وحدت نیوز(آرٹیکل) سیانے بہت کچھ کہتے ہیں،مثلا مشورہ کر کے فیصلہ کرنا چاہیے، فیصلہ کر کے قدم اٹھاناچاہیے، بولنے کے بعد سوچنے سے بہتر ہے کہ سوچنے کے بعد بولا جائے، صحیح بات بھی غلط موقع پر نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے خوارج کی بات صحیح تھی لیکن موقع محل غلط تھا،جب موقع و محل تبدیل ہوتا ہے تو زبان و ادبیات کے تقاضے ، رہن سہن کے آداب اور سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔

ہماری ایک بہت محترم اور قریبی شخصیت کے بارے میں کچھ بتا تا چلوں، موصوف کا شمار اچھے خاصے سیانوں میں ہوتا ہے، آئی ٹی میں پی ایچ ڈی ہیں، آج کل ایک عرب ملک میں پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب پہلی مرتبہ  ایک عرب ملک  کی  یونیورسٹی میں  انہوں نے ملازمت کے لئے اپلائی کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں  بلا کرصاف کہہ دیا کہ آج سے آپ  ان طالب علموں کے مرشد ہیں۔

مرشد کی اصطلاح سنتے ہی موصوف کے ذہن میں پاکستانی پیرومرشد گھومنے لگے۔وہ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایڈوائزر کو یہاں کی اصطلاح میں مرشد کہا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک مرتبہ انہیں کسی کام کے سلسلے میں تھانے جانے پڑا  تو وہاں ایک کمرے کے باہر لکھا تھا مکتب سیر و سلوک۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو خوش ہوئے کہ یہاں تو تھانوں سے میں بھی عرفانی باتیں ہوتی ہیں اور سیروسلوک کا شعبہ موجود ہے ، شاید بعض مجرموں کی سیروسلوک سے اصلاح کی جاتی ہو،  پوچھنے پر پتہ چلا کہ جس شعبے سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اسے یہاں کی اصطلاح میں مکتب  سیرو سلوک کہا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ  بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ یونیورسٹی کے طلاب کو اولی الامر سے بھی پالا پڑتا ہے۔ اولی الامر کے بارے میں چھان بین کی تو یہ جان کر ہنسی آگئی کہ یہاں گارڈین کو اولی الامر کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے چوک میں تیر کے نشان کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہو ہے ولایۃ مدحا، ہمیں بہت تجسس ہواکہ ولایت فقیہ تو سنا تھا اب یہ کونسی ولایت ہے، مقامی لوگوں نے استفسار پر بتایا کہ یہاں پر اس کلمے سے مراد ضلع ہے۔

موصوف کے مطابق، یونیورسٹی کے دفتر میں بعض ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آئے  کہ وہ کسی کو سامنے کھڑا کر کے انت حرامی کہہ دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فورا اس بدتمیزی کے خاتمے کے لئے ایکشن لینے کا سوچا تو ہمیں بتا یا گیا کہ یہاں غلطی کرنے والے کو حرامی کہا جاتا ہے ، لہذا اگر کوئی دفتری اہلکار کوتاہی کرے تو اسے محبت سے سمجھاتے ہوئے حرامی ہی کہاجاتا ہے۔

بات اصطلاحات کی ہی ہو رہی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ انتہائی نازک کام ہے۔ چالاک لوگ چند اصطلاحات کے ساتھ ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔مثلا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح، اس اصطلاح سے وہی لوگ استفادہ کررہے ہیں جو خود دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ اسی طرح دینی طالب علم کی اصطلاح کو ہی لیجئے،  یہ اصطلاح خود طالب علموں کا حق مارنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، مثلا آپ ایک کام  اگر کسی اور سے کروائیں تو اسے آپ کو حق زحمت دینا پڑتا ہے لیکن آپ ایک دینی  طالب علم سے اپنا کام نکلوائیں اور پھر  آرام سے کہہ دیں کہ آپ تو دینی طالب علم ہیں۔۔۔

دینی طالب علم بھی تو دو طرح کے ہیں، ایک وہ ہیں جو پاکستان اور بانی پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور پاکستان دشمنوں کے ایجنٹ ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو پاکستان کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں اور ملک و ملت کے تحفظ کی خاطر جان دینے کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔

آج کل ہمارے ہاں جو بھی دینی طالب علم ہو اسے دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہمارے حساس ادارے بلاتفریق سارے دینی طالب علموں کو ملک دشمن ہی سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ ملک دشمن دینی مدارس کی تنظیمیں، ٹرسٹ،مدرسے ، مساجد،مفتی ، مولوی، مراکز اور مذہب وغیرہ سب کچھ مشخص ہے۔

اپنے ملک کے سیکورٹی اداروں سے ہماری گزارش ہے کہ اگر آپ واقعی اس ملک کی سلامتی کے لئے مخلص ہیں تو پھر عام شہریوں خصوصا دینی طالب علموں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئیں، آپ ملکی سلامتی کے لئے بھرپور تحقیق اور تفتیش کریں لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ،اس انداز میں باز پرس کریں  کہ پاکستانی عوام   اور دینی طالب علم اس میں اپنی توہین یا خوف محسوس نہ کریں ۔

اسی طرح ہمارے ہاں استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح اقلیت کی بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں اقلیت میں ہونا کوئی جرم ہے۔ حتی کہ صفائی کے اشتہار میں بھی خاکروبوں کی بھرتی کے لئے  اقلیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خاکروب اس لئے خاکروب نہیں ہیں کہ وہ اقلیت میں ہیں ، بلکہ وہ اس لئے اس پیشے کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہیں۔لہذا خاکروب کے لئے اقلیت کے بجائے تعلیمی پسماندگی شرط ہونی چاہیے تاکہ لوگ کسی  اقلیت کو پسماندہ اور گھٹیا سمجھنے کے بجائے تعلیمی پسماندگی سے نفرت کریں ۔

حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ میں خاکروبوں کی بھرتی کے لئے  اقلیت میں ایک مسلمان فرقے کا نام بھی لکھا گیا، جس کے بعد لوگوں نے احتجاج کیا اور  خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اس پر معذرت کر لی۔

یہ معذرت کی اصطلاح بھی ایک فیشن بن گئی ہے۔  کیا اس لفظ معذرت سے حکومت  کی ذمہ داری ادا ہوگئی ہے!؟

اس معذرت کے بعد تو حکومت اور عوام سب کی اجتماعی ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔ اب ضروری ہے کہ ہم غلطی، احتجاج اور معذرت کے دائرے سے باہر نکلیں۔  بلاتفریق مذہب و مسلک تمام پسماندہ طبقات کے لئے ایسے خصوصی اور معیاری تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جہاں ہنگامی بنیادوں پر علم کی روشنی کو پھیلایاجائے۔

یاد رکھئے !سیانے بہت کچھ کہتے ہیں،مثلا جب موقع و محل تبدیل ہوتا ہے تو زبان و ادبیات کے تقاضے ، رہن سہن کے آداب اور سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔  اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے  فقط معذرت کے لفظ پر خوش ہوجانا بہت بڑی غلطی ہے۔ خوشی کا مقام تب ہے کہ جب  پسماندہ طبقات کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے ادارے اور سکول  بھی بنائے جائیں۔

ہمیں ایک لفظ کی غلطی پر معذرت طلب کرنے کے بجائے اس پر معذرت کرنی چاہیے کہ ہم ایک عرصے سے اپنے ملک میں  تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے فریضے سے غافل تھے۔ اس واقعے سے ہم جاگے ہیں اب معذرت کی لوریاں سننے کے بعد دوبارہ سوجانا کوئی عقلمندی نہیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) فضائل کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ذاتی فضائل اور دوسری نسبی فضائل ۔  ذاتی فضائل سے مراد وہ کمالات ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے ۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں اور وہ فضائل جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔ اس  مختصر مقالہ میں ہم حضرت  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے فضائل کا تقابلی جائزہ لینے کی کو شش کریں گے۔

۱۔خاندانی شرافت
قانون وراثت کے مطابق والدین کی صفات جیسے نجابت و شرافت  وغیرہ  فرزند کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔ابن عساکر اور ابن اسحق کے بیان کردہ شجرہ نسب کے مطابق حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے اور بنی اسرائیل کے امام تھے ۔ ان کی خاندانی شرافت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جناب عیسی ٰ علیہ السلام جسے اولوالعزم نبی اس خاندان سے آئے ۔قرآن کریم میں اس خاندان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:{ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحا و آل ابراھیم و آل عمران علی العالمین } بے شک اللہ نے آدم ، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ۔

جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی خاندانی شرافت تمام مسلمانوں کیلئے روشن ہے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس خاندان سے محبت کو  اجررسالت قرار دیا ہے ۔امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق اوپر والی آیت میں آل ابراہیم سے مراد خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے ۔ اس کے علاوہ آیت تطہیر میں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں واضح  طور پر فرمایا ہے ۔سورۃ ابراہیم میں اس خاندان کو شجرۃ مبارکۃ  سے تعبیر کیا ہے اسی طرح سورہ انسان اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں نے نازل ہواہے ۔

۲۔والدین   
 جناب مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران تھے اور ان کا سلسلہ نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے ملتا ہے امام صادق علیہ السلام واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جناب عمران اور جناب زکریا دونوں اپنے دور کے پیغمبروں میں سے تھے ۔  
جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکے والد گرامی محمد بن عبداللہ خاتم انبیاء اور خاتم الرسل ہیں۔ آپ تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ ہیں انہی کی وجہ سے خداوند عالم نے کائنات کو خلق فرمایا : یا احمد ! لولاک کما خلقت الافلاک  اے احمد میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا ۔
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ اپنے زمانے کی عبادت گزار خاتون تھیں اور صاحب اولاد نہیں تھی انھوں نے خدا سے اولاد کی دعا کی تو لطف الہی سے حاملہ ہوئیں ۔ان کی شرافت اتنی تھی کہ خدا ان کی نذر قبول کر کے فرماتا ہے {فتقبلھا ربھا}  اس کے رب نے اسے قبول کیا۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی وہ عظیم خاتون ہیں جس کے بارے میں رسول  خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ۔ {واللہ ما اخلف لی خیرا منھا ، لقد اٰمنت بی اذکفر الناس صدقتنی اذکذبنی الناس ۔۔۔۔۔} خدا کی قسم ! مجھے خدیجہ سے بہتر بیوی عطا نہیں کی گئی ۔ اس نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے ۔ اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ۔ دوسری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب زہراء سلام اللہ علیہاسے فرماتے ہیں { ان بطن امک کالامامۃ و عاء} گویا تیری والدہ کا شکم امامت کے لئے ایک ظرف کی مانند تھا ۔ جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کئے۔ جناب خدیجہ ان چار خواتین میں سے ہیں کہ بہشت ان کی مشتاق ہے۔  

۳۔اسم گذاری
جناب مریم سلام اللہ علیہاکا نام ان کی والدہ نے رکھاجیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{ انی سمیتھا مریم }  میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا جس کا معنی عابدہ اور خدمتگزارکے ہے ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکا نام خداوند عالم کی جانب سے معین ہوا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نو اسماءہیں :فاطمہ ، صدیقہ ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ ، محدثہ اور زہرا  ۔  امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی ولادت ہوئی تو خدا نے ایک فرشتہ کو بھیجا تا کہ نام فاطمہ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا۔

۴۔ظاہری حسن
امام باقر علیہ السلام جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتے ہیں:{ اجمل النساء}  وہ ساری عورتوں سے زیادہ خوبصورت خاتون تھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن ان عورتوں کے سامنے جو اپنی خوبصورتی کو فساد کا بہانہ قرار دیتی ہیں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو پیش کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم مریم سلام اللہ علیہا سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ؟  
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتے ہیں :{ کانت فاطمۃ سلام اللہ علیہاکوکبا دریا بین النساء العالمین } حضرت زہراء سلام اللہ علیہاعالمین کی تمام عورتوں کے در میان ستارہ ضوفشاں ہیں ۔ بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکو زہرا ان کے نورانی چہرے کی وجہ سے کہا گیا  ہے۔ رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ فاطمۃ حوراء الانسیۃ } فاطمہ انسانی شکل میں حور ہیں ۔ مجموعہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب سیدہ کے چہرے سے نور پھوٹتا تھا اور وہ چودھویں چاند کی طرح چمکتا تھا جب مسکراتی تھیں تو ان کے دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔
۵۔ایمان کامل
حضرت مریم سلام اللہ علیہااورحضرت زہراءسلام اللہ علیہا دونوں ایمان کامل کے درجہ پر فائز تھے۔ جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں:{ کمل من الرجال کثیر و لم یکمل من النساءالا مریم بنت عمران و آسیۃ امراۃ فرعون و فاطمہ } مردوں میں سے بہت سارے لوگ  ایمان کامل کے درجے پر فائز تھے لیکن عورتوں میں سے سوائے مریم بنت عمران ،آسیہ اور فاطمہ کے کوئی کامل نہیں ۔

۶۔ ظاہری آلودگیوں سے پاک
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو خط نجاشی کو لکھا اس میں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بتول کے نام سے یاد  فرمایا ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق مریم سلام اللہ علیہا اور فاطمہ سلام اللہ علیہادونوں بتول تھیں ۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ بتول سے مراد کیاہے ؟ تو فرمایا :{البتول لم ترحمرۃ قط ای لم تحضن فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیاء} بتول یعنی وہ خاتون جس نے کبھی سرخی نہیں دیکھی ہو یعنی کبھی حائض نہ ہوئی  ہوکیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں کیلئے ناپسند ہے۔ قندوزی نے ینابیع المودۃ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بتول اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ خداوند عالم نے اسے حیض و نفاس سے دور فرمایا ہے ۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے لئے صفت طہارت کا ہونا قطعی امر ہے جبکہ جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں روایات مختلف ہیں بعض روایات کے مطابق خاص دونوں میں جناب مریم سلام اللہ علیہامسجد سے باہر جایا کرتی تھی ۔  

۷۔کفیل اور سرپرست
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی ان کی ولادت سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھی ان کی والدہ نے ان کومعبد کے لئے نذر کر چکی تھی جب مریم سلام اللہ علیہا کو معبد منتقل کردی گئی تو معبد کے راہبوں کے درمیان ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف ہوا اس لئے قرعہ اندازی ہوئی تو جناب زکریا کا نام آیا جو کہ بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے خالو تھے۔  {و کفلھا زکریا}  
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے کفیل اور سرپرست ان کے بابا حضرت محمد مصطفی  ہیں ۔حضرت زکریا علیہ السلام جب جناب مریم سلام اللہ علیہاکے محراب عبادت میں داخل ہوتے تھےتو غیر موسمی پھل دیکھ کر حیران ہوجاتے تھے لہذا پوچھتے تھے :{کلما دخل علیہا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم سلام اللہ علیہا انی لک ھذا } اسی طرح بی بی دو عالم فاطمہ سلام اللہ علیہاکی کرامات دیکھ کر اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  جیسے سلمان و ابوذر بی بی حیران ہوجاتے تھے ۔

۸۔عصمت اور طہارت
خداوند عالم نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو نجاستوں سے پاک فرمایا :{و اذ قالت الملائکۃ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ اصطفک و طھرک۔۔۔۔۔}  ( وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا بے شک اللہ نے تمھیں برگزیدہ کیا ہے اور تمھیں پاکیزہ بنایا ہے۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکیلئے اللہ تعالی  فرماتا ہے:{ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطہرکم تطہیرا}  اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی پاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ یقینا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا قطعی طور اس آیت کی مصداق ہیں بہت سارے اہل سنت مفسرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاجزء اہل بیت اور اس آیت میں شامل ہیں ۔

۹۔تمام خواتین پر فضیلت
جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اپنے زمانے کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے جب کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو تمام زمانوں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ خداوند عالم جناب مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتا ہے:{ ان اللہ اصطفاک و طہرک و اصطفاک علی نساء العالمین} جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی فضیلت تمام زمانے کے عورتوں پر ہے اور اس کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ کانت مریم سیدۃ  نساء  زمانہا اما ابنتی فاطمہ فہی سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الاخرین } جناب مریم   اپنے زمانے کی تمام عورتوں کی سردار تھی لیکن فاطمہ تمام زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہامحراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ۷۰ ہزار مقرب فرشتے ان کو سلام کرتے تھے اور اور کہتے تھے اے فاطمہ! خداوند عالم نے تجھے چن لیا، پاک کردیا اور تجھے تمام عورتوں پر فضیلت دی ہے ۔  

۱۰۔فرشتوں سے ہم کلام ہونا
جناب مریم سلام اللہ علیہامحدثہ تھی اور جبریل ان پر نازل ہوتے تھے :{ قالت الملائکہ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ یبشرک ۔۔۔۔}  جب جناب مریم سے فرشتوں نے کہا اے مریم! خدا تجھے اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ جناب مریم سلام اللہ علیہاسے گفتگو کرتے ہیں:{فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا} جناب مریم سلام اللہ علیہاجب حاملہ ہوئیں اور بہت زیادہ غمگین ہوئیں تو آواز آئی اے مریم غمگین نہ ہوجاؤ:{ فناداھا من تحتھا الا تحزنی }  
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بھی محدثہ تھیں امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو محدثہ کہتے ہیں کیونکہ فرشتے آسمان سے ان پر نازل ہوتے تھے اور اسی طرح ندا دیتے تھے جیسے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو دیتے تھے ۔ مصحف فاطمہ فرشتوں سے فاطمہ سلام اللہ علیہاکی گفتگو کا نتیجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان عندنا مصحف فاطمہ }ہمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہاہے ۔ حضرت زہراء جب اپنے بابا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بہت زیادہ غم و اندوہ سے دچار ہوئیں تو خداوند عالم نے ان کو تسلی دینے کیلئے جبرئیل اور فرشتوں کو بھیجا تا کہ ان کو تسلی دیں ۔ امام خمینی  رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زہراء کی سب سے بڑی فضیلت  ۷۵ یا ۹۵ دن تک جبرئیل امین کا مسلسل در خانہ زہرا پر نازل ہونا ہے،اوریہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مخصوص فضیلت ہے ۔

۱۱۔کرامت اور تصرف تکوینی
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے کھجور کے خشک درخت کو ہلا یا تو فورا پھل دار درخت بنا اور تازہ کھجوریں نکل آئے اور جناب مریم سلام اللہ علیہانے اسے تناول کیا ۔ {و ھزی الیک بجذع النخلۃ ۔۔۔۔ جنیا} اس کھجور کے درخت کی ٹہنی کو ہلاؤ تیرے لئے تازہ کھجوریں گریں گی ۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہابھی صاحب کرامات تھیں اور آپ کے بہت ساری معجزات آپ کے تصرف تکوینی کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ چکی کا خود بخود چلنا ۔ بچوں کے جھولے کا خود بخود جھولنا  غذا کا آمادہ ہونا وغیرہ ۔یہ آپ کی تصرفات تکوینی کی مثالیں ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں : کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نےامام علی علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا جب میں امام علی علیہ السلام کے گھر
گیا اور آواز دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا لیکن میں نے دیکھا کہ چکی خود بخود چل رہی ہے اور گندم آٹے میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ کوئی بھی چکی کے پاس کوئی بھی نہیں ہے ۔ میں واپس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں  نےایسی چیز دیکھی جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی میں حیران ہوں امام علی علیہ السلام کے گھر میں چکی خود بخود چل رہی تھی اور کوئی بھی چکی کے پاس نہیں تھا ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر لحاظ سے خداوند عالم نے میری بیٹی کے دل کو یقین سے اور اس کے وجود کو ایمان سے پر کردیا ہے ۔

۱۲۔بہشتی غذا کا ملنا
 بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہشتی کھانے خدا کی طرف سے ان کو میسر ہوتے تھے:{ کلما دخل علیہا زکریا۔۔۔ وجد عندھا رزقا ۔۔۔۔بغیر حساب}
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکے لئے بھی مختلف مواقع پر بہشتی غذا  میسر ہوئے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانے پر دعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام  اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{ہو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیہۃ سیدۃ نساء بنی اسرائیل} تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔

۱۳۔مصائب و آلام
مشکلات کمال کے راستے میں ایک موثر عامل اور تقرب الہی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا خداوند عالم کے تمام اولیاء خاص مصائب و آلام کے شکار بھی ہوئے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان اشد الناس بلاء النبیون ثم الوصیون ثم الامثل فالامثل ۔۔۔۔} جناب مریم سلام اللہ علیہابھی بہت سارے مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہوئیں پوری زندگی والدین سے جدا ہونا ، بچپن میں بیت المقدس کی خدمتگزاری، تمام تر طہارت کے باوجود لوگوں کے ان کے بارے میں سوء ظن کرنا اور تہمت لگانا ، جناب عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کسی کا پاس نہ ہونا  ، باپ کے بغیر بچے کی پرورش کرنا یہ سارے مصائب و مشکلات  جناب مریم سلام اللہ علیہاپر آئے  ۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے مصائب و   مشکلات بے شمار ہیں۔ جب مادر گرامی کے شکم میں تھیں تب بھی اپنی والدہ کی تنہائی اور پریشانی
کو درک کرتی تھیں جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام تر مشکلات اور اذیتوں کومشاہدہ کیں۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے بابا کے ساتھ شعب ابی طالب میں میں محصور ہوئیں اور  اس کے بعدرسول خدا کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوہ احد کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وفات کے بعد زہراء پر مصائب کا ہجوم آیا اور ایک نئی رخ سے مصائب کا آغاز ہوا اور آپ مسلسل گریہ کرتی رہیں ۔ آپ کا پہلو شکستہ ہوگئی آپ کا فرزند محسن شہید ہوا اس قدر مصیبتیں آئی کہ آپ موت کی تمنا کرنے لگیں ۔

۱۴۔موت کی آرزو
جناب مریم سلام اللہ علیہا شدت غم اور لوگوں کے جھٹلانے کی وجہ مرنے کی آرزو کرتی ہیں :{یا لیتنی مت قبل ھذا } اے کاش میں اسے پہلے مرگئی ہوتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی شدت غم کی وجہ سے مرنے کی آرزو کرتی تھیں اور فرماتی تھیں :{اللہم عجل وفاتی سریعا } خدایا ! جلد از جلد میری موت آئے خداوند عالم نے بھی ان کی دعا قبول کی ۔

۱۵۔ روزہ سکوت
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے نادان لوگوں کی اہانت کے مقابلے میں سکوت کا روزہ رکھا تھا اور ان کے ساتھ بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا { فلن اکلم الیوم انسیا} میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی ۔
جناب فاطمہ زہرا نے بھی خلیفہ اول و  دوم کے سامنے سکوت اختیار کی اور ان سے بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا اور فرمایا کہ میں ہرگز ان سے بات نہیں کروں گی:{  واللہ لااکلمک ابدا}  خدا کی قسم ! میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گی ۔

۱۶۔پاکیزہ  فرزند
 حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں قرآن میں آیا ہے :{ اللتی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا } مریم بنت عمران نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہیں ہم نے اپنی روح اس میں پھونک دی ۔خداوند عالم نے ان کی پاکیزگی کے نتیجے میں اپنی روح ان میں پھونک دی جس کے نتیجے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ خداوند عالم نے جناب زہراء سلام اللہ علیہاکو ان کی پاکدامنی کے نتیجے میں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے طاہر فرزند عطا کیے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :{ان فاطمۃ سلام اللہ علیہااحصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار} بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی پس خدا نے ان کی نسل پر آگ حرام کر لیا۔
حسان بن ثابت اسی بات کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے :
و ان مریم سلام اللہ علیہا احصنت فرجھا و جاءت بعیسی علیہ السلام کبدر الدجی
فقد احصنت فاطمۃ سلام اللہ علیہابعد ھا و جاءت بسبطی نبی الھدی۔  
بے شک جناب مریم سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور چاند جیسے حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں لائیں ۔
فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی عصمت کی حفاظت کی اور رسول خدا کے دو نواسوں کو دنیا میں لائیں ۔
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہتےہیں :
                                                               آن یکی شمع شبستان حرم
                                                                حافظ جمعیت خیر الامم
اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
                                                              تانشیند آتشِ پیکارو کین
                                                              پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین
امام حسین علیہ السلام کے بارے میںعلامہ اقبال کہتے ہیں :
                                                        آن دگر مولائے ابرارِ جہان
                                                        قوتِ بازوئے احرارِ جہان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا و سردار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے وہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  کا بیٹا حسین علیہ السلام ہے۔

۱۷۔عبادت و بندگی
قرآن کریم حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتا ہے:{ و کانت من القانتین } ان آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہامسلسل اطاعت ، نماز ، طولانی قیام اور دعا میں مشغول  رہتی تھیں ۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہانے اس قدر عبادت کی کہ لوگ ان کی مثال دیتے تھے ۔ جناب مریم سلام اللہ علیہا محراب میں خدا کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی محراب عبادت میں خدا سے راز و نیاز کرتی تھیں امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں :{اذا قامت فی محرابہا    ۔۔ نورھا لاہل السماء} جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو اہل آسمان کیلئے ان کا نور چمکتا تھا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی مختصر زندگی میں اس قدر عبادت کی کہ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے شب جمعہ اپنی والدہ کو محراب عبادت میں دیکھا کہ وہ مسلسل رکوع و سجود بجالاتی رہیں یہاں تک کہ صحیح کی سفیدی نمودار ہوئی اور میں نے سنا کہ مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا کرتی تھیں۔  حسن بصری کہتا ہے کہ اس امت میں فاطمہ سلام اللہ علیہاسے بڑھ کر کوئی عبادت گذار نہیں ملتا اس قدر عبادت میں کھڑی رہیں کہ ان کے پاؤں میں ورم آچکے تھے ۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عبادت و قنوت اس حد تک تھی کہ آپ مصداق آیہ کریمہ  {الذین یذکرون اللہ قیاما و قعوداً} تھیں  ۔

۱۸۔معصوم کے ہاتھوں غسل
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی وفات کے بعد جناب عیسی علیہ السلام نے انھیں غسل دیا ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بھی امام علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا ۔مفضل نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کس نے غسل دیا تھا  فرمایا : امیر المومنین علیہ السلام نے۔ مفضل کہتا ہے میں یہ بات سن کر حیران ہوا لہذا امام نے فرمایا گویا تم یہ بات سن کر غمگین ہوئے ہو میں عرض کیا جی ہاں میری جان آپ پہ قربان !ایسا ہی ہے ۔ امام نے مجھ سے فرمایا غمگین نہ ہو جاؤ، کیونکہ فاطمہ سلام اللہ علیہاصدیقہ تھیں اور سوائے صدیق کے کوئی غسل نہیں دے سکتا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مریم سلام اللہ علیہا کو سوائے عیسی علیہ السلام کے کسی اور نے غسل نہیں دیا۔  

حوالہ جات:
   امام حافظ ، عماد الدین ، قصص الانبیاء ، ص ۵۴۰۔
   آل عمران : ۳۳۔
   شوریٰ : ۲۳۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۶۶۔
   الاحزاب : ۳۳۔
  ابراھیم : ۲۴۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۲ ، ص : ۱۸۴۔
   قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، ص : ۶۳۔
   مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ، ج ۱۴، ص ۱۹۴۔
   آل عمران ، ۳۷۔
   محدث اردبیلی، کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۷۹۔
  مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۴۳۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص ۵۳۔
   آل عمران : ۳۶۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۷۳۔
   محدث اردبیلی ، کشف الغمہ ، ج:۱ ، ص ۴۳۹۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج۴۳، ص : ۱۳۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ج۱۴ ، ص ۲۰۴۔
   یضاً ، ص: ۱۹۲۔
   بحرانی، ھاشم بن سلیمان، البرھان فی تفسیر القرآن ، ج۴ ، ص : ۶۶۔     
  قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، مترجم الطاف حسین  ص ۲۳۱۔
   ایضاً ، ص : ۱۸ ۔
   سیوطی ، عبدالرحمن ، الدر المنثور ، ج۲ ، ص : ۲۳۔
   آیتی ، عبدالمحمد، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۴۳۴۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص : ۱۴۔
   قندوزی ، سلیمان، ینابیع المودۃ، ص : ۳۲۲، حدیث : ۹۳۰ ۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ص ۱40، ص ۱۹۷۔
   حافظ، عماد الدین ، قصص الانبیاء، ص : ۵۴۰۔
   آل عمران ، ۳۶۔
   آل عمران : ۳۷۔
   آل عمران : ۴۲۔
   الاحزاب :۳۳۔
   طبرسی، جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ج: ۲۲، ص : ۷، سیوطی ، عبدالرحمن ، الدرالمنثور، ج۵، ص : ۱۹۸، قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ ، ج۱،ص :۳۱۹۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار، ج۴۳، ص : ۲۲، ۲۴، ۷۸۔
   مکارم شیرازی، زہراء برترین بانوی جہان۔
   ایضاً، ص : ۴۹۔
   آل عمران : ۴۵۔
   مریم : ۱۹۔
   مریم : ۲۴۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۷۸۔
   مجلسی ،محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۷۹۔
   مریم : ۲۵۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۲۹۔
   ایضاً : ص: ۴۵۔
   ایضا:ص :۳۰۔
   آل عمران :۳۷۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۲۷، ۳۱ اور ۷۷۔
   زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے در المنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں ۔
   خمینی رحمۃ اللہ علیہ  ، روح اللہ ، چہل حدیث ص : ۲۰۳۔
   مجلسی ، محمدباقر ، بحارالانوار ج ۴۳، ص : ۴۳۲۔
   نجمی محمد صادق ، سیری در صحیحین ، ص ۳۲۴۔
   ایضاً ، ص : ۳۲۵۔
   مریم : ۲۳۔  
   دشتی ، محمد، فرھنگ سخنان حضرت زھرا، ص : ۱۷۷۔
   مریم : ۲۶۔
   قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد، ص : ۵۷۱۔
   تحریم : ۱۱۔
   شافعی ، ابراہیم ، فرائد السمطین ، ج۲ ، ص ۶۵۔
   مجلسی ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۵۰ ۔
   تحریم : ۱۲۔
   آیتی ، عبدالحمید، تاریخ ابن خلدون ، ج:۱، ص : ۱۶۰۔
  ابن بابویہ، محمد بن علی ، علی الشرائع ص : ۱۸۱۔
   ابن بابویہ ، محمد علی، علل الشرائع ، ص : ۱۸۲۔
   مجلسی ، محمد باقر ،بحارالانوار ، ج ۷۶، ص : ۸۴۔
   ٓل عمران : ۱۹۱۔
   ابن بابویہ ، محمد علی ، علل الشرائع ص : ۱۸۴۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) یمن پر سعودی حملے " عاصفۃ الحزم " کی تباہ کاریوں پر قوام متحدہ میں پیش کی جانے والی رپورٹ سے اقتباس . "یمنی عوام پر سعودی عاصفۃ الحزم جارحیت کے 700 دن گزر جانے کے بعد کے نتائج مندرجہ ذیل ہیں. - مقتولین کی تعداد 23042 شخص جن میں 2568 بچے 1870 خواتین اور 7603 بوڑھے شامل ہیں. - 400 گھر مکمل طور پر تباہ. 706 مساجد ، 5513 تجارتی مراکز ، 270 ہاسپٹلز ، 757 اسکولز اور کالجز ، 313 پٹرول پمپ ، 535 بازار ، 1616 حکومتی مراکز ، 15 اٰئر پورٹ ، 1565 زرعی فارم ، 2517 گاڑياں ، 14 بندرگاہیں ، 1520 پل........... 26 فروری 2017 کی انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق 70 لاکھ افراد غذا نہ ملنے کے سبب بھوک کا شکار ہیں. اقوام متحدہ کی 8 فروری 2017 کی رپورٹ کے مطابق 82% لوگوں کو زندہ رھنے کے لئے فوری امداد کی ضرورت ہے......." ایسی صورتحال میں وہاں کیا ہماری فوج امدادی کیمپ لگائے گی ؟ یا سفاکوں کی سفاکیت میں شریک ہوگی.؟ اگر ہم جارحیت کو روکنے میں کردار ادا نہیں کر سکتے تو اس ظلم میں شریک ہونا کہاں کی انسانیت ہے.؟ کیا اس اقدام سے پاکستان میں بے چینی پیدا ہوگی یا امنی مسائل بڑھیں.؟ سعودیہ اگر دوست ملک ہے تو پمن نے کب ہمارے ساتھ دشمنی کی ؟ جناب صدر مملکت؛ آپکے ممنون ہیں ، ایک سال چپ کا روزہ اور رکھ لیں. جناب والا منصور ہادی وھاں کا آئینی صدر نہیں اور نہ ہی وھاں رھتا ہے. میڈیا کے اس دور میں فریب دینا آسان نہیں اور ساری دنیاجانتی ہے کہ : سعودیہ یمن میں اپنے پٹھو اس شخص کو لانا چاہتا ہے جسے وہاں کی عوام کی بھاری اکثریت نہیں چاہتی.اور اسکی دستوری مدت بھی حالات خراب ہونے سے پہلے ختم ہو چکی تھی. اور شام میں اس حکومت کو سعودیہ گرانا چاہتا ہے جسکو وھاں کی اکثریتی عوام کی حمایت حاصل ہے. اور ان ظالمانہ خلیجی بادشاہتوں کے اقتدار نشینوں کو حق نہیں کہ جمہوریت کی خاطر ہمسايہ اور دیگر مسلم ممالک کے امن کو تباہ کریں. آخر ہم کب تک خلیجی ریاستوں اور شاہی خاندانوں کے اقتدار کو طول دینے کی خاطر وہاں کی بے بس عوام پر ظلم میں شریک ہونے کی پالیسی پر چلتے رہیں گے.؟اور اپنے جوان کبھی بحرین اور کبھی سعودیہ اور کبھی دیگر ممالک میں بھیج کر وہاں کی پسی ہوئی عوام کی بد دعائیں ، نفرتیں اور بدنامیاں پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے رہیں گے. " مظلوموں کے خون سے تر نوالہ ہمیں قبول نہیں "

 

تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

ذرا حکومت سے ہٹ کر!

وحدت نیوز (آرٹیکل) میں ایک سال میں تیسری مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں، دینی اداروں اور دینی مدارس کا موضوع انتہائی اہم ہے،  اگر معیاری دینی  اداروں؛ خصوصاً دینی مدارس کی بھرپور معاونت اور سرپرستی کی جائے تو بلاشبہ بڑی حد تک معاشرے سے جہالت، افلاس اور پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔

 معاشرہ سازی میں دینی مدارس اپنی مثال آپ ہیں، رضاکارانہ طور پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ،دینی مدارس کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے ہاں جہاں پر مخلص علمائے کرام اور با اصول لوگوں کی کمی نہیں وہیں پر دین کے نام کی تجارت کرنے والوں کی بھی بھرمار ہے۔

دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے اکثر اوقات دیندارلوگ خاموش رہتے ہیں۔ اس خاموشی کی ایک وجہ لوگوں کی دین سے محبت اور ہمدردی بھی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے تحقیق کا دروازہ کھولاتو شاید دین کا نقصان ہوجائے گا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کا نقصان تحقیق کے بجائے غیرمعیاری دینی مدارس سے ہورہاہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے نصاب اور اساتذہ کو بھی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے لیکن اس میں بحث کی گنجائش موجود ہے کہ کس مدرسے کو حقیقی معنوں میں ایک دینی مدرسے کا عنوان دیا جانا چاہیے۔

ہمارے ہاں ابھی تک علمائے کرام نے ملکی سطح  پرایک دینی مدرسے کے عنوان کے لئے  کوئی معیار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قسم کی منصوبہ بندی  کی ہے ۔ اس عدمِ معیار کی وجہ سے بعض اوقات ایسے بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ   کچھ جگہوں پر دینی مدارس کا عنوان فقط  پیسے جمع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

کسی بھی چاردیواری میں اِدھر اُدھر سے  مجبوری کے مارے ہوئے چند بچے اکٹھے کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان کے نام پر صدقات و عطیات کی جمع آوری شروع ہو جاتی ہے۔بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں سے کئی کئی لاکھ روپے فطرانہ جمع ہوتا ہے لیکن وہاں موجود بیواوں اور یتیموں کی بدحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

بعض جگہوں پر ایسے بھی ہوا ہے کہ  کچھ متولی کہلوانے والے حضرات پہلے تو صدقات و عطیات سے  ایک مدرسے کی بلڈنگ کھڑی کرتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر ہوتی ہے پھر لائبریری اور پھر۔۔۔ ایک لمبے عرصے تک یہ تعمیرات ہی ختم نہیں ہوتیں اور پھر اس مدرسے کے طالب علموں کی مدد کے عنوان سے گھر گھر میں چندہ باکس رکھ کر  منتھلی آمدن کا بھی انتظام کیا جاتا ہے، ا س کے علاوہ قربانی کی کھالیں اور فطرانہ بھی جمع کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ایک متولی کہلوانے والے فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتاہے اور پھر اسی شخص کی نسلوں کو آگےمنتقل ہوتا رہتا ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں دینی طالب علموں کے لئے کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں،تعلیم کے بعد روزگار نہیں، اگربیمار ہوجائیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگرخدانخواستہ  حادثہ ہوجائے تو کوئی سہارا دینے والا نہیں ،اس ملک میں ایسے دینی مدارس بھی ہیں جنہوں نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی طلاب کی خدمت کے نام پر مختلف  مارکیٹیں ، ہوٹل اور حسینئے(امام بارگاہیں)بھی بنا رکھے ہیں لیکن اگر کوئی دینی طالب علم کبھی مجبوری سے کسی ہوٹل یا حسینئے میں رہنے کے لئے چلا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی بلکہ سب سے گندے کمرے طالب علموں کو ہی دئیے جاتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے لوگوں نے اپنے اوپر مختلف  اداروں کے لیبل بھی لگا لئے ہیں ، اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ فلاں تنظیم، انجمن یا ٹرسٹ کا مدرسہ ہے جبکہ عملاً سب کچھ فردِ واحد کے پاس ہی ہوتا ہے۔

حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر ہمارے ہاں کے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک طرف تو نصاب، اساتذہ اور طلاب کی تعداد کے حوالے سے دینی مدارس کے عنوان کے لئے ایک معیار طے کریں اور کسی بھی شخص کو دینی مدرسے کے معیار کو پامال کرنے  کی اجازت نہ دیں۔ جبکہ دوسری طرف مخیر حضرات کو یہ شعور دینا بھی علمائے کرام کی ہی ذمہ داری ہے کہ  دیانت دار اور امین لوگوں تک  وجوہات شرعی پہنچائے بغیر ان کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی۔

لہذا مخیر حضرات کسی بھی ادارے  کے پمفلٹ پڑھ کر یا کسی کی باتوں سے متاثر ہوکر اسے  عطیات و وجوہات دینے کے بجائے ممکنہ حد تک اس  ادارے کا وزٹ کریں، اس کے طالب علموں کا رزلٹ دیکھیں، اس کے اساتذہ کی علمی صلاحیت اور معیار کا پتہ لگائیں، اس ادارے کے ممبران یا ٹرسٹیز  کے بارے میں معلومات لیں کہ واقعتا سب کچھ چیک اینڈ بیلنس کے تحت ہورہاہے یا فقط ادارے کا نام استعمال ہورہاہے۔ یہ بھی دیکھنے والی چیز ہے کہ جو لوگ دینی و جدید تعلیم کے حسین امتزاج کا  نعرہ لگاتے ہیں ان کے بارے میں یہ بھی معلوم کیا جائے کہ وہ خود کس قدر جدید تعلیم سے آشنا ہیں۔

المختصر یہ کہ مخیر حضرات کو چاہیے کہ کسی بھی ادارے کی پراسپیکٹس اور ادارے کی حقیقی صورتحال کا  خود یا  کسی بھی ممکنہ طریقے سے  ضرور جائزہ لیں۔

یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ ہم حکومتی کاموں پر تو تنقید کرتے ہیں اور حکومتی امور کوٹھیک کرنے کے لئے احتجاج کرتے ہیں لیکن دینی امور اور اداروں میں اصلاح کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم ملک کی بہتری کے لئے تو یہ سوچتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونے چاہیے، سربراہ کو بدلنا چاہیے، اقتدار کو موروثی نہیں ہونا چاہیے،نئے لوگوں کو موقع ملنا چاہیے لیکن دینی اداروں کی نسبت یہ سوچ ہمارے دماغوں میں کبھی نہیں آتی۔

عجیب بات ہے یا نہیں کہ پورے ملک کو چلانے کے لئے ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور  ایک نیا مدیر مل جاتاہے لیکن بعض دینی  مدارس کو چلانے کے لئے   الیکشن اس لئے بھی نہیں ہوتے چونکہ نیا مدیر ہی  نہیں ملتا اور اگر نیا مدیر مل بھی جائے تو وہ پہلے والے مدیر کا بھائی، بیٹا، پوتا، بھتیجا ، بھانجا یا داماد وغیرہ ہی ہوتا ہے۔یعنی پہلے والے مدیر کے خاندان کے علاوہ کسی اور میں مدیریت کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی۔

دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے  لوگ احتجاج کی سوچتے بھی نہیں، اگر ایک مسلک کے دینی مدارس میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی ٹریننگ دی جائے تو دیگر مسالک کے لوگ اور علما خاموش رہتے ہیں، اگر کسی نام نہاد مولوی کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں تو اس کے خلاف کہیں کوئی ریلی نہیں نکلتی، اگر کوئی مولوی صاحب طالبان کے کتے کو بھی شہید کہیں تو لوگ اس پر بھی خاموش رہتے ہیں، شاید لوگ اس خاموشی کو بھی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ مخلص اور جیدعلمائے کرام کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دینی مدارس کا معیار طے کریں اور  لوگوں میں دین کی نسبت درد کو بیدار کریں تا کہ وہ   تحقیق  سے ڈرنے کے بجائے   خوب تحقیق کریں اور اس کے بعد  حقیقی  معنوں میں خدمت دین کرنے والےدینی مدارس کی مدد و معاونت کریں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام میں عقل اور تفکر عقلی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے  یہاں تک کہ اسلام کے منابع میں سے ایک عقل کو قرار دیا گیا ہے۔عقل کی حجیت کی واضح دلیل یہی ہےکہ خود وجود خدا اور ضرورت دین عقلی تفکر اور عقلی استدلال  پر موقوف ہیں ۔
قرآن کریم اور تفکر عقلی :
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر تفکر عقلی پر زور دیا گیا ہے جیساکہ ارشادہوتا ہے :بے شک زمین وآسمان کی خلقت اورروز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔جولوگ اٹھتے ،بیٹھتے اورلیٹتے ہوئےخدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں ،کہ خدایا تو نے یہ سب بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے۔تو ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔۱
قرآن کریم نظام خلقت کے بارے میں غوروفکر کرنے والےافراد کی تعریف کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرتاہےجو دنیا کےحقایق کی شناخت کے لئے اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے تا کہ خدا شناسی کے مرحلے تک پہنچ جائیں۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔۲
اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ہوتا ہے : اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قراردیتاہے جوعقل سے کام نہیں لیتےہیں۳۔ اس کےعلاوہ قرآن کریم دینی عقائدکے اثبات کے لئے برہان اور عقلی استدلال سے استفادہ کرتا ہے ۔جیسے توحید خداوند کے بارے میں فرماتا ہے ۔ا گر زمین وآسمان میں اللہ کےعلاوہ اور خدا ہوتے توزمین وآسمان دونوں برباد ہوجاتے ۔۴۔ اسی طرح قیامت کےاثبات پراس دلیل کا ذکر کرتا ہے۔کیاتمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نےتمہیں بیکار پیداکیا ہےاور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاؤگے؟ ۔۵۔ اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کے لاز م ہونے کے بارے میں استدلال کرتا ہے ۔اورکیا جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے ؟  آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔۶۔
ان کے علاوہ اوربھی بے شمار نمونے موجود ہیں۔قرآن کریم مشرکین اور کفار سے ان کے عقائد کے بارے میں دلیل طلب کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل لے آوٴ۔” اس کے بعد صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یہ اپنے ظن پرعمل کرتے ہیں اور اہل یقین نہیں ہیں ۔۷۔یہ صرف گمان کا اتباع کرتےہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۸۔قرآن کریم کی نظر میں مشرکین و کفار کی سوچ یہی تھی کہ وہ اپنے آباءواجداد کی روش پر چلتے تھے حالانکہ ان کی روش غیر عاقلانہ تھی۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے  :جب ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس  روش کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ و دادا کو پایا  ہے ۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بےعقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہےہوں؟۹۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال احسن کے ذریعے لوگوں کو توحید اور دین کی دعوت دینےپر مامور تھے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتاہے:آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین ہو۱۰۔ اس عقلی روش کے مختلف مراحل ہیں۔موعظہ حسنہ پہلامرحلہ ہے، جدال درمیانی مرحلہ ہے  جبکہ حکمت آخری مرحلہ ہے۔
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی عقائدکےبیان میں ان تین طریقوں سے استفادہ فرمایا ہے جیسا کہ اس کے کچھ نمونے قرآن کریم ، احادیث اورتاریخ کی کتابوں میں مذکورہیں ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے ۔ الف:خداوند متعال کہاں ہے ؟ ب:خداوند متعال کا  وجودکیسا ہے ؟آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا:
الف: خداوند متعال کے لئے خاص جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ محدود نہیں ہے لہذا وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
ب:خدا وند متعال کو کیفیت کے ذریعے بیان نہیں  کیا جا سکتاکیونکہ کیفیت خود مخلوق ہے اور ہم مخلوقات کے ذریعے اس کی صفات بیان نہیں کر سکتے ۔۱۱۔اسی طرح ایک اور یہودی عالم نے آپ ؐسے مختلف چیزوں کے بارےمیں سوال کیا تو آپ ؐنے تمام سوالوں کے جوابات دیے۔
پہلا سوال :آپ وجود خداوند متعال کو کس طرح ثابت کریں گے ؟آپ ؐنے فرمایا:اس کی نشانیوں اور آیات کے ذریعے۔
دوسراسوال:تمام انسانوں کو اسی نے خلق کیا ہے ۔پھر صرف بعض افراد کو رسالت کےلئے کیوںمنتخب کیا ہے ؟
آپ ؐنے فرمایا : کیونکہ یہ افراد دوسروں سے پہلے خداوند متعال کی ربوبیت پر ایمان لائے تھے ۔
تیسرا سوال:خداوند متعال کیوں اور کس لئے ظلم نہیں کرتا؟
حضور ؐنے فرمایا:کیونکہ وہ ظلم کی قباحت کو جانتا ہے اور ظلم سےبے نیاز ہے ۔{لعلمہ بقبحہ و استغنائہ عنہ}۱۲۔علمائے عدلیہ عدل الہی کو اسی دلیل کے سےثابت کرتےہیں چنانچہ محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں:{و علمہ و استغناوہ یدلان  علی انتفاءالقبح عن افعالہ}۱۳علم خدا اور اس کی بے نیازی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے فعل قبیح سرزد نہیں ہوتا ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے یہاں مختلف فرقے موجود نہیں تھے۔صرف  بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ کلامی و اعتقادی بحث و گفتگو ہوتی تھی لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں بہت سارے فرقے نیز مختلف فکری و کلامی مکاتب وجود میں آچکےتھے ۔ایک گروہ قرآن و حدیث کےظواہر پر عمل کرتاتھا اور ہر قسم  کی عقلی بحث و گفتگو کو ممنوع سمجھتا تھا۔یہ اہل حدیث کا گروہ تھا۔دوسرا گروہ تمام معارف و احکام کو اپنی عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا۔یہ معتزلہ کا گروہ تھا ۔لیکن ائمہ اطہارعلیہم السلام درمیانی راستے کو منتخب کر کے لوگوں کو ہر قسم کے افراط و تفریط سے منع فرماتے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام خدا وند متعال کی شناخت میں عقل کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ و لم یحجبہا عن واجب معرفتہ}۱۴اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت سے مطلع نہیں کیا اور بقدرضرورت معرفت حاصل کرنے کی راہ میں پردے بھی حائل نہیں کیے ۔
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے نزدیک عقل اصول دین اور مبادی دین کی شناخت کےلئے کافی ہے لیکن احکام کی تفصیل جاننے کے لئے اسےوحی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے خدا نے دو چیزوں کے ذریعے انسانوں پرحجت تمام کیاہے ۔ان میں سے ایک عقل  ہےاور دوسری وحی ۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان لله علی الناس حجتین:حجۃ ظاہرۃو حجۃ باطنۃ،اماالظاہرۃ ، فالرسل والانبیاءوالائمہ واماالباطنہ فالعقول}۱۵خدا نےلوگوں پرحجت کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک ظاہری حجت ہےاور دوسری باطنی حجت۔ظاہری حجت انبیاء ورسل اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں جبکہ باطنی حجت عقول ہیں ۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں عقل اور وحی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ ایک طرف سے انبیائےالہی وحی الہی کے ذریعے انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں تودوسری طرف سے انسانی عقل حجت الہی کی تائید کرتی ہے  ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بعثت انبیاءکا  ایک فلسفہ یہ ہے کہ انبیاء انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں۔ اس کےبعد آپ ؑفرماتےہیں :{ولیثیروا  لہم دفائن العقول}۱۶وہ عقل کے دفینوں کوابھارتے ہیں۔اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان الله تبارک وتعالی،اکمل للناس الحجج بالعقول}۱۷خداو ند متعال نے عقول کے ذریعے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا ہے۔
شیعہ علماءاور تفکر عقلی :
شیعہ علماء قرآن و سنت سے الہام لیتےہوئے معرفت دینی میں عقل کے لئے خاص مقام کے قائل ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف شیعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کی حمایت کرتے ہوئے عدل الہی کو اسی کے ذریعہ ثابت کرتےہیں تودوسری طرف سےفقہائےامامیہ احکام شرعیہ کے استنباط میں عقل کو قرآن و سنت کے برابر قراردیتے ہوئے قاعدہ تلازم کو ثابت کرتےہیں۔یعنی ان کے مطابق حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان تلازم ہے کیونکہ قرآن و سنت کو سمجھنے میں عقل وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے نیز قرائن عقلی مفسرین اور مجتہدین کے لئے {قرآن کی تفسیر اور احکام الہی کے استنباط میں}رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہناچاہیے کہ انسانوں کے لئے جوچیز وحی کی طرح حجت الہی شمار ہوتی ہے وہ مستقلات عقلیہ اور ملازمات عقلیہ ہیں  نہ کہ وہ ظنون جو قیاس واستحسان پر مشتمل ہو ں۔اسی وجہ سے مکتب اہل بیت علیہم السلام اور فقہ امامیہ میں شرعی احکام کے استنباط میں عقل کو ایک محکم وپایدار راستےکی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ قیاس و استحسان {جوظن و گمان پر مشتمل ہوتےہیں}کی پیروی ان کے ہاں سخت ممنوع ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلا م نے ابان ابن تغلب سے مخاطب ہو کر فرمایا :{ان السنۃ لا تقاس ، الا تری ان المراۃتقضی صومہا و لا تقضی صلاتہا یا أبان ان السنۃ اذا قیست محق الدین}۱۸سنت {شریعت الہی}میں قیاس {تشبیہ وتمثیل}کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔{یہ حجت نہیں}اسی لئے ماہانہ عادت کی وجہ سےاگرعورت روزہ نہ رکھے اورنماز نہ پڑھے تو اس پر روزے کی قضا واجب ہے لیکن نماز کی قضا واجب نہیں{حالانکہ اسلام میں نماز کی اہمیت روزے سے زیادہ ہے۔ }اے ابان: سنت کوقیاس سے ثابت کیاجائے تو دین  الہی برباد اور نابود
ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ عقل کا دین شناسی اور معرفت دینی میں بہت زیادہ کردار ہے ۔جن میں سےبعض یہ ہیں:
1۔ عقل دین کی بنیادی باتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے وجود خدا ، بعض صفات الہی اورضرورت دین وغیرہ ۔
2۔عقل، وحی کی طرح بعض احکام شرعیہ کا استنباط کرتی ہے اور استنباط احکام کا ایک منبع شمار ہوتی ہے ۔
3۔عقل قرآن و سنت کو سمجھانے میں چراغ کا کام کرتی ہے  اور خود ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔
4۔عقل محدود پیمانے پرفلسفہ احکام دین کو بیان کرتی ہے لیکن عبادات میں عقل کا کردار بہت ہی کم ہے۔ معرفت علمی اورتفکر عقلی کے ذریعے فلسفہ یا حکمت احکام الہی کے بارے میں جوکچھ کہاجا سکتا ہےانہیں اکثر اوقات احکام الہی کی علت اصلی کے طور پر اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کسی موضوع کے حکم کو دوسرے مشابہ موضوعات کے لئے بھی قیاس کے ذریعے ثابت کرنابہت مشکل او ردشوار ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔آل عمران ،190 – 191۔
۲۔انفال ،22۔
۳۔یونس،100۔
۴۔انبیاء،22 ۔
۵۔مومنون،115۔
۶۔یونس،35۔
۷۔بقرۃ ،111 ۔
۸۔انعام ،ص 116۔
۹۔بقرۃ،170۔
۱۰۔نحل ،125 ۔
۱۱۔وحید صدوق ،ص310،فصل 44،حدیث 1۔
۱۲۔توحید صدوق ،ص397،باب 61۔
۱۳۔کشف المراد،تیسرا حصہ،تیسری فصل۔
۱۴۔نہج البلاغۃ،خطبہ 49۔
۱۵۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۶۔نہج البلاغہ،خطبہ ،1۔
۱۷۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۸۔وسائل الشیعۃ ،ج18،ص25۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سال۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے اور تقریباََ دنیا کے تمام ممالک میں اس دن خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر اور اُن کے حقوق کے لئے مختلف سیمینار یا پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے یہ لگ بھگ ایک صدی قبل روس میں Bread and Peace کے مظاہرے کے بعد سے منایا جانے لگا۔ 1908 میں روس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے مشقت اور اجرت میں کمی کے باعث مظاہرےشروع کئے تھے تاکہ ان کے کام کے اوقات کو دس گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے کیا جائے اور اُن کی اجرت کو بڑھایا جائے ۔اسی طرح پھر امریکہ میں, 28 فروری 1909 خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد خواتین نے اپنے حقوق کی آواز کو دبنے نہیں دیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ مختلف حادثات و واقعات بھی رونما ہوئے اور خواتین نے زبردست جدو جہد کا مظاہرہ کیا اور ہر موقع پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے لگیں۔ بلآخر 1975 میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منانا شروع کیا اور اس کے بعد ہر سال دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

اگر ہم خواتین کی حقوق کے حوالے سے تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب، یونان،مصر،مشرق وسطیٰ ،ہندوستان غرض یہ کہ ہر جگہ عورت مظلوم تھی عورت کی کوئی معاشرتی شخصیت نہیں تھی۔ قدیم یونان میں عورت کو ایک تجارتی سامان کی طرح سمجھی جاتا اور بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی تھی یہاں تک کی شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر باپ یا شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بیویوں اور بیٹیوں کو قتل کریں یا بیچ دیں۔ ہندوستان میں شوہر کی موت کے بعدعورت کو بھی شوہر کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس طرح شوہر کو تنہائی سے نجات ملے گی ۔ عرب میں بھی لڑکیوں کی پیدائش شرمندگی اور بے عزتی تصور کی جاتی تھی اور پیدائش کے ساتھ ہی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اور خواتین کو میراث سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جس زمانے میں عورت کو یورپ اور دیگر اقوام میں انسانوں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا تھا ، صنف نازک کو فقط کاروبار یا خواہشات نفسانی کی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا اُس وقت اسلام نے خواتین کی مقام و منزلت اور ان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی. عورت کو ذلت سمجھنے والوں کو اسلام نے بتادیا کہ عورت ایک عظیم ہستی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ ؑ کے احترام میں رسول اللّٰہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور رسول اللّٰہ کا یہ عمل دنیا والوں کو عورت کی مقام و منزلت اچھی طرح سمجھا رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو باقاعدہ طور پر ایک مقام عطا کیا اور ان کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ بتایا کہ عورت کو زندہ رہنے کا حق ہے، ملکیت کا حق ہے،آزادی رائے کا حق ہے، ووٹ کا حق ہے،زندگی جینے کا حق ہے، اور عورت معاشرے میں ہر جگہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہے۔

اسلام عور ت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح، ادارہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے اور اسی لیے قرآن پاک میں دونوں کو "یا ایھالناس" اور "یا ایھاالذین آمنو " کے زریعے مخاطب کیا گیا ہے, اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دیے ہیں۔ اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالی معاملات انجام دے جیسا کہ ارشار ہوتا ہے:" مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے"(سورہ نساء، آیت۳۲)۔ آج جن ممالک کی ہم پیروی کرتے ہیں اور اُن کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں کچھ عرصے پہلے تک وہاں پر بھی عورتوں کو ذلیل و حقیر تصور کیا جاتا تھا بلکہ آج بھی جس طرح اسلام نے عورتوں کے حقوق اور تحفظ کا ذکر کیا ہے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہ حقوق عورتوں کو میسر نہیں ہیں، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور بداخلاقی کے واقعات اسلامی ممالک سے ذیادہ روشن خیال ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں آج بھی صدر کے انتخاب کے لیے کسی خاتون کے مقابلے پر کسی سیاہ فام کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں جبکہ رنگی و نسلی تعصب کوٹ کوٹ کے ان کی رگوں میں موجود ہےلیکن پھر بھی یہ لوگ جتنا پست و کمتر عورت کو سمجھتے ہیں کالوں کوبھی نہیں سمجھتے. اسلام نے تو پہلے ہی رنگ و نسل کی برتری کی نفی کی ہے, جس زمانے میں عورتوں کو اپنے نظریے اور رائے کے اظہار کا کوئی حق نہیں تھا  اُس زمانے میں دینِ اسلام مرد و عورت کے لئے نظریہ دینے ،ووٹ ڈالنے (بیعت کرنے) اور مساوات و برابری کا قائل تھا۔

 رسول اکرم ؐ کا ارشار ہے"عورتیں تم مردوں کے لئے لباس ہیں اور تم مرد بھی عورتوں کے لئے لباس ہو" دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں"تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے کہ جو اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئے"۔ اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات و احادیث خواتین کے حقوق ،فضائل اور احکامات سے بھری پڑی ہیں مگر یہ کہ ہر مسلمان مرد و عورت اسلامی تعلیمات کے بارے میں صحیح سے تحقیق کرے تو اُس کو اسلامی اصولوں کا علم ہو۔ پہلے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا ہر ایک کے بس میں نہ تھا آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے تمام معلومات ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ اگر ہم ان سہولیات کو فضول کاموں کے بجائے اچھے کاموں کے لئے استعمال میں لائیں تو معاشرے سے برائیاں بھی ختم ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ہم اپنی مشکلات کا حل بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ عقل تحقیق کرے اور دنیا بھر میں موجود مسائل کا حل تلاش کرے تو اُس کو اسلامی تعلیمات و احکامات ہی سب پر سبقت لیتے نظر آئیں گے۔ ہم اس قدر دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہوش ہی نہیں، ہم مغرب سے آئی ہر چیز کو بلا چوں و چراں سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں ہم کبھی اس کے مثبت اور منفی اثرات اوراُس کے مقاصد کی طرف توجہ نہیں کرتےاور اس کی جگہ اگر کوئی اسلامی چیز یا اسلام کے نام سے کچھ آجائے تو فوراََ ہزاروں سوالات کر ڈالتے ہیں کیوں کہ ہم کھانے پینے سے لے کر تعلیم کے حصول تک مغرب کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی دینی تعلیمات کو صرف نام کی حد تک رکھے ہوئے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہمیں مغربی چیزوں میں ہی زیادہ حقیقت نظر آئے گی۔

 آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کسی کی سوچ و فکر کو تبدیل کرنا کوئی ناممکن بات نہیں ہر حقیقت کو وہم اور ہر وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ہم صحیح و غلط کی تمیز نہیں کر پا رہے۔ یہ بلکل اس مثال کی طرح ہے کہ اسلامی ممالک میں گٹر کا ڈھکن کھلا ہو تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے تو روشن خیالی اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو پھر ہمیں اسلامی علوم اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا، ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے تو پھر مغربی سیرت کو چھوڑ کر سیرت حضرت محمد ؐ کو اپنانا ہوگا، ہمیں اس تہذیب و تمدن کی جنگ کو جیتنا ہوگا, ہم کیوں دوسروں کے رہن سہن, تہذیب و ثقافت کو اپنائیں، دوسروں کی تہذیب کو اپناتے وہ ہیں جن کی اپنی کوئی تہذیب نہ ہو اور الحمد اللہ ہمارے پاس زندگی گزارنے سے لیکر حکومتی قانون تک سب کچھ موجود ہے، نہیں ہے تو صرف جستجو ، شعوراور عمل نہیں ہے۔ اس شعور کو پھیلانے کی ذمہ داری حکومت، عوام اور میڈیا تینوں کی ہے۔ اگر کوئی بھی ذمہ دار شخص پہلے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور پھر معاشرتی حالات کو مد نظر رکھ کر کام کرے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں۔

میں عالمی خواتین کے دن کا مخالف نہیں ،ناہی اُن خواتین کی جدوجہد کو نظر انداز کرتا ہوں جن کی وجہ سے آج دنیا والے آٹھ مارچ کو خواتین کے نام سے منانے پر مجبور ہیں۔ مگر میری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں ،سرکردہ لوگوں اور عالمی حقوق کے علم برداروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ اگر ہمارے ملک میں یوم خواتین کو سردار انبیاء ، رحمت اللعالمین ؐ کی بیٹی خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃالزہرا ؑ کی ولادت کے دن یعنی بیس جماد الثانی کو منایا جائے تو بہتر نہ ہوگا؟ کیونکہ جب عرب میں لڑکیوں کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا اور اُن کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور باقی دنیا میں بھی خواتین کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو  اس وقت رسول اکرم ؐ نے دنیا کو بتایا کہ خواتین کی عظمت اورحقوق کیا ہیں اور دوسری طرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی خود بھی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت فاطمہ (س ) کی شان کے لئے رسول اکرم (ص ) کی یہ احادیث کافی ہیں، *حضور اکرم (ص ) فرماتے ہیں: "فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ھیں"،"فاطمہ میرا ٹکڑا ھے جس نے اسے تکلیف پھنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ھے"* یہ دو احادیث ہمارے لئے کافی کہ ہم ایک ایسی ہستی کو اپنا آئیڈیل بنائیں جس کی زندگی کا ہر پہلو قیامت تک کی خواتیں کے لئے روشن ستارے کی مانند ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree