وحدت نیوز(آرٹیکل) ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے، دنیا میں ہر جگہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں دشمن کا دوست ہمارا بھی دوست ہوتا ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، بھارت ہمارے پہلو سے اٹھا اوراس نے عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب پر کمندیں ڈال لیں، نہرو کے زمانے سے لے کر آج تک، بھارت سعودی عرب کو مسلسل اپنے جال میں پھنساتا گیا اور ہم سعودی عرب کی دوستی کے جال میں جکڑتے گئے۔ ہمارے حکمرانوں نے کبھی ٹھہرکر یہ دیکھا ہی نہیں کہ ہم کن راہوں پر چل رہے ہیں!
جماعت الدعوۃ نامی تنظیم کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ان کے چار قریبی ساتھیوں کی نظر بندی کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے، یہ پابندی بھارت کی ضرورت تھی جو وہ براہ راست نہیں لگوا سکتا تھا ، یہ پابندی سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے ان معائدوں کا نتیجہ ہے جن کی رو سے ۲۰۱۲ میں سعودی عرب نے سید ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کردیا تھا۔ یاد رہے کہ بھارت نے ابوجندل کو ۲۰۰۸ کے بمبئی حملوں اور بعد ازاں پونا میں ہونے والے دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ اور دیگر متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
بعد ازاں چند سالوں کے اندر سعودی اور بھارتی ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے سعودی حکومت نے محمد اسداللہ خان عرف ابو سفیان، اور محمد عبدالعزیز کو بھی گرفتار کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ افراد کئی سالوں سے بھارت کو مطلوب تھے۔ بھارت کو مطلوب افراد میں سے ایک بڑا نام حافظ سعید صاحب کا ہے جن کو ہماری سعودی نواز حکومت نے پاکستان میں ہی نظر بند کر دیا ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے بھارت کا دیرینہ مطالبہ تو پورا کردیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس سے تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور دہشت گردوں کو کیا پیغام پہنچے گا!؟
دہشت گرد اچھی طرح جان چکے ہیں حکومت کی طرف سے ان پر کوئی دباو نہیں، کسی کو فیس بک پیجز سے اٹھا کر سزا دی جاتی ہے اور کسی کو کشمیر کاز پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے، لیکن خود دہشت گرد چونکہ بھارت کے بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس لئے ان کے لئے کسی قسم کی نظر بندی نہیں ہے۔
اس وقت تقریباً پچیس لاکھ بھارتی باشندےسعودی عرب میں اور ستر لاکھ دیگر خلیجی ممالک میں مشغول کار ہیں۔ سعودی عرب کے لئے ایشا کی منڈی میں بھارت سے بڑی مارکیٹ کوئی اور نہیں چنانچہ سعودی آرامکو جو کہ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ہے، اس نے بھارتی آئل ریفائنریوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اس وقت بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات فقط اقتصاد اور مشیشت تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے تعلقات کا دائرہ پالیسی افئیرز تک پھیل چکا ہے۔ بھارت سعودی پالیسیسز کے اشتراک کی وجہ سے اب بھارت براہ راست بھی ہمارے حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے ، جیسا کہ نریندر مودی کے قریبی دوست سجن جندال نے وزیراعظم سے مری میں خفیہ ملاقات کی۔
دوسری طرف ہماری موجودہ حکومت نے سینٹ کو اعتماد میں لئے بغیر جنر ل راحیل شریف کو سعودی اتحاد کی کمان سنبھالنے کے لئے بھیج دیا۔ بھیجنا تو آسان تھا لیکن اس وقت سعودی اتحاد کا یہ حال ہے کہ خود وزیراعظم نواز شریف سعودی قیادت سے ملاقات کر کے ان کے باہمی اختلافات کو حل کرنے کے چکر میں ہیں۔ اس موقع پر سیانے کہتے ہیں کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
ہماری سعودی عرب کے نزدیک کیا اہمیت ہے، اس کا اندازہ ،ریاض کانفرنس میں ہی سب کو ہوچکا ہے۔ البتہ یہ دورہ خلیجی ممالک کے اختلافات سے ہٹ کر بھی ، اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ریاض کانفرنس میں ہونے والی بے عزتی کو دھویا جاسکے اور عوام کو یہ کہا جا سکے کہ دیکھو! دیکھو! اب کی بار تو ہمیں اچھی طرح لفٹ کرائی گئی ہے۔
اسلامی اتحاد کی آڑ میں جنرل راحیل کو سعودی عرب کی بارگاہ میں پیش کرنے والے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس اتحاد کے نزدیک اب تو قطر بھی دہشت گرد ہے۔ یعنی جو بھی اسرائیل اور امریکہ کی غلامی سے انکار کرے وہ اس سعودی اتحاد کی نگاہ میں دہشت گرد ہے اوراس کا سارا منفی کریڈٹ پاکستان کو جا رہا ہے چونکہ اس شرمناک اتحاد کی کمان ایک پاکستانی ریٹائڑڈ جنرل کے پاس ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے اور پاکستان کی بہادرآرمی کی وجہ سے پاکستان کا پوری دنیا میں ایک وقار تھا جو نا اہل حکمرانوں نے اس سعودی اتحاد پر قربان کردیا ۔
اس وقت سعودی عرب کی حالت یہ ہے کہ آج سعودی عرب کی حکومت نے قطری حمایت یافتہ عالم دین یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر سعودی عرب میں مکمل طورپر پابندی عاید کردی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرضاوی کا کیا قصور ہے ؟ کیا قرضاوی اب نعوذ باللہ کافر ہو گئے ہیں؟ کیا کسی ملک کی مخالفت یا حمایت سے علما کا علم اور دین بھی تبدیل ہوجاتاہے ؟
یہ پابندی سراسر ، ایک بزرگ عالم دین اور علم دین کی توہین ہے۔ آخر ملکی و قومی تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ، عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے وزیر تعلیم احمد بن محمد العیسیٰ نے تصدیق کی ہے کہ معروف مصری عالم دین یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اسکولوں اور جامعات کے نصاب سے ان کی تمام کتابیں نکال دی گئی ہیں۔ نیز اس کے بعد ان کی کتب کی سعودی عرب میں طباعت و اشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یہ کونسا اسلام ہے؟ کل تک ایک عالم دین کی کتابیں سعودی عرب کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل تھیں ۔ آج سعودی وزارت تعلیم کی طرف سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یوسف القرضاوی کی کتب کو نصاب سے نکالیں اور لائبریریوں میں موجود ان کی کتب کو وہاں سے ہٹایا جائے۔
ممالک کے درمیان اختلافات ہوتے رہتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی سعودی عرب کی مخالفت کرے تو وہ اسلامی اتحاد سے بھی نکلے گا اور اسلام سے بھی نکل جائے گا۔
پاکستان کی موجودہ نااہل اور کرپٹ حکومت ، ایک طرف سے قطری خطوط کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کی کھودی ہوئی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔
ایسے میں پوری پاکستانی عوام اور پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ لاتعلق ہو کر نہ بیٹھیں اور اس ملک کو حکمرانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے سے روکیں، موجودہ صورتحال میں بین الاقوامی سطح پر عالمی لیڈروں کے چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان چہروں کو بحیثیت قوم اچھی طرح پہچان کر اپنی ملکی و قومی پالیسیاں بنائیں اور حقائق کے مطابق فیصلے کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) اتحاد امت پر سبھی زور دیتے ہیں، جو اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں تو وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اتحاد امت بہت ضروری ہے۔ اس پر بہت کانفرنسیں ہو چکی ہیں اور بہت کچھ لکھا جا چکاہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اتحاد امت کی خاطر جدید خطوط پر سوچا جائے اور پرانی اور تجربہ شدہ راہوں کو ترک کیا جائے۔
اب تک جو اتحاد امت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ چند مسلمان فرقوں یا ممالک کا خود مسلمان فرقوں اور ممالک کے خلاف ہی اکٹھے ہو جانا ہے۔ درحقیقت، اتحاد کسی کے خلاف اکٹھا ہونے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ردعمل میں جمع ہوجانے کا نام اتحادہے۔ اتحاد بھی نماز کی طرح ایک دینی فریضہ اور مسلسل عمل ہے۔
تمام اسلامی فرق و مذاہب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مشکلات اور اسباب، ان رویوں اور نظریات پر نظر ثانی کریں جن کی وجہ سے امت متحد نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں پاکستان میں سب سے معتدل ترین اور پیارو محبت بانٹنے والا مسلک بریلوی مسلک ہے۔ اس مسلک کو یہ خصوصیت اور خوبی حاصل ہے کہ اس نے اکثریت کے باوجود کبھی اقلیتوں پر زبردستی اپنے عقائد نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی جگہوں پر اس مسلک کی مساجد پر قبضے کئے گئے اور اس کی کئی علمی شخصیات کو قتل کیا گیا اور اس کے نزدیک مقدس مقامات مثلا اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے کئے گئے لیکن اس کے باوجود اس مسلک نے نفرتوں، دشمنیوں اور زیادتیوں کا جواب ، اولیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق پیارو محبت سے دیا ہے۔
پاکستان کا مورخ یہ لکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس مسلک نے اکثریت میں ہونے کے باوجود، اقلیتوں کا خیال رکھا اور ان سے محبت آمیز برتاو کیا۔
پاکستان میں دوسرا نمایا ں مسلک اہل تشیع کا ہے۔ اہل تشیع سے دیگر مسالک کو عرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ بعض شیعہ خطبا دیگر مسالک کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں۔ مجھے چند سال پہلے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جہان تشیع کے مرجع سید علی خامنہ ای ؒ نے جہاں یہ فتوی صادر کیا ہے وہیں اپنی مختلف تقریروں میں بھی یہ کہا ہے کہ خبردار کسی بھی دوسرے مسلک کی دل شکنی اور ان کے مقدسات کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا حرام ہے۔
اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایسا فعل انجام دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق اہل تشیع کی پڑھی لکھی اور باشعور کمیونٹی سے نہیں ہے۔ اب بے شعور اور ان پڑھ آدمی تو کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ، وہ تو خود اپنے ہی علما اور شخصیات کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کہہ سکتا ہے۔ لہذا ہماری مراد پڑھے لکھے اور باشعورلوگوں کا طبقہ ہے۔
ہمارے ہاں تیسرا نمایاں مسلک ان احباب کا ہے جنہیں ہم سلفی، اہلحدیث یا دیوبندی کہتے ہیں۔جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں سرگرم ہونے کی وجہ سے یہ احباب کم ہونے کے باوجود زیادہ پررنگ ہیں۔ان مسالک کا عقیدتی و فکری مرکز تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ سعودی عرب کی بادشاہت و خلافت ہے۔
ان کے دینی مدارس کی تعداد اور ان کے عسکری تربیت شدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر اس توانائی کو بھی مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اب انہیں بھی چاہیے کہ ملکی سلامتی اور اتحاد امت کے لئے اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اپنے مزاج میں لچک پیدا کریں اور سعودی عرب کو امریکہ و اسرائیل کے بجائے عالم اسلام سے قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دیکھیں ! اگر سعودی عرب ، چھوٹے چھوٹے اور اپنے ہی بنائے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف ، انتالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنا سکتا ہے، تو فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کیوں اسلامی فوجی اتحاد نہیں بناسکتا، اگر پچپن اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ٹرمپ کے استقبال کے لئے جمع کر سکتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے، ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس، ریاض میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی!؟
ویسے بھی یہ ماہ رمضان المبارک ہے ، اس کے آخری جمعہ المبارک کو مسلمان یوم القدس کے نام سے مناتے ہیں، عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس مرتبہ پاکستان کے تمام مذاہب و مسالک کو چاہیے کہ وہ مل کر یوم القدس منائیں۔
مانا کہ سعودی عرب کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہاں سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی لیکن پاکستان میں بسنے والے سلفی و اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ، یہ تو پاکستان میں یوم القدس کی ریلیوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔
اگر سعودی عرب سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی تو پاکستان سے ہی یہ آواز بلند کی جائے۔ ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان بھی کسی سے کم نہیں ، پاکستان میں ہی بھرپور طریقے سے ، مل کر یوم القدس منایا جانا چاہیے۔
ہم کب تک کشمیر اور قدس کی آزادی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے، اگر پاکستان کے تمام مسالک و مکاتب کے علما مل کر یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کریں تو وہ پیغام جو سعودی عرب سے امریکہ و اسرائیل کو نہیں مل رہا ، وہی پیغام پاکستان کی سر زمین سے انہیں مل جائے گا اور انہیں سمجھ آجائے گی کہ مسلمان، قدس کی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
nazarhaffi@ gmail.com
وحدت نیوز(آرٹیکل) گاہک میں قوت خرید ہونی چاہیے، اگر خریدار غریب ہے تو وہ ہیرے اور جواہرات نہیں خرید سکتا، دنیا کا بہترین اسلحہ امریکہ بناتا ہے، اب اسے بہترین خریدار بھی چاہیے، چنانچہ عربوں سے زیادہ مالدار گاہک کون ہوسکتا ہے، اب عرب جب تک کسی سے لڑیں گے نہیں تو وہ اسلحہ کیوں خریدیں گے، لہذا امریکہ کے لئے عربوں کو جنگوں میں دھکیلنا ضروری ہے۔ ورنہ اختلافات کس کے درمیان نہیں، کیا عیسائیوں میں فرقے اور تنازعات نہیں، کیا یہودیوں میں مسالک و مکاتب نہیں۔؟ ریاض کانفرنس میں مسٹر ٹرمپ نے مسلمانوں کے درمیان مسلکی جنگ اور اسلحہ بیچنے کی بات تو کی، لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نہیں کی کہ تم بھی اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ہم سے اسلحہ خریدو۔ عربوں کا سب سے بڑا جھگڑا اسرائیل کے ساتھ ہے، لیکن مسٹر ٹرمپ نے یہ نہیں کہا کہ اسرائیل سے نمٹنے کے لئے ہم سے اسلحہ خریدو۔ نہیں ہرگز اس کی اجازت نہیں، اسلامی ممالک کو صرف آپس میں لڑنے کے لئے اسلحہ بیچا جاتا ہے، وہ اسلحہ خواہ یمن پر استعمال کیا جائے یا ایران کے خلاف۔
عرب ریاستیں، معدنی ذخائر خصوصاً تیل اور گیس سے مالا مال ہیں، ایران بھی معدنی ذخائر کے حوالے سے ایک بڑا ملک ہے، انقلاب کے بعد ایران کے ذخائر امریکہ اور دیگر استعماری ممالک پر حرام ہوگئے، لیکن استعماری طاقتوں نے عرب ریاستوں کو نکیل ڈال کر رکھی ہوئی ہے۔ اگر عرب ریاستوں اور ایران کے درمیان مسلکی اختلاف ہے تو عرب ریاستوں اور امریکہ کے درمیان کون سا مسلکی اشتراک ہے، یہ بات اندرون خانہ عرب ممالک کو بھی سمجھ آچکی ہے۔ اس وقت عرب ریاستوں کی مثال اس گلے کی ہے، جو ایک چراگاہ میں امریکی نامی چرواہے کی نگرانی میں چر رہا ہے، چرواہا ان کا دودھ بھی دوہ رہا ہے، ان کی اون اور پشم بھی اتار رہا ہے اور اگر اس کی بھوک نہ مٹی تو انہیں ذبح کرکے بھی کھائے گا۔ ابھی امریکی گلے میں سے قطر نامی بھیڑ بھاگی ہے، قطر نے بھی ماضی میں امریکہ کی خوب خدمت کی ہے، اس نے طالبان، القاعدہ اور داعش کے بنانے اور انہیں منظم کرنے کے حوالے سے بھرپور خدمات انجام دیں۔
اب قطر نے دیکھا ہے کہ وہ وقت آپہنچا ہے کہ امریکہ اسلحے کی فروخت کے لئے مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ نیز اب داعش اور طالبان امریکہ کی ضرورت پوری نہیں کرتے، چنانچہ یمن پر بھی سعودی عرب سے حملہ کروایا گیا ہے، لیکن اس سے بھی امریکہ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا، تبھی تو اسلامی فوجی اتحاد کے نام سے ایک بڑی فوج بنائی گئی ہے، امریکہ عربوں کی کسی کے ساتھ ایک بڑی جنگ چاہتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ یا تو عرب ایران کے خلاف لڑیں اور یا پھر آپس میں خون خرابہ کریں، اگر عرب ایران سے لڑتے ہیں تو اس کا سارا فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا، ایران کے کمزور ہونے کی صورت میں اسرائیل عربوں کے ساتھ ماضی والا سلوک کرے گا اور اگر عرب ریاستیں آپس میں لڑتی ہیں تو یہ بھی اسرائیل کو مضبوط کرنے کا باعث ہے۔ چنانچہ قطر نے امریکی گلے سے فرار کیا ہے، یہ فرار بالکل غیر متوقع طور پر ہوا ہے، قطر بھی قدرتی گیس اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ قطر نہیں چاہتا کہ اسے یمن یا شام بنا دیا جائے، اب امریکی گلے سے مفرور قطر کو سعودی عرب اور امریکہ کے خطرے سے پناہ چاہیے، اگر قطر، امریکی گلے سے بھاگنے کے بعد واپس نہیں جاتا تو امریکہ جیسے حریص ملک کے لئے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔
ایسے میں اسلامی ممالک میں سے صرف ایران ہی ہے، جو قطر کو یہ حوصلہ دے سکتا ہے کہ وہ امریکی و سعودی دباو کے سامنے ڈٹ جائے۔ چنانچہ آج ایران میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ دو مقامات پر دہشت گردانہ حملے کروائے گئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان حملوں سے امریکہ کو ایک فی صد فائدہ بھی نہیں پہنچا، ایرانی ہماری طرح نہیں ہیں کہ وہ دشمن کو پہچاننے کے بجائے مسلکی اختلافات میں الجھ جائیں، جب ایرانی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا، فائرنگ کے دوران پوری پارلیمنٹ مردہ باد امریکہ کے نعروں سے گونجتی رہی، دہشت گردوں کے قتل کے بعد اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے صحن میں نماز ظہر ادا کی اور کافی دیر تک مردہ باد امریکہ کے نعرے لگائے۔ یہ مردہ باد امریکہ کے نعرے امریکہ کے لئے واضح پیغام ہیں کہ امریکہ ایران کو دہشت گردی وغیرہ سے ڈرا کر اپنا نوکر نہیں بنا سکتا۔
چالبازوں اور سازشی عناصر نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس کے بعد ایران بھی، عرب ریاستوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا اور عرب ممالک کو جوابی کارروائی کی دھمکیاں دے گا اور پھر وہی ہوگا جو امریکہ چاہتا ہے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان حملوں نے دنیا میں امریکہ کو مزید بے نقاب کر دیا ہے، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی امریکہ کو ایران میں بری شکست ہوئی ہے اور اس کے عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔ اگر ہم سارے مسلمان، قطر کی طرح امریکی گلے سے فرار کر جائیں اور ایرانیوں کی طرح شعور اور بصیرت کا ثبوت دیں تو امریکہ اور اسرائیل اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ بحیثیت قوم امریکی و اسرائیلی مصنوعات اور ڈالر کی خرید و فروخت کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اگر صرف پاکستانی تاجر اور عوام ہی اس پر عملدرآمد شروع کر دیں تو یہ دین اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
تحریر۔۔ نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل)1-کیا اس لئے کہ قطر اخوان المسلمین کی مدد کرتا ہے.؟ یا کیونکہ اسکے حماس سے تعلقات ہیں . اس موجودہ بحران کا یہ سبب ہرگز نہیں کیونکہ یہ تعلقات تو قدیمی ہیں اور سب کو اسکا علم ہے.
2- کیا بحران کا سبب قطر کے ایران سے تعلقات ہیں ؟ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کیونکہ امارات اور ایران کے مابین تجارت 6 بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے. اور کویت ایرانی صدر کا استقبال کرتا ہے. اگر یہ سبب ہو تو خلیجی ممالک کو سلطنت عمان سے زیادہ ناراض ہونا چاہیئے جس کے ایران سے اسٹریٹجک تعلقات ہیں. اس لئے یہ ما سوائے پروپیگنڈے کے اور کچھ نہیں۔
3- کیا قطری بادشاہ امیر تمیم کا بیان ہے ؟ یہ بات بھی حقیقت سے عاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قطر نے اپنے حصے کا فدیہ یا بھتہ یا جگا ٹیکس ان خلیجیوں کے سید وسردار امریکی صدر ٹرانپ کو ادا کرنے سے انکار کیا. کیونکہ اس وقت اقتصادی بحران میں مبتلاء ہے لیبیا کی جنگ کا سارا بل بھی ادا کیا اور شام کیخلاف جنگ میں بھی پہلے مرحلے میں پیش پیش رھا اور بہت پیسہ خرچ کیا. اب اس پوزیشن میں نہیں کہ برابر کا بل ادا کرے۔
جو کچھ میڈیا میں نشر ہو رھا ہے وہ حقائق چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں. سعودیہ اور قطر کے ما بین اس بحران کی چنگاری اس وقت بھڑکی جب ٹرامپ نے ریاض کا دورہ کیا اور تقریبا 500 بلین ڈالرز کا بھتہ وصول کیا. حقیقت میں امریکی بدمعاش نے ڈیڑھ ٹریلین ڈالرز آنے سے پہلے طے کیا تھا. اور ریاض سے جانے سے پہلے اس نے مذاکرات کی میز پر خلیجی سربراہان سے اس کا مطالبہ کیا تھا. کیونکہ وہ انتھا درجے کا مفاد پرست ہے. وہ سمجھتا ہے کہ ان خلیجیوں کے پاس بہت دولت ہے اور جس پر انکا حق نہیں اور نہ ہی اس کے اہل ہیں،ٹرامپ اور امریکی فقط خلیجی اموال پر نگاہیں رکھتے ہیں۔
ٹرامپ نے ٹویٹ کیا ہے کہ " مشرق وسطی سے سیکڑوں بلین ڈالرز لایا ہوں. جاب جاب "
سعودی عرب ،امارات اور قطر کی زمہ داری ہے کہ وہ 1500 بلین ڈالرز ادا کریں کیونکہ ان تینوں ممالک میں امریکی فوجی اڈے اور لاکھوں مارینز امریکی بحری افواج موجود ہیں. اس لئے ان تینوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کی بقاء کا یہ فدیہ یا جگا ٹیکس ادا کریں. لیکن قطر نے اپنے حصے کا یہ فدیہ یا جگا ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا. جس کی وجہ سے سعودیہ اور امارات سخت غصے میں آ گئے. اور امیر قطر سے انتقام کی ٹھان لی. لیکن تینوں ممالک کھل کر اس حقیقت کو بیان نہیں کر سکتے. اور اسی وجہ سے امریکہ بھی قطر سے سخت ناراض ہے،آج قطری وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ سے اسی سلسلے ميں مذاکرات کئے ہیں اور شاید اس بحران سے نکلنے کے لئے مجبورا قطر ذلیل ورسوا ہو کر یہ جگا ٹیکس ادا کرے گا خواہ اسے آسان قسطوں میں ادا کرنا پڑے۔
تجزیہ وتحلیل : ڈاکٹر سید شفقت شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ روز افغان دارالحکومت کابل کے ڈپلومیٹک انکلیو میں دھماکہ ہوا، دھماکے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ کابل دھماکے میں دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے علاوہ پاکستانی سفارتخانے کے ملازمین بھی زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کے سفارتی علاقے میں بم دھماکے سے نوے افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں شہریوں کے زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ افغان حکومت اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرے، افغانستان کو اپنی ملکی و قومی سلامتی کے لئے زمینی حقائق کو درک کرنا چاہیے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ہندوستان نے افغانستان کو یہ باور کروایا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی پاکستان کر رہا ہے۔ اس بنا پر افغانستان حکومت پاکستان سے شدید احتجاج بھی کرچکی ہے اور گذشتہ کچھ عرصے میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ ہندوستان نے افغانستان کو یہ تاثر دے رکھا ہے کہ مسلم شدت پسندوں کو پاکستان کنٹرول کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ افغانستان کو روس سے آزاد کروانے کے لئے پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کے تعاون سے مختلف جہادی گروپ خصوصاً طالبان کا گروہ تشکیل دیا۔
وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ وہ کنٹرولڈ طالبان پاکستان کے قبضے سے نکل کر براہ راست سعودی عرب اور امریکہ کے ماتحت کام کرنے لگے۔ اس کا واضح ثبوت پاکستان میں ہونے والے متعدد خودکش دھماکے، فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے اور آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں کا قتلِ عام ہے۔ اس وقت ٹھیک ہے کہ سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کا لیبل ایک پاکستانی ریٹائرڈ جنرل پر لگا ہوا ہے، لیکن پاکستان کے سعودی عرب اور امریکہ سے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ ریاض کانفرنس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں بھارت کا ذکر تو ہوا، لیکن پاکستان کا نام تک نہیں لیا گیا اور وزیراعظم پاکستان کو تقریر بھی نہیں کرنے دی گئی۔ دوسری طرف بین الاقوامی اداروں کی ریسرچ رپورٹس کے مطابق اس وقت ہندوستان روزانہ پانچ لاکھ بیرل پٹرول سعودی عرب سے خریدتا ہے، دنیا میں سعودی عرب کا چوتھا بڑا کاروباری شریک ہندوستان ہے، جبکہ پاکستان کے ساتھ سعودی تجارت فقط 4.5 بلین ڈالرز سالانہ ہے۔ موجودہ حالات میں سعودی عرب سے پاکستانی لیبرز کو بھی دھڑا دھڑا نکالا جا رہا ہے اور ہندوستانی لیبرز کو ریاستی تعلقات کی بنا پر حسبِ سابق کوئی پریشانی نہیں۔
معاشی تعلقات کے علاوہ سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان زبردست دفاعی تعلقات ہیں۔ 2009ء میں سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان اپنی تاریخ کے سب سے اہم دفاعی معاہدے ہوئے، جس کے بعد سعودی عرب نے پاکستان پر کشمیر کے مسئلے پر دباو ڈالا اور پاکستان میں موجود کشمیری مجاہدین کے جہادی کیمپوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا، اس کے علاوہ کئی جہادی تنظیموں پر پابندی بھی لگائی گئی۔ اسی طرح مذکورہ دونوں ممالک یعنی سعودری عرب اور ہندوستان کے دفاعی تربیتی اداروں کی مشترکہ ٹریننگ کے کئی منصوبوں کا آغاز ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگی جہازوں اور اسلحے کے تبادلوں نے عروج پکڑا۔ سعودی عرب کی دوستی کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی بہت وسعت آئی ہے۔ اس وقت بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی اس منطقے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ لہذا زمینی حقائق یہی ہیں کہ اس خطے میں سعودی و امریکی پالیسیوں کا محافظ پاکستان کے بجائے ہندوستان ہے۔ اگر افغانستان میں دہشت گردی نہیں رک رہی تو افغانستان کو پاکستان کو کوسنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں کا دینی، مسلکی اور مالی سرپرست کون ہے اور وہ کس کے ذریعے دہشت گردوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اگر افغانستان حقائق کو سمجھنا چاہے تو سعودی عرب، امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں کلبھوشن یادو کے انکشافات اور احسان اللہ احسان کے اعترافات بھی افغانستان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔
تحریر۔۔۔۔ نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) عرب ممالک اور پاکستان دینی رشتے میں منسلک ہیں، ان کے آپس میں گہرے روابط پائے جاتے ہیں، ان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس طرح کے جملے جتنے بھی لکھے جائیں ان کے لکھنے سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آجائے گی۔
مثلا اگر ہم سارا دن بیٹھ کر چینی ، چینی، چینی کہتے رہیں تو اس سے ہمارا منہ میٹھا نہیں ہو جائے گا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ریاض کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان اور ملت پاکستان کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی برا ہوا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمیں سچائی کو چھپانے کے بجائے عیاں کرنا چاہیے اور اپنے ملک کی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
عرب ممالک کی کسی سے نہ ہی تو دینی و مسلکی دوستی ہے اور نہ ہی اس بنیاد پردشمنی، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود سوچ لیں کہ کیا امریکہ اور اسرائیل کا عرب ممالک کے ساتھ دین یا مسلک مشترک ہے، نہیں ہر گز نہیں تو پھر یہ دوستی کیوں !؟ صاف ظاہر ہے کہ مفادات کی دوستی ہے۔
اسی طرح کیا پاکستان کو ریاض کانفرنس میں نظر انداز کرنا ، پاکستان اور کشمیر کا ذکر نہ کرنا، دینی یا مسلکی اختلافات کی وجہ سے تھا!؟
نہیں ہر گز نہیں بلکہ یہ سب موقع و مناسبت کے لحاظ سے عرب ممالک کے مفادات کے خلاف تھا۔
ہم ہیں کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر پر اپنی امیدیں عربوں سے لگائے بیٹھے ہیں ، اورسعودی عرب کی پالیسی دیکھ لیجئے کہ اس نے عالمی فوجی اتحاد کا کمانڈر تو پاکستان سے منگوایا لیکن اس فوجی اتحاد کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کے علاوہ باقی سب کچھ ہے۔
ایسا فوجی اتحاد جس کا کمانڈر تو پاکستانی ہے لیکن اس کے ایجنڈے میں کشمیر نہیں، کیوں کیا سعودی مسلک اس سے منع کرتا ہے ، نہیں بلکہ سعودی حکومت کے مفادات کو اس سے نقصان پہنچتاہے۔
جس طرح گزشتہ دنوں ٹرمپ کا ریاض میں شاندار استقبال کیا گیا ہے ،آپ خود بتائیں یہ کتنی بڑی اور اہم کانفرنس تھی ، صرف سعودی عرب سے ہی گلہ کیوں!؟ دیگر مقررین کی خبر بھی لیجئے ، کیا اس کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کے حوالے سے کسی ایک مقرر نے بھی کوئی ایک لفظ بولا، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو بھارت کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے !کیا انہیں ان کے مسلک نے بھارت کے خلاف بولنے سے روکا تھا!
نہیں ہر گز نہیں بلکہ بھارت کے خلاف بولنا ان کے حکومتی مفادات کے خلاف تھا۔
اچھا ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو خطاب کا موقع نہیں دیا گیا اور پوری کانفرنس میں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا گیا لیکن مجال ہے کہ کسی مقررنے کوئی ایک لفظ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے میں ہی کہا ہو یا پاکستان کے بارڈرز پر بھارت کی گولہ باری کے بارے میں کچھ کہاہو۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا!؟ کیا ان کے دین یا مسلک نے انہیں روکا تھا یا ان کے حکومتی مفاد میں نہیں تھا۔
یاد کیجئے ۱۹۵۶ ء کا وہ دن جب مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر تھا اور پاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے تو ایسے میں جواھر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
اس وقت بھی سعودی حکومت نے نہرو کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا اور " مرحبا یا رسول الاسلام " کے نعرے لگائے۔
اس واقعے کے اگلے روز "روزنامہ ڈان " نے نہرو کو رسول الاسلام کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقع پر اظہار افسوس کیا۔
اگلے دن سعودی عرب کی ایمبیسی نے اس کی یہ توجیہ پیش کی کہ اس سے مراد امن کا پیامبر ہے ،جس کے جواب میں روزنامہ ڈان نے لکھا کہ لاکھوں ہندوستانی ا ور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے امن کا پیامبر کیسے بن گیا ہے۔۔۔۔اور یہ بھی لکھا کہ پاکستانی مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے: دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ اصطلاح پیامبر اسلام ﷺسے مخصوص ہے۔
آپ نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کو ہی لیجئے، نریندر مودی کا بھی اسی طرح شاندار استقبال کیا گیا اور شاہی محل میں، شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ نریندر مودی کو عطا کیا۔ باقی جو معاہدے اور معاملات طے پائے وہ اپنی جگہ محل بحث ہیں۔
کفار کے سرداروں کے یہ استقبال اور عزت افزائی سعودی بادشاہوں کے دین کا تقاضا نہیں بلکہ ان کے حکومتی مفادات کے لئے ضروری ہے۔
ہم میں سے کچھ لوگوں نے مسلک، فرقے اور دین کا کمبل اوڑھا کر آل سعود کی حقیقت کو چھپانے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ رقص سعودی بادشاہ کرتے ہیں اور تاویل ہمارے ہاں کا ملاں کرتا ہے، نامحرم عورتوں سے مصافحے سعودی حکمران کرتے ہیں اور جواز ہمارے ہاں کے جہادی ڈھونڈتے ہیں، کفار کے سرداروں کو آل سعود چومتی ہے اور اس کے جائز ہونے کے لئے احادیث ہمارے ہاں کے محدثین کرام تلاش کرتے ہیں۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ بادشاہ اپنے حکومتی مفادات کے پیچھے چلتے ہیں اور ہم میں سے بعض لوگ ان کے کرتوتوں کا دفاع مسلک کے مورچے سے کرتے ہیں۔ تاریخ ملوکیت و بادشاہت کا خلاصہ یہی ہے کہ بادشاہوں کی پالیسیاں مسالک کے تابع نہیں ہوتیں بلکہ وہ مسالک کو اپنے تابع رکھ کر مسالک سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.