وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت عرب ریاستوں میں سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔یہ جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔اس کا یہ  رقبہ  صحرا و نیم صحراہے اوریہاں کوئی بھی دریا ایسا نہیں جو پورا سال بہتا  ہوا،اسی طرح  یہاں بارشیں بھی بہت کم ہوتی ہیں لہذا  صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے ۔

80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب میں  روزگار کے سلسلے میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن یہاں  مقیم ہیں۔

سعودی عرب میں سب سے زیادہ فٹ بال  کو پسند کیا جاتا ہے  ۔ ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني  سعودی عرب میں فٹبال  کے معروف     کھلاڑی ہیں۔سعودی عرب میں مقبول ترین رقص ارضیٰ ہے  جو قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے ، سعودی عرب میں اس رقص کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ  کی ریاض  آمد کے موقع پر شاہ سلمان نے ضعیف العمری کے باوجود اسی رقص کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا تھا۔

نئی نسل کو گمراہی اور فحاشی سے بچانے کے لئے سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم بعض علاقوں میں ایسے مراکز موجود ہیں جہاں  فلموں اور ڈراموں کے بجائے موسیقی اور  کچھ دیگر فنون پیش کئے جاتے ہیں البتہ امریکی فلموں کی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز  کی خریدو فروخت  کی قانونی اجازت ہے اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔

سعودی عرب کے  بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر ہمیشہ  پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولادہی  حکمرانی کرے گی لہذا ملک میں کسی سیاسی جماعت کے قیام  کا کوئی تصور نہیں۔ انتظامی لحاظ سے یہ ملک تیرہ صوبوں میں تقسیم ہے۔

۱۷۵۰ عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار  محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے ایک  نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے  عقائد و  افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک  نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔

استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ  معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔

ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے ان پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔

اس سے پہلے۱۹۳۰ میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے  John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدلیا۔ [1]

یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔

اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔

اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے  تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کو  مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔  حرمین شریفین کی وجہ سے  جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ   آج سے تقریباً ٨٠ سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں ۸ شوال کو  مدینہ منورہ  اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

ان میں سے  اس وقت صرف حضور نبی اکرمﷺ کا گنبد ہی رہ گیا ہے۔ اسلامی آثار منہدم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب کی ساکھ کو دھچکا لگا اور ہر سال آٹھ شول کو مسلمان یوم احتجاج اور یوم سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔

سعودی عرب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے گھروں اور مزارات کو مٹانے سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ جبکہ سعودی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان آثار کو باقی رکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔

اسی طرح طالبان ، القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی تشکیل سے فائدہ تو امریکہ کو ہوا لیکن اس طرح کے اقدامات سے سعودی عرب کی مقبولیت پرشدید  منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ  سعودی حکومت کی طرف سے ہندوستانی وزیراعظم مودی کو سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ کا دیا جانا ،مسئلہ کشمیر پرسعودی عرب کا  بھارتی پالیسی کے مطابق پاکستان پر دباو ڈالنا، پاکستان میں دہشت گردوں  کا  پاک فوج کو ناپاک فوج  کہنا ،پاکستانی فوجیوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنا، قائداعظم کی ریذیڈنسی کو شرک کا مرکز کہہ کر تباہ کرنا، دیگرفرقوں اور مسالک کے مراکز اور پبلک مقامات کو نشانہ بنانا، اسی طرح فوج و پولیس کے ٹھکانوں نیز پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ  کرنا اور پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی اور عوام کو واجب القتل کہنا اس سے  پاکستان کے اندر بھی عوام میں سعودی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

اسی طرح قطر کے ساتھ قطع روابط اور حماس و الاخوان کو دہشت گرد قرار دینے نیز اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ نے بھی  سعودی عوام اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی  بہت سارے سوالات  اور شکوک و شبہات  پیدا کر دئیے ہیں۔

امریکی اداروں نے   سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ باور کروایا ہو ہے کہ ان پالیسیوں سے  ان کا ملک ترقی کر رہا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق  یہ پالیسیاں سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ شہنشاہ ایران کی طرح  جس نے بھی امریکہ سے دوستی کی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد شروع کیا اس کا انجام بہت برا ہوا۔

دنیا میں امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی  دشمنی کے بجائے اس کی دوستی نقصان دیتی ہے۔ چونکہ امریکی دوستی ایک ایسے بھنور کی مانند ہے جس  کا ظاہری حسن ،ملاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کی  اندرونی گردش  کشتی کو ڈبو دیتی ہے۔

 ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم امریکہ کے شر سے تمام دنیا باالخصوص عالم اسلام کو نجات دے ۔ آمین


تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)  انڈیا کے جاسوس نے اعتراف کیا کہ ہم پاکستان میں مسلکی بنیاد پر تقسیم کے ایجنڈنے پر کام کر رہے ہیں اور پاکستان کا بیرونی دشمن پاکستان پہنچنے کے لئے کس سرحد کو استعمال کیا اس پر بہت شور مچایا گیا اور ایک خاص سوچ کے اھداف کی تکمیل کے لئے منطقی وغیر منطقی تانے بانے بہت ملائے  گئے،کوئی بھی دشمن ہو وہ اپنے ہدف تک رسائی کے لئے سارے راستے استعمال کرتا ہے اور ہر حربہ و راستہ  اور چاروں اطراف اور فضائی وسمندری سب راستے استعمال کر سکتا ہے ،وہ ہمسایہ ممالک کے علاوہ دیگر سب قریب اور دور ایئر روٹس استعمال کر سکتا ہے،  ہمارے زمہ دار اداروں کو دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بیدار اور باخبر کی ضرورت ہے اور یقینا حتی الامکان کوشش کر رہے ہونگے،ان بیرونی روٹس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ہم ان عناصر اور دشمن کے الہ کاروں اور تنخواہ داروں کو پہچانیں جو اس کے ناپاک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہچاتے ہیں یا پہچانے کے زمہ دار اور سہولتکار ہیں.

دشمن کا ہدف:

"دشمن نے بتا دیا کہ ہمارا ہدف مذہبی اور مسلکی بنیاد پر انتشار پھیلانا اور اختلافات پیدا کرنا ہے. تاکہ پاکستان کو کمزور کر سکیں."

دشمن کے الہ کاروں کہ پہچان:

"ہر وہ فرد یا افراد کا مجموعہ یا گروہ اور پارٹی جو ملک میں عملی طور پر مذہبی ومسلکی تفرقہ ایجاد کرے اور انتشار پھیلائے یا انتشار پھیلانے میں مدد کرے."

ملک شہریوں میں مسلکی اختلافات وانتشار پھیلانے کا زمہ دار کون؟

23 جون 2017 کو جمعۃ الوداع کے دن یکے بعد دیگرے دو دھماکے پار چنار شہر میں ہوئے اور جس کے نتیجے میں سیکڑوں پاکستانیوں کے گھر اجڑ گئے. اس کے بعد عوام نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا. احتجاج کرنے والے نہتے شہریوں پر ایف سی عناصر نے گولی چلا دی. اور کئی ایک گھروں کے چراغ گل کر دیے. اور ستم بالائے ستم کہ ان احتجاج کرنے اور دھرنے دینے والے ان مقتولوں کے ورثاء اور ان سے اظہار ہمدردی و یکجہتی کرنے والوں پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک میں مذہبی اور مسلکی انتشار پھیلایا.

لیکن آئیں فیصلہ کریں کہ شہریوں میں انتشار پھیلانے کا زمہ دار کون ؟

1- اگر یہ سانحہ رونما نہ ہوتا تو یہ انتشار  نہ ہوتا . تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسں گروہ اور مجموعہ نے انتشار پھیلانے میں دشمن کی ھ مدد کی.آیا دھماکے کرنے والوں نے یا قتل وغارت پر احتجاج کرنے والوں نے؟
2- دشمن کے رابطے میں کون ہے دھماکے کرنے والا یا عام شہری دھماکوں کا شکار بننے والا ؟
3- انتشار پھیلانے میں دھماکے کرنے والوں کی مذمت اور حوصلہ شکنی کرنا دشمن کی خدمت ہے یا دھماکے کرنے والوں کی وکالت اور حوصلہ افزائی دشمن کی خدمت ہے.؟
4- دھماکے کرنے والوں کے سہولتکار تلاش کرنا اور انکی نشان دھی کرنا دشمن کی خدمت ہے. یا انہیں بے نقاب کرنا اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کیلئے کوشش کرنا دشمن کی خدمت ہے.
5- ایک وقت میں دو سانحے ملک کے مختلف دو مقامات پر ہوتے ہیں کیا دونوں سانحات کے متاثرین کی دلجوئی اور مدد انتشار کا سبب بنتی ہے یا ایک سانحه کے متاثرین کی مدد اور دلجوئی اور دوسرے سانے پر مکمل خاموشی اور انکی دلجوئی اور مدد نہ کرنا انتشار کا سبب بنتی ہے.
6- کیا دونوں سانحوں کے متاثرین کے پاس جانا انتشار کا سبب بنتا ہے یا ایک سانحے کے متاثرین کے پاس جانا اور دوسرے سانحے کے متاثرین کے پاس نہ جانا انتشار کا سبب بنتا ہے.
7- کیا دونوں سانحوں کے متاثرین کی یکسان مالی مدد انتشار کا سبب بنتی ہے یا ایک سانحے کے متاثرین کو دو برابر اور دوسرے سانحے کے متاثرین آدھی مدد کرنا شہریوں میں انتشار کا سبب بنتی ہے.
8- دونوں سانحات کی برابر میڈیا کوریج شہریوں میں انتشار پھیلاتی ہے یا ایک سانحہ کی کوریج کرنا اور دوسرے کی کوریج پر پابندی لگانا عام شہریوں میں انتشار پھیلانا ہے.
محترم قارئین آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ دشمن کا آلہ کار کون ہے؟ اور ملک کی عوام کو تقسیم کس نے کیا. ؟ اور انتشار کس نے پھیلایا.؟

تحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہاں ہم جذباتی قوم ہیں ہاں ہم جذباتی ہیں حرمت رسول ص کے بارے میں ہاں ہم جذباتی ہیں  عزادری سید الشہداء سے متعلق ہاں ہم جذباتی ہیں اپنے ارض پاک کے بارے میں ہاں ہم جذباتی ہیں اپنی پاک فوج کے بارے میں. ہاں ہم ہیں جذباتی کیوں کہ ہمیں اپنی مٹی سے پیار ہے ہمیں پاکستان سے عشق ہے اور اس وطن کے غیور بہادر سپوتوں اس وطن کے محافظوں سے جنون کی حد تک محبت ہے،ہاں ہم جذباتی قوم ہیں کیونکہ ہم اپنے وطن کیخلاف اور اپنے قومی  سلامتی کے ضامن اداروں کیخلاف کسی کی بکواس سننے کو قطعی طور پرتیار نہیں. ہاں ہم ہیں جذباتی کیوں کہ ہمیں اپنے نیشنل انٹرسٹ سے بڑھ کر اور کچھ عزیز نہیں،ہاں ہم جذباتی قوم ہیں مگر پاراچنار میں دہشتگردی کے واقعہ کے بعد ساوتھ افریقہ لندن بھارت اور ملک کے اندر موجود چند ضمیر فروشوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور انکے مذموم مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں،ہاں ہم جذباتی قوم ہیں مگر فورتھ جنریشن وار فیئر سے بخوبی آگاہ ہیں۔

ہاں ہم جانتے ہیں کہ امریکی اسرائیلی اور بھارتی خفیہ مشترکہ اتحاد پاکستان کے خلاف ایک ایسی جنگی حکمت عملی ترتیب دے چکا ہےجس کے تحت افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر لے کر جانا ھے اور پاکستان میں پاک آرمی کے خلاف  محاذ بنانا ھے ۔ درحقیقت یہی وہ ڈاکٹرائن ہے جس کے تحت اس وقت پاکستان کی کم از کم دو لاکھ فوج حالت جنگ میں ھے اور اب تک ھمارے  20 ہزار سے زائد فوجی جوان اس مٹی کا قرض چکانے اور پاکستان کی سالمیت کے لیئے ہمیں پرامن ماحول فراہم کرنے کے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جو پاکستان کی انڈیا کے ساتھ لڑی جانی والی تینوں جنگوں میں شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔

اس جنگ کے لئے امریکہ اور انڈیا کا آپس میں آپریشنل اتحاد ھے اور اسرائیل کی تیکنیکی مدد حاصل ھے۔ حال میں پاراچنار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کی وارداتیں کروائی گئیں جبکہ ماضی میں کرم ایجنسی اور ہنگو میں شیعہ سنی فسادات کروائے گئے وادی سوات میں نفاذ شریعت کے نام پر ایسے گروہ کو مسلط کیا گیا جنہوں نے وہاں عوام پر مظالم ڈھائے اور فساد برپا کیا جس کے لئے مجبوراً پاک فوج کو پہلی بار انکے خلاف ان وادیوں میں داخل ہونا پڑا ۔ پاک فوج نے عملی طور پر انکو پیچھے دھکیل دیا لیکن نظریاتی طور پر ابھی بھی انکو  بہت سے جاہلوں اور احمق نام نہاد فساد فی الارض کے متمنی مذہبی جنونی افرادکی حمایت حاصل ہے۔

فورتھ جنریشن وار (Fourth-generation warfare) ایک نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جسکے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے، مرکزی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا ہے ، صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے ، لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلایا جاتا ہے ۔ اسکے ذریعے کسی ملک کا میڈیا خریدا جاتا ہے اور اسکے ذریعے ملک میں خلفشار ، انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔

فورتھ جنریشن وار کی مدد سے امریکہ نے پہلے یوگوسلاویہ ، عراق اور لیبیا کا حشر کر دیا اب اس جنگی حکمت عملی کو پاکستان  پر آزمایا جا رھا ھے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہیکہ اس میں انہیں ابھی تک وہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی جسکا وہ خواب دیکھ رہے تھے،پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لیے امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں، باراک اوباما نے اپنے منہ سے کہا تھا کہ وہ پاکستانی میڈیا میں 50 ملین ڈالر سالانہ خرچ کریں گے، آج تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کس مقصد کے لئے اور کن کو یہ رقوم ادا کی جائینگی جبکہ انڈیا کا پاکستانی میڈیا پر اثرورسوخ دیکھا جا سکتا ہے ، پاکستان کی ساری قوم اس امریکن فورتھ جنریشن وار کی زد میں ہے۔

یہ واحد جنگ ھوتی ھے جسکا جواب فوج نے نہیں قوم نے دینا ہوتا ہے،فورتھ جنریشن وار بنیادی طور پر ڈس انفارمیشن وار ہوتی ہے اور اسکا جواب سول حکومتیں میڈیا اور محب وطن عوام دیتی ہے ۔ پاکستان میں لڑی جانے والی اس جنگ میں سول حکومتوں سے کوئی امید نہیں اسلئے عوام میں سے ھر شخص کو خود اس جنگ میں عملی طور پر حصہ لینا ہوگا،اس حملے کا سادہ جواب یہی ہے کہ عوام ہر اس چیز کو رد کر دیں جو پاکستان ، نظریہ پاکستان اور دفاع پاکستان یا قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہو،اگر اس مٹی کا قرض اور اپنا فرض ادا کرنا ہے تو ہم سب محب وطن عوام پاکستان پر یہ واجب ہیکہ ہم من حیث القوم متحد ہوں پاکستان اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اس مسلط کردہ جنگ سے نجات کے لیئے اپنا اپنا کردار ادا کریں.اور تفرقہ پیدا کرنے والوں کو شٹ اپ کال دیں۔

 پاکستان پائندہ باد

تحریر۔۔۔سید علی حسین نقوی
(سیکریٹری امور سیاسیات ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ)

وحدت نیوز (آرٹیکل)  یہ ہماری ملکی تاریخ ہے ۔ ہمیں اپنی تارخ سے درس لینا چاہیے۔ چند سال پہلے جب ملکی حالات بہت خراب تھے، جہاد افغانستان کے نام پر پاکستان میں ٹریننگ کیمپ اور ایک  مخصوص  فرقے  کے مدرسے دھڑا دھڑ تعمیر ہو رہے تھے۔ *بریلوی حضرات* کوسعودی اور امریکی پالیسی کے تحت  اکثریت میں ہونے کے باوجود کمزور کیا جارہا تھا۔

دوسری طرف گلگت اور پارہ چنار کے شیعوں کے ایران سے اس زمانے میں بھی مذہبی تعلقات تھے۔ ملک میں ضیاالحق کی حکومت تھی، موصوف ہمارے موجودہ حکمرانوں کی طرح سعودی عرب اور امریکہ کی مدد سے امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔

 ایک طرف امریکہ و سعودی عرب کی پالیسیاں تھیں اور دوسری طرف حکومت کے خلاف  بریلوی اور شیعہ حضرات کے مظاہروں  کا لامتناہی  سلسلہ۔

اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے ضیاالحق نے بھی ،موجودہ حکومت کی طرح تکفیریوں، دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی بھرپور سرپرستی کی۔

 سال ۱۹۸۲ و ۱۹۸۳ اور ۱۹۸۷ و ۱۹۸۸ میں گلگت و بلتستان اور خیبر پختونخواہ کی شیعہ آبادیوں پر   ضیاالحق کے جہادیوں نے  خوفناک لشکر کشی کی۔

عینی شاہدین کے مطابق سانحہ بنگلہ دیش کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی سرپرستی میں  نہتے لوگوں کو  اتنے بڑے پیمانے پر بدترین طریقے سے اجتماعی دہشت گردی  کا نشانہ بنایا گیا۔

نفرت کا یہ الاو دہکتا ہی رہا اور۵ اگست ۱۹۸۸ کو پاکستان کے شیعوں کے  قائد علامہ عارف حسینی ؒ کو پشاور میں ایک ٹارگٹ کلر نے شہید کردیا۔ اس قتل کا الزام بھی ضیاالحق کے کھاتے میں پڑا۔

المختصر یہ کہ پاکستان کے شیعہ اول و آخر ضیاالحق  کے مخالف تھے ، ضیاالحق کے دور میں ہی ضیاالحق کے خلاف شدید نعرے بازی ہوتی تھی، موصوف کے پتلے جلائے جاتے تھے اور موصوف کو  برملا  زمانے کا یزید کہا جاتا تھا۔

 لیکن اس کے باوجود پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے کبھی بھی عوام میں  یہ تاثر نہیں  پھیلنے دیا کہ ضیاالحق کے مخالفین سرزمینِ پاکستان یا پاکستان آرمی کے مخالفین ہیں۔ تاریخ پاکستان شاہد ہے کہ ہمیشہ پاکستان کی عوام اور فوج کے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہے۔

آج مجھے تعجب ہوتا ہے کہ جب پارہ چنار کے لوگ اپنے عزیزوں کے قتل کے جرم میں ایک کرنل کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں، ملک کا دشمن، غدار اور پاکستان آرمی کا دشمن کہا جاتا ہے،یہ سوچ انتہائی غلط اور خطرناک ہے۔

جو غلطی ضیاالحق جیسے ڈکٹیٹر نے  نہیں کی وہ آج کی جمہوری حکومت کر رہی ہے۔ اگر بلوچ اپنے مسنگ پرسنز کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں ملک اور فوج کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے، اگر پختون اپنے پیاروں کے قاتل کو سزا دینے کی بات کرتے ہیں تو انہیں غدار کہہ دیا جاتا ہے۔اگر جمشید دستی جیسا ایم این اے سچ بول دے تو اسے ٹارچر کیا جاتا ہے اور سانپوں اور بچھووں سے ڈسوایا جاتاہے۔

جنہوں نے پاکستان بنایا تھا ، ان کے نزدیک پاکستان امریکہ و سعودی عرب کی چھاونی بنانے  یا عوام کے لئے ٹارچر سیل کے طور پر  نہیں بنایا گیا  تھا بلکہ ان کے نزدیک سندھی اس ملک میں تصوف اور پیارو محبت کے سفیر ہیں، پنجابی پانچ دریاوں کے امین ہیں، بلوچ اس ملت کی فکر اور سوچ ہیں ، پٹھان اس ملک کی غیرت اور اٹھان ہیں، سیاستدان اس کی اڑان اور اس کے صحافی اور دانشمند اس کی پہچان ہیں  اور پاک فوج  کسی جنرل یا کرنل کی لونڈی نہیں بلکہ ایک مستقل ادارہ اور اس قوم کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی پاسبان ہے۔

 سارے عوام محترم ہیں اور سارے ادارے قابل احترام ہیں، عوام اور اداروں کے درمیان بدگمانیاں زوال کا باعث تو بنتی ہیں لیکن عزت و سربلندی کا سبب نہیں۔

یہ ہماری تاریخ ہے اور قومی سلامتی کے اداروں  کو چاییےکہ وہ اپنی تاریخ کی روشنی میں پاک فوج کے تقدس کو ایک کرنل کے  غلط فیصلوں پر قربان نہ ہونے دیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) بات پارہ چنار کی نہیں، بات قومی  اعتماد، پیشہ وارانہ  اہلیت اور  اداروں میں میرٹ کی ہے۔ مشال خان کا قتل ہوا تو دو اہم ادارے ملوث پائے گئے، پولیس[1] اور یونیورسٹی۔[2]

سرکاری اداروں  خصوصا پولیس نے   موقع پر موجود ہونے کے باوجود مشال خان کو بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا[3] ۔

دوسری طرف  بہاولپور میں آئل ٹینکر کے گرد سینکڑوں لوگ جمع ہو گئے لیکن موقع پر موجود پولیس نے ان کے بچاو  کے لئے  انہیں دور کرنے کی کو ئی تدبیر نہیں کی۔  

اسی طرح پارہ چنار میں سیکورٹی حصار کے اندر خندق کے درمیان میں ریڈ زون کے احاطے میں دھماکوں سے  ڈیڑھ سو کے لگ بھگ لوگ شہید ہو گئے اور اتنے ہی زخمی بھی ہوگئے لیکن سرکاری اہلکاروں کو گویا خبر ہی نہ تھی۔

یہ صورتحال  دو حالتوں سے خالی نہیں ہے:

 ۱۔ عوامی تحفظ پر مامور  اداروں میں مطلوبہ  پیشہ وارانہ اہلیت نہیں ہے

۲۔اگر ان اداروں میں  اہلیت ہے اور اس کے باوجود ایسا ہو رہا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ ان  اداروں میں میرٹ کے بجائے ، رشوت اور سفارش کی بنیاد پر   کرپٹ لوگ  بھرتی کئے گئے ہیں۔

اگر ان لوگوں کے پاس پیشہ وارانہ اہلیت ہے اور یہ اپنی ذمہ داری کو انجام نہیں دیتے تو پھر بھی صرف دو صورتیں ہیں:

۱۔ ان لوگوں کو کہیں سے ہڈی ڈال دی جاتی ہے یہ اسے چوستے رہتے ہیں اور  اپنے فرائض منصبی  کو انجام نہیں دیتے

۲۔کسی ہڈی کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ انہیں ہڈی ڈالی جائے تو یہ کام کریں گے ورنہ  نہیں کریں گے۔

بحیثیت قوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری سلامتی کے ضامن ادارے عوام کو بچانے میں تو ناکام ہیں لیکن اگر نہتے عوام اپنے تحفظ کے لئے مظاہرہ کریں تو یہ ان پر گولیاں چلانے میں بہت جری اور بہادر ہیں۔

ان کے نزدیک بہادری، عوام کو بچانے  کے بجائے نہتے عوام کو مارنے میں ہے۔  بات پارہ چنار یا بہاولپور، پٹھان یا پنجابی،  شیعہ یا سنی ، وہابی یا دیوبندی کی نہیں، بات قومی  اعتماد، پیشہ وارانہ  اہلیت اور  اداروں میں میرٹ کی ہے۔

پارہ چنار کے ریڈ زون میں دھماکوں کا ہونا اور پھر شہدا کے لواحقین پر سرکاری اہلکاروں کا گولیاں چلانا  اس بات کی دلیل ہے کہ

تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں

پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) بدعت کا لغوی معنی کسی نئے اوربےسابقہ کام کو انجام دیناہے اور عام طور پر بدعت ہر اس نئے کام کو کہا جاتا ہےجو فاعل کے حسن و کمال پر دلالت کرتا ہے۔اگر خدا  کے لئے لفظ بدیع استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال نے کائنات کو آلات و  وسا یل  اور کسی سابقہ چیز کو دیکھے بغیرخلق کیا ہے ۔ بدیع کبھی اسم فاعل {مبدِع}اور کبھی اسم مفعول {مبدَع}کے معنی میں استعمال ہوتاہے  اور آیۃ کریمہ { قُلْ مَا کُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل}کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا {رسول} نہیں ہوں،میں ہر دو معنی کا احتمال دیا گیا ہے ۔

روایات میں لفظ بدعت شریعت وسنت کےمقابلے میں استعمال ہواہے اور اس سے مراد اسلام اور سنت نبوی  کے خلاف کوئی کام کرنا ہے۔حضرت علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:{انما الناس رجلان متبع شرعۃ و مبتدع بدعۃ}لوگ دوقسم کے ہوتےہیں یاوہ جو شریعت کی پیروی کرتےہیں یا وہ جو بدعتوں کو ایجاد کرتے ہیں۔ آپ ؑایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں:{اظہر بہ الشرائع المجعولۃ و اقمع بہ البدع المدخولۃ}آپ  ؐ کےذریعے غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہےاور مہمل بدعتوں کا قلع و قمع کر دیاہے ۔اسی طرح آپ ؑفرماتے ہیں :{ و ما احدث بدعۃ الا ترک بہ سنۃ}کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی جب تک کوئی سنت ترک نہ ہوجائے۔

فقہاء و محدثین نےبدعت کی مختلف عبارتوں میں تعریف کی ہے یہاں ہم چند نمونے ذکر کر تے ہیں :
{البدعۃ مااحدث مما لا اصل لہ فی الشریعۃ یدل علیہ واما ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ وفلیس  ببدعۃ شرعا و ان کان بدعۃلغۃ}بدعت وہ چیزہےجس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اگر شریعت میں اس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو تو وہ شرعا بدعت نہیں ہےاگرچہ لغت میں اسے بدعت کہا جاتا ہے ۔
{البدعۃ مااحدث و لیس لہ اصل فی الشرع،وما کان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس بدعۃ}بدعت وہ چیزہےجو{پیغمبر اسلام کےبعد} ایجاد ہوئی ہواور اس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اور جس چیز کا دین میں کوئی اصل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃزیادۃفی الدین او نقصان منہ من اسناد الی الدین}بدعت شریعت میں دین کےنام پر کمی یابیشی کرنا ہے ۔
{البدعۃ،الحدث فی الدین و ما لیس لہ اصل فی کتاب ولاسنۃ}بدعت سےمراددینمیںکسی چیز کا اضافہ کرناہے جس  کے جواز پر کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃ فی الشرع ماحدث بعد الرسول و لم یرد فیہ نص علی الخصوص و لایکون داخلا فی بعض العمومات أو ورد نہی خصوصا أو عموما}شریعت میں بدعت وہ چیز ہےجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد ایجاد ہوئی ہو اوراس کے جواز میں کوئی خاص یاعام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔

علماء کی اصطلاح میں بدعت سےمراد دین میں کسی حکم  کا زیادہ یا کم کرنا ہے ۔یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانے میں غیر موجودکسی حکم کودین میں شامل کرنا جبکہ اس کےجوازپر کوئی خاص یا عام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ لہذا جب بھی کوئی حکم سابقا موجودنہ ہو لیکن کتاب و سنت سےاستنباط کیا ہو تو وہ بدعت نہیں ہے اگرچہ کتاب وسنت سے استنباط کرنےمیں غلطی ہونا ممکن ہے لیکن اجتہاد کرتے ہوئے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتو اس پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔

دین میں بدعت گذاری گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔کتاب و سنت ،عقل اور اجماع  مسلمین اس کی حرمت  پر دلالت کرتی ہے ۔ عقلی اعتبارسے قانون گزاری کا حق صرف خدا کو حاصل ہے  اور خدا کے اذن و مشئیت کےبغیر کسی کو دین میں قانون گزاری کا حق حاصل نہیں ہے  ۔قرآن کریم یہودیوں کی سرزنش کرتا ہے کیونکہ وہ دینی علماء کی بےچون وچرااطاعت کرتے تھےاور انہیں  ارباب قرار دیتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ اتخَّذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ الله}انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماءاور راہبوں کواپنا رب بنا لیا ہے۔”یہودی علماءلوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ لوگ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال قرار دیتے تھے اور لوگ بے چوں و چرا ان کی اطاعت کرتے تھے گویا یہ افراد حقیقت میں  ان کی پرستش کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت کےبارے میں فرماتے ہیں:{کل بدعۃ ضلالۃوکل ضلالۃ فی النار}ر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔حضرت علی علیہ السلامبدعت گزاروں کو خدا کےنزدیک مبغوض ترین افراد میں سےقرار دیتےہیں جنہیں خدا نے اپنی حالت پر چھوڑدیا ہے۔ یہ لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ہیں اور دین میں بدعت ایجاد کر کے لوگو ں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتے ہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :{إن أبغض الخلائق إلی الله رجلان:رجل وکلہ الله الی نفسہ فہو جائر عن قصدالسبیل،مشغوف بکلام بدعۃودعاء ضلالۃ}بےشک پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں: ایک وہ شخص جسے پروردگار نے اسی  کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو اور وہ درمیانی راستے سےہٹ گیا ہے ۔جوصرف بدعت کا دلداہ اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔اس قسم کے افراد اپنے برے اعمال کی سزا پانے  کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد{جنہیں گمراہ  کیا ہے} کا بھی بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
 حضرت علی علیہ السلام بدعت ایجاد کرنےکو فتنوں کی ابتدا قرار دیتے ہوئے فرماتےہیں :{انما بدءوقوع الفتن احکام تبتدع و اہواءتتبع،یخالف فیہا کتاب الله ویتولی فیہارجال رجالا علی غیردین الله}فتنوں کی ابتداء ان خواہشات سےہوتی ہےجن کی پیروی کی جاتی ہے اوران جدیدترین احکام  سےہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور کتاب خدا کےبالکل خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سےالگ ہوجاتے ہیں ۔

بدعت اجتماعی زندگی میں نمایاں ہونےوالے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو معاشرے کو گمراہی ا ور فساد کی طرف دھکیل دیتی ہے  لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہی عن المنکر کرتےہوئے بدعت گزاروں کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اگرچہ علماء پر اس حوالے سےسنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اسلامی روایتوں میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :{من أتی ذا بدعۃ فعظمہ فانما یسعی فی ه  ہدم الاسلام}اگر کوئی صاحب بدعت کےپاس آئے اوراس کی بزرگی کا اقرار کرے تو اس نے اسلام کو تباہ کرنےکی کوشش کی ہے۔آپؐ ایک اور حدیث میں فرماتےہیں:{اذا رایتم اہل الریب و البدع من بعدی فاظہروا البراءۃ منہم}جب تم میرے بعد اہل شک و اہل بدعت کو دیکھو تو ان سےبرائت کا اظہار کرو ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :{لا تصحبوا اہل البدع ولاتجالسوہم}اہل بدعت کےساتھ نہ تعلقات رکھو اور نہ  ہی ان کےپاس بیٹھو۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور حدیث میں  فرماتے ہیں:{اذاظہرت البدعۃ فی امتی فلیظہرالعالم علمہ فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃالله}جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں توعالم دین کو چاہیے کہ وہ اپنےعلم کا اظہار کرے اورجوایسا نہ کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہے  ۔

بدعت کے مصادیق کی پہچان سب سے اہم مسئلہ ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں مختلف مذاہب  کے پیروکار ایک دوسرے کو بدعت گذار قرار دیتے تھے ۔بدعت سے مرادکسی حکم کو دین کی طرف منسوب کرنا جبکہ اس پر دلالت کرنے کے لئے کتاب و سنت اور عقل سے کوئی دلیل [عام و خاص ،مقید و مطلق}موجود نہ ہو لیکن اگر کوئی ان منابع پراستناد کرتا ہواکسی چیز کے بارے میں حکم دے تواسےبدعت نہیں کہہ سکتےاگرچہ دوسروں  کے نزدیک یہ حکم غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ اس دور میں وہابیت اور تکفیری گروہ مسلمانوں کو بدعت گزار قرار دیتےہیں ۔ان کی نظر میں مسلمانوں  کےاکثر اعمال بدعت اور حرام ہیں جیسے اذان و اقامت  کےدرمیان یا اذان و اقامت سےپہلےیا بعد میں پڑھنے والے اذکار ،میناروں پر بلند آواز سے قرآن پڑھنا ،اذان کے بعد اور شب جمعہ کو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیجنا،رمضان المبارک کی راتوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ،عید میلا النبی منانا،بلند آواز میں نعت رسول مقبول پڑھنا ،تشیع جنازہ کے وقت بلند آواز سے اکٹھے لا الہ الا اللہ پڑھنا۔

مذکورہ موارد میں سے کوئی ایک بھی بدعت شمار نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مستحبات شرعیہ ہیں اور ان مستحبی اذکار کا ہر وقت پڑھنا ایک نیک عمل ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےمیلاد کےدن جشن و سرور کی محفلوں کا انعقادکرنا اور ان کی شہادت کے ایام میں مجالس عزا کا انعقاد کرنایہ سب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کےاہل بیت سے اظہار محبت ہے جو شریعت کی رو سے ممدوح اور پسندیدہ ہے ۔قرآن کریم اہلبیت علیہم السلام کی مودت کے بارے میں فرماتاہے: کہہ دیجیے: کہ میں اس {تبلیغ رسالت}پر تم سےکوئی اجرت نہیں مانگتا سوائےقریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانصار کی عورتوں کو اپنےشہیدوں پر گریہ و زاری کرنےسے منع نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے حضرت حمزہ علیہ السلام پر گریہ و زاری نہ کرنےپر ان سے نارضگی کا اظہار فرمایا :{ولکن حمزۃ لابواکی}لیکن کوئی حمزہ پرگریہ نہیں کرتا ہے۔جب انصار نے یہ احساس کیا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچا  کے لئے مجلس عزا منعقد کرنے کے خواہاں ہیں تو انہوں نے مجلس عزاء برپا کر کےحضرت حمزہ علیہ اسلا م پر گریہ وزاری کیں۔رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کے اس عمل کا شکریہ ادا کیا اوران کے حق میں دعا کی اور فرمایا:{رحم الله الانصار}خدا انصار پررحمت نازل فرمائے۔

حوالہ جات:
1.    احقاف،9۔
2.    مفرادات راغب ،کلمہ بدع۔
3.    نہج البلاغۃ،خطبہ 161۔
4.    ایضاً،خطبہ161۔
5.    ایضاً،خطبہ145۔
6.    ابن رجب ،الحنبلی ،جامع العلوم الحکم،ص 160۔
7.    ابن حجرعسقلانی ،فتح الباری ،ج17،ص9۔
8.    الشریف المرتضی ،الرسائل ،ج2،ص264۔
9.    الطریحی ،مجمع البحرین ،ج1،کلمہ بدع۔
10.    علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج74،ص203۔
11.     توبہ،31۔
12.    اصول کافی ،ج2،باب الشرک،حدیث 3،تفسیرطبری،ج10،ص81۔
13.    اصول کافی ،ج 1،باب البدع،حدیث12۔ابن اثیر ،جامع الاصول،ج5 ،حدیث 3974۔
14.    نہج البلاغۃ،خطبہ،17۔
15.    ایضاً،خطبہ 50۔
16.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 3۔
17.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 4۔
18.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 3۔
19.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 4۔
20.    شوری ،23۔
21.    سیرت ابن ہشام، ج1،ص99۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree