردید شواہد پاکستان میں ہونیوالے دہشتگردی کے کئی سانحات میں سامنے آئے۔ تاہم اس کے باجود امریکہ افغانستان سمیت خطے میں بھارتی کردار اور اثررسوخ بڑھانے کا تو حامی ہے جبکہ اس میں کمی پہ بالکل آمادہ نہیں۔یہ امریکی تعاون اور آشیر باد کا ہی شاخسانہ ہے کہ بھارت بیک وقت کئی جگہوں پہ جارحانہ حکمت عملی کا مرتکب ہوکر پورے خطے کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے پہ کمر بستہ ہے۔

بھارت ایک طرف چین کے ساتھ سرحدی تناعات کو بڑھاوا دے رہا ہے تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی، مشرقی سرحد پہ جنگی نقل و حمل اور پاکستان کی مغربی سرحد پہ دہشت گردوں کی سرپرستی‘ یہی نہیں بلکہ خطے کے معاشی و انرجی کوریڈور سمجھے جانےوالے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی بدامنی اور انتشار کو ہوا دینے کیلئے درجنوں تنظیموں اور تحریکوں کی باقاعدہ سرپرستی کررہا ہے۔ اسی صوبے سے بھارتی فوجی افسر کلبھوشن کی باقاعدہ گرفتاری بھی عمل میں آچکی ہے اور اسکے زیرنگرانی دہشتگردی کا پورا منصوبہ بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔ ان سب کے باوجود بھارت اور امریکہ کے تعاون میں اضافہ ہوا نہ کہ کوئی کمی واقع ہوئی، جو کہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ اسی جنگ میں جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا، جس نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور جو ملک تاحال اسی جنگ کو ہر قیمت پہ جیتنے کی بنیاد پر لڑ رہا ہے،و ہ پاکستان ہی ہے جبکہ دوران جنگ اسی پہ دباؤ بھی بڑھایا جارہا ہے اور اسی کے کردار پہ شک کرکے اسکی حمایت و مدد سے بھی اجتناب کی پالیسی برتنے کی کوشش کی جاری ہے، جو کہ دشمنی کے مترادف ہے۔ پاکستان دہشتگردی کے فروغ یا پھیلاو¿ کا موجب نہیں بلکہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ ایسی دہشت گردی کہ جس میں وہ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد انسانی زندگیاں قربان اور سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اسکی مسلح افواج بیک وقت ضرب عضب، ردالفساد، خیبر فور جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں کی حفاظت بھی یقینی بنائے ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک ایسے موقع پر جب دہشتگردوں کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن میں پاکستان کو تعاون اور حمایت کی ضرورت ہے تو امریکہ تعاون میں کمی اور دباؤ میں اضافہ کئے ہوئے ہے۔ یہ بالکل وہی پالیسی ہے جو نیٹو نے پاک افغان سرحد پہ پاکستان کیخلاف اپنائی تھی۔ ایک جانب پاک افغان سرحد کو عبور کرکے دہشتگرد آکر پاکستانی فوجی چیک پوسٹو ں پر حملے کرتے اور اگلے دن افغان ادارے دراندازی کا شور مچاتے جبکہ پاکستان اسی سرحد پہ غیر قانونی آمدورفت روکنے کیلئے جب باڑ کی تنصیب کی کوشش کرتا تو اس باڑ کی تعمیر کیخلاف بھی نیٹو اور افغان حکومت مشترکہ موقف اپناتیں۔ نتیجے میں پاکستان کو دوطرفہ مسائل کا سامنا رہتا، وہی پالیسی تاحال جاری ہے۔

امریکی کانگریس نے حال ہی میں ایک بل کی منظوری دی ہے کہ جسکے تحت پاکستان کی فوجی امداد میں کمی اور پاکستان کے ساتھ جاری تعاون کو ماضی کی طرح ڈومور پالیسی سے مشروط کیا گیا ہے۔ قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے پہلے دورہ پینٹاگان کے دوران جو بریفنگ دی گئی ، اس میں نہ صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا بلکہ اس بریفنگ میں افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے باقاعدہ سفارش کی گئی کہ افغانستان میں طالبان کےخلاف جنگ جیتنے کیلئے پاکستان کیخلاف کارروائی ناگزیر ہے۔اسی طرح وائٹ ہاؤس کے اجلاس میں جب افغانستان کے اندر امریکی فوج کی تعداد بڑھانے کے معاملے پہ مشاورت جاری تھی تو اس وقت بھی پاکستا ن کے تعاون اور حمایت کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں امریکی صدر نے افغانستان کے معدنی ذخائر میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کی بھی بات کی ، جس کے جواب میں امریکی صدر کو بتایا گیا کہ افغانستان کے معدنی وسائل پر مکمل دسترس حاصل کرنے کیلئے افغان حکومت کا ملک پہ کنٹرول ضروری ہے، جس کی راہ میں پاکستان حائل ہے۔ اسی اجلاس میں امریکی صدر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ پھر چینی کمپنیاں افغانستان میں کیسے کان کنی کے شعبے میں مسلسل فوائد حاصل کررہی ہیں؟علاوہ ازیں امریکی صدر کہ جنہوں نے پہلے روس کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اب روس ، ایران اور شمالی کوریا پہ متعدد پابندیوں کے بل پر دستخط بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان پہ بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کا اندازہ ایلس ویلز کے حالیہ دورہ پاکستان سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائم مقام امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی وسط ایشیائی امور ‘ اور قائم مقام خصوصی ایلچی برائے افغانستان و پاکستان‘ ایلس ویلز جب اپنے پہلے دورے پر پاکستان آئیں تو انہوں نے بھی پاکستان کو تنبیہہ کی کہ پاکستان کی زمین کسی پڑوسی ملک کیخلاف ہرگز استعمال نہیں ہونی چاہیے جوکہ بالواسطہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام تھا۔

داعش اب افغانستان میں مسلسل زور پکڑ رہی ہے کہ جس نے مشرق وسطٰی کے کئی ممالک کے امن کو تہہ و بالا کیا اور جسکے متعلق دنیا کے سینکڑوں اداروں نے اپنی رپورٹس میں اسے امریکی پراڈکٹ قرار دیا ۔رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا میں اس تنظیم کا میزبان بھارت ہے اور بھارتی ریاست کیرالہ سے اسے باقاعدہ آپریٹ کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے جو اندوہناک خونی واقعات ہوئے ، ان کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، جبکہ ماضی قریب میں ان دہشتگردوں نے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا تھا کہ جو بھارت کے زیراثر تھے۔ اسی طرح نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال کے دورہ مشرق وسطیٰ کا کچا چٹھا بھی کئی خبررساں اداروں نے اپنی رپورٹس میں بیان کیا ۔ اس دورے کا مقصد دہشتگردوں کے الگ الگ متعدد گروہ تشکیل دیکر انہیں داعش کے ساتھ منسلک کرکے ایک لڑی میں پرونا تھا۔ اس کا اقرار افغانستان میں نیٹو فوج کے سربراہ جنرل نکلسن نے بھی بجا طور پر کیا اور اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ داعش، ایسٹ ترکمانستان موومنٹ، ازبک موومنٹ اور ٹی ٹی پی کے درمیان غیر رسمی اتحاد وجود پاچکا ہے ۔ یہ تمام وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں کہ جنہوں نے کبھی اور کہیں بھی نیٹو، امریکہ یا بھارتی مفادات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ہی چین ، پاکستان اور انکے مشترکہ مفادات کو نشانہ بنایا ہے۔ دہشتگرد گروہوں کے مابین اس اتحاد سے امریکہ و بھارت کا کردار مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ وہ خطے کے امن میں کتنے مخلص ہیں ؟ عالمی سطح پر ان خطرات کے پس منظر میں روس، ایران اورچین امن و سلامتی کیلئے آپسی تعاون بڑھا رہے ہیں تکہ امن عالم کو ہولناک جنگ سے بچایا جاسکے۔ ان حالات میں پاکستان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ خطے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیکر امن و اعتماد کی بحالی کیلئے جاری کوششوں کو مزید فروغ دے۔ داعش کی صورت میں خطے میں ابھرنے والے نئے فتنے سے نمٹنے کیلئے روس، چین ، ایران اور ترکی کے ساتھ ہم آہنگی ، تعاون اور ہم کاری کی پالیسی اپنائے۔ سی پیک کے ثمرات سے فقط پاکستان یا چین ہی نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک مستفید ہوں گے، چنانچہ اسکے خلاف جاری سازشوں سے نمٹنے کیلئے جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار یا عدم استحکام کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں، حکومت اور اپوزیشن قوتیں قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ذاتی یا فی الوقتی مفاد پر پاکستان کے روشن مستقبل پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ امریکہ یا بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ پاکستان تصادم ہر گز نہیں چاہتا مگر اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ بھی ہرگز قابل قبول نہیں۔ عالمی سطح پر ابھرتی نئی قوتوں یعنی روس، چین، ایران اور ترکی کیساتھ ہمارے مستحکم تعلقات امریکی و بھارتی رعونت کے خاتمے کا بھی باعث بنیں گے اور انکے ساتھ ہم اپنے معاملات باعزت طریقے اور بات چیت کے ذریعے بہتر بھی بناسکیں گے، چنانچہ مقتدر سیاسی قوتیں حالات کا ادراک کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے فدویانہ پالیسی ترک کرکے برابری کی سطح پہ بات کریں اور موثر سفارتکاری کے ذریعے خطے کو درپیش مسائل اور ان مسائل کی پشت پناہ قوتوں کو عالمی سطح پہ بے نقاب کریں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان ان مشکلات سے سرخروہوکر ترقی و خوشحالی کا سفر بطریق احسن طے کرے۔ انشاءاللہ!

بشکریہ :روزنامہ نوائے وقت

وحدت نیوز(آرٹیکل) کیونکہ امریکی تاریخ ہی ایسی ہے ۔جو وہاں کے باسیوں کے قتل عام سے شروع ہوتی ہے ۔امریکہ میں ابتداء میں ہی ریڈ انڈین کی عورتوں کی جبری نس بندی پر عمل درآمد کا پروگرام شروع کیا گیا ۔کرستوفرکولمبس سے لیکر جنگ جہانی دوم تک ریڈ انڈین کی تعداد ساٹھ لاکھ سے کم ہو کر صرف آٹھ لاکھ تک رہ گئی ۔شکاگو میں مزدور مظاہرین پر بے رحمانہ قتل عام کی وجہ سے ورجینیا میں کان کنوں پر بے جا حملوں کی وجہ سے اور شیکاگومیں ریلوے ملازمین پر تشدد کی وجہ سے ، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کی وجہ سے جس نے چندلمحوں میں 220000افراد کی جان لے لی ۔ویٹنام میں 150000مظلوں کی ہلاکت کی وجہ سے جس میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے ۔امریکیوں نے ان حملوں میں زیادہ تر کیمیکل اسلحہ استعمال کیا ۔ اسرائیل کی مجرمانہ حمایت اور پشت پناہی کی وجہ سے جس وجہ صہیونی حکومت وجود میں آئی ہے اور فلسطینیوں کی دنیا بھر میں نسل کشی کی وجہ سے ایران میں بغاوتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے انقلاب اسلامی سے دشمنی کی وجہ سے ،دنیا کی دیگر تمام ملتوں کی جاسوسی کرنے کی وجہ سے ،آٹھ سالہ ایران عراق جنگ میں صدام ڈکٹیٹر کی بھر پور مالی اور عسکری مدد کرنے کی وجہ سے ، ایرانی مسافر طیارے پر حملے کی وجہ سے جس پر 290 لوگ سوار تھے ،ایران ،پاکستان ، عراق ،نائیجیریا ،بحرین ،شام اورلبنان کی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ، ایران سمیت دیگر آزاد ملتوں پر پابندیوں کی وجہ سے ،افغانستان اور دیگر ملتوں کے کئی لاکھ افراد کے قتل عام کی وجہ سے ،عراق پر حملہ جس کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ،دنیا کئی عالمی اور علاقائی دہشت گردوں کی فنڈنگ اور حمایت کی وجہ سے ، دنیا میں براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے ، امریکہ کی اسی حمایت کی وجہ سے دہشت گردوں نے دنیا میں ہزاروں بے گناہوں کو قتل کر ڈالاہے ۔ اور امریکہ کی بے جا حمایت کی وجہ اسلام دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس حمایت کی وجہ سے آج مشرق وسطی اور عالم اسلام جنگ کی لپیٹ میں ہے ۔ امریکی غلط پالیسیوں کی وجہ آج آل سعود حرمین شریفین کے لئے خطرہ جبکہ دہشت گردوں کے لئے جائے پناہ بن چکے ہیں۔

ترتیب وتدوین :ظہیر الحسن کربلائی

فتنہ راولپنڈی 2013

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آخر کار چار سال گزرنے کے بعد انھوں نے دیوبندی وتکفیری دھشگردوں کے اصلی چہرے سے پردہ اٹھایااور پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے سامنے مدلل انداز سے خود دھشگردوں کے زندہ اعترافات کے ساتھ فتنہ راولپنڈی روز عاشورا 2013  کو واضح کیا اور اس فتنہ کے اغراض ومقاصد بھی انہیں دھشگردوں کی زبانی پوری قوم نے سنے ،اس لئے آج پوری قوم آئی ایس آئی اور پاک فوج کو سلام پیش کرتی ہے، لیکن حق بات یہ ہے کہ ابھی اس فتنے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،اس فتنے کے سب کرداروں کو پاکستانی قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ابھی فقط اس فتنے کا پہلا کردار ادا کرنے والا گینگ چار سال بعد گرفتار گیا اور ابھی دوسرے اور تیسرے اور باقی سب گینگز کے افراد کو گرفتار کرنا باقی ہےاور مندرجہ ذیل حقائق سامنے لانا باقی ہے

* اسکی پلاننگ کس فرد اور ادارے نے کی ؟
* کیا یہ فقط بیرونی انڈیا اور افغانستان کی ہی پلاننگ تھی یا اندرونی دشمن بھی اس میں شریک تھے؟
* وہ اندرونی دشمن کون ہیں ؟ کیا وہ مشخص ہوئے یا نہیں ؟
* اگر مشخص ہیں تو وہ کون کون ہیں ؟
* کیا انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی ؟
* انکے سہولت کار پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص روالپنڈی میں کون کون تھے؟
* وہ گرفتار ہوئے یا نہیں؟

دوسرا گینگ:  

اس سانحے کے ایک دن بعد جب ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کے ہمراہ کرفیو کے ایام میں راولپنڈی کے اس علاقے کا دورہ کیا تو ہم نے وھاں کے اھل سنت اور اھل تشیع سے جو آنکھوں دیکھا حال سنااس کے مطابق ابھی ایک اور گینگ کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے جس نے مدرسہ تعلیم القران اور مسجد کو آگ لگانے کے بعد نزدیک ہی 6 اہل تشیع کی  مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا.ان مساجد وامام بارگاہوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے اور دھواں، آتش زدہ قران مجید اور دینی کتابیں، مقدسات کی بیحرمتی ، تکفیری جتھوں کی بربریت کا آنکھوں دیکھا حال بتانے والے خوفزدہ لوگ اور سہمی ہوئی  مستورات یہ سب  المناک مناظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔

اس فتنہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ان منظم جتھوں کو گرفتار کرنا اور ان سے تفتیش کرنا بہت ضروری ہے ۔
یہ بقول اہلیانِ راولپنڈی کے تقریبا 100 کے لگ بھگ  افراد تھے جن کے پاس آتش گیر مواد ، اسلحہ اور  لاٹھیاں تھیں اور ایسے مساجد اور امام بارگاہوں کو آگ لگانے کے لئے بڑھ رھے تھے جیسے انھوں نے باقاعدہ پریکٹس اور مشقیں کیں ہوں اور انکے پاس نقشے اور  معلومات بھی تھیں یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ بہت بڑی منظم سازش تھی اور بہت سارے اندرونی وبیرونی کردار ملوث ہیں۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ

* یہ آگ لگانے والے افراد کون تھے ؟
* کیا واقعا لال مسجد سے آئے تھے جیسے بعض عینی شاہدین نے کہا تھا؟
* اگر لال مسجد سے نہیں آئے تو کہاں سے منظم طور پر سے آئے اور آگ لگانے اور دھشگردی پھیلانے کے بعد چلے گئے ؟
* انکا تعلق کس مدرسے ، علاقے اور مرکز سے تھا. کیونکہ مقامی عینی شاہدین اور سیاستدانوں کے بقول وہ راولپنڈی کے نہیں تھےآخر وہ کون تھے.؟
* کیوں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ؟

تیسرا گینگ

تیسرا گینگ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹنگ میڈیا پر فتنے کی آگ بھڑکانے والا تھا  جو برما ، فلسطین اور شام وغیرہ کے بچوں کی تصویریں اور مظالم دکھا رھا تھا اور جھوٹا پروپیگنڈا کر رھا تھا کہ اہل تشیع نے مدرسے ، مسجد اور مارکیٹ کو آگ لگا دی اور بچوں کو قتل کیا اور پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل رہا تھااور جلتی پر پٹرول ڈال رھا تھا یقینا اس گروہ کی بھی مکمل تیاری تھی اور نشر کرنے کے لئے پہلے ہی مواد تیار کر چکا تھا۔
انکو گرفتار کر کے تفتیش اور تحقیق ہونی چاہیئے کہ
یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کون کون تھے.؟
ان کا تعلق کس ادارے یا پارٹی یا گروہ سے ہے  ؟
کس کے کہنے پر فتنہ پھیلا رہے تھے. ؟

چوتھا گینگ

اس فتنے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کردار یہ وہ چوتھاگینگ کر رھا تھا کہ جس کے کردار

* انتھا پسند اور تکفیری آئمۃ مساجد جو پورے ملک میں آگ لگانے پر کام کر رہے تھے
* تکفیری فتوے دینے والے مفتیان
* فتنے کو تقویت دینے والے وفاق العلماء ، مدرسے ، مذہبی ادارے اور تنظیمیں
* مذہبی وسیاسی متعصب قائدین
* ضمیر فروش صحافی اور اینکر پرسنز
* دولت کی خاطر ملک کی سالمیت کا سودہ کرنے والے ٹی وی چینلز کے مالکان

ان سب میں کون کون اس فتنے اور سازش کا باقاعدہ حصہ تھے، اسکی بھی تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیئےاور مجرم خواہ جتنا ہی با اثر ہو اسے عدالت کے کٹھڑے میں لانا چاہئےاور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے۔

رد المظالم:

راولپنڈی اور اطراف کے بیگناہ سیکڑوں شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا،چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا،انکی زندگیاں معطل ہوئیں اور انھوں نے بیگناہ ہونے باوجود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالی طور پر نقصانات برداشت کئے۔

اور ریاستی ادروں کے مزید بھی ظلم وستم اور تشدد  کا نشانہ بننے والے ان افراد کی مظلومیت ثابت ہو گئی.  کیا وزارت داخلہ کے پاس اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہی سہی پاکستانی قوم اور بالخصوص جن پر ظلم کیا ہے ان سے معافی مانگے اور جو انکا مالی نقصان ہوا اور انہیں اذیتیں برداشت کرنا پڑیں حکومت انہیں اسکا معاوضہ ادا کرے اور جھوٹی الزام تراشی کرنے والے شیعہ قوم  سے معافی مانگیں۔


تحریر۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت حسین شیرازی

یمن کا آکٹوپس

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ریاض اب بھی اس سوچ میں پڑا ہے کہ عسکری حوالے سے نہ سہی کم ازکم سیاسی حوالے سے ہی یمن ایشو پر کچھ کامیابی حاصل ہو ،یا کم ازکم دن بدن آکٹوپس کی طرح لپٹتے اس مسئلے سے کچھ اس طرح جان چھڑ ائی جائے کہ دنیا کے سامنےفاتح ثابت نہ ہوں توکم ازکم شکست خوردہ تونہ کہلائیں ‘‘
یہ خلاصہ ہے ان خبروں اور تبصروں کا جو مسلسل عربی زبان کے اہم اخبارات اورعالمی میڈیا کے ایک حصے کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں ۔

مارچ دوہزار پندرہ میں سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد اور اس وقت وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی طور پر انتہائی بدحال ملک یمن پر چڑھائی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بن سلمان کی جانب سے اس وقت یمن پر چڑھائی کے بارے انتہائی اطمنان اور یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ عمل ’’فوری اور سرجیکل‘‘(Quick and surgical)ہوگا ۔

ناتجربہ کار جذباتی شہزادے کو اس وقت بڑے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یمن ایک دلدل ہے یہاں جو بھی گھسنے کی کوشش کرتا ہے اسے نہ صرف واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ وہ اس طرح پھنستاجاتا ہے جیسےکوئی چیز آکٹوپس کے پنچوں میں پھنستی ہے ،جس قدر بچاو کی کوشش کرتا ہے آکٹوپس کے حصار میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔

اس وقت مصرجیسا ملک مضبوط فوجی طاقت کے باوجود عملی طور پراس پورے عمل سے دامن بچاتا رہا ،مصر یقینا اس وقت کو نہیں بھولا تھا کہ جب اسے ماضی میں یمن سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے تک کا موقع نہیں ملا تھا اور فرار ہونا پڑا تھا ۔

ناتجربہ کار اور گھمنڈ میں مبتلا شہزادے کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ یمن پر چڑھائی کا نتیجہ عوامی انتفاضہ کی شکل میں نکل سکتا ہے جہاں مرد تو مرد خواتین بھی اس جارحیت کے آگے مقابلے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوسکتیں ہیں ۔

یمن میں بنیادی طور پر چار اہم قوتیں موجود ہیں جن میں سب سے مضبوط ترین سیاسی انتظامی اور عسکری قوت انصار اللہ پارٹی کی ہے کہ جس میں یمن کے انتہائی اہم اور موثر قبائل شامل ہیں جن میں نمایاں طور پر حوثی قبیلہ ہے جس کے افراد انتہائی پڑھے لکھے ،ملکی نظم ونسق چلانے کی مہارت کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے بھی انتہائی مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

سن 1962میں یمن میں بادشاہی نظام کے خاتمے کے بعد حوثی قبائل نے تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہائی آرگنائز انداز سے خود کو منوایا ہے ایک طرف جہاں اس قبیلے میں خود اندرونی طور پر زبردست قسم کا انسجام اور مرکزیت پائی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ قبیلہ دوسرے قبائل اور مکاتب فکر کے لئے بھی کھلی گنجائش رکھتا ہے ۔

ماضی میں حوثی قبیلے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور زیادتیوں نے اس قبیلے کوایسے تجربات سے گذارا ہے کہ وہ ہرقسم کے دباو کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مدمقابل کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا بروقت تدارک بھی کرسکتے ہیں ۔

بنیادی طور پر حوثی قبیلہ کے افراد تمام قبائل میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے سبب جمہوریت اور مشترکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں وہ یمن میں ایک شفاف جمہوریت کی ہمیشہ سے خواہش کرتے آئے ہیں ۔

دوسری قوت یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح ہیں کہ جن کا پس منظر فوج سے تعلق رکھتا ہے اور سن باسٹھ کے انقلاب میں اس کے کردار نے اسے شہرت دی اور یوں سن انیس سو نوے سے لیکر دوہزار گیارہ تک اس نے یمن پر حکمرانی۔

علی عبداللہ صالح اور ان کی پارٹی پاپولر کانفرنس کو عرب عوامی تحریک کی لہر سے متاثرہ یمنی عوامی احتجاجی تحریک کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا ۔

ہمسائیہ ملک سعودی عرب جو کہ عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے پہلے سے ہی سخت ہراساں تھا اور وہ قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہمسائے میں کم ازکم کسی قسم کی تبدیلی واقعہ ہو،لہذا شروع میں اس نے علی صالح کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی مقبولیت کے فقدان اور زمین میں بدلتے حالات نے سعودی اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں دیا ۔

اس کے بعد سعودی عرب کی کوشش تھی کہ یمن کی عبوری حکومت کے دورانیے کو ہی طول دے اور عبوری صدر منصور ہادی کو ہی قانونی مستقل صدر بنائے رکھے لیکن عوامی احتجاج کے بعد منصور ہادی کو اقتدار چھوڑکر سعودی عرب جانا پڑا اور یہی سے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا آغاز ہوا ۔

صدر منصورہادی کی عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عسکری حملوں کو یمن کی اکثریت نے جارحیت سے تعبیر کی اور یہ وہ نکتہ تھا کہ جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں نے باہمی رسہ کشی کو ترک کرکے اس جارحیت کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کیا یوں انصار اللہ اورسابق صدر علی صالح کے درمیان بھی اتحاد وجود میں آیا ۔
گرچہ علی صالح اور انصاراللہ کے درمیان موجود اس اتحاد کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے کہ جس کی بنیاد صرف اور صرف بیرونی جارحیت کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔

واضح رہے کہ علی صالح کا بیٹا احمد صالح گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے جبکہ بعض زرائع ان کی نظر بندی کے بارے میں خبریں نشر کرتے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات یہ امید رکھتا ہے کہ وہ علی صالح کو ان کے بیٹے احمد کے توسط سے اس بات پر مجبور کرے گا کہ انصار اللہ سے اتحاد ختم کردے اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔

دوسری جانب یمن پر چڑھائی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتی نزدیکیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جو عرب ممالک میں عوامی تحریکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لئے جدوجہد کی صورت میں پہلے سے قائم ہوچکیں تھیں ۔

واضح رہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کو ہٹانے اور مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے تک بن سلمان اور بن زائد کےہی پلان تھے جو کامیابی کے ساتھ کام کرگئے ۔
یمن کی تیسری بڑی قوت اخوان المسلون کی اصلاح پارٹی ہے اصلاح پارٹی بھی قدرے آرگنائز اور نسبی عوامی پذایرائی رکھنے والی پارٹی ہے کہ جس نے سن دوہزار گیارہ میں یمنی عوامی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اصلاح پارٹی کے اخوانی نظریے(دینی سیاسی سوچ) نے اسے بھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے ،عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انصار اللہ کے ساتھ سیاسی و سماجی مقابلے کی ایک حدتک اصلاح پارٹی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے اخوانی بیگ گرونڈ کے سبب بادشاہی نظام پر چلنے والے سعودی عرب اور امارات اسے اپنا پہلا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ مصر میں وہ اخوانی حکومت کو بالکل بھی برداشت نہ کرسکے ۔

چوتھی بڑی قوت جنوبیون کی ہے در حقیقت جنوبی یمن کی علیحدگی پسند تحریک ہے جو انیس نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے وجود میں آئی ہے جن کا مرکزی حکومت پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کے حوالے سےامتیازی رویہ رکھتی ہے اس تحریک میں کچھ قبائل اور سابق فوجی افراد کی موجودگی نیز جنوبی یمن میں شدت پسنداور دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی جیسے القاعدہ اور انصار شریعیت،نے اسے کافی اہمیت دی ہے ۔

عرب تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مخصوص اور کنفیوژ کردینے والے ایجنڈوں نے اس تحریک کی عوامی پذیرائی کو انتہائی کم کردیا ہے ۔

گذشتہ دو سالوں میں اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور اس کے عسکری ونگ کو کبھی اماراتی ایجنڈوں پر عمل کرتے دیکھا گیا ہے تو کبھی مخالفت کرتے ،یوں عملی طور پر یہ تحریک اور اس سے وابستہ عوام شدید کنفوژن کا شکار ہے ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں ہر اس جماعت اور گروہ کا پیچھا کررہا ہے جو مذہبی سیاسی نظریے کا حامل ہو ،ایک طرف جہاں امارات پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کی اس تحریک کی حمایت کررہا ہے تاکہ یمن کے پھر سے دو حصے ہوں ،وہیں پر عملی طور پےیہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا قابل عمل ایجنڈہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے یمن کی تقسیم واضح ہو۔

گرچہ اس کنفیوژن نے یمن کے جنوبی حصے میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے قبائل اب بھی جنوبی یمن کی علحیدگی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یمن کے دیگر حصے اس قسم کی علحیدگی کو برداشت کرینگے ۔

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یمن کی مضبوط قوت انصار اللہ ہی ہے کہ جس نے علی صالح کی پاپولر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد مزید مضبوطی حاصل کرلی ہے۔

سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا ایک اہم مقصد انصاراللہ کی قوت کوختم کرنا تھا لیکن اب قریب ڈھائی سال بعد ہر گذرتا دن سعودی عرب کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کا فوری سرجیکل آپریشن نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ وہ یمن کے آکٹوپس کی گرفت میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے ۔

عرب میڈیا میں نشر ہونے والی لیکس کے مطابق مسند شاہی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والا جوان شہزادہ بن سلمان اب یمن جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے یمن کی شرائط کو ہی کیوں نہ ماننا پڑے ۔

بن سلمان اچھی طرح جان چکا ہے کہ یمن جنگ کو مزید طول دینے کا نتیجہ اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے ،پہلے سے ہی یمن پر چڑھائی کے فیصلے سے نالاں خاندان کے بڑے بن سلمان کی ولی عہدی سے سخت چراغ پاہیں جبکہ قطر کے ساتھ جاری کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔

عالمی سطح پر یمن کی تباہ حال صورتحال اور پھیلتے وبائی امراض کے سبب دباو بڑھتا جارہا ہے اور اب حال ہی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر کی لیک ہونے والی ایمیلز نے بن سلمان سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کہ اس نے یمن میں سویلین کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالی دی ہے ۔


تحریر۔۔۔عابد حسین

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج کے دور میں صاحب میڈیا وہ نہیں جو ایک بہت بڑے میڈیا (جیو،بی بی سی سی این این وغیر) کا مالک ہو اس کے پاس سینکڑوں، ہزاروں لوگ کام کرنے والے ہوں  جیسا کہ پہلے ایسے ہی تها جو خود ہی ایک میسیج،پیام (یاد رہے کہ ہر خبر،ٹاک شو،ڈرامہ، فلم وغیرہ، غرض ہر پروگرام اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے، اس کے اندر کسی نہ کسی چیز کے بارے اطلاع هے ،غلط یا صحیح، جھوٹی یا سچی)تیار کرتے، اس کی پروڈکشن ہوتی ،اور پھر  اس پیام کو اپنے تسلط اور میڈیا پرمکمل انحصاری کنٹرول کے ذریعے یا ایک حد اپنے انحصاری کنٹرول کے ذریعے اس پیغام کو نشر کرتے تهے اور یوں رائے عامہ کو  اکیلے ہی اپنے کنٹرول میں لے لیتے تھے یا اپنے دوسروں ہمفکروں کے ساتھ ملکر رائے عامہ کو کنٹرول کرتے تهے . (ان بڑے بڑے میڈیا کے مراکز کا کنٹرول تها رائے عامہ بنانےپر اور رائے عامہ کو کنٹرول کرنے پر اور اسے اپنی مرضی کی سمت دینے پر ) لیکن آج micro media آنے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے .آج  دنیا میں جس کے پاس ایک اطلاع،ایک اہم پیغام ہے ،ایک ضروری پیغام ہے ،ایک مفید پیغام ہے وہ صاحب میڈیا ہے (مثلا پاراچنار کے دهرنے کو جب mass mediaنشر نہیں کر رہا تها ،اس وقت اس micro media کے ذریعے اس Black out کو توڑا گیا ،justice for parachinar  والا ٹرینڈ   top trend بنا ،لہذا اس وقت ہم صاحب میڈیا تهے ،ہمارے پاس میڈیا تها جس نے mass media  کو شکست دی )

پس آج کے دور میں وہ شخص صاحب میڈیا نہیں جو  mass media کے ایک بہت بڑے set up کا مالک ہو ، وسیع بجٹ رکهتا ہو  ،اس طرح کے کئی وسائل اسکی دسترس میں ہوں ،یا کوئی مشہور  اینکر ہو ، بلکہ آج اس شخص کو ہم صاحب میڈیا کہیں گے جس کے پاس ایک پیغام ہے .البتہ یہ بات واضح رہے کہ پیغام اور اطلاعات  ( اور صرف information  ) میں واضح فرق ہے ضروری نہیں کہ جس شخص کے پاس اطلاعات ہوں ،معلومات ہوں ،اسے آگاہی ہو  اور ایک پیام کے لئے ضروری سارا matter ہو،ضروری نہیں کہ اس کے پاس ایک پیغام بهی ہو ،چونکہ پیام کا matter ابتدائی مواد ہے پیام تیار کرنے کے لئے  (جیسا کہ 1970 کے انتخابات کے بعد جب حالات خراب ہوئے تو ایک صحافی تهے سید اطہر عباس انہوں نے تمام معلومات کو سامنے رکهتے ہوئے ،خبرکی سرخی یہ بنائی کہ  ادهر تم ادهر ہم ، جو آج تک ذہنوں میں ہے )لہذا معلومات کو پیام میں  اس طرح سے ڈهالنا کہ  لوگ اسے دلچسپی سے پڑہیں ،سنیں یا دیکهیں .اس کام کے لئے کچھ چیزوں کا ہونا اور انکی طرف توجہ لازم ہے .اس پیام کی شکل و صورت کیسا ہو  کہ دلچسپی سے پڑها،سنا یا دیکها جائے . اس کے لئے مثلاً  مخاطبین،ناظرین اور سامعین کی درست شناخت لازم ہے (جن کے لئے وہ پیام تیار کیا جا رہا ہے ،جوانوں کے لئے ہے یا بڑہوں کے لئے، خواص کے لئے  یا عوام کے لئے )اسی طرح مخاطب کی ضرورتوں کا پتہ ہو .مختلف قسم کے امکانی پیغامات  میں سے مناسب پیام کا انتخاب اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا اسلوب اور انداز بهی مورد توجہ رہنا چاہئے۔

1. مخاطبین کی درست اور صحیح شناخت  اور ان کی طرف خیرخواہانہ توجہ
میڈیا (پیام ) کی تاثیر اور اثر گزاری  میں اضافے میں سب سے اہم عنصر مخاطب کی شناخت ہے ،یعنی میڈیا مخاطب کو کیا سمجهتا ہے ،یہ بات پیام رسانی کے اسلوب اور اسٹائل میں بہت موثر ہے ۔
2.  مخاطب کی خصوصیات.  قرآن میں مخاطب کی طرف دو طرح کی نگاہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
الف. مخاطب کی طرف فرعونی نگاہ اس طرح کی  نگاہ سے اگر مخاطب کو دیکھا جائے تو مخاطب کو بندہ ، نوکر ،غلام اور رعیت سمجھ کر اس تک پیام پہنچایا جائے گا ،وہی نگاہ جو فرعون کی لوگوں کے بارے تھی
فحشر فنادي ..فقال انا ربكم الأعلي
اس فرعونی نگاہ میں لوگوں کا کام صرف سننا ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ،اس نگاہ میں انسان کا میڈیا کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے جیسا کہ در حقیقت صاحب پیام کے آگے سر جھکانا ہے ۔اس طرح سے مخاطب کو دیکھنا انسان کے سب سے بڑے وصف "خود اپنے لئے کسی چیز کو خود اپنی مرضی سے اختیار کرنا ،اور حقیقت کو تلاش کرنا " سے منافات رکھتی ہے ،اس طرح کے انداز میں انسان کو دیکھنے کی صورت میں پھر انسان تک وہ پیام بهیجا جائے گا جس سے وہ طاقت ور لوگوں کے سامنے تسلیم محض ہو جائے۔

فاستخف قومه فأطاعوه إنهم كانوا قوماً فاسقين

 پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک (خفیف،هلکا اندر سے کھوکھلا )کر دیا اور انہوں نے فرعون (جیسے پست ) کی اطاعت کر لی وغیرہ یعنی فرعون نے ان سے ان کی انسانی کرامت،عزت نفس چهین لی تهی ،وہ بےوقار ،اور اندر سے کھوکھلے کر دئے گئے تهے ۔

ب.  مخاطب کی طرف الہی نگاہ ،اس  نگاہ میں انسان کی کرامت اور اسکی انسانیت کا خیال رکها جاتا ہے ،لوگوں کو رعیت ،نوکر احقر غلام سمجھ کر پیام نہیں دیا جاتا، خطاب نہیں کیا جاتا ،صاحب پیام  اپنے آپ کو لوگوں کی قوت سماعت اور قوت بینائی کا مالک نہیں سمجهتا ، بلکہ اسے اپنے پیام کی حقانیت پر اس قدر ایمان رکهتا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ انسان کی سماعت اور بینائی کی طاقت جس قدر آزاد ہونگے اس کا پیام ان کے لئے دیکهنے،سننے اور پڑھنے میں آور جذاب ہو جائے گا ،اس  نگاہ میں مخاطب  کی فطرت پیام کو درک کرنے اور اسے قبول کرنے کی اساس اور بنیاد (اور زمینہ ) ہے،انسان کے اپنی مرضی سے کسی چیز کو اپنانے ،اختیار کرنے ، اس کی حق اور حقیقت کے جستجو کرنے کی خصوصیت اور وصف کو محترم سمجھا جاتا ہے۔

فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه أولئک الذین هداهم الله و أولئك هم أولو أﻷلباب
 پس میرے بندوں کو بشارت دو ،وہی بندے جو (دوسروں کے) سخن کو سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین  (بات ) کی پیروی کرتے هیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے  اور یہ صاحبان عقل ہیں ۔

اس نگاہ میں مقصد مخاطب کو غلام بنانا ،اپنا بندہ بنانا ،یا اس کو اپنے سامنے تسلیم کروانا نہیں .بلکہ  مقصد اس کو جهل اور نادانی کی ان ہتھکڑیوں اور زنجیروں سے آزادی دلانا ہے جن میں وہ جکڑا ہوا ہے ۔

اس نگاہ میں صاحب پیام اپنے آپ کو مخاطب کے  دل و دماغ اور اس کی سوج اور فکر پر مسلط نہیں قرار دیتا بلکہ اپنے آپ کو اس کے  ساتھ  برابر قرار دیتا ہے
اس نگاہ میں انبیاء کرام اپنے آپ کو لوگوں کا ارباب اور انکی فکر اور سوچ پر حاکم نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو مخاطبین کے بهائی ،انکے  ساتهی اور خدا کی طرف سیر تعالی ،تکامل میں ہمراہ کے پر بیان کرتے ہیں ۔

إ ذ قال لهم اخوهم نوح الا تتقون /إني لکم رسول امین/فاتقوا الله و أطيعون .....الخ جب انکے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم پرہیزگارنہیں  بنو گے  ......
فذکر إنما أنت مذکر ،لست علیهم  بمصیطر
بس تو تذکر دے کہ تو صرف تذکر دینے والا ہے .......تو ان پر مسلط نہیں ہے (کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے)
اس نگاہ کی روشنی میں میڈیا کی ذمہ داری ،"ذکر" یعنی تذکر دینا هے  ،اس وقت میڈیا (پیام ) یعنی "مذکر"

2. مخاطب (سامعین ،ناظرین، قارئین )کی ضرورتوں کا صحیح علم اور شناخت انسان کی سب سے اہم ضرورت اس کی "آگہی" یا آگاہی ہے .شیاطین ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ انسانوں کی آگاہی کا راستہ روکیں ،قدیم اورماڈرن جاہلیت اپنی بقا اور زندگی انسانوں کی "لاعلمی " اور نادانی اور جہالت میں سمجھتے ہیں ۔

وقال الذين کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فیه لعلکم تغلبون
کافرون نے کہا : اس قرآن کو نہ سنو ؛اور قرآن کی تلاوت کے دوران لغو (بیہودہ) باتیں کرو ،تاکہ شاید تم غلبہ پا لو۔

قدیم جاہلیت لوگوں کو منع کر کے جاہل رکھتی تهی اور ماڈرن جاهلیت information کی bombardment کے ذریعے انسانوں کو حقائق تک رسائی سے محروم کرتی ہے .یعنی یہ قدیم جاہلیت  اور ماڈرن جاہلیت لوگوں کی آگاہی اور بصیرت  ، حقائق اور صحیح معلومات  تک رسائی کا راستہ روکنے کے لئے کهبی لا تسمعوا لهذا القرآن کہتے ہیں اور کبھی اس  نامناسب  اور غیر ضروری معلومات کی اس قدر یلغار کرتے ہیں  تا کہ انسانی ذہن اس قدر مشغول ہو جائے کی حق بات تک رسائی سے محروم ہو جائے :"والغوا فيه"

قدیم جاہلیت یہ کوشش کرتی تهی کہ لوگ جاہل رییں اور لوگ کسی چیز کو نہ جانیں ( جھل بسیط کا شکار یوں ) اور ماڈرن جاہلیت کی کو شش یہ ہے کہ لوگ یہ نہ جانتے یوں کہ وہ نہیں جانتے  ( جهل مرکب کا شکار یوں ) آج information کی bombardment ،انسانوں کو انگنت پیغامات کا اسیر کرنا ،یہ ایک ایسا  میڈیائی استعمار ہے جو انسان کے دل و دماغ اس کی سوچ اور فکر کو تسخیر کر کے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ،اور انسان کے سرمایہ معرفت و شناخت کو چهین لیتا ہے (پھر جیسے وہ چاہتے ہیں ویسا ہی سوچتا ہے،اس کے افکار اور تفکر بهی انہی کی منشا ءکے مطابق ہو جاتا ہے )

ماڈرن جاہلیت اپنے شیطانی پیغام کو  celebrities کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں .ان کے ذریعے اپنی مرضی کے پیغام لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچاتے ہیں ،جو نہ صرف یہ کے لوگوں کے عقل و شعور کو بیدار نہیں کرتے  بلکہ رائے عامہ کی بےوقوف اور حماقت کا سبب بنتے ہیں۔

اس صورت میں انسان کی آگاہی حاصل کرنے کی عطش ( ضرورت )کو مصنوعی طور پر بجھایا جاتا ہے ،لوگ یہ سمجھتے هیں کہ ان کے پاس مثلاً  دنیا کے  بہت زیادہ نالج اور معلومات  ہیں ،جبکہ information کی bombardment کی وجہ سے بہت سے انتہائی اہم  واقعات اور حوادث یا تو اپنی اہمیت کهو  بیٹهتے ہیں ،جو ممکن ہے کہ اس قدر اهم ہوں جو اسکی زندگی اور اس کے فیوچر کو بدل کے رکھ دیں۔

تحریر ۔۔۔۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
سوشل میڈیاکے ایک گروپ میں ہونے والی گفتگوسے اقتباس

وحدت نیوز(آرٹیکل)انسان دوستی کا عالمی دن (Humanitaryian day) 19اگست کو ہر سال اقوام متحدہ اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد انسانی فلاح و بہبود کیلئے متحرک افراد اور انسانی جذبے کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکنان کو سراہانا اور انکا خیال رکھنا ہے۔اقوا م متحدہ کی جانب سے 19اگست کو انسانی دوستی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ دسمبر 2008ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔19اگست ہی تھا جب 2003میں عراق کے شہر بغداد میں کینال ہوٹل پر بم حملے میں اقوام متحدہ کے سفیر سر جیو ڈی میلو Vieiraسمیت 22افراد ہلاک ہوئے تھے۔سر جیوعراق میں اقوام متحدہ اعلیٰ ترین نمائندے تھے۔اس واقعہ کے پانچ سال بعدجنرل اسمبلی نے عالمی انسانی ہمدردی کے دن کے طور پر 19اگست کو قرارداد منظور کی۔ بعد ازاں ہر سال انسانی بنیادوں پر کمیونٹی عالمی سماعت WHDیادگار بنانے کیلئے منظم کیا،یہ دن انسانی امداد فراہم کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور سلامتی کے قیام کی وکالت ،بقاء،بہبود اور بحرانوں سے متاثرہ افراد کے وقار کیلئے کام کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔خلق خدا کی بھلائی کی سر گرمیوں کے حوالے سے بنیادی سمجھ بوجھ کو عام کرنے کے ساتھ ان سر گرمیو ں میں شریک افراد کا احترام ،اور جو لوگ کار خیر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے ان کو یاد بھی کیا جاتا ہے۔یہ دن دکھی انسانیت کی خدمت کر نے والوں کے نام ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل ہر ممکن طور پر دکھی او ر ناچار انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں مردو زن انسانیت کیلئے کام کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں کچھ تو بعض اوقات اپنے مقاصد کے حصول میں اپنی جان بھی کھو دیتے ہیں ۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں جو اس راہ میں جان دینے کوعین حیات خیال کرتیں ہیں ۔
                    
                طلاطم ہائے بحرزندگی  سے  خوف  کیا   معنی
                جو دیوانے ہیں وہ موجوں کو بھی ساحل سمجھتے ہیں

دراصل ایسے لو گ اپنی قربانیوں سے ایک جہاں کوحیات جادواں بخشتے ہیں اور خود بھی زندہ جاوید رہتے ہیں ۔

19اگست انسان دوست عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصد ان ہیروز اور انکی قر بانیوں کو یاد کرنا بھی ہے۔انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں بین الاقوامی تعاون کی ضرور ت اور اسکی اہمیت کو اجاگر کرنا، عالمی سطح پر انسان دوستی کے حوالے سے شعور کی بیداری بھی اس دن کے موضوعات میں شامل ہے۔ یہ دن مختص ہے تمام انسان دوست فعال کارکنوں کے نام اور اس سلسلہ میں ہونے والی تمام تر کاوشوں ، پروگرامز سے آگاہ ، جاری سر گرمیوں سے آگاہ کرنے والوں کیلئے۔

آج دنیا بھر میں بہت سی کمیونٹی اور بہت سی آرگنائزیشن لوگوں میں آگاہی پھیلانے کیلئے اشتہارات اور معلوماتی مواد کا سہارا لیتی ہیں اور پریس کے زریعے انسانیت کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی کوشش بھی کرتیں ہیں ۔ انسان دوستی کا عالمی دن غریب اور ضرورت مندوں کی مدد اور تعاون کے عزم کے نام ہے۔ہر انسان کو چاہئے کے سوچے اور اپنی صلاحیت کے اعتبار سے انسانیت کی مدد کریں ۔یہ سب کچھ تعلیم اور شعور سے ممکن ہوگا۔اس سلسلہ میں ان ممالک کے حالات کا مطالعہ اور جائزہ ضروری ہے جہاں حقیقتًا جنگ وقوع پزیر ہوئی ہو اور انکی بد قسمتی کا مشاہدہ ضروری ہے تاکہ عام آدمی دکھی انسانیت کی خدمت کرنے پر خود کو تیا ر کر سکے۔

قارئین انسان تو دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کم کم ہی پیدا ہوتی ہے اگر ہم اس بات کو دیکھیں تو واقعی یہ بالکل ٹھیک بات ہے کیونکہ پاکستان میں 21کڑوڑ انسان آباد ہیں عبدالستار ایدھی ایک ہی تھا جو سچے دل اور اچھی نیت کے ساتھ اپنا کام بنا کسی لالچ کے سر انجام دیتے تھے۔ چھیپا ،رتھ فائو جیسے نام بہت کم ہیں ۔ ہاں دنیا میں روشنی کی بہت سی کرنیں موجود ہیں جو راستے کو روشنی کرنے کا کام دے رہی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے جو کام وہ سب کر رہے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں اس کے لئے سچ کی اور ہمت کی ضرورت ہے اور بس۔۔۔


تحریر ۔۔۔سلمان  احمد قریشی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree