وحدت نیوز(آرٹیکل) پہلے تومیں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کے میں ایک سچا پاکستانی ہوں اورجرنلزم کا طالب علم ہوں۔۔۔۔دوسری بات میں صرف مسلمان ہوں اور میرا کسی مسلک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ،، تیسری بات میں اپنی فوج کااحترام کرتا ہوں لہذا مجھے کسی کا ایجنٹ یا کارندہ نا سمجھا جائے  ،اب میں اپنی جان کی امان پاوّں تواپنی تحریر کی طرف آتا ہوں

پارہ چنار کرم ایجنسی میں واقع ہے اور یہ پاکستان کا حصہ ہے سرسبز پہاڑوں میں جنت کی وادی کہا جائے تو غلط نا ہو گا غریب محنت کش اور پاکستان کی محبت میں سرشار لوگ یہاں بستے ہیں لیکن کچھ بین اقوامی پاکستان دشمن ایجنڈے اور کچھ اپنے اندر کے غداروں نے اس علاقے کو غزہ بنا دیا ہے 2000سے لیکر 2017تک ہزاروں پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جنکا ریکارڈ موجود ہے ، 27رمضان المبارک کو پارہ چنار کے مین بازار میں جب لوگ عید کی شاپنگ میں مصروف تھے پہلے ایک خود کش نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑایا دس سے پندرہ لوگ شہید ہوئے اور جیسے ہی چار پانچ سو لوگ اکٹھے ہوئے گاڑی میں موجود خود کش نے بارود سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 110شہید 3سو زخمی جبکہ 70ابھی بھی لاپتہ ہیں اس وادی میں کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی رشتے داراس دہشت گردی سے متاثر نا ہوا ہو کشمیر میں انڈیا اور غزہ میں اسرائیل کی دہشتگردی پر چیخنے والواس وقت وادی پارہ چنار میں موبائل سروس انٹرنیٹ سروس بند ہے خوارک اور دوائی کا قحط پڑھ چکا ہے وہ لوگ اپنی درد کی کہانی کس کو سناہیں کوئی ہے صلاالدین ایوبی کوئی ہے محمدبن قاسم ان مظلوم مسلمان پاکستانیوں کی آواز سننے والا ؟؟؟حضور یہ وہ علاقہ ہے جہاں جب سے جنوبی وزیرستان کا آپریشن شروع ہوا ہے وہاں پاکستانی پرچم لہرارہا ہے وہاں فوجی افسران بغیر سیکورٹی کے اپنی نقل و حرکت کرتے ہیں وہ محب وطن پاکستانی ہیں ،، پارہ چنار کے محب وطن پاکستانی نوجوانوں نے منگل باغ ، بیت اللہ مسعود ،القاعدہ ، طالبان سے لڑے اور علاقے کو پرامن بنایا

اب چند حقائق جو میں نے بڑی محنت سے اکٹھے کیے ہیں وہ غور طلب ہیں اس وادی میں کرم ملیشیاء کے نام سے رضا کار فورس کام کرتی تھی پاک آرمی کے زیر سایا انکو 5ہزار روپےماہانہ دیے جاتے تھے اسلحہ انکا اپنا ہوتا تھا جبکہ سہولیات برائے نام تھیں کچھ ماہ قبل پاک آرمی نے کرنل عمر نامی فوجی افسر کو یہاں تعنیات کیا اس نے آتے ہی یہ فورس ختم کی اور اسلحہ جو قبائلیوں کا زیور ہوتا ہے جمع کروانے کا حکم دیا تمام لوگوں نے بغیر کسی مزاحمت کے سارا اسلحہ دے دیا وہاں سیکورٹی پر ایف سی کو تعنیات کردیا گیا پورے پارہ چنار کے اردگرد وہاں کے رہایشیوں کی مدد سے خندق کھودی گئی اور چند مخصوص راستے رکھے گئے جہاں ایف سی کی بھاری نفری 24گھنٹے تعنیات کردی گئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے صرف چند مخصوص راستوں سے بارود سے بھری گاڑی اندر کیسے چلی گئی دو خودکش جیکٹ پہن کر بازار میں کیسے پہنچ گئے کیونکہ خندق کی وجہ سے شہر میں گاڑی داخل ہی نہیں ہوسکتی چیک پوسٹ سے گاڑی کو اندر کس نے جانے دیا یقنناایف سی کی ذمہ داری تھی جو پوری نہیں کی گئی  پچھلے پانچ ماہ میں پارہ چنار میں پانچ دھماکے ہوچکے ہیں لیکن افسوس کے فوج کے سربراہ نے ابھی تک کرنل عمر سے وضاحت لینا بھی ضروری نہیں سمجھا سانحہ بہاولپور پر چیخنے والے فوجی اور سول حکمران کہاں گم ہیں بہاولپور تو آرمی چیف اور وزیر اعظم صاحب بھی پہنچ گئے فوج نے ہیلی کاپٹر بھی مہیا کردیا کیا پارہ چناروالے پاکستانی نہیں تھے پارہ چنار دھماکے میں تین سو افراد زخمی ہیں جن میں پندرہ سے بیس لوگ سیریس ہیں اور بہت سارے معذور ہوچکے ہیں ان کی قیمت صرف 3لاکھ لگائی گئی ہے کیا آرمی چیف صاحب کرنل عمر کی نااہلی پر اسکا کورٹ مارشل کریں گے، کیا وزیر اعظم صاحب پارہ چنار کے پاکستانیوں کے وزیر اعظم نہیں ہیں کیا وہ ان مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے ،، میرے ملک کے سول اور فوجی حکمرانوں آخر کب تک منافقت کی پالیسی پر عمل پیرا رہو گے ،،، بقول خواجہ آصف ،،، کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے ،،،

قارئین اب میں آپ کو پارہ چنار کے بارے کچھ اور معلومات دیتا ہوں پارہ چنار سے 20کلومیٹر افغانستان کا علاقہ ہے تورا بورا جہاں پر داعش نے طالبان کو بھاگا کر قبضہ کر لیا ہے پارہ چنار کے عقب میں زیڈان پہاڑی پر اگر آپ کھڑے ہوں تو تورا بورا آپ کو نظر آجائے گا ،، اسرائیل ، امریکہ ، افغانستان ، انڈیا داعش کی مدد کر رہا ہے تاکے 2018 تک پاکستان میں داعش کے ذریعے دہشت گردی کروائی جائے اور سی پیک منصوبے کو روکا جا سکے پارہ چنار کو غزہ بنانا بین الاقوامی منصوبہ ہے اس وادی میں شعیہ برادری زیادہ آباد ہے تاریخ گواہ ہے شعیہ ہمیشہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں ایران میں صرف شاہ ایران امریکہ حامی تھا جسکو اس کمیونٹی نے خیمنی کی قیادت میں مار بھاگیا لیکن افسوس ہماری حکومت اور ادارے اس ایجنڈے کو سمجھ نہیں رہے یا سمجھنا نہیں چاہتے ،،، اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کے اگر پارہ چنار کے ہمارے پاکستانی بھائی اگر اپنے حقوق کے لیے احتجاج کریں تو ہماری ایف سی ان پر سیدھی فائرنگ کرتی ہے وہاں کے مقامی باوثوق ذرائع کے مطابق اب تک ایف سی کی فائرنگ سے 15افراد شہید ہوچکے ہیں ، فوج کی یہ رویش وہاں کے لوگوں کو طالبان بنا دے گی یاد رکھنا ابھی بھی وقت ہے ہمارے حکمران ، سنی ، شعیہ ،وہابی ،بریلوی ، دیوبندی، پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان کی تفریق سے نکل کرصرف  پاکستانیوں کے حکنران بنیں اور سب کو پاکستانی سمجھیں ،،


تحریر: افضل سیال

وحدت نیوز(آرٹیکل) ماہ مبارک رمضان تھا، تہران پارلیمنٹ اور مرقد امام خمینی(رہ) پر دہشتگردانہ حملوں میں  ۱۲ روزہ دار شہید اور بیالیس  زخمی ہوگئے،  جمعۃ الوداع تھا، یعنی ماہ مبارک کا عظیم القدر اور آخری جمعہ ، اس روز  کوئٹہ کے آئی جی آفس کے سامنے شہدا چوک پر بارودی مواد سے بھری گاڑی میں زور دار دھماکے سے 6پولیس اہلکاروں سمیت 12افراد شہید 21افراد زخمی ہوگئے۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اسی مقدس دن  پارا چنار میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں 45 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ  کراچی میں  نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 4 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔

ابھی دن کے زخم ہرے ہی تھے کہ رات کو  3دہشت گرد گروپوں  نے مسجد الحرام پر حملہ کیا،2گروپوں کا تعلق مکہ جبکہ  ایک گروپ کا تعلق جدہ سے تھا۔ اگر چہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اس حملے پر بھی   ہر باشعور اورباضمیر انسان کا دل اداس ہے۔

بدقسمتی سے عالم اسلام کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث ،مسلمانوں میں  اب ایک ایسی دہشت گرد نسل تیار ہوچکی ہے،  کہ جس کے نزدیک ماہِ مبارک رمضان،  مسلمان کے خون کی حرمت، سرزمین  حرم کا تقدس ، ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

یہ نسل آسمان سے نہیں اتری، یہیں مسلمانوں کے  ہی بعض دینی مدارس میں  تیار کی گئی ہے۔ اس کی وارداتوں  خصوصا عورتوں، بچوں، عبادت گاہوں، سکولوں  اور بازاروں میں نہتے لوگوں پر حملوں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اسے مکمل اسرائیلی اور صہیونی خطوط پر پروان چڑھایا گیاہے۔

پشاور پبلک سکول کا سانحہ اس پر دلیل ہے کہ ان کے   انسانی احساسات و جذبات  کو کچل دیا گیا ہے، ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو مار دیا گیا ہے، ان کے دماغوں میں صرف دو ہی  باتیں بٹھا دی گئی ہیں،  دنیا میں اپنی حکومت قائم کرو یا پھر آخرت میں حوروں سے ملو۔

جب انہیں پاکستان کے بعض دینی مدارس میں خلافت کا سبق پڑھایا جارہاتھا اور افغانستان کے تخت کے خواب دکھائے جا رہے تھے، تب تو خلیجی ممالک  اور پاکستان کو ہوش نہیں آیا ،  البتہ یہ یقینی بات ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ سوچ کر افغانستان میں آیا تھا۔ امریکہ نے  افغانستان میں ان  گوریلوں سے بھرپورفائدہ اٹھا یا اور پھر  اس کے بعد ان سے  منہ پھیر لیا۔

اب مسئلہ صرف اکیلے امریکہ کا نہیں تھا ، امریکہ کے وعدے میں تو خلیجی ریاستیں  بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ اگر گوریلے واپس اپنے اپنے ممالک میں جاتے  تھے تو  خود  خلیجی  ریاستوں  میں قائم بادشاہتوں کے لئے خطرہ تھے، اور اگر انہیں مناسب طریقے سے استعمال نہ کیا جاتا تو ممکن تھا  کہ کہیں اسرائیل کا ہی رخ نہ کرلیں، چنانچہ ان کا رخ  عراق اور شام  کی طرف موڑ دیا گیا۔

اگرچہ شام اور عراق کی حکومتوں نے ان کے کس بل تو نکال دئیے ہیں تاہم پاکستان چونکہ ان کا مادری وطن ہے ، یہاں ان کے بہت زیادہ نیٹ ورکس ہیں۔

یاد رہے کہ ماہِ مبارک رمضان میں حملہ اگرچہ ایران  اور سعودی عرب  میں بھی ہوا ہے ، لیکن پاکستان کی نوعیت مختلف ہے۔ ایران نے بھی چند گھنٹوں کے اندر  دہشت گردوں کو ان کے کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیا اور سعودی عرب نے بھی ایسا ہی کیا لیکن پاکستان۔۔۔

پاکستان نے  دہشت گردوں کے خلاف عملا  پہلے بھی نہ کچھ کیا ہے اور نہ  آئندہ کرے گا۔  اس کی وجہ بہت واضح ہے، چونکہ خلیجی ریاستوں نے اگرچہ طالبان و القاعدہ و داعش کی ہر ممکنہ مدد کی لیکن اپنی سرزمین پر ان کے بیج نہیں بوئے ،  لیکن پاکستان کی سر زمین پر باقاعدہ دہشت گردی کی کاشتکاری کی گئی۔ ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو یہ ذہن نشین کروایا گیا کہ  یہ گوریلے اور کمانڈو تو ہمارے ہیرو ہیں۔

جب انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں تو  ابتدا میں لوگ دہشت گردی کی مذمت کرنے کو بھی گناہ سمجھتے تھے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ  یہ مصلحین اور خلافت اسلامیہ کے علمبردار  تو  کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔

بعد ازاں  ایک لمبے عرصے تک لوگ  یہی سمجھتے تھے کہ یہ صرف ایک فرقے کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں،  لہذا ہم تو محفوظ ہیں۔ ۔ دوسری طرف  ان کمانڈوز کو  حکومت قائم کرنے کا اتنا شوق دلایا گیاتھا  اور حکومت کے قیام کے لئے ان کی ایسی برین واشنگ  کی گئی تھی  کہ انہوں نے  پاکستان پر ہی قبضہ کرنے  کی کوششیں شروع کر دیں۔

چنانچہ جب  ہر طرف بلاسٹ اور حملے ہونے لگے تو اس وقت  لوگوں کو یقین آیا کہ  یہ امریکہ کے مفاد کی تکمیل کے لئے تربیت پانے والے گوریلے اور کمانڈوز کسی کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں فرقہ واریت کے خول سے لوگوں نے تب سر نکالا جب دہشت گردی کی جڑیں پاکستان کے اندر دور دور تک پہنچ گئیں ۔ تمام  اداروں میں دہشت گردوں کے حامی ، سرپرست اور سہولت کا ر  پھیل گئے۔ چرچ، مساجد، مدارس ، سکول ، قائد اعظم کی ریذیڈنسی، فوج و پولیس کے مراکز اور اولیائے کرام کے مزارات ۔۔۔  کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔

یاد رکھئے !یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد باہر سے نہیں آتے ، یہیں پر تیار کئے جاتے ہیں، اس کا ایک واضح ثبوت گزشتہ روز پارا چنار میں ہونے والے دھماکے بھی  ہیں۔

پارہ چنار کو چاروں طرف سے سیکورٹی فورسز نے گھیرے میں لیا ہوا ہے، مقامی افراد کی بھی جابجا چیکنگ اور شناخت کی جاتی ہے، اجنبی آدمی داخل ہی  نہیں ہو سکتا، خود سیکورٹی عملے کے بقول پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، ایسے میں  دہشت گرد  بارود سمیت پارہ چنار میں  داخل ہو جاتے ہیں اور کسی بھی چیک پوسٹ پر  انہیں  روکا نہیں جاتا۔

دوسری طرف ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر مرتبہ دھماکوں کے بعد نہتے عوام پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے   فائرنگ کر کے مزید لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ ہماری بحیثیت پاکستانی حکام بالا سے یہ اپیل ہے کہ پاراچنار  کے عوام کے ساتھ اگر کوئی ہمدردی نہیں کی جاسکتی تو نہ کی جائے البتہ ان کے قانونی مطالبات ضرور پورے کئے جائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ عوام علاقہ کو اپنے اعتماد میں لے اور  سیکورٹی فورسز میں موجود  دہشت گردوں کے سہولت کار وں کی شناخت کر کے   ان کے خلاف  کارروائی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام علاقہ کے مطالبے کے مطابق  سیکورٹی کی ذمہ دارای مقامی افراد پر مشتمل ملیشیا یا رضاکار فورسز کے حوالے کی جائے اور سیکورٹی فورسز کے جو لوگ  شہدا اور زخمیوں کے لواحقین پر گولیاں چلانے کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں ہر قیمت پر سزا  دی جائے۔

کاش ہمارے حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں  کو یہ احساس ہو جائے کہ عید سے ایک دن پہلے جن گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں ، ان   پر گولیاں نہیں برسائی جاتیں بلکہ  ان کے ساتھ تعزیت کی جاتی ہے اور ان کے غم میں شریک ہوا جاتا ہے۔

بہر حال  اگر ہمارے حکمرانوں سے  یہ احساس ختم ہو  گیا ہے تو بحیثیت قوم اس عید پر ہمیں،  وطن عزیز کے تمام  شہدا ،خصوصا  گزشتہ روز کے شہدا  کے لواحقین کو اپنی محبت  کا احساس  دلانا چاہیے۔

ان بے کسوں  کا احساس  کرنا چاہیے کہ  جن کے پیارے عید سے ایک یا دودن پہلے اس دنیا سے چلے گئے ہیں،  احساس کو زندہ رکھئے ! احساس زندگی کی علامت ہے ، اگر احساس مر جائے تو قومیں مر جایا کرتی ہیں۔

 بقول شاعر:

موت کی پہلی علامت صاحب

 یہی احساس کا مر جانا ہے


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہم سب سے پہلے قارئین کو یہ بتانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔

جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔

یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔

 یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔

بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

 چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبّین صہیون سے مربوط یا اُن کے ہم فکر ہوتے ہیں۔

 یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اُس کا نام اُنہوں نےانجمن  محبّین صہیون اس لیے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے اور اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔

 کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور ِقوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاءِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکر و فریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔

 فرعون کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسٰی کی صورت میں ان کیلئے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسٰی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اوّلاً تو اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیاً بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرے۔

 حضرت موسٰی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرا رہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے۔

 چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔

 حضرت موسٰی کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسٰی نے اپنا عصا دریا نیل کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔

 دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسٰی کے ہمراہ کوہ سینا تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے، اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسٰیؑ پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کرلو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔

 جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔

اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفر و شرک اور گمراہی میں مبتلا تھے، چنانچہ حضرت موسٰی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الٰہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسٰی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسٰی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسٰی، تم اور تمہار رب دونوں جاو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

حضرت موسٰی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا، جس کے بعد 40 برس تک اکرام خداوندی نے اُن کی طرف سے منہ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔

 40 سال  کےبعد حضرت موسٰی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسٰی وصال فرما گئے۔ ان کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے، جنہوں نے دریائے اردن کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحاً کو فتح کیا اور یہ اریحاً ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا۔

اریحاً کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الٰہی حکومت کا قیام تھا لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناء پر بنی اسرائیل الٰہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔

 اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کر دی۔

 چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی، جس پر حضرت طالوت، حضرت داود اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔

حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔

بعد ازاں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو، اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔

98 قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا، جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف ”مکابی“ نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے، اس لئے اُنہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی جو ایک مکار یہودی تھا۔

 64ء اور 66ء کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

 رومنی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزا دی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔

 بعد ازاں 667ء میں شر انگیزیوں کے باعث اُنہیں حجاز سے باہر نکالا گیا۔ حجاز کے بعد اُنہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں سے 890ء میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کر  دیا گیا، پھر یہ معتوب قوم پرتگال میں گھسی، جہاں سے انہیں 920ء میں نکال دیا گیا۔

 پھر یہ سپین میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں 1110ء میں فرار ہونا پڑا۔ سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290ء میں نکالا گیا، پھر یہ فرانس میں آٹپکے، جہاں سے انہیں 1306ء میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا، جہاں سے انہیں 1370ء میں بھگایا گیا۔

پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے، جہاں سے انہیں 1380ء میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے، جہاں سے انہیں 1434ء میں دوبارہ نکال دیا گیا۔

 پھر انہوں نے ہالینڈ کا رخ کیا، جہاں سے انہیں 1442ء میں باہر دھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس میں داخل ہوئے، جہاں سے 1510ء میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا، پھر یہ اٹلی میں گھسے 1540ء میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا، پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی پہنچے، لیکن 1551ء میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا پھر یہ ترکی میں گھسے، اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہر طرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔

 چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو وی آنا میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔

فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اُس وقت منظر عام پر آئی جب 1862ء میں ایک جرمن یہودی موسٰی ہیٹس کی کتاب ”روم اور یروشلم“ مارکیٹ میں آئی۔

 اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔ اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔

 1896ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔

اس کتاب یا رسالے میں اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اوّلاً یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیاً یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خودمختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔

 انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی، جس کے باعث ہرزل 1897ء میں سوئزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔

 یہ صحافی اپنی موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔

 ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیا اور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبّین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔

 اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی، چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے۔

 یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے نہ صرف قربانیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیتے تھے۔

 چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی، اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے، تاکہ ان کا تمام مکر و فریب عربوں تک محدود ہوجائے۔

 چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا، جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی ساز باز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی، یہاں تک کہ 1948ء میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔

 مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔

اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔ فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔

ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔

دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔ اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔

 اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمام تر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے، اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔

 اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی ْاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

 اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر "ٹرومن" نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔

برطانیہ، امریکہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

عرب ریاستوں نے اپنے عربی مزاج کے مطابق  ، اس مسئلے میں بھی عربی و عجمی کی تقسیم کو باقی رکھا اور سب سے پہلے تو اسے عربوں  کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی،  اور اس مسئلے کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔

امریکہ و اسرائیل نے اس کے بعد  عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے  بھرپور کام کیا۔

 سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔

اسرائیل نے بھی دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف و ہراس میں مبتلا کئے رکھا اور فلسطینوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا، یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔

تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں 1979ء تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن عرب ریاستوں نے ان کی مدد کرنا چھوڑ دیا تھا۔  ایران میں اسلامی انقلاب نے فلسطین کو عربی مسئلے کے  بجائے اسلامی مسئلے طور پر اٹھایا،  جس کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ ایک اسلامی مسئلے کے طور پر ابھرا اور مسلمانوں نے از سرِ نو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرانے  کے لئے سوچنا شروع کر دیا۔

 ایران میں اسلامی انقلاب کے بانیوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم قدس کے طور پر منانے کی دعوت دی۔ اس کے بعد دنیائے اسلام نے  یوم القدس  کو بھرپور طریقے سے منعقد کرنا شروع کر دیا اور یوں فلسطینیوں کو نئی ہمت اور حوصلہ ملا، یہی وجہ ہے کہ اب فلسطینی سعودی عرب یا خلیجی ریاستوں کی مدد اور امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے۔ آج اس وقت جب ساری خلیجی ریاستیں امریکہ و اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھ گئی ہیں، اس کے باوجود فلسطینی بچے پتھر لے کر ٹینکوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی   ٹینکوں پر   پتھر  برسانا  در اصل طمانچہ ہے ان ممالک کے منہ پر جو فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر امریکہ و اسرائیل کی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ بلاشبہ فلسطینی  ، غلامی کے باوجود آزاد اور بہادر  ہیں  جبکہ  فلسطینیوں سے غداری کرنے والے آزادی کے باوجود غلام  اور بزدل ہیں۔

اسرائیل مردہ باد۔۔۔ فلسطین زندہ باد


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) 399سال قبل از مسیح عدالت لگ چکی تھی سقراط اپنے ہی شہر ایتھنز کے منصفوں کی عدالت میں پیش تھا ا لزام تھا کی وہ ریاست کے خدائوں کو تسلیم نہیں کرتا نو جوانوں کے ذہن خراب کر تا ہے اور اپنے عقائد و فکر پھیلانے کی کوشش کر تا ہے کمال مقدمہ تھا نہ چوری کا نہ کرپشن کا نہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا یہ تو صرف عقائد و نظریا ت پھیلانے کا مقدمہ تھا ،سقراط بہت بڑا فلاسفر تھا جس نے کہا تھا کہ "سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے"یہ بات عیسائی مذہب کی میتھالوجی کے خلاف گئی تو معاملہ عدالت میں چلا گیا جب بات نظریات و عقائد پر آئی تو سقراط اپنی سوچ پر ڈٹ گیا اور اسے زہر پلا دینے کی سزا سنا دی  گئی جس بنا پر اس کی موت واقع ہوئی ۔وقت بہت بے رحم ہے سچائی اور حقیقت کو سامنے لے ہی آتا ہے ،وقت نے سقراط کے زہر پینے کے صدیوں بعد حقیقت سائنسی بنیادوں پر ظاہر کی اور واقعی سورج ساکن اورزمین اس کے گرد گھومتی ہے اسکے علاوہ سقراط جو بھی کہتا تھا سچ ہے اس بات پر یونان کے پادریوں اور چرچ نے سقراط سے معافی مانگی اور اس کو اپنا ہیرو قرار دیا وقت نے سقراط کو زندہ کیا اور اس کی سوچ کو امر کر دیاآج زہر پینے کے باوجو د سقراط پوری دنیا میں زندہ ہے سچائی اور حقیقت ہمیشہ زندہ رہتی ہے چاہے معاشرہ اس کے خلاف ہی کیوںنہ ہواس کو دبانا بھی چاہے تو یہ دب نہیں سکتی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں یہ سامنے ضرور آتی ہے، سچ چھپانے سے نہیں چھپتا اور حقیقت ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور معاشرے میں صرف وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو سچ اور حقیقت پر پورا اترتے ہیں نا کہ جو دھوکے اور فساد کا سبب بنتے ہیں خود دیکھ لیجیے آج دنیامیں کتنے چور ،کرپٹ ،ڈکیٹ اور لٹیرے موجود ہیں جن کی تعداد تو کم ہے لیکن ان کے متعلق نظریا ت بہت گندے ہیں کہ سننے سے کانوں میں چپ اتر آتی ہے، جبکہ اُن لوگوں کی گنتی زیادہ ہے جنہوں نے اچھے اسلوب ،نیک سوچ اور سچے جزبوںسے معاشرے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، سقراط ایک ذہین فلاسفر تھا جس نے اپنی ذہنی شعور سے تاریکیوں میں روشنیوں کی بات کی تھی مگر معاشرے نے اسے تسلیم نہ کیا جس کے سبب صدیوں تک معاشرہ اندھیرے میں رہا لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا سقراط سچا تھا۔

آج سے پھر ایک عدالت برپا ہے، جس میں عدالت کا منشی با آواز بلند بادشاہ سلامت نواز شریف صاحب حاضر ہوںکی صدا بلند کئے ہوئے ہے اور نواز شریف صاحب ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے پسینے پونچھ رہے ہیں،افسوس کہ آج انکے الفاظ انکی حسیات کا ساتھ نہیں دے رہے انکی آواز اکھڑ ی اکھڑ ی ہے سقراط اور نواز شریف کی شخصیا ت میں زمین آ سمان کا فرق ہے وہ ایک فلاسفر اور یہ ایک سیاستدان ہے ،اُس پر غلط نظریا ت پھیلانے کا الزام اور اس پر کر پشن جیسا بھیانک الزام وہ ایک عام شہری اور یہ ملک کا ایک کر پٹ حکمران وہ زہر پینے کے باوجود زندہ اور یہ زندہ ہونے کے باوجود ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے، میرے خیال سے زندگی کا کوئی مقصد ہے تو وہ عزت و نیک نامی ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک نہ سہی چلو کچھ عرصہ ہی لوگ اچھے لفظوں سے یاد تو کریں گے نہ کہ بستر مرگ پر آہو پکار سننے کو ملے یا پھر زندگی کے آخری وقت عدالتوں کے چکروں میں اور عدالت کو چکر دینے میں گزر جائے، جمہوریت و عوامی سیاست اور شریف خاندان کی نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اپنے اثاثے ملک میں واپس لے آئے عدالت کو حقیقت سے روشناس کرائیںاور عوام سے معافی مانگ لیں تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی نہ کہ علی بابا اور چالیس چور کے مترادف کہانیاںبنتی جائیںگی عدالتیں لگتی رہیں گیں اور بدنامی ،ذلت اور رسوائی کا سامنا رہے گا محترم وزیر اعظم صاحب کو یہ زہر کا پیالہ پینا ہی پڑے گا اسی میں ان کی بقا ہے اس کو پینے سے ہی آپ تاریخ میں امر ہوں گے اور لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے نہیں تو یہ عدالتیں قطر تو کیا قبرکی دیوار تک آپ کے ساتھ جائیں گی شاید کہ قبر کا بھی ٹرائل ہو۔ خدا نہ کرے۔


کالم نگار۔۔عابد حسین مغل

وحدت نیوز(آرٹیکل) علامہ اقبال اور مولوی حضرات کی کشمکش ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی، یہ دراصل اقبال کی ہی ایک نظم کا عنوان ہے۔[1] کچھ لوگوں نے اقبالیات کا مطالعہ کرنے کے لئے اور کچھ نے اقبالیات پر پردہ ڈالنے کے لئے،  اقبالیات کو کئی حصوں اور ادوار میں تقسیم کیا, تاکہ حسبِ موقع یہ کہا جاسکے کہ یہ تو اقبال کا ارتقائی یا ابتدائی دور تھا, لہذا فلاں شعر کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن ان درجہ بندیوں کے باوجود کلیات اقبال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور[2]

ظاہر ہے کہ اقبال ؒکی جنگ اس ملّا سے تھی، جو خود غرض تھا اور یا پھر دین کے پیغام کو نہیں سمجھتا تھا، پھر وقت گزرتا گیا اور یہ ناسمجھ مولوی بھی نسل در نسل  پھیلتے گئے، یہاں نتک کہ ممتاز مفتی کو بھی ان خود غرض یا ناسمجھ مولویوں سے شکوہ ہی رہا۔ ممتاز مفتی کے بعد تو خود غرض اور ناسمجھ مولوی حضرات کو گویا کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہمارے ہاں جگہ جگہ اقبال کا دھتکارا ہوا   ناسمجھ مولوی، دین کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔

ایک دن ہم نے بھی بزمِ خیال میں، سب سے پہلے پاکستان کہا تو ایک مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، رونی صورت بنا کر کہنے لگے نہیں نہیں! عزیزم یوں نہیں کہتے، سب سے پہلے اسلام اور حرمین شریفین ہیں۔ ہم نے عرض کیا چلیں ٹھیک ہے، سب سے پہلے وہی جو آپ کہیں! ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر آپ کے نزدیک سب سے پہلے اسلام ہے تو پھر یہ خادم حرمین شریفین نے ٹرمپ کی بیوی کے ساتھ مصافحہ کرکے حرام فعل انجام دیا یا نہیں!؟ وہ فوراً بولے نہیں نہیں، آپ نے دوسروں کی قبر میں تھوڑے ہی جانا ہے، اپنی اصلاح کی فکر کریں، اپنے ملک کا حال دیکھیں۔ ہم نے کہا بالکل بجا فرمایا آپ نے، سچ مچ میں  ہمارے ملک کا بہت برا حال ہے، ہماری فوج کے ریٹائرڈ جنرل کو بغیر سینیٹ کو اعتماد میں لئے، سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا ہے، وہ فوراً بولے کہ آپ نے راحیل شریف کی قبر میں تھوڑا جانا ہے، جو ہو رہا ہے ہونے دیں، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور بس۔ ہم نے کہا یہ بھی  ٹھیک ہے، آج کے بعد ہم صرف اپنی اصلاح کریں گے لیکن اگلے ہی دن، ہم نے دیکھا  کہ مولوی صاحب اِدھر اُدھر، ایّھا الناس! اٹھو اٹھو، شام میں جہاد کرنا ہے، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، حرمین شریفین کا دفاع کرنا ہے، کی صدائیں دے رہے تھے۔

ہم نے پوچھا مولانا صاحب! آپ نے ہی تو کہا تھا کہ دوسروں کو چھوڑو اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کرو، یہ اب آپ اپنے ہی قول کے خلاف لوگوں کو  جہاد اور قیام کی دعوت دے رہے ہیں، مولوی صاحب نے پھر پینترا بدلا  اور تجوید کے مخارج کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے بولے، برخوردار! تم سمجھے نہیں، اپنی اصلاح ضروری ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا عین فریضہ ہے۔ ہم نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے، چلیں ہم بھی آپ کے ساتھ لوگوں کو قیام و جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے پھر قلابازی لی اور کہنے لگے پہلے اپنے ملک کو آزاد کراو اور پھر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات کرو، کیا تمہیں نظر نہیں آرہا کہ کتنی کرپشن ہے اس ملک میں!؟ ہم نے کہا مولانا صاحب! بالکل سو فیصد، آپ کی بات  ٹھیک ہے۔ اب ہم کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں،  مولانا صاحب چونک کر بولے، ارے عمران خان، وہ تو خود یہودیوں کا ایجنٹ ہے! داماد ہے داماد یہودیوں کا۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا، مولوی صاحب! عمران خان نے تو کسی کو گالیاں  نہیں دیں، عدالت میں جاکر کیس کیا ہے؟ اگر آپ کے پاس عمران خان کے خلاف ثبوت ہیں تو آپ بھی کرپشن کا کیس دائر کروائیں، یہ گالیاں تو نہ دیں۔ کسی کا  داماد ہونا کوئی بری بات تو نہیں۔ فتح مکہ سے بھی پہلے خود ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ہاں ابوسفیان جیسے بدترین دشمن کی بیٹی تھی۔ آپ رشتے داری کی وجہ سے کسی کو کوسنے کے بجائے اصولوں کی بات کریں۔

اگر ایک ارب 65 کروڑ کے اثاثوں کی بدولت نواز شریف پاکستان کے پہلے امیر ترین شخص ہیں تو عمران خان بھی ایک ارب 40 کروڑ کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت ہیں، اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو آپ بھی عمران خان پر کرپشن کا کوئی مقدمہ دائر کروائیں۔ جب یہ سنا تو مولوی صاحب سٹپٹا گئے، پھر تیور بدلے اور فتوے کا استرا لہراتے ہوئے بولے بچے تم توبہ کرو، تم شخصیت پرستی کر رہے ہو، تم نے عمران خان کو بت بنا دیا ہے۔ ہم نے کہا قبلہ، ہمارا تو عمران خان سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ کبھی ان کے جلسے جلوس میں  جانا ہوا اور نہ ہی کبھی ان سے ملا قات ہوئی، ہم تو اصولوں کی بات کرتے ہیں، اگر آج بھی عمران خان پر آپ ایک پائی کی کرپشن ثابت کر دیں تو ہم ان کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں، لیکن۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ آپ  کے سامنے شاہ سلمان نے کفار کے ساتھ دوستی کرکے، ٹرمپ کے ساتھ رقص کرکے، اس کی بیوی سے مصافحہ کرکے، کفار کو اربوں کے ہدیے دے کر صرف اصولوں کو ہی نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کو توڑا ہے لیکن اس کے باوجود آپ سعودی خاندان اور شاہ سلمان کی حمایت سے ایک انچ  بھی پیچھے نہیں ہٹے، بتایئے بت پرستی اور شخصیت پرستی ہم کر رہے ہیں یا آپ۔ یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب مسکرا کر بولے! برخوردار عمرہ کرنے چلنا ہے، مفت میں ٹکٹ مل جائے گی۔ ہم نے عرض کیا جی نہیں، بہت شکریہ! البتہ وہ ایک صاحب ہیں، جنہیں سلیم صافی کہا جاتا ہے، انہی کو عمرہ کروا دیجئے گا، وہ بھی آپ کی طرح موجودہ حکومت اور سعودی خاندان کے پرستاروں میں سے ہیں، وہ آپ کی دعوت ضرور قبول کر لیں گے۔ عمرے کی دعوت اتنی پرکشش تھی کہ اس کے ساتھ ہی ہمارے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

 [1] بانگ درا (حصہ اول) زہد اور رندی
[2] بال جبریل، حال و مقام


تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)22ستمبر 1857ء کو بہادر شاہ ظفر نے گرفتاری دی اور کیپٹن ہڈسن کے سامنے شرط رکھی کہ انہیں گولی نہیں ماری جائے گی اس وقت معزول بادشاہ کے ساتھ اس کے دوبیٹے اور اس کا ایک پوتا بھی تھا جن کو کیپٹن ہڈسن نے اپنے ہاتھوں سے گولی ماری تھی اب بہاد ر شاہ ظفر بیگم زینت محل کے ساتھ قید کرلیا گیا اور طے ہوا کہ بادشاہ کا عدالتی ٹرائل کیا جائے کہ کیا وہ بغاوت میں شامل تھا کہ نہیں جس کے لیے بہادر شاہ ظفر کو اپنے دفاع اور وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا تھا اس دوران جیون بخت جیسے اپنے باپ بہادر شاہ ظفر اور ماں زینت محل بیگم کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا تھا اس کا بھی ٹرائل ہو نا تھا جبکہ شاہی خاندان کے دیگر افراد کے خلاف پہلے ہی کورٹ مارشل کرکے انہیں گولی مار دی گئی تھی اس دوران جب بہادر شاہ ظفر کے ٹرائل کی تیاریاں ہورہی تھیں بہادر شاہ ظفر بہت سخت بیمار ہو گیا اور یوں لگا جیسے ٹرائل کی شاید ضرورت پیش نہ آئے تاہم چند دن بعد بادشاہ تند رست ہوگیا اور ٹرائل کی تیاریا ں دوبارہ شروع ہو گئیں اور یوں 27جنوری 1858کو ہند وستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا عدالتی ٹرائل شروع ہوا ۔

غضب خدا کا ۔۔۔توبہ توبہ !!!!بادشاہ سلامت ۔۔۔وہ بھی عدالت میں ۔۔۔اور بطور ملزم ۔۔ہاں شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر کے عدالت میں داخل ہونے سے قبل دربار میں سناٹا چھا چکا تھا درباریوں کی نظریں عاجزی سے جھک گئی تھیں ،ہوا جیسے رک گئی ہو ، ذہین جیسے دبک گئے ہوں ۔ہر طرف خاموشی سناٹا عجب سماں تھا ۔جب بیاسی سالہ بوڑھے بیمار اور لاغر بادشاہ اور بیگم زینت محل کا بچ جانے والا آخری اکلوتا چشم وچراغ جیون بخت اپنے باپ کو عدالت لا رہا ہے اور قیدی بادشاہ حیران ہو رہاکہ بھلا بادشاہوں کے بھی ٹرائل ہوتے ہیں کبھی ہم خود عدالت لگاتے تھے فیصلے کرتے تھے آج ہماری عدالت لگی اور ہم قیدی اور ہمارا فیصلہ ہونے جارہا ۔بوڑھا ،بیمار، لاغر، بادشاہ کپکپاتے ہوئے سوچ کی گھتیوں میں الجھا کٹہرے میں جاکھڑا ہوا قیدی بہادر شاہ ظفر کے خلاف چارج شیٹ پڑھی جانے لگی اور بادشاہ سلامت اپنی سوچ میں الجھے اپنی عظمت غم گشتہ کا نظارہ کررہے ہیں ۔
وقت بڑا بے رحم ہے یہ حقیقت اور سچائی کو سامنے لے کر ہی آتا ہے ،قدرت جب انتقام لینے پر آئے تو صدیوں ہندوستان پر حکومت کرنے والوں کو بندوق کی نوک اور بیاسی سالہ بوڑھے ،لاغر، ضعیف،بیمار بادشاہ کو عدالت میں ملزم بن کر آنے پر مجبور کر دیتی ہے ہمیں قدرت کے انتقام اور تاریخی حقیقتوں سے انکاری نہیں ہو نا چائیے۔ وقت نے آج نواز شریف کو بہ طور کرپٹ ملزم عدالت آنے پر مجبور کر دیا اس کے دونوں بیٹے کیا پورا خاندان باری باری عدالت کے چکر لگا نے پر مجبور اور افسوس کہ مرحوم میاں شریف صاحب کی قبر کے عدالتی ٹرائل کی بات بھی کی جارہی ہے کیا قائدہ ایسی زندگی اور جمع پونجی کا جسکا حساب بے حساب دینا پڑے عوام کو جواب دہ ہو نا پڑے ۔آج کے مغل بادشاہ جناب میاں نواز شریف جب جے آئی ٹی میں پیشی کے لیے جارہے تھے تو انکے تاثرات بھیانک تھے رنگ اڑا ہوا اور چہرے پر بدحواسی نمایاں تھی پسینے سے شر ابور اوآواز اکھڑی ہوئی ،تین گھنٹے کٹہرے میں رہے نجانے کیا ہوا ہو گا وہاں لیکن اہمیت کی بات یہ کہ حکمران وقت اپنے ہی منصفوں کے سامنے ہاتھ باند ھے کیسا بیٹھا ہو گا ،نواز شریف اگر اخلاقی جرات کریں اور باعزت معاملات کو سلجھانے کی بات کر یں تو انہیں خاموشی سے عوام سے معافی مانگ لینی چائیے اور اپنے اثاثے ملک میںلے آنے چائیے لیکن دوسری طرف مقتدرحلقے یہ بات بھی کرتے ہیں کہ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ پر برقرار رہتے ہوئے بھلا کہاں انصاف ہوسکتا ہے یہ بات بھی بہت حد تک درست ہے کہ ہمارے ہاںتو عدالتیں خریدنے تک کی باتیں کی جاتی ہیں اور اگر خرید وفروخت پر معاملہ طے نہ ہوسکے تو عدالتوں پر حملے کروا دئیے جاتے ہیں لیکن معاشرے کی عزت تو قیر اور سلامتی کے لیے بہتر ہے کہ معاملات کو سلجھانے کی جانب لیجایا جائے نوازشریف باعزت طریقے سے حقیقت کو سامنے لے آئے اثاثے ملک میں لے آئے اور قوم سے معافی مانگ لے یاپھر وزات عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر خود کو عدالت کے سپر د کردے یہ دونوںطریقے اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے ایسے تاریخ میںامر کردیں گے لوگ اسے نسلوں تک یاد رکھیں گے اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ اپنا اوراپنی نسلوں کا انجام بہادر شاہ ظفر سے کم تصور نہ کریں ۔
                                                                             

کالم نگار:۔۔۔عابد حسین مغل

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree