وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ علاقوں میں جنگ لے جانے کی حکمت عملی
اس منصوبے کو اس طرح آگے بڑھایا جائے گا:
۱۔ بعثی لیڈرز اور متشدد سنی گروہوں (القاعدہ، داعش) کے درمیان مختلف نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ حکومت کے حصول کے علاوہ شیعوں کی مخالفت پر یہ سب گروہ آپس میں متفق ہیں۔
۲۔ اس معرکے کے لیے دو سال سے تیاری جاری ہے۔ جنگ کو عراق کے وسطی اور جنوبی علاقے تک لے جانا ہے۔ اس سے "معرکہ کبری" کا نام دیا جائے گا اور اس کے دو مرحلے ہوں گے۔ پہلے مرحلے کو "صرخۃ الحق" اور دوسرے کو "صرخۃ الامام " کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ بڑی بڑی عراقی لیڈر شپ اس وقت سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دورے کر رہی ہیں اور یہ لیڈرز ان ممالک سے غیر محدود امداد وصول کر رہے ہیں۔
۴۔ حالیہ دنوں میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں جو مظاہرے اور احتجاجات دکھائی دئیے وہ کسی خاص مطالبے کی خاطر نہیں تھے، بلکہ پری پلانڈ تحرک تھا۔ یہ انہی حالات کے مشابہ ہے جب داعش کے قبضے سے پہلے بڑے لیول پر مظاہرے ہوئے تھے جو عراق کے ایک تہائی علاقوں تک پھیل گئے تھے۔ لیکن طریقہ کار مختلف تھا۔
۵۔ یہ مظاہرے وسطی اور جنوبی علاقوں تک محدود رہیں گے۔ مقصد لوگوں کو موجودہ حکومت سے متنفر کرنا ہے تاکہ دھرنوں تک کی نوبت آئے اور پھر حالات خرابی کی طرف نکلیں۔ اس مرحلے کو معرکہ کبری کا نام دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزارت دفاع مختلف عناصر کی علیحدگی شروع ہوگی۔
۶۔ جو منصوبہ بنایا گیا ہے اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ داعش کو اس کے تمام عناصر (عربی، عراقی، اجنبی) وادی حوران میں منتقل کیا جائے گا ، اور پھر جنگ کو وسطی اور جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔
۷۔ مظاہروں اور دھرنوں کے بعد والے مرحلے میں حالات کو اچانک خراب کیا جائے گا۔ ایک ساتھ چار مختلف صوبوں میں جنگ چھڑ جائے گی۔نخیب اور بابل کے شمالی علاقے سے داعش، حلہ اور کربلا میں داخل ہوگی ۔ وزارت دفاع فورا بغداد کی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود لے گی اور پھر بڑی آسانی کے ساتھ بغیر جنگ کے بغداد کو ان کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خفیہ پلان بھی موجود ہے جس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ان سب کے علاوہ قوی امکان ہے آنے والے دنوں میں داعش کا نام تبدیل کیا جائے گا۔ ترکی سے مختلف خفیہ راستوں سے متعدد علاقوں میں اسلحے کی منتقلی جاری ہے جن میں اسمگلنک کے سمندری راستے بھی شامل ہیں۔
معلومات بتا رہی ہیں کہ ترکی میں مختلف ٹریننگ سنٹرز ہیں جہاں سے منحرف جماعتوں کو جن میں "صرخیہ" "یمانیہ" اور "جند السماء" جیسی تنظیمیں شامل ہیں ، کو ٹریننگ دینے کے بعد جنوبی علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہدف ان کا دینی اور سیاسی لیڈرز کو ٹارگٹ کرنا اور مظاہرات ، احتجاجات کے ذریعے سڑکوں کو مشغول رکھنا اور اپنےاہداف کا حصول ہے۔
جو لیڈرز اس فائل کودیکھ رہے ہیں:
۱۔ جنرل زیاد عجلی، جن کو زیاد موسوی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی کی دھائی میں پہلے بصرہ میں اور پھر عمارہ میں سیکیورٹی آفیسر تھے۔ان علاقوں میں اس کے وسیع تعلقات ہیں۔
۲۔ محمد رجب حدوشی۔ حسین کامل کا معاون ہے اور اس کے بعد دوسرے درجے کا اہم شخص ہے۔
۳۔ احمد رشید
۴۔جنرل فاضل حیالی
۵۔ ابو محمد عربی۔ قطر کی ایجنسی کا بندہ ہے۔
۶۔ جنرل عیال۔ صدام کے دور کا سابق آفیسراور اس کا گارڈ۔
۷۔ سعودی عرب اور ترکی کے چند دیگر بڑے اہلکار۔
اس پلان میں ہے کہ (جنوہ، تل ابیض، درنہ، یلوہ، اسبارکہ) کے علاقوں میں دہشت گردی کے کیمپ بنانا۔
حملے والے دن کو "صرخۃ الحق" یعنی حق کی چیخ کا نام دیا ہے۔
بصرہ اور ناصریہ کے علاقے کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ (انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔)
ترجمہ وترتیب۔۔۔سید عباس حسینی
وحدت نیوز(آرٹیکل) کھیل تو کھیل ہوتا ہے، تاہم کھیل میں بھی اصولوں کی رعایت کرنی پڑتی ہے، بے اصول کھلاڑی کو سزا اور جرمانہ دونوں ہو سکتے ہیں، البتہ آج کل انسانی سماج میں انسانی جانوں اور انسانی احساسات و جذبات کے ساتھ کھیلنے والوں کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے والوں کو بھی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
کئی سالوں سے افغانستان اور وزیرستان میں انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کتنے ہزار انسانوں کا خون خاک میں مل گیا ہے اور کتنے لاکھ بے گھر ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اس منطقے میں انسان کو انسان پر رحم نہیں آیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز ضلع صیاد کے علاقے مرزا اولانگ میں غیر انسانی طریقے سے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا کر اور گردنیں کاٹ کر پچاس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اس سانحے پر عالمی انسانی برادری نے اسے ہزارہ کمیونٹی کا قتل کہہ کر اپنی طرف سے تعزیت کر دی ہے اور بس ۔۔۔
اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ آج کی مہذب دنیا میں انسان کی کتنی سی اوقات رہ گئی ہے، یقین جانئیے اگر پچاس افراد کے قتل کے بجائے کہیں پر تیل کے پچاس کنووں کو آگ لگا دی جاتی تو ہماری اس سرمایہ دار برادری کی آہ و زاری قابل دید ہوتی۔
جب کسی کو جلانے کی بات ہوتی ہے تو بے ساختہ آرمی پبلک سکول پشاور کی ان خواتین اساتذہ پر کئے جانے والے ظلم کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے جنہیں سکول کے بچوں کے سامنے آگ لگا دی گئی تھی۔[1]
دوسری طرف ان دنوں العوامیہ میں شہری آبادی پر فائرنگ اور گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات میں بھی عام شہریوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے، جبکہ یمن اور بحرین میں کشت و خون اپنی جگہ پر مسلسل ہو رہا ہے ۔
انسان کشی کا یہ دیو عراق اور شام سمیت کتنے ہی گھروں کو ویران کرچکا ہے، لیکن ہم میں یہ جرات نہیں کہ ہم اس انسان کشی کے خلاف آواز اٹھائیں۔
افغانستان میں سعودی سفارتخانے کے ناظم الامور شاری الحربی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قطر افغان طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی سربراہی کر رہا ہے۔ ثبوت سعودی عرب کے پاس موجود ہیں۔ [2]اس طرح کے الزامات گزشتہ چند ماہ سے طرفین ایک دوسرے پر مسلسل لگا رہے ہیں لیکن چونکہ دہشت گرد انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں لہذا کوئی بھی عالمی ادارہ ان الزامات پر تحقیقات کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔
اسلامی دنیا میں خصوصاً عرب ریاستوں میں انسانی جانیں مسلسل تلف ہو رہی ہیں کچھ لوگوں کو دہشت گردی کے ذریعے اور کچھ کو مقدمات کے ذریعے مارا جارہا ہے۔ ابھی گزشتہ روز بھی مصری عدالت نے اخوان المسلمین کے 12 ارکان کو سزائے موت اور 157 افراد کو عمر قید کی سزا بھی سنائی ہے۔[3]
جمہوریت اگر ہر انسان کا پیدائشی حق ہے تو پھر عرب ممالک میں یہ برادر کشی، زبردستی، دہشت گردی، مار دھاڑ اور کشت و خون کیوں؟ اور اس کشت و خون پر جمہوریت کے ٹھیکداروں کی خاموشی کیسی!؟
جو حال بین الاقوامی سیاست کا ہے وہی ہماری مقامی سیاست کا بھی ہے۔ چونکہ ہمارے سیاستدان مجوعی طور پرامریکہ اور مغربی کلچر سے ہی متاثر ہیں لہذا ہمارے ہاں بھی مالی کرپشن اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی تحقیقات بھی ہوتی ہیں اور ایک منتخب وزیراعظم بھی نا اہل قرار پاتا ہے لیکن دوسری طرف انسانی جانوں سے کھیلنا ایک معمولی سی بات ہے، سانحہ ماڈل ٹاون ہو یا کوئی اور سانحہ کسی کی نااہلی تو دور کی بات ہے کوئی استعفی تک نہیں دیتا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کے بے حس تمدن کی پروردہ جمہوریت بھی بے حس ہے، یہ بے حس جمہوریت بھی بین الاقوامی سرمایہ داروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔
اگر کسی تیل بردار جہاز میں سوراخ ہوجائے یا کہیں کسی تیل کے کنویں میں آگ لگ جائے اور یا پھر نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کٹ جائے تو عالمی سطح پر کہرام مچ جاتا ہے لیکن اگر کہیں نہتے انسانوں کو جلاکر بھسم کردیا جائے،سول آبادیاں ہجرت پر مجبور ہوجائیں ، شہر لاشوں کی سڑاند سے بھر جائیں ، لوگوں کو جمہوریت کا نام لینے پر سولی پر لٹکایا جائے تو عالمی برادری اپنے حاشیہ برداروں سے اتنا بھی نہیں کہتی کہ جمہوریت قبرستانوں پر سجانے کے لئے نہیں ہے ، یہ عوام کا پیدائشی اور فطری حق ہے لہذا جمہوریت کا تقاضا کرنے پر کسی بھی قسم کی قتل و غارت ممنوع ہے۔
کاش ہمارے سمیت عالمی برادری جتنی دلچسبی ڈالر اور یورو کے اتار چڑھاو اور تیل کے کنووں میں لیتی ہے اگر اتنی دلچسبی انسانی اقدار اور انسانی حیات کی بقا میں لے تو بلا شبہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے ۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ صدی اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں سے ایک سنہری صدی ہے ٍ جس میں اسلامی تحریکیں میدان میں آ ئیں اورا اسلام ایک جامع نظام کی شکل میں روشناس کروایا گیا ٍ۔امام خمینی کی قیادت میں عظیم انقلاب اسلامی کے بعد امت مسلمہ کی بیداری کا زمانہ شروع ہواکہ جس نے نہ صرف امت مسلمہ کو بلکہ اقوام عالم کو شعور اور آگاہی سے نوازا۔
تحریک انقلاب اسلامی میںسب سے بڑا کردار خود امام ِانقلاب کا ہے ٍ جن کی عرفانی اور الٰہی شخصیت نے علم و بصیرت، جرات ومتانت اور دور رس نگاہوں نے پوری دنیا کو ایک نئی امنگ دی اور زندگی ایک نیا شعور و ولولہ عطا کیا ٍ۔امام خمینی کو اپنی تحریک کے لئے بہترین یار و انصار بھی نصیب ہوئے جن پہ انہوں نے ناز بھی کیا ہے اور فرمایا جیسے اصحاب مجھے اس زمانے میں نصیب ہوئے نہ سی نبی و رسول کو ایسے اصحاب ملے اور نہ ہی کسی امام یا ولی کو ایسے ساتھی نصیب ہوئے جو سب کے سب بابصیرت باہمت اور راہ امام پہ مکمل یقین محکم رکھنے والے اصحاب تھے ۔ان اصحاب میں ایران میں شہید مطہری،شہید بہشتی اور شہید رجائی جیسے عظیم سپوت تھے اور عراق میں شہید باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ شہیدہ بنت الھدی کہ شہید باقر الصدر نے فرمایا تھا ’’ایہا الناس ذوبوا فی الخمینی کما ہو یذب فی الاسلام‘‘
اے لوگو امام خمینی کی ذات میں کچھ اس طرح ضم ہو جائو جیسے وہ اسلام میں میں ضم ہو گئے ۔
لبنان میں امام خمینی کو شہید عباس موسوی اور شہید راغب حرب جیسی شخصیات نصیب ہوئیں جنہوں نے اسلامی تحریک کی اپنے پاکیزہ خون کے ساتھ آبیاری کی اور شجرہ طیبہ کو دوام بخشا جس سے یہ شجرہ ’’ توتی اکلھا کل حین‘‘ کی حقیقی شکل اختیار کر گیا ٍ۔
اصحاب امام خمینی اور تحریک اسلامی کی عظیم شخصیات میں سے ایک شخصیت پاکستان کی سر زمین پہ پروان چڑھنے والے فرزند اسلام و انقلاب شہید علامہ عارف الحسینی ہیں جنہوں نے مختصر عرصے میں اپنی ملت کی قیادت کچھ اس انداز کی کہ ان کی شخصیت پوری امت مسلمہ کے لئے نمونہ عمل بن گئی ۔
امام خمینی جیسی دقیق اور بہت ہی محتاط شخصیت جنہوں نے زندگی میں اگر کسی کو کوئی لقب دیا بھی تو بہت سوچ سمجھ کر اورپھر اپنی وصیت میں یہ تاکید بھی فرما دی کہ میں نے اگر زندگی میں کسی کو کوئی لقب یا عنوان دیا ہے تو وہ اسی وقت تک ہے جب تک وہ فرد اپنی صلاحیتوں کے ساتھ باقی رہے لیکن اگر فاقدالشرائط ہو جائے تو ان القاب یا عناوین کی کوئی حیثیت نہیں ۔امام امت نے شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت پہ آ یت اللہ جنتی کو ایک وفد کے ہمراہ پاکستان بھیجا اور پھر چہلم شہید علامہ عارف الحسینی کی ناسبت سے ملت پاکستان کو تعزیت اور تسلیت کے طور پر ایک مفصل پیغام بھیجا ۔اگرچہ قائد شہید کی شخصیت و خدمات کو مختلف اعتبارات سے پاکستان اور بیرون ملک روشناس کروایا گیا ٍ لیکن امام خمینی کی نگاہ میں شہید کا کیا مقام تھا اسے درک کرنا انتہائی اہم ہے تاکہ شہید کو ان کے امام اور مقتدا کی نگاہ میں دیکھا جاسکے ۔ آئیے ہم امام کے پیغام کو اپنی ملت کے لئے بغور مطالعہ کریں تاکہ یہ پیغام ہمارے مستقبل کے لئے راہ گشا بن سکے ،ااس پیغام میں پاکستان کے علماء کرام اور ملت پاکستان کو مخاطب کیا گیا تھا گویا یہ پیغام کسی مخصوص طبقے کے نام خط نہیں تھا ۔دوسرا یہ کہ یہ خط ان خطوط کے جواب میں تھا جو شہید کی شہادت کی مناسبت سے تسلیت کے لئے امام کو بھیجے گئے تھے۔
القابات شہید حسینی ؒ :
امام خمینی ؒنے کچھ مخصوص القابات کے ساتھ شہید کو یاد فرمایا ٍ :
’’وفا دار مکتب اسلام‘‘
جن میں پہلا دین اسلام کے وفادار ساتھی کا لقب ہے یعنی شہید الحسینی اسلام سے کئے گئے ہر عہد کے ساتھ وفا کرنے والے والی شخصیت کا نام ہے ۔دوسرا لقب محروموں اور مستضعفین کا دفاع کرنے والی شخصیت ہے کہ جنہوں اپنی زندگی محروموں اور ستمدیدہ قوموں کے دفاع میں بسر کردی ۔علامہ شہید نے قیادت سے پہلے اور قیادت سنبھالنے کے بعد مسلسل محروموں اور مظلوموں کا دفاع کیا ٍ۔
’’فرزند ِراستین سید و سالار ِشہیدان‘‘
اس کے بعد کا عنوان بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور وہ امام نے لکھا ’’فرزند راستین سید و سالار شہیدان‘‘ یعنی شہید علامہ عارف الحسینی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حقیقی فرزند تھے ٍ اس جملے سے شہید بزرگوار کی عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نام کے بھی عارف حسین اور کردار و عمل میں عارف حسین بن گئے اور اگرچہ وہ سید ہونے کے ناطے صلب امام حسین علیہ السلام میں سے ہیں لیکن یہاں امام امت کی مراد صرف ان کا سید ہونا مراد نہیں بلکہ وہ حسینی جس نے خط سرخ کربلا پہ قدم رکھا اور خون کا اخری قطرہ بھی راہ کربلا میں فدا کردیا تو وہ امام حسین علیہ السلام کے حسبی اور نسبی فرزند بن گئیِ ٍ
شہادت علامہ عارف الحسینی اور امت مسلمہ پہ اس کااثر:
اگرچہ اس حادثہ نے تمام امت مسلمہ بالخصوص علماء با عمل کے قلوب کو زخمی کر دیا ہے معلوم ہوتا ہے یہ حادثہ کچھ ایسا حادثہ تھا جس نے امام امت جو گذشتہ اسلامی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھے جیسی ہستی کو رنجیدہ خاطر کر دیا اور خمینی بت شکن سوگوار ہو گئے۔
شہادت علماء باعمل کی میراث:
امام نے فرمایا کہ علامہ عارف حسینی کی شہادت کوئی غیر متوقع مسلئہ نہیں تھا بلکہ ہمارے لئے، دیگر مظلوم اقوام عالم اور پاکستان کی مظلوم عوام جس نے استعمار کے مظالم کو برداشت کیا ہے اور اپنی جدو جہد ومبارزے کے ساتھ انہوں نے استقلال اور آزادی حاصل کی ہے یہ شہادت کوئی نئی بات نہیں تھی-
خصوصیت ملت پاکستان:
امام خمینی نے اس پیغام میں پاکستان کی قوم کو ایک عظیم ملت کہہ کر تعبیر کیا اور فرمایا اس ملت نے استعمار اور استکبار کا مقابلہ کیا اور اپنے استقلال کے لئے جہاد و شہادت کا راستہ اختیار کیا-آگے چل کے امام فرماتے ہیں پاکستان کی قوم ایک شریف، مسلمان اورواقعی ایک انقلابی اور اسلامی اقدار کے ساتھ وفادار قوم ہے - معمولا ہمارے زعما اور علما کبھی اس نقطے سے غافل ہوتے کہ ہم اپنی قوم کی قدر کو جانیں اور اس کی عظمت کو سلام کریں -پاکستان کی قوم اقوام عالم میں سے بہترین قوم ہیں لیکن اے کاش ہمارے رہنما قوم سے متعلق بد گمانی سے نکل کر خود اپنے متعلق غور کریں-امام خمینی فرماتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے ساتھ ہمارے انقلابی 'عقیدتی اور ثقافتی روابط ہیں -
علامہ عارف الحسینی کی امتیازی خصوصیت:
علامہ عارف حسینی جیسی شخصیات کیلئے اس سے بڑھ کرسعادت اور بشارت کیا ہو گی کہ وہ محراب عبادت سے پرواز کرتے ہوئے’ ’ارجعی الیٰ ربک‘‘ کو مشاہدہ کریں اور پروردگار کی اس آواز پر کہ ’’میرے بندے تو میری طرف لوٹ کر آجا اور اے نفس مطمنہء تو اپنی رضا کو رضوان الہی پہ قربان کر کے شہادت کے جام سے سیراب ہو جا-ان کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا شہادت تھی اور وہ اس دنیا اور ما فیہا سے راہ شہادت کے ذریعے آخرت میں وارد ہونا چاہتے تھے۔
علما ربانی اور عالم نما میں فرق:
علماء ربانی اور اپنے عہد و پیمان پہ کاربند علمااوربے عمل ملاؤں میں فرق یہ ہے کہ دشمنان اسلام اور بین الاقوامی درندوں کی گولیاں سب سے پہلے علماء حقہ اور اسلام کے ان مبارز علماء کے سینے کو چھلنی کرتے ہیں- سب سے پہلے دشمنان دین کے زہر ٓالود تیروں کا نشانہ انہی کو بنایا جاتا ہے اور دشمن کو ان جیسے مجاہد افراد کا وجود ہر گز قابل برداشت نہیں ہوتاجبکہ بے دین ملا ںہمیشہ دنیا پرستوں کی حمایتاور باطل کی ترویج میں مشغول رہتے ہیں اور ان کا کام ظالم حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے-یہ ظالم حکمرانوں کے ثنا خوان اور ان کی تائید کرنے والوں میں سے قرار پاتے ہیں-
امام فرماتے ہیں اپ کبھی کسی درباری ملا ںیا تکفیری مولوی کو ظلم و کفر و شرک کے مقابلے میں کبھی نہیں پائیں گے بلکہ ان کا کام قوموں کو آپس میں لڑانا اور تفرقہ پھیلانا ہے-یہ درباری ملاںکبھی بھی بڑی طاقتوں جیسے امریکہ یا روس وغیرہ کے مقابلے میں قیام نہیں کریں گے-
اس کے مقابلے میں اگر آپ ایک وارستہ عالم دین ، کہ جو خدا اور مخلوق خدا کی خدمت کا عاشق ہو کو غریبوں اور ستم دیدہ لوگوں کی حمایتی ہو اسے ایک لمحے کے لئے بھی آرام سے نہیں بیٹھتے نہیں دیکھیں گے اور جب تک وہ کفر و شرک کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے اسے پرسکون نہیں پائیں گے ۔
علامہ عارف الحسینی ایسے ہی انقلابی اور مجاہد شخصیات میں سے تھے-جنہوں اپنے تین سے چار سال کے عرصے میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا ہیُ اور بہت تھوڑی مدت میں وہ پاکستان کی شیعہ قوم کے ہر دلعزیز اور محبوب قائد بن گئے-آج بھی ملک کے طول و عرض میں کسی علاقےمیں جائیں تو لوگ کہتے ہیں شہید قائد ہمارے پاس بھی آئے تھے-یہاں سے ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ آخر ایران میں مطہری اور بہشتی اور شہداء محراب اور دیگر علما اور عراق میں باقر الصدر اور حکیم اور لبنان میں راغب حرب اور کریم اور پاکستان میں عارف الحسینی اور دیگر دنیائے اسلام میں جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھنے والے علما ہیں انہیں کیونکر سازشوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے-
شہید کی فکر کو زندہ رکھنا :
امام فرماتے ہیں کہ ملت پاکستان کو چاہیے کہ وہ فکر شہید راہ حق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رکھیں ایسا نہ ہو کہ شیطان کی ناپاک اولاد اسلام ناب محمدی ﷺ جو کہ اسلام کی حقیقی تصویر ہے کے رستے کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں یعنی اگر شہید کی فکر کو بھلا دیا گیا توشیطان کے چیلے ہمیں دین حقیقی کے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے-آج اس زمانے میں مشرقی اور مغربی استعمار عالم اسلام کے سامنے روبرو جنگ کرنے سے عاجز آ چکا ہے کہ وہ ایک طرف تو ان عظیم انقلابی شخصیات کو راستے سے ہٹاتے ہیں اور دوسری طرف امریکی اسلام کی فکر کو متبادل فکر کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی دشمن صرف علامہ عارف الحسینی جیسوں کو قتل نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے متبادل اپنا من پسند اسلام بھی متعارف کرواتا ہے لیکن اگر قومیں بیدار رہیں اور اپنے شہدا کے راہ کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کریں تو دشمن ہر گز اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو گا-
اسلام حقیقی اور اسلام امریکی میں واضح فرق:
امام خمینی کی ایجاد کردہ اصطلاحات میں سے ایک اسلام ناب محمدی یعنی حقیقی اسلام جو پیامبر گرامی اسلام پہ نازل ہوا اس اسلام میں اور ایک وہ اسلام جو حکومتوں اور حکمرانوں کے بل بوتے پہ پروان چڑھا بہت فرق ہے-اسلام حقیقی پابرہنہ اور مظلوم و مستضعف اور ستم دیدہ اقوام کا دین ہے جبکہ امریکی اسلام مقدس مابوں اور رفاہ طلب، پتھر دل، خدا سے دور سرمایہ داروں کا مذہب ہے۔ پس ان خصوصیات سے دو مکاتب کو پہچاننا ضروری ہے- جہاں پہ بھی رفاہ طلبی اور مقدس مابی اور سرمایہ داروں کی کاسہ لیسی پائی جاتی ہو ۔یہ امریکی اسلام ہے جو مظلوم اقوام کو محروم رکھ کر اسے ناباب لوگوں کے ہاتھوں میں مسلم اُمّہ کی نمائندگی دینا چاہتا ہے تاکہ شاہ فہد، آل سعود جیسے اسلام کے ٹھیکہ دار بن جائیں اور محروم اقوام کا خون چوستے رہیں-ایک مکتب میں کبھی دو متضاد فکریں باہم عمل نہیں کر سکتیں جبکہ امریکی اسلام اور حقیقی اسلام دو متضاد افکار ہیں جن کا اقوام عالم کو پہچاننا بہت ضروری ہے-اگر ان دو افکار کو ملا نے کی کوشش کی گئی تو اسلام حقیقی کا چہرا مسخ ہو کر رہ جائے گا-
مدارس دینیہ اور حوزہ ہای علمیہ کا عظیم فریضہ:
مدارس دینی کا اصلی مقصد حقیقی اسلام کی صحیح شناخت اور اسے امریکی اسلام کی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے جدو جہد کرنا ہے اور اگر یہ تشخیص معاشرے میں زندہ ہو جائے اور مدارس دینی اپنے فرائض کو صحیح انجام دینے لگیں تو دشمن اپنے حربوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا-لہذا امام خمینی نے شہید بزرگوار کی شہادت سے قبل مدارس دینیہ کی غفلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’اے کاش اگر مدارس دینیہ ان دو متضاد افکار کی شناخت معاشرے کو کرواتے اور وہ اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہوتے تو ایک قوی امکان تھا کہ شہید علامہ عارف آلحسینی ہمارے درمیان زندہ ہوتے اور دشمن کو ہر گز جرات نہ ہوتی کہ وہ انہیں ہم سے چھین لیتے لیکن جب ایک فرد تن و تنہا میدان جہاد میں دشمن کے مقابلے میں قرار پائے تو وہ دشمن کے تیروں اور گولیوں ہی کا نشانہ بنتا ہے- امام فرماتے ہیں اج بھی مدارس دینیہ کا سب سے بڑا فریضہ ان دو متضاد مکاتب کو روشناس کروانا ہے تا کہ لوگ امریکی اور فرعونی نظام کو اسلام نہ سمجھ بیٹھیں -یہ آج بھی علما اعلام کا فریضہ ہے کہ وہ دشمن کی سازشوں کو سمجھیں اور قوم کو اس سے آگاہ کریں-اور ان دو متضاد افکار کو معاشرے میں روشناس کروا کر اسلام عزیز کو مشرق و مغرب کی سازشوں سے نجات دلوائیں-آج ہمیں ہر گز غفلت سے پرہیز کرنی چاہئیے آج ہر مسلمان کے آمادہ باش رہنے اور ہر دشمن سے بیدار رہنے کا زمانہ ہے-وہ زمانہ گذر گیا جب مشرق و مغرب کی استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت میں مبتلا کر رکھا تھا اور ان کی پشت پہ سواری کر رہے تھے اس زمانے میں دشمن طاقتیں اسلام اور قرآن کی بالقوہ صلاحیتوں کے متعلق خوف زدہ تھے اور اس سے متعلق گفتگو کرتے تھے لیکن آج یہ امریکا اور برطانیہ اور استعماری طاقتیں اسلام و انقلاب سے مسلسل شدید ترین سیاسی فوجی اور ثقافتی ضربیں کھا چکے ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں ان کے مفادات کے خلاف خطرے کی گھنٹیاں بج چکی ہیں تو آج ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان کی تمام تر سازشوں کا بغور مطالعہ کریں اور ہر ان کے مقابلے کے لئیے تیار رہیں-
مسلمان اقوام کیلئے ایک سنہری اصول:امام نے اس جملے میں ایک اہم سیاسی اصول کو بیان فرمایا ہے جسے سمجھنا ہر زمانے میں ہمارے لئے واجب اور حیاتی ہے-فرماتے ہیں’’ مسلمان اقوام کو چاہئیے کہ وہ بڑی طاقتوں کو اپنا دشمن سمجھنے اور ان کے ہر کام کو فریب اور دھوکے پہ حمل کرنے کو اپنا اصول بنائیں مگر یہ کہ کسی خاص مورد کے متعلق انہیں یقین ہو جائے یا انہوں نے مشاہدہ کر لیا ہو کہ اس میں کوئی فریب یا سازش نہیں‘‘ یعنی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سازش درکار نہیں دشمن کے ہر عمل کو فریب اور دھوکہ سمجھا جائے-چونکہ ہم ولایت خدا و رسول اور ائمہ اطہار علیم السلام سے لو لگائی ہے اور جو کچھ بھی اللہ اور اس کے رسول کی رضایت کے خلاف ہو اس سے متنفر رہنا چاہئیے-اور اس سے بیزاری ہمارا فریضہ ہے-اور اس بیزاری کو اپنے لئے افتخار سمجھیں- کہیں ایسے نہ ہو ہمیں ان کے مکر و فریب میں ہمدردی نظر انے لگے اور ہم ان کو اپنا دوست سمجھنے لگیں-
امام خمینی نے شہید علامہ عارف الحسینی جیسے شہدائے اسلام کے خون سے متعلق فرمایا کہ
’’ یہ ان عزیزوں کا خون ہے جو راہ حق سے ہر قسم کی خس و خاشاک کو صاف کرنے اور کلمہ حق کی سر بلندی کی راہ میں ہر سازش کو ریشہ کن کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیتا ہے‘‘۔
آئیے اس خون کی سرخی کو زندہ رکھیں اور خون شہدا سے اور بالخصوص خون فرزند حقیقی امام حسین علیہ السلام اور فرزند امام امت امام خمینی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رکھیں اور اس راہ سرخ حسینی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تاکہ امام امت کے حقیقی وارث ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی قیادت میں پرچم اسلام کو سر بلند کریں اور پھر ایک دن ایسا آئے کہ وارث خون شہدا عدل و انصاف کے قیام کے لئے روی زمین پر پرچم اسلام کو اپنے ہاتھوں پہ بلند کرے اور تمام رہروان راہ حق اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پھر دوبارہ نظام ولایت و امامت دنیا پہ حاکم ہو اور حکم الہی کے ساتھ جو لوگ دلوں میں تمناء ظہور لئے قبروں میں سو گئے ہیں انہیں پھر جگایا جائے اور ایک الہی نظام ولی عصر امام زمان کی امامت میں قائم ہو سکے-
تحریر۔۔۔علامہ غلام حر شبیری
وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے خلاف دشمن نظریاتی جنگ میں مصروف ہے، سادہ لوح لوگ آج کل بھی اس غلط فہمی میں مبتلانظرآتے ہیں کہ اگر کہیں پر آگ ،دھویں اور بارود کی گھن گرج سنائی دے تو وہاں جنگ لگی ہوئی ہے ورنہ امن ہی امن ہے۔ جبکہ چالاک دشمن آگ ،دھویں اور بارود کی کالک میں اپنا منہ کالا کرنے کے بجائےامن کے سندیسے بھیج کر،محبّت کے نغمے گاکر ،امن و آشتی کی فلمیں بناکراور ثقافتی سیمینارز منعقد کرواکےمورچے مسمار کرنے ، قلعے ڈھانے اور سادہ لوحوں کی عقلوں پر سوار ہونے میں مصروف ہے۔
اگرہم امن اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مکار دشمن وہ نہیں جو جغرافیائی سرحدوں پر ہمیں گھورتاہے بلکہ ہمارا مکاردشمن وہ ہے جو ہماری نظریاتی سرحدوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔جو ہماری نئی نسل کو یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر اسلامی ملک ہے ، جو ہمارے نو نہالوں کو یہ سکھا رہا ہے کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے جو ہمارے جوانوں کو یہ پڑھا رہا ہے کہ پاک فوج ناپاک فوج ہے۔
پاکستانیوں کے درمیان ایک ایسا پاکستان دشمن طبقہ موجود ہے جو پاکستانیوں کوصرف اور صرف ایک مشین کے پرزےکی مانندسمجھتاہے۔یہ طبقہ پاکستانیوں کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتاہے۔جب پاکستانی طاقت گروہوں،فرقوں اور اکائیوں میں تقسیم ہوجاتی ہے تو یہ لوگ پاکستانی وسائل اورحکومتی اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے کرنے شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ پاکستان دشمنوں کی نظریاتی یلغارہی ہے جس کے باعث آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور علم و شعور کے دور میں بھی بے گناہ انسان خود کش حملوں میں مارے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کمزور اقبائل پر طاقتور قبائل کا ظلم ، سیاسی پارٹیوں کی ناانصافی اور دھونس دھاندلی اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل تو بڑھے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے اور انسانی وسائل پر ماضی کی طرح آج بھی فرعونوں، ظالموں اور جابروں کا قبضہ ہے۔
ہم تاریخ پاکستان کا جتنا بھی مطالعہ کریں اور معاشرتی مسائل پر جتنی بھی تحقیق کریں، کتاب تاریخ میں جہاں جہاں انسان نظر آئے گا وہاں وہاں انسانی وسائل پر قابض فرعون ،شدّاد اور نمرود بھی نظر آئیں گے۔ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریہ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟
اس کی وضاحت کے لئے ہم مندرجہ ذیل دونکات کوبیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں:کسی بھی تحریک کی قوتِ متحرکہ کانام نظریہ ہے2۔ معاشرے کے اجتماعی شعور کانام نظریہ ہے،آپ معاشرے میں جیسا اجتماعی شعور پروان چڑھائیں گے ویسی ہی تحریک چلے گی۔ پس ہر تحریک کے پیچھے ایک اجتماعی شعور موجود ہوتاہے جسے نظریہ کہاجاتاہے۔
اسی طرح ہرنظریے کے پیچھے ایک خاص طبقہ سرگرمِ عمل ہوتاہے جو"دانشمند طبقہ"کہلاتاہے۔ یہ طبقہ ایک خاص قسم کے شعور کو پروان چڑھاتاہے۔جس معاشرے میں اجتماعی سطح پرمختلف قسم کے نظریات پروان چڑھ رہے ہوں وہاں پر مختلف نظریاتی طبقات جنم لیتے ہیں۔یہ نظریاتی طبقات رفتہ رفتہ عوام الناس کو اپنے اندر سمونا شروع کردیتے ہیں اور خود ایک نظریاتی طاقت کے طور پر ابھرنے لگتے ہیں۔
ابھرتے ہوئے مختلف نظریاتی طبقات کے درمیان اس وقت نظریاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے جب ایک طبقہ کسی ایک چیز کو "دیومالائی" حیثیت دے دیتاہے اور دوسرا طبقہ اس کی سرے سے نفی کرنے لگتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے نزدیک پاکستان ایک مقدس سر زمین ہے لیکن ہمارے مخلافین سرے سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
جب ایک معاشرے میں یہ صورتحال سامنے آجاتی ہے تو "اجتماعِ نقیضین"[1]محال ہونے کے باعث ایک نظریاتی طبقہ دوسرے نظریاتی طبقے کو ختم کرنے پر تُل جاتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل پاکستان کے دشمن ہمیں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس نظریاتی جنگ میں جیت کے لئے افرادی قوّت درکار ہوتی ہے،جسے حاصل کرنے کے لئے دانشمند "تولید نظریات"یا" افزائش نظریات"کاکام شروع کرتاہے۔ تولید یا افزائش نظریات کے کام کے لئے اسے نظریاتی کارخانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان نظریاتی کارخانوں کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں۔
شعروسخن، تحریروتقریر، فلم و ڈرامہ، آھنگ و موسیقی، اخبارو میگزین، ریڈیو اور ٹی وی، مدارس و سکول، میڈیا ومحافل۔۔۔
ان نظریاتی کارخانوں کے ذریعےدانشمند مختلف شہکار تخلیق کرتے ہیں جن کے باعث عوام النّاس مختلف نظریات سے آشناہوتے ہیں اور انہیں اپناتے ہیں۔
ایک اچھا شہکار تخلیق کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دانشور اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق اپنے لئےایک نظریاتی کارخانے کا انتخاب کرے اور پھر اسی نظریاتی کارخانے کے ذریعے اپنی نظریاتی مصنوعات کو معاشرتی سطح کے مطابق منظرِ عام پر لائے۔
ظاہر ہے کہ نظریاتی مصنوعات جتنی معیاری اور نفیس ہونگی لوگ اتنے ہی زیادہ ان کی طرف مائل ہونگے اور جس نظریاتی مکتب کی طرف لوگ جتنے زیادہ مائل ہونگے ، وہ مکتب بھی اتنے ہی جلدی غلبہ حاصل کرے گا اور اگر وہ مکتب مفید اور سودمند ہوا تو اس کے غلبے سے عوام النّاس کو بڑے پیمانے پر فائدہ بھی پہنچے گا۔
معیاری اور نفیس نیز ہردلعزیز نظریاتی مصنوعات تیار کرنے کے لئے ایک دانشمند کو کبھی بھی "سماجی سائنس" کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سماجی سائنس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک دانشمند جس علم پر عبور حاصل کرے اسی میں فنّی مہارت بھی حاصل کرے اور اسی میں "افزائشِ نظریات " کاکام بھی انجام دے۔
مثلاً اگر ایک شخص علمِ جغرافیہ میں عبور حاصل کرتاہے پھر فنِ خطابت بھی سیکھتاہے اورپھر بزمِ مشاعرہ میں جاکر داد لیناچاہتاہے تو وہ نہ صرف یہ کہ بزمِ مشاعرہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرےگا بلکہ اس نے جو علم حاصل کیاہے وہ بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گا اور اس کا فن بھی اس بزم میں کوئی رنگ نہیں لائے گا۔
پس دانشمند یانظریاتی رہبرکے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرتی ذہن سازی کے لئے حسبِ ضرورت "علم " حاصل کرے اور اس علم کے مطابق فن حاصل کرے اور پھر اسی علم و فن سے لیس ہوکر معاشرے میں اپنی مصنوعات پیش کرے۔
معاشرے میں "نظریاتی مصنوعات" پیش کرتے ہوئے دانشمند کو اس بات کا لحظہ بہ لحظہ خیال رکھناچاہیے کہ اس کی بنیاد اس کاعلم اور ہنر ہے اور یہ دونوں یعنی علم اور ہنر کسی ایک ملک ، قوم ، مذہب یا دین کی ملکیّت نہیں ہیں۔ اسی طرح دانشمند بھی کسی ایک ملک ،قوم ،مذہب یا دین سے وابستہ تو ہوتاہے لیکن ان میں سے کسی کی ملکیّت نہیں ہوتا۔ لہذا اسے تمام تر تعصّبات سے بالاتر ہوکر اپنے نظریاتی شہکاروں کے ذریعے پورے عالم بشریت کی خدمت کرنی چاہیے ۔
اسے ایسا کرنے کے لئے ان تما م رجحانات ، نظریات اور افکار کی مخالفت مول لینی پڑے گی جو عالمِ بشریت کو مختلف اکائیوں ، فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کسی بھی ملت کے نظریاتی عناصر اس کے نظریاتی جغرافیئے کا تعین کرتے ہیں۔ نظریاتی عناصر سے ہماری مراد کسی بھی قوم کے بنیادی عقائد ہیں۔ مثلاً اگرایک قوم کا یہ نظریہ ہو کہ ملت مذہب سے تشکیل پاتی ہے تواس قوم کےنظریاتی عناصر اس کے مذہبی عقائد ہونگے۔
یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستانی ایک ملت ہیں تو ملت ِ پاکستان کے مذہبی عناصر توحید و رسالت و غیرہ ہونگے۔اب جب یہ ملت اپنے نظریاتی جغرافیے کا تعیّن کرلے گی تو لازمی طور پر اسے ایک زمینی جغرافیے کی ضرورت پڑھے گی۔ جب تک اس کا نظریاتی جغرافیہ محفوظ رہے گا یہ قوم ڈوب ڈوب کر ابھرتی رہے گی لیکن اگر اس کا نظریاتی جغرافیہ کھوگیا تو اس کا زمینی جغرافیہ بھی اپناوجود کھو دے گا۔
چنانچہ سمجھدار قومیں اپنی توانائیاں زمینی جغرافیئے تبدیل کرنے کے بجائے فکریں تبدیل کرنے پر صرف کرتی ہیں۔ چونکہ جہاں پر فکریں تبدیل ہوجائیں وہاں پر منٹوں میں جغرافیے خود بخود تبدیل ہوجاتے ہیں۔ہمیں پاکستانیوں کو نظریاتی طور پر پاکستانی بنانے کی ضرورت ہے۔
نظریات میں تبدیلی لاکر جس طرح یمن کےمقداد، ایران کے سلمان، مدینے کے ایوب انصاری ، مکّے کے مہاجرین اور مدینے کے انصار کو آپس میں شیر وشکر کیا جاسکتاہے ، سب کو بھائی بھائی بنایاجاسکتاہے اسی طرح فکروں کو تبدیل کر کےخلافتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیراجاسکتاہے، عظیم ہندوستان کو ناکوں چنے چبائے جاسکتے ہیں اور ایک پاکستان کے شکم سے بنگلہ دیش جنم لے سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلامی نے بھی نظریاتی جغرافیئے کو بہت اہمیّت دی ہے اور لوگوں پر زبردستی اپنے نظریات مسلط کرنے، ان کی جہالت سے فائدہ اٹھانے اور ان پر جبراً اپنی رائے ٹھونسنے کے بجائے انہیں تعقّل،تفکّر اور تدبّر کی طرف بلایاہے۔
دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو قطعاً اس امر کی اجازت نہیں دی کہ وہ مالِ غنیمت اور کشور کشائی کے لئے پرامن اور صلح پسند اقوام پر شب خون ماریں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مجموعہ ءِ نظریات ہے۔ اسلام انسان کے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ایک جامع نظریہ رکھتاہے
۔مثلا اسلام کے پاس اقتصادی،سیاسی، علمی،اخلاقی، دشمن شناسی، دوست پروری الغرض ہر لحاظ سے ایک مکمل نظریہ موجود ہے۔آج امت مسلمہ کو اور خصوصا پاکستان کو ضرورت ہے کہ اس کے دانشمند ،اسلامی نظریات کی علمبرداری اور رہبری کریں۔ اسلامی نظریات کو پاکستان میں میں صحیح رہبریت اور مدیریت کی ضرورت ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے ظہور اسلام سے پہلے عربوں میں اور پوری دنیامیں پرستش کا نظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کو صحیح رہبری اور مدیریت کی ضرورت تھی۔ حضورِ اکرم نے اس نظریے کی رہبری کی۔ اسی طرح سید جمال الدین افغانی سے پہلے بھی مسلمانوں میں "اسلامی تہذیب و تمدن" کانظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کی رہبری سید جمال الدین افغانی نے کی ،ا سی طرح مغربی تہذیب سے بیزاری کانظریہ پہلے سے موجود تھا لیکن علامہ اقبال نے اس نظریے کی رہبریت اور علمبرداری کی۔
موجودہ دور میں پوی دنیا، خصوصا پاکستان ، غیر اسلامی نظریات کی زد پر ہے اورعالمِ بشریّت ظلم و ناانصافی اور جبر وتشدد کی چکی میں پس رہا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ افرادِ معاشرہ پرتحقیق و تعلیم کے دروازے کھولے جائیں ،نیز ایسے دانشمندوں کی پرورش اور تربیّت کی جائے جوتمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلامی تعلیمات و نظریات کی رہبری اور مدیریت کریں نیزاسلامی معارف کو پورے عالم بشریت کے سامنے بطریقِ احسن پیش کریں چونکہ مسلم دانشمندوں اور مفکرین کی نظریاتی کاوشوں کو منطرِ عام پر لائے بغیر شیطانی اور پاکستان کے دشمنوں کی نظریاتی یلغار کامقابلہ ممکن ہی نہیں۔
پاکستان کو حالیہ پاکستان دشمن نظریات کی یلغار سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ مختلف سیمینارز، پروگراموں اور نمائشوں کے ذریعےمسلم مفکرین اور دانشمندوں کی سائنسی و علمی اور قلمی خدمات کو سراہاجائے،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے سائنسی ، علمی و نظریاتی کارناموں کوپاکستانیوں تک پہنچایاجائے۔
اس وقت پاکستان کے سرحدی دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نظریاتی دفاع بہت ضروری ہے۔
تحریر۔۔نذر حافی
وحدت نیوز(آرٹیکل) تاریخ اپنے زمانے کی روح پرور اور بلند ہمت ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔25نومبر 1948کے روز اذان صبح کے وقت لا الہ الا اللہ کا حقیقی عارف اپنی ماں کی گود میں جلوہ گر ہوا ۔شہید قائد ابھی بچہ تھا لیکن ان کی فکر اور سوچ ہر وقت اس خالق سے مربوط ہوتی کہ میں خالق حقیقی کے قرب اور بلند مقامات کو کیسے حاصل کروں۔ اسی مقصد کو لے کر دینی علوم حاصل کرنے میں محو ہوئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عارف صرف طالب علم ہی نہیں تھےبلکہ وہ معنوی طور پر ایک بلندمقام پر فائز ہو چکے تھے ۔
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
علوم دینی کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے اور مختلف بزرگ اساتذہ سے کسب فیض حاصل کرنےکی غرض سےنجف اشرف اورقم المقدسہ کا انتخاب کیا۔ وہاں علمی وعرفانی معرفت کے اعلی مراتب طے کرنے کے بعد وطن عزیز کی محبت نے انہیں ایک دفعہ پھر پاکستان کھینچ لایا ۔ پاکستان میں اس مرد قلندر نے ترویج اسلام کا ایک نیا باب کھول دیا ۔ان کا موضوع سخن اتحاد بین المسلمین ہوا کرتا تھا۔زندگی بھر مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیا وہی درس جو آج سے تقریبا چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کو دیا کرتے تھے اسی درس کو شہید قائد نے اپنا موضوع سخن بنا لیا اور عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ شہید قائد نے پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان یک جہتی اور اتحاد کے عملی اظہار کی ضرورت پر خوب زور دیا ۔ جب مسلمانوں کے درمیان اختلافات ختم ہونے لگے تو وقت کے شیطان صفت ، ملک دشمن عناصر اورباطل قوتوں کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجتی گوارا نہ ہوا ۔ یوں سازشیں شروع ہو گئی لیکن شہید قائد نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز بلند کرنا شروع کیا ۔وقت کے شیاطین ،اتحاد بین المسلمین کے داعی کے چراغ کوخاموش کرنے کے لئے کمر بستہ ہوگئے لیکن شہید قائدکے لئے راہ اسلام میں جان قربان کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ اپنے جد امجد امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے جان دینے کو وہ آسان سمجھتے تھے۔شہید قائد بھی اپنے دور کے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے تھے۔آپ ہمیشہ فرماتےتھے کہ شہادت ہماری میراث ہے جو ہماری ماوں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے۔کس قدر عظیم ہستیاں ہیں وہ مائیں جن کی گود اور آغوش میں ایسی ہستیاں جنم لیتی ہیں جو اسلام پر قربان ہو جاتی ہیں ۔
5اگست کی منحوس صبح طلوع ہوئی ۔ظلمت پرست یزیدی و شیطانی ہاتھوں نے اپنے چمگاڈر صفت کارندوں کو ہدایت کے اس روشن چراغ کو خاموش کرنے پر مامور کر رکھا تھا۔شہید قائد آدھی رات سے اپنے معشوق حقیقی سے راز و نیاز میں مصروف تھے۔ نماز صبح کے بعد ایمان و عمل کی روشنی پھیلانے کے لئے معاشرے کے افق پر طلوع ہوہی رہا تھا کہ شقی القلب اوروقت کے ابن ملجم کا نشانہ بن گئے۔وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے زمین پر گر گئے ۔ارض پاک سے ایک دفعہ پھرہدایت اوراتحاد بین المسلمین کے ایک روشن چراغ کو بجھا دیا گیا وہ بھی صرف اس لئے کہ اس نے افتراق پرور،باطل پرست اورظالم حکومت کے ہاتھوں بیعت نہیں کیں۔ یہ جابر و ظالم افراد اتنا بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ شہید قائد کی جسمانی موت سے ان کے بلند افکار و کردار کوختم نہیں کر سکتے۔
چھری کی دار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا
ایک دفعہ شہید قائد کسی سفر پر جا رہے تھے ۔اہل سنت کا ایک عالم دین بھی گاڑی میں آپ کے ساتھ اور دروازے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔شہید قائد نے کہا خدا ناخواستہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو گولی سب سے پہلے آپ کو لگی گی اس لئے آپ درمیان میں تشریف لائے اور میں دروازے کی طرف بیٹھتا ہوں ۔شہید قائد اس عالم کی احترام میں خود دروازے کی طرف بیٹھ گئےیہ شہید قائد کا کردار تھا۔آپ ظاہری کردار کے ساتھ ساتھ کشف و کرامات کے مالک بھی تھے۔جب حساس مواقع آتے تو یہی مرد بزرگوار آسانی سے ہر مشکل معمے کو حل فرماتے تھے۔ رہبر کبیر امام خمینی قدس سرہ کی عارفانہ نگاہوں نے ان کہ ہمہ گیر شخصیت کو خوب سمجھ لیا تھا۔جب آپ کی شہادت کی خبر امام خمینی قدس سرہ نے سن لیا تو فرمایا: میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوا ہوں ۔ عارف حسین الحسینی ایک پاکیزہ عاشق خدا تھےجو صبح و شام بغیر کسی رکاوٹ کے کفر و شرک کے خلاف راہ خدا میں سراپا مبارزہ و قیام بنے ہوئے تھے۔ اس شخصیت(عارف حسینی) کی فکر کو زندہ رکھو! شیطان کے چیلوں کو اسلام ناب محمدی کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہ دو۔
پاکستان میں آج پھر ایک عارف الحسینی کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اوربھائی چارگی کو فروغ دے کر نفرتوں کو مٹا دے اورمسلمانوں کے دلوں کو نزدیک کر کے اپنے اصلی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار کریں۔ آج عالمی استعماری طاقتیں پاکستانی مسلمانوں کو ان کی اسلام دوستی کی سزا دینے پر تلی ہوئی ہیں جن کے لئے وہ طرح طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔آج استعماری طاقتیں تکفیری گروہ اورداعش جیسے درندہ صفت انسانوں کی تربیت کر کےمسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو ختم کر ا رہے ہیں۔اگر ہم آج بھی بیدار نہ ہوئے تو ملک عزیز پاکستان کی حالت بھی عراق اور شام جیسے ملکوں کی طرح ہوگی جہاں امریکا و اسرائیل اور کچھ عرب ممالک نے درندہ صفت تکفیری گروہ اور داعش جیسی شیطان صفت تنظیموں کو وجود میں لا کر ہزاروں مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطان کر دئے ہیں اور ہزاروں بے گناہ معصوم بچوں اورعورتوں کو نہایت سفاکیت اوربربریت کے ساتھ ابدی نیند سلا دئے۔
شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی ہمیشہ پاکستان میں استعماری سازشوں کو بے نقاب کرتے رہتے تھے۔ ہم یہاں آپ کے بعض تاریخی کلمات نقل کرتے ہیں :
1۔اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں، تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔جب اکبر، اللہ ہے جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گاوہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا،پھر ان کی نظر میں امریکہ اور روس و اسرائیل کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہوجائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کہ خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔
2۔جس کا ارتباط خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ امریکہ کو ایک چوہے کی مانند سمجھتا ہے جیسے ایک چوہا اپنے سوراخ سے نکل کر آپ کو دھمکی دے تو کیا آپ اس چوہے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں !! اس لئے کے آپ چوہے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے لہٰذا وہ لوگ جن کا رابطہ خدا سے ہوتا ہے وہ
امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کو چوہا بھی نہیں سمجھتے۔
3۔جو چیز ہمارے لئے بہت ضروری ہے وہ مسلمانوں کاآپس کا اتحاد ہے کیونکہ ہمارے دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں جو ہر جگہ مختلف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو سرکوب کرنا چاہتے ہیں۔
4۔میں(عارف حسین الحسینی) اپنا گھر بار سب کچھ حتی کہ جان تک قربان کر سکتا ہوں لیکن ناب محمدی اسلام و نظریہ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔
5۔عزاداری سید الشہداء ہماری شہہ رگ حیات ہے اس مین رکاوٹیں اوراس کے عوض ہمارے نوجوانوں پر حکومتی مظالم ناقابل برداشت ہیں ۔ یہ ظلم یہ جبر ہماری جد و جہد کا راستہ نہیں روک سکتے۔ہم اتحاد بین المسلمین کا علم لے کر اٹھے ہیں اور اپنا پیغام اخوت پہنچا کے رہیں گے۔ ہمارے خلاف پروپیگنڈا سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کی طرف سے ہے جو مسلمانوں کے اتحاد سے خائف ہے۔
6۔ہم سیاست میں عملی کردار اختیار کرنے سے قبل اپنی قوم کو منظم کریں گے اوراسے سیاسی شعور دین گے تا کہ ہماری قوم سیاست کے ہر پہلو میں ہمارا ساتھ دے تاکہ کوئی سیاسی موڑ مرنے پر ہماری قوم ہم سے پیچھے نہ رہ جائے۔
روشنی تیرے سفیروں کا نشان باقی ہے
دامن شب میں چراغوں کا دھواں باقی ہے
مسکرائیں بھی کسی رات میں تو کیسے عارف
آنکھ میں تیری جدائی کا سماں باقی ہے
آخر میں اس عظیم ہستی کی برسی کی مناسبت سے تمام عاشقان ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی خدمت میں تسلیت و تعزیت عرض کرتاہوں ۔
موت آ ئے بھلاتجھ کو کیسے
تو، تو زندہ ہے تا صبح محشر
اےمفکر، اے معلم، اے مجاہد
حشر تک کا تجھ کو بھولےہم نہ شاید
والسلام علیہ یوم یموت و یوم یبعث حیا۔۔۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) اللہ تعالیٰ اکژ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو بڑی خوبصورتی سے کسی تعمیری مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔جیسے کہ ٹوٹ کر بکھرے بادلوں سے بارش برساتے ہیں زمین جب ٹوٹ کر مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوتی ہے تو اس میں سے غلہ اُگتا ہے پودوں سے نیا پودا یا نئی فصلوں کی ٹوٹ کر گرِی ہوئی قلموں یا شاخوں سے نیا پودا یا نئی فصل اُگتی ہے اوردھوکہ کھانے والا، اعتبار کے ٹوٹنے کی چوٹ کھانے والا وقتی طور پر ٹوٹ ضرور جاتا ہے مگر ساتھ ہی وہ انسانوں کے اصلی روپ سے بھی آشنا ہوجاتا ہے۔ کھرے کھوٹے کی پہچان اس کے شعور کو مزید تابناکی بخشتی ہے۔ انسان دھوکہ کھانے کی وقتی اذیت کا شکار ہوتا ہے مگر وقت کا مرہم اسے اور با صلاحیت اور با شعور بنا دیتا ہے اگر آپ کا دل ٹوٹ کر ٹکڑے ہوجائے تو یقین رکھیں اللہ اب آپ سے کوئی بڑا کام لیں گا اورہماری زندگی میں سب کچھ کسی وجہ سے ہوتا ہے غلط ہوتا ہے تاکہ ہم صحیح کی قیمت جان سکیں، اور لوگ بدلتے ہیں تاکہ ان کا اصلی چہرہ جان سکے اور جب آپ اپنی کار دس پندرہ میل پہاڑ کے اوپر لے جا سکتے ہیں لیکن آپ کو یقین ہوتا ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد پھر اترائی ہی اترائی ہے۔ یہ یقین اس لیے ہوتا ہے کہ آپ قدرت کے رازوں سے واقف ہیں اور پہاڑ کے خراج کو سمجھتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کار مسلسل اوپر ہی اوپر نہیں جا سکتی، نہ ہی نیچے ہی نیچے جا سکتی ہے۔ یہ صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔
آپ کی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ چینی فلسفے والے اس کو ین اور یانگ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہم لوگوں سے زندگی میں یہی غلطی ہوتی ہے کہ ہم لوگ متبادل کے راز کو پکڑتے نہیں ہیں، جو شخص آگے پیچھے جاتی لہر پر سوار نہیں ہوتا وہ ایک ہی مقام پر رک کر رہ جاتا ہے۔ (گلائیڈر جہازوں کے پائلٹ اس راز کو خوب سمجھتے ہیں) وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ پہاڑ پہ اوپر ہی اوپر جانا زندگی سے نیچے آنا موت ہے۔ وہ زندگی بھر ایک نفسیاتی لڑائی لڑتا رہتا ہے اور ساری زندگی مشکلات میں گزار دیتا ہے۔ایک سمجھدار انسان جب زندگی کے سفر پر نکلتا ہے تو آسان راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ بلندی پر جانے کا پروگرام بنا کر نہیں نکلتا کہ نشیب میں اترنے کے خوف سے کانپتا رہے وہ تو بس سفر پر نکلتا ہے اور راستے سے جھگڑا نہیں کرتا۔ جو جھگڑا نہیں کرتا، وہ منزل پر جلد پہنچ جاتا ہے۔
لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا ، اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا ہی عبادت ہے۔ وہ آپ کی محبت سے اور شفقت سے محروم رہیں گے تو معاشرے میں کال پڑ جائے گا ، اور آپ کی ضرورتیں بھی رْک جائیں گی۔ صرف منہ سے بات کر کے لوگوں کی خدمت نہیں ہوتی اس میں عمل بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے جتنے بھی ادیب اور شاعر تھے ، عملی زندگی بسر کرتے تھے۔ امام غزالی پڑھنا لکھنا چھوڑ کر صاحبِ مال ہوئے لوگوں سے ملے جلے۔ شیخ اکبر ابنِ عربی ، فرید الدین عطار،رومی ،داتا صاحب ، معین الدین چشتی ، حضرت بختیار کاکی یہ سب لوگوں کے کام کرتے تھے۔ مخلوقِ خدا کے کام آتے تھے۔ ان کی بہتری کے لیے ان کے ہاتھ بٹاتے تھے۔ کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تھی اور یہ سب لوگ اس سنت پر ہی عمل کر کے آگے بڑھ سکے۔ ہم دوسروں کو خوشیاں دے کر ہی خوش رہ سکتے ہیں۔
تحریر ۔۔۔محمد عتیق اسلم رانا