وحدت نیوز(آرٹیکل) آج انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں،ظلم کرکے زندہ رہنا یا مظلوم بن کر۔یہ دونوں راستے استعمار کے بتائے ہوئے ہیں۔آج پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے زریعے انہی دونوں راستوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔
ایک عام انسان جب سیاستدانوں کے بیانات سنتا،اخبارات پڑھتا اور ٹی وی دیکھتاہے تو وہ یوں سمجھتاہے کہ جیسے انسانیت ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔اسے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے اب انسان کے پاس ظلم کرنے یا ظلم سہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔وہ مظلوموں کو بے سہارا،انسانیت کو مایوس اور انسانی اقدار کو قصہ پارینہ سمجھنے لگتاہے۔
حالانکہ انبیائے کرام اور دینِ اسلام نے انسان کے سامنے ایک تیسرا راستہ بھی رکھا ہے۔وہ تیسرا راستہ جسے ہم صراطِ مستقیم کے نام سے جانتے ہیں، صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جو حدِ وسط ہے،جو کلمہ اعتدال ہے،جو میزانِ حق ہے اورجو نورِ مستقیم ہے۔
صراطِ مستقیم یہ ہے کہ جس طرح ظلم کرنا ننگ و عار ہے اسی طرح ظالموں سے ہمکاری،ظالموں کی طاقت سے لوگوں کو مرعوب کرنا اور عوام النّاس کو ظلم قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرنا بھی ذلت و رسوائی ہے۔
صراطِ مستقیم ،لوگوں کو مظلوم بنانے کا دین نہیں بلکہ مظلوموں کو ظالموں کے خلاف کھڑا کرنے کا نام ہے۔
اس وقت استعماری طاقتیں مکمل منصوبہ بندی سے صراطِ مستقیم پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ میڈیا میں دنیا کے سامنے مسلمانوں کے صرف دوچہرے پیش کئے جارہے ہیں،مسلمان یا تو دہشت گردی کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یا پھردہشت گردی کے شکار ہورہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی تربیت بھی مساجد اور مدارس سے دی جاتی ہے جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی نماز جنازہ پڑھانے والے بھی مدارس و مساجد کے ترجمان ہوتے ہیں۔
مارنے والے اور مرنے والے دونوں کو اسلامی چہرے کے طور پر بڑھ چڑھ کر متعارف کروایا جاتاہے۔جبکہ اسلام کے حقیقی چہرےکو کہیں پر نہیں دکھایاجاتا۔
اگر کہیں پر کو ئی مسلمان رہنما انسانی حقوق کی بات کرے،مظلوم کو مظلوم بن کررہنے سے نفرت دلائے تو اسے باقرالنمر اور شیخ زکزاکی کی طرح منظر عام سے ہٹادیاجاتاہے۔
استعمار کو گوارا نہیں کہ کوئی مسلمان رہنماانسانی حقوق، احترامِ آدمیت،آزادی رائے،بیداری اقدار اور عدالتِ عمومی کی بات کرے۔استعمار یہ چاہتا ہے کہ مسلمان فقط دہشت گرد کہلوائیں یا پھر صرف مظلوم بن کر آنسو بہائیں۔
اس وقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں،حکومت کی طرف سےبے گناہ لوگوں کی گرفتاریوں،سرکاری اداروں کی طرف سےدہشت گردوں کی پشت پناہی ،حکومتی سرپرستی میں دینی مدارس کی طرف سے دہشت گردی کی ٹریننگ اورتکفیریت کی تعلیم و تبلیغ کے خلاف احتجاج کے نام پر جو کچھ ہورہاہے ،وہ چاہے کوئی بھی پارٹی کررہی ہے ،یا کوئی بھی گروہ کررہاہے یہ در اصل دنیا کو اسلام کی حقیقی شکل دکھانے کی ایک سعی اور کوشش ہے۔
مسلمانوں کے ایک دینی پلیٹ فارم سے ،اسلامی رہنماوں کی طرف سے بھوک ہڑتال کیمپ ،عالمی برادری کے لئے ایک پیغام اوربین الاقوامی انسانی اداروں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام کی حقیقی شکل وہ نہیں ہے جو تمہیں دکھائی جارہی ہے۔
اس احتجاج کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام مل رہاہے کہ جو بے گناہ انسانوں پر ظلم کرتاہے اور یاپھر مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی لاش پر آنسو بہاتارہتاہے وہ اسلام ، اسلام ِ محمدی ؐ نہیں ہے۔یہ دونوں اسلام کے وہ چہرے ہیں جو استعمارنے درہم و دینار اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تراش تراش کر دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔
اسلام حقیقی وہ ہے جو غافل انسانوں کو بیدار کرتاہے،جو مظلوموں کو ظالموں کے خلاف صف آرا کرتاہے اورجو انسانی اقدار اور مساوات کی علمبرداری کرتاہے ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا یہ احتجاج دنیا میں اسلام کے اس حقیقی چہرےکو متعارف کروانے کا نکتہ آغاز ہے۔دیگر مذاہب و مسالک اور مختلف ممالک کی شخصیات کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین کی حمایت اس بات کی دلیل ہے کہ اس احتجاج سے دنیا ایک مرتبہ پھر اسلام حقیقی کے چہرے کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔
دنیا کو ایک مرتبہ پھر یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ اسلام فقط مظلوم بن کر جینے،مسجد ،مدرسے اور اذان تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلام عادلانہ سیاست ،ظلم کے خاتمے اور مظلوم کو اس کاحق دلانے کا دین ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس احتجاج میں جتنی شدت آتی جائے گی ،اسلام حقیقی کا چہرہ اتنا ہی نکھرتا جائے گا۔کل تک جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ
آج انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں،ظلم کرکے زندہ رہنا یا مظلوم بن کر۔اب انہیں یہ سمجھ میں آجائے گا کہ ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور وہ غافل انسانوں کو بیدار کرنے، مظلوموں کو ظالموں کے خلاف صف آرا کرنےاور انسانی اقدار کی علمبرداری کرنے کا ہے ۔
اس سے پہلے جولوگ استعماری دنیا کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ پاکستان میں تکفیریت نے شیعت کا راستہ روک دیا ہے،وہابیت نے اہل سنت کو دیوار کے ساتھ لگا دیاہے اور سیکولر تنطیموں نے مذہبی قیادتوں کو بلیک میل کردیاہے اور اب پاکستانی کی دینی تنظیمیں اور مذہبی شخصیات ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہیں۔
اس احتجاج کے ذریعے وہ سیکولر اور سعودی عرب کے وظیفہ خور خود بند گلی میں پہنچ گئے ہیں،اب وہ اپنی ہی بنائی ہوئی بند گلی کے افق پر مجلس وحدت مسلمین کے فکری و نظریاتی سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
سورج روشنی پھیلاتاہے،
روشنی اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے
چونکہ روشنی وجود رکھتی ہے
اندھیرے کی مجبوری ہے کہ
اندھیرا اپنے وجود کا اظہار نہیں کرسکتا
وہ صرف سورج کو ڈوبنے کی بددعائیں دیتاہے
اندھیرے کی بددعائیں روشنی کا راستہ نہیں روک سکتیں
دنیا میں روشنی پھیل رہی ہے۔۔۔
ہم رہیں نہ رہیں روشنی رہے گی
سلام اس روشنی پر کہ جس نے
لوگوں کو بند گلیوں سے نکال کر
انسانیت کی تاریک راہوں میں
اجالا کیا
سلام ان پر کہ بھوک اور پیاس سے
جن کے پژمردہ جسموں کامستعار نام “اجالا “ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) ماہ مبارک کا آغاز ہوا اور ہر مسلمان نے اس بابرکت مہینے کا استقبال کیا، دعائیں مانگیں، یہ مہینہ اولیاء خدا کی تمناؤں اور حسرتوں کا مہینہ ہے، اس مہینہ کے حصول کے لئے اہل بیت اطہار علیہم السلام دعا و مناجات کرتے تھے اور اس کے لئے ماہ رجب و شعبان كو مقدمہ قرار ديتے تھے، بہت سے لوگ ماہ رمضان کے آنے سے پہلے گھروں کا ماحول بناتے ہیں، بہت سے مساجد کو سجاتے ہیں اور کچھ مومنین خرید و فرخت کرکے اپنے بچوں کے لئے اچھے سے اچھے کھانے خریدتے ہیں، تاکہ ان کے بچے شوق سے روزے رکھ سکیں، کچھ لوگ دوسروں کو افطاریاں دینے کے لئے اہتمام کرتے ہیں، علماء اعلام اس مہینے میں قلوب مومنین کی آمادگی کے باعث اسے تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا بہترین مہینہ سمجھتے ہیں۔ لہذا مسجدیں، مدارس اور امامبارگاہیں آباد ہو جاتی ہیں، لیکن پاکستان کی سرزمین اسلام آباد نے ایک عجیب انداز میں ماہ مبارک رمضان کا اسقبال کیا ہے، جسے نہ اپنے بچوں کی فکر ہے اور نہ ہی اپنے گھر کی خرید و فروخت کی، نہ اس نے کسی مسجد و مدرسہ کو انتخاب کیا اور نہ ہی اس نے افطاریوں کے لئے دستر خوان بچھائے، بلکہ اس نے بھوک کے ساتھ گھر سے باہر ایک کھلے میدان میں ایک کیمپ کے سائے میں 13 مئی سے سختیاں برداشت کرکے اپنے جسم کا کئی گنا وزن مظلوموں کی نجات کے لئے قربان کرکے اپنے نحیف جسم کے ساتھ ماہ خدا، ماہ رحمت و برکت اور مغفرت کا آغاز کیا ہے۔
اس مرد مجاہد نے کئی سال پہلے یوم القدس کے دن فلسطینی مظلوموں کی حمایت کے جلوس پر پتھر اور اینٹ سے کئے گئے حملے میں اپنی ایک آنکھ کی قربانی دی اور اس عالم مجاہد نے گذشتہ ایک دھائی اپنی قوم کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، دور افتادہ علاقوں میں سفر کیا، کبھی گلگت اور کبھی بلتستان، کبھی سندھ کے پسماندہ علاقوں میں مومنین کے پاس جاکر اور کبھی کوئٹہ میں شہداء کے جنازوں کے ساتھ کئی دنوں تک کھلے آسمان تلے بیٹھ کر اور کبھی شہداء کے خانوادوں کی دلداری کرکے مسلسل خدمت کی۔ میں نے ذاتی طور پر انہیں گذشتہ سالوں میں کبھی آرام سے بیٹھے نہیں دیکھا، آج کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہر روز گرنے والی لاشوں اور ہمارے جوانوں کے گرنے والے جنازوں نے اس غیور، بہادر اور شجاع عالم باعمل کے دل کو چھلنی کر دیا اور اس نے اپنے اوپر بھوک مسلط کرکے اپنی جان پر کھیل کر، اپنے سکون و آرام کو چھوڑ کر، اپنے گھر بار، اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر، مسجد و مدرسہ کو چھوڑ کر، آرام و سکون سے سونے والے عمامہ بہ سر لوگوں کو چھوڑ کر، جو اپنے اپنے مدرسوں اور تقریروں پہ بڑا فخر کرتے ہیں اور اپنی ہی تقاریر کو دنیا میں نشر کرنے میں مصروف ہیں، ان سب کو خیر باد کہہ کر، سراپا مجسم درد ملت بن کر قوم و ملت کی بیداری کا امتحان بن بیٹھا ہے۔
میرا سلام ہو تجھ پہ اے فرزند قرآن و عترت، اے فرزند کربلا و عاشورا، اے امام خمینی کے حقیقی فرزند، اے یادگار شہید علامہ عارف حسین الحسینی، اے فخر شہید علامہ عباس موسوی اور شہید آیت اللہ باقرالصدر، اے صبر و استقامت کے پہاڑ، ہمارا تجھ پر سلام ہو، ہمارا سلام تیرے صبر و حوصلے پر اور ہمارا سلام اس جسم پہ جو آج مظلوم کی حمایت میں اور ظالم کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی چٹان کی طرح ڈٹا ہوا ہے، آج میں اپنے ملک کے دینی مدارس، علماء کرام، ذاکرین و خطباء سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ابھی تک ہمارے ملک میں مسلسل بہنے والے شہداء کے خون نے ہمارے لئے حجت تمام نہیں کی؟ کیا ہر روز اٹھنے والے جنازوں نے ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجوڑا؟ کیا آئے دن یتیموں کی آہ و فریاد نے ہماری آنکھیں نہیں کھولیں؟ کیا ہزاروں بیواوں کا در بہ در فریاد کرنا اور لوگوں کے گھروں میں کنیزوں کی طرح کام کرنا ہمارے لئے کافی نہیں ہوا؟
کیا مختلف علاقوں سے لوگوں کا ہجرت کر جانا اور آبادیوں کا خالی ہو جانا، ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ کیا کئی لوگوں کا خوف کی وجہ سے مذہب چھوڑ دینا کافی نہیں؟ اور آج جب ہمارے خلاف ہمارے ملک میں بڑی بڑی سازشوں کا احساس کرکے اس مرد مجاہد علامہ راجہ ناصر عباس نے اپنی قوم میں دفاع اور اپنی ملت کے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک عظیم تحریک کا آغاز کیا ہے اور آج کئی دنوں سے اپنی صداقت کو ہر عام و خاص سے منوا لیا، اپنے مسلسل مشقت کے اس سفر کو ماہ مبارک کے مہینے میں بھی جاری رکھا ہوا ہے، تو کیا اس عالم باعمل اور مجاہد خستگی ناپذیر کے اس جہاد نے ہمارے لئے حجت تمام نہیں کر دی؟
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
میں اپنی قوم کے علماء ربانی، اساتید محترم، خطباء و ذاکرین، ملت کے عمائدین، ذمہ دار افراد اور جوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آیئے ہم سب اپنے اپنے فریضے کو ادا کریں اور اس مرد مجاہد کی اس مجاہدت میں اس کا ساتھ دیں، آیئے سب اٹھیں اور اپنی قوم کو ظلم و ستم سے نجات دلا دیں، اٹھیں اور اپنی قوم کی سربلندی اور عظمت کے لئے اپنے قدم کے ساتھ قدم ملائیں اور اس ماہ مبارک رمضان کو اپنی ملت کے مقدر کو بدلنے کا مہینہ قرار دیں۔ آیئے اس مہینہ میں اپنی قومی بیداری کے ساتھ اپنا مستقبل رقم کریں، یہ ایک ماہ رمضان ہمارے قومی مقدر کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔ خدایا اس مرد مجاہد کو ہمت، قوت اور جرات عطا کر اور اپنی ملت کی رہبری کے لئے بصیرت عطا فرما۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
تحریر۔۔۔۔۔علامہ غلام حر شبیری(لندن)
وحدت نیوز (آرٹیکل) تاريخ اپنے آپ كو دہراتی رہتی ہے اور اس کے صفحات ميں عبرتيں اور دروس ہيں۔ جن سے عقلمند افراد اور قوميں فائده اٹها سكتی ہيں۔ الله تبارک و تعالٰى کی مقدس كتاب قرآن كريم اس قسم كے واقعات اور قصص سے بهری پڑی ہے۔ ہر دور ميں مختلف كردار ہمارے سامنے آتے ہيں، ليكن غفلت اور لاعلمی كے سبب ہم ان عبرتوں اور دروس سے فائدہ نہيں اٹهاتے، نہ ہی ان حقائق كا بروقت ادراک كرسكتے ہيں اور نہ ہی اپنا صحيح فريضہ ادا كرسكتے ہیں۔ ہم آنكهوں کے سامنے ہابيل و قابيل كے كردار كا مشاہدہ كرتے رہتے ہیں اور قوم نوح علیہ السلام کی طرح حب ہميں دعوت حق ملتی ہے تو سنی ان سنی كر ديتے ہیں۔ ہم توحيد كو چهوڑ كر قوم ابراہيم علیہ السلام كي طرح مادی و نفسياتی بتوں کی پوجا كرتے نظر آتے ہیں۔
زمانے كے فرعون، ھامان اور قارون ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہيں اور ظلم كرتے ہيں۔ ہميں قتل اور ذليل و رسواء كرتے ہيں، ہماری ناموس اور عزتوں پر حملے كرتے ہيں، ليكن ہمیں بنی اسرائيل کی طرح ظلم سہنے كی عادت ہو جاتی ہے۔ ہمارے سامنے الله کی نيک ہستياں ہماری ہی خاطر جدوجہد كرتے ہوئے شہيد ہو جاتی ہيں اور ہميں احساس تک نہيں ہوتا۔ گذشتہ 38 سال سے ايک ايسا نظام ہماری غفلت سے ہم پر مسلط كر ديا گيا ہے کہ جس نے پوری پاكستانی قوم كو بالعموم اور تشيع كو بالخصوص وہی بنی اسرائيل بنا ديا ہے، جن بر فرعون مسلط ہوگئے تهے۔ اس ظالم نظام نے بہترين افراد اور مخلص شخصيات كو ہمارے سامنے قتل كيا اور قاتل آزاد ہیں۔ ملک اس فاسد نظام کے باعث بحرانوں اور مشكلات و مسائل کی دلدل مين دهنستا جا رہا ہے، ليكن غرق ہونے والی قوم اور اسکے لیڈران نجات حاصل كرنے كے لئے سجنے والے ميدانوں سے غائب ہیں۔
آج سيرت حضرت موسٰى عليہ السلام كو زنده كرتے ہوئے ایک عالم باعمل و مجاہد و مبارز ناصر ملت، فخر باكستان علامہ راجہ ناصر عباس نے جرأت و بہادری كا مظاہره کیا اور باكستانی قوم كو ظلم سے نجات دلانے، ظالموں کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے، ارباب اقتدار كو جگانے كے لئے بهوک ہڑتال كا راستہ اختيار كيا ہے اور اعلان كيا ہے کہ ميں خود ابنے آپ كو مصيبت ميں مبتلا كركے اپنی قوم كو مصيبتوں سے نجات دلانا چاہتا ہوں، ميں پريس كلب اسلام آباد کی سامنے تقريباً تين ہفتوں سے دہشتگردی اور تكفيريت كا نشانہ بننے والے 80 ہزار مظلوم شهريوں كا مقدمہ لڑ رہا ہوں اور زمانے كے فرعونوں كو الله تعالٰى كے عذاب اور عوامی غيض و غضب سے ڈرنے کی دعوت دے رہا ہوں اور دوسری طرف غافل قوم كو بيغام ديا ہے کہ ہم اپنے بهائيوں اور بيٹوں کے ساتھ زمانے کے فرعونوں کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ اب گلہ نہ كرنا کہ ہمارے پاس كوئی ليڈر نہيں تها، يا ليڈرز بے بصيرت اور آرام پسند تهے۔ اگر نجات جاہتے ہو تو ميدان عمل ميں آو۔
ان كے اقدامات نہ وہمی ہيں، نہ خيالی اور نہ جذباتی بلکہ انہوں نے اس زمانے كے تقاضوں کے مطابق یہ فیصلہ کیا اور بهلے وہ خود اس پر عمل پيرا ہيں۔ البتہ ہر زمانے ميں مختلف طبقات کی مواقف اور اسٹينڈز مختلف ہوتے ہیں، بعض مثبت اور بعض منفى، بعض حوصلہ بلند كرنے والے، بعض حوصلوں كو توڑنے والے، بعض فرعون کی تقويت كا سبب بنتے ہيں اور بعض مظلوموں کی تقويت كا سبب بنتے ہيں۔ اگر قرآن مجيد ميں حضرت موسٰى عليہ السلام كو پیش آنے والے واقعات کی تلاوت غور سے كريں تو چند ايک اسٹينڈدز ہميں نظر آتے ہيں، جو ہمیں اس زمانے کے مواقف كو سمجهنے ميں ہماری مدد كرسكتے ہیں۔
حضرت موسٰی اور فرعون و فرعونیوں کے مواقف
1۔ (نَتْلُو عَلَيْكَ مِنْ نَبَإِ مُوسَىٰ وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ) ايمان لانے والی قوم كيلئے حق كيساتھ حضرت موسٰى عليہ السلام اور فرعون کی خبر بيان كرتے ہيں۔
ظالم و فاسد نظام كا موقف اور اسٹينڈ
2۔ (إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ) بالتحقيق فرعون زمين پر بلند ہوا، زمين پر بسنے والوں كو گروہوں ميں تقسيم كيا اور ان ميں سے ايک طائفہ كو مستضعف بنايا، وه انكے مردون كو قتل كرتا تها، خواتين كی آبرو ريزی كرتا تها اور وه فساد پهيلانے والوں ميں سے تها۔
3۔ (وَقَارُون وَفِرْعَوْن وَهَامَان وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْض) حضرت موسٰى عليہ السلام دلائل و وثائق كے ساتھ قارون، فرعون اور هامان کے سامنے آئے، ليكن انہوں نے زمين پر تكبر و غرور كا موقف اختيار كيا۔
الٰہی قيادت كا موقف اور اسٹينڈ
4۔ (اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىإِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ): (اے موسٰى) جاو فرعون اور اس کے ہم نواؤں کے پاس، وه طاغوت بن گئے ہیں اور انہوں نے غرور اور تكبر كا راستہ اختيار كر ليا ہے اور اپنے آپ كو بہت بڑا سمجهتے ہیں۔
5۔ (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ) ہم نے موسٰى كو دلائل کے ساتھ بهيجا، تاکہ اپنی قوم كو ظلمتوں اور اندهيروں سے نكال كر نور اور روشنی كي طرف لائے۔
6۔ (قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ) موسٰى عليہ السلام نے اپنی قوم سے فرمايا کہ الله تبارک و تعالٰى سے مدد مانگو اور صبر و تحمل كي راه اختيار كرو، اس زمين كا مالک تو فقط الله تبارک و تعالٰى ہے، اپنے بندوں ميں سے جسے چاہے اسے وارث بنا ديتا ہے اور عاقبت تو فقط متقی افراد كيلئے ہے۔
اور جب حضرت موسٰى ميدان ميں فرعون كا مقابلہ كرنے کیلئے اترتے ہيں تو قوم كے بعض طبقات اس طرح اپنے موقف كا اظہار كرتے ہیں۔
قوم كے بعض طبقات كا موقف
7۔ (قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ)
انہوں نے كہا کہ اے موسٰى اس شهر ميں تو جابر قوم موجود ہے اور ہم تو ہرگز داخل نہيں ہوں گے، حتٰى کہ وه جابر لوگ شہر سے نكل جائيں تو پهر داخل ہوں گے۔
8۔ (فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ) اے موسٰی جاو تم اور تمھارا رب (العزت) ان سے جنگ كرو اور ہم تو ادهر بيٹهے ہيں۔
بعض مخالفين كا موقف
9۔ (فَإِذَا جَاءتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَـذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ) جب كوئی اچها نتيجہ ملتا ہے تو كہتے ہيں کہ ہم نے اسے حاصل كيا ہے اور جب نتيجہ برا حاصل ہوتا ہے تو كہتے ہيں کہ اس كا سبب تو حضرت موسٰى اور انكے ساتهی ہیں۔
ايمان لانے والون كيلئے الله تعالٰى كا موقف
10۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا) اے ايمان لانے والو، انکی طرح نہ ہو جاو جنہوں نے موسٰى كو اذيتیں دیں اور ان كے اقوال سے الله تعالٰى نے براءت كا اعلان كيا اور (موسٰى) وه خدا كے نزديک بڑے مرتبے پر فائز تها۔
11۔ (وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا) اور حضرت موسٰى کی كتاب ميں مذکور ہے کہ وه بہت مخلص تها۔
حضرت موسٰى کی مخلصانہ جدوجہد كا نتيجہ
12۔ (وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ) ہم نے موسٰى اور جو سب انكا ساتھ دينے والے تهے، انہيں نجات دلائى۔
ہمیں بھی یقین ہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس کے اخلاص، استقامت اور حکمت کی بدولت فرعونیت سرنگوں ہوگی اور تکفیریت و دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک ہنس کا جوڑا ہنی مون پر گیا۔ وہ کافی اونچائی پر سفر کر رہے تھے کہ ایک جگہ انہیں زمین پر کچھ گہما گہمی نظر آئی انھوں نے سوچا کہ نیچے چل کر دیکھتے ہیں کہ زمین پر کیا ہو رہاہے جیسے جیسے وہ زمین سے قریب ہوتے گئے انہیں حقیقت واضح ہوتی گئی ۔انھوں نے د یکھا کہ جنگل میں ہر جانور ایک دوسرے پر حملہ آور ہے اور لڑائی جھگڑا چل رہا ہے ، قریب ہی ایک چیتا بھی کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا ، ہنس نے ہمت کی اور چیتے کے قریب جا کر سوال کیا کہ یہاں کیا ہوا ہے؟ یہ سب آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں ؟ آخر اس لڑائی جھگڑے کی وجہ کیا ہے؟ چیتے نے کہا تم اپنے کام سے کام رکھو تمیں ان سب کے بارے میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہنس یہ سب دیکھ کر رنجیدہ اور آفسردہ تھا اس نے دوبارہ سوال کیا۔ چیتے نے کہا تمہارے ساتھ جو ہے وہ کون ہے؟ ہنس نے کہا یہ میری بیوی ہے ہم ہنی مون پہ نکلے ہوئے ہیں۔ چیتے نے کہا یہ تمہاری نہیں میری بیوی ہے ہنس نے کہا جناب یہ کیسے ہو سکتا ہے میں ہنس اور یہ میری فیملی آپ تو چیتے ہو آپ کا ہم سے کیسے تعلق ہو سکتا ہے آپ میرے ساتھ ظلم و ناانصافی کر رہے ہیں یہ آپ کی بیوی نہیں ہو سکتی۔ چیتے نے کہا خبر دار دوبارہ تم نے میری بیوی کے بارے میں زبان کھولی اب یہاں سے نکل جاؤ۔ہنس بے چارے کے پاس عدالت جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا لہذا وہ سپریم کوٹ چلا گیا سپریم کورٹ کا جج ہنس کی شکایت سننے کے بعد چیتے کی طرف متوجہ ہوا چیتے نے جج کو آنکھیں دیکھا تے ہوئے کہا جناب یہ میری بیوی ہے اور میرے پاس دس گواہ بھی موجود ہیں اور یہ ہنس تو اس علاقہ کا ہی نہیں ہے اس کے پاس نہ پاسپورٹ ہے اور نہ ہی ویزہ، جج نے چیتے کی آنکھیں دیکھنے کے بعد کہا کہ عدالت ثبوت مانگتی ہے اور ہنس کے پاس ثبوت نہیں ہے اور فیصلہ چیتے کے حق میں دے دیا جا تا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ ہو یا ڈرون اٹیک کا اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ہو یا ملا منصور پر حملہ، آخر یہ ملک کس کی ملکیت ہے جس کا جب ، جس وقت اور جس پر چاہے حملہ کردے؟ آیا وطن عزیز کی خود مختاری سلامت ہے؟ کیا اس ملک کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہے؟ آخر ہر قسم کے دہشت گرد اسی ملک سے کیوں نکلتے ہیں؟ہم ہر وقت پروکسی وار کا شکار کیوں رہتے ہیں؟کیا ہماری اپنی کوئی خارجہ پالیسی موجود نہیں؟کیا ہماری ہر پالیسی باہر سے تیار ہو کر آتی ہے؟کیا ہماری نیشنل انٹرسٹ موجود نہیں؟یہ سارے سوالات وہ ہیں جو اس ملک کے ہر باغیرت اور محب وطن شہری کے زہن میں آتا ہیں اور وہ اس ملک کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سوالیہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ملا منصور کے قتل کے بعد وزیر داخلہ کہتے ہیں ملا منصور دبئی، افغانستان اور ایران ئے تھے وہاں نشانہ کیوں نہیں بنایا گیا؟پاکستان میں ہی کیوں؟ چودھری نثار صاحب کیا آپ کو نہیں معلوم، آپ لوگ اس طرح کی بیان بازیوں سے کب باہر نکلیں گے اور کب عملی اقدام کریں گے۔ جناب باقی ملکوں نے اپنی نیشنل انٹرسٹ کو واضح کیا ہوا ہے وہ لوگ اپنی قومی و ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں، ملکی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف جو بھی قدم اٹھے اس کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ایک طرف ہم کی اپنے آپ کو دنیا کے طاقت ور ترین افواج میں قرار دیتے ہیں اور ملک میں سب سے زیادہ بجٹ عسکری اداروں پر خرچ کرتے ہیں مگر پھر بھی اس ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے امریکہ تو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے جب چاہیے حملہ کر دیتاہے۔ اب تک امریکی ڈرون حملوں میں تین ہزار کے قریب دہشت گرد اور ایک ہزار کے قریب عام شہری مارے گئے لیکن ہمارے اداروں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ڈرون اٹیک کہا سے ہوتا ہے بلکہ غیر ملکی افواج پاکستان میں د اخل ہو کر آپریشن مکمل کر کے چلے جاتے ہیں بقول ایک وزیر کے ہمارے ریڈار کا روخ دوسری جانب تھا جس کی وجہ سے اسامہ کے خلاف آپریشن کا پتہ نہیں چلا، اب ہم اس طرح کے بیانات سے کیا سمجھیں۔۔اگر وطن کی سالمیت کا دفاع نہیں کر سکتے تو پھر یہ دفاعی بجٹ کہا جاتا ہے۔
ظاہری طور پر تو پاکستان کو آزاد ہوئے ۶۹ سال ہوگئے ہیں مگر ابھی تک ہماری گردن غلامی کے طوق سے خالی نہیں۔ کبھی ہم نے پاکستان کو ہمارا اپنا ملک سمجھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ناچتے رہے حد تو یہ ہے کہ تمام تر نقصانات کے باوجود افغان وار سے بھی کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔آج افغان وار اور طالبان کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر پاکستانی دہشت گرد بنا ہوا ہے۔ابھی ایک پروکسی ختم نہیں ہوئی اور ہم اپنے آقاؤں کی اشاروں پر ایک نئے پروکسی میں شامل ہو رہے ہیں را کے ایجنٹ کو پکڑنا اور ایک خاص وقت پر ظاہر کرنا اور دہشت گردوں کو ایک خاص زاویہ سے پیش کرنا یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ غیر ملکی ایجنڈوں کو پکڑنا قابل تعریف ضرور مگر اس طرح اپنے ہمسایہ ملک پر ضرب لگا نا پاکستان کو عالمی دنیا اور دوستوں سے مزید تنہا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس طرح کی پالیسی کسی صورت پاکستان کی اپنی نہیں ہو سکتی۔
ہمارے حکمران اور اسٹبلیشمنٹ نہ صرف خارجہ پالیسی میں ناکام نظر آرہے ہیں بلکہ ان کے پاس ملک کو اندورونی طور پر چلانے کے لئے بھی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔حکمرانوں کے پاس ایک پالیسی بہت مضبوط ہے اور یہ اندورونی اور بیرونی دونوں صورتوں میں کامیاب بھی ہے جس پر دن رات یہ حکمران محنت کرتے ہیں اور تمام تر اختلافات کے باوجود ایک پیج پر منظم بھی ہے۔ وہ پالیسی یہ ہے پاکستان کے قومی اداروں کو کیسے تباہ کرنا ہے، غریب عوام کی کھال کیسے اتارنی ہے ،مظلوموں کی آوازکو کیسے دبانا ہے، قاتل اور دہشت گردوں کو کیسے پناہ دینی ہے ان کو پروٹوکول کیسے دینا ہے، بینک بیلنس کیسے بنانا ہے، آف شور کمپنیاں کس طرح بنانی ہے غرض ہر ناجائز کام او ر ذاتی مفاد کے کام یہ حکمران بہترین اور منظم طریقے سے انجام دیتے ہیں۔
ملک میں جنگل کا قانون ہے جس نے آنکھ دیکھا ئی اس کا کام آسان اور جو مظلوم ہوگا وہی مجرم ہو گا، انصاف کے فقدان کا یہ حال کی ایک غریب آدمی کی تو بات ہی نہیں ہے پاکستان کے مذہبی و سیاسی جماعت مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ نے پچھلے سترہ دنوں سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے بھوک ہڑتال کی ہوئی ہے اور ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ راجہ ناصر عباس سے اظہار یکجہتی کے لئے کراچی، لاہور سمیت ملک کے چالیس مقامات اوربیرونی ملک امریکہ، جرمنی، برطانیہ سمیت کئی غیر ممالک میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر علامتی احتجاج اور بھوک ہڑتال کیمپ لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عمران خان، رحمان ملک سمیت تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اس احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ کی حمایت کی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے سرپرجوں تک نہیں رینگی کیونکہ حکمرانوں کو عوام کے حقوق اور عدل و انصاف سے کیا کام ان کا کام صرف اپنی الو ٹھیک کرنا ہے یا جب تک مظاہرے اور جلسہ جلوس میں چالیس پچاس افراد نہ مرجائیں ان کو خبر نہیں ملتی اس کے بعد تعزیتی الفاظ کے زریعہ عوام کو خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن حکمرانوں اور اسٹیبلیشمنٹ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے وقت حالات یکساں نہیں رہتے اور نہ ہی ظالم ہمیشہ اقتدار میں رہتا ہے، جب ظلم کی چکی میں پسے عوام اٹھانے لگیں تو نہ تخت سلامت رہتا ہے اور نہ ہی تاج صرف اور صرف تاریخ رہ جاتی ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) ۔۔۔۔۔ ہم نے ہزاروں احتجاج کئے ،جلسے کیے ،مارچ کئے ،دھرنے دیئے مگر کیا ہوا؟کیا نتیجہ نکلا؟
۔۔۔۔۔ ہم نے مختلف اتحاد بنائے ۔مذہبی جماعتوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی مگر کیا ملا؟
۔۔۔۔۔ہم نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی مگر موجودہ سیاسی نظام میں وہ بھی فالج زدہ ثابت ہوئے ۔
یہ مظلوم شیعہ یہ مظلوم سنی!یہ مظلوم برادریا ں آخر کیا کریں ؟کہ یہ ملک عزیز پاکستان ان درندوں سے محفوظ ہو ؟
ایسے میں ضرورت تھی کہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے ،بیدار کیا جائے ،لوگوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف نکالا جائے ۔ایسی تحریک جس میں تشدد کا شائبہ تک نہ ہو ۔ایسی تحریک جو خالصتاٌ مظلومیت کی آواز ہو ۔ایسی تحریک جو دنیا بھر کے مظلوموں کی توجہ حاصل کرئے ۔ ایسی تحریک جس میں ہر مذہت ،مسلک اور مکتب کا مظلوم پناہ لے ۔ایسی تحریک جو مظلوموں کو آپس میں جوڑ دے ،ایسی تحریک جو ظالموں کو ہمیشہ کے لئے رسوا اور شرمندہ کر دے ، ایسی تحریک جو صبر و استقامت کی علامت بن جائے ،ایسی تحریک جس کا رشتہ کر بلا سے جڑا ہوا ہو ۔ایس تحریک جو سرفروشوں کی مختصرجماعت ہو مگر لاکھوں ظالموں کے دلوں کو دہلادے ۔
جی ہاں ! یہ وہ حالات تھے اور یہ وہ مقاصد ہیں جنکے حصول کیلئے ایک مر د مجاہد تنھامیدان عمل میں آیا ۔اس نے کسی کو امتحان میں نہیں ڈالا۔بلکہ خود اپنے آپ کو امتحان میں ڈالا۔اسکے ساتھ چند ساتھی شامل ہوئے ،عزم واستقامت کے ساتھ عہدوپیمان کے ساتھ، شہادت کے پیمان کے ساتھ ۔
اس تحریک کا نتیجہ ؟؟
یہ سرفروش جو مجاہد ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ موجود ہیں نتیجے کی پروا کئے بغیر ۔۔۔
کیونکہ ہمارا کام جدوجہد کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے
شہدائے کربلاسے عہد وپیمان کرنے والے عاشقان حسین، غلامان حیدر کرارؑ نتیجے کی پروا نہیں کرتے ہمیں نتیجہ تو مل چکا ہے ۔ آج پاکستان کے کونے کونے میں بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے آج عالمی ضمیر کروٹ لے رہا ہے ہم مرجائیں گے مگر اپنی ملت کو وقار اور عزت دے کر جائیں گے ہم مظلوم کو مر کر جینے کا سلیقہ سکھا جائیں گے آپ سے کچھ نہیں چاہتے سوائے دعا کے ،آپ ہماری ثابت قدمی کے لئے دعا کیجئے کہ ہم اپنے آقا و مولا سید وسردار حسین ؑ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر جائیں ،دعا کیجئے کہ ہمارے وقت کا امام ؑ اپنی غلامی میں قبول کر لے ،دعاکیجئے کہ دنیا بھر کے مظلوم متحد ہو جائیں دعا کیجئے کہ اس مٹی کا جو قرض ہم پر ہے ہو ادا کر جائیں دعا کیجئے کہ ہمار ے پاک شہداء کی اروح ہم سے راضی ہو جائے ، دعا کیجئے کہ اپنے شہداء کے ورثا کے سامنے ہم سرخرورہیں ۔اے آسمان و زمین گواہ رہنا ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ہمیں کسی سے کوئی صلہ نہیں چاہئے سوائے اپنے رب سے مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہیں ۔
ہے کوئی مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے والا؟؟
اب نہیں تو کب
شیعان حیدر کرار!
یہ ملک عزیز پاکستان جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ۔پاکستان کی آزادی کے حصول میں جتنی جانی اورمالی قربانی آپ نے دی کسی اور نے نہیں دی ۔
پاکستان کی آزادی کی پوری تحریک راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کی مرہون منت ہے پاکستان بننے کے بعد جب خزانے میں ایک ٹکہ بھی نہ تھا یہ ہماری حبیب فیملی تھی جس نے پورے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی تھیں ۔
الغرض اگر گنوانا شروع کریں تو ہزاروں صفحات درکار ہوں گے ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ اس پوری جدوجہد میں ہمارے اہل سنت بھائی اور ان میں بھی بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اکثریت اس آزادی کی جنگ میں ’’دام درھم سحن قدم ‘‘قائداعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ رہی ۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں جب پاکستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور مسلمانان ھند برٹش اور ہندو تسلّط سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خون کے دئے جلا رہے تھے ۔ایک خاص طبقے نے انگریز اور کانگریس کی حاشیہ نشینی اختیار کی اور پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا ۔
لیکن الحمداللہ مذہب و ملت کے ان غداروں کو مسلمانان برصغیر نے رد کر دیا ۔اور چودہ اگست 194ء کو لہو میں ڈوبا ہوا آزاد ی کا سورج طلوع ہوا ۔اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی ۔تاریخ بشریت کی سب سے بڑی اور کربناک ہجرت وجود میں آئی ۔تین ہزار کلومیٹر کے راستو ں میں کہیں خون میں لتھٹری ہوئی لاشیں تھیں ۔کہیں جلی ہوئی آبادیاں تھیں،کہیں مظلومیت کا نوحہ پڑھتی سوختہ مساجد ۔قوم کی بے شمار بیٹیوں کی عصمت دری اور بے حرمتی کا درد ناک باب جسے نقل کرنا تو کجاسوچ کر انسانیت پر لرزہ طاری ہو جاتاہے ۔لیکن ان تمام مصائب اور آلام کے سمندر میں بھی ہم خوش تھے کہ ہمیں آزادی نصیب ہوگئی ہے ۔
آزادی کی خوشیوں میں ایک بات بھول گئے تھے کہ انگریزوں اور کانگریس کا زر خرید غلام بھی کالی بھیڑوں کی صورت اس کاروان میں شامل ہو چکا ہے ۔تحریک آزادی کے اس غدّار ٹولے کو جب اپنے پہلے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ یعنی پاکستان بن گیا تو اب اس غدّار ٹولے کو دوسرا ہدف دیا گیا کہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے اور بدترین تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے ۔
تحریک آزادی کے یہ شکست خوردہ اورزخم خوردہ سانپ اب پاکستانی بن کر ہماری صفوں میں داخل ہوگئے ۔اِنہیں غداروں
نے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے اسباب فراہم کئے ۔انہی دہشت گردوں نے بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے اور
ان کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے جو بعد میں نفرت کی ایک پور ی فصل کی صور ت میں سامنے آئی ۔
تاریخ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ سب سے پہلے دہشت گرد ٹولے کن لوگوں کے وجود میں آئے ۔جی ہاں یہ وہی جماعتیں اور
گروہ تھے جو قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان قرار دیتے تھے ۔جی ہاں ! یہ وہی انتہا پسند مذہبی گروہ تھے جنھوں نے پاکستان
کے تعلیمی اداروں میں اسلحہ متعارف کروایا اور بہترین تعلمی اداروں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا ۔
امریکی سامراج جو برطانوی سامراج کی جگہ سنبھال چکا تھا یہ گروہ اس کے غلام بے دام بن گے کیونکہ انہیں پاکستان سے بدلہ لینا تھا ۔ان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے ۔آدھا پاکستان توڑنے کے بعد یہ گروہ کوشش کرتے رہے ،جدوجہد کرتے رہے کہ کس طرح باقی پاکستان کو ٹھکانے لگایا جائے (نعوذباللہ )یہ جانتے تھے کہ انتخابات کے ذریعے یہ کبھی بھی پاکستان پر اپنا تسلّط قائم نہیں کرسکتے
کیونکہ 1970ء سے لے کر آج تک کے انتخابی تنائج گواہ ہیں کہ پاکستان کی عوام نے ہمشہ انہیں بری طرح رد کیا ۔
1977ء میں ضیاء الحق کی صورت میں انھیں ایک سرپرست میّسر آیا ۔ضیاء الحق کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے عوام کے ان رد شدہ
عناصر کی ضرورت تھی ،اور امریکہ کو بھی ایک ایسے ہی اقتدار کے بھوکے حکمران کی ضرورت تھی جو خطے میں اس کے سامراجی عزائم میں اسکا
مددگار ہو ۔
روس (اس زمانے کا U.S.S.R)کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی مذہب و ملّت کے ان غداروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں
دوسری طرف ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکہ کو جس صدمے سے دوچار کر دیا تھا اُس کا تقاضا تھا کہ وہ عناصر جن کا پاکستان اور تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا ۔انہیں منظم کیا جائے ۔اور عالم اسلام کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا جائے ۔
ان حالات کے پس منظر میں امریکہ نے اپنے پٹھو ضیاء الحق کے ذریعے ایک طرف پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا شروع کی
دوسری طرف افغانستان مین نام نہاد جہاد کے نام پر تاریخ بشریت کے سفاک ترین درندوں کو پروان چڑھانا شروع کردیا ۔اسی ضیاء الحق کے دور میں لسّانی ،مذہبی ،علاقائی ،صوبائی نفرتیں اپنے عروج پر پہنچیں ۔
کلاشنکوف اور ہیروئن متعارف ہوتی ہے ۔1980 ء شیعوں کے خلاف بھیانک کھیل کا آغاز ہوتا ہے ۔منظم اور بھرپور طریقے سے ریاست کی سرپرستی میں شیعیان حیدر کرار ؑ کے خلاف تحریک شروع کی جاتی ہے ۔قتل وغارت کا آغاز ہوتا ہے ۔ ہر شہر کو ہمار ی قتل گاہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے
ہم چلاتے رہے ۔شور مچاتے رہے ،حکمرانوں کو خبردار کرتے رہے کہ اس آگ سے
مت کھیلو ،پاکستان سے دشمنی نہ کرو،جن عناصر کو تم ہمارے خلاف استعمال کر رہے
ہو ،وہ تمھارے دوست نہیں بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں
ہم ہوشیارکرتے رہے کہ جو آگ تم ہمارے لئے جلا رہے ہو ایسا نا ہو کہ ایک دن سارا ملک اس میں جل رہا ہو ،مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے ۔ہم بتاتے رہے کہ ہم صدیوں سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ،ظالم حکمرانوں کے لئے تختِہ مشقِ ستم بنے رہے ہیں ۔مگر ہمیں مٹانے کاخواب دیکھنے والے خود مٹ گئے ۔ بنوامیّہ اور بنی عباس کا بھیانک اور عبرت ناک انجام دنیا کے سامنے ہے ۔
ہمارے ہی وطن میں ہم پر ہی زمین تنگ کر دی گئی ۔عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا پارہ چنار سے کوئیٹہ ،خیبرسے کراچی اور گلگت بلتستان سے لے کر پاکستان کے کونے کونے میں ہمارا قتل عام کیا گیا ۔ہمارے ڈاکٹرز ،ہمارے انجینئرز،ہمارے افسران ہمارے علما، ہمارے ذاکرین ہمارے رہنما۔ہمارے بوڑھے ،معصوم بچے یہاں تک کہ ہماری خواتین کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا اور کیا جارہا ہے ۔
’’ اور یہ سب کچھ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہوتا رہاپوری دنیا میں
ہماری حمایت میں آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔
بالاخرجب افغانستان میں امریکہ کا مقصد پورا ہو گیا اور روس وہاں سے نکل گیا تو امریکہ نے حسب دستورشیطانی وہ سارا ملبہ
پاکستان پر گرادیا ۔وہ امریکہ جس نے ضیا ء الحق کی مددسے پاکستان میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کی نرسریاں قائم کی تھیں اور ساری دنیا کے دہشت گرد یہاں پروان چڑھ رہے تھے ۔اسی امریکہ نے انھیں فسادیوں کو پاکستان پر یلغار کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
عرب ممالک کی دولت جو عالم اسلام کی یکجہتی اور ترقی کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھی وہ پاکستان میں مدارس کے نام پر دہشت گردوں کی تربیت اور برین واشنگ کے لئے استعمال ہونے لگی اور تاحال ہور رہی ہے ۔افغانستان میں وہ تباہی نہیں ہوئی جو افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد پاکستان میں شروع ہوگئی،
پاکستان کے تمام دفاعی اور سول اداروں میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا راج ہو گیا ۔اور دہشت گرد ۔پورے ملک میں کھلم کھلادندناتے ہوئے انسانوں کے قتل عام میں مصروف ہو گئے ۔عدالتیں سزادینے سے قاصر ،پولیس کی کالی بھیڑیں سرپرستی میں مصروف
سول اداروں میں اہم عہدوں پر دہشت گردوں کے کمانڈورں کا قبضہ تعلیمی اداروں میں نفرت انگیزتعلیم ،گھر گھر نفرت انگیز لٹریچر کی تقسیم ۔
اور بدنصیبی تو دیکھئے کہ جہاں عوام نے دہشت گردوں کو اپنی قوت بازوسے شکست دی جیسے کہ پارا چنار اور گلگت بلتستان ،وہاں
ریاست نے انتقامی کاروائیاں شروع کر دیں ۔اور جو کام دہشت گرد نہ کرسکے وہ ریاستی اداروں نے کیا اور یہاں کے مظلوم عوام پر ظلم وستم
کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے ۔اور بالاخروہی ہوا۔جسکی طرف ہم برسوں سے اشارے کررہے تھے ۔پاکستان کے نام نہاد مذہبی شدت پسندگروہوں نے پورے ملک پر اپنا تسلّط جمانے کے لئے ہر طبقے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔
اہم سنت بھائی خاص طور پر بریلوی مسلک ان کا دوسرا بڑا نشانہ بنے پھر سکھ ،عیسائی ۔ہندواور دوسری اقلیتی برادریا ں ان کا ہدف قرار پائیں اور پھر
’’مساجد ،مزرارت ،دربار،بارگاہیں ،پارک ،بازار،مندر ،چرچ ،گردوارے کچھ بھی محفوظ نہ رہا ‘‘
اور پھر ہمارے دفاعی اداروں کو اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا ۔اب تک 8000 کے لگ بھک ہمارے وطن کے سپوت ہماری سرحدوں کے محافظ ماضی کی پالیسیوں کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔معصوم بچے اسکولوں میں قتل کر دیئے گئے
مختلف ناموں سے وہی سپاہ،وہی لشکر ۔کہیں طالبان ، کہیں القاعدہ اور اب داعش کی صورت میں گلی گلی ،محلہ محلہ ،شہر شہر انسانوں کی شکل میں چھپے بیٹھے ہیں ۔اور جب موقع ملتا ہے بلکہ ہر روز کہیں نہ کہیں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) استعماری طاقتوں اور انکے آلہ کار تکفیری شدت پسندوں کی ملی بھگت سے سرزمین پاکستان پر غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کی سازش عمل پذیر ہے۔ مدافع اسلام، محافظ وطن، ولایت فقیہ کے خط پہ قائم ملت تشیع پاکستان کو زبردست چینلجز کا سامنا ہے۔ ایک محاذ مسلمانوں کے درمیان وحدت کی فضا کو برقرار رکھنا، دوسرا وطن عزیز کی سلامتی ہے۔ ملت تشیع کی ترقی، رشد و ارتقا اور استحکام کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر استحکام پاکستان اور وطن عزیز کی نظریاتی بنیادوں کے دفاع تک ملت تشیع کا کردار تاریخ کا اہم باب ہے۔ گذشتہ دنوں پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں تکفیری دہشت گردوں کی بہیمانہ کارروائیوں میں متعدد شیعہ مسلمان شہید کئے گئے ہیں۔ پارا چنار میں متعصب ایف سی افسر کی جانب سے نہتے لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ساری صورتحال میں پورے ملک میں بے چینی کی نئی لہر پیدا ہوئی۔ تمام شیعہ تنظیموں نے پورے ملک میں مظاہرے کئے اور احتجاج ریکارڈ کروایا، سرکاری یقین دہانیوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احتجاج کی کال دی، پھر وفاقی دارالحکومت میں بھوک ہڑتال شروع کی، جو تاحال جاری ہے۔ بھوک ہڑتال احتجاج کا مہذب انداز اور آخری حد ہے، ورنہ پاکستان کی سڑکیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہاں ظلم کے مارے کئی لوگون نے اپنے آپ کو آگ لگائی ہے، لیکن ستمگر حکمران اشرافیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ایم ڈبلیو ایم ایک ملک گیر شیعہ تنظیم ہے، سیاسی میدان میں اپنی ساکھ رکھتی ہے، جہاں قیادت علماء کے پاس ہے، پڑھے لکھے جوان علماء کا دست و بازو ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس کی طرف سے شروع کی گئی احتجاجی تحریک کی یہ دوسری بڑی مثال ہے، اس سے پہلے سانحہ کوئٹہ کے موقع پر ملک گیر دھرنوں نے پورا نظام جام کر دیا تھا۔ ملت تشیع کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لئے ایم ڈبلیو ایم نے دس نکات پر مشتمل مطالبات پیش کئے ہیں۔ اہل سنت تنظیموں نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔
بھوک ہڑتالی کیمپوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ ایک بار پھر ملت تشیع پاکستان کو یکجہتی اور ٹھوس بنیادوں پہ متحد ہو کر اپنے وجود کا ثبوت دیتے ہوئے، ملک کے طول و عرض میں شہید ہونے والے معصوم پاکستانیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، آئی ایس او پاکستان نوجوانوں کا ہراول دستہ ہے، شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اس کی تصدیق کی کہ یہ نوجوان میرے پر ہیں، جن سے میں پرواز کرتا ہوں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین دو الگ الگ تنظیمیں ہیں، انکے الگ دستور، تشکیلات اور ادارے ہیں، دونوں اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں۔ مذکورہ تنظیمیں فعال اور موثر ترین تاریخ رکھتی ہیں۔ امامیہ نوجوانوں کی جانب سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اسٹینڈ کی تائید ایک اہم موڑ ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے گلگت سے کراچی تک احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
لاہور میں بھوک ہڑتالی کیمپ علماء کی سرپرستی میں جاری ہے۔ یہ وقت اعتراضات اور تحویلات کا نہیں، یہ عمل کا وقت ہے، میدان سج چکا ہے، دشمن تمام حربے آزما رہا ہے، ملک کی سلامتی کو دہشت گردی اور کرپشن کے عفریت نے گھیر رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ وحدت سے مراد ادغام اور ضم ہونا نہیں ہے، لیکن ایک سوال موجود ہے کہ کیا ایک ہی مسلک، ایک ہی فرقے اور ایک ہی خط پہ چلنے والے مختلف گروہوں کے درمیان ہم آہنگی، اتحاد اور وحدت کو کیسے ادغام اور ضم ہونا کہا جا سکتا ہے۔ دراصل زیادہ قربتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر کوئی نیا نظریہ بنانے کی ضرورت ہی نہیں، مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک غیر ضروری نکتہ ہے کہ وحدت سے مراد ضم ہونا نہیں ہے، الگ مونوگرام، تنظیمی دستور، ڈھانچہ، دفتر اور ایک دوسرے سے مختلف رنگ کے جھنڈے بنا کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینا عقل کا تقاضا ہے، اس سے الگ مسلک اور الگ مشرب نہیں بن جاتا ہے، جہاں یہ کہا جائے کہ ہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتے۔ اہل ایمان کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے، وہ ایک نور سے خلق ہوئے ہیں، ایک امام علیہ السلام کے پیروکار ہیں، سب نائب امام کے سپاہی اور کارکن ہیں۔
ملت واحدہ، ملت واحدہ ہے، ایک ہی مسلک کے کارکنوں، تنظیموں اور اداروں کے درمیان وحدت ایک اصول کے طور موجود ہے، شہید باقر الصدر نے جس طرح فرمایا کہ امام خمینی میں اس طرح ضم ہو جاو، جیسے وہ اسلام میں ضم ہوچکے ہیں، امام خمینی کے پیروکار ہونے کے دعویدار کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم نہیں ہوئے، جیسے وہ اسلام میں جم ہوچکے تھے۔ مکتب اہلبیت علہیم السلام کے ماننے والے ایک ہیں، ایک جھنڈے تلے جمع ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ایم ڈبلیو ایم نے مختلف اضلاع میں بھوک ہڑتالی کیمپوں کا سلسلہ بڑھانا شروع کیا ہے اور آئی ایس او پاکستان کے نوجوان بھی انکی حمایت اور تائید سے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر علی مہدی کی جانب سے مرکزی کابینہ سمیت اسلام آباد کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت دو برادر تنظیموں میں مثالی یکجہتی کی دلیل ہے، یہ وقت کا تقاضا اور قوم کی ضرورت ہے۔
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ