وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان مسلسل سیکھتا ہے،اپنے استادوں،ماں باپ،کتابوں،معاشرے اور دوستوں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی سیکھتاہے۔جانوروں میں سے ایک شہد کی مکھی بھی ہے۔شہد کی مکھیاں سارا دن پھولوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ایک پھول سے دوسرے پھول کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں۔لیکن اگر ان کے چھتے پر حملہ ہوجائے تو سب متحد ہوکر دفاع کرتی ہیں۔شہد کی مکھیوں میں بھی اتنا شعور ہے کہ وہ دفاع کے وقت متحد ہوجاتی ہیں لیکن ہم انسان ہونے کے باوجود یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ دفاع کے وقت متحد ہوجانا چاہیے۔
جب ہمارے مقدسات پر حملہ ہوتا ہے،ہماری محترم شخصیات کی آبرو خاک میں ملائی جاتی ہے،ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی اہانت کی جاتی ہے تو ہم متحد ہوکر دفاع کرنے کے بجائے گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،خصوصاً زائرین کے مسائل کو پارٹیوں کی عینک لگاکر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ایسے میں زائرین بے چارے اپنی مشکلات کے حل کے لئے کبھی ایک پارٹی اور ایک شخصیت سے امیدیں باندھتے ہیں اور کبھی دوسری پارٹی اوردوسری شخصیت سے۔
اس وقت مجھے یہ فرضی واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک صاحب عمرہ ادا کرنے گئے ،جب طوافِ کعبہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے گھر والوں کو فون کیا کہ فلاں پیر صاحب کی قبرپر جاکر میرے لئے دعا کریں۔
ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہے کہ وہ جاتو امام حسینؑ کی زیارت کے لئے رہے ہیں جبکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے پارٹیوں اور شخصیات کی قبروں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
زائرین کو چاہیے کہ اس سفر زیارت میں جہاں اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعاکریں وہیں حضرت امام حسینؑ سےخصوصی طور پر یہ دعا بھی کریں کہ زائرین کوستانے والے لوگ اگر قابل ہدایت ہیں تو خدا انہیں ہدایت عطاکرے اور قابل ہدایت نہیں ہیں تو خدا جلد از جلد انہیں ہلاک کرے اور ان کے شر سے زائرین کو نجات عطاکرے۔
زائرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر زائرین مسلسل یہ دعا کریں تو میرا ایمان ہے کہ واپسی پر مطلع صاف ہوگا۔میں یہاں پرزائرین کے لئے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ چہلم امام حسینؑ کا ایک عملی پہلو ہے اور دوسرا نظریاتی پہلو ہے۔
عملی اعتبار سے چہلم امام حسینؑ میں شرکت ایک سنت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی جارہی ہے اور نظریاتی اعتبار سے یہ چہلم کی سنت ایک نظریاتی جنگ ہے جسے نظریاتی محازوں پر لڑے جانے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی نظریے کے دفع اور پرچار کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں:
۱۔عمق ۲۔تحلیل ۳۔استدلال
چہلم امام حسینؑ کے حوالے سے نظریاتی طورپر ہمارا مطالعہ عمیق ہونا چاہیے۔ہمیں اس سلسلے میں اٹھنے والے سوالات اور شبھات کاعلم ہونا چاہیے اور ان کے جوابات علماکرام اور مستند کتابوں سے معلوم کرنے چاہیے،دوسرے مرحلے میں ہمیں ان عمیق معلومات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کرنا آنا چاہیے۔چہلم امام حسینؑ کے سفر میں ہماری معلومات میں جو اضافہ ہو اور ہماری آنکھیں جو کچھ دیکھیں ،ہمیں اس کی صحیح تحلیل کرنی چاہیے۔تیسرے مرحلے میں ہمیں واپسی کے وقت عمیق مطالعے اور تحلیل کے ہمراہ استدلال بھی کرنا آنا چاہیے۔
یعنی ہم اس سفر کے معنوی و رواحانی مشاہدات و تجربات اور اپنے عملی مطالعات کو احسن استدلال کے ذریعے دوسروں تک پہنچائیں بھی۔
یاد رکھنے کے قابل بات یہ ہے کہ فقط چہلم کے سفر میں پیادل شرکت کرلینے سے یہ سنت ادانہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ واپسی کے دوران ہم اس سفر کے ثمرات اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں۔تاکہ جو کسی بھی وجہ سے اس سفر میں شریک نہیں ہوسکے وہ بھی اس سفر کی معنوی لذت کو چکھیں۔
واپسی کے دوران بھی جہاں دعا و مناجات کرتے رہنے کی ضرورت ہے وہیں زائرین ِ امام حسین ؑ کو ستانے والوں کے لئے بھی ہدایت یا ہلاکت کی دعا کرتے رہیں۔
اس ملک کو سدھارنے کے لئے جہاں اور بہت ساری محنت اور کاوش کی ضرورت ہے وہیں ہماری دعاوں کی بھی ضرورت ہے اور دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین حسنین ؑکے نانا محبوب خدا خاتم المرسلین نے اپنی زندگی میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا تعارف خود صحابہ کو کرایاکبھی مسجد نبوی کے منبر پر بیٹھ کر اور کبھی منبر چھوڑ کر کبھی سجدے کو طول دے کر ، کبھی کندھوں پہ بٹھا کر ، اور کبھی اپنا تعلق بیان کرکے مثلاً کبھی آپ نے ارشاد فرمایا حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوںتو کبھی آپ نے ارشاد فرمایا حسن ؑ وحسین ؑ جوانان جنت کے سردار ہیں گویا حضور کی حیات مبارکہ میں بے شمار واقعات ملتے ہیں جہاں امام عالی مقام کی عظمت بیان کی گئی لیکن کربلا کا برپا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت نے امام حسینؑ کی قدرومنزلت کے ساتھ انصاف نہیں کیا یزید کا رویہ اور مقصد آپ سب جانتے ہیں اور امام حسین ؑ کا انکار بھی۔
میں نے آج واقعات کی بجائے ارشادات نبوی ﷺتحریر کئے ہیں کیونکہ واقعات آپ نے پڑھے بھی ہوئے ہیں اور سنے بھی آج میں آپ کو ایک اور واقعہ سنانا چاہتا ہوں !جو میرے ساتھ کل پیش آیا۔
اس وقت سے کچھ سوالات بار بار میرے ذہن میں ابھررہے ہیں اور مجھے کوئی جواب نہیں مل رہا اس لئے میں نے سوچا آپ سب سے شئیر کروں شاید کوئی پڑھا لکھا میری اس مشکل کو حل کردے اور میری ذہنی اذیت ختم ہو جائے ۔
ہوا یوں کہ کل نماز عصر کے وقت میرا گزر فیصل آباد ہاکی سٹیڈیم سے ہوا میں نے دیکھا وہاں کچھ لوگ نماز پڑھنے کی تیاری میں مصروف ہیں اور آپس میں کچھ باتیں کررہے ہیں وہاں مجھے پانی کا ایک نل نظر آیا میں وہاں پہنچا اور اپنے ہاتھ دھونے شروع کئے یہاں مجھے نمازیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی اور چہرے بھی نظرآرہے تھے ان میں کچھ نمازی دھاڑی والے تھے اور کچھ داڑھی کے بغیر اور کچھ کی چھوٹی چھوٹی دھاڑی تھی یہ نمازی بڑی خوش مزاجی سے کہہ رہے تھے ۔
یار نماز کا وقت ہوگیا ہے جبکہ سٹیڈیم میں تیز آواز میں ڈھول بج رہا ہے لیکن اس پر کسی نمازی نے پریشانی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہنسی ہنسی میں جماعت کا وقت ہو گیامولانا صاحب تشریف لے آئے اور نماز شروع ہو گئی اس ڈھول کے شور میں نماز ادا کردی گئی نہ کسی نے یہ کہا جاﺅ ان کو کہو نماز پڑھنی ہے ڈھول بند کردو ،نہ کسی نے 15 پر کال کی نہ کسی نے متعلقہ تھانے میں درخواست دی نہ کوئی مذہبی جماعت وہاں آئی نہ آئندہ ڈھول کو روکنے کی منصوبہ بندی ہوئی غرض ڈھول والا ڈھول بجاتا رہا اور نمازی اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور اپنا فرض ادا کیا لیکن میں وہیں کھڑا کھڑا نجانے کہاں کہاں پہنچ گیا میں نے محرم پر کئی سالوں سے عجیب مناظر دیکھے ہیں کہیں مسجد میں نماز ہو اور باہر ذکر حسینؑ ہو تو وہاں قیامت برپا ہوجاتی ہے پتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو جنت میں بھی جانا چاہتے ہیں اور ذکر حسینؑ کے خلاف درخواستیں بھی دیتے ہیں کالیں بھی کرتے ہیں اور زور بازو پر اسے روکنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اگر ان سے کوئی بچ جائے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رینجر اورپولیس آڑھے ہاتھوں لیتی ہے۔
بس میرے دماغ میں ایک ہی الجھن ہے کہ میرے مولا میرے آقا آپؑ آج بھی کتنے مظلوم ہیں آپؑ کا ذکر عبادت ہے آپؑ سے وفاداری دین اسلام سے وفاداری ہے لیکن پھر بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آپؑ کا ذکر روکنے کے لئے لوگوں کو قتل تک کردیا جاتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مجھے اس کا جواب نہیں ملتا اگر آپ لوگوں کو سمجھ آجائے تو مجھے جواب ضرور دینا۔۔۔۔۔۔
تحریر۔۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی
وحدت نیوز (آرٹیکل) جب امریکہ نے 9/11 بعد افغانستان پر حملہ کیا اور دنیا بھر کے وہابی اور تکفیری جو جہاد افغانستان کے لئے جمع ہوئے تھے انکی مرکزیت توڑ کر اور حکومت ختم کرکے انہیں جہاں اسلام میں بکھیر دیا گیااور اگلے مرحلے میں انہیں لیبیا ، تیونس ، مصر ، عراق ، شام اور یمن میں اپنے مفادات کے لئے استعمال کیااور جنرل پرویز مشرف نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر پاکستان میں انکے خلاف آپریشن کا آغاز کیا. "سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ اینڈ سلک روڈ سٹڈیز پروگرام " کی تحقیقاتی رپورٹ میں بیان ہوا ہے کہ " طالبان کے وجود کو بچانے اور انکی مالی امداد ، افرادی قوت کی فراہمی اور لوجسٹک خدمات کے لئے متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ قائم کیا گیا." جس نے مشرف دور میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا. اور دوسری طرف عدلیہ کے سربراہ افتخار چوہدری کے ذریعے حکومتی گاڑی کے پہیوں میں لکڑیاں ڈالی جاتی رہیں اور ان دونوں کی پشت میں تکفیریت اور وھابیت کے مرکز سعودی عرب کا ہاتھ تھا. افتخار چودھری کی سعودی سفیر سے ملاقاتیں اور ایم ایم اے کے بعض مرکزی قائدین کے سعودیہ سے رابطے کسی سے چھپے نھیں. سعودیہ نے لمبا عرصہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی خطے پر تسلط اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے اب اسے پہلے سے زیادہ انکی تکفیری دہشتگردوں کی ضرورت تھی. اسی اثناء میں دارالحکومت اسلام آباد میں میں قائم دھشتگردی اور تکفیریت کے سب سے بڑے مرکز لال مسجد پر ملک میں امن کی بحالی کی بنیاد پر آپریشن کیا گیا. اس مرکز کے فقط پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ اس کے عراق و شام اور دیگر ممالک تک مسلح تکفیری گروہوں سے روابط تھے۔
اب ایک طرف سعودیہ پاکستان کے بشری اور ایٹمی بموں پر کنٹرول چاہتا تھا اور دوسری طرف پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور .مسلم لیگ نوں بھی ملٹری انقلابوں سے جان چھڑوانا اور سول ڈکٹیٹرشپ کو لانا چاھتی تھیں. اور امریکا ، اسرائیل اور انڈیا کو بھی مضبوط آرمی اور طاقتور پاکستان قابل قبول نہ تھا. اس لئے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ان سب کی آپس میں قربتیں بڑھیں . ایک طرف امریکہ اور مغرب نے جمہوریت اور ڈیموکریسی اور آزادی کا نعرہ لگا کر خطے میں قائم حکومتیں گرانا شروع کر دیں اور سعودی عرب اور قطر جیسی وہ پولیس اسٹیٹس اور بادشاہتیں جنکے اپنے ممالک میں نہ عوام آزاد ہیں اور نہ وہاں الیکشن ہوتے ہیں نے بھی خطے میں نام نہاد جمہوری حکومتیں قائم کرنے کی خاطر امریکی اور صہیونی جنگ میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا.پاکستان میں بھی مذکورہ دونوں بڑی پارٹیوں نے بھی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور اپنے اقتدار کی خاطر جمہوریت کا ڈھول پیٹنا شروع کیا اور سعودی عرب جو خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کا منشی تھا پاکستان جیسے ایٹمی طاقت اور اسٹرٹیجک مقام رکھنے والے ملک کی بڑی پارٹیوں کے سربراہان اس امریکی منشی کے بھی منشی بن گئے نون لیگ تو سب جانتے ہیں کہ ضیاء الحق کی سیاسی میراث ہے اور تکفیریوں کے مرکز سے لیکر پاکستان میں موجود تکفیری قوتوں کے پہلے ہی قریب تھی. لیکن پیپلز پارٹی جوکہ ایک سیکولر جماعت تھی اس سعودی قربت سے اس میں تکفیری اثر ورسوخ بڑھا جس کاعملی مظاہرہ کالعدم سپاہ صحابہ کے سیاسی چہرے پاکستان راہ حق پارٹی اور پی پی پی کے کراچی اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے مشترکہ الائنس بننے کے موقع پر ہوا
اب جب نیشنل ایکشن پلان بنتا ہے یا دھشتگردی اور تنگ نظری کے خاتمے کے لئے قانون سازی ہوتی ہے یا آئین وقانون پر عمل درآمد کا مرحلہ آتا ہے تو دھشتگردی اور تکفیریت کے مراکز سے منسلک یہ لوگ فقط اپنے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں . کیونکہ اگر وطن کے وسیع تر مفادات اور نیشنل انٹرسٹ کی بنیاد پر پھانسی کے پھندے لگائے جائیں تو بہت سارے حکمرانوں ، جرنیلوں ، مذھبی وسیاسی لیڈروں اور دیگر با اثر افراد کی گردنیں ان پھندوں میں آتی ہیں اور یہ لوگ جب تک اقتدار میں رھیں گے اس وقت تک دھشتگردی ، تنگ نظری اور تکفیریت باقی رھے گی۔
پاکستان جیسے ملک میں خلیجی ممالک جیسی ایک خاندان کی بادشاہت لانا ممکن نہیں البتہ خطے میں بغیر داڑھی والا سلطان اور خلیفہ موجود ہے کہ جس کا نعرہ جمہوریت ہے،جو ایک طرف تو امت مسلمہ کا درد مند اور جہان اسلام کا ہیرو ہے اور دوسری طرف اسرائیل سے تعلقات استوار رکھتا ہے اور داعش کو وجود میں لانے اور انکے ساتھ ملکر عراق وشام کے پٹرول کا کاروبار کرنے کا تجربہ رکھتا ہے. خطے میں امریکی اور مغربی مفادات اور نیٹو اتحاد کے تباہ کن حملوں میں بھی شریک ہے. اور ساتھ ساتھ جمہوریت کا علمبردار بھی ہے. جس کا نام رجب طیب اردوغان ہے. جب سے اسکا اسرائیل اور امریکا سےگٹھ جوڑ ہوا ہے. اور طے ہوا ہے کہ وہ وفاداری کرے گا. اس وقت سے ترکی کی آرمی جو کئی ایک فوجی انقلابات لا چکی تھی اسکے سامنے رام ہو چکی ہے. اور جو عناصر ممکنہ خطرہ بن سکتے تھے انھیں کچھ عرصہ پہلے فوجی انقلاب کا ڈھونگ رچا کر صفایا کر دیا ہے جن میں ہزاروں فوجی جوان ،اعلی افسران ،ججز اور سیاستدان شامل ہیں۔
اردگان کی حمایت میں ترکی کی عوام نہیں بلکہ داعشی وتکفیری گروہ نکلے تھے. جنھوں نے بیدردی سے فوجی جوانوں اور افسران کے گلے کاٹے جسے انٹرنیشنل میڈیا نے ایک حد تک دکھایا تھا۔آج یوں لگتا جیسے پاکستان میں نواز شریف صاحب بھی بغیر داڑھی کے خلیفہ اور سلطان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں. اخباری رپورٹ کے مطابق انکے پر امن کہلانے والے حامیوں کو اسلحہ کے ٹرک وصول ہو چکے ہیں. حالانکہ ان کے پاس پہلے بھی اسلحہ کی کوئی کمی نہیں تھی دو سال سے جاری آپریشن ضرب عضب جنھیں ختم نہ کر سکا وہ آج بھی پاکستانی عوام اور حکومتی مراکز پر حملے کر رھے ہیں. اور وہ اس ملک کے با اثر بزرگ سیاسی و مذہبی راہنمائوں اور افسران کے زیر سایہ محفوظ ہیں.
ملک ایک بار پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ضیاء الحق کے فوجی انقلاب جیسی نازک صورتحال سے گزر رھا ہےاور اس کے اثرات بیس پچیس سال تک قائم رہ سکتے ہیں. اس لئے اس مادر وطن کے وفادارں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا وگرنہ ایک عرصہ تک پوری قوم پچھتائے گی .اور ملک میں لا قانونیت، ظلم و نانصافی و عدم احتساب اور آئین کی پامالی سے مزید بحران جنم لیں گے۔
تحریر۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۴۷میں ہمارے ہاں سے برطانیہ تو چلاگیا لیکن غلامی نہیں گئی۔ہماری ملت مسلسل فوجی غلامی میں یا پولیس اسٹیٹ میں زندگی گزارتی چلی آرہی ہے۔آزادی کے بعد سے ہمارے ہاں پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔پولیس اسٹیٹ یامارشل لا کا سلسلہ چل رہاہے۔
آج اس وقت نیشنل ایکشن پلان ڈی ٹریک ہوچکا ہے،علامہ شیخ محسن نجفی اورمولانا امین شہیدی جیسی شخصیات کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جاچکے ہیں،گلگت بلتستان میں یوم حسینؑ پر پابندی عائد ہوچکی ہے،تفتان روٹ پر ایف سی کی لوٹ مار جوں کی توں ہے ،کتنے ہی نوجوانوں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے اٹھا لیا گیا ہے،ایسے میں یہ خبر آپ تک یقینا پہنچ چکی ہے کہ ۲۵ اکتوبر بروز منگل کو کوئٹے میں پولیس ٹریننگ کالج پر دہشتگردوں نے حملہ کرکے 60 اہلکار شہید اور 117 زخمی کردئیے ہیں۔
اس حملے کے بارے میں آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل شیرافگن کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا، جنہیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان میں افغانستان کی مداخلت کی بات کی گئی ہے۔پاکستان میں افغانستان ،ہندوستان ،امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت پاکستانی حالات حاضرہ کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔
یہ ہے ملک کی بگڑی ہوئی صورتحال کا نقشہ۔
اب اگر آپ اس نقشے کو درست کرنے کی کوشش کریں اور نیشنل ایکشن پلان کو اس کے اصلی مقاصد کی طرف لوٹانے کی کوشش کریں،فورتھ شیڈول سے محب وطن اور پر امن شخصیات کے نام کے اخراج کی بات کریں،گلگت بلتستان میں یومِ حسینؑ سے پابندی ہٹانے کے لئے آواز اٹھائیں،تفتان روٹ پررشوت خور ایف سی کو لگام دینے کی ضرورت پر زور دیں،بے گناہ نوجوانوں کو بغیر کسی ثبوت کے اٹھائے جانے پر احتجاج کریں،پاکستان میں امریکہ ،سعودی عرب،افغانستان اور ہندوستان کی مداخلت کو چیلنج کریں تو آپ کو ایف سی ،پولیس اور فوج کے جوانوں کے آمنے سامنے لاکر کھڑا کردیا جائے گا۔پھر لاٹھی چارج ہوگا،پرچے کٹیں گے،آنسو گیس کی شیلنگ ہوگی،گرفتاریاں ہونگی اور اصل مسائل دب جائیں گے۔
ہمارے ملک کی کلیدی پوسٹوں پر کئی سالوں سے ایسا مافیا قابض ہےجو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سرکاری مشینری کو استعمال کرتا چلا آرہاہے۔
یہ مافیا عوامی قیادت،جمہوری رہنماوں اور سیاسی افراد کے سامنے فوج ،پولیس،ایف سی اور دہشت گرد ٹولوں کو لاکر کھڑا کردیتا ہے۔حالانکہ افغانستان اور ہندوستان کے حمایت یافتہ اور سعودی عرب کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں کتنے ہی فوج،پولیس اور ایف سی کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔
جو مافیا عوام کو دہشت گردوں سے قتل کرواتا ہے وہی اصل میں فوج،پولیس اور ایف سی کے قاتلوں کی پشت پناہی بھی کررہا ہے۔
جوسرکاری ٹولہ رشوت اور لوٹ مار کے لئے ایف سی اور رینجرز جیسے اداروں کو چھوٹ دیتا ہے وہی دہشت گردوں کو بھی ایف سی اور رینجرز نیز فوج کے خلاف محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے۔
آج مختلف حکومتی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے استعماری آلہ کار آرام سے اپنے آقاوں کے ایجنڈے پر مسلسل کام کررہے ہیں اورہر جگہ عوام کو فوج،ایف سی اور رینجرز کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔جبکہ خود فوج،ایف سی اور رینجرز کو دباو میں رکھنے کے لئے دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن کو ڈی ٹریک کردیا گیاہے۔
ملک عملا ایک پولیس اسٹیٹ میں بدل چکا ہے ،چند لوگ حکومتی پوسٹوں پر بیٹھ کر انتظامی اداروں کے ذریعے پوری قوم کو دائیں مُڑ۔۔۔با ئیں پھر۔۔۔ہوشیار۔۔۔آسان باش کی پریڈ کروا رہے ہیں۔
جب تک ہم پریڈ کرتے رہیں گے ہمارے نام فورتھ شیڈول میں جاتے رہیں گے،ہمیں بلاجواز گرفتار کیا جاتا رہے گا،یوم حسینؑ پر پابندیاں لگتی رہیں گی،ملک میں امریکہ ،سعودی عرب ،افغانستان اور ہندوستان کی مداخلت نہیں رکے گی اورہمارے ہاں فوج، پولیس، رینجر، ایف سی اور عوام پر دہشت گردوں کے حملے جاری رہیں گے۔
ہمیں اس پریڈ کی صورتحال سے باہر نکلنا ہوگا۔اپنے ملکی اور قومی مسائل کے حل کے لئے ایک گرینڈ الائنس تشکیل دینا ہوگا،ملک کی جمہوری اور سیاسی تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
ملک کا پولیس اسٹیٹ میں بدل جانا صرف ایک مذہب ،فرقے،مکتب یا پارٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت پاکستان کا مسئلہ ہے۔جب تک باشعور اور مخلص لوگ آپس میں مل کر نہیں بیٹھیں گے اس وقت تک یہ ملک مسلسل فوجی اسٹیٹ سے پولیس اسٹیٹ میں بدلتا رہے گا۔دائیں مڑ اور بائیں پھر کا سلسلہ چلتا رہے گا۔اس سلسلے کو روکنے کے لئے ہم سب کو پریڈ کی صورتحال سے نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔
ہم پہلے اس پریڈ سے تو جان چھڑائیں،آپس میں تمام فرقوں اور پارٹیوں سے بالاتر ہوکر مشترکات کی خاطر مل بیٹھیں،اتحاد اور بھائی چارے کے لئےتھنک ٹینکس تشکیل دیں،محب وطن شخصیات،تنظیموں اور اداروں کے درمیان رابطوں کو بڑھائیں اور مشترکات پر ایک ہوجائیں پھر دیکھا جائے گا کہ جمہوری اصول کیا ہوتے ہیں اور عوامی مینیڈیٹ کسے کہتے ہیں!؟پھر الیکشن کی طاقت اور انسانی حقوق کی بات موثر ہوگی۔پھر احتجاج رنگ دکھائیں گے اور نعرے درویوار میں شگاف ڈالیں گے،پھر قانون کی بالادستی اور حب الوطنی کا بول بالا ہوگا،پھر پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لاالہ الاللہ کی طرف سفر شروع ہوگا۔
ہمیں اب بحیثیت قوم مل کر سب سے پہلے اپنے ملکی اداروں کی کلیدی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے افراد کا جائزہ لینا ہوگا ،عوام کے خلاف سرکاری اور انتظامی مشینری استعمال کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اورفوج ،ایف سی،پولیس اور رینجر پر دہشت گردانہ حملے کروانے والوں کو پہچاننا ہوگا۔
جب ہم ان لوگوں کو اچھی طرح پہچان کر اپنے قومی،سیاسی و ملکی فیصلے کریں گے تو تب ہمارے ہاں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی ورنہ ہمارے ہاں تو مسلسل پاکستان کا مطلب کیا،پولیس اسٹیٹ یا مارشل لا کا سلسلہ ہی چل رہاہے اور یہی چلتا رہے گا۔
ہمیں کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج میں شہید ہونے والے جوانوں کی لاشوں کو دفناتے ہوئے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ جو لوگ بابائے طالبان کے مدرسے کو صرف ایک قسط میں تیس کروڑ کی گرانٹ دیتے ہیں وہ فوج ،ایف سی اور رینجرز کے کیسے مخلص ہوسکتے ہیں!؟
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) وطن عزیزپاکستان مسائل کے بھنور میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اگر چہ ضرب عضب اپریشن نے ملکی استحکام میں بہتری پیدا کی ہے اور مزید بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں امن ہونا پاکستانیوںکی فلاح کی ضمانت ہے اور پاکستانیوں کے حالات اس وقت ہی بہتر ہو سکتے ہیں جب ملک میں دہشت گردی نہ ہو لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں ،لوگوں کا روزگار بہتر ہو لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں جس طرح ایک فالج کے مریض کو صحت مندکرنے کے لئے علاج کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح مملکت خداداد پاکستان کی ترقی مختلف شعبہ جات میں استحکام کی وجہ سے نصیب ہوسکتی ہے۔
دہشتگردی اگرچہ سب سے بڑا ناسور ہے اور یہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے اس لئے قومی ایکشن پلان اور ضرب عضب موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں لیکن یہاں میں ایک بات کی نشاندہی بھی کرنا چاہتا ہوںاُمید ہے میرے قارئین میری بات کو اہمیت دیں گے اور اگر یہ بات سچ ہوئی اور ویسے ہی ہوئی جیسے میں کہوں گا تو مجھے اُمید ہے اس پر ڈسکشن کا راستہ کھولا جائے گا اور ہر فورم پر اس بات کو موضوع بنایا جائے گا ۔
بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک دہشت گردی صرف یہ نہیں کہ بم پھوڑ دیا جائے اور بے گناہ معصوم لوگوں کو قتل کردیاجائے،یا پھر گولیوں سے لوگوں کو بھون دیا جائے یہ دہشت گردی کی ایک قسم ہے یہ اتنی خطرناک قسم ہے کہ اس نے عرضِ وطن کا ہر چپہ لہولہان کردیا اس کے فروغ میں جہاں ہمارے دوسرے اداروں کی سستی ہے وہاں سب سے بڑی ذمہ داری سیکورٹی ایجنسیز سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کی تھی جس میں تساہل سستی کرپشن پسند نا پسند اور ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد کی سرپرستی اور ان کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا شامل رہا جس کے باعث دہشتگردوں اور دہشتگردی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔
میں جنرل راحیل شریف اور تمام سیکورٹی اداروں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے دہشت گردی کی گردن دبوچ لی اور آج سسکیاں لیتی دہشت گردی افواج پاکستان کی عظیم کامیابی ہے لیکن یہ کامیابی دائمی ہوگی یا نہیں اس پر ابھی سوالیہ نشان باقی ہے ۔کچھ ایسے بھی محسوس ہورہا ہے کہ دہشت گرد مناسب وقت تک انتظار کریں گے اور پھر دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوں گی اس کی تفصیل میں بس یہی کہوں گا کہ عام پبلک کی یہ رائے ہے اصل دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں ہو رہابلکہ کسی نہ کسی سہولت کار کی مدد سے وہ محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ۔
اب میں وہ بات کرنے جارہا ہوں جس کے لئے یہ ساری باتیں کیں تاکہ مجھے بات کرنے میں آسانی رہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ بات سچ ہے کہ دہشتگرد مناسب وقت کا انتظار کریں گے اور پھرسر اٹھائیں گے تو پاکستان مسائل کے بھنور سے کیسے نکلے گا ،جبکہ ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ انصاف کی گردن بھی دبوچ لی ہے اور انصاف بھی سسکیاں لے رہا ہے میں اپنی تمام عدلیہ کا اخترام کرتا ہوں اور میری یہ بات عدلیہ کے لئے ہے یہی نہیں کیونکہ عدلیہ کے بھی کچھ مسائل ہیں کہ آج ہمارے چیف جسٹس محترم جناب انور ظہیر جمالی ملک کی ابتر حالت پر صرف یہ کہہ پاتے ہیں کہ اب عوام کو باہر نکل آنا چاہئیے یعنی یہاں بادشاہی نظام ہے جناب والا !آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس ہیں کوئی سوموٹو ایکشن لیں، اور عوام کے ساتھ جوجو زیادتی کررہا ہے اس ملک کو جو جولوٹ رہا ہے اس کی نہ صرف نشاندہی کریں بلکہ اس کو تختہ دار پر لٹکائیں ، یہ بے کس، نا اُمید، خوف زدہ، بے سہارا، عوام آپ کو بہت دعائیں دے۔یہ کبھی سڑکوں پر نہیں آئے کیونکہ ایک طرف تو ان کے مقدر میں غربت ہے اور دوسری طرف اداروں کا خوف جو بادشاہ اپنی رعایا کے لئے کرتے ہیں وہ ہو رہا ہے۔
اس ظلم سے آپ ہی ہمیں نجات دلا سکتے ہیں لیکن ایک اور قابل توجہ چیز جس پر غور فکر کرنے کے لئے تمام محب وطن اداروں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بے گناہ معصوم لوگوں کو دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کیا جا رہا ہے نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کو ناکام کرنے کے لئے بے گناہ افراد پر FIR'S ہو رہی ہیں فورتھ شیڈول میں ڈالا جا رہا ہے تین تین ماہ جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ذکر نواسہ رسول کرنا مشکل ہو رہا ہے ذکر مصطفےٰ کے جلوسوں کو روکنے کی پیش بندیاں ہورہی ہیں یہ ریاستی دہشت گردی اور نا انصافی کی بدترین مثال ہے لہذا آج اگر ہم ملک عزیز پاکستان سے مخلص ہیں تو ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا ۔جو مجرم ہے اسے سزا دی جائے جو بے گناہ ہیں ان کو تحفظ دیا جائے میری دانش میں پاکستان کو ایک سیکولرسٹیٹ کی طرف لے جایا جارہا ہے جس پر کم ازکم مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس ملک کے مذہبی طبقات نے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا لیکن نیک دیندار صالح وطن پرست مخلص اتحاد بین المسلمین کے داعی اس ملک کی خدمت کرنے والے لوگوں کو ملک دشمن نہ بنایا جائے ،ان کی شہریت معطل نہ کی جائے، وہ پاکستانی ہیں ،دل وجان سے پاکستان کو چاہتے ہیں اس نا انصافی سے کہیں پھر کوئی نئی دہشت گردی وجود میں نہ آئے، اگر امن کی خواہش ہے، تو انصاف کرو! انصاف کرو! انصاف کرو!۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی
وحدت نیوز(آرٹیکل) موت کی حقیقت مومن کے لئے بڑی دلکش ہے۔خصوصاًاگرمرنے والا راہِ حق پر ہوتو موت کا ذائقہ شہد سے بھی زیادہ شیرین ہے۔موت کافر کے لئے مفید ہے چونکہ اسے دنیا کے فریب سے نجات دیتی ہے اور مومن کے لئے سودمند ہے چونکہ اسے کمالِ مطلق سے وصل کرتی ہے۔آج ہی مجھے قبلہ مولانا عبدالحسین ناطق کی وفات کی خبر ملی۔مولانا کسی زمانے میں جامعۃ الرضا اسلام آباد میں تدریس کرتے تھے اور میں نورالھدیٰ کارسپانڈس کورس کے پروجیکٹ پر کام کررہاتھا۔وہیں سے ان سے میری سلام دعا ہوئی،درس و تدریس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،ہفتہ بھر جامعۃ الرضاؑ میں تدریس کرتے تھے اورجمعرات کو ان کا خصوصی درس اخلاق ہواکرتاتھا ، ایک فاضل شخصیت ہونے کے ناطے ان کے دروس اور مجالس بھی لوگوں میں مقبول تھیں۔
مولانا موصوف کاشمار یقینا ایسے لوگوں میں ہوتا ہے کہ ان سے عالم ِ باعمل ہونے کی مہک آتی تھی،ان کی طبیعت میں صاف گوئی،لباس میں سادگی،باتوں میں گہرائی گفتگو میں عمق ہواکرتاتھا۔انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں کئی شاگردوں کی تربیت کی اور کئی لوگوں کے افکارو عقائد کی اصلاح کی۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی قدردانی ہم سب پر واجب ہے۔علما کی قدردانی کی ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں علما کی اہمیت کو اجتماعی طور پر محسوس کیاجائے۔ہمارے ہاں کسی ایسے مصدقہ ادارے کا وجود انتہائی ضروری ہے جو عالمِ دین کے عنوان کا معیار طے کرے اور پھر اس معیار کے اوپر جولوگ پورے اتریں ان کی تمام تر رفاہی و فلاحی ضروریات کو بطریق احسن پورا کیاجائے۔
مثلا ایک مرکز جب کسی کو عالمِ دین کا عنوان دیدے تو اس عالم دین کے بچوں کے تعلیمی اخراجات،بیمار ہونے کی صورت میں بیمہ پالیسی،فوتگی یا حادثے کی صورت میں خصوصی امداد،بچوں اور بچیوں کی شادی کے لئے سپورٹ،حج و زیارات کے لئے کوٹہ،ریٹائر منٹ کی عمر میں باعزت مدد،بلاجواز گرفتاری کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ،شر پسند عناصر کی طرف سے تحفظ،کسی عالم دین کی فوتگی کی صورت میں اس کی علمی میراث کو منظر عام پر لانا۔۔۔وغیرہ وغیرہ
ان سارے مسائل کےحل کے لئے ایک قومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا ادارہ جو دین و ملت کی خدمت کرنے والے علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنے فریضے کو انجام دے۔
جس طرح دینی مدارس اور اداروں کو چلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے اسی طرح دینی مدارس اور اداروں کو چلانے والے علما کی مشکلات کو سمجھنا اور حل کرنا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔
ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ علمائے کرام بھی ہماری طرح کے انسان ہیں،وہ بھی بیمار ہوتے ہیں،حادثات کے شکار ہوتےہیں،انہیں بھی اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں،انہوں نے بھی بچوں کی شادیاں کروانی ہوتی ہیں۔۔۔اُن کی یہ ساری ضروریات بھی ایک منظم سسٹم کے تحت باعزت طریقے سے پوری ہونی چاہیے۔
جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ سب کچھ انتہائی احسن انداز میں انجام دیاجارہاہے۔ایران کی طرح اس وقت ہمارے ہاں کے تمام دیندار اور فعال حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اس سلسلے میں بھی سوچیں اور علمائے کرام سے مشورہ کرکے کسی ایسے ادارے کی بنیاد رکھیں جو علمائے کرام کی سرپرستی میں ہی علمائے کرام کی مشکلات کو حل کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔
ہمارے معاشرے میں انسانیت اور دینداری کی جوشمع بھی ٹمٹما رہی ہے وہ علمائے کرام کی جدوجہد اور خلوص کا نتیجہ ہے۔علمائے کرام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے ہمیں انسان اور دیندار بنایاہے اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم لفظی تعزیت اور ظاہری اظہار ہمدردی کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی سوچیں۔
یاد رکھئے !علماکرام ہمارے محسن ہیں اور سمجھدار لوگ اپنے محسنوں کو بھلایا نہیں کرتے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.