یہ اللہ والے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) غفلت کا علاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ شام میں جاری جنگ کے حوالے سے روس، ایران اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، معاہدے کی رو سے پہلے مرحلے میں فوعہ اور کفریا کے علاقوں سے 5 ہزار اور دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقے مادایا اور زبدانی سے 2200 افراد کا انخلا کیا جانا تھا، 15 اپریل 2017ء کو جنگ سے متاثرہ علاقوں سے انخلا کے لئے ہزاروں افراد دہشت گردوں کے محاصرے والے علاقے راشدین میں جمع تھے، کچھ لوگ اس علاقے سے نکلنے کے لئے بسوں پر سوار ہوچکے تھے اور کچھ ہو رہے تھے کہ اس دوران ایک خودکش دھماکہ کرکے ایک سو چھبیس کے لگ بھگ بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے۔

مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی دہشت گردی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دہشت گردی کی تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے دونوں ہی چونکہ بہت زیادہ اللہ، اللہ اور اسلام اسلام کرتے ہیں، اس لئے عام لوگ بھی انہیں پکا مسلمان اور مجاہد ہی سمجھتے ہیں۔ ان اللہ والوں نے چن چن کر مسلمانوں کے ڈاکٹروں، ادباء، شعراء، بیوروکریٹس، پولیس اور فوج کے جوانوں، سکول کے بچوں، حتٰی کہ قوالوں اور نعت خوانوں کا بھی قتل عام کیا۔ انہوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزارات، اولیائے کرام کے آستانوں اور قائد اعظم کی ریزیڈنسی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ان کی تاریخ شاہد ہے کہ عراق، شام، افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان سمیت جہاں ان کا بس چلا انہوں نے عام مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے مقدس اور محترم مقامات پر حملے کئے۔

اسلام دشمنوں نے، ان کے اللہ اللہ کے نعروں سے  خوب فائدہ اٹھا یا انہیں منہ مانگے فنڈز فراہم کئے اور ان کے نعرہ تکبیر اور انہی کی شمشیر کے ذریعے مسلمانوں کے گلے کٹوائے۔ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے بعد اب انہیں ایک نئے انداز میں مسلمانوں کے قتل کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نیا انداز پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے، اس کی ایک مثال افغانستان کے دارالحکومت کابل کی ملاحظہ فرمائیں، جہاں دو سال پہلے ایک ستائیس سالہ، قرآن مجید کی حافظہ کو لوگوں کے ہجوم نے قرآن مجید کی شان میں گستاخی کا الزام لگا کر اتنا زدوکوب کیا کہ وہ مر گئی، اس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگائی گئی، پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا اظہار کیا، پھر اسے دریا میں پھینکا گیا، جہاں سے بعد میں اس کی لاش نکالی گئی، اس کے تابوت کو خواتین نے کندھا دیا اور  پھر اسے دفن کیا گیا، قانونی کارروائی اور میڈیا کی تحقیقات نے گستاخی کے الزام کی تردید کی،  تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازی اور نیک و باحیا خاتون تھی اور اس پر گستاخی کا الزام بالکل جھوٹا تھا، لیکن جن کا مقصد ہی اسلام کو بدنام کرنا تھا، انہوں نے اپنا کام کیا اور بس۔۔۔۔

اس کے ٹھیک دو سال بعد بالکل وہی کہانی مردان یونیورسٹی میں بھی دہرائی گئی، جہاں ایک طالب علم کو نعوذ باللہ گستاخ رسول کہہ کر اتنا پیٹا گیا کہ وہ  ہلاک ہوگیا، کابل کی کہانی کی طرح پولیس یہاں بھی موجود تھی، لیکن بے بسی کی ایکٹنگ کرتی رہی، اس کی لاش کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ یہ آدمی اتنا بد کردار تھا کہ اسے یونیورسٹی نے بھی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اب اس طالب علم کی کونسی بدکاری، یونیورسٹی کو پسند نہیں تھی، اس کے لئے آپ اس لنک پر موجود اس کا وہ انٹرویو دیکھ لیں، جو اس نے اپنے قتل سے صرف دو دن پہلے دیا تھا۔

یہ تھی اس کی بد کرداری جس کی  سزا اسے دی گئی، آپ اس کا انٹرویو سنیں تو آپ کو احساس ہو جائے گا کہ اس طرح کے آدمی پر جیب سے چرس برآمد ہونے کا الزام تو لگ نہیں سکتا تھا، لہذا اس پر گستاخی کا الزام لگا دیا گیا۔

انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ  وائس چانسلر تعینات کیوں نہیں کیا جا رہا، اس سے ہماری ڈگریاں متاثر ہو رہی ہیں اور کچھ پروفیسرز نے دو، دو اور تین تین عہدے سنبھال رکھے ہیں، ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے، اس کے علاوہ باقی سرکاری اداروں میں آٹھ دس ہزار پر سمیسٹر فیس بنتی ہے، یہاں پچیس ہزار تک کیوں لی جاتی ہے۔ اس نے ان مسائل کے حل کے لئے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد مجمع عام نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ وہی اللہ اکبر کے نعرے جو شام میں خودکش لگاتے ہیں اور جو کابل میں قاتلوں کے ہجوم نے لگائے، وہی مردان کا ہجوم بھی لگا رہا تھا۔ ابھی مردان یونیورسٹی میں اللہ اکبر والوں کے ہجوم کی گونج باقی ہی تھی کہ لیاقت میڈیکل ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورین لغاری کو  لاہور سے داعش کے ساتھ ہم کاری کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب داعشی فکر مدارس کے بعد یونیورسٹیوں میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔

اگر ہمارے سکیورٹی ادارے داعشی و طالبانی فکر کا مقابلہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ کسی بھی یونیورسٹی کے اسٹاف میں جب تک داعشی و طالبانی فکر موجود نہ ہو، اس وقت تک یونیورسٹی کے طلباء میں داعشی سرایت نہیں کر سکتے۔ عین اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پنجاب یونیورسٹی لاہور بھی نعرہ تکبیر ۔۔۔ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔۔۔ یعنی۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اسٹاف میں بھی اللہ والے اپنا کام کر رہے ہیں اور وہاں بھی کوئی مشعل گل ہونے کو ہے۔ اگر ہمارے حکام اور عوام، تعلیمی درسگاہوں میں ان گل ہوتی ہوئی مشعلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر یاد رکھئے! غفلت کاعلاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے، جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مقتول بہت براتھا،  وہ ملحد، مشرک ، ناصبی اور بدبخت تھا،  اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے  روس سے سول انجئیرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی تھی لہذا وہ کافر بھی تھا، اس کے ملحد ہونے ہونے کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ وہ کسی دینی تنظیم کا ممبر بھی نہیں تھا،  الغرض وہ چرس پیتا تھا، نشہ کرتا تھا، شراب فروخت کرتا تھا۔۔۔ یہ  بھی اہم بات ہے کہ  مشال خان کے موبائل اورسوشل میڈیاسے کوئی  توہین آمیزموادبرآمدنہیں ہوا،[1] تاہم پھر بھی  آپ جو چاہیں اس کے بارے میں کہہ لیں۔

اب جنہوں نے اسے قتل کیا ہے ، ان کی اسلام دوستی، شرافت  اور ان کے مہذب ہونے کا اندازہ آپ اس کےقتل کی ویڈیو دیکھ کر خود سے لگا لیجئے!؟ ہر باشعور انسان جب اس ویڈیو کو دیکھتا ہے تو اسے خود بخود یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس  کے قاتل کتنے ، مہذب، اسلام پسند اور شریف  شہری ہیں۔

دوسری طرف سیکورٹی اداروں کی بے بسی اور بے حسی کو اپنی جگہ رہنے دیجئے ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ  اس ملک کی اہم  سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس قتل کے بعد کسی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔  عمران خان سمیت اکثر شخصیات نے صرف زبانی کلامی مذمت پر ہی اکتفا کیا ہے اور کسی نے مقتول کے جنازے میں شریک ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ،  مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگانے والوں نے ہاسٹل کے جس کمرے میں اسے گولی ماری اور تشدد کیا، اس کمرے کی دیوار پر مشال خان نے خود لکھ رکھا ہے کہ ’’اللہ سب سے بڑا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں‘‘۔[2]

اب قاتلوں کی اسلام پسندی اور منصف مزاجی کا اندازہ اس سے بھی  لگا لیجئے کہ  مشال کے قتل کے بعد اس  کی یونیورسٹی سے اس کی معطلی کا نوٹیفکیشن سامنے آ گیا۔ نوٹیفکیشن پر قتل کے دن کی ہی تاریخ لکھی ہے۔ تفتیش کاروں کیلئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسی نوٹیفکیشن نے طلبہ کو مشتعل کیا؟

 اگر مشال نے توہین کی تو تفتیش سے پہلے معطل کیسے کر دیا گیا؟  ایک دوسرا نوٹیفکیشن بھی اسی روز جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مشال کو معطل نہیں کیا کیا گیا بلکہ  اس کے دو ساتھیوں کو معطل کیا گیا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ  مشال نے کچھ ماہ پہلے اپنے فیس بک اکائونٹ پر لکھا تھا کہ کسی نے اس کا جعلی فیس بک اکائونٹ بنا رکھا ہے۔ جعلی اکائونٹ سے گستاخانہ پوسٹ مشال کے قتل کے کئی گھنٹے بعد کی گئی۔ مشال زندہ ہی نہیں تھا تو اس کے جعلی اکائونٹ سے کس نے پوسٹ کی؟[3]

اگر قاتل اپنے دعووں میں سچے ہوتے تو تب بھی ان کے پاس  قانون کو  اپنے ہاتھ میں  لینے کا کوئی جواز نہیں تھا  اور قتل کی واردات کے بعد جعلی نوٹیفکیشنز کا جاری کروانا اور اس کے جعلی اکاونٹ سے گستاخانہ پوسٹس کا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاتل کتنے سچے اور اسلام پسند ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حملہ آوروں میں یونیورسٹی کے اسٹاف کے لوگ بھی موجود تھے، اسٹاف کے لوگوں کا شامل ہونا اس بات کی واضح اور شفاف دلیل ہے کہ اس کے  قتل کا فیصلہ کہیں اور کیا گیا ہے۔[4]

تیسری اہم بات یہ ہے کہ  مشال کو کمرے میں دو گولیاں مار کر پھر گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور اس کے بعد مجمع عام نے اللہ اکبر کے نعرے لگاکر ثواب حاصل کیا۔  قاتل نے پہلے گولیاں ماریں اور پھر مجمع عام اس پر کود پڑا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے لوگوں کو پہلے سے ہی اس کام کے لئے  ذہنی طور پر تیار کیا گیاتھا۔ اتنے لوگوں کا لاش کو زدوکوب کرنا اور اس پر کودنا یہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی  مشتعل شخص کی کارروائی نہیں بلکہ ایک پلاننگ کا نتیجہ ہے۔

اس طرح بلوہ عام میں لوگوں کا کسی شخص کو پیٹ پیٹ کر ماردینا اور قانونی اداروں کا اپنے آپ کو بے بس ظاہر کرنا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کے ہاتھوں سے بڑا ایک ہاتھ موجود ہے جو قانون کے ہاتھوں  پر بھی اپنی گرفت رکھتا ہے۔

وہ ہاتھ اتنا طاقتور ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اس کی گرفت کے باعث بالکل بے بس ہیں، یوں تو یہ سب کو معلوم ہے اور ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں کس کے قبضہ گروپس ہیں اور کون شدت پسندوں کو پال رہاہے!؟

 دودھ بیچنے والے گامے سے لے کر ریڑھی لگانے والے جورے تک ،سب کو پتہ ہے کہ کون یونیورسٹیوں میں داعش اور طالبان کی فکر کو در آمد کر رہاہے، کس کے ہم فکر افراد یونیورسٹیوں کے سٹاف میں بیٹھ کر نہتے طالب علموں کا استحصال کرتے ہیں!؟  کون قانون کا لٹیرا ہے، کون دہشت گردوں کے لئے فنڈنگ کرتا ہے؟ کون ہے جو نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر قانون، مذہب اور  لوگوں کی جانوں سے کھیلتا ہے!؟ کون   طلبا   سے طاقت اور دھونس  کی زبان میں بات کرتا ہے، کون تعلیمی اداروں میں  کلنک کا ٹیکہ ہے۔۔۔ سب جانتے ہیں لیکن اگر نہیں پتہ تو ہمارے سیکورٹی اداروں کو نہیں پتہ۔

سیانے کہتے ہیں کہ  آپ ایک عدد گاجر لے کر اس کے دوٹکڑے کر لیں، ایک ٹکڑے کو پانی اور چینی کے شیرے  میں ڈال کر رکھ دیجئے اور دوسرے کو پانی اور نمک کے محلول میں رکھ دیجئے،  کچھ عرصے  کے بعد ایک ٹکڑا مربّے میں اور دوسرا اچار میں تبدیل ہو جائے گا ۔ گاجر ایک ہی تھی لیکن ماحول کا اختلاف اس کے ذائقے  اور تاثیر کو تبدیل کردے گا۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ  اپنی آئندہ نسلوں کو دہشت گردی سے پاک ، پاکستان ورثے میں دیں  اور اپنے  ملک کی  حقیقی معنوں میں حفاظت کریں تو ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کے ماحول کو شدت پسندی سے پاک کرنا ہوگا اور یونیورسٹیوں کے اسٹاف میں موجود، طالبان اور داعش کی ہم فکر  کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کرنی ہوگی۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا ایک اور کامیاب پروگرام عرفان ولایت کنونشن ہر حوالے سے ایک مثالی پروگرام تھا جس میں تنظیمی معاملات کو طے کرنے کے ساتھ ساتھ عمومی پروگرامز بھی کئے گئے جشن مولود کعبہ امام متقیان کی شان میں منعقد ہونے والا جشن اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ولایت علی ؑپر کتنا گہرا ایمان رکھتی ہے عشق مرتضیٰ ؑ میں قصیدہ خوانی اور مقررین کے بیان تذکرہ امام متقیان کرتے رہے اور عاشقان مولا علی ؑ ولایت علی میں جھومتے رہے اور اپنی روح کی تسکین کرتے رہے ۔
    
شب شھداءبھی ایک اچھی سوچ کا حامل پروگرام تھا جس میں شھداءکے بچوں کی شرکت نے اس کو چار چاند لگا دئیے تھے اور ساتھ ہی ساتھ شھداءکی تصاویر کے آگے پھول پتیاں نچھاور کی گئیں چراغاں کیا گیا اور اس پروگرام کی اہم بات یہ تھی کہ متذکرہ شھداءمیں صرف ملت جعفریہ کے شہدا ہی کا تذکرہ نہیں کیا گیا بلکہ ہر اس پاکستانی شہیدکا ذکر تھا جس نے پاکستان کی عظمت حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اس میں شیعہ سنی کے ساتھ ساتھ پولیس آرمی اور دیگر سیکورٹی فورسز کے شہداءکی تصاویر کو بھی انتہا کی خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہوا تھا ،یہ یقینا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے ایک منفرد انداز تھا ۔

تنظیمی نشستوں میں تنظیمی کارکردگی رپوٹس پیش کی گئیں جن کو دیکھ کر اور سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمام تر سیاسی ومذہبی دباﺅ کے باوجود مجلس وحدت مسلمین پاکستان ہرآنے والے دن میں آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے عزم سے کبھی متزلزل نہیں ہو گی۔اور شیعہ حقوق کی جنگ لڑتی رہے گی اور آخر کار کامیابی اس کا مقدر بنے گی ۔

کم ترین وسائل اور بدترین دشمنی میں آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اخلاص سے جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک کے اندر جو شیعہ سنی بھائی چارہ کی فضا قائم کی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی ، دستوری  ترامیم بھی لائی گئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے اندر یہ فکر موجود ہے کہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر مناسب ترامیم کر کے آگے بڑھا جائے۔

یہاں رک کر میں پاکستان کی شیعہ برادری کو بالخصوص اور مظلومین پاکستان کو بالعموم دعوت دیتا ہوں کہ آئیے اور قوم سازی کی اس تحریک کا حصہ بنئیے اگر آپ ملک عزیز پاکستان اور پاکستان میں بسنے والی ملت جعفریہ اور مظلومین کی محرومیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں شخصیت پرستی کے بتوں کو توڑ کر نظریات کی خاطر میدان میں نکلنے والوں کا ساتھ دیں کیونکہ یہ بات جتنی جلدی آپ کو سمجھ آجائے اتنی ہی جلدی قوم فروشوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور اہداف کے حصول کو جلدی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

امید ہے وہ افراد وہ ادارے وہ شخصیات جو ملت کی سربلندی اور عظمت چاہتے ہیں میرے اس پیغام پر غور کریں گے اور اپنی قومی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریں گے ۔دوسری طرف پاکستان کے تمام اداروں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں ہم دہشت گرد نہیں ہیں ہم نے اپنے خون سے دہشت گردوں کو روکا ہے ۔ہم غدارِ وطن نہیں بلکہ میں نے ہمیشہ وطن کے غداروں کو بے نقاب کیا لہذآپ پاکستانی ادارے اس بات کا ادراج کریں اور ملت تشیع کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو روکیں یہی ملک وقوم کے لئے بہتر ہے ۔

علامہ راجہ ناصر عباس کی بے باک نڈر اور مخلص قیادت اس وطن عزیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گی ہمیں اور بھی شہادتیں دینی پڑی تو ہم دیں گے،ہماری تاریخ گواہ ہے نہ ماضی میں ہم کبھی میدان سے بھاگے اور نہ ہی آج راہ فرار اختیار کرنے والے ہیں۔

تنظیمی فعالیت میں تیزی کے لئے تجویز کئے گئے اقدامات یقینا قابل ستائش ہیں مضمون کی طوالت کے پیش نظر بہت ساری چیزوں کو چھوڑ رہا ہوں ،بس یہی کہوں گا کہ شیعہ علماءکااتنی بڑی تعداد میں علماءشیعہ کنونشن میں شریک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ علماءکرام نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور دشمنوں کے منفی پراپیگنڈے کسی کام کے نہیں ،آﺅ سونے اور لوہے کی پہچان کرو اپنے شعور کو کسوٹی بناﺅ پرکھنے کا انداز بدلو اور جو درد رکھتا ہے کچھ کرنا چاہتا ہے اس کا ساتھ دو میدان میں نکلو پاکستان میں اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے منظم ہو جاﺅ اپنا معاشی، معاشرتی ، سیاسی، اخلاقی ، مذہبی ، سماجی وروحانی کردار ادا کرکے یہ بات ثابت کردو کہ آپ واقعا پیروکاران محمد وآل محمد ہو ۔

آﺅ اس ملک کو محبت سے بھر دو نفرتوں کو دفن کردو آﺅ آج وقت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے اس سوال سے بچ جاﺅ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ؟تا کہ مولا کے اس سوال سے بچ جاﺅ کہ تم نے میری سیرت پر کیسا عمل کیا ہے ؟تا کہ اے عزاداران امام حسینؑ اس سوال سے بچ جاﺅ کہ میری کربلا میں قربانی کے مقاصد کے حصول کے لئے تم نے کیا کیا؟۔

آﺅ آگے بڑھو اور بڑھتے چلے جاﺅ تاکہ تاکہ امام زمانہؑ کے ظہور کی راہیں ہموار ہو سکیں ۔

خدا وند متعال محمد وآل محمد واصحاب محمد کے صدقہ اور طفیل ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے(الہی آمین)

رہزنوں کا رہبروں سے رابطہ محفوظ ہے
لٹ گیا میرا وطن اور فیصلہ محفوظ ہے


تحریر۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی  

وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت  کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن  ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چا ہیے اور ایسے فرد کو امام  منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو نیز معاشرے میں اسلامی احکام کو نافذ کر سکتا ہو  جیسا کہ ابن خلدون اس بارے میں لکھتے ہیں:{وقصاری امرالامامۃ انہا قضیۃ مصلحیۃ اجماعیۃ ولا تلحق با لعقائد}۱مسئلہ امامت کے بارے میں بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ {اسلامی معاشرے کی }ضروریات کے مطابق اور اجماع مسلمین یا اجماع {ارباب حل و عقد }کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ عقائد کے ساتھ مربوط نہیں۔اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ الہیٰ قرار دیتا ہے ۔ امام پیغمبر اور نبی کی طرح خداوند متعال کی طرف سے معین ہوتا ہے۔ اسی لئے امام اور پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پیغمبر پر وحی ناز ل ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو وحی  الہیٰ ٰ پہنچاتا ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و وحی کا سلسلہ ختم ہوا ہے ۔یہاں ہم قرآن کریم ،احادیث معصومین علیہم السلا م اور عقلی دلائل سے استفادہ کرتے ہوئے امامت کی مختلف ذمہ داریوں کو بیان کریں گے۔

1۔امام فضائل اخلاقی کا عملی نمونہ
امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں نفس کی تربیت کرنے اورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں  ۔امام رضا علیہ السلامنےامام کی جوصفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے بعض عبارت یہ ہیں ۔{الامام النار علی الیفاع،الحار لمن اصلی بہ ،والدلیل فی المہالک،من فارقہ فہالک}2۔ امام اس آگ کے مانند ہے جو کسی بلندی پر لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے روشن کی جائے۔امام ہلاکت خیز میدانوں میں صحیح راستہ بتانے والا ہے۔ جو اس سے الگ رہا  ہلاک ہوا ۔

حضرت علی علیہ السلا م بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام خط میں لکھتے ہیں :{ الا و ان لکل ماموم اماما یہتدی بہ و یستضیئ بنور علمہ،الا و ان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ و من طعمہ بقرصیہ ، الا و انکم لا تقدرون علی ذلک و لکن اعینونی بورع و اجتہاد و عفہ و سداد}3۔یاد رکھو کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتداء کرتا ہے اور اسی کے نور علم سے کسب ضیا ء کرتا ہے ۔ تمہارے  امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور  دو روٹیوں پر گزارہ کیا ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے  لیکن کم از کم احتیاط ، کوشش ، عفت اور سلامت روی سے میری مددتو کرو۔

امام کے اس کلام میں سب سےزیادہ امامت کے اخلاقی و تربیتی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ آپ ؑسعی وکوشش، عفت ،تقوی ،پرہیز گاری، قناعت و سادگی وغیرہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ عثمان بن حنیف کسی ایسی محفل میں شریک ہوا تھا جہاں ثروتمند لوگ جمع تھے اور اس محفل میں کوئی غریب شامل نہیں تھا ۔

2۔ معارف دینی کی تعلیم
 نبوت کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف کتاب و حکمت کی تعلیم ہے ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ يُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الحکْمَۃ}{نبی انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے } قرآن و حکمت کی تعلیم کا مرحلہ تلاوت قرآن اور وحی کے ابلاغ کے بعد کا ہے  ۔{ يَتْلُواْ عَلَيہْم}{ ان کےسامنے آیات کی تلاوت کرتا ہے} شریعت و وحی کا ابلاغ نبوت کےساتھ مختص ہے لیکن ختم نبوت کےساتھ معارف و احکام دین کی تعلیم ختم نہیں ہوتی ۔خاص طور پر مختلف سیاسی اور اجتماعی موانع کی وجہ سے مسلمان عصر رسالت میں  تمام معارف و احکام اسلامی سےآشنا  نہ ہو سکے ۔ علاوہ ازیں وحی پر مبنی ان آسمانی معارف و احکام کو لوگوں تک نہ پہنچانے کی صورت میں غرض نبوت وہدف وحی حاصل نہیں ہوگا  لہذا عقل و حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعدان علوم و حقائق کو کسی ایسے فرد کے حوالے کرے جو آپ ؐکےبعد مناسب مواقع پر لوگوں کو معارف و احکام اسلامی بیان کرے ۔اسی بنا  پر ائمہ اطہار علیہم السلام کی حدیثوں میں  ان کے راسخون فی العلم ہونےنیز قرآن کے تمام حقائق و معارف سے آشنا ہونے  پرزور دیا گیا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو علم کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ جیساکہ آپ ؐفرماتے ہیں :{انامدینۃ العلم و علی بابہا فمن اراد العلم فلیات الباب}4۔ میں علم کا شہر ہوں  اور علی اس کا دروازہ ہے  ۔پس جو شخص علم کا طالب ہو اسے دروازے سے داخل ہونا چاہیے۔
 
3۔ اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری
انسانی معاشرے میں ایک سیاسی نظام کی ضرورت  بدیہی امور میں سے ایک ہے ۔اسی لئے تاریخ بشریت  کی ابتداءسے لے کر اب تک ایسا کوئی انسانی معاشرہ پیدا نہیں ہو سکا جہاں ایک سیاسی نظام حاکم نہ ہو ۔البتہ تاریخ بشریت میں وجود میں آنے والے سیاسی نظاموں میں بہت سارے اختلافا ت موجود تھے ۔انسانی معاشرے میں سیاسی نظام قائم کرنے والے اکثر حاکموں نے ظلم و استبداد کی روش اختیار کی جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ حکومت کی ضرورتکے منکر ہوگئے  جنہیں{ Anarchist}}{حکومت مخالف عناصر} اور ان کے نظریہ کو { Anarchism}کہاجاتا ہے  ۔اسی طرح  تاریخ اسلام میں بھی بہت سے لوگوں نے حکومت  کی ضرورت کی مخالفت کی جیساکہ حکمیت کے مسئلے میں بہت سے لوگ فکری طورپر خطا کر گئے وہ حکم یعنی قانون ا ور حکم یعنی فرمانروا میں  اشتباہ  کرکئےاور اس آیت {لاحکم الا لله} سے استدلال کرتے ہوئےاصل حکمیت کے  ہی منکر ہوگئے اور اسے ناجائز قراردے کر  حضرت علی علیہ السلام اور باقی افراد کوکافر قراردینےلگے۔ اگرچہ ان حالات میں حکمیت کا مسئلہ عاقلانہ و مصلحت آمیز نہیں تھا۔اسی لئے حضرت علی علیہ السلام  اس کے سخت مخالف تھے لیکن  آپ ؑنے خوارج کے اصرار پر  مجبور ہوکر حکمیت کو قبول فرمایا البتہ اصل حکمیت عقل و وحی کے خلاف تو نہیں تھا ۔ آپ ؑنے مختلف مقامات پر خوارج کی غلطیوں کے بارے ارشاد فرمایا :جیساکہ{نعم لاحکم الا لله ، لکن ہولاء یقولون لا امرہ الا الله و لا بد للناس من امیر بر او فاجر} بے شک حکم صرف اللہ کا ہے لیکن ان لوگوں کا کہنا ہےکہ حکومت اور امارت بھی اللہ کے لئے ہے حالانکہ واضح سی بات ہے کہ نظام بشریت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہت ضروری ہے  چاہےنیک ہو یا فاسق ہو۔”یعنی اگرکوئی نیک و صالح امیر موجود نہ ہو اور معاشرے  میں ہرج و مرج کا خطرہ ہوتو لوگوں کو ناصالح امیر کی حکومت کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خوارج جو حکومت مخالف تھے جب حروراء نامی جگے پر پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلا جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے حکومتی عہدوں کو  تقسیم کیا اور ہر  عہدے کے لئے الگ الگ مسئول مقرر کیا ۔

امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی  معاشرے کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے ۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود  الہیٰ  کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت  کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔5متکلمین کی طرف سےامامت کی جو مشہور تعریف بیان ہوئی ہے اس  میں بھی سیاسی  امامت مراد ہے ۔ مثلا یہ تعریف کہ  امامت سے مراد اسلامی معاشرے کےدینی اور دنیوی امور میں  لوگوں کی رہبر ی کرنا ہے {الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا}۔امام رضا علیہ السلام امامت کے بارےمیں فرماتے ہیں :{ان الامامۃ زمام الدین ، و نظام المسلمین، و صلاح الدنیا و عز المومنین ، ان الامامۃأس الاسلام النامی و فرعۃ السامی ، بالامام تمام الصلاۃ و الزکاۃ و الصیام و الحج و الجہاد و توفیر الفئ و الصدقات و امضاء الحدود و الاحکام و منع الثغور و الاطراف .الامام یحل حلال الله و یحرم حرام الله و یقیم حدود الله و یذب عن دین الله و یدعو الی سبیل ربہ بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و الحجۃ البالغۃ}6۔امامت زمام دین اور نظام مسلمین ہے اور اس میں امور دنیا کی درستی اور مومنین کی عزت ہے ۔امامت اسلام کی مضبوط بنیاد  اوراس کی بلند شاخ ہے۔امام ہی سےنماز،زکوۃ،روزہ،حج وجہاد کا مل ہوتےہیں ۔ وہی مال غنیمت کا مالک ،صدقات کا وارث ،حدود و احکام کا جاری کرنے والااور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ہے ۔امام حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام قرار دیتاہے ۔وہ حدود  الہیٰ  کو قائم کرتا ہے اور دشمنوں کو دین خدا سے دور کرتا ہےنیز لوگوں کو دین خدا کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کےذریعے بلاتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے کامل حجت ہے ۔

مذکورہ مباحث سےواضح ہو تا ہے کہ امام کی ذمہ داری صرف  اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں  بلکہ  اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی  کی ذمہ داری میں شامل ہے۔مذکورہ بالا نکات پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں ۔بعبارت دیگر کسی مذہب کے نزدیک بھی دین سیاست سے جدا نہیں ہے ۔شیعوں کے نزدیک سیاسی رہبری کا بہترین نمونہ اس وقت کامل ہو تا ہے جب امامت کے دوسرےپہلو بھی موجود ہوں۔ بنابریں  امام  وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ،ہادی او ر ان کا رہنما ہو جو مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالےنیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی وجہ سے معاشرے میں واقع ہونے والے شگاف کو بھی پر کرے۔پس ان عالی ترین مقاصد تک رسائی حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیات کےبغیر  حاصل نہیں ہو سکتی جنہیں  خداوند متعال نے جان ونفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قراردیا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث {من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ}7 {اگر کوئی وقت کےامام کی معرفت کےبغیرمر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے ۔} سےواضح ہوتا ہےکہ امامت صرف سیاسی جہت نہیں رکھتی کیونکہ معاشرےکے سیاسی رہبر کی عدم شناخت اور جاہلیت کی موت کے درمیان کوئی تلازم نہیں پایا جاتا ۔ اگر کوئی شخص کسی دور درازمقام پر زندگی گزار  رہا ہو  اور اسے اسلامی معاشرے کے سیاسی رہبر کے بارےمیں کوئی علم نہ ہو لیکن احکام دینی کو جانتا ہو اور وہ اس پر عمل کرتا ہو تواس شخص کے بارے میں ہر گز یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شخص جاہلیت کی موت مرے گا ۔ بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک ایسے مقام و منزلت پر فائز ہے جوہدایت و گمراہی اور ایمان و کفر کا معیار ہے ۔

4۔ باطنی ہدایت
امامت کے مختلف  مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مقام نبوت و رسالت  کے بعد ہی مقام امامت پرفائز ہوئے جیسا کہ ارشاد ہوتاہے :{ وَ إِذِ ابْتَلیَ إِبْرَاہیمَ رَبُّہُ بِکلَمَاتٍ فَأَتَمَّہُنّ ۔۔۔۔}8اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور اس نے انہیں پورا کر دیا تو خدا نے کہا: ہم تجھے لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ البتہ مقام امامت کا مقام نبوت اورسالت سےبالاتر ہونےکا لازمہ یہ نہیں کہ امام کا مقام پیغمبر کےمقام سے بھی بالاتر ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص پیغمبر بھی  ہو اور امام بھی  ،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی بھی تھے اور امام بھی ۔اما م رضاعلیہ السلام ایک مفصل حدیث میں امامت کی حقیقت اور اس کے اہداف نیز امام کی خصوصیات اور مقام و منزلت بیان فرماتے ہیں : کیا لوگ امامت اورمقام امامت کی قدر کو پہچانتے ہیں ؟کیا ان کو اس کے متعلق اختیار دیا گیا ہے ؟امامت منزلت کے لحاظ سے بہت ہی بلند و برتر ہےاور شان کے اعتبار سے بھی بہت عظیم نیز ان کا  محل و مقام بھی بہت بلند ہے اور اپنی طرف غیر کے آنے سےبھی مانع ہے اور اس کا مفہوم بہت ہی گہرا ہے ۔لوگوں کی عقلیں اس تک پہنچ نہیں سکتیں اور ان کی راہیں اس کو پا نہیں سکتیں۔ وہ اپنے اختیار سے اپنے امام کو نہیں بنا سکتے ۔خداوند متعال نے ابراہیم خلیلؑ کو امامت سے سرفراز کیا۔نبوت اور خُلّت کے بعد امامت کا مرتبہ ہے ۔خدا نے ابراہیم کو اس کا شرف بخشا اور اس کا یوں ذکر کیا :{ إِنی ّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا}میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوش ہوکر کہا:اورکیاتو میری اولاد کو بھی امام بنائےگا؟اللہ نے فرمایا:{ لَا يَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِين}ظالم لوگ میرے عہدکو نہ پا سکیں گے۔اس آیت نے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کر دیا  ۔امام  محمدباقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتےہیں :{لنور الامام فی قلوب المومنین انورمن الشمس المضیئۃ بالنہار}9مومنین کےدلوںمیں امام کا جو نورہے وہ نصف النہار کے سورج سےزیادہ روشن ہوتا ہے۔

نتیجہ بحث:
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت  کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے اور ایسے فرد کو امام  منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ  الہیٰ  قرار دیتا ہے۔

امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں  نفس کی تربیت کرنےاورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں  ۔ آیت اکمال، حدیث مدینۃ العلم اور وہ روایات جو حضرت علی علیہ السلام کےوسیع علم  پر  دلالت کرتی ہیں  اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ امامت کے پہلووٴں میں سے ایک مسلمانوں کو معارف و احکام  الہیٰ  کی تعلیم دینا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام نے بعض معارف و احکام  الہیٰ  کو بیان فرمایا ہے اور بعض معارف و احکام  الہیٰ  کو دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کے سپرد کیا  ہے ۔ امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی  معاشرے  کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود  الہیٰ  کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت  کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔ بنابرین امام کی ذمہ داری صرف  اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں  بلکہ  اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی  کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ امامت کے مختلف   مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے۔ بنابریں امام کی باطنی ہدایت  ایصال الی الطریق نہیں ہوتی بلکہ ایصال الی المطلوب ہوتی ہے، یعنی  امام صرف راستہ نہیں دکھاتابلکہ  منزل تک پہنچاتا ہے ۔

حوالہ جات:
۱۔ اصول کافی ،ج1 ،ص 155۔ باب نادر فی جامع فضل الامام و صفاتہ۔
۲۔نہج البلاغہ، نامہ 45۔
3 ۔المستدرک،ج3،ص 127۔ البدایۃ و النہایۃ ،ج7،ص359۔
۴۔ شرح المواقف، ج8،ص346۔شرح المقاصد،ج5،ص233۔
۵۔ اصول کافی،ج1، کتاب الحجہ ،باب جامع فی فضل الامام۔
۶۔ شرح المقاصد ،ج5،ص 239۔شرح العقائد النسفیہ،ص110۔
۷۔ بقرۃ،144۔
۸۔ اصول کافی،ج1 ،کتاب الحجۃ،باب فی فضل الامام ،ص 154۔
۹۔اصول کافی ،ج ،کتاب الحجۃ ،ص 150،باب ان الائمۃ نور اللہ عزوجل ۔

تحریر۔۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس دور میں دین  اسلام تو بے چارہ ہوگیا ہے، بعض لوگ تو دین کو ایک پرمٹ کے طور پر استعمال کرنے لگےہیں،  اب آپ دینی لبادے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹیں تو یہ بھی جہاد ہے، آپ اسلام کا نام لے کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کریں تو یہ بھی نیکی ہے ، آپ کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور آپ مبلغ اسلام کہلوائیں تو یہ بھی رواہے،  آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمانوں پر خود کش حملے کریں تو یہ بھی جہاد ہے۔۔۔

گزشتہ دنوں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال یا مشعل نامی طالب علم کو جس بے دردری اور لاقانونیت کے ساتھ قتل کیا گیا، اس لاقانونیت کے لئے بھی دین کا سہارا ڈھونڈا جا رہاہے۔ میڈیا رپورٹس اور  پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔[1] یعنی اگر مقامی پولیس لاش کو اپنی تحویل میں نہ لیتی تو اس لاش کو جلا کر مزید ثواب  حاصل کرنے کا پروگرام بھی تھا۔

اس کے ساتھ ہی  اگر مقتول پر حملے کی ویڈیو دیکھی جائے تو اللہ اکبر کے نعرے بھی صاف سنائی دیتے ہیں۔ یعنی جو طریقہ داعش اور طالبان کا تھا وہی یہاں پر بھی نظر آرہاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داعش اور  طالبان کے تانے بانے مدرسوں سے ملائے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایک یونیورسٹی میں ہوا ہے۔

بس اب آپ یوں سمجھ لیجئے کہ  وہی دماغ جو طالبان اور داعش کے پیچھے فعالیت کررہاتھا اب یونیورسٹیوں میں بھی فعال ہو گیاہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو پھر بھی اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام لوگوں کی!؟

ایک عرصے سے ہم سنتے چلے آ رہے تھے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی قبضہ گروپس ہیں، ہاسٹلز میں کمروں پر قبضے کئے جاتے ہیں، خوف و ہراس پھیلایا جاتاہے، ہاسٹلوں میں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں اور بڑی بڑی نامی گرامی دہشت گرد تنظیمیں یونیورسٹیوں میں طلبا کی برین واشنگ کررہی ہیں۔ وہ دعوے کتنے سچے تھے اس کا تو ہمیں کچھ علم نہیں لیکن اس حادثے کی ویڈوز دیکھنے کے بعد یہ حقیقت بالکل سمجھ میں آ رہی ہے کہ عدم برداشت اور خون خرابے کا جو طوفان  ہمارے بعض مخصوص مدارس سے اٹھا تھا اب اس نے ہماری یونیورسٹیوں کے اندر بھی اپنے وجود کا برملا اظہار کردیاہے۔

ہمارا قومی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ عدم برداشت اور دینی لیبل کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ کبھی بھی دلیلوں اور مناظروں سے نہیں رک سکتا۔  ہمیں قومی و اجتماعی طور پر اس واقعے کو ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے طور پر دیکھنے کے بجائے ، اپنی ملکی تاریخ میں متشدد تحریکوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔  ایسی تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ہی شروع ہوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ہوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے  دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی،  ان دنوں میں  صرف ایک ہی فرقے کے خلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔ دیگر فرقوں کے لوگ اس مسئلے سےلاتعلق اور خاموش رہتے تھے، پھر یہ مسئلہ اتنا آگے بڑھا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر مارکیٹوں اور بازاروں سمیت سب کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دہشت گردی کسی ایک فرقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔

یہ واقع بھی بظاہر ایک یونیورسٹی کے  طالب علم کے قتل سے شروع ہوا ہے ، اس پر یونیورسٹیز اور کالجز کے سنجیدہ حلقوں کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اس کی جڑیں  کہاں ملتی ہیں!؟

کوئی چاہے یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ہو یا دینی مدرسے سے، ہم سب کے سامنے حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور خداوند عالم نے بھی آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

ختمِ نبوت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو نمونہ عمل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔

حضورﷺ نے اپنی حیات طیّبہ میں حسنِ اخلاق، عفو و درگزر، حلم اور معافی کی لافانی مثالیں قائم کی ہیں ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے سامنے ان گستاخوں کو بھی لایا گیا کہ جن میں سے کسی نے آپؐ کے چچا  حضرت حمزہؓ کے سینے میں نیزہ مارا تھا اور کسی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا اور کسی نے ان کا جگر چبایاتھا۔ سرور دوعالم ﷺ نے ان سارے گستاخوں کو معاف کر کے پورے عالم بشریت میں احسان و نیکی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔

حضورﷺ نے  میدان جنگ میں لڑنے والوں اور جنگی قیدیوں کے لئے بھی آداب و اخلاق مقرر کئے اور آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی شرائط مقرر کیں۔

لیکن آج لوگوں کے سامنے عفو و درگزر اور بخشش و احسان کو  فلٹر کر ایک مخصوص اسلام کو  پیش کیا جارہاہے۔  یونیورسٹیوں میں مذہبی قتل و غارت یقینا ایک افسوسناک المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ  یونیورسٹیوں میں بھی ختم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو بطور نمونہ عمل پیش کیا جائے۔تمام سیاسی،رفاہی اوردینی جماعتوں  و  شخصیات کو لاتعلق رہنے کے بجائے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیز کے طالب علموں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ  تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر یونیورسٹیوں سے قبضہ گروپس اور متشدد سوچ کا خاتمہ کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیاجائے ، چونکہ   یہ ایک منطقی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے جب لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جاتاہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑیں، اسی میں پاکستان اور اسلام کی بھلائی ہے۔

 

 

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) سرگودھا کے نواحی چک95شمالی کے مقام پر، ایک پیر صاحب کے آستانے پر، بیس آدمی موت کے گھاٹ اتر گئے، قاتل کا تعلق طالبان سے نہیں تھا، نہ ہی قتل کرنے والا کسی کالعدم تنظیم کا سرپرست یا ممبر تھا، بلکہ  اس مرتبہ قاتل تو الیکشن کمیشن  کا افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی بابا   اور ایک درگاہ کا متولی بھی تھا۔ یعنی ایک قاتل میں کئی خوبیاں تھیں، نام اس کا تھا عبدالوحید اور کام اس کا لوگوں کے گناہ جھاڑنا تھا،  لوگ اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لئے پیر صاحب کے پاس آتے تھے  اور پیر صاحب  ڈنڈے مار مار کر ان کے گناہ جھاڑتے تھے، لیکن اس مرتبہ شاید پیر صاحب کچھ زیادہ ہی جلا ل میں تھے، انہوں نے گناہوں کے ساتھ ساتھ بندے بھی جھاڑ دئے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر  لوگ بہت سارے گناہوں کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ، پھر نجانے یہ لوگ کون سے گناہ بخشوانے گئے ہونگے۔ مثلا ٹیکس چوری، بجلی چوری ، پانی چوری اور جنگلات سے لکڑی چوری وغیرہ کو عام طور پر گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ، اسی طرح اسی طرح کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ، کم تولنے ، بیوی بچوں بچوں کے ساتھ بد اخلاقی، ہمسائے کو اذیت اور جھوٹی قسم وغیرہ کو بھی گناہ نہیں سمجھا جاتا اور اگر ان کاموں کو کوئی گناہ سمجھے بھی تو انہیں بخشوانے کی فکر بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔

یہ بیس آدمی اپنے گناہوں کو بخشواتے ہوئے اپنی جانیں تو گنوا بیٹھے تاہم ایک پیغام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی چھوڑ گئے ہیں کہ اس سلسلے میں بھی تحقیق کی جانی چاہیے کہ وہ کونسے گناہ تھے جو لوگ پیر صاحب سے بخشوانے کے لئے آیا کرتے تھے۔ ممکن ہے اگر اس زاویے سے تفتیش کی جائے تو مزید کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آئیں۔

اس واردات کے بعد خود پاکستان کے روحانی مشائخ اور سجادہ نشین حضرات کی طرف سے بھی کوئی مشترکہ بیانیہ  آنا چاہیے تھا لیکن ممکن ہے ان میں سے بعض کے نزدیک ایسے موقع پر کوئی ردعمل دکھانا اور بیانیہ دینا بھی گناہ ہو!۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ذکر آیا  ہے تو عرض کرتا چلوں کہ  گزشتہ  روز  سیالکوٹ کے نواحی علاقے رنگ پورہ میں بھی ایک عجیب واردات ہوئی ہے۔اس میں بھی تحریک طالبان سمیت کسی کالعدم تنظیم  کا کوئی ہاتھ نہیں، واقعہ کچھ یوں ہے کہ چندا نامی شخص شامی کباب کی ریڑھی لگاتا تھا، اس نے ریڑھی کی کمائی سے کچھ سیٹھ  قسم کے لوگوں  سے ایک دکان خریدی اور پھر اسی میں کباب بیچنے شروع کئے، سیٹھ برادران نے ستر لاکھ روپے وصول کرکے بھی رجسٹری اس کے نام نہیں کی اور کچھ دن پہلے انہوں نے وہی دکان کسی اور کو آگے بیچ دی ،  اور پھر گزشتہ روز دکان کا قبضہ لینے چلے گئے۔ دکان پر جھگڑا ہوا اورچندا نے حملہ آوروں پر گولی چلائی  ، گولی لگنے سےموقع پر ہی ایک آدمی ہلاک ہو گیا،  اس کے بعد  سیٹھ لوگوں نے اسے کو پکڑ کر مارنا شروع کردیا اور پھر کھمبے سے باندھ کر اتنا مارا کہ اس کی ریڑھ اور بازو کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں اور سر پر لوہے کے راڈ لگنے سے مغز بھی باہر آگیا۔

یہ سب کچھ دن دیہاڑے ہوا اور اس میں تقریبا ایک گھنٹہ لگا، اس ایک گھنٹے میں کسی قانون کے محافظ نے ادھر پر نہیں مارا ، کوئی پولیس کی گاڑی بھول کر بھی ادھر سے نہیں گزری اور شہریوں کی سلامتی سے متعلق کسی حساس ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

خیر پولیس اور خفیہ اداروں سے تو ہمیں شکایت رہتی ہی ہے لیکن مجھے تعجب ہوا ان لوگوں پر جو اس سارے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے لیکن کسی نے بھی   آگے بڑھ کر اس وحشتناک کارروائی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔

یہ اکیسویں صدی کا واقعہ ہے کہ جب شہر اقبالؒ کے نزدیک  ، کسی انسان کو  سرعام  ایک  جانور کی طرح باندھ کر، ڈنڈوں اور پتھروں کے ساتھ مارا گیا لیکن  قانون کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی، مساجد کے سپیکروں سے کافر کافر کے نعرے لگانے والے ، کسی نہتے مسلمان کی مدد کو نہیں پہنچے،  صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے اور اپنے آپ کو مصلح اعظم کہلوانے والے اس آزمائش کے وقت کہیں دکھائی نہیں دئیے،  دفاع حرمین الشریفین کیلئے مرمٹنے کی باتیں کرنے والے اپنی ہی سرزمین پر ایک کلمہ گو مسلمان کا دفاع نہیں کر سکے، سارادن مسجدوں سے اذانیں دینے  اور نماز پڑھنے اور پڑھانے والے مرد مومن ،  ایک انسان کو اس طرح درندگی کا نشانہ بننے سے نہ بچا سکے۔

سوال یہ ہے کہ  اگر ایسا ہی سلوک ،کسی عورت کے ساتھ کیا جاتا تو کیا پھر بھی ہمارا معاشرہ  اسی طرح تماشائی بنا رہتا!؟

کیا اگر یہی سلوک کسی کالعدم تنظیم کے کسی ممبر کے ساتھ کیا جاتا تو کیا پھر بھی  اس کے پیٹی بھائی حرکت میں نہ آتے!؟

کیا اگر ریڑھی بان کے بجائے ، کسی سیٹھ ، زردار یا وڈیرے کے ساتھ یہی کچھ کیا جاتا تو پھر بھی پولیس موقع پر نہ پہنچتی!؟

عجیب بے حس لوگ ہیں ہم کہ اگر کہیں پر کوئی جعلی پیر بیس آدمیوں کو قتل کر دے یا  پھرکہیں پر بیس آدمی مل کر کسی ایک آدمی کو درندگی کا نشانہ بنادیں، توہم لوگ وقت پر کوئی ردعمل نہیں دکھاتے، اور اسی ہمارے رد عمل نہ دکھانے کی وجہ سے ہی ہم پربرے لوگوں کا تسلط ہے۔ ظالم کو دیکھ کر  ہم جیسے خاموش رہنے والے لوگ پھر کوچہ و بازار میں یہ   گلے بھی کرتے ہیں کہ  کہیں پر ہماری شنوائی نہیں ہوتی اور کہیں سے ہمیں انصاف نہیں ملتا!۔  لگتا ہے کہ ہم بھول گئے ہیں کہ  اس دنیا میں جو بولتا ہے اسی کی شنوائی ہوتی ہے اور جو جدوجہد کرتا اور قربانی دیتا ہے اسی کو انصاف ملتا ہے۔

ہم لوگ  عدل و  انصاف کے تو متمنی ہیں  لیکن ظلم کے خلاف ردعمل نہیں دکھاتے، ہم انسانی مساوات کے تو نعرے لگاتے ہیں لیکن انسانی زندگی کی قدروقیمت کے قائل نہیں ہیں، ہم کافروں کو مارنے کے تو شوقین ہیں لیکن مسلمانوں میں صلح وصفائی  سے بے فکر ہیں، ہم دنیا بھر کی اصلاح پر تو کمر باندھے ہوئے ہیں لیکن اپنے گھر اور محلے کی اصلاح سے غافل ہیں ۔

شاید ہم میں سے  کچھ کے نزدیک ، پانی چوری، بجلی چوری اور ٹیکس چوری کی طرح ظلم  کو ہوتا دیکھ کر خاموش ہوجانا بھی کوئی  گناہ نہیں ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree