وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔سیوطی آیت کریمہ {وَلَتَعْرِفَنَّ ہُمْ فیِ لَحْن ِالْقَوْل} {اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے}کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ :آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے :{ما کنا نعرف المنافقین علی عہد رسول الله{ص}الا ببغضہم علی ابن ابی طالب{ع}} پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتےتھے ۔نسائی {متوفی 303ھ}نے خصائص امیر المومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرادیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتےہیں جن میں آپ ؐفرماتے ہیں :امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا {اسی طرح}منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے ۔
خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں جن کے مضامین اس طرح کے ہیں:
1۔ {انی افترضت محبۃ علی ابن ابی طالب علی خلقی عامۃ}حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے ۔
2۔ {لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار} اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتےتو خدا وند جہنم کو خلق نہ کرتا ۔
3۔اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلامکی اس عمر کے برابر{جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری}عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفاو مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن {حضرت}علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔
4۔{من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی}جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے ۔
5۔{ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء} ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے ۔
6۔{من زعم انہ امن بی و بما جئت بہ و هو یبغض علیا فی و کاذب لیس بمومن}جوشخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہومگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتاہوتو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے ۔
اسی طرح شبلنجی شافعی نےنور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیاہے :
1۔مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے :{والذی فلق الحبۃ و برا النسمۃ انہ لعہد النبی الامی بانہ لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق}خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کےسوا کوئی مجھ سےبغض نہیں کرتا ۔
2۔ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں :{کنا نعرف المنافقین ببغضہم علیا} ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بے شمارحدیثیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔لہذامذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھےگرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کونفاق کا معیار سمجھا گیا ۔ اس صورت حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ ونمونہ قرار دیتے تھے۔
گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنزدیک آپ سب سے زیادہ عزیز تھے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی ۔ ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہوجاتاہے ۔ کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے حالانکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط وخصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ۔
محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما} اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئکَ ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ} اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاںسب کو بیان نہیں کر سکتے ۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتےتھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سےحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہو اتھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہٴ علی علیہ السلام کے نام سے پہچاناجاتا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتےرہتےتھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب وکامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔
حوالہ جات:
۱۔ محمد،30
۲۔الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۳۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۴۔خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
۵۔ المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
۶۔ نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
۷۔ الریاض النضرۃ ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
۸۔آل عمران 61۔
۹۔البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
۱۰۔ طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
۱۱۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث 111 ،ص 106۔
۱۲۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث 111 ،ص 106۔
۱۳۔خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔
تحریر ۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروںکی کمیوں پرنظررکھتاہے،اسے اپناعیب نظرنہیںآتا۔ہمارے مسلم معاشرے میں یہ مرض کچھ زیادہ ہی سرایت کرگیاہے اس لیے ہم دوسروں کے ردعمل پرچیخ پڑتے ہیںاوراحتجاج اورمظاہرے کرکے پورے دنیاکویہ بتادیتے ہیں کہ مسلمان واقعی بڑابے صبرا،کمزوراوربے شعورہے ۔دینِ اسلام کو پھیلانے کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں حضرت اما م حسین علیہ اسلام نے اپنا سر سجدے میں قلم کروا کر جس دینِ اسلام کی شان کو بچایا کیا لاج رکھی ہے جا رہی ہے آج اس اسلام کی میں یہ کہنا چاہوں گا آج کے مسلمانوں کو کہیں فرقوں میں بٹے ہو کہیں ذاتوں کا رونا ہے باعثِ شرم میرے لیے تمہارا مسلمان ہونا ہے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے انسان ہو کر انسانیت کا کوئی خیال نہیں ہے اور مسلمان ہو کر مسلمان ہونے کا خیال نہیں ہے کیا بدلاو لاو گے تم دھرنا دے کر ؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہو ؟ آزادی ؟مجھے ان مسلمانوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں مجھے تو ان مسلمانوں سے شکوہ ہے جو آزاد ہو کر بھی غلام ہیں میرا ایک سوال ہے آج کے مسلمانوں سے ؟ہم زندہ قوم ہیں باہندہ قوم ہیں کیا یہ ترانہ سننے کا حق ہے تمہیں ؟ کیا تم زندہ باہندہ قوم ہو؟جاگو مسلمانو جاگو جاگنے کا مطلب نیند سے جاگنا نہیں ہے اپنے ایمان کو جگاو اپنے اسلام کو جگاو اپنے دلوں میں قرآن کو جگاو ایک سچا مسلمان بن کر دکھاو پھر دھرنا دو کے ہمیں اسلام کے قوانین کے تحت نیک اور ایماندار حکمران چاہیے پھر دیکھو بدلتی ہے کے نہیں اس ملک کی تقدیر بدلتے ہیں کے نہیں تمہارے حالات چپ چاپ تماشہ دیکھنے والوں میں سے رہو گے تو ایک دن تم بھی تماشہ بن کے رہ جاو گے دشمنوں کو کہاں ڈھونڈتے ہو سر حد پار ؟دشمن تو تم خود ہو اپنے آج مسلمان ہی مسلمان کا قاتل ہے یہ تمہارے اعمال کی سیاست ہے جو حکمران تمہارے ساتھ کر رہے ہیںاگر یعی حال رہا مسلمانو تو یاد رکھنا تم جلد ہی اپنے وجود کو مٹا دو گے بدلاو لانا ہے تو پہل اپنے آپ سے کرو پہلے خود کو بدلو پھر دوسروں میں بدلاو لانے کی کوشش کرو ، لیکن آزادی خواب ہے اس بہن کی جس کے بھائیوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ یہ خواب ہے اس باپ کا، جس کے بڑھاپے کے سہارے کو کِر پانوں نے چیر ڈالا۔ یہ خواب ہے اس ماں کا، جس کی مامتا کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ یہ خواب ہے یہ خواب ایک سچے مسلمان بیٹے عتیق اسلم کا بھی ہے کہ فلسطین،شام ،کشمیر،انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو آزادی ملنی چاہیے یہ خواب ہے اس بچے کا ،جس کی غلیل نے انگریزی جہازوں پر شستیں باندھی تھیں۔ یہ خواب ہے اس بچی کا، جو گڑیوں کی شادی میں انگریزی ٹائی والے گڈے نکا ل باہر کرتی ہے۔ یہ خواب ہے اس بخت نامہ کا جو آخری ہچکی سے پہلے اپنے لہو سے آزادی کا لفظ مکمل کر تی ہے۔کہ آج نام نہاد ترقی یافتہ، مذہب کو بنیاد پرستی کے نعروں میں گم کرنے والے خود صلاح الدین کی قبر کو ٹھو کر یں مار مار کر غیرتِ مسلمان کو للکارتے ہیں، اور مسلمان کرے تو کیا کرے، ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان کی وسعتوں سے ابابیلوں کا منتظر ہے۔تو کوئی طوفاں ہی آیا کر تا ہے کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو یہ تلقین کر تا ہے۔
امریکہ جو بڑے بڑے دعوئے حقوق انسانیت پر کرتا ہے آج شام میں وہ جو کر رہا ہے پوری دنیا کو معوم ہے تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں سرزمین فلسطین ،شام ،کشمیر پر ظالم اور سفاک یہودیوں ،کافروںکا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جوروز ازل سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کا عکاسی کرتا ہے۔سرزمین فلسطین پر یہودی آبادیاں تعمیر کر کے جس طرح فلسطین کے مقامی باشندوں اور یہودی مہاجرین کے توازن کو بگاڑا گیا اس نے عربوں میں پھوٹ ڈال کر نہ صرف ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا بلکہ نئے معاشی واقتصادی حربوں کے ذریعے انہیں ایسا قلاش اور مفلوک الحال بنا دیاکہ اپنی اراضی یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔اور اس طرح ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی کاری ضرب لگی اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اگر مسلمان اسی وقت ایک ہو جاتے اوریہ تہیہ کر لیتے کہ ان مٹھی بھر یہودیوں کا سر کچلنا ہے تو آج یقینا حالات مختلف ہوتے۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے اور متحد ہونے کے بجائے باہم دست و گریبان رہے۔ یہ جوبھی دینا میں ہو رہا ہے ایک تنگ نظریہ ہے جو انسان کو انسا ن سے لڑوا رہا ہے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا اس سے ذیادہ امریکہ شام میں کر رہا ہے ۔
جہاں تک فلسطین ،شام کے معاملے میں پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستان دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کا شرف حاصل ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بغیر کسی خوف و خطر اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہوئے امت مسلمہ کا یکجا کرنا ہوگا۔ بلکہ اس کی قیادت کرنا ہو گی اوریقینا ہمیں عالمِ اسلام کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کا بھرم رکھنا ہو گا۔
تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم رانا
وحدت نیوز(آرٹیکل) جب کوئی فوجی اتحاد بنتا ہے تو وہ کسی مشترکہ دشمن کے خلاف بنتا ہے. قوم کو بتایا جائے کہ یہ اتحاد کس کے خلاف ہے.؟
1- یہ اتحاد پہلے تو اتحاد ہی نہیں کیونکہ اتحادی نہ اکٹھے ہوئے اور نہ ہی مشترکہ دشمن کا تعین کیا۔
2- عموما مسلمانوں کا علی الاعلان دشمن اسرائیل تھا اب تو وہ بھی سب کا دشمن نہیں رھا کیونکہ بہت سے عرب ممالک جن میں سعودیہ سر فہرست ہے اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں مانتے بلکہ بہترین دوست اور پارٹنر مانتے ہیں .تو پھر اس کے خلاف تو یہ اتحاد نہ بنا۔
3- انڈیا بھی ہمارے نزدیک دشمن ہے اسکی فوجی مداخلت سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا .اور کشمیر میں تقسیم ہند کے وقت سے فوجیں اتار کر بیگناہ ہمارے بھائیوں کو قتل کر رھا ہے اور طاقت کے ذریعے قابض ہے. لیکن عربوں اور دیگر اتحاد میں شامل ممالک کا انڈیا گہرا دوست بھی ہے. اس لئے یہ اتحاد انڈیا کے خلاف بھی نہیں۔
4- کہتے ہیں کہ یہ دہشتگردی کے خلاف ہے۔اگر خطے کے حالات کا جائزہ لیں تو گذشتہ 2011 سے خطے میں دو بلاکوں کے مابین جنگ جاری ہے. ایک طرف امریکی بلاک ہے اور دوسری طرف مقاومت کا بلاک.
اب دھشت گرد کون ؟
ہر بلاک دوسرے کو دھشتگرد کہتا ہے۔
امریکی بلاک : ایک طرف امریکہ ، فرانس ، اسرائیل ، ترکی ، سعودی عرب ، قطر ، امارات پوری طاقت کے ساتھ پیسے ، جدید ترین اسلحہ ، انٹیلیجنس معلومات اور ٹریننگ مختلف مسلحہ گروہوں کو فراہم کر رہے ہیں. جن میں النصرۃ فرنٹ ، القاعدہ اور داعش سر فہرست ہیں. اور انکے روابط کسی سے پوشیدہ نہیں . بلکہ بنانے والے خود بھی ان تعلقات کا اعتراف کر چکے ہیں. ان تکفیری مسلح گروہوں کو سعودی عرب اور اسکے اتحادی دشمن نہیں سمجھتے بلکہ جہاں پر بھی قابض ہوئے وہ علاقہ ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا. جیسے لیبیا میں قذافی حکومت گرا کر اب انہیں وھاں مضبوط کر دیا گیا ہے . یمن میں بھی جو علاقے سعودیہ اور اسکے اتحادیوں کی بمبارمنٹ سے خالی ھوئے وھاں پر یہی گروہ مسلط ہوئے. اور اسی طرح باقی ممالک میں بھی. تو ثابت ہوا کہ یہ فوجی اتحاد ان تکفیری مسلح گروہوں کے خلاف بھی نہیں بن رہا۔
5- مقاومت کا بلاک : انکے مد مقابل اس مسلط کردہ جنگ میں اپنا دفاع کرنے والے ممالک اور انکے اتحادی ہیں. جن میں شام ، عراق ، ایران ، حزب اللہ ، انصار اللہ ، حشد الشعبی ، روس اور چین ہیں۔
عقل ومنطق اور تازہ ترین صورتحال تو یہی کہتی ہے کہ یہ اتحاد تکفیری مسلح گروہوں کے عراق و شام سے قدم اکھڑ جانے اور پے در پے شکست کھانے کے بعد بنایا جا رھا ہے. اس کا ہدف انھیں زندہ رکھنا اور جن قوتوں کے خلاف یہ لڑ رھے تھے انکے خلاف جنگ کرنا ہی ہو سکتا ہے ۔
یا تو یہ اتحادی سب کے خلاف علی الاعلان لڑیں گے یا ان میں تقسيم کی پالیسی اختیار کی جائے گی.اور بعض کے خلاف جنگ لڑی جائے گی. اب ہر پاکستانی اپنی حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا یہ مقاومت کا بلاک ہمارا دشمن ہے.؟ یا اس بلاک کے اندر ہماری دشمن قوتیں شامل ہیں ؟ اگر کوئی ہے تو وہ کون ہے.؟ کیا وہ شام ہے یا عراق، ایران ہے یا حزب اللہ ، یا انصار اللہ یا یمن ، یا روس ہے یا چین.؟ ہمارے حکمرانوں کو اسے پاکستانی عوام کے سامنے واضح کرنا ہو گا. البتہ دوسرا بلاک (امریکی بلاک ) پاکستان کے دوست نما دشمنوں سے بھر پڑا ہے. جس میں امریکہ ہے جو پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے. پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے. وغیرہ وغیرہ ۔
اسرائیل ہے جسے پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا اور نہ ان سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں. جو ہمیشہ سے اس گھات میں ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر عراق اور سوڈان کی طرز کا حملہ کر دے۔
اس بلاک کی سرپرستی میں وہ مسلح تکفیری گروہ ہیں جو پاکستان کے خلاف جہاد کے فتوے دے چکے ہیں. جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہم نے ضرب عضب اور رد الفساد جیسی عسکری کارروائیوں کا اعلان کیا. کیا ہم پاکستان میں ان سے لڑیں گے اور بیرون ملک انکی تقویت کریں گے۔
اور کیا اس اتحاد کا بانی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی پاکستان میں دہشگردی کرنے والے مدارس ، شخصیات ، مراکز اور تنظیموں کی مدد اور پاکستانی امور میں مداخلت کسی سے پوشیدہ ہے. کیا گوادر پورٹ کو یہ ہضم کر پائیں گے یا اس اقتصادی ترقی کی امید کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے ؟
براہ کرم اس فاسٹ میڈیا کے دور میں پاکستان عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش نہ کی جائے اور اس حساس فیصلے پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور تمام شکوک وشبہات کی وضاحت کی جائے اور اسے مذھنی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی مخصوص سوچ کی تاثیر میں اتنا بڑا قومی فیصلہ کیا جائے۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹرعلامہ سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج علی الصبح کا واقعہ ہے، سات اپریل ۲۰۱۷کو ، جمعۃ المبارک کے دن ، مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا، شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔ شام پر امریکی کارروائی کے بعد روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے ، روسی دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ دہشت گردی کے خلاف مقابلے کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے شام میں امریکی فضائی کارروائی پر مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے اور اسی طرح اسرائیل نے بھی شام پر امریکہ کے حملے کی حمایت کی ہے۔
امریکہ کا شام پر حملہ کرنا اور سعودی عرب اور اسرائیل کا حمایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ اتحادی نہیں ہیں بلکہ ان تینوں ممالک میں سعودی عرب کی حیثیت فقط ایک قربانی کے بکرے کی سی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب سعودی عرب جو کام بھی کرتا ہے وہ در اصل امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس نہ ہی تو کوئی اپنا ایجنڈا ہے اور نہ ہی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کندھا ملانے کے بعد اپنے کسی ایجنڈے کا اعلان کر سکے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے جو اسلامی ممالک کا اتحاد بنایا ہے ، اس میں بھی صرف وہی ممالک شامل نہیں ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ناپسندیدہ ہیں، اسی طرح اس اتحاد کا ایجنڈا اگر اسلامی ممالک کی حفاظت ہے تو یہ اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلا کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی لا تعلق کیوں ہے!؟
باقی رہا جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کا ایشو، اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عالمی اسلامی فوج کی قیادت کرے۔ یہ اعزاز سر آنکھوں پر، البتہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اعزاز ہمیں تبھی حاصل ہو سکتا ہے کہ جب یہ اتحاد واقعتا اسلامی اتحاد ہو اور دنیائے اسلام کے دفاع کے لئے کام کرے ۔ لیکن اگر یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو ہمیں اعزاز نصیب ہونے کے بجائے مزید ذلت، رسوائی اور عالمی سطح پر تنہائی نصیب ہو گی۔
سعودی حکام کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد اسلامی اتحاد ہے تو پھر اس اتحاد کے داعی سعودی عرب کو فوری طور پر چند قدم اٹھانے چاہیے:۔
۱۔ سعودی عرب کو اپنے برادر اسلامی ملک یمن کے خلاف فوج کشی کو فورا روکنا چاہیے
۲۔ بحرین کے مسلمانوں سے جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر شیخ عیسی قاسم کو عزت و احترام کے ساتھ تمام مقدمات سے بری کیا جانا چاہیے
۳۔ قطیف میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیا جائے اور ان سے قید و بند کی صعوبتوں کو ہٹایا جائے
۴۔ عالم اسلام کے قلب یعنی مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی جائے
۵۔ سعودی عرب اپنے تمام ہم فکر جہادی گروہوں کو آفیشل طور پر فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرے
۶۔ سعودی عرب میں موجود تمام صحابہ کرام ؓ اور اہلبیت اطہار ؑکےمزارات کو از سر نو تعمیر کر کے امت مسلمہ کے درمیان وحدت و مواخات کی فضا قائم کی جائے
۷۔دہشت گردی کے خلاف فرنٹ رول اداکرنے والے مسلم ممالک خصوصا ، شام، عراق، اور ایران کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے خصوصی مدد لی جائے
۸۔ سعودی عرب اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ امریکہ اور اسرائیل کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور ان کا کوئی بھی مستقل دوست نہیں ہے۔ لہذا اگر سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی تحاد قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ خود سعودی عرب کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔
امریکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ نے طالبان سے فائدہ اٹھا یا اور پھر خود ہی ان کا کام تمام کردیا، صدام سے استفادہ کیا ہے اور پھر خود ہی اسے تختہ دار پر لٹکا دیا، قذافی کو امیرالمومنین بنایا ہے اور پھر خود ہی اسے نشانِ عبرت بنادیا، حسنِ مبارک کو پٹھو بنایا اور پھر اسے وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔۔۔
اگر سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل سے دوری اختیار نہیں کی تو پھر یہ ٹھیک ہے کہ آج ۲۰۱۷ میں ، سات اپریل کو ، جمعۃ المبارک کی صبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا، لیکن جب امریکہ نے اپنے مفادات ، شام ، روس ، عراق اور ایران کو خوش کرنے میں دیکھے تو پھر طالبان اور صدام کی طرح امریکی میزائلوں کا رخ سعودی عرب کی طرف بھی مڑ سکتا ہے، شاہ فیصل کی طرح ، مزید سعودی حکمران بھی قتل ہو سکتے ہیں اور سعودی شہزادے ہی سعودی بادشاہت کو خاک و خون میں غلطاں کر سکتے ہیں۔
یہ سعودی عرب کے لئے ، انتہائی سنہرا موقع ہے کہ سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے “ اسلامی اتحاد” کا نام استعمال کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اسلامی اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدگی ختم کرے، یمن اور بحرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترک کرے ، کشمیر و فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور امریکہ اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کرے، اسی میں سعودی عرب کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکی میزائل اپنے دوست اور دشمن کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) آج میں اپنے کالم میں معاشرے میں جو جہالت ہے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں لیکن میرا اپنا تعلق ایک کَٹر بریلوی خاندان سے ہے، یہ محض اس لیئے بتانا مقصود تھا کہ کہیں میری اس تحریر کو کوئی بھی شخص کسی مذہبی فرقہ واریت سے نہ جوڑ دے، کیونکہ یہ بات بھی درست ہے کہ میں کوئی عالم دین اور نہ ہی حافظ قرآن ہوں، یہ تحریر فقط ہمارے معاشرے کا ایک خوفناک پہلو دکھانے کی کوشش ہے۔ ہم سب ہی اولیاء کرام کی تہہ دل سے عزت و احترام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ اولیاء کرام نے دین اسلام کی ترویج اور تربیت انسانیت میں بہت بڑا کردار رہا ہے جسکو شاید ہی کوئی شخص رد کر سکے، لیکن میری تحریر کا مقصد فقط شر پسند عناصر کی پہچان کروانا ہے۔ ان عظیم پیروں ، فقیروں نے اشاعت اسلام کے لئے اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ معاشرے سے شرک بدعت اور رسومات کے خاتمے کے لئے بنیادی کردار ادا کئے پیروں فقیروں سے اللہ نے خوب کام لیا۔
انہی عظیم لوگوں میں حضرت حسن بصری، حضرت جنید بغدادی، حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت نظام الدین دہلوی، حضرت قطب الدین، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت بہائو الدین زکریا، حضرت علی ہجویری، حضرت میاں میر، حضرت خلیفہ، غلام محمد، حضرت احمد علی جیسی عظیم ہستیاں ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگ ان اکابرین اور ان کے خلفاء کے پاس آتے تھے تو پھر ان کی اصلاح ایسی ہوتی تھی کہ وہ تہجد گزار بن کر برائیوں سے بچنے والے اور نیکیاں کرنے والے بن جاتے تھے۔ لیکن آج اس مقدس مشن کو دولت کے بٹورنے اور دنیا کی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور حالت یہاں تک آپہنچی ہے جعلی پیر اور عامل معصوم لوگوں کی جان لے رہے ہیں اور دولت جمع کرنا ان کا مقصد بن چکا ہے۔ جعلی پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقیناً ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث ہے کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ عقل کا استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی عامل اور پیر
لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جعلی پیر ہمارے معاشرے کا وہ کردار ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے لیکن پھر بھی لوگ ان کا پیچھا نہیںچھوڑتے۔آخر کب تک یہ لوگ جہالت میں ڈوب کر جعلی پیروں سے اپنی عزتیں لٹواتیں رہے گے؟ 65سالوں میںجعلی عاملین، جعلی پیروں اور جادوگروں کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا، اس وقت ملک بھر میں ہزاروں عامل عوام کے مال وجان سے کھیل رہے اورکھلے عام مکروہ دھندے کی تشہیر میں مصروف ہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں،حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،ان جاہل عاملوں کے کہنے پر جہالت کے مارے ان کے معتقد دوسروں کو قتل کررہے ہیں اور ماں کی گودیں اجاڑ رہے ہیں، حکومت کو چاہیے فوری طور پر ان عاملوں کے خلاف آپریشن کرے۔
میرے مطابق حکومت کو ایسے تمام آستانے کو بند کرنا چاہئے بلکہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروئی ہونی چاہئے اس حوالے سے مذہبی علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
واضح رہے ملک میں جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی بڑی تعداد عوام کی جان، مال، عزت و آبرو کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔آئے دن ان عاملوں کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کردینے والا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے۔انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ 21ویں صدی میں بھی ملک میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں،سادہ لوح افراد دھڑا دھڑ ان عاملوں کے آستانوں کا رخ کرتے ہیں جن کی بدولت ان کے یہ آستانے آباد ہیں۔ جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے جال میں پھنسنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔گھریلو جھگڑوں سے نجات، شوہر کوراہ راست پر لانے، مقدمہ بازی، کاروباری بندش، اولاد کے حصول، بیرون ملک رہائش ودیگر مقاصد کے حصول کے لیے خواتین کی بڑی تعداد جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے آستانوں کا رخ کرتی ہیں۔ گلی گلی میں پھیلے عاملوں کے دعوے، اشتہاری مہم، وال چاکنگ، ہورڈنگز، بینرز، پمفلٹ اور اشتہارات کی بھرمارسے متاثر ہوکرمسائل کے گرداب میں پھنسی مختلف طبقات کی تعلیم یافتہ، ان پڑھ، ہرعمر کی خواتین انہیں اپنے مسائل کا ’’ واحد حل‘‘ سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ ’’عاملین‘‘ چٹکی بجاتے میں ان کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹور تے ہیںاور سادہ لوح مایوس خواتین ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرمسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت گنوانے جیسے مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ملک میں متعدد بار جعلی عاملوں اور پیروں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
دوسری جانب میڈیا بھی عوام کو گمراہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کس کس طرح کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں۔ بلکہ کئی چینلز پر تو کئی ایسے پروگرامز بھی نشر کئے جارہے ہیں جو جعلی عاملوں کے کام کو تقویت دیتے ہیں۔پیمرا کو چاہئے کہ وہ میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرامز اور اشتہارات پر پابندی عائداور جعلی پیروں اور عاملوں کے فروغ دینے والے چینلز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔حکومت ،علماء اکرام کی عدم توجہی اور عوام کی جہالت کی بدولت ملک میں ڈبہ پیروں اور جعلی عاملوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ جعلی پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقینا ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے، کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں ، جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
بہت سے مختلف واقعات بھی میرے علم میں دوستوں اور میڈیا والوں کی طرف سے آتے رہے لیکن یہ معاملہ ایسا ہی لگنے لگا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مرض اب ہمارے معاشرے میں مْوذی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مرض کا سب سے زیادہ نقصان اور شکار ہماری خواتین ہیں، اس لیے ہم سب لوگوں کو اپنی خواتین کی اس حوالے سے تربیت کرنی چاہیے ورنہ مردوں کو عذاب الہیٰ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ مردوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اس جرم میں آپ بھی برابر کے شراکت دار بن رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خواتین بھی ایسے حیوان طبعیت بابووں کی ہوس کا شکار ہوئیں، اْنکے ان گناہوں کا مداوا کیسے ہوگا ؟ خیر یہ تو ہے، ہمارے آج کے معاشرے کا المیہ کہ ہم اصل عقائد بھول کر بہروپیوں کی بھی تقلید اور اْنکے تحفظ اور دفاع میں اْٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بھی سمجھنے کو تیار نہیں یہ سب جعلی پیر، بابے اور عامل، حقیقی، سچے پیر اور اللہ کے ولیوں کے نام بھی داغدار کررہے ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے گھروں سے ان کے خلاف آپریشن شروع کرنا چاہیے اور اپنے نیک لوگوں اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کی حْرمت بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تحریر۔۔محمد عتیق اسلم
وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کا نام محمد بن علی بن موسی اور امام جواد کے لقب سے معروف ہیں۔آپ10 رجب سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور والدہ سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہیں۔
ولادت امام
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرائمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں ۔
مبارک ترین مولود
امام محمد تقی علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کی ولادت سے قبل امام کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا مخالفین کہتے تھے کہ "امام رضاعلیہ السلام سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو پیدائش کے بعد امام رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: هہذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم برکۃ علی شيعتنا منہ"۔یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔ ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحیی صنعانی کہتے ہیں:{ إنا لعند الرضا عليہ السلام بمنی إذ جبئ بأبي جعفر عليہ السلام قلنا: هذا المولود المبارک ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم برکۃ منہ} ہم امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔
آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمہ، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ
کرامات امام
آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ہم یہاں کچھ نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
۱۔استجابت دعا
داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادعلیہ السلام کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آپ نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی"۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی۔
۲۔درخت کا بارور ہونا
بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادعلیہ السلام کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امام نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امام نے پانی منگوایا اور درخت کے ساتھ بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالایا اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔
مناظرات امام
امام محمد تقی ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ رہا۔ہم یہاں بعض مناظرات کو بیان کریں گے:
مامون کے دور میں بغداد میں امام جوادعلیہ السلام کا ایک اہم مناظرہ یحیی بن اکثم کے ساتھ ہوا۔ مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان [امام جواد] کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جوادعلیہ السلام کے درمیان مناظرے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔ مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا؟ ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟، شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ ، رات کو چھپ کراس نے اس کا شکار کیا یا اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی کے چہرہ پر شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔
امام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "حل" میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔ اس کے بعد امام جواد نے یحیی سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔
امام کی زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا ، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔امام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی ،اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی ، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما نے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔
اسی طرح ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امام نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بےشک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الانسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ} اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔ یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ {أنّ مثل أبي بکر وعمر في الاَرض كمثل جبرئيل وميکائيل في السماء} بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔ امام نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرئیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔
اصحاب و شاگردان امام
آپ کے زیادہ تر اصحاب آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور آپ کے فرزند فرزند امام ہادی علیہ السلام کے بھی شاگرد تھے جو مختلف فقہی اور اعتقادی کتابوں کے مصنفین و مؤلفین تھے ۔امام جوادعلیہ السلام کے اصحاب اور رواۃ کی تعداد تقریبا 120 ہے جنہوں نے تقریبا 250 حدیثیں آنجناب سے نقل کی ہیں۔ ان روایات کا تعلق فقہی، تفسیری اور اعتقادی موضوعات سے ہے۔ آپ کے اصحاب اور راویوں میں علی بن مہزیار، احمد بن ابی نصر بزنطی، زکریا بن آدم، محمد ین اسمعیل بن بزیع، حسن بن سعید اہوازی، عبدالعظیم حسنی، ابراہیم بن ہاشم قمی، زکریا بن آدم اور احمد بن محمد برقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امام جوادعلیہ السلام کے راوی صرف شیعہ ہی نہ تھے اہل سنت سمیت دوسرے فرقوں کے افراد نے بھی آپ سے روایات نقل کی ہے۔
اہل سنت مشاہیر کے اقوال
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپکی علمی شخصیت کو ممتاز گردانا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال ذکر کرتے ہیں ۔
۱۔سبط ابن جوزی:امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔
۲۔ابن حجر ہیتمی:مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔
۳۔فتال نیشابوری:مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
۴۔جاحظ عثمان معتزلی: وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں۔
حوالہ جات
کلینی، اصول کافی،ج1، ص492۔
مفید،ارشاد ص ۴۷۳
المناقب، ج4، ص394
کلینی، اصول کافی، ج1 ص321۔
مجلسی، بحارالانوار، ج50، صص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔
اعلام الوری ص ۲۰۰
ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضۃ الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ۔
شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص586۔
ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔فتال نیشابوری، ص241و242۔
طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
ق،۱۶۔
طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304
طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص359۔
ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106 ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی