وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا کے ہر جاندار کی طرح انسان بھی تحفظ کا متلاشی ہے،قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے، جوقانون کو پامال کر کے انسان سے تحفظ چھین لے اور انسان کو خوف و خطرے اور دہشت و وحشت میں مبتلا کر دے اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔جو بھی لوگوں کو عدم تحفظ کا احساس دلائے وہی دہشت گرد ہے، کل تک کہا جاتاتھا کہ مذہبی پارٹیاں اور قبائلی تنظیمیں دہشت گردی کرتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے کئی لوگوں کو یہ حقیقت سمجھ میں آئی کہ دہشت گردی کا لفظ ایک مہر کی طرح ہے جسے ہمارے ہاں مخصوص مشینری جسے چاہے اس پر لگا دیتی ہے۔
اگر کوئی مذہبی تنظیم ہتھیار اٹھا ئے تو دہشت گردی ہے لیکن اگر ہارون آباد میں مسلم لیگ (ضیاء) کے کارکن پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کردیں تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان فرینڈلی فائرنگ ہے۔
اسی طرح اگر طالبان کہیں پر لوگوں کو ڈرا کر بھتہ لیں تو یہ سراسر دہشت گردی ہے لیکن اگر اسلام آباد میں ایک سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبل ایک شہری کو زیر حراست رکھ کر تشدد کا نشانہ بنائیں اور ماہانہ بیس ہزار بھتہ وصول کرتے رہیں ، بلاخروہ شہری ،ایس پی صدر کے ہاں شکایت کر کے اپنی جان چھڑوائے تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ قانون کے رکھوالوں کی والہانہ ادا ہے۔
اگر فیس بک پر کچھ لوگ اغوا اور لاپتہ ہو جانے والے افراد کی تلاش کے لئے شور شرابہ کریں تو وہ بھی دہشت گرد ہیں لیکن اگر کچھ لوگ ڈنکے کی چوٹ پر طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی سرپرستی کا اعلان کریں تو وہ دہشت گرد نہیں بلکہ شریف شہری ہیں۔
اگر امریکہ اور بھارت چاہیں تو عشرہ کشمیر کا اعلان کرنے والے حافظ سعید بھی دہشت گرد ہیں اور اگر امریکہ اور بھارت نہ چاہیں تو جہاد کشمیر اور افغانستان میں فرقہ پرست ٹولوں اور لوگوں کو گھسانے والے بھی دہشت گرد نہیں۔
یہاں پر عجیب صورتحال ہے! بلوچ اگر شعور کی بات کرے، سندھی اگر تفکر کی بات کرے ، پختون اگر غیرت کی بات کرے اور پنجابی اگر اپنے تمدن کی بات کرے تو وہ دہشت گرد ہے ، لیکن اگر بلوچ کو فیس بک کی میز سے، سندھی کو گھر کی دہلیز سے، پختون کو ایجنسی سے اور پنجابی کو بازار سے لاپتہ کردیا جائے تو یہ دہشت گردی نہیں۔
لوگوں کو لاپتہ کرنے سے مجھے وہ پریس کانفرنس بھی یاد آرہی ہے جو چند روز پہلے لاپتہ ہونے والے افراد کی ماوں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں نے اسلام آباد پریس کلب میں کی ہے۔ یہ ہزاروں سال پرانے کسی فرعون کے محل میں لگی ہو کچہری کی داستان نہیں بلکہ یہ اکیسویں صدی کی ایک جمہوری حکومت کے دارلحکومت میں کی جانے والی پریس کانفرنس کی رودادہے۔یہ ہماری قوم کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہیں،جن سے تحفظ کا احساس چھین لیا گیا ہے، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں اخباروں کی سرخیوں کی زینت بن رہی ہیں۔۔۔
جویہ کہہ رہی ہیں کہ رات کے اندھیرے میں اُن کے پیاروں کو کیوں گرفتار کیا گیا اور انہیں اب تک کس جرم میں گرفتار رکھا ہوا ہے؟
جو یہ پوچھ رہی ہیں کہ ہمارے گھروں کا تقدس کیوں پامال کیا گیا اور قانون کے رکھوالوں نے ہماری چار دیواری کے اندر زبان درازی کیوں کی!؟
جو یہ پوچھ رہی ہیں کہ قانون انہیں تحفظ دینے میں شرمندہ کیوں ہے!؟
جب سے ہمارے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں تب سے یہ سوال اور بھی شدت سے ابھر رہا ہے کہ پھر وہ کون ہے جو حکومت اور قانون کو خاطر میں ہی نہیں لاتا!؟
پھر وہ کون ہے جو پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پٹھان کوزبردستی حکومت اور قانون کے خلاف اٹھا رہا ہے !؟
پھر وہ کون ہے جو شیعہ اور سنی کے تعصب کو خواہ مخواہ زندہ کررہا ہے!؟
پھر وہ کون ہے جو آج پھر ۱۹۷۱ جیسے حالات پیدا کرکے بنگلہ دیش کی طرح لوگوں کو ملک و قانون سے بیزار کر رہاہے!؟
پھروہ کون ہے جو لوگوں کو جگتو فرنٹ کی طرز پر دھکیل کر لے جارہاہے!؟
پھر وہ کون ہے جو اپنے آپ کو ملک اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے ، جو عوام کو گھاس نہیں ڈالتا اور جس کے سامنے سیاستدان اور وزرا سب بے بس نظر آتے ہیں!!!؟
آخر میں ارباب اقتدار سے ہماری یہی عرض ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کی طرح انسان بھی تحفظ کا متلاشی ہے،قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے، اگر آپ اس ملک کے باسیوں کو دہشت گردوں سے نجات نہیں دلا سکتے تو خدا را اس ملک کے باسیوں کا قانون سے اعتماد نہ چھینئے۔۔۔ قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔نذرحافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ (س) نے آپ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا "بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی۔" کتب تاریخی میں شریکۃ الحسین کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ھاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، کاملہ، عاقلہ، عابدہ، زاھدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔
عالمہ غیر معلمہ کا بچپن معصومین کی زیرنگرانی رہا۔ آپکی خوش قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدہ نساءالعالمین حضرت فاطمہ (س) ہیں، وہ فاطمہ جو دختر رسول ہے، جس کی رضا میں خدا راضی اور جسکے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے۔ وہ فاطمہ جو بضعۃ الرسول ہے، جو خاتون جنت ہے، وہ فاطمہ کہ جس کی عبادت پر پروردگار مباہات فرماتا ہے، وہ فاطمہ جس کی چکی جبرئیل علیہ السلام چلاتے ہیں۔ اگر باپ کو دیکھیں تو حیدر کرار جیسا باپ ہے، آپ نے امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کے لئے "اسوہ حسنہ" ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ لہذٰا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا (ص)، امام علی (ع) اور فاطمہ زہرا (س) جیسی بےمثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کس قدر بہترین اور مقدس ماحول میں ہوئی۔
آپ کی شادی 17 ہجری میں آپ کے چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے، جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔ (البتہ آپکی اولاد کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے) کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بےمثال واقعہ ہے۔ لہذٰا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے جانثاروں نے ایک مقدس اور اعلٰی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی، لیکن اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ہو جاتیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، "کربلا در کربلا می ماند گر زینب نبود۔" لٰہذا اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔
بلاشبہ اسی وجہ سے انہیں "شریکۃ الحسین" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیہا نے اپنے کلام اور اپنے خطبات کے ذریعے اس جہاد کو اس کی اصلی منزل تک پہنچایا۔ کربلا میں سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اس کے مخالفین کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا ہے، لیکن نائبۃ الحسین سلام اللہ علیہا کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہوگیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اس کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے، یزید کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اور حسین آج بھی زندہ ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تحریر۔۔۔۔ محمد جان حیدری
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک آدمی کو بات کرنے والا طوطا بہت پسند تھا ایک دن وہ پرندہ فروش کے پاس گیا اور ایک خوبصورت بات کرنے والا طوطا خرید لایا ایک دن گزر گیا لیکن طوطے نے ایک حرف نہیں بولا اگلے دن وہ دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا بھائی صاحب جو طوطا میں خرید کے لے گیا تھا وہ تو ایک حرف بھی نہیں بولتا اور تم تو کہہ رہے تھے کہ وہ بات کرتا ہے؟ دکاندار نے پوچھا کیا طوطے کے پنجرہ میں آئینہ ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں کیوں؟ دکاندار نے کہا طوطہ جب آئینہ میں اپنا عکس دیکھتا ہے تو بات کرنے لگتا ہے۔ خریدار ایک آئینہ لے کر گیا اور ایک روز بعد پھر واپس آیا کہنے لگا بھائی آئینہ نصب کردیا تھا طوطہ پھر بھی بات نہیں کرتا۔ دکاندار نے کہا کیا پنجرہ میں سیڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیں دکاندار نے کہا بے وقوف طوطا تو سیڑھیوں کا عاشق ہے اسی لئے وہ کچھ نہیں بول رہا۔ خریدار کچھ غصے کی حالت میں واپس گیا اور آگلے دن پھر غصے کی حالت میں واپس آیا، دکاندار نے جب خریدار کو دیکھا تو اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا فورا سوال کر ڈالا کیا طوطے کے پنجرہ میں جھولا ہے؟ اس نے غصے میں جواب دیا نہیں، دکاندار نے کہا بس مسلۂ ہی حل ہوگیا طوطا تو جھولا جھولتے ہوئے بات کرتا ہے، خریدار کچھ کہہ نہ سکا اور ایک جھولا خرید کر واپس ہوا۔ چوتھے روز خریدار روتے ہوئے دکاندار کے پاس گیا اور کہنے لگا طوطا مرگیا میرا طوطا مر گیا۔۔۔ دکاندار نے جب اس کی حالت دیکھی تو دلاسہ دیتے ہوئے پوچھا کیا تمھارے طوطے نے مرتے ہوئے بھی کوئی بات نہیں کی؟؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کیوں نہیں اس نے بات کی۔ دکاندار نے پوچھا کیا بات کی ، طوطے نے کیا بولا؟؟ خریدار نے کہا طوطے نے مرنے سے پہلے انتہائی ضعیف آواز میں مجھ سے پوچھا کیا اُس دکان پر طوطوں کے لئے کھلونوں کے علاوہ کوئی کھانے پینے کی چیزیں نہیں تھی ۔۔۔؟!
وطن عزیز میں بھی عوام اور حکمرانوں کے درمیان کچھ ایسے ہی رشتے قائم ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز کے زریعے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 29.5 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ جو تعداد کے تناسب سے تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ افراد بنتی ہے۔ دستاویز ات کے مطابق اس طریقے کار کے تحت پاکستان میں غربت کی لکیر کو ہر فرد کے ماہانہ خرچہ 3030 روپے مقرر کیا گیا جس کے تحت اگر کسی شخص کی ماہانہ آمدن 3030 روپے سے کم ہے تو اس کا شمار خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہوگا۔اس حساب کے مطابق جن لوگوں کی روزانہ آمدن ایک ڈالر سے زیادہ ہے انہیں غربت کی لکیر سے اوپر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی معیار کے حساب سے بات کی جائے تو 3030کے بجائے 5000 یا تقریبا 600 روپے ماہانہ کمانے والے افراد غربت کی لکیر سے باہر ہونگے اور اس لحاظ سے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔اب غربت کی وجہ سے ایک فیملی پر کیا کیا اثرات پڑھتے ہیں یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں،کھانے پینے سے لیکرتعلیم،شادی غرض ہر چیز پر ہی اثر انداز ہوتی ہے یہاں تک کہ زندگی اور موت کا بھی مسئلہ بن جاتی ہے، لوگ اپنے لخت جگر کو چند پیسوں کے عوض بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، قابل لائق اور زہین بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔۔۔اور ایسی ہی ناجانے کتنی مشکلات سامنے آتی ہیں ۔۔ھر قدم پھونک پھونک کے اٹھانا پرھتا ہے۔۔اور آج کل کے حالات میں بین الااقوامی خط غربت کے حساب سے بھی پاکستان میں کوئی کماتا ہے تو وہ صرف 12گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے آنے والے بل کی نظر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس غربت سے صرف بچوں کی زندگیوں پر پڑھنے والے اثرات کو دیکھیں توہماری انکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملکی آبادی کا 69فیصد حصہ غذا کے حوالے سے غیر محفوظ ہے اور عام طور پر لوگوں کی غذا کا بڑا حصہ روٹی پر مشتمل ہوتا جب کہ گوشت ،پھل،ڈیری مصنوعات کا استعمال بہت کم ہوتا ہے، یوں ملک کی تقریبا ستر فیصد آبادی کو صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔اُوپر سے لوگوں کی بڑی تعداد ایسی گندم کا استعمال کر رہی ہے جس میں بیکٹریا موجود ہیں اور اس سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں "خواتین اور بچوں کی نصف آبادی غذا میں وٹامن موجود نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا شکار ہیں، اور بچوں میں ہونے والی اموات میں سے 45فیصد اموات نامکمل غذا کی وجہ بتائی جاتی ہے"۔ یہ غربت کی وجہ سے پڑھنے والے اثرات پر ایک چھوٹی سی رپورٹ ہے۔
اب اگر ہم اپنے حکمرانوں کی جانب دیکھیں تو عوام کی بھوک ،پیاس،غربت کے حقیقی درد سے کوسوں دور وزیر اعظم صاحب ملتان میں میٹرو کا افتتاح کرتے ہوئے کہتے ہیں " میٹرو بنے سے قبل طالب علم، نوجوان اور غریب افراد کتنی مشکل سے سفر کرتے تھے اور کتنا کرایہ دے کر جاتے تھے ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔!! "
بلکل صحیح فرمایا ہے جناب وزیر اعظم صاحب (میں بذات خود میٹرو کا مخالف نہیں۔۔لیکن اہم مہم بھی کوئی چیز ہے۔۔اور میٹرو۔۔!کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں کچھ نہ ہونے سے میٹرو ہی صحیح) آپ ابھی یہ سوچ رہے ہیں اور ہم تو سوچ رہے تھے کہ تین دفعہ وزیر اعظم بنے کے بعد تو ملتان کیا پاکستان بھر سے غربت کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا، آپ تو سفر کی مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں ہم تو وی آئی پی پروٹوکول سے کوئی غریب بیمار زندہ بچ کے ہسپتال پہنچ جائے تو شکر ادا کرتے ہیں،آپ تو کرایوں کی بات کرتے ہیں ہم تو 24گھنٹوں میں ایک وقت کی عزت کی روٹی مل جائے اور زندہ رہے تو خوشی خوشی میلوں پیدل چلنے کو تیار ہیں۔آپ تو کہتے ہیں پاکستان کے ہر شھر کو خوبصورت بنائیں گے، بلکل درست بات کی آپ نے لیکن ہم کہتے ہیں اس شہر کو خوبصورت بنانے سے پہلے یہاں بسنے والوں کو خوبصورت بنے کے موقعے فراہم کیے جائیں، آپ بیروزگاروں کا کچھ سوچیں تو ہم خود اپنے اپنے گلی کوچوں ،سڑکوں اور شہروں کو خوبصورت بنائیں گے۔ آپ نے 28 ارب 88 کروڑ کی لاگت سے ملتان میٹرو تعمیر کروایا ہے یقیناًبڑی رقم ہے قابل تعریف ہے آپ کا بہت بہت شکریہ لیکن اگر آپ اس میں سے صرف دس ارب ملتان کے جوانوں اور بچوں کی تعلیم پرخرچ کرتے، دس ارب غریب عوام پراور پانچ ارب سے ٹرانپورٹ کا نظام درست کرواتے تو یہ شھر جنت بنتا اور 3 ارب 88 کروڑ بھی آپ کی آف شورز ایکاونٹز میں جمع ہو جاتا یوں عوام بھی خوش ہوتے اور آپ کو بھی فائدہ پہنچتا کم از کم اگلے الیکشن میں آپ ملتان میں پیسے بہانے اور گلوبٹ کو میدان میں اتارنے کی زحمت سے بچ جاتے ۔۔۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن
وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا میں ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، ایک صاحب اپنے ایک دوست کی کامیاب گھریلو زندگی پر بہت رشک کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے دوست سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی آپ کی کامیاب اور خوشگوار گھریلو زندگی کا راز کیا ہے!؟ ان کے دوست نے گلا صاف کرنے کے بعد کہا کہ ہماری کامیاب گھریلو زندگی کا راز یہ ہے کہ ہم نے کاموں کو آپس میں تقسیم کر رکھا ہےکاموں کو تقسیم کرنے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ میں تو چھوٹے موٹے کاموںمیں الجھتا ہی نہیں، چھوٹے موٹے کام میری بیگم صاحبہ کرتی ہیں اور بڑے بڑے کام میں خود کرتا ہوں۔
انہوں نے خود ہی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چھوٹے کام مثلا دکانوں سے سودا سلف خریدنا،کھانا پکانا،گھر کی صفائی کرنا،کپڑے دھونا، بچوں کو پڑھانا،۔۔۔یہ سب کام صبح سے شام تک بیگم صاحبہ کرتی ہیں۔ جبکہ بڑے بڑے کام مثلا بی بی سی سننا،اخبار پڑھنا، سیاستدانوں کے بیانات کا موازنہ کرنا، پارٹیوں کے حالات پر نگاہ رکھنا وغیرہ یہ سب کام صبح سے شام تک میں خود کرتا ہوں۔
ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے بھی کاموں کو تقسیم کررکھا ہے، چھوٹے موٹے کام عوام کے ذمے ہیں اور بڑے بڑے کام ہمارے سیاستدان خود کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے کام مثلا محنت کرنا، تعلیم حاصل کرنا، میرٹ کی امید رکھنا، نوکری کی تلاش کرنا، روزگار کے لئے مواقع ڈھونڈنا، جلسے جلوسوں میں دھمال ڈالنا، وقت پر پانی اور بجلی کے بل جمع کروانا۔۔۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام عوام کے ذمے ہیں لیکن بڑے بڑے کام مثلا پانامہ لیکس پر بیانات دینا، وکی لیکس کا تجزیہ کرنا، سوئس بینک اکاونٹس وغیرہ جیسے بڑے بڑے مسائل ہمارے حکمرانوں کے ذمے ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک میں زرداریوں کے گھوڑے مربے کھاتے ہیں اسی ملک میں عام لوگوں کو ڈاکٹر جعلی سٹنٹ ڈال دیتے ہیں۔ جس وقت ایک شہر میں لوگ شریف برادران کے جلسے میں آئی لو یو کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ، اسی وقت ایک دوسرے شہرمیں ایک پولیس والا ایک رکشہ ڈرائیور کو ڈنڈے مار کر لہو لہان کردیتا ہے، جن دنوں ہمارے وزیراعظم کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات کررہے ہوتے ہیں ،انہی دنوں ہمارے ہاں سے سوشل ایکٹوسٹ اغوا ہونے لگتے ہیں، جس حکومت میں حکمران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، اسی حکومت میں برقیات والے لوگوں کو بغیر میٹر ریڈنگ کے بل بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں کا عام آدمی وزیر اعظم کے جلسے میں نعرے لگانے، بلاول کے پنڈال میں دھمال ڈالنے اور عمران خان کے دھرنے میں بھنگڑا ڈالنے کے بعد پھر سے اپنے بچوں کو ٹاٹ سکولوں میں بھیجنے، غیرمعیاری تعلیم دلوانے، گندہ پانی اور کیمیکل ملا دودھ پلانے پر مجبور ہے۔
ہمارے لیڈر چھوٹے موٹے کاموں میں پڑتے ہی نہیں، کوئی سیاستدان فرسودہ تھانے ، کچہری اور پٹواری کلچرکے خلاف کھلی کچہری نہیں لگاتا،کوئی لیڈر منشیات اور کلاشنکوف کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے میں قرار نہیں دیتا، کوئی غیر معیاری نظام تعلیم کے خلاف لانگ مارچ نہیں کرتا، کوئی انسانوں کو آلودہ غذا کھلانے، گندہ پانی اور دودھ پلانے کے خلاف دھرنا نہیں دیتا، کوئی دہشت گردی کی ٹریننگ دینے والے مدارس کے خلاف ہڑتال نہیں کرتا۔
اس ملک میں جس کے پاس پیسہ،منصب یا اقتدار ہے وہ کامیاب ہے، وہ جو چاہے کرلیتا ہے، وہ ائیر مارشل سے سیاسی رہنما بن جاتاہے، وہ چیف آف آرمی اسٹاف سے صدر پاکستان بن جاتا ہے، وہ دہشت گرد اور نادہندہ ہونے نیز جعلی اسناد کے باوجود اسمبلیوں میں پہنچ جاتاہے۔
یقین جانیے!پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان کا عام آدمی وہیں کھڑا ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے کھڑا تھا اورپاکستان میں ایک ایسے لیڈر کی جگہ آج بھی خالی ہے جو فرقے کے بجائے اسلام کی بات کرے، جو صوبے کے بجائے ملک کی خاطر لڑے ، جو تنقید کے بجائے تعمیر کر کے دکھائے، جو بھنگڑوں کے بجائے شعور عام کرے، جو کرسی کے بجائے انصاف کی خاطر اٹھے اور جو اقتدار کے بجائے اقدار کی خاطر قربان ہوجائے۔ایک ایسے رہنما کی جگہ تو آج بھی خالی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہے کوئی جو اس خالی جگہ کو پر کر سکے!!!؟
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) سعودی آیڈیالوجی اور مالی مدد کا پاکستان کو تباہ کرنے میں ایک بنیادی کردار ہے. پراکسی وار نظریہ اب مزید انکے جرائم کو چھپا نہیں سکتا. ہمارے عوام کا قتل عام جاری ہے 80 ھزار پاکستانی دھشگردی کی پھینٹ چڑھ چکے ہیں .اور اسکے تنخواہ دار دھشتگرد ، ملاں ، مدارس اور تنظیمیں دھشتگردی ، تعصب و تنگ نظری اور تکفیریت پھیلا رہے ہیں. اور انکے دلدادہ وہمدرد نفوذی افراد کہ جن میں ہماری اسٹبلشمنٹ کے بعض آفییسرز اور سیاستدان ہیں وہ ان دھشگرودں کے سہولتکار ہیں اور عوام سے جھوٹ بولتے ہیں. حکمران ایک کے بعد ایک سعودیہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں . اگر پاکستان کا قومی مفاد تمہیں عزیز ہے تو بہادری دکھاو اور سعودیہ سے کہو کہ ان وہابیوں کی ہر قسم کی امداد فورا بند کرے .
حکمرانو ! اگر تم پاکستان کی آبرو اور عزت کو مقدم سمجھتے ہو تو اپنے تعلقات ریالوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دو طرفہ قومی مفادات اور احترام متبادل کی بنیاد پر بناو . اور دنیا کے کسی بھی ملک کو اپنے داخلی امور میں مداخلت کی اجازت نہ دو.
اپنی عوام کے حقیقی خادم بنو نہ کہ جھوٹے دعوے کرو اور غریب عوام کا مال لوٹو . اور دوسروں کے سامنے خوددار قوم کے فرد نظر آو. جبکہ موجودہ پالیسی اس کے بر عکس ہے. صورتحال یہ ہے کہ بیگنگاہ شہری ماوراء قانون مہینوں اور سالوں سے ایجنسیوں نے عقوبت خانوں میں رکھے ہوئے ہیں. اور جو قانون توڑتے ہیں اور جرائم پیشہ ہیں وہ حکمرانوں سے گپ شپ لگاتے ہیں. اور انہیں فل پروٹوکول ملتا ہے. اگر اسٹیٹ انکی حوصلہ افزائی کرتی رہی تو پھر یہ دھماکے کبھی نہیں رکیں گے . دھشتگرد حکومتی خزانوں اور سعودی امداد کے خریدے ہوئے اسلحہ سے لیس ہیں اور جب چاہیں بیگاہ عوم کا قتل کرتے ہیں. اور جو لوگ اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنی جان ومال و ناموس کی حفاظت اور علاقوں کے دفاع کے لئے اسلحہ خریدتے ہیں. حکمران انہیں نہتا کر کے درندہ صفت دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں.
دیوبندی تکفیری دھشتگرد تو گزشتہ ایک عرصہ دراز سے ہمارے فوجی افیسرز کے سروں سے فٹبال کھیلنے کا عادی بن چکا ہے. اور نہ اسے سبز ہلالی پرچم قبول ہے اور نہ ہی پاکستان کا آئین. اسکے پاس اپنا ایجنڈا ہے اور انکے سرپرست انھیں کی طاقت کے بل بوتے پر اور ڈنکے کی چوٹ پر حکمرانوں کو آنکھین دکھاتے ہیں اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں. اب انھوں نے اندرونی و بیرونی پریشرز سے حکمرانوں اور قانون کے محافظوں کی بندوقوں اور امنیتی اداروں کی کاروائیوں کا رخ شیعہ مسلک کی طرف کروا دیا ہے.جبکہ گذشتہ 35 سال سے مسلسل انکے ظلم کا نشانہ بننے والے بھی پاکستان کے شیعہ اور سنی عوام اور دیگر اقلیتیں ہیں. اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کمزور سے کمزور تر ہو. تاکہ وہ اسے آسانی سے توڑ سکیں.اور اپنی خلافتیں قائم کر سکیں.
حکمرانو ! کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر اس ظلم و نا انصافی سے تنگ آکر بریلوی اور اہل تشیع مسلک نے بھی خدانخواستہ تمھارا ساتھ چھوڑ دیا تو وطن عزیز کس قسم کے بحران میں مبتلا ہو گا ؟ پاکستان سے مسلمانوں نے ملکر حاصل کیا اس کسی مسلک کا وطن نہ بننے دو.
ہمیں ملک کا امن اور اسکا کا دفاع سب سے زیادہ عزیز تر ہونا چاہیئے. پاکستان کے امن پر کو سمجھوتہ قابل قبول نہیں . وطن کی حفاظت ہر پاکستانی کا پہلا اور بنیادی وظیفہ ہے. جنھیں ہمارے ملک کا امن عزیز نہیں ہمیں بھی انکا امن عزیز نہیں ہونا چاہیئے. اور سادگی سے پرانے پیار کی پینگیں چڑھانے کی پالیسی پر غور کریں. مجروح عوام کے دلوں پر ایسے بیانات گراں گزرتے ہیں.
حکمرانو ! کیا دیکھ نہیں رہے کہ اسرائیل کی طرح سعودیہ جارحانہ پالیسیوں پر اتر آیا ہے. اب سعودیہ دس سال پہلے والا ملک نہیں. اس نے دنیا میں اپنی جارحانہ پالیسی کی بنیاد پر بہت دشمن بنا لئے ہیں.آپ آل سعود کی کرسی کی خاطر کس کس سے لڑیں گے.؟
زمانہ جانتا ہے کہ
- لیبیا ، مصر اور تیونس کے بحرانوں میں سعودیہ ملوث ہے.
- عراق وشام کی تباہی میں اسکا بڑا ھاتھ ہے. اور لاکھوں بیگناہ لوگوں کے قتل میں شریک ہے.
- گذشتہ دو سال سے غریب مسلم پڑوسی ملک یمن پر حملہ آور ہے. اس ملک کو سعودیہ نے ویران کر دیا ہے . لاکھوں میزائلوں اور گولوں کی بارشیں کی ملک کی اس مسل بردر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور دس ہزار سے زیادہ بیگناہ عوام کو قتل کیا.
- اسی طرح بحرینی عوام کی پر امن تحریک کو کچلنے کے لئے سعودی فوج درع الجزیرہ گذشتہ کئی سالوں سے ظلم کر رھی ہے.
- کبھی کویت کو دھمکیاں دی جاتی ہیں. آزاد میڈیا کا دور ہے ، اب حقائق کو خوف وہراس سے دبانا مشکل ہے. خواہ جتنے بھی سخت سائبر قوانین بنائے جائیں اور زبانوں پر تالے لگانے کی کوشش کی جائے اور جھوٹا پروپگنڈہ کیا جائے. اور قلمیں خرید لی جائیں پھر بھی حقائق چھپ نہیں سکتے.
حکمرانو ! دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے. عالمی سیاست ہو یا خطے میں آنے والی تبدیلیاں اور ملک کی داخلی صورتحال ہر جگہ طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے.بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں. آپ کو بھی اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی. اب بحرینی عوام سے دشمنی لیکر آل خلیفہ کی حفاظت کی زمہ داری لینے کے وعدوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی. حکمران طبقہ ہر ملک میں تبدیل ہوتا رہتا ہے. اور عوام ہمیشہ باقی رھتے ہیں. آج پاکستانی نیشنل پولیس اور انٹیلی جنس کے لوگ بحرینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک ہیں .اور انکے ناروا رویوں کی وجہ سے وھاں کے عوام پاکستانی قوم کو کرائے کا قاتل کہتی ہے.
کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ:
1- سعودیہ اس وقت اسرائیل کا اسٹریٹجک دوست ملک ہے. جبکہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا.
2- ہندوستان سے گہری دوستی کے سبب آج تک سعودیہ نے کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کی کبھی مذمت تک نہیں کی اور نہ کشمیر کاز پر ہماری کبھی حمایت کی. 3- سی پیک پاکستانی اقتصاد کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے. ہمارے اقتصاد کا مستقبل اس سے جڑا ہوا ہے. جو ہمارے ہمسایہ ممالک چین ، روس ، افغانی و ایران کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے. جبکہ امریکہ ، غرب، انڈیا اور خلیجی مالک اس اقتصادی ھب کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں.اور تکفیریت اسے سبوتاژ کرنے میں مختلف زاویوں سے ماحول بنا سکتی ہے. اور بعض لیڈروں کے بیانات میڈیا پر آ چکے ہیں.
اب اس نازک موڑ پر ہمارے حکمرانوں نے ذاتی مفادات کو پاکستان کی کے قومی مفادات پر ترجیح نہ دی. اور بیلنس پالیسی ترک نہ کی اور اسٹبلشمنٹ اور سیاست میں موجود کالی بھیڑیں اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو گئیں. تو ملک میں یہ جاری دھشتگردی خانہ جنگی کو جنم دے گی. اور دشمن اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب ہو جائے گا.
تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) جرم جیسا بھی ہو،مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ مجرم قرار دینے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ کیا مولوی حضرات کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں مذہب کا دشمن قرار دے کر قتل کروا دیں!؟ کیا سیکولر اور لبرل حضرات کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں مذہبی شدت پسند کہہ کر تنگ نظر اور بیک ورڈ قرار دے دیں!؟ کیا فوج اور پولیس کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں اسے غدار اور ملک دشمن قرار دے کر ٹھکانے لگا دیں!؟
دنیاکے ہر مہذب ملک میں مجرم اور سزا کا تعین عدالتیں کرتی ہیں۔ اگر کہیں ماورای عدالت لوگوں کو مارا جانے لگے یا پھر عدالتوں سے من پسند فیصلے کروائے جانے لگیں تو پھر ایسی عدالتیں اپنا اعتماد کھو دیتی ہیں۔ جس ملک میں عدالتوں کا اعتماد نہ رہے وہاں دیگر ادارے بھی اپنا احترام کھو دیتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں لوگوں کے لاپتہ اور گم ہونے کا سلسلہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اس میں کوئی مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق نہیں، کچھ لوگوں کو مذہبی شدت پسند اور کچھ کو مذہب دشمن قرار دے کر لاپتہ کردیا جاتاہے۔ کسی کو تقریر کرنے کے جرم میں اور کسی کو فیس بک پیجز چلانے کی آڑ میں دھر لیا جاتاہے۔
انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد چاہے جتنے بھی بڑے گنہگار ہوں انہیں باقاعدہ طور پر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور ان کے گھر والوں کو ہراساں کرنے کے بجائے انہیں اپنے عزیزوں سےملاقات کرنےکا حق دیا جانا چاہیے۔
یاد رکھئے!جب سرکاری ادارے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں، عوام کے مشوروں کو نہیں سنتے ، عوامی مخالفت اور تنقید کو برداشت نہیں کرتے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں تو پھر سانحہ پارا چنار جیسے حادثات پیش آتے ہیں۔
سانحہ پارا چنار اتنا دلخراش سانحہ ہے کہ اس پر ترکی کے صدر اور وزیراعظم سے بھی خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے بھی اس سانحے کی مذمت کی ہے۔ اس سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ اپنی جگہ ضروری ہے البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کوئی غیر متوقع سانحہ نہیں تھا۔
گزشتہ روز پارا چنار میں ہونے والا خود کش دھماکہ ایک متوقع حادثہ تھا۔ در اصل حلب اور موصل میں شدت پسندوں کی پسپائی کے بعد یہ امکان موجود تھا کہ شدت پسند پاراچنار کا رخ کریں گے۔ مقام افسوس ہے کہ اس دوران حکومتی اہلکاروں نے شدت پسندوں کا راستہ روکنے کے بجائے مقامی لوگوں کو غیر مسلح کرنے کے لئے زور لگانا شروع کردیا۔ اگر سرکاری ادارے مقامی لوگوں سے الجھنے کے بجائے ان سے مل کر حفاظتی مسائل کو آگے بڑھاتے تو ایسی صورتحال کبھی بھی پیش نہ آتی۔
عوام سے محبت، عوامی امیدوں کا لحاظ، عوامی تنقید کا احترام ، عوام سے روابط یہ ساری چیزیں خود حکومتی اداروں کے مفاد میں ہوتی ہیں۔ سانحہ پارا چنار کے بعد پاکستانی آرمی چیف نے فورا پاراچنار کا دورہ کر کے اپنی عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے اس دورے سے جہاں انہیں صورتحال کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے وہیں پاراچنار کے مقامی لوگوں کو بھی یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان آرمی کے دل میں ہماری محبت اور ہمدردی موجود ہے۔
یہ دورہ اپنی جگہ قابل ستائش ضرور ہے تا ہم اس کا حقیقی فائدہ تبھی ہوگا جب آرمی چیف کے ماتحت ادارے بھی عوامی احترام کو یقینی بنائیں گے۔
کسی بھی منطقے کے حقیقی محافظ اس کے مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں لہذا پارا چنار کے مسائل میں وہاں کے مقامی لوگوں کی رائے، رسوم و رواج ، اور حقوق کو ہر حال میں مقدم رکھنا چاہیے۔
اگر ہمارےسرکاری ادارے عوم سے اپنے فاصلے کم کردیں ، عوامی مسائل اور آرا کو اہمیت دیں، اختلاف رائے کو برداشت کریں تو انہیں کہیں پر بھی عوام سے الجھنے اورفیس بک پیجز چلانے والوں کو گم اور لاپتہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوتا ہے جب کچھ سرکاری اہلکار اپنے آپ کو قانون اور عدالت سے برتر تصور کرلیتے ہیں۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.