وحدت نیوز(آرٹیکل) طرفداری اور حمایت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔اصولوں کے بغیر کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔خصوصا کسی بھی تحریک یا تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ عوامی ہے یا نہیں،دوسری بات یہ کہ مقامی بھی ہے یا نہیں اور تیسری بات یہ کہ آزادی اور استقلال کی خاطر ہے یا نہیں۔
عوامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس تنظیم یا تحریک کو عوام میں مقبولیت حاصل ہونے چاہیے ،وہ تشدد اور دھونس دھاندلی کے بجائے عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو،جبکہ مقامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ تنظیم یا تحریک باہر سے نہ چلائی جارہی ہو بلکہ مقامی لوگ ہی اس کے چلانے والے ہوں اور آزادی و استقلال سے مراد یہ ہے کہ وہ تحریک یا تنظیم اپنی ملت کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کروانے اور استقلال کی خاطر ہو۔
ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے!کسی کی حمایت یا مخالفت کا ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں،ہمیں اپنے ملک کے علاوہ باقی سب کی فکر ہے۔سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ہم آنکھیں بند کرکے دوسروں کے جھگڑوں میں کودنے کے عادی ہیں۔جب سے شام میں باغیوں نے سر اٹھایا ہے ہم بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔باغی کون ہیں اور وہ بشارالاسد سے کیوں جھگڑ رہے ہیں!؟ ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کون دے رہاہے !؟ہمیں اس سے بھی کوئی مطلب نہیں ،ہم نے تو صرف کسی کی مخالفت یا حمایت کرنی ہوتی ہے سو اپنی اپنی جگہ کررہے ہیں۔
چنانچہ چند سالوں سے مسلسل ہماری مسجدوں ،منبروں اور میڈیاسے شام کی جنگ لڑی گئی۔مسلسل باغیوں کو مجاہدین اسلام اوربشارالاسد کو ڈکٹیٹر کہاگیا،ہماری حمایت اور دنیا کی بے حسی کانتیجہ یہ نکلا کہ شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز حلب چھ سال تک باغیوں کے قبضے میں رہا۔
اللہ کی لاٹھی بھی بے آواز ہے،شامی حکومت نے اپنی توانائیوں کو جمع کیا اور ۲۰۱۶کے آخر میں حلب کو حملہ آوروں سے آزاد کروالیا۔شامی حکومت کی سرپرستی میں مندرجہ زیل گروہ باغیوں سے ٹکرائے۔
۱۔شام کی سرکاری فوج۲۔حزب اللہ لبنان،۳۔لشکر فاطمیون(افغانستان)،۴ ۔لوالقدس(فلسطین)،۶۔ جیش دفاع الوطنی،۷۔ گروه مقاومت اسلامی نُجَباء۔۔۔وغیرہ
شام کو اس جنگ میں نمایاں فتح ہوئی اورحملہ آور پسپا ہوکر آجکل صحراوں کی خاک چھان رہے ہیں۔اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد موصل میں عراقی حکومت سے دوبدو ہے۔
موصل بھی حلب کی طرح انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہ عراق کے شمال میں واقع ہے اوردارالحکومت بغداد کے بعد آبادی اور تجارت کے لحاظ سےدوسرا اہم مرکز ہے۔یاد رہے کہ اب ۲۰۱۴ سے اس پر داعش کا قبضہ ہے۔داعش میں امریکہ، یورپ،ترکی،سعودی عرب،افغانستان اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے لوگ بھرتی ہیں۔حلب کی آزادی کے بعد جہاں داعشی مفرورین پناہ کے لئے موصل کی طرف بھاگ کر آئے ہیں وہیں عراقی حکومت نے بھی اپنی تمام تر توجہ موصل پر مرکوز کررکھی ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب موصل میں بھی باغیوں کی شکست یقینی ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ شام اور عراق میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد باغی اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھی لوٹ سکتے ہیں۔یہ وہ خطرہ ہے کہ جس کا اظہاران دنوں برطانیہ کے سیکورٹی وزیر بین وولیس نے بھی کیا ہے۔ان کے بقول شام اور عراق میں مسلسل پسپائی پر مجبور شدست پسند تنظیم داعش میں شامل برطانوی شدت پسندوں کی واپسی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اورداعش واپس لوٹنے والے اپنے تربیت یافتہ جنگجووں کو استعمال کر کے وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی پلاننگ کر سکتی ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر برائے سیکورٹی کا کہنا ہے کہ شدت پسندتنظیم برطانیہ میں کیمیائی حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ داعش کے پاس ان حملوں کی صلاحیت موجود ہے جو اس سے قبل مشرق وسطی میں استعمال بھی کرچکی ہے ۔
ہم یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داعش سے ملتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو بھی انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ہم نے افغانستان میں دہشت گردی کے جو بیج بوئے تھے اس کی فصل ابھی تک کاٹ رہے ہیں اب شام اور عراق کا ثمر بھی ملنے والا ہے۔
پاکستان میں جہاں عام حالات میں دہشت گرد ایک حملہ کرکے سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کردیتے ہیں،جہاں جی ایچ کیو اور پولیس کے مراکز اور ائیرپورٹس کو پہلے سے ہی نشانہ بنایاجاتاہے وہاں داعش کے مقابلے کے لئے خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔دہشت گردٹولوں اور شدت پسندوں سے کسی بھی طرح کی نرمی یا غفلت ہمیں کسی بھی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) حلب میں کیا ہوا؟مجھے ایک مرتبہ پھر حلب کو سمجھانا پڑرہاہے،اس کی ضرورت بعض لوگوں کو دھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوئی۔رونے والوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگرکسی نے حلب کو سمجھنا ہے تو کراچی کو سمجھے،یوں فرض کیجئے کہ شام کا کراچی، شہرِحلب ہے۔ یعنی شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور روشنیوں کا شہر حلب ہے۔جس طرح پاکستان کے مختلف مناطق میں طالبان اور داعش نے پاکستان سے بغاوت کررکھی ہے ،اسی طرح انہوں نے شام میں بھی بغاوت کی ہوئی ہے۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ باغی چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں وہ ایک قومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔لیکن شام میں چونکہ باغیوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل تھی،چنانچہ انہوں نے شام کے صحراوں سے سر نکالا اور شام کے تجارتی دارالحکومت حلب پر قابض ہوگئے۔
یہ ایک پر امن اور بارونق شہر پر صحرائی ڈاکووں کا حملہ تھا،چنانچہ انا ًفاناً دکانیں لوٹ لی گئیں،مارکیٹوں سے سب کچھ چرا لیا گیا،مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدیوں کی طرح محبوس کردیاگیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے ڈاکووں کو یہ یقین دلایا کہ عنقریب یہ شہر دنیا میں ان کا دارلحکومت بنے گا اور اس کے بعد ہر جگہ ان کی خلافت کا سکہ چلے گا۔چنانچہ سعودی عرب اور امریکہ کا نمک خوار میڈیا باغیوں کے مظالم اور سفاکیت پر خاموش رہا۔
حلب شہر پر ڈاکووں اور باغیوں کے غاصبانہ اور غیرقانونی قبضے کو داعش کی ایک بڑی کامیابی قراردیاگیا۔حلب تقریبا چھ سال تک سعودی عرب اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بنا رہا۔
آپ فرض کریں کہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر خدا نخواستہ طالبان یا داعش اپنا قبضہ جما لیں تو غیرت مند پاکستانیوں پر کیا بیتے گی؟
چھ سال تک اہلِ شام اپنے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے چھن جانے کے غم میں جلتے رہے،سعودی عرب کے جہاز اور امریکہ کے پالتودرندے نہتے عوام پر شب خون مارتے رہے۔جیسے جیسے ۲۰۱۷ کا سال نزدیک آتا جارہاتھا،امریکہ اور سعودی عرب، داعش اور طالبان کو حلب میں ایک خود مختار ریاست کا یقین دلاتے جاتے تھے۔
اب آپ تصور کریں کہ اللہ نہ کرے کہ اگر کراچی پر امریکہ اور سعودی عرب کے پالتو درندے قبضہ کرلیں تو پھر ہماری فوج کے کیا جذبات ہونگے۔۔۔!؟
جیسا کہ۸ جون ۲۰۱۴ میں طالبان نے کراچی پر قبضے کی کوشش کی بھی تھی۔اگر آپ کو یاد ہوتو اتوار کی رات کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا تھا جس میں ۲۹ افراد مارے گئے تھے،تاہم اس حملے کو پاک فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیاتھا۔اس حملے کی ذمہ داری پیر کے روز کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی تھی، ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے پیر کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔
اسی طرح طالبان کی طرف سےمئی 2011میں کراچی ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کےفاصلے پر واقع بحریہ کی مہران ایئر بیس پر اور دسمبر 2012میں پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پرنیز کامرہ ایئر بیس پر اور 2009میں جی ایچ کیو پر حملہ کر کے قبضے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان کی غیور فوج نے ان سارے حملوں کو ناکام بنادیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟اسی طرح جب کہیں پر باغیوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ملت پاکستان جشن بناتی ہے یا سوگ!؟
اگر کو ئی پاکستانی فوج کی کامیابی پر جشن بنانے کئ بجائے باغیوں کی شکست پر آنسو بہائے تو اسے آپ وفادار کہیں گے یا غدار!؟
بالکل ایسا ہی شام میں بھی ہوا۔باغیوں نے شام کے ایک تجاری مرکز پر قبضہ کرلیا تھا،شام کی غیرت مند فوج نے چھ سال بعد اس مرکز کو باغیوں سے چھڑوا لیا،اب آپ فیصلہ خود کیجئے کہ اہل شام کو اس فتح پر جشن بنانا چاہیے یا گریہ کرنا چاہیے۔
یہاں پر ہم پاک فوج کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جولوگ شام میں قومی فوج کے خلاف ہیں اورباغیوں کے ہمدرد ہیں وہی پاکستان میں بھی باغیوں کے سرپرست اور پاکستانی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) جب سے شام کے شہر حلب میں دہشتگردوں کو شکست ہوئی ہے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر ایسا ہل چل مچ گیا ہے اور سچ کو کچھ اس طرح چھپایا جا رها ہے کہ ہالی ووڈ کی فلمی کلیپز اور دوسرے ممالک میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کو کربلائے حلب کے نام سے چلایا جا رہاہے ایک تو ہم بھی کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ حقیقت سے بے خبر کسی خبر یا ویڈیوز کی تحقیق کئے بغیر اُسے لائک کرتے ہیں اور بلا ججک شئیر کرنےکے ساتھ ساتھ کمینٹس بھی کر دیتے ہیں۔اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ سئینر صحافی حضرات کھلے عام لوگوں کو گمراہ کرنے اور فرقہ واریت کی فضاء پیدا کرنے میں دن رات محنت کر رہے ہیں ، تاریخ کے مختلف واقعات اور فلمی مناظر کو حلب کے ساتھ جوڑ کر آل یہود کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے مظالم تو ان کو نظر نہیں آتے اور ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے والے واقعات کو یہ لوگ چشم دید گواہ بن کے پیش کرتے ہیں، ہمسائیہ میں کوئی غریب بھوک سے مر جائے یا دن دھاڑے امن وامان اور محبت بھائی چارگی کا پیغام پھیلانے والوں کا ٹارگٹ کلنگ ہو، علماء ،ڈاکٹرز،انجیئنر اور مزدوروں کا قتل ہو یا معروف قوال امجد صابری کا قتل، حلب پر اس وقت ماتم کرنے والوں نے کبھی وطن عزیز میں ہونے والے مظالم پر آواز بلند نہیں کی، کیونکہ سقوط حلب کے نام پر واویلا کرنے والوں اور شام ،عراق،افغانستان اور پاکستان میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کرنے والوں کی سوچ یکساں ہے یہ ایک خاص تکفیری سوچ کے حامل افراد ہے جو آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں پر فاتحہ بھی پڑھنے کو بدعت اور وزیریستان میں پاک فوج کے خلاف لڑنے والوں کو شہید کہتے ہیں اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہیں ۔
شام ، عراق میں داعش،القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے کئی سالوں سے بے گناہ انسانوں کا قتل عام جاری ہے، جن کا ثبوت خود دہشت گردوں کی جانب سے جاری کردہ تصاویر اور ویڈیوز ہیں جس میں انھوں نے اسلام کے نام پر جس درندگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے خود جنگل کے درندے بھی شرمندہ ہے، میں ان دہشت گردوں کے حمایت کرنے والوں سے سوال کرتا ہوں کیا ان دہشت گردوں کا طرزعمل اسلام کے مطابق ہے؟ کیا ان کے مظالم کسی سے پوشیدہ ہے؟ کیا یہ لوگ مسلمان کہلانے کے قابل ہے؟کیا ان کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام کا نام اور مسلمان بدنام نہیں ہوئے؟ شام میں چھ سالوں سے جاری جنگ میں کبھی کسی نے دہشت گردوں کی حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی؟، کبھی ان کے مظالم پر قلم اُٹھا یا؟، آج حلب کی آزادی پر محمد بن قاسم کو یاد کرنے والو پہلے محمد بن قاسم کے اصل کہانی کو تو منظر عام پر لاؤ اس شخص کے ساتھ کیا ہوا یہ بھی تو بتاؤ، فتح حلب کے بعد وہاں پر آہوں سسکیوں کی آوازیں سنے والو جب تکفیری دہشت گرد کھلے عام حوا کی بیٹیوں کو بازاروں میں فروخت کر رہے تھے تو اُس وقت تم کہاں تھے؟ داعش کے چنگل سے آزادی پا کر آنے والی لڑکیوں کی سسکیاں اور داستانیں تمہیں سنائی نہیں دیتی؟ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ ان دہشت گردوں کے حق میں فتویٰ کون جاری کرتا ہے ، پیسے کون دیتا ہے اسلحہ کہاں سے آتا ہے ۔۔۔ سعودی عرب جو کہ دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک ہے ان کے اسلحہ کہاں جاتا ہے؟مغربی دنیا کیوں ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے؟ امریکہ برطانیہ اسلحہ ڈیلر ہے عرب ممالک سب سے بڑا خریدار، یہ اسلحہ زیادہ تر مشرق وسطی میں ہی استعمال ہو رہے ہیں ، بنانے والا یہود و نصاری خریدنے والا نام نہاد مسلمان لیکن استعمال عام انسانوں پر ،افریقہ سے لیکر افغان پاکستان تک یہی اسلحہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ۔ آج دہشت گردوں کی حمایت میں بولنے والوں نے کبھی فلسطین کی حمایت میں بھی کچھ بولا ہے ؟ کیا قبلہ اول بیت المقدس پر مسلمان آزادی سے عبادت کرسکتے ہیں؟ کیا فلسطین میں مسلمان خواتین کو اسرائیلی قتل نہیں کر رہے ہیں؟ کیا فلسطین میں قتل ہونے والوں کی فریاد تم تک نہیں پہنچتی؟ آزادی فلسطین کے لئے جدو جہد کرنا ہم سب کا فرض نہیں ہے ؟ ان دہشت گردوں نے کبھی آزادی القدس کا نعرہ بلند کیا ہے؟ اگر یہ حقیقی مجاہد ہوتے تو سب سے پہلے فلسطین کو غاصب صہونیوں سے آزاد کرا تے۔ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے اسلام سے مخلص ہیں تو فلسطین میں مقاومتی تحریکوں کو کامیاب بناتے ان کی مدد کرتے ، یہ تکفری دہشت گرد اور ان جیسے ممالک کی حقیقت مسلۂ فلسطین پر آکر کھل جاتا ہے ، یہ کیسے آزادی فلسطین کی بات کر سکتے ہیں اگر یہ فلسطین کی بات کریں تو مغربی دنیا اور اسرائیل ان کی مخالف ہو جائیں گے اور ان کے تخت و تاج کو خطرہ ہوگا اسی لئے یہ لوگ کبھی مسئلہ فلسطین پر بات نہیں کرتے نہ ہی برما کے مسلمانوں کو یاد کرتے ہیں بلکہ جہاں جہاں مغربی مفادات ہوں یہ وہاں پرچم لے کر نکلتے ہیں ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ بے گناہ مرد، خواتین اور بچے ان کے مفادات کی نظر ہو رہے ہیں ان کو صرف اپنے مفادات کا تحفظ چاہیے۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود پڑھے لکھے افراد کا دہشت گردوں کی حمایت کرنا اور عوام کو بے وقوف بنا نا نے کی کوشش کرناحقیقت میں جہالت و نادانی کے سوا کچھ نہیں۔اب تو سقوط حلب یا کربلائے حلب کی بھی حقیقت سامنے آگئی ہے مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے گروہ مصر میں گرفتار ہوگئے جنہوں نے حلب کے نام پر جھوٹی ویڈیوز اور تصاویر بنائی اور فیک آئی ڈیز سے ان کو نشر کیا لیکن کچھ عناصر اب بھی دہشت گردوں کی بولی بولنے میں مصروف ہے۔
ایک طرف سال دوہزار سولہ ختم ہونے کو ہے اور شامی عوام نئے سال کی آمد کے لئے نئے امیدوں اور نیک تمناوں کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں، ان کی خوشیاں قابل دیدنی ہے اور یہ لوگ پر جوش ہے کہ چھ سال سے جاری جنگ انشااللہ 2017 میں داخل نہیں ہوگا دوسری طرف حلب پر گریہ کرنے والوں کا چہرہ آہستہ آہستہ آشکار ہو رہے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو دہشت گردوں کی شکست تمام مسلمانوں کی فتح ہے جنہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردوں سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے اور تکفیری سوچ کے حامل افراد خود مغرب کی پیدا کردہ ہے اور تکفیریت کے خلاف جنگ میں تمام باشعور انسان ایک پرچم تلے جمع ہے، شام تقریبا دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک ہو چکا ہے عراق میں بھی جنگ آخری مرحلہ میں ہے ۔ دنیا میں اور کہی پر بھی تکفیریت موجود ہے تو وہاں پر بھی اتحاد و آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ ہم حقیقت سے باخبر رہیں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں کو بے نقاب کر تے رہیں۔
تحریر۔۔۔ ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر دینی دارہ اللہ کا گھر ہے۔وہ مسجد ہویا مدرسہ، اہل ایمان کے لئے مقدس اور محترم ہے۔کچھ عرصہ پہلےایک مدرسے کے مدیر صاحب انتقال کرگئے،عوامِ علاقہ کو مدرسے کی دیکھ بھال کی سوجھی،قوم کے ہمدرد جمع ہوئے،مولانا مرحوم کی خدمات کو سراہاگیا،مدرسے کی آمدن کا اندازہ لگایاگیا اور پھر مدرسے کو از سرِ نو فعال کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی۔مدرسے کو فعال کرنے کے لئے مدیر کی ضرورت تھی۔مسئلہ بن گیا کہ اب مدرسے کا مدیر اور وارث کسے بنایاجائے۔!؟
اتفاق سے مولانا مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی ،چنانچہ مولانا مرحوم کے ایک دور کے رشتے دار کو ڈھونڈا گیا ،پھر انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا گیا ،جب وہ راضی ہوگئے تو انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک دینی مرکز میں داخل کروادیاگیا۔
اب جب تک کچھ لکھ پڑھ نہیں جاتے اس وقت تک اس مدرسے کو چلانے کے لئے حوزہ علمیہ قم کی ایک فاضل شخصیت کو عارضی طور پر مدرسہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اس واقعے سے جہاں ہمارے ہاں عوام کے دلوں میں علما کےاحترام کا پتہ چلتاہے وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دینی اداروں کو موروثی سمجھتے ہیں ۔لوگوں کے نزدیک ایک دینی مدرسہ ،مولانا صاحب کی ذاتی پراپرٹی ہوتا ہے لہذا اسے نسل در نسل مولانا صاحب کی نسل میں آگے منتقل ہونا چاہیے۔
اسی طرح بہت سارے لوگ سھم امام اور مال امام سے ادارے بناتے ہیں اور یاپھر خمس و صدقات جمع کرکے دینی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں اور ساتھ ہی قانونی کاروائی کے دوران خود ہی ان اداروں کے تاحیات سرپرست اور متولی بنتے ہیں اور بعض اوقات قانونی کاغذوں میں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ہمیشہ کے لئےمتولی درج کرواتے ہیں۔
بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مساجد کے کلین شیو اور بے نمازی متولی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،ایسے متولی جو پیش نماز کو ایک ملازم سے زیادہ اور مسجد کواپنی پراپرٹی سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔اگر کہیں مسجد کا متولی خود پرہیزگار بھی ہو اور وہ مسجد کو اپنی پراپرٹی نہ بھی بنانا چاہے تو اس کے باوجود بھی لوگوں کی شعوری حالت یہ ہے کہ لوگ اس کے بعد اس کے بیٹے کوہی مسجد کا متولی بنانے میں اپنی نمازوں کی قبولیت سمجھتے ہیں۔
آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی دینی محافل و مجالس کے بانیان پر ایک نگاہ ڈالیں،ان میں سے بھی بہت سارے آپ کو براہ نام دیندار ،کلین شیو اور مجالس و محافل کو اپنے سٹیٹس کے لئے منعقد کروانے والے ملیں گے۔
بات آگے ہی بڑھ رہی ہے تو ذرا ان لوگوں کی بات بھی ہوجائے جن کا کوئی ذریعہ آمدن مشخص نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ذریعہ معاش ہی دینی اداروں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا بنا رکھا ہے۔انہوں نے برائے نام ٹرسٹ بھی بنا رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کی بات نہ کرے،چنانچہ کتنی ہی مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں کے چندے سالہاسال اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور وہ ادارےہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور جدید تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں حالانکہ خود انہیں جدید تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اوراگر یونیورسٹی یا کالج بنوانے کا حربہ کارگر نہ ہوتو پھر مساجد و مدارس کی تعمیر کے لئے ڈونرز کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔
بعض دینی اداروں اور ٹرسٹ وغیرہ کی تو یہ صورتحال ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں عادل سمجھیں اور آنکھیں بند کرکے ہماری مددکریں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھیں کہ ہم خرچ کہاں پرکرتے ہیں۔ان کے بقول آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم عین عدالت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں اپنے ملک میں جس مقدار میں فطرانہ،قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں ،اس طرح غربا میں صدقات تقسیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اگر کہیں پر غربا کی مدد ہوبھی تو چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا کہ جمع آوری کتنی ہوئی اور تقسیم کتنی ۔۔۔
بلکہ غربا کی مدد کرنے والے اداروں میں کلیدی شخصیات جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں اکثر بجٹ بھی اسی علاقے میں انہی کے عزیزوں،دوستوں اور رشتے داروں پر ہی صرف ہوجاتاہے۔آج کے دور میں اکثر اوقات مسجد کی تعمیر سے لے کر سکالر شپ کے حصول تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں رہی ، چنانچہ اب اسی کے علاقے میں شاندار مسجد بنتی ہے اور اسی کو دینی داروں کی طرف سے سکالرشپ ملتا ہے جس کے کہیں نہ کہیں تعلقات ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسے میں ہمارے ہاں ایسے مخلصین کی بھی کمی نہیں جو ہر طرح کی منفعت سے بالاتر ہوکر خدمت دین کررہے ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں جائیداد،آمدن اور موروثیت سے بالاتر ہوکر کام کرنے والے مخلص اداروں،ٹرسٹیز اور بانیان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ موروثیت اور بیت المال کے غلط استعمال کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھیں،اسی طرح عوام اور خصوصا ڈونرز حضرات کی بھی شعوری سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہر دینی ادارہ مقدس اور محترم ہے لیکن ڈونرز حضرات کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ادارہ کسی شخص یا خاندان کا ذریعہ آمدن ہے یا پھر ملک و ملت پر خرچ کرنے اور دین کی خدمت کرنے کا وسیلہ ہے۔
ملک و ملت کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ بنجر زمینوں پر بارش برسنے سے سبزہ نہیں اگا کرتا۔اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔
آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔
تحریری۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) مشی، اس کے اثرات، تاریخ اور موجودہ عراق پر بعد میں بات کریں گے، لیکن فی الحال اپنے قارئین کو عراق کی گذشہ 50 سالہ تاریخ اور درپیش بحرانوں سے سرسری آگاہ کرتے ہیں۔ عراق کی سرزمین مسلسل بحرانوں سے گزر رہی ہے، تقریباً 24 سال تک بلاشرکت غیرے صدام حسین اقتدار پر قابض رہا، 1980ء میں ایران پر جنگ مسلط کی اور 8 سالہ طویل جنگ کے ٹھیک 2 سال بعد یعنی 1990ء میں صدام حسین کویت پر چڑھ دوڑا، صدام حسین کے متعدد ایسے اقدامات تھے، جنہوں نے ناصرف عراق کو عالمی سطح بلکہ خطے میں بھی چاروں اطراف سے تنہا کر دیا، 22 ستمبر 1980ء سے شروع ہونیوالی ایران عراق جنگ 8 سال بعد یعنی اگست 1988ء میں اختتام پذیر ہوئی، لیکن اس جنگ نے تقریباً 10 لاکھ انسانوں کو نگل لیا۔ صدام حسین نے ایران سے یہ جنگ ایسے وقت میں شروع کی تھی، جب ایران میں رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا اور انقلابیوں نے ایک اسلامی حکومت کا احیاء کیا تھا، ایران عراق جنگ کا باعث دریائے شط العرب بتایا جاتا ہے۔ مگر مبصرین کے خیال میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور عراق نے امریکی ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں سوائے شام کے برطانیہ، اسرائیل سمیت تقریباً تمام عرب ممالک غیر اعلانیہ طور صدام حسین کو مکمل سپورٹ کر رہے تھے۔ 1990ء میں کویت پر حملے کے بعد تمام مذکورہ ممالک جو ایران کیخلاف جنگ میں عراق کے اتحادی تھے، صدام حسین کے مخالف ہوگئے اور عراق ایک بار پھر ایک نئے بحران سے دوچار ہوگیا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45 منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا، اس لئے عراق پر فروری 2003ء میں امریکہ نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن امریکہ آج تک یہ الزامات ثابت نہ کرسکا، حتٰی اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کچھ عرصہ قبل یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا، جس پر وہ معافی چاہتے ہیں، اگرچہ امریکی برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ کے کئے جانیوالے دعووں کی تائید بھی نہیں کی تھی، تاہم اس گٹھ جوڑ نے عراق حملہ کر دیا، اپریل 2003ء میں سقوط بغداد کے بعد صدام حسین روپوش ہوگئے۔ تاہم 14 دسمبر 2003ء کو بدترین ڈکٹیٹر کو اس کے آبائی علاقے تکریت سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کر لیا گیا، یوں 30 ستمبر 2006ء میں صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
صدام حسین کی پھانسی کے بعد عراق میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے، جو اب داعش کے فتنے کی شکل میں ظہور پذیر ہیں۔ امریکہ عراق سے تو نکل چکا ہے لیکن اپنے پیچھے تباہی اور بربادی چھوڑ گیا ہے، امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنے پیچھے فرقہ واریت، لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر فسادات اور تباہی چھوڑ کر جاتا ہے اور یہی حال اس نے عراق کا کیا۔ امریکہ نے ابوبکر البغدادی کو خود رہا کیا اور بعد میں اس کے ذریعے داعش کو منظم کرکے عراق پر ایک نئی جنگ مسلط کر دی، جو اب اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ امریکہ کا نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مخالف امیدوار ہلیری کلنٹن پر داعش کو جنم دینے اور اس کی مدد کرنے کا ذمہ دار قرار دے چکا ہے۔ یاد رہے کہ داعش نے کم وقت میں تکریت اور موصل سمیت عراق کے کئی علاقوں تک پیشرفت کر لی تھی، حتیٰ کئی آئل ریفائنریز قبضے میں لے لی تھیں، لیکن اب داعش سے تکریت سمیت متعدد علاقے چھن چکے ہیں اور اب موصل میں فیصلہ کن جنگ جاری ہے۔
دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں امریکہ اور عرب ممالک ایک طرف ہیں، جبکہ مزاحمتی بلاک ایران، شام، عراق اور روس دوسری طرف ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ شام کے مشرق میں واقع حلب بھی داعش اور جھبۃ النصرہ سے مکمل طور پر آزاد ہونے کے قریب ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد عراق اور شام کو کمزور کرکے لیبیا کی طرح حکومتوں کو گرا کر لبنان پر چڑھ دوڑنا تھا اور اپنی مرضی کی حکومتوں کا قیام تھا، ان تمام اقدامات کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا تھا۔ مسلسل جنگوں کے باعث عراق میں خواتین کی شرح بڑھ رہی ہے، 50 سال سے جاری مختلف جنگوں میں مسلسل قربانیوں کے باعث مردوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، جنگ کے آثار ہر طرف دکھائی دیتے ہیں، کمزور عراقی حکومت تاحال عراق کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ مرکوز نہیں کر سکی، یہی وجہ ہے کہ داعش کیخلاف جنگ میں ایران عراق کی پشت پر کھڑا ہے۔ عراق میں لوکل حکومتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
داعش نے عراق میں ایسے بدترین مظالم ڈھائے ہیں، جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، مخالفین کو تیل چھڑک کر زندہ آگ میں جلانا، ٹینکوں کے نیچے دیکر مارنا اور پانی میں ڈبو ڈبو کر مارنا داعش کے دہشتگردوں کا وطیرہ بن چکا ہے، انسانوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے خنجر کے ذریعے گردنیں اڑنے اور سروں میں گولیاں مار کر قتل کرنے کی ویڈیوز تک نشر کی گئیں۔ یہ ویڈیوز ایک عام انسان نہیں دیکھ سکتا، داعش کے فتنے سے فقط شیعہ ہی نہیں بلکہ اہلسنت اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ داعش کی جانب سے اصحاب رسول کے مزارات تک کو بم نصب کرکے اڑا دیا گیا، حتٰی سامرہ میں پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی آل تک کے مزارات کو نشانہ بنایا گیا، اب بھی ان مزاروں کو منہدم کرنے کیلئے اس فتنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ بغداد اور کربلا سمیت دیگر علاقوں میں بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے کاررائیاں کرکے ہزاروں انسانوں سے زندگی کا حق چھینا جا چکا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ موصل میں آخری معرکہ جاری ہے، جس میں عراقی آرمی کیساتھ رضاکار فورس بھی یہ جنگ لڑ رہی ہے، اس رضا کار فورس میں ریاست میں مقیم تمام طبقات شامل ہیں۔
مشی کے راستوں پر بھی اس جنگ کے حوالے سے آگاہی کیلئے بڑی سکرینیں نصب کی گئی تھیں، جن کے ذریعے عربی زبان میں لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا تھا اور داعش کیخلاف تشویق دلائی جا رہی تھی، داعش کے ہاتھوں مارے جانیوالے عراقی شہداء کی تصاویر بھی جگہ جگہ نصب کی گئی تھیں، حتیٰ وہ علماء جو داعش کے فتنے کیخلاف محاذ جنگ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے، ان کی قربانیوں کا بھی تذکرہ سننے کو ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ داعش کی جانب سے پھیلائے جانیوالے خوف کے باوجود کروڑوں انسانوں کا سمندر مشی میں شرکت کیلئے کربلا پہنچا، جو ایک بڑی کامیابی تصور کی گئی۔ مشی سے متعلق جو راقم نے درک کیا وہ یہ ہے کہ نجف سے کربلا پیادہ روی دراصل اپنی انا کو فنا کرنا، ایثار و قربانی کی لازوال مثالوں کو زندہ کرنا، انسانوں کا احترام اور اسلام کے صحیح پیغام کو اجاگر کرنے کا نام مشی ہے۔ کئی جگہوں پر دیکھا کہ اگر راستے میں کسی کو غلطی سے دھکا لگ بھی گیا تو جس کو دھکا لگا وہ معافی کا خواستگار دکھائی دیا۔
کربلا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال عوام کی شرکت بہت زیادہ ہے، داعش کے خوف پھیلانے کے تمام تر حربوں کے باوجود تقریباً 3 کروڑ 60 لاکھ لوگوں نے مشی میں شرکت کی اور داعش سمیت ان تمام طاقتوں کو پیغام دیا کہ تم بےگناہ انسانوں کو مار کر خوف کی فضا قائم نہیں کرسکتے، تم اپنے اہداف میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ داعش نے اس سال بھی زائرین کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، 10 صفر کو سامرہ اور 22 صفر کو حلہ کے مقام پر ایرانی زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد زائرین شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے، 17 صفر کے بعد سامرہ میں سکیورٹی صورتحال کے باعث 15 کلو میٹر پہلے گاڑیوں کو آگے نہیں جانے دیا جا رہا تھا، لیکن اس کے باوجود زائرین پیدل چل کر مقدس مقامات تک پہنچے۔
تحریر۔۔۔۔نادر بلوچ
وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 12 سال(83-95 ھجری) کی مدت پر مشتمل ہے،
۲۔ اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 19 سال کی مدت(95-114 ھجری) پر محیط ہے اور
۳۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اپنے دوران امامت پر مشتمل مدت جو تقریبا 34 سال(114-148 ھجری) ہے اور تمام ائمہ علیھم السلام کی مدت امامت سے زیادہ ہے۔
ہماری بحث امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کے تیسرے حصے پر متمرکز ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی مدت امامت کے دوران بنی امیہ کے پانچ اور بنی عباس کے دو خلفاء یکے بعد از دیگرے برسراقتدار آئے۔ بنی امیہ کے خلفاء یہ تھے:
۱۔ ھشام بن عبدالملک،
۲۔ ولید بن یزید،
۳۔ یزید بن ولید عرف ناقص،
۴۔ ابراہیم بن ولید،
۵۔ مروان بن محمد عرف مروان حمار۔
مروان حمار بنی امیہ کے سلسلے کا آخری حکمران تھا۔ اسکے دور میں اسلامی سلطنت بین عباس کی سرکردگی میں ایک وسیع بغاوت کا شکار ہو گئی جو بنی امیہ کے سلسلہ خلافت کے خاتمے اور بنی عباس کے برسراقتدار آنے کا باعث بنی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی بنی عباس کے دو خلیفوں کے ہمراہ تھی۔
۶۔ عبداللہ بن محمد عرف سفاح،
۷۔ ابوجعفر منصور عرف دوانیقی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی دوران امامت زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
۱۔ اسلامی معاشرے کے تشخص کی بحالی کیلئے علمی جدوجہد اور
۲۔ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی اور اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلابی ہدف کی حفاظت اور اسکا تسلسل۔
ہم اس مضمون میں دوسرے حصے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا محور کربلا کے مشن کو زندہ رکھنا اور اسے منحرف ہونے سے بچانا تھا۔ لہذا اس کیلئے آپ علیہ السلام نے دو بنیادی کام انجام دیئے۔
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے مشن کو صحیح اور درست انداز میں پیش کیا، اور
۲۔ خود اور اپنے مخلص شیعوں کو تمام ایسی سیاسی تحریکوں میں شرکت سے دور رکھا جنکا مقصد جاہ طلبی اور حکومت پر قبضے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات انجام دیئے:
۱۔ حضرت امام حسین علیہ السلام
جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے،
امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے سفر کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کثرت کے ساتھ کربلای معلی جایا کرتے تھے اور باقاعدگی سے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی نظر میں یہ عمل امام حسین علیہ السلام کے مشن کو زندہ رکھنے اور اسے جاری رہنے میں انتہائی اہم کردار کا حامل تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شیعیان اور محبین کو بھی زیارت قبر مبارک امام حسین علیہ السلام کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ ایک موقع پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اگر آپ میں سے کوئی شخص اپنی ساری زندگی حج کرنے میں گزار دے لیکن حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے نہ جائے تو گویا اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حق ادا نہیں کیا، کیونکہ حسین علیہ السلام کا حق وہ حق ہے جسکا ادا کرنا خدا نے تمام مسلمانوں کیلئے واجب قرار دیا ہے"۔(مزار شیخ مفید، صفحہ 37)۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے"۔ (کامل الزیارات، باب 43، صفحہ 121)۔
۲۔ مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا انعقاد:
امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشھداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔
ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"،
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، اسکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:
امرر علی جدت الحسین فقل لاعظمہ الزکیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اپنے جد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں اور انکے پاکیزہ بدن کو مخاطب کر کے کہیں ۔۔۔۔۔"
امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۳۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سلطنت اسلامی کے مختلف مقامات پر انقلابی تحریکوں نے جنم لیا جن میں سے سب سے زیادہ معروف حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام کی انقلابی تحریک تھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اگرچہ واضح طور پر اس انقلابی تحریک کی حمایت کا اعلان نہیں کیا لیکن اندر ہی اندر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور حضرت زید رح کے ہمراہ شہید ہونے والے تمام افراد کے گھر والوں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ آپ علیہ السلام نے حضرت زید کی تحریک کو انقلاب حسینی کا نام دیا اور انکے بارے میں فرمایا:
"ایسا مت کہیں کہ زید نے بغاوت کی ہے۔ زید ایک سچے عالم تھے اور ہر گز طاقت کے خواہاں نہ تھے، وہ ہمیشہ لوگوں کو خاندان پیغمبر کے پسندیدہ شخص کی طرف دعوت دیتے تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو حتما اپنے وعدے پر عمل کرتے۔ انہوں نے حکومت سے ٹکر لی تاکہ اسکا خاتمہ کر سکے"۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۴۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت
امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔
کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔ امام علیہ السلام نے فقہی حکم "اعوان ظلمہ" کو متعارف کروایا جسکے تحت ظالم حکمرانوں کی مدد شرعا حرام تھا۔ ایک شخص جس کا نام عذافر تھا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ حکومت کے ساتھ لین دین کرتا رہتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
"قیامت کے دن جب تمہیں بھی ظالم افراد کے ساتھ شامل کیا جائے گا تو اس وقت تمہاری حالت کیا ہو گی؟"۔
امام علیہ السلام کے اس جملے نے اس شخص کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ سخت غمگین ہو گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد دکھ اور غم کی وجہ سے فوت ہو گیا۔
اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی متعدد روایات موجود ہیں جن میں ظالم حکومت سے مقابلہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔(وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 127)۔
یہ نکات ظاہر کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ لہذا جب ابوسلمہ خلال نے بنی امیہ کے خلاف امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بیعت کرنے کی پیشکش کی تو آپ علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد کہا:
"مجھے ابوسلمہ سے کیا کام؟، وہ کسی اور کا پیروکار
امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔
ہے"۔
جب قاصد نے امام صادق علیہ السلام سے اصرار کیا کہ خط کا جواب ضرور دیں تو آپ علیہ السلام نے اپنے خادم سے چراغ منگوایا اور ابوسلمہ کے خط کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ قاصد نے پوچھا کہ جواب کیا ہوا؟۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"جواب یہی تھا جو تم نے دیکھ لیا، جو کچھ دیکھا ہے جا کر اپنے دوست کو بتا دو"۔ [مروج الذھب، جلد 3، صفحہ 253؛ الفخری، صفحہ 154]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ابوسلمہ کی نیت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ انکے ساتھ مخلص نہیں ہے اپنی حکومت کے چکر میں ہے اور امام علیہ السلام کی شخصیت کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کے درپے ہے۔ اس حقیقت کا مزید علم اس بات سے ہوتا ہے کہ ابوسلمہ نے ساتھ ہی علویوں کی دو اور شخصیات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے عمر اشرف اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے پوتے عبداللہ محض کو بھی لکھے جن میں انکی بیعت کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
اسی طرح بنی عباس کے بانی ابومسلم خراسانی نے بھی امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کی۔ امام علیہ السلام نے اسکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اسے جواب میں لکھا:
"تم میرے ساتھیوں میں سے نہیں ہو اور یہ وقت بھی میرے قیام کا وقت نہیں ہے"۔(ملل و نحل شہرستانی، جلد 1، صفحہ 142)۔
امام صادق علیہ السلام کو معلوم تھا کہ انکے ساتھ تعاون انہیں حکومت تک پہنچانے کا سبب بننے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا اور انکی شکست کی صورت میں سوائے اپنے پیروکاروں کیلئے خطرات مول لینے کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
اگر ہم امام صادق علیہ السلام کی سیاسی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیں تو جان لیں گے کہ آپ علیہ السلام سیاست برای سیاست کے قائل نہیں تھے بلکہ سیاست کو اعلی اسلامی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام پوری طرح ہوشیار تھے کہ خود اور آپکے پیروکار کسی کے فریب کا شکار نہ ہو جائیں۔ امام صادق علیہ السلام اپنے پیروکاروں کو تاکید کرتے تھے کہ نہ بنی امیہ اور نہ ہی بنی عباس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ اس طرح امام علیہ السلام نے ان دونوں جاہ طلب اور دنیا پرست ٹولوں کا مقابلہ کیا۔
تحریر:آیت اللہ العظمیٰ جعفرسبحانی