وحدت نیوز(آرٹیکل) قلم دیکھو مسلسل رو رہا ہے
تماشا کاغذوں پر ہو رہا ہے
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا،ایک اچھا پڑھا لکھا انسان ہی عشق اور جنون سے انقلاب لا سکتا ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے عہد اقتدار میں تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی کے کلچرنے فروغ پایا.تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل نہیں ہے.افسوس کے آج ہم تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں ہم سب کی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے بچوں کو تعلیم و تربیت دینا،اور تعلیم کی کمی،تربیت کا فقدان ،بے روزگاری نے نوجوان نسل کو کرائم،اور جرائم کی طرف راغب کیا ہی تعلیم خود کو شناخت کرنے نکھارنے، ایک امن اور قانون پسند خوشحال معاشرہ کی تشکیل میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔جب تک حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح نہ بنایا پاکستان انتہا پسندی اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ہمارے حکمران پڑھے لکھے ہوتے تو آج پاکستان میں تعلیم کا اچھا میعار ہوتا.کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو ہر جلسے میں سڑکوں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ کیا اس ملک میں صحت اور تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اورجب تعلیم یا علم کے نام پر دھندا کرو گے تو گندی ذہنیت کی نسل تیار ہوگی
"ہم تعلیم خرید سکتے ہیں مگر عقل خدا کا عطا کردہ تحفہ ہے۔"
تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم
وحدت نیوز(آرٹیکل) سینکڑوں برس ہوچلے ہیں کروڑوں انسان اس آرزو کو لیئے منتظر پھر رہے ہیں کہ آپؑ تشریف لے آئیں۔ باپ بیٹوں کو ان کی آمد کا مژدہ سناتے چلے گئے،مائیں آج بھی بچوں کو ان کے انتظار کی گھٹی پلا کر جوان کرتی ہیں ،خواتین، مرد، بچے ،بوڑھے ،جوان ہر مذہب، مسلک ،مکتب اور خطہء ارضی وسماوی کی مخلوقات اور آدم زاد ان کی آمد کی حسرت دل میں لیئے زندگی کے سفر کو طے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔پھول ،کلیاں،گلستان، خوشبو بکھیرتے ہیں ،شمع آپؑ کے فراق کو برداشت نہیں کرپاتی اور لاکھوں اشک بہاکر آپؑ سے التفات کا اظہار کرتی ہیں ،بُلبل اپنی زبان میں آپؑ کی تڑپ میں غزل سرا رہتا ہے ،عاشقان خون کے آنسو بہا کر آپؑ کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں ،ہر ایک آپؑ کے دیدار کامشتاق ہے، ہر ایک آپؑ سے ارتباط کا خواہش مند ہے، ہر ایک آپؑ کی زیارت کیلئے تڑپتا ہے۔۔۔۔۔یہ تڑپ ،یہ بے قراری، یہ آرزوئے ملاقات، یہ خواہش دیدار۔۔۔۔۔وقت گذرنے کے ساتھ مایوسی نہیں پھیلاتے بلکہ ۔۔۔۔۔آتش عشق و آرزوئے وصال میں شدت پیدا کر رہے ہیں لہٰذا دعائیں کی جاتی ہیں کہ دیدار نصیب ہو ۔۔۔۔۔مناجات و ورد کیا جاتا ہے کہ آپؑ کی زیارت ہو،آنسو بہائے جاتے ہیں کہ مولاؑ تشریف لے آئیں اور دنیا کو ظالموں سے آزاد کروائیں ،کیسی کیسی اُمیدیں ہیں جو آپ ؑ کے ظہورتک موقوف ہیں ۔۔۔۔۔کتنے فیصلے ہیں جو صرف آپؑ کی آمد کے اعلان کے ساتھ مربوط ہیں۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ! وہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں ،جنہیں آپؑ کا منتظر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو آپؑ کے فراق میں تڑپتے ہیں اور وصال کیلئے آتش عشق کو جلائے ہوئے ہیں اس دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں ۔۔۔۔۔15 شعبان المعظم آپ ؑ کے میلاد پاک کا مبارک دن ہے ،اس روز پوری دنیا میں عاشقان مہدی ؑ، آپؑ کی یاد سے محافل گرماتے ہیں، آپؑ کے ذکر سے لذت دیدار و تڑپ ،انتظار کے لطف اُٹھاتے ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ سچے اور کھرے عاشقان ہر دم و ہر لحظہ اسی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں سچے اور کھرے عشق کا تقاضا بھی یہی ہے۔
آپ کا فرمان ہے کہ " میں خاتم الاوصیاء ہوں، اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کے مصائب ومشکلات ٹال دے گا" اور آپؑ کا یہ فرمانا کس قدر خوبصورت ہے کہ " میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کو اس طرح فائدہ پہنچے گا جس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کے فوائد زمین والوں کو حاصل ہورہے ہوتے ہیں"۔
آج ہم پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جن مشکلات سے دوچار ہیں ان کو سوچ اور سمجھ کر کئی ایک بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے اور ناگہانی آفات گھیرنے والی ہیں،مشکلات اور مصائب پہاڑ بن کر سامنے آجاتے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہوتی کہ ۔۔۔۔۔یکایک مشکلات ٹل جاتی ہیں ،مصائب اور پریشانیاں کافور ہوجاتی ہیں ،غالب دکھائی دینے والا دشمن مغلوب ہوجاتا ہے ،کسی کے وہم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نہیں ہوتا کہ یوں مشکلات سے جان چھوٹ جائے گی مگر ایسا ہوتا ہے اور ایک بار نہیں بار بار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔یہی وہ فائدہ ہوتا ہے جو بادلوں کی اوٹ سے سورج پہنچا رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اور اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ہم (اہل تشیع) بغیر صاحبؑ( سرپرست وولی ) کے نہیں ہیں ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایسے الطاف و کرم پر آپؑ کی طرف متوجہ ہوں یا نہ ہوں ۔۔۔۔ان کا لطف و کرم جاری رہتا ہے،ان کے کرم کے سایہ کی چھت ہمیشہ تنی رہتی ہے۔۔
دوستان و عاشقان حضرت صاحب الامر والزمان ؑ کی صف میں شمار ہونا یقینا ایسی سعادت و عبادت ہے جس کا شاید کوئی تقابل نہ ہو مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام و مرتبہ کو پانے کیلئے جس پاکیزگی قلب ،طہارت روح و نظر انسانیت سے محبت ،درد مند دل، اور تقویٰ و پرہیز گاری کی ضرورت ہے وہ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔ہمیں اس روز (15 شعبان ) کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ،اپنے روز مرہ معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم اپنا احتساب کررہے ہوں تو حقیقی منتظر کہلانے کے حق دار ہونگے۔
دوستان و خواہران محترم ! آج کے دن اس بات کا جائزہ ضرور لیں کہ ہم جس امام ؑ کا انتظار کر رہے ہیں ان کی آمد کے بعد معاشرے میں کونسی تبدیلیاں پیدا ہونگی، اگر ہم ان تبدیلیوں کیلئے آج سے ہی کوشش شروع کردیں تو یہ زمینہ سازی آپؑ کی خوشنودی کا باعث بن جائے گی ۔۔۔۔۔اگر امامؑ کی آمد پر مستضعفین مستکبروں پر غالب آنے والے ہیں اور کمزور قرار دیئے گئے ،لوگ غالب قرار پائیں گے ،عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا تو اس کا م کیلئے آج ہی سے کوششیں کیوں نہ شروع کی جائیں ۔ دردمندوں اور زخم خوردوں کیلئے مرہم کیوں نہ فراہم کیا جائے،اگر ہمارے دل مظلوموں و ستم رسیدوں کیلئے تڑپنے سے قاصر رہتے ہیں،ہماری نگاہیں اپنے سامنے ظلمہوتا دیکھتی ہیں اور لا تعلق ہو جاتی ہیں تو معاملہ درست نہیں ہے،اگر ہمارے آس پاس،ہماریے شہروں،ہمارے دیہاتوں اور ہمارے محلوں میں ظلم ہو رہا ہو،اسے روکنے کی جرات نا کی جائے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جائے یا لاتعلقی کا مظاہرہ کیا جائے تو کیسے امامؑ کی ہمرکابی میں ظالموں کے خلاف میدان سجایا جائے گا ۔ عدل کی حکومت تمام عالم پر قائم کرنے کیلئے آج سے ہی تبدیلی کی تحریک کیوں نہ شروع کی جائے ۔یاد رکھیں معاشرے میں تبدیلی ذات میں تبدیلی سے مشروط ہے ۔ معاشرہ سازی کا عمل خود سازی کے راستہ سے ہوکر گذرتا ہے۔
حدیث پاک ہے کہ " جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا"
امام العصرؑ کی معرفت کے زینے طے کرنے کیلئے میدان عمل میں رہنا ضروری ہے او ر جو دوست و خواہران میدان عمل میں رہتے ہیں انہیںخود احتسابی کی عادت ضرور ڈالنی چاہیئے ۔ ہر عمل کا جائزہ لیں کہ یہ خدا کی طرف پرواز اور قربت کا باعث ہے یا دشمنان خدا سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ ہے اگر سفر بہ خدا ہے تو یقینا ہم زما نے کے امام ؑ کی خوشنودی حاصل کر نے میں کامیاب ہوں گے۔ یوم میلاد امام زمانہؑ کے دن خود احتسابی و جائزہ اعمال کے طور پر منائیں۔ اُمید ہے کہ اگر ہم نے احتساب و جائزہ اعمال کیا تو ،ہماری بے قراری ،ہماری دعائیں ،ہماری مناجات، ہماری خواہش دیدار و ملاقات اور آرزوئے وصال معرفت امامؑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ہم حقیقی منتظر کہلا سکیں گے۔
ایک دوست نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ امام حکم ربی سے غائب ہیں اور امر ربی سے ہی ظہور فرمائیں گے،اس صورت میں ہمیں دعائیں مانگنے،گڑگڑانے اور آنسوئوں کیساتھ مناجات اور ظہور کی دعائیں کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ امر ربی سے ظاہر ہونگے ،ہماری دعائیں انہیں کیسے ظہور پر مجبور کر سکتی ہیں،،بندہ حقیر نے عرض کیا کوئی شک نہیںکہ امام کی غیبت امر ربی سے ہوئی،اور ان کا ظہور بھی امر ربی سے ہی ہو گا،اس لیئے کہ امر ربی کے سامنے کسی کو بھی سرتابی کی جرات نہیں ،چاہے کوئی بھی ہو،اس لیئے آپ کا ظہور پر نور امر ربی سے ہو گا اللہ جب چاہے گا انہیں ظہور کا اذن فرمائیں گے،مگر بقیۃ اللہ اعظم خود انتظار فرما رہے ہیں اپنے ظہور کا اسی لیئے آپ متظِر بھی ہیں اور منتظر بھی،جب وہ بھی منتظِر ہیں کہ ظاہر ہو کر ظلم کا خاتمہ کر دیں تو ان کا بیقراری میں فرمانا ہے کہ میرے جلد ظہور کی دعا کرو،یہ بہت بڑی عبادت کہی گئی ہے،آپ کی غیبت بلا شک و شبہ ایک الہی راز اور سر ہے ،اس راز سے آئمہ طاہرین نے بھی پردہ نہیں اٹھایا ،ہم بھی نہیں اٹھاتے بس انتظار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اپنی آخری حجت کو جلد اذن ظہور دے ،ہمارا جلد ظہور کی دعا کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم مایوس نہیں ،ہم ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں،ہم ان سے محبت اور عشق و عقیدت رکھتے ہیں ،ہم تیاری کر رہے ہیں کہ ظالموں کو نابود کر دیں اور اس راہ کو ہموار کر رہے ہیں ،زمینہ سازی کر رہے ہیں،زمینہ سازی یعنی ظہور کی راہیں ہموار کرنا،اس میں طہارت و پاکیزگی نفس سب سے پہلے ہے،تہذیب نفس سے ہی معاشرہ سازی کی طرف قدم اٹھائے جاتے ہیں،ہمیں اس مقصد کیلئے دو رنگی کو چھوڑناہو گا،دورنگی امام کے سپاہیوں میں نہیں چلتی،یہ کیسے ممکن ہے کہ لشکر حسین میں شامل ہوں اور عملی طور پر شمر ،خولی،یزید،عمر ابن العاص،امیر شام کے کردار و عمل کے نمونے پیش کرو جبکہ امام کے سپاہیوں کو ابوذر،عمار،مالک اشتر،میثم تمار بننا ہو گا،اب دیکھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے ،آیا ہم اس قابل ہیں کہ خود کو ان مثالی لوگوں سپاہیان امام کے ساتھ کھڑا کر سکنے کی جرا ت کریں؟ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت نے گھر کیا ہو اور ہم امام کے سپاہی بن جائیں یہ ممکن نہیں،کوئی اس دھوکہ و فریب میں نا رہے کہ وہ سچی بیقراری کے بغیر امام کا سپاہی بن جائے گا اور امام کی قربت اسے حاصل ہوجائے گی،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ کوئی عدل نافذ کر دے اور ہم آمادہ و تیار ہی نا ہوں۔ذرا جائزہ لیںکہ ہماری محبت اور تڑپ علی ابن مہزیار جتنی ہے،جس نے کتنے ہی حج اس امید اور تڑپ کے ساتھ انجام دیئے کہ دیدا ر نصیب ہوجائے،اور بالآخر اسے یہ سعادت نصیب ہو گئی ،ملاقات ہو گئی،محفل یاران میں بیٹھے کا اذن نصیب ہوا۔ہمیں جائزہ لینا ہے،ہمیں احتساب کرنا ہے ،ہمیں دنیا کی آلائشوں اور فساد سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔
تحریر ۔۔۔۔ارشادحسین ناصر
وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک دفعہ ایک شخص مرغی فروش کے پاس گیا اور ایک مرغی ذبح کرنے کو کہا مرغی فروش کے پاس آخری مرغی بچی تھی اور اُس نے مرغی ذبح کی ، خریدار نے قیمت ادا کرنے بعد کہا تم اس کی بوٹیاں بنا دو مجھے کچھ کام ہے میں وہ نمٹا کر آتاہوں یہ کہ کر وہ شخص چلا گیا، مرغی فروش نے ابھی مرغی بوٹی کر کے رکھا ہی تھا شہر کا قاضی وہاں آن پہنچا اور کہنے لگا کہ ایک مرغی ذبح کرو ، مرغی فروش نے جواب دیا جناب قاضی صاحب مرغی ختم ہو چکی ہے لہذا میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں قاضی کی نظر تیار شدہ گوشت پر پڑی اور کہنے لگا پھر یہ گوشت مجھے دے دو مرغی فروش نے کہ جناب یہ ایک شخص کی امانت ہے وہ اس کی قیمت ادا کر چکا ہے ابھی وہ اسے لینے آتا ہی ہوگا۔ قاضی کچھ غصے میں کہنے لگا تم مجھے نہیں جانتے میں شہر کا قاضی ہوں ،مرغی فروش نے کہا جناب میں آپ کو جانتا ہوں مگر میں اُس شخص کو کیا جواب دوں گا؟ قاضی کہنے لگا اُسے کہنا تمہاری مرغی اڑ گئی ہے۔ مرغی اڑ گئی ہے !، مرغی فروش کافی تعجب سے کہنے لگا، جناب میں نے اُس کے سامنے مرغی ذبح کر کے بوٹی کرنے لگا تھا بھلا ایک مردہ مرغی کیسے اڑ سکتی ہے؟ قاضی نے کہا یہ تم مجھ پر چھوڑو اور بس تم اُس سے یہی کہو زیادہ سے زیادہ وہ تم سے جھگڑا کرے گا اور آخر عدالت کے لئے میرے پاس ہی آنا ہے، تم بے فکر رہو اور گوشت مجھے دے دو قاضی کے حکم کے آگے مرغی فروش بے بس تھا اور نا چاہتے ہوئے گوشت قاضی کے سپرد کر دیا قاضی گوشت لے کر چل پڑا اِدھر مرغی فروش پریشانی کے عالم میں سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ابھی کچھ دیر گزرا تھا خریدار مرغی فروش کے پاس آیا اور گوشت کا تقاضا کرنے لگا مرغی فروش نے کچھ سہمے انداز میں کہا کہ مرغی اڑ گئی ہے، خریدار نے حیرت سے کہا مرغی اڑگئی ؟ لیکن میں نے تو ذبح کے بعد بوٹی کر نے دیا تھا بھلا پھر کیسے اڑ سکتی ہے؟! مرغی فروش نے کہا کہ میں بوٹی ہی کر رہا تھا اچانک گوشت مرغی میں تبدیل ہوا اور اڑ گئی بالآخر لڑائی جھگڑے کے بعد قاضی کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا اور لوگ دونوں کو لیکر قاضی کے پاس جارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی اور مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے یہ دیکھ کر یہ لوگ بھی بیچ بچاو کے لئے کود پڑے اتنے میں مرغی فروش کا ہاتھ یہودی کے آنکھ پر لگا اور ایک آنکھ ضائع ہوگئی، مرغی فروش جو ابھی ایک دلدل سے نکلا نہیں تھا دوسرے دلدل میں پھنس چکا تھا اور لوگ اس کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے جا رہے تھے راستے میں ایک مسجد کے پاس پہنچا اور اس نے موقع پاکر جان بچانے کی غرض سے مسجد کی طرف بھاگا اور مسجد کے مینار پر چڑھ گئے لوگ بھی اس کا پیچھا کرتے مینار تک پہنچ گئے۔ مرغی فروش نے لوگوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر مینار سے چھلانگ لگا دی اور بد قسمتی سے وہ کسی ضعیف اور ناتواں شخص کے اوپر گرا اور وہ شخص وہی مر گیا اس شخص کا جوان بیٹا وہی کھڑا تھا اس نے انتقام کی نیت سے خون خوار آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا مگر لوگوں نے پکڑ کر قاضی کے پاس پہنچا دیا۔ قاضی نے جب مرغی فروش کو دیکھا تو ہنسنے لگا قاضی کے دماغ میں صرف وہی گوشت والی بات تھی اور باقی واقعات سے وہ بے خبر تھا جب قاضی کو تمام حالات کا پتہ چلا تو کافی پریشان ہوئے اور ماتھے پر بل پڑنے لگے لیکن کچھ دیر بعد قاضی اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگا میں ایک ایک کر کے تینوں فیصلے سنا دوں گا لہذا سب سے پہلے مرغی کا مسئلہ حل کروں گا اس کے بعد مرغ کے خریدار اور مرغی فروش کی بات سنی، جب دونوں نے اپنی باتیں مکمل کی تو قاضی نے خریدار سے سوال کیا کہ کیا تمہیں خدا کی قدرت پر بھروسہ ہے؟ کیا اس بات پر ایمان ہے کہ خدا زندوں کو مردہ اور مردوں کو زندہ کرتا ہے؟ خدا کے پاس یہ قدرت ہے کہ وہ جب جس کو چاہے مردہ اور زندہ کرے؟ کیا قرآن میں پرندوں اور اور عیسیٰ علیہ اسلام کو دیے گئے معجزہ کو نہیں مانتے ہو؟ خریدار نے توقع سے ہٹ کر جب یہ باتیں سنی تو کہنے لگا قاضی صاحب میں خدا کی قدرت پر پورا بھروسا ہے اور ایمان ہے لیکن۔۔۔ قاضی کہنے لگا لیکن ویکن کچھ نہیں تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خدا ذبح شدہ مرغی کو کیسے زندہ کر سکتا ہے مطلب تمہیں شک ہے؟ خریدار کہنے لگا قاضی صاحب میرا یہ مطلب نہیں۔۔ قاضی صاحب نے سوال کیا کیا خدا مرغی کو زندہ کر سکتا ہے یا نہیں ہاں میں یا نہیں میں جواب دو؟ خریدار ہاں، قاضی بس فیصلہ مرغی فروش کے حق میں دیا جاتا ہے۔دوسرا کیس شروع یہودی کو بلایا گیا اور یہودی اور مرغی فروش کی ساری داستان سنے کے بعد کہا کہ میں مرغی فروش کو حکم دیتا ہوں کی یہودی کی دوسری آنکھ بھی پھوڑا جائے۔ یہ سن کر یہودی رونے لگا جناب یہ کیساانصاف ہے میں پہلے سے ہی ایک آنکھ سے محروم ہوچکا ہوں آپ دوسری آنکھ سے بھی مجھے محروم کرنا چاہتے ہیں؟ قاضی نے کہا آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تم یہودی ہو اور یہ مسلمان، کافر مسلمان پر آدھا دیا لے سکتا ہے اب ایک آنکھ کا آدھا تو ہو نہیں سکتا لہذا تمھاری دنوں آنکھ جب خراب ہوگی تو تم اس کے ایک آنکھ کو پھوڑ سکتے ہو قاضی کا جواب سن کر یہودی چکرانے لگا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا جناب میں نے اس کو معاف کر دیا اس کا ہاتھ غلطی سے لگا تھا۔۔ آخر میں جوان لڑکا کھڑا ہوا اور اپنے باپ کی مرغی فروش کے ہاتھوں موت کا واقع سنا ڈالا۔ واقعہ سنے کے بعد قاضی نے کہا میں جائے واقع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں ، اس کے بعد قاضی تمام لوگوں کے ساتھ مسجد کے مینار کے پاس پہنچ گئے اور لڑکے نے کہا جناب میرا باپ اس مقام پر کھڑا تھا کہ یہ مر غی فروش اوپر سے کودا اور سیدھا میرے باپ پر جا لگا اور میرا باپ مر گیا ۔ قاضی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد مرغی فروش سے کہا تم یہاں کھڑے ہوجاو اور لڑکے سے کہا تم اپنے باپ کے قتل کا بدلا لو ، تم مینار پر چڑھ جاو اور سیدھا اس مرغی فروش کے اوپر کود جانا، لڑکے نے جب یہ فیصلہ سنا تو دنگ رہ گیا اور کہنے لگا قاضی صاحب اگر یہ اپنی جگہ سے دائیں بائیں ہوا تو میں تو مر جاؤں گا؟ قاضی نے کہا یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تمھارے باپ بھی تو اس کو دیکھ رہا تھا وہ دائیں بائیں کیوں نہیں ہوا؟لڑکے کو اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی اور روتے ہوئے کہنے لگا جناب میں اپنے باپ کے خون کو معاف کرنا چاہتا ہوں آپ مہربانی کر کے اس کیس کو خارج کر دیجئے۔۔ خلاصہ یہ کہ" اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ہو تو پھر قاضی ہر کیس کا فیصلہ آپ کے حق میں دے سکتا ہے"۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن، آیان علی ، ڈاکٹر عاصم کا کیس ہو یا پاناما پیپرز کا ہماری عدالت کے اعلی ججزز اور اعلی بیجزنے کبھی کوئی اچھا اور حق کا فیصلہ نہیں دیا۔ ہمیشہ یا تو مرغی کی ٹانگ منہ میں دبا کر فیصلہ سنایا ہے یا ڈنڈا دیکھ کر۔کسی بھی معاشرے کی امن امان و خوشحالی اور ترقی کا اسی فیصد آزاد خودمختار اور عادل عدلیہ پر انحصار کرتی ہے۔ اگر عدلیہ آزاد اور مضبوط بلکہ عادل ہوں تو پھر اس معاشرے کی ترقی میں دیر نہیں لگتی، ایک چور بار بار چوری اسی لئے کرتا ہے کہ اُس کو چوری اور فائدہ کا نشہ چڑ گیا ہے لیکن اُس کو دو دفعہ چوری کی سزا مل جائے تو پھر وہ دوبارہ چوری کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچے گا کہ کہیں پھر عدالت سے کوئی سخت سزا نہ مل جائے، کوئی ظلم کرے تو مظلوموں اور غریبوں کی دلوں میں آخری امید عدلیہ پر ہوتی ہے کہ کہی سے ملے یا نہ ملے عدالت سے تو حق کا فیصلہ ہی آئے گا اور اگر ایک ظالم جابر ڈاکو کو سزا مل جائے تو پھر کسان مزدور غریب اور مظلوموںؤ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اس طرح معاشرے میں اچھائی ٰکی ابتدا اور برائی کی تنزلی شروع ہوتی ہے جس کا براہ راست فائدہ عوام اور ملک کو پہنچتا ہے اور وہ علاقے یا ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ہمارے ملک سے عوام اور رعایا ، امیر اور غریب کا بڑھتا فاصلہ اگر کم کرنا ہے تو عدلیہ کو ٹھیک کرنا ہوگا، ملک سے بیروز گاری، کرپشن، بد امنی ، فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اصول اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا اور عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں کیسوں کی فائلوں کو تاریخ پہ تاریخ ، رشوت، مرغی اور سفارش کے بغیر حق پر فیصلہ کرنا ہوگا۔ جس دن عدلیہ نے حق گوئی اور پوری دیانت داری سے کام شروع کر دیا تو پھر اس ملک کو خوشحالی ترقی اور امن کی فضا قائم کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
تحریر۔۔۔۔۔ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) زندگی ہرجاندار کو پیاری ہے، انسان تو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کی زندگی کے تحفظ کے لئے بھی پریشان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسان جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے کانفرنسیں کرتا ہے اور آبی حیات کے تحفظ کے لئے منصوبے بناتا ہے، اسی طرح عالمی برادری کسی قوم کو دوسری قوم پر شبخون مارنے اور جارحیت کرنے کی اجازت نہیں دیتی، بین الاقوامی برادری ، جنگی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین وضع کرتی ہے اور سزائے موت کے حقدار افراد کے لئے بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے ، جبکہ دوسرا رخ یہ ہےکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کانفرنسیں کرنے والے وزیر اور مشیر ہی جنگلی جانوروں کے شوقین نظر آتے ہیں اور حکمران اپنے شوق پورے کرنے کے لئے جنگلی حیات کے قوانین سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم ماضی کی باتیں نہیں کرتے ، ابھی دسمبر ۲۰۱۶ کی بات ہے کہ جب میڈیا کے مطابق کھپرو میں 50کلو میٹر دور اچھڑو تھر کے علاقے رانا ہوٹرمیں متحدہ عرب امارات کے شہزادے شیخ سلطان بن خالد النیہان، شیخ سلطان بن محمد النیہان، شیخ احمد بن سلیم اور شیخ حمدان بن محمد النیہان ذاتی عملے کے ہمراہ تلور کا شکار کرنے رینجرز اور پولیس کے سخت سیکیورٹی میں 20سے زائد خیموں کے شہر میں پہنچ گئے، علاقے میں ایک کلو میٹر سے زائد رقبے پر خیموں کا شہر آباد کرکے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ۔[1] یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے افراد بلوچستان میں نایاب پرندے تلور کے شکار کی غرض سے دالبندین کے ایئر پورٹ پہنچے،جہاں صوبائی وزراء اور سینیئر سرکاری افسران نے ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے کہ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندے تلور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014ء میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔[2] ایک نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے تلور کا فقط شکار نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ جن مقاصد کے لیے تلور کھاتے ہیں بعد میں ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کچھ اور کام بھی کرتے ہیں.میں جو غیرت اور عزت کی بات کی ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں کھلے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ حامد میر کے الفاظ ہیں کہ قطری شہزادوں کے پاکستانی میزبان صرف ان کے لیے تلور کے شکار کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور غیرت کے شکار کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔[3]
یہاں قانون سے کھیلنے والے طالبان یا داعش نہیں تھے بلکہ ہمارے حکمران تھے، اسی طرح طالبان یا داعش کی دہشت گردی کو چھوڑیے اور اپنے تعلیم یافتہ اور روشن فکر کہلانے والوں کی دہشت گردی کی فکر کیجئے، لاہور میں کتنے ہی عرصے تک ڈاکٹر حضرات لوگوں کو زبردستی جعلی سٹنٹ ڈالتے رہے ہیں، یہ دکھ اپنی جگہ ابھی باقی ہے کہ یہ بھی انکشاف ہو گیا ہے کہ لاہور میں ڈاکٹر حضرات نے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے گردے بھی نکال کر بیچنے شروع کر دئیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ۳۰ اپریل ۲۰۱۷ کو ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو اس وقت دو شہریوں کے گردے نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالے جا رہے تھے ۔جن دو شہریوں کی گردے نکالے گئے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالا ۔[4]یہ ہیں ہماری یونیورسٹیاں اور ان سے پڑھ کر نکلنے والے مسیحا۔
اس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کرنے کا اصلی سہرا انہی روشن فکر لوگوں کے سر جاتا ہے جو اپنے مفادات کے لئے دینی مدارس کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس کے بعد شبخون مارنے اور جارحیت کے حوالے سے آج ہم فلسطین اور کشمیر کی بات نہیں کریں گے بلکہ اپنے ہاں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کی ویڈیو ہی دیکھ لیجئے ، اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو مہذب کہنے اور سمجھنے والے دوسروں کے خلاف کس طرح طاقت کا ستعمال کرتے ہیں، اب تک کی اطلاعات کے مطابق مشال خان قتل کیس میں پولیس نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے لیکن اس سے پہلے با اثر لوگوں اور ان کے بچوں اور عزیزوں کے نام کیس سے خارج ہو چکے ہیں۔مشال خان کیس میں اب زیادہ تر کرائے کے قاتل ہی رہ گئے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ا داروں میں صرف صرف مشال خان جیسے لوگ ہی نہیں مارے جاتے بلکہ یہ فروری ۲۰۱۷ کی بات ہے کہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے 14 سالہ طالب علم محمد احمد کو استاد نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ مکمل ذہنی صلاحیت سے محروم ہوگیا ۔یہ کسی عام ادارے کی بات نہیں بلکہ ایک کیڈٹ کالج کی روداد ہے۔
بات کیڈٹ کالج کی ہوئی ہے تو کچھ ذکر سولجر بورڈ کا بھی کر لیتے ہیں، اس ادارے کا ایک اہم کام ریٹائرڈ فوجی حضرات کے بچوں کو سکالر شپ دینا بھی ہے۔ریٹائرڈ ہونے والےچھوٹی سطح کے فوجی حضرات کے بچوں کے نصیب میں سکالرشپ فارم آتے ہی نہیں۔ انہیں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی فارم ختم ہوگئے ہیں اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب تو تاریخ ختم ہو گئی ہے۔خصوصا آزاد کشمیر میں تو کسی بڑے افیسر کی سفارش کے بغیر کسی عام فوجی کے بچے کا سکالرشپ لگ ہی نہیں سکتا۔
اب جہاں تک انسانی حقوق کی پاسداری کی بات رہ گئی ہے تو تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کو ہی اپنے سامنے رکھ لیں۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں کوئی نئی بات نہیں بتائی ،موصوف نے وہی کچھ کہا ہے کہ جو سب کو پتہ ہے، ویسے بھی اس کے پاس ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے سیکورٹی اداروں کو پتہ نہیں۔۔۔
احسان اللہ احسان جیسے لوگ تو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں ۔ اصل میں تو وہ لوگ حقیقی دہشت گرد ہیں جودہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کے لئے اسمبلیوں اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اس وقت ہماری حکومت، احسان اللہ احسان کو خواہ مخواہ ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے دہشت گردوں کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے زور لگا رہی ہے۔
یہ خود ہمیں سوچنا چاہیے کہ دہشت گردوں نے آخر پاکستانیوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ احسان اللہ احسان کو سزائے موت یا فلاں سزا دی جائے بلکہ میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چا رہاہوں کہ جو کچھ ہماری سادگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
راقم الحروف کے مطابق احسان اللہ احسان جیسے لوگوں کا جرم فقط دہشت گردی نہیں ہے بلکہ توہینِ اسلام اور توہین رسالت ان کا اصلی جرم ہے ، انہوں نے مساجد میں نمازیوں کو شہید کر کے اور بے گناہ لوگوں کو دھماکوں میں اڑا کر دنیا میں اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر مسخ کر کے شانِ رسالت میں عظیم گستاخی کی ہے۔ حقیقی معنوں میں توہین رسالت تو یہ ہے جو احسان اللہ خان اور ان کے ہمنوا کرتے چلے آرہے ہیں۔
جس طرح یہاں لاکھوں روپے کے نادہندگان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں اور توہینِ رسالت و توہین اسلام کرنے والوں کے لئے بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں اور کرپشن کرنے والوں کے سہولت کار سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر بڑے آرام سے اپنا کام انجام دے دے رہے ہیں۔
اب دوسری طرف ہمارے ہاں پائے جانے والے دینی شعور کا اندازہ بھی لگائیے! بڑی بڑی مساجد اور دینی مدارس سے مزیّن، ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور دینی شعور کا یہ عالم ہے کہ ایک فرقے یا مسلک کا آدمی اب دوسرے فرقے یا مسلک کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔
عید فطر کے موقع پر صدقہ و خیرات کے ریکارڈ قائم کرنے والے ملک میں اور عید قربان کے ایام میں دل کھول کر قربانیاں دینے والے دیس میں، صرف چند روز پہلے طارق نامی شخص، حالات سے تنگ آکر اپنے پانچ بچوں سمیت زہر کھا کر خود کشی کر لیتا ہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں 4 بچیاں اور 1 بچہ شامل ہے جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔
طارق کی بیوی صائمہ ایک سال قبل خلا لے کر اپنے میکے چلی گئی تھی اور اس نے دوسری شادی کر لی تھی،طارق خود اپنے بچوں کی کفالت کرتا تھا اور بچوں کی وجہ سے فکر مند رہتا تھا۔ طارق کی اہلیہ نے ایک سال قبل اس سے خلع لی تھی جس کی وجہ سے گھر میں ناچاقی تھی، دوسری جانب محمد طارق کا اپنے بھائی اور بھابھیوں سے بھی جھگڑا رہتا تھا جبکہ اس کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے۔
ہر مہینے میں ہمارے معاشرے میں کئی طارق خودکشیاں کرتے ہیں، یہ خود کشیاں دینی مدارس و مساجد اور یونیورسٹیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ ان خود کشیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے خواہ مدارس ہوں یا یونیورسٹیاں، عوام میں محبت، اخوت، بھائی چارہ ، صلہ رحمی ، برداشت اور صبر و تحمل پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
بدقسمتی سے بعض تعلیمی اداروں نے لوگوں کو اچھا انسان اور مسلمان بننے کے بجائے ، اسلحے سے مسلح کیا ،عدمِ برداشت سکھائی اور پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔
جس معاشرے میں لوگوں کے ساتھ ہر طرف فراڈ ہو رہا ہو، پارٹیوں کے انتخابی منشور فقط الفاظ تک محدود ہوں، میرٹ کے بجائے رشوت سے نوکریاں ملتی ہوں اور دھونس دھاندلی سے کام چلتا ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہو، حکمران خود قانون سے کھیلتے ہوں! پانامہ کیس کی طرح ، عدالتیں بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے سنانے میں احتیاط سے کام لیتی ہوں، معصوم بچوں کو کرائے کے قاتلوں میں تبدیل کیا جاتا ہو اور دہشت گردوں کو پروٹوکول ملتا ہو، سفارش کے بغیر کسی کو سکالر شپ تک نہ ملتا ہو، جہاں لوگوں کے بچے دینی مدارس میں دینی تعلیم و تربیت کے لئے جائیں لیکن انہیں خودکش بمبار اور دہشت گرد بنا دیا جائے اور اگر یونیورسٹیوں میں جائیں تو ان کی یونیورسٹیوں کا اسٹاف ہی کرائے کے قاتلوں سے انہیں قتل کروا دے، ، جہاں کیڈٹ کالجوں میں بھی بچوں پر وحشیانہ تشدد کیا جائے اور تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو۔۔۔
اس ملک میں تو والدین خود کشی سے پہلے ہی مر جایا کرتے ہیں ، خود کشی تو صرف ان کی بے بسی کا اعلان کیا کرتی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے ،جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کودنیا والوں کو سمجھا دیا۔وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند عباس ہے ۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے ،عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کر ینگے۔
عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی۔چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں جن کی کنیت ام البنین ہے۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھےایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا {کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے } اور کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھاجس کے آباؤواجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پاگئی۔ جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعدآپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر تشریف لائی اور بچوں کی دیکھ بال اور ان کی خدمت شروع کی۔جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔
اللہ نے آپ کوچار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان اور یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہو گئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام پر قربان ہونے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کو اس طرح توصیف کرتے ہیں:{رَحِمَ اللَہُ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہُ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ يَداہُ فاَبْدَلَہُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ مِنہُما جِناحَيْن يَطيرُ بِہِما مَعَ الْمَلائِکَۃِ فی الْجَنَّۃِ کَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی طالِبْ عليہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہِ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃٌ يَغبِطَہُ بہا جَميعَ الشُّہدَاءِ يَوْمَ القِيامَۃِ}
خدا میرے چچا عباس کو رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پر دیے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔
امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں:{کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَۃِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاہَدَ مَعَ أَبی عَبْدِاللَّہِ عليہ السلام وَأَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَہيدا}ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھے مستحکم ایمان کے مالک تھے ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخر کار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔
جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتی۔صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہیں۔
آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے ۔بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔
حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بہادر فرزند کی تمنا تھی جو اپنے بعد اسلام کی حفاظت کر سکے اور حسین بن علی علیہ السلام کے لئے مددگار بنے۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ہوئی،حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بہادر قبیلے کی بہادرخاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ام البنین سیرت و کردار میں نہایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی ۔
عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ہونے کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔
معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اورنقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ہاشم شیر خدا کا فرزندتھا۔
قمر بنی ہاشم ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ بلایا اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔
حضرت عباس علیہ السلام عرب کے عظیم بہادروں میں شمار ہوتے تھے کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک مقام پر جب اسلام کوخطرے میں دیکھا،نانا محمد[ص] کے دین کو سرے سے نابود ہوتے دیکھا، تو عباس سے برداشت نہ ہوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں اس لئے عباس[ع] نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلندکیا وہی علم جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا.
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا
تعداد میں بہتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل تھےعباس علمدار لیکن یہی بہترافراد یزیدی افواج سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔حضرت عباس[ع] نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی ۔یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کر کے راہ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی تا کہ قمر بنی ہاشم حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیں اور وہ اکیلے میدان میں رہ جائیں لیکن قمر بن ہاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا
حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدارعلیہ السلام کو دو جہت سے باب الحوائج کہا جاتا ہے ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اہل بیت اطہار کی ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا تھا اور ہر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے جہاں سے ہزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ہوئے ہیں اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کہا جاتا ہے۔
سلام ہو اس عظیم غازی پر ،حسین[ع] کے علمدار پر،سقائے سکینہ پر ،جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ہاتھوں سیراب ہونے کے لئے اسلام پر قربان ہوئے ۔عباس علمدا رنہ صرف حسینی فوج کےعلمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں ۔یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھے کہ کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ہوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے ارض و سماء والے سخی عباس کہتے ہیں
عباس علیہ السلام جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کر کے آئےتھے اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پہنچ جائے اور حسین علیہ السلام کی معصوم بچیاں سیراب ہوں ،اس لئے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی لیکن عباس علیہ السلام نےامام وقت کی دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّہِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينی
إنّی أُحامِی أبَداً عَنْ دينی
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبیِّ الْطَّاہِرالا مين
خدا کی قسم اگر میرا دائیں ہاتھ قلم کیا جائے تب بھی میں دین کا دفاع کرتا رہوں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔پیکر وفا نے اپنے دونوں ہاتھ اوراپنی قیمتی جان اسلام اور وقت کے امام پرقربان کیا ۔
جنہیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ہی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے
امام جعفرصادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّہَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للہِ وَلِرَسُولِہِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّی اللہ عَلَيْہِمْ وَسَلَّمَ ۔سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام، کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"السلام علی ابی الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاہ بنفسہ، الآخذ لغدہ من أمسہ، الفادي لہ، الواقي الساعي إليہ بمائہ المقطوعۃ يداہ ۔ سلام ہو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کردی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت
کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) ۴ ہجری میں شعبان المبارک کی تین تاریخ کو مدینۃ النبیﷺ میں تاریخ بشریّت کے ایک ایسے بچے نے جنم لیا، جس نے مفکرین کے افکار اور دنیا کی اقدار کو بدل دیا، اس نے فتح و شکست، اور بہادری و بزدلی کے پیمانے تبدیل کر دئیے۔اس نے مقتول کو قاتل پر،مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ نومولود اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کا نواسہ تھا لیکن اس کی فضیلت فقط اسی پر ختم نہیں ہوتی، یہ مولود کعبہ کا لخت جگر تھا، خاتونِ قیامت کے دل کا ٹکڑا تھا، حسنِ مجتبی ٰ ؑ کا بھائی تھا لیکن نہیں نہیں پھر بھی اس کی فضیلت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت رسولِ خدا ﷺ نے خود دی، بعض روایات کے مطابق ولادت کے ساتویں روز حضرت جبرائیل ؑ نے حضور اکرمﷺ سے فرمایا کہ اس بچے کا نام حضرت ہارونؑ کے چھوٹے بیٹے شبیر کے نام پر رکھیں جسے عربی میں حسین کہا جاتا ہے، [1] سات سال تک یہ بچہ رحمۃ للعالمین ﷺ کے سائے میں پروان چڑھا، سائے میں نہیں بلکہ سینے پر پروان چڑھا، ان سات سالوں میں رسول اعظم ﷺ بار بار یہ اعلان کرتے رہے، میں حسینؑ سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔
ہمارے رسول کی آغوشِ تربیت کا کمال دیکھئے کہ جو بھی اس آغوش میں پروان چڑھا وہ دنیا میں بے نظیر و بے مثال بن گیا، اگر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو پروان چڑھا یا تووہ کل ایمان ٹھہرے، اگر سیّدہ فاطمہ کو پروان چڑھا یا تو وہ سیّدۃ النسا العالمین ؑ قرار ، پائیں اگر امام حسن مجتبیؑ کو پروان چڑھا یا تو سیرت و کردار میں شبیہ پیغمبر بنے اور اگر حسین ابن علی کو اپنی آغوش میں لیا تو جنت کے سردار بنے۔
ان مذکورہ شخصیات میں سے ہر شخصیت نے عالم بشریت کی ہدایت کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔
تعلیمات اسلام کی روشنی میں اور سیرت نبوی کے آئینے میں یہ سب رسول گرامی ﷺ کی تربیت کا نتیجہ ہی ہے کہ ان ہستیوں کی مادی زندگی اور معنوی زندگی میں کوئی فرق نہیں، بلکہ ان کی مادی زندگی ہی عین معنوی زندگی ہے، ان کی سیاست ہی عین دین ہے ، ان کی زندگی کے آداب، قرآن مجید کی آیات کی عملی تفسیر ہیں اور ان کے فرمودات ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ہی تسلسل ہیں۔
دنیا میں اگر آج تک ان کے فضائل کا ڈنکا بج رہاہے تو یہ در اصل رسولِ اسلام کی فضیلت کا ڈنکا ہے چونکہ ان کی تعلیمات عین تعلیمات رسالت ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں ان کے فضائل کو بیان کیا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، ان کا دشمن میرا دشمن ہے اور ان کا دوست میرا دوست ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے کئی مرتبہ ان کے دشمنوں پر لعنت اور بیزاری کا اظہار کیا ہے۔
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول گرامی ﷺ کی ان ہستیوں سے محبت ، محض جذباتی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ یہ ہستیاں اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے اس قابل تھیں کہ ان سے رسولِ دوعالم اسی طرح والہانہ محبت کرتے۔
کفر کی ظلمت میں رسولِ اسلام ﷺ نے توحید کے جس نور کی شمع جلائی تھی اسے رسولﷺ کے بعد انہی ہستیوں نے اپنے عمل و کردار سے فروزاں رکھا ۔ ۶۱ ھجری میں جب ان ہستیوں میں سے اس دنیا میں فقط حسین ابن علی ؑ باقی رہ گئے تو رسول اکرم ﷺ کی تریبت کا تقاضا یہی تھا کہ حسین ابن علی ؑ ، سیرت رسولﷺ اور پیغام رسالتؑ کے اجرا کے لئے ، اپنی ماں، باپ اور بھائی کی طرح میدان عمل میں کھڑے رہیں۔
چنانچہ ۶۱ ھجری میں جب یزید کے سامنے پورا عالمِ اسلام سرنگوں ہو گیا تھا ،اس وقت فقط حسین ابن علیؑ شہکار ِ رسالت کے طور پر ابھرے۔ جس طرح رسولِ خدا نے زمانہ جاہلیت کے معیاروں کو بدلا تھا اسی طرح حسین ابن علی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے جہالت و نادانی کے خلاف قیام کیا۔ جس طرح عرب سرداروں اور دنیا کے بادشاہوں کے منصوبوں کو نبی اکرمﷺ نے خاک میں ملایا تھا اسی طرح حسین ابن علیؑ نے بھی سرداروں اور بادشاہوں کے منصوبے ناکام کر دئیے۔ یعنی حسین ابن علی ؑ کے پیکر میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تربیت اپنے کرشمے دکھا رہی تھی۔
حکام وقت کے منصوبے کے مطابق، معرکہ کربلا کو وہیں کربلا کے صحرا میں دفن ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ، سیرت النبیﷺ کے واقعات کی طرح دفن ہونے کے بجائے ہروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہےلیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبےکو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین عالی مقام کو سربلند بنادیا۔
ہمارے سامنے تاریخ بشریت، دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہےمگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّرنے اپنے علم ودانش سے امام حسینؑ جیسا کام نہیں لیا ۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسین عالی مقام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین عالی مقام کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیاامامؑ عالی مقام نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامےمیں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟
کیا امام حسین نےمکّے میں روز عرفہ کو یہ نہں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہاہوں؟ اسی وصیت نامے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میری سیرت میرے جد محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔
اگر امامؑ کاقیام حکومت کےلیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگرامامؑ کی کوشش فقط حکومت کےلیے تھی توجب آپؑ کوسامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی سازوسامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسین عالی مقام کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہےکہ یہ دوشہزادوں یادوخاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی,چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی تواس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔چونکہ جس شخص کوذراسی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذاحضرت امام حسین سے بغض اور لڑائی کسی شہزادےیا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ رسولِ خدا ﷺ کی سیرت و کردار کے ساتھ جنگ ہے۔
کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین عالی مقام نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو سیرت النبیﷺ کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام عالی مقام نے تیار کیا ہے۔آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو اپنے جد رسولِ خداﷺ کی طرح ، حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ امام عالی مقام کا خدا کی ذات اور رسولِ اسلام ﷺ سے عشق اور لگاو تھا، اور اسی عشق نےاس تحریک کو جاویداں بنا دیا ہے۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ سیرت النبیﷺ سےگریز ہے۔
اپنی زندگیوں میں سیرت النبیﷺ کے عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں،دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے سے، اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسینؑ کی طرح اپنے پیغمبرﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتی اور ،ہم آج بھی عددی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود فاتح بن سکتے ہیں۔
حضرت امام حسین مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ آپ اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مانند پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہیں، آپ کی عظیم شخصیت شہکار رسالت ہے لہذا شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کو زندگی کے تمام پہلووں میں آپ ؑ کی ذات کا طواف کرتے رہنا چاہیے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.