وحدت نیوز(آرٹیکل) بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ دو طرفہ قومی مصلحت ومفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں. اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں شرکاء آپس میں اعتماد اوراحترام متبادل جیسے اصولوں کی پاسداری کریں. اور ھر پارٹنر کو یہ اطمینان ہونا چاہیئے کہ ان تعلقات سے اس کے ملک کی سلامتی، وحدت واستقلال ، امن وامان ، قومی آبرو ووقار ، فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کسی بهی وجه سے متاثر نہ ہو گی.

حقیقی دشمن کی پہچان:

جہاں اس دنیا میں ہر ملک وقوم کے کچھ دوست ہوتے ہیں وہیں پر  اسکے دشمن بھی ہوتے ہیں. جیسے دوستوں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے ویسے ہی دشمنوں کی بھی درجہ بندی کی جا سکتی ہے. لیکن دنیا میں اکثریت انکی ہے جو نہ تو کسی کے قریبی دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن بلکہ کبھی دو طرفہ مفادات اور مصلحتیں انکو آپس میں قریب کر دیتی ہیں اور جب مشترکہ مفادات نہ ہوں تو رابطے نہیں ہوتے. اور فقط ہر ملک وقوم اپنے بنیادی اصولوں پر ثابت قدم رہ کر کامیاب اور لچکدار خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی بڑی تعداد میں دوست بنا سکتی ہے. یہ فقط استکباری طاقتوں کا نظریہ  ہے کہ جو ملک ہمارا دوست نہیں تو پھر وہ ہمارا دشمن ہے.اور اس کا اظہار سابق امریکی صدر جورج بش 2 نے نئی جنگیں مسلط کرتے وقت کیا تھا   ۔

حضرت امام علی علیه السلام نے دشمن کو تین گروهون مین تقسیم کیا ہے:
1- کهلا دشمن: کھلے دشمن وه ہوتے ہیں جنھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ حملہ کر دیتے ہیں۔
2- دشمن کا دوست : دوسرے وہ دشمن ہوتے ہیں جو اس کھلے دشمن کے وہ دوست ہوتے ہیں. حملے میں اسکے شریک ہوتے ہیں. یا اسکی  مدد کرتے ہیں اور اسکی تقویت کا سبب بنتے ہیں۔
3- دوست کا دشمن : تیسری قسم کے وه دشمن هوتے جو آپکے حقیقی دوست کے دشمن ہوتےہیں ۔

جس ملک کے حکمران اور عوام اپنے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رکھتے وہ ہمیشہ  دھوکے میں رہتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں . بین الاقوامی تعلقات میں دوست اور دشمن کا تعین کرنا حکومت کی زمہ داری ہے. اور جب کسی ملک کے تعلقات متوازن نہ ہوں اوراس كے قومی مفادات کو نقصان پہنچ رھا ہو تو سمجھ لیں کہ ملک کے حکمران یا تو نا اھل ہیں یا خود غرض، یا خیانت کار ہیں یا بزدل، یا پھر انکی وفاداریان اپنے ملک وقوم کے ساتھ نہیں بلکہ وہ  کسی دشمن کے آلہ کار اور وفادار ہیں .
ہمارا پیارا وطن مسلسل کئی دھائیوں سے مختلف بحرانوں کا شکار ہے .کئی ایک حکومتیں بدلیں اور فوجی انقلابات بھی آئے ہیں لیکن ہم مسلسل دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں. اس مختصر کالم کے ذریعے سارے مسائل ومشکلات کا احاطہ تو ممکن نہیں.البتہ آئیں غور وفکر کریں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر ایک سچے مسلمان اور محب وطن شہری کی حیثیت سے کم از کم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے حقیقی اور کھلے دشمن کون ہیں؟. کیونکہ آج تک بد قسمتی سے ہماری قوم یہ بھی فیصلہ نہ کر پائی کہ ہمارا پہلے درجے والا کھلا دشمن کون کون ہے.؟ اور جب دشمن کا تعین ہی نہیں ہوگا تو پھر قوم اسکا مقابلہ کیسے کرے گی. مثال کے طور پر ہمارے بعض حکمران انڈیا کو دشمن قرار دیتے ہیں اور بعض  دوست.جب ایسی گھمبیر صورتحال ہو تو یہ قوم اس دشمن کا ملکر کیسے مقابلہ کر سکتی ہے. اور جب دشمنوں کا کھل کر تعین ہو جائے گا تو پھر غداروں اور مفاد پرستوں اور خیانتکاروں کو قوم آسانی سے پہچان لے گی۔

ہمارے وطن عزیز کے حقیقی اور کھلے دشمن کون؟

حالانکہ پہلی قسم کا دشمن تو بالکل واضح دشمن ہوتا ہے اور اسکے پے درپے حملوں اور سازشوں سے اسکی دشمنی سب کو نظر آتی ہے.اور کوئی بھی اسکے دشمن ہونے کا انکار نہیں کر سکتا. لیکن ہمارے ہاں پھر بھی اختلاف پایا جاتا ہے،ویسے تو ہر ملک کی طرح ہمارے وطن عزیز پاکستان کے اندرونی وبیرونی دشمن لا تعداد ہیں . اندرونی دشمنوں میں کرپش ، بدعنوانی ، لا قانونیت اور غیر اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ بھی ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہمارے خطرناک دشمن ہیں. اور بیرونی طور پر ہر وہ ملک یا بین الاقوامی ادارہ جس کی پالیسیوں اور اقدامات سے ہمارا قومی مفاد متاثر ہوتا ہے یا وہ ہمارے دین مبین  اسلام پر کھلا حملہ کرتا ہے. یا ہماری آزادی وخود مختاری اور زمینی سرحدوں کے اندر حملہ آور ہوتا ہے . وہ ہمارا بیرونی دشمن ہے.
 
مذکورہ اصولوں کے تحت مندرجہ ذیل تین ہمارے کھلے دشمن ہیں. جنھوں نے بالکل کھل کر وطن عزیز پاکستان اور دین مبین اسلام کے ساتھ دشمنی کی ہے.

1- انڈیا        2-   اسرائیل         3- تکفیری دھشتگرد.

1- انڈیا :

انڈیا متعدد بار جارحیت کر چکا ہے. اور ہمارے وطن کا ایک بہت بڑا حصہ بنگلہ دیش ہم سے جدا کرنے کے بعد اس دشمن ملک کا وزیراعظم کھلے عام اس پر فخر وناز بھی کرتا ہے اور نریندر مودی ڈھاکہ سے اعلان کرتا ہے کہ پاکستان کو دولخت انھوں نے کیا تھا . اور ہمارے وطن کے ایک فطری حصے (كشمير) پر قابض بھی ہے. ھمارے لاکھوں ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کا قاتل بھی ہے. اور ہر وقت ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتا رھتا ہے. اور ہمارے بہت سے اندرونی بیرونی بحرانوں کے ماوراء اسکے ہی ھاتھ نظر آتے ہیں. اس لئے اپنی اس پالیسی کی وجہ سے بلا شک وریب یہ ہمارا پہلے درجے کا کھلا دشمن ہے.

2- اسرائیل:

 اسرائیل کا وجود سر زمین مقدس فلسطین پر غیر قانونی ہے اور عالمی طاقتوں کے تعاون سے قوت و طاقت کے بلبوتے پر اسے قائم کیا گیا. یہ لاکھوں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا قاتل ہے. متعدد جنگیں عالم اسلام پر مسلط کر چکا ہے. ہمارے قبلہ اول پر بھی قابض بھی ہے. اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے 70 سال گزر جانے کے باوجود ہم نے اسے تسلیم نہیں کیا. اسکے ہمارے پہلے درجے کے دشمن کے ساتھ گہرے تعلقات بھی ہیں.  ہمارا ایٹمی پروگرام اس کی آنکھوں میں چبھتا ہے. یہ وہ ملک ہے جس نے عراق ، شام  اور سوڈان پر اچانک فضائی حملے کر کے انکے ایٹمی ریکٹر تباہ کئے تھے.اسلام مسلمانوں کے کھلے دشمن ہونے کی وجہ سے اب خطرہ اس بات کا بھی رھتا ہے کہين یہ حماقت ہمارے خلاف بھی نہ کر دے. گو اسے انڈیا کے اکسانے اور اس کی اپنی پلاننگ کے باوجود آج تک اسے  ہمت نہیں ہوئی. ہم نے بھی ہمیشہ اسے اپنا دشمن ہی سمجھا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ اس کا حامل ما سوائے اسرائیل کے ساری دنیا کا سفر کر سکتا ہے.البتہ اب امریکی نفوذ اور پریشر کی وجہ سے اور عربوں کی امریکی غلامی اور خیانتوں کی وجہ سے پاکستان میں بھی یہ غلامی کی سوچ پھیلانے پر کام جاری ہے کہ جب عربوں نے صلح کر لی تو ہم کیوں عالمی برادری سے کٹ جانے پر بضد رہیں. یہاں پر چند ایک سوال جنم لیتے ہیں ۔

1- گویا آج تک ہماری پالیسی فقط عربوں کی اسرائیل دشمنی کی وجہ سے تھی . کیا آج تک ہم خود مختار ملک نہ تھے ؟

2- اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم کتنے بے وقوف تھے کیونکہ آج تک کسی بھی عرب ملک نے تو ہماری خاطر انڈیا سے تعلقات منقطع نہیں کئے ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے رہے.؟

3-  اسی اسرائیل کے ناجائز وجود اور فلسطینی عوام پر ظلم وستم ، بیت القدس کی آزادی اور فلسطین سمیت دیگر مسلمان ممالک کی زمینوں پر قبضے کے خلاف سارے اسلامی ممالک کا مشترکہ ادارہ     ( او آئی  سی) بنا. ہم اسکے بانی ممبران میں سے تھے اور اس ادارے کی کانفرنسز ہماری میزبانی میں ہوئیں اور ہم اسکے چیئرمین بھی رہے . اگر یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں تھا تو یہ سب کچھ ہم نے کیوں کیا گیا ؟

4- کیا بیت المقدس فقط عربوں کا پہلا قبلہ ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.؟ کیا ہمارے نبی کی معراج کی جگہ نہیں.؟

5- اگر بزدل اور خائن فلسطینی اور بعض عرب حکمرانوں نے اسے  تسلیم بھی کر لیا تو کیا اس حق کا اب مطالبہ کرنے والا وھاں پر کوئی نہیں.  جس کی حمایت ہمارا انسانی اور ایمانی فریضہ ہے؟

6- کیا ہمیں امریکہ اور اسرائیل اور عرب حکمرانوں کی خاطر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے اور اپنے تاریخی حق کا مطالبہ کرنے والے مسلمان بھائیوں اور آزادی خواہ تحریکوں کی حمایت اور مدد کرنا ترک کر دینا چاہیئے ؟

7- اگر ایسا ہی درست ہے تو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا رونا پھر ہم کیوں روتے ہیں ؟ اور تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟

نہیں ہر گز نہیں ہم ایک سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے. اور اسرائیلی سیاہ تاریخ اس بات کی شاھد ہے کہ جب بھی اس صہیونی دشمن کو موقع ملے گا وہ آپکو نقصان دے گا. ہمیں کسی مغالطے میں بھی  نہیں رہنا چاہئے۔

3- تکفیری دھشتگردی:

یہ وہ لعنت ہے جس نے ہمارے ملک پاکستان کا امن وامان چھین لیا ہے. اور اسے تباہ کر دیا ہے. خطے میں جس ملک نے ایک لمبا عرصہ اس کے خلاف جنگ لڑی ہے وہ پاکستانی عوام ہیں. اور ہماری فورسز نے اس کے خلاف متعدد آپریشن کئے اور بے پناہ قربانیاں دیں. اسی تکفیری دھشت گردی کی وجہ سے ہماری صنعت وتجارت متاثر ہوئی اور نا امنی کی وجہ سے ہمارا ملکی سرمایہ باہر منتقل ہوا. ملک میں فقر وفاقہ اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا. ہمارے آپس میں  اجتماعی تعلقات خراب ہوئے 80 ہزار سے زیادہ شہری اسکی وحشت وبربریت کی پھینٹ چڑھے . ہمارا انفرا اسٹکریکچر تباہ ہوا. اب تو انھیں تکفیریوں کے سرغنوں کے اعترافات بالکل لوگوں کے سامنے میڈیا پر آ چکے ہیں . کہ ہمیں انڈیا اور اسرائیل جیسے پاکستان دشمن ممالک سے مدد ملتی ہے. اور ان سے روابط ہیں. انکے جرائم اور پاکستان کے ہر طبقے کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی لسٹ بہت طویل ہے. اور ہر پاکستانی انہیں خوب پہچانتا ہے۔

اب ان تینوں کھلے دشمنوں کی پاکستان یا اسلام دشمنی سے جو بھی انکار کرے گا . اور انہیں  وطن دشمن قرار نہیں   دے گا وہ ملک کا عالم ہو یا مفکر ، سیاستدان ہو یا حکمران ، سول آفیسر ہو یا ملٹری آفیسر ، صحافی ہو یا رائٹر جو کوئی بھی ہو وہ کبھی بھی پاکستان کا مخلص نہیں ہو سکتا۔


 تحریر ۔۔۔۔ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین اور مجلس علمائے شیعہ پاکستان کے زیر اہتمام نشتر پارک کراچی میں منعقدہ عظیم الشان استحکام پاکستان وامام مہدی عج کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئےمجلس علمائے شیعہ پاکستان کے مرکزی صدر علامہ مرزا یوسف حسین نےکہا کہ موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں کی شیعہ دشمنی اپنے عروج پر ہے، علمائے کرام ، جوانوں اور اور قومی خدمات میں مصروف عمل شخصیات کا اغوا قابل مذمت اقدام ہے، عزاداری سید الشہداءکے خلاف ریاستی پابندیاں بنیادی شہری حقوق سے متصادم ہیں، انہوں نے کہا کہ مجلس علمائے شیعہ پاکستان امریکی قیادت میں تشکیل کردہ سعودی اسرائیلی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی خون کے آخری قطرے تک مخالفت جارہ رکھے گی۔

حکومت کی شیعہ دشمنی اور پولیس کی دشمنی جاری ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ عزاداری اور امام بارگاہوں
کے خلاف کسی بھی حکومتی اقدام کی بھرپور مخالفت کریں گے ،

وحدت نیوز(آرٹیکل) وطن عزیز پاکستان اس وقت داخلی طور پر شدید ترین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے. یہ سرزمین پاک شہدا ملت کی امانت ، ہمارے آباء و اجداد کی انتھک جدوجہد کا ثمر اور ہماری آنے اولی نسلوں کا مستقبل ہے. اس لئے جہاں حکمرانوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اس کی سلامتی وحفاظت اور تعمیر وترقی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ہر قسم کی قربانی دیں وہاں عوام کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ بھی بیداری اور احساس زمہ داری کے ساتھ اسکو بحرانوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں.

باقی تمام مسائل اور مشکلات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات اور روابط کے تناظر میں ہمارے درمیان داخلی طور پر مزید دوریاں اور دراڑیں پیدا کرنے کی سازش پر بھی کام ہو رہا ہے. اور بالخصوص خطے کے مسائل اور بحرانوں اور جاری جنگوں میں پاکستان کی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر ہمیں ان جنگوں کا ایندھن بنانے کی کوششیں ہو رہی ہے. ہمیں جان لینا چاہیے کہ جب بھی پاکستان پر کوئی برا وقت آیا ہماری خاطر کوئی بھی دوست ملک سر زمین پاکستان پر آکر نہیں لڑے گا. ممکن ہے کوئی دوست ملک ہماری مالی یا اخلاقی مدد کر دے لیکن خون ہماری قوم کو ہی دینا پڑے گا. اور ماضی کی جنگیں اسکی واضح مثال ہیں.  اگر آج ہمارے کسی برادر ملک پر کسی حملہ کیا ہے اور وہ وہ حملہ آور ہمارے دشمنوں میں سے ہے تو ہمیں بھی انکی مالی اور  اخلاقی انکی مدد کرنی چاہیئے. اور اگر جنگ کسی بھی وجہ سے ہمارے برادر ممالک کے ما بین چھڑ چکی ہے. تو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہمیں حکم دیتا ہے " کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ہمیں صلح کروانی چاہیئے. اور جس نے زیادتی کرتے ہوئے ہمارے ایک بھائی نے دوسرے پر حملہ کیا ہے تو ہمیں اس حملہ آور کو روکنا چاہیے. حتی کہ وہ حکم خدا کی طرف لوٹ آئے. اور جب وہ رک جائے تو ہمیں عدالت وانصاف سے انکے ما بین صلح کروانی چاہیے. " القران
مگر افسوس ہے کہ ایک طرف تو ہم خود بحرانوں کا شکار ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمران ذاتی مصلحتوں کی خاطر اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں. جس کی واضح مثال پارلیمنٹ کے فیصلے کے بر خلاف اور قومی مفاد کو داو پر لگا کر اس فرقہ ورانہ بین الاقوامی فوجی اتحاد کی فقط شمولیت ہی نہیں بلکہ سربراہی قبول کرنا ہے. اور اس اتحاد کی جانب بڑھنے والا ہمارا ہر قدم جہاں ہماری بدنامی کا سبب بنے گا وھاں ہماری فوج بھی اندر سے کمزور ہوگی.

امت مسلمہ پر ماضی میں بھی مختلف دور گزرے اور نشیب وفراز آئے .عصر حاضر کی تاریخ میں جب سے سرزمین مقدس فلسطین پر صہیونی ریاست کی بنیاد عالمی استکباری قوتوں کے تعاون سے رکھی گئی اس وقت سے لیکر آج تک جنگوں نے اس خطے میں گھر کر لیا ہے. اسرائیل کے خلاف ابتداء میں پوری مسلم امۃ متحد تھی. اور یہ فلسطین کا مسئلہ او آئی سی کی تاسیس کا سبب بنا.  جس کے ایک ابتدائی اجلاس کی میزبانی ستر کی دھائی میں پاکستان نے کی اور تمام اسلامی ممالک کے سربراہان اس بین الاقوامی سطح کی کانفرس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے. حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے مسئلہ فلسطین کو ایک مسلمان ملک ہونے اور مسلم امت میں دوسرا بڑا اسلامی ملک ہونے کے ناطے اپنا ذاتی مسئلہ قرار دیا. اسرائیل کے خلاف جنگوں میں ہماری مسلح افواج نے شرکت کی  اور بالخصوص ہمارے پائلٹوں نے یکے بعد دیگرے اسرائیلی طیارے گرا کر تمغے حاصل کئے اور جہان اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا.

دوسری طرف مغربی مداخلت اور پریشر میں بعض عرب ممالک کے سربراہان نے امت اسلامیہ کے اس مرکزی قضیہ سے خیانت کی اور سفارتی تعلقات قائم کر لئے.  جن پر پوری امت اسلامیہ نے لعنت کی اور انہیں خائن قرار دیا. لیکن پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناطے اپنے اصولی موقف پر ڈٹا رہا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دشمن نے امت اسلامیہ میں ایک نیا فتنہ کھڑا کیا. جب ایران میں اس خطے کے سب سے زیادہ امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے شہنشاہ کے خلاف ایرانی عوام نے قیام کیا.  جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا. اور اس امریکی واسرائیلی ایجنٹ کے اقتدار کا سورج غروب ہوا. اور تہران میں سالہا سال سے قائم اسرائیلی سفارتخانے کو بند کرکے اسے فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کیا . اور اسرائیل کے پرچم کی جگہ تہران میں فلسطین کا پرچم لہرایا. امریکہ اور اسرائیل اسے کب برداشت کر سکتے تھے انھوں نے اس انقلاب کو ختم کرنے اور اس حکومت کو گرانے پر کام شروع کر دیا.

امریکہ اور غرب نے اس اسلامی انقلاب سے انتقام کے طور پر  فتنوں کا آغاز کیا. اور عرب وعجم کے فتنہ کو ہوا دی اور ہمسایہ عرب ملک کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی. پاکستان نے حکیمانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے تعلقات تمام اسلامی ممالک سے قائم رکھے. آخر کا یہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا. لیکن مسلمانوں کی توجہ امت اسلامیہ کے مشترکہ دشمن  اسرائیل کی طرف کم ہوئی. اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرتا رھا یہاں تک کہ 80% فلسطین پر قابض ہوگیا. فلسطینی مجبور ہوکر ہجرت کرتے رہے اور یہودیوں کی آباد کاری ہوتی رہی. اور مسئلہ فلسطین سکڑتا گیا. پہلے امت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ تھا پھر اسے عرب اسرائیل کا رنگ دینے پر کام ہوا. جتنا جتنا مسلمان اور عرب پسپائی کرتے رھے اتنا ہی اسرائیل بڑھتا رھا. اس کے بعد اسے مشرق وسطی تک محدود کردینے پر کام ہوا. لیکن پاکستان اپنے موقف پر قائم رھا گو امریکہ وغرب کی خوشنودی اور رضایت کے لئے کچھ سیاستدان اور حکمرانوں شکست خوردہ ذہنیت کے ترجمان بنتے رہے.

عرب وعجم فتنہ کی ناکامی اور 2006 اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کے ذلیل ہونے اور حزب اللہ کی کامیابی کے بعد شیعی ہلال  کو خطرے کا بہانہ بنا کر 2011 سے اسلامی دنیا میں ایک نئے فتنوں کو ہوا دی اور شیعہ سنی جنگ کے ذریعے ہر مسلمان گھر میں اس فتنے کی آگ بھڑکانے اور پھیلانے پر کام شروع کیا. لیکن اس کے ماوراء انکا مقصد اسرائیل کو محفوظ کرنا اور پوری امت اسلامیہ کو اسکے قدموں میں جھکانا تھا. تاکہ کمزوری وناتوانی اور خوف وہراس کی حالت میں وہ اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی سفارت خانے کھولنے اور تعلقات بنانے میں سبقت لیں. امریکی تباہ کن ہتھیاروں اور پورے خطے میں پھیلے ہوئے فوجی اڈوں کے ڈر اور اقتدار وریال و ڈالرز کے لالچ میں سعودی عرب کے ذریعے سنی ممالک کے فوجی اتحاد بنانے کا اعلان ہوا. اور یکے بعد دیگرے مسلم ممالک کی حمایت اور ہمدردیاں خریدی گئیں. اور پھر اسکا پہلا اجتماع 20 مئی 2017 کو ریاض میں ہوا جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرانپ نے کی. اور 50 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسلام کے موضوع پر ایک امریکی غیر مسلم صہیونی کا خطاب ہی نہیں سنا بلکہ عملی طور پر اسکی ولایت و سربراہی وسرپرستی میں شیعہ سنی جنگ ہی نہیں بلکہ خاموش حمایت سے اسرائیل کی اس خطے پر سرداری قبول کی. جس کا اظہار سعودیہ کے دورہ کے دوسرے دن اسرائیل پہنچ کر امریکی صدر نے فاتحانہ انداز سے کیا اور کہا کہ اب سارے مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی طور پر تعلقات بنانے کے لئے تیار ہیں. اور اس طرح انکے حساب سے قانونی طور پر اسرائیل کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو گیا.  اور اب اگر کسی شیعی یا سنی ملک یا تنظیم نے اسرائیل کی مخالفت کی یا اس کے وجود کے  لئے خطرہ  بنا تو اسرائیل کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں.  کیونکہ اسکے نئے اتحادی اور امریکہ کے بقول سنی ممالک کا اسلامی اتحاد ان دہشتگردوں سے نپٹنے کے لئے جدید ترین امریکی و مغربی اسلحہ کے ساتھ تیار ہے جس کے سربراہ پاکستانی جنسیت کے حامل سابق فوجی جنرل راحیل شریف ہیں.

تحریر۔۔۔  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) میرا ملک، میرا وطن، میری پہچان ، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ہمارا نعرہ ایمان، اتحاد اورتنظیم ہے۔ اس کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہے، مکمل آبادی کا اندازہ مردم شماری کی روپورٹ کے بعد ہی ہوگا ۔ یہ دنیا کی آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک ہے، یہاں بسنے والے 96.4 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔دنیا کی بہترین اور طاقت ور ترین فوج اور انٹیلی جنس میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے نام کسی تعاروف کے محتاج نہیں ، بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں ایک بھارتی اخبار میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس ادارہ آئی ایس آئی اس وقت دنیا کے پانچ طاقتور ترین انٹیلی جنس اداروں میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی ملک بھی ہے ۔یہاں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر قومی زبان اردو ہے۔ محنت ذہانت میں پاکستانی نوجوان کسی سے کم ، شاید ہی کوئی ایسی فیلڈ ہو جس میں ہمارے نوجوانان قابل تحسین پوزیشن پر فائز نہ ہوں، یہاں اگر عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان جیسے دیگر لوگوں کی لسٹ بنالی جائے تو اس آرٹیکل کو کئی حصوں میں لکھنا پڑے گا ۔ اگرجذبہ، ایثار و وفاداری کو دیکھا جائے تونشان حیدر پانے والے اور اس دھرتی کے لئے خون بہانے والوں کی کمی بھی نہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، علما، سوشل ورکر، عام شہری غرض ہر مکتب فکر اور طبقے کے لوگ یہاں ملیں گے، جن کی محنت و خون پسینے سے یہ ملک قائم ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی فرقہ واریت و لثانیت پسندی ہوجب پاکستان کی سالمیت کی بات آئے توپوری قوم ایک جان ہو کر اس پرچم کے سایہ تلے جمع ہو جاتی ہے اور دشمن پھر کبھی منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتا۔ہمارے بدمعاش لڑکے بھی بس میں سفر کرتے ہوئے کسی بزرگ کو کھڑا دیکھتے ہیں تو فورا اٹھ کر اسے جگہ د یتے ہیں۔ اسی طرح خواتین سے ہمدردی بھی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے، کسی خاتون کو کوئی مشکل پیش آجائے تو ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اس کی مشکل کو حل کرے۔ہم جتنے رحم دل ہے اتنے ہی جذباتی بھی ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں بھی کہی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ظلم ہوتاہے تو یہاں کے باسیوں کے لئے یہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان، بلا اور شیر کے نعرے بھول کر مظلموں کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہیں،پھر اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ ہمارے مشکل وقت میں کوئی ہمارا ساتھ دے گا یا نہیں ۔

لیکن لوگ سوال کرتے ہیں اگر پاکستانی اتنے اچھے ہیں تو پھر وہاں لوٹ مار، فرقہ واریت، دہشت گردی کیوں ہے؟ ساری دنیا میں پاکستانی کیوں بد نام ہیں؟ تو مجبورا ہمیں پلٹ کر اپنے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کی عیاشیوں اور مفادات کی وجہ سے ہم آج اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ دوست، دشمن، ْ طالم مظلوم کی کوئی تمیز نہیں کرپاتے۔ہم طاقتور ہونے کے باوجود اس قدر کمزور ہوئے ہیں کہ ہر کوئی ہمیں دھمکی دے کر چلا جاتا ہے جس کا جب دل چاہتا ہے کسی بھی جگہ ہم پر حملے کر دیتا ہے۔ان سب سے زیادہ خطرناک ہمارے اندورونی دشمن ہیں۔ بنگالی اردو زبان کی جنگ سے لے کر پارٹیشن بنگال ، پھر جنرل ضیاالحق کے دورسے افغان جنگ، مجاہدین کے نام پر دہشت گردوں کی پروریش سے لیکر القاعدہ طالبان ، پھر پاکستانی، افغانی سے پنجابی طالبان تک، سانحہ آرمی پبلک اسکول سے گوڈ اینڈ بیڈ طالبان اور آپریشن ضرب عضب ، نیشنل ایکشن پلان سے آپریشن ردلفساد تک اگر ہم دیکھیں تو ہم صرف دو چیزوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں، ایک ذاتی مفادات، اقتدار کا حصول اور کرسی بچاؤ، دوسر ا امریکہ کی دوستی اور آل سعودسے یاری۔

یہی ہمارے صاحب اقتدار اور اسٹبلیشمنٹ کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا یہ حال ہوا ہے کہ ہمارے ابدی دوست آج دشمن نظر آرہے ہیں۔آج دشمنوں کے شر سے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ محفوظ نہیں بلکے ہمارے ہمسائیہ ممالک بھی اذیت کے شکار ہیں اور ان دہشت گردوں کی وجہ سے پہلی بار ہم دنیا میں اس قدرزلیل ہوئے ہیں۔دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کا لنک کہیں نہ کہیں سے ہمارے ملک میں ملتا ہے۔ چاہے وہ طالبان، القاعدہ ہوں، داعش، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جیش العدل یا جند اللہ۔۔۔ پھر پچھلے 37 سال سے ہم ان خاص آیڈیالوجی کے حامل دہشت گردوں کو پال بھی رہے ہیں ۔ یہ لوگ کھولے عام تبلیغات کے نام پر ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں اور ہر جگہ اپنے اثرورسوخ بڑھالیتے ہیں، جس کے بدلے میں ہماری سیکورٹی اور حکومتی ذمہ دار اداروں کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس صفر ہے بلکہ صفر تو نہیں ہوگا پٹرو ڈالر کے پولیٹکس کا اثر زیادہ دیکھائی دیتا ہے۔ اب جہاں سالوں سے دہشت گردوں کو ہیرو بنایا ہو ، کرپشن اور سفارش کے بل بوتے پر سارے کام ہوتے ہوں تو ظاہر سی بات ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑ لیتا ہے۔ جب اوپر والا ہی ٹھیک نہیں ہو تو پھر اُس کے انڈر میں کام کرنے والوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف جن سے ہماری امیدیں وابسطہ ہیں اور جن کو دیکھ کر ہم فخر کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیرو ہیں وہ لوگ بھی ریٹارمنٹ کے بعد اعلی عہدوں پر براجمان ہونے کی خواہش دل کے کونے میں دبائے" اوکے سر" کے نعرے لگا تے ہوے صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جسے دیکھ کر ملک کے کروڑوں محب وطنوں اور لاکھوں مظلوموں کی امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں اور یہ لوگ تمام تر حقائق سے نظریں چرا کرملکی و عوامی مفادات کو سات لحافوں میں منظم طریقے سے تہہ کرکے الماری میں بند کر دے دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ محفوظ فیصلے میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ملک کے اندورونی و بیرونی مسائل اور عالمی بدلتے حالات میں ہماری مثال کچھ اس طرح ہے کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہاکہ کون ہمارا دوست ہے کون ہمارا دشمن، کون ہمارے ساتھ مخلص ہے اور کون غدار۔

مثال کچھ عجیب سی ہے؛ ایک شخص کسی دن ضروری کام سے اپنی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس کی گاڑی خراب ہو گئی اور مشکل سے کوئی میکینک مل گیا(نوٹ: اُس شخص کا نام "کافی" اور میکینک کا نام "نعمت" تھا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے نام سے ناواقف تھے) میکینک گاڑی کے نیچے لیٹ کر گاڑی کا معائینہ کر رہا تھا، اتنے میں وہ شخص کہتا ہے کہ اس وقت اگر دو گدھے ہوتے تو کتنی" نعمت "ہوتی اورمیں جلدی اپنی منزل پر پہنچ جاتا، مکینک نے جب یہ سنا توغصے میں نکلا اور کہنے لگا نہیں جناب اگر ایک گدھا بھی ہوتا تو "کافی" ہوتا۔ یہ سن کر اُس شخص کا بھی چہرہ بگڑ گیا مگر دونوں کو ایک دوسرے کے غصے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ اس وقت ہمارے ملک کو بچانے کے لئے بھی دو "نعمت " اور ایک "کافی "کی ضرورت ہے جو مشکلات کا حل نکالے اور خراب پرُزوں کو نکال کر ایک دم نیو جاپانی پرُزے لگا دیں۔ تاکہ ہمارے ملک کی گاڑی صحیح راستے پر گامزن ہو سکے ۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل)  سورج افق میں چھپ چکا تھا رات کی تاریکی چھا رھی تھی طلاب مدرسے کی عمارت کو دلھن کی طرح سجھا رھے تھے سبھی کے چھرے خوشی و سرور سے تلملا رہے تھے کچھ ہی دیرمیں سارےمدرسے پے قمقموں کی روشنی چمکنے لگی جشن کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایک ایسی خبر آئی جسے سنتے ہی سب چہرے اتر گئے خوشی غم و غصہ میں تبدیل ہوگئی جشن کی تقاریر کے موضوعات بدل گئے ایسا لگ رہا تھا جیسے قمقموں کی روشنی ماند پڑ گئی ھو جی ھاں یہ پچهلے سال تین شعبان کی بات ہے جب ہم محسن انسانیت،علمبردار حریت،غیور و آزاد صفت انسانوں کے قافلہ سالار امام حسین ؑابن علیؑ کی ولادت کا جشن منانے میں مصروف تھے اسی دوران خبر ملی کہ پاراچنار کے محب وطن اور غیرتمند عوام پر کہ جنھوں نے ہمیشہ وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج ایک اور ظلم ڈھایا گیا ہے جی ہاں پتہ چلا کے عوام کی جان و مال کے رکھوالوں نے مومنین پے صرف اس لیے فائر کھول دیے کہ وه نواسہ رسول کی آمد کی خوشی منارہے تھے ہاں وه محب وطن قوم جس نے پاکستان کے لیے سب سے زیاده قربانیاں دیں اور دہشتگردی نے جس کی ماؤں سے جوان بیٹے بھنوں کا سہارا بھائی بچوں سے والدین اور جوان سال بیٹیوں سے انکے سہاگ چھینے آج وه ریاستی دہشتگردی کے نشانے پر تھی سمجھ نھیں آرہا تھا کہ آخر کون آواز اٹھائے گا کون اس مظلومیت کو پاراچنار کے پهاڑوں سے نکال کر ریاستی اداروں کی دہلیز تک پهنچائے گا جمعہ 13 مئی 2016 کو مختلف تنظیموں نے احتجاج کی کال دی مختلف جگہوں پے احتجاج کیا گیا اسلام آباد کے مرکزی احتجاج کے اختتام پر ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفرى نے مظلوموں کے مطالبات کی منظوری تک بھوک ھڑتال کرنے کا اعلان کردیا سب حیران تھے کہ ناصر ملت نے یہ کیسا سخت اعلان کردیا جبکہ آغا کے بقول وه کسی بڑی احتجاجی تحریک کے ذریعے ملت کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے خود کو مشکل میں ڈالنا زیاده بھتر سمجھ رہے تھے ۔

13 مئی وه تاریخی دن تھا جب ملت مظلوم پاکستان کے ایک مخلص رہنما نے وطن عزیز کو دہشتگردی کی عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ راجہ صاحب کے پاس موجود تھا دن ڈھلا تاریکی چھائی اور یہ عالم بزرگوار بھوک برداشت کرتے ہوئے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے زمین پے اگی گھاس پے اپنی عبا سر کے نیچے رکھے سو گیا جن احباب کو وه مقام دیکھنے کا موقع ملا وه جانتے ہیں کہ وه جگہ سیکیوریٹی اعتبار سے انتہائی غیر محفوظ تھی لیکن شہادت کے تمنائی کے لیے خطرات کوئی ارزش نہیں رکھتے راجہ صاحب اور آغا احمد اقبال زمین پے سو گئے جبکہ آغا اعجاز بھشتی اور چند جوان جن کی تعداد تقریبا 12 یا 14 سے زیاده نہیں تھی آغا کی حفاظت کے لیے جاگ رہے تھے اتنے میں آسمان نے کھا آج اس مرد مقاوم کی مقاومت کا امتحان لیا جائے تیز ہوا چلی اور طوفان کی شکل اختیار کرگئی جوان راجہ صاحب کے ٹینٹ کے ستون پکڑ کے کھڑے ہوئے تو ہوا نے سارا ٹینٹ پارا پارا کردیا راجہ صاحب بھی نیند سے بیدار ہوگئے ادھر سے ٹینٹ ناکاره ہوکے گرا اور ادھر سے بارش نے برسنا شروع کردیا آغا صاحب سے گزارش کی گئی کہ آپ گاڑی میں چلے جائیں لیکن شاید شھداء کی مظلومیت کا درد ناصر ملت کو وھاں سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا ہم نے ایک بینر کے ساتھ آغا صاحب پے سایہ کیا کافی دیر بارش کے بعد ناصر ملت سمیت سب جوان بھیگ چکے تھے فجر کی نماز بھی بارش میں ھوئی اور دعائے عہد کے بعد ناصر ملت نے بارش میں بیٹھے ہوئے صبر کے موضوع پے درس دیا اور خانواده عصمت و طہارت کے مصائب پڑہے ناصر ملت بھوک برداشت کرتے رہے اور ظلم پے خاموش حکمرانوں کے ضمیر جھنجوڑتے رہے ۔

آغا کا بلڈ پریشر کم اور شوگر مسلسل بڑھتا رہا دھیرے دھیرے کھڑے ہوکے نماز پڑھنا دشوار ہونے لگا کئی بار آندھی طوفان اور بارش نے امتحان لیا لیکن یہ مرد مجاہد کھلے مقام پر دہشتگردوں سے بے خوف اور کیمپ میں آنے والوں کی تعداد سے لاپرواه اپنے فریضے کی انجام دهی میں مصروف رھا کبھی فون پے بات کرتے ھوئے زمین پے گرا اور کبھی طبیعت زیاده ناساز ھونے پر ھسپتال منتقل ہوا لیکن اپنے وعده سے پیچھے نہ ہٹا مظلومیت کی آواز ہر باضمیر کے کانوں تک پهنچی اور شیعہ ، سنی، دیوبندی، عیسائی، ھندو،سکھ،وکلاء،میڈیا،خواتین،بچے، جوان،بزرگ اور تقریبا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے حمایت کے لیے بھوک ھڑتالی کیمپ تشریف لائے پاراچنار ڈی آئی خان گلگت اور پنجاب میں مظلوموں کے مطالبات پر کافی حد تک پیشرفت ہوئی جسکی تفصیلات ایک مکمل کتابچے میں چھپ چکی ہیں، شوریٰ عالی  کے اصرار اور مراجع و فقہاء کے خطوط کے بعد ناصر ملت نے شھید قائد کی برسی پے اپنی جدوجھد کے اس مرحلے کو تمام کیا اور اپنے خلوص اور سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا البتہ ابھی اس مادر وطن میں امن و ترقی کے حصول کی جنگ جاری ہے اور قائد کے پاکستان کو لوٹانے کے لیے ایک لمبا عرصہ جدوجہد کی ضرورت ہہے ملت مظلوم پاکستان کو ایسے مخلص لیڈرکا ساتھ دینا ہوگا اور اپنی مسلسل استقامت سے دشمنان وطن کو ذلیل و خوار کرنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔سید حسن رضا نقوی

وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:ہر زمانے میں امام معصوم کی امامت پر عقلی دلیل موجود ہے۔ اس دلیل کے مطابق حجت الہیٰ  کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے جس کا مصداق تام امام معصوم ہیں۔قاعدہ لطف{کلامی وعقلی قاعدہ} کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ امام معصوم کی غیبت ایک امر عارضی ہے جو اصل اولی{ضرورت وجودامام معصوم} کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ محقق طوسی اس بارے میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف،وتصرفہ لطف آخروعدمہ منا}1۔ امام کا وجودبھی لطف{اطاعت و مصالح سےنزدیک اور معاصی و مفاسد سے دور کرنےوالا }ہے اور امام کا تصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہرنہ ہونا ہماری وجہ سےہے ۔

حضرت علی علیہ السلام کے فرامین کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی جیساکہ آپ ؑفرماتے ہیں :{اللہم بلی! لا تخلوا الارض من قائم الله بحجتہ،اما ظاہرا مشہورا و اما خائفا مغمورا،لئلاتبطل حجج الله و بیناتہ}2۔  خدایا !بے شک زمین حجت الہیٰ اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہے وہ ظاہر و آشکار ہو یا خائف و مخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔

بعض احادیث جیسے حدیث ثقلین اور حدیث ائمہ اثنا عشر قیامت تک  امام معصوم کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں ۔
تاریخی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ{عج}کی ولادت معین زمانے میں مخصوص مقام  پر ہوئی ہےکیونکہ افراد کی ولادت اور موت کے بارے میں جاننے کا متعارف طریقہ یہی تاریخی شواہد ہیں جن پر استناد کیا جاتا ہے۔

ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے اما م حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے  زمانےمیں آپ ؑکے گھر  میں امام زمان{عج}سے ملاقات کئے اور وہ افراد جنہوں نےغیبت صغری کے زمانے میں آپ{عج}سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جن میں نواب اربعہ سر فہرست ہیں ۔نواب اربعہ شیعوں کے برجستہ ترین شخصیات میں سے تھے جواپنے زمانے میں پرہیزگاری  کے لحاظ سے بے نظیر تھے۔

ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے غیبت کبری کےعرصے میں آپ{عج}سےملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ یہ گزارشات  اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے جعلی ہونے کا احتمال منتفی ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی صحت کے بارے میں انسان کو  یقین ہو جاتا ہے۔

انبیاء کی تاریخ میں مسئلہ غیبت ایک واضح مسئلہ تھا۔بعض اولیاء کا محدود مدت کے لئے لوگوں کے درمیان سے غائب ہونا گذشتہ امتوں میں بھی معمول رہا ہے چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام ،حضرت موسی علیہ السلام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگانی میں اس کے نمونے دیکھ سکتے ہیں : حضرت یونس علیہ السلام ایک مدت تک اپنی امت سے غائب رہے ۔

3۔ حضرت موسی علیہ السلام چالیس دن تک اپنی امت سےغائب رہےاور انہوں نے یہ ایام میقات میں بسر کئے ۔4۔  اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی  مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت چند مدت تک اپنی امت کےپاس نہیں رہے  ۔  5۔ ان میں سے کسی  بھی مورد میں ان افراد کی نبوت اور رسالت پر اعتراض نہیں کیا گیا ہے ۔واضح ہے کہ اگر غیبت مقام نبوت اورمقام امامت  کے ساتھ منافات رکھتی تو زمان کےمختصر اور طولانی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بنابریں امام زمانہ{عج} کی غیبت کے  طولانی  ہونےکو آپ {عج} کی امامت کے ساتھ ناسازگا ر نہیں سمجھنا چاہیے ۔

امام زمانہ{عج} کی غیبت کے اسباب کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں کچھ مطالب بیان ہوئے ہیں ذیل میں ہم  ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

1۔راز الہی:
بعض روایات میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کا فلسفہ آپ {عج} کے ظہور سے پہلے پوری طرح واضح نہیں ہوگا جبکہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آپ {عج} کے وجود کے بارے میں موجود دلائل سے آشنا ہونے کےبعد اسے تسلیم کرے اور آپ {عج} کی غیبت کے اسرار کومکمل طورپردرک نہ کرنے کی وجہ سے شک و تردید کا شکار نہ ہو ۔ شیخ صدوق عبد اللہ بن فضل  ہاشمی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےسنا :صاحب الامرکے لئے یقینا ایک غیبت ہوگی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک و شبہ میں مبتلا ہو جائے گا۔میں نے عرض کی :میری جان آپ پر قربان !ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا:وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی تھی ۔ یقینا غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب ان کا ظہور ہو جائےگا بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضرعلیہ السلام کے امور یعنی کشتی میں سوراخ کرنے ،لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنانے کا راز حضرت موسیعلیہ السلام کو  اس وقت معلوم ہو ا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے ۔ اے فرزندِ فضل یہ غیبت خداکے امور میں سے ایک امر ہے ،اسرار الہیٰ  میں سے ایک سر ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خداوند  عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اس کا ہرقول وفعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اس کا راز ہم پرپوشیدہ ہی کیوں نہ ہو۔6۔

2۔قتل کا خوف:
بہت ساری احادیث  کے مطابق امام زمانہ{عج}کی غیبت کا ایک سبب قتل ہونے کا خوف ہے ۔ 7۔ جیساکہ جناب زرارہ امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نے فرمایا:قائم آل محمد کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے ۔میں نے عرض کیا کس لئے؟ فرمایا:{یخاف القتل} 8۔اس لئےکہ ان کی جان کے لئےخطرہ ہے ۔ قتل سے ڈرنے کا دو ہی سبب ہو سکتاہے  ۔ ایک یہ کہ انسان دنیوی لذتوں سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتا ہے دوسرایہ کہ اس کےاوپر سنگین ذمہ داریاں عائد ہیں جن کو انجام دینے کے لئے اسے اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ان میں سے پہلی قسم مذموم جبکہ دوسری قسم ممدوح ہے بلکہ بعض اوقات  واجب بھی ہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کی خاطر غارحرا میں پناہ لیا ۔امام زمان عج کے بارے میں بھی قتل ہونے کا خوف اسی طرح  ہے۔ عقلی و نقلی دلائل کےمطابق آپ {عج} زمین پر آخری حجت الہیٰ  ہیں ۔ آپ{عج} پرچم توحید کو پوری دنیا میں لہرانے اور دین اسلام کو پوری دنیا پر حاکم کرنے پر مامور ہیں۔علاوہ ازیں ظالم و جابر حکمران اپنے ناجائز منافع کی حصول کے راستے میں آپ{عج}کے وجود کو مانع سمجھتے ہیں ۔طبیعی بات ہے کہ یہ افراد آپ {عج} کو قتل کرنےکے لئے ہر طرح  کا منصوبہ اور حربہ استعمال کریں گے۔   اس صورتحال میں آپ{عج} کی حفاظت کا بہترین طریقہ آپ{عج}کی غیبت ہے ۔

 یہاں ممکن ہےکوئی اس طرح  اعتراض کرے کہ خداوند متعال معجزے  کےذریعے آپ {عج} کی حفاظت کرسکتاہے مثلا اس طر ح کہ کسی اسلحہ یا زہر کا اثر آپ {عج} کے بدن پر نہ ہو۔جس کے نتیجے میں آپ {عج}  ظاہر بھی  ہوتے اور لوگ آپ {عج} کے وجود سےزیادہ استفادہ کرتے کیونکہ اس صورت میں آپ {عج}کے وجود کو کسی قسم کا بھی خطرہ نہیں تھا ۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی فرد کی جان کی حفاظت  کےلئےمعجزے سے استفادہ کرنا ایک استثنائی بات ہے جس سے صرف خاص موارد میں استفادہ کیا جاتاہے جبکہ اولیاءاور حجت الہیٰ  کےبارے میں مشیت الہیٰ  یہ ہے کہ یہ افراد لوگوں کے درمیان طبیعی زندگی گزاریں اور طبیعت پرمبنی قوانین ان کے درمیان یکساں جاری ہو ، تاکہ قانون امتحان و آزمائش الہیٰ  محقق ہو ۔واضح ہےکہ اگر امام خاص شرائط کے ساتھ زندگی گزاریں تو سب لوگ اجباری اور غیرعادی طریقے سےان پر ایمان لائیں گے ۔ علاوہ ازیں ممکن ہے انہیں مافوق بشر قرار دیتےہوئے ان کی پرستش شروع کردیں۔ یہ سب معجزہ کے ذریعے امام کی حفاظت کرنے اور آپ {عج}کے لوگوں کے درمیان رہنے کے  نامطلوب نتائج میں سے ہیں ۔

شیخ طوسی اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں :اگر کوئی اعتراض کرے کہ خدا نے امام اور اس کے قاتل کے درمیان مانع ایجاد کر کے آپ {عج} کی حفاظت کیوں نہیں کی ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام انسانوں کو مکلف کرنے کے فلسفے کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ انسانوں کو مکلف کرنے کا مقصد ان کوجزا وسزا کامستحق بنانا ہے جبکہ ایسی صورت میں مانع ایجاد کرنا  اس مقصد کے ساتھ منافات رکھتاہے ۔ 9۔
امام زمانہ{عج}اور ان کے آباء و اجداد کے درمیان کیا  فرق ہے کہ وہ غیبت میں نہیں رہیں بلکہ لوگوں کے پاس ظاہر تھے جبکہ آپ {عج} غائب ہیں اور آپ تک لوگوں کی رسائی بھی نہیں ؟
اس کاپہلا جواب یہ ہے :آپ {عج}کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ{عج}اگر ظاہر ہوں تو ظالم و جابر افراد کے مقابلے میں تقیہ نہیں کریں  گے جبکہ اس صورت میں آپ{عج}کے قتل کا خطرہ زیادہ ہے ۔دوسراجواب یہ ہے کہ ہر امام کی شہادت کے بعددوسرے امام نے اس عظیم ذمہ داری کو قبول فرمائی اور انسانوں کی رہبری کی لیکن آپ {عج} آخری امام ہیں اور اگر شہید ہو گئے تو کوئی ایسا فرد نہیں ہےجو اس عظیم ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ 10۔

3۔ مومنین کا امتحان:
خداوند متعال کی ایک سنت جو ہمیشہ سے مومنین کے بارے میں جاری رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا جاتا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے :{ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُترْکُواْ أَن يَقُولُواْ ءَامَنَّا وَہُم ْ لَا يُفْتَنُونَ.وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ  فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَ لَيَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِين}11۔ کیالوگوں نےیہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنےسےچھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق  ہم نے ان سے پہلے والوں کوبھی آزما چکےہیں کیونکہ اللہ کوبہر حال یہ واضح کرناہے کہ کون  سچے ہیں اور یہ بھی ضرورواضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔

امام زمان {عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب مومنین کا امتحان اور ان کی آزمائش ہے جو متعدد احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔

 12۔ کتاب منتخب الاثر میں اس بارے میں چوبیس احادیث نقل ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ امام جعفر صادق  علیہ السلام کے اصحاب امام زمانہ{عج} کے ظہور اور حکومت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔امام صادقعلیہ السلامنے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: یہ امر{ظہور}تمہارےسامنے نہیں آئے گا  مگر ناامیدی کے بعد ۔ خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک تم{مومن اور منافق}ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اہل شقاوت و اہل سعادت  ایک دوسرے سےجدا نہ ہو جائیں ۔

 13۔شیخ طوسی  اس بارے میں لکھتے ہیں:جن روایات میں امام زمانہ{عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب شیعوں کا امتحان اور ان کی آزمائش قرار دی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ مسئلہ امام کی غیبت پر مترتب ہونےوالےنتائج میں سے ایک ہے اور ایسا نہیں ہے کہ امتحان و آزمائش امام {عج} کی غیبت کا اصلی مقصد ہے بلکہ امام {عج}کی غیبت کا اصلی سبب آپ{عج} کے قتل ہونے کا خوف ہے جبکہ آزمائش و امتحان غیبت کے نتائج اوراہداف میں سے ہیں۔

 14۔ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دو احتمال قابل بحث ہیں ۔پہلا احتمال یہ کہ حقیقت میں آپ {عج} کا وجود لوگوں سے پنہاں ہے۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ {عج} ایسے جگے پر زندگی کر رہے ہیں جہاں دوسراکوئی انسان موجود نہیں ہے یا یہ کہ آپ {عج} لوگوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن معجزانہ طور پر لوگ آپ {عج} کو نہیں دیکھتے یا آپ کو نہیں پہچانتے ۔آپ {عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں نقل شدہ احادیث دونوں احتمال کے ساتھ سازگار ہیں ۔ جیساکہ شیخ صدوق ریان بن صلت سےنقل کرتے ہیں کہ امام رضاعلیہ السلام نے امام زمانہ{عج} کے بارے میں فرمایا :{لایری جسمہ ولا یسمی باسمہ}15۔نہ ان کے جسم کو دیکھا جا سکتاہے اور نہ ان کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ عبید بن زرارۃ سے ایک  حدیث منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ ؑفرمارہے تھے:لوگ اپنے امام کو نہیں پائیں گے جبکہ وہ حج کے موسم میں حاضر ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں دیکھتے ۔16۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سےایک اور حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ ؑفرماتے ہیں :ساتویں امام کے پانچویں فرزند کا وجود تم لوگوں سے پنہان ہو گا اور ان کانام لینا تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔17۔   اس احتمال پر عقیدہ رکھنےوالوں کا نظریہ یہ ہے کہ جہاں  پر مصلحت موجود ہو وہاں امام {عج} کے وجود کو پہچانا جائے گا۔بنابریں  جن افراد نے آپ {عج} کے حضور میں شرفیاب ہونے کا  دعوی کیا ہے وہ بھی اس احتمال  کے ساتھ سازگار ہےجبکہ دوسرے احتمال کےساتھ مربوط بعض روایات کچھ اس    طرح  ہیں :

1۔ شیخ طوسی  محمد بن عثمان عمری { امام زمان{عج}کےدوسرے نائب خاص }سے نقل کرتے ہیں :{و الله ان صاحب هذا الامر لیحضر الموسم کل سنۃ و یعرفہم و یرونہ و لا یعرفونہ} 18۔ خدا کی قسم! امام زمانہ{عج} ہر سال حج کے موسم میں حاضر ہو کر لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں اور دوسرے افراد بھی آپ {عج} کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں ۔

2۔محمد بن عثمان عمری سے نقل ہے کہ آپ{عج} کا نام لینا اس لئے جائز نہیں کیونکہ اگر آپ{عج} کا نام لیا جائے تو دشمن آسانی سے آپ
{عج} کو پہچان لیں گے ۔19۔  واضح ہے کہ اگر آپ {عج}لوگوں کی نظروں سے سے غائب ہوں توپھر آپ {عج}کا نام لینا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اس  کے ذریعے دشمن  آپ {عج} کو  نہیں پہچان سکتے ۔

3۔ابوسہل نوبختی سے جب سوال کیاگیا کہ آپ  امام زمانہ{عج}کےنائب کیوںمنتخب نہیں ہوئے جبکہ ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی کو اس منصب کےلئے انتخاب کیاگیا ہے ؟ تو انہوں نےجواب دیا :امام اپنے کاموں کی حکمت سےزیادہ واقف ہیں ۔ میں ہمیشہ دشمنوں سےملاقات کرتاہوں اور ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرتا ہوں اوراگر بحث کے دوران کبھی مجھے مشکل کا سامناکرنا پڑے تو ممکن ہے کہ  میں امام {عج} کے قیام کرنے کی جگہ دشمنوں کو دکھا دوں لیکن ابوالقاسم نوبختی ایمان اور استقامت کا پیکر ہے اگر امام زمانہ{عج} اس کے پاس موجود ہو اور اس کے بدن کے ٹکڑےٹکڑے کر دئیے جائیں تب بھی وہ امام {عج}کی مخفی گاہ کودشمنوں کو نہیں دکھائیں گے۔ 20۔ واضح ہے کہ امام کی مخفی گاہ دشمنوں کو دکھانا اس وقت خطرناک ہوگا جب لوگ آپ {عج}کے وجود مبارک کو دیکھ سکیں ۔

خلاصہ یہ کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دونوں احتمالات قابل قبول ہیں اور یہ احتمالات ایک دوسرے کے ساتھ منافات بھی نہیں رکھتے اوریہ مطلب کہ لوگ آپ {عج}کو دیکھیں گے لیکن نہیں پہچانیں گےیا یہ کہ اصلاًکوئی آپ {عج}کو نہیں دیکھ سکتا،یہ تمام مطالب شرائط ،مصالح اور افراد کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس بارے میں ایک عام قانون بیان نہیں کر سکتےکیونکہ امام زمانہ{عج } مصلحت  کے مطابق ہی عمل کریں گے ۔


تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree