وحدت نیوز(آرٹیکل) دوسری عالمی جنگ کے بعد استعماری طاقتوں کی پشت پناہی سے جہانِ اسلام کو ہمیشہ بحرانوں میں مبتلا کرنے اور ناامن رکھنے کیلئے عالم اسلام کے دل اور براعظم ایشیا اور افریقہ کے سنگم میں اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی، دوسری طرف خطے کے ممالک میں ملٹری اور سول ڈکٹیٹرشپس (پولیس اسٹیٹس) قائم کی گئیں۔ عراق، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ میں ملٹری نظام جبکہ خلیجی ریاستوں (سعودیہ، امارات، قطر و غیرہ) اردن اور مراکش میں پولیسی نظام قائم کیا گیا۔ استعماری قوتوں کے لئے ملٹری نظاموں اور پولیسی نظاموں ہر دو نے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لئے بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ ان دونوں استعماری نظاموں یعنی ملٹری نظام اور پولیسی نظام میں مندرجہ ذیل چند فرق تھے۔
1۔ ملٹری کا طاقتور ہونا اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی علامت تھا، جبکہ اس کے برعکس پولیسی نظام فقط اپنے عوام کو دبانے پر مامور تھے۔
2۔ ملٹری نظام نسبتاً طاقتور ہونے کی وجہ سے بآسانی کنٹرول میں نہیں آتے تھے، جبکہ کمزور پولیسی نظاموں کا کنٹرول آسان تھا۔
3۔ ملٹری نظاموں سے جنگ، مقاومت و مقابلہ، وطن کا دفاع اور سرزمین سے تعلق جیسے مفاہیم نکالنا ناممکن تھا، جبکہ ایسی ادبیات اور ایسے مفاہیم پولیسی نظاموں کے لئے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔
مندرجہ بالا افتراقات کی بنا پر پولیسی نظام نے ثابت کیا کہ وہ استعماری مقاصد کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس نظام سے استعمار کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اسی پولیسی نظام کی حامل ریاستوں سعودیہ، قطر اور امارات کی خطے کے امن کی تباہی اور اسرائیل کی بقاء اور دفاع کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے وہ نظام جو کسی وقت بھی اسرائیل کے وجود اور استعماری مقاصد اور تسلط کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، انہیں پولیسی نظاموں کی مدد سے یا تو ختم کر دیا گیا یا کمزور اور مفلوج کر دیا۔
جب خطے میں تبدیلیاں آتی ہیں تو سب ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان بھی خطے میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوا۔ وجوہات جو بھی ہیں، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کا کنٹرول ہمیشہ سے ملٹری کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ انڈیا جیسے پاکستان کے وجودی دشمن کا بارڈر پر ہونا ایک مسلسل جنگی پالیسی کا متقاضی ہے، خواہ سافٹ جنگ ہو یا کولڈ وار یا ہاٹ وار یہ پاکستان کا مقدر ہے۔ اس لئے ملٹری کا طاقتور ہونا پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہونے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مقروض ہونے کے ناطے غاصب اسرائیل کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہاں پر ملٹری کا طاقتور ہونا استعماری طاقتوں اور خطے میں انکے ایجنٹوں کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لئے مشرف حکومت کے خاتمے اور آئندہ کے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا گیا، وہ ملٹری ڈیکٹیٹرشپ کی جگہ سول ڈکٹیٹرشپ کو مضبوط کرنا ہے، پاک آرمی کو کمزور کرنا انڈیا اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں ہے اور یقیناً اسرائیل کا پشت پناہ مغربی بلاک اور خطے میں انڈیا اور اسرائیل کے دوست اسکی حمایت کریں گے۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے اس وقت پاکستانی ملٹری کو بیرونی محاذوں کے علاوہ تین اہم داخلی محاذوں پر الجھا دیا گیا ہے۔ ملٹری کے پروردہ اور ماضی و حال کے حلیف، دشمن نے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔
ان تین محاذوں کو یوں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1۔ تسلط پسند اور خود غرض سیاستدان:
ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری اقدار اور جمہوری نظام کی رٹ لگا کر سول ڈیکٹیٹرشپ کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ انہیں امریکہ و مغربی بلاک، سعودیہ و خلیج اور انڈیا کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، دوسری طرف بااثر اور بانفوذ ہونے کی وجہ سے قانون اور عدالت سے ماوراء کی منزل تک پہنچ چکے ہیں اور انکی پوری توجہ سول فورسز کی مضبوطی، دہشتگردوں اور اسمگلروں کی سرپرستی اور اپنی اپنی بادشاہتوں کے قیام کی طرف ہے۔
2۔ وطن کی غدار طاقتیں:
ملٹری کے لئے دوسرا چیلنج وطن کے وہ غدار ہیں، جو دشمنوں کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ برملا پاکستان دشمن قوتوں سے مدد مانگ رہے ہیں کہ پاکستان اور پاک آرمی سے جنگ میں انکا ساتھ دیں اور انکا ایجنڈا ملک کی تقسیم اور بلوچستان اور دیگر علاقوں کی علیحدگی ہے۔ الطاف حسین اور براہمداغ بگٹی اور کئی ایک دیگر غدار اسکی مثالیں ہیں۔
3۔ تکفیری و دیوبندی دہشتگرد:
یہ دہشتگرد مغربی بلاک یعنی امریکہ، یورپ اور سعودی و خلیجی ممالک کی مدد اور پشست پناہی سے بننے والے ہمارے ماضی اور حال کے اسٹریٹجک اثاثہ جات اس وقت سب سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شہید ہونے والوں سے زیادہ تعداد میں پاکستانی عوام کو قتل کیا ہے۔ انہی کے ہاتھوں سے سپاہی سے جنرل رینک کے آفیسرز شہید ہوئے۔ انہوں نے ملک میں خانہ جنگی کروانے کے لئے کبھی مذہب اور فرقہ اور کبھی دین کے نام پر عوام پر برملا حملے کئے۔ منظم طریقے سے بے بنیاد الزامات کی بنا پر 30 سال سے ایک فرقہ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے سڑکوں پر، جلسہ گاہوں میں کافر کافر کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے اندھے قانون میں نہ تو نقض امن کا مسئلہ بنتا ہے اور نہ کسی شہری کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس تکفیری فکر نے ایٹم بم سے خطرناک لاکھوں انسانی بم پیدا کئے ہیں، جو مساجد، امام بارگاہوں، ہسپتالوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، پولیس، آرمی کی چھاؤنیوں اور مراکز میں ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر پھٹتے ہیں۔
پاکستان کے تمام بحران امن و امان کے حوالے سے ہوں یا سیاسی، اقتصادی ہوں یا معاشی، اجتماعی ہوں یا ثقافتی، اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ان سب کا اصل سبب تکفیریت اور تنگ نظری ہے۔ جس ملک میں جان و مال اور ناموس خطرے میں ہو، وہاں نہ امن ہوگا نہ سرمایہ کاری، وہاں قربتوں کی جگہ نفرتیں جنم لیں گی۔نفرتوں کے ماحول میں قومی وحدت اور اتحاد ناممکن ہے اور دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ انہی تکفیری گروہوں نے جہانِ اسلام کی افواج کو کمزور کیا اور یہی تکفیری گروپ ہماری آرمی سے لڑ رہے ہیں۔ ہم ضرب عضب کے ذریعے دو سال سے جن تکفیری گروہوں کو ختم نہیں کرسکے، آج اگر سعودی عرب چاہے تو جس طرح الجزائر سے امریکہ کے کہنے پر تکفیری گروہوں کو حکم دیا اور وہ چلے گئے، پاکستان سے بھی انکا خاتمہ کرسکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی اگر آج امداد ختم کرنے اور پشت پناہی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لیں تو ہماری یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔
ملٹری مذکورہ بالا تینوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ دوسری طرف سول اسٹیبلشمنٹ استعماری منصوبے یعنی ملٹری نظام کو سول ڈکٹیٹرشپ سے تبدیل کرنے کی ریہرسل میں مشغول ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس ریہرسل کے لئے بہترین میدان فراہم کرتا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ناقص پالیسی استعماری منصوبہ سازوں کی مزید مدد کرتی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں جب چاہتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر دیتی ہیں۔ دہشتگرد اور انکے سہولت کار ہمارے فرسودہ نظام کا حصہ ہیں۔ سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں انہیں مدد کرتی ہیں اور جو قانون سازی انکے خلاف ہوتی ہے، اسے انکی دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں یا مجبوراً دفاع کرنے والوں کے خلاف نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پولیس کی پرانی روش ہے اور بعض اندھے قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے جب کہیں قتل ہوتا ہے تو ہماری پولیس قاتل اور مقتول خاندانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے دونوں طرف کے افراد کو بند کر دیتی ہے اور عموما اصل قاتل گرفتار نہیں ہوتے یا مفرور ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ تھانوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ انفرادی جرائم کو روکنے والی یہی ناقص پالیسی آج اجتماعی جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی اپنائی گئی ہے۔
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی یا طالبان کے سربراہان اور راہنماؤں کہ جنھوں نے 80 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا اور ان تنظیموں نے دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی، آج انکی جب فہرستیں بنیں تو قاتل و مقتول سے مساوی رویہ اختیار کرنے والی پولیس اسٹیٹ نے اجتماعی طور پر یہی ظالمانہ پالیسی اختیار کی اور ملک میں رواداری اور وحدت کی ترویج کرنے اور بلا تفریق دین و مذہب، اجتماعی و فلاحی خدمات انجام دینے والے علماء کو بھی ان فہرستوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول دنیا بھر کے دہشگرد عراق و شام میں تباہی کے بعد ذلیل ہو کر پاکستان و افغانستان کا رخ کر رہے ہیں اور پاکستان کے مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انڈیا اور دوست ممالک کے رویئے بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں اور ھبہ اور ھدیہ میں دی گئی اربوں ڈالرز کی خطیر رقم کی واپسی کا تقاضا ہوچکا ہے، جسے حکمرانوں نے ھدیہ اور ھبہ کہہ کر اپنی مرضی سے قومی انٹرسٹ کو دیکھے بغیر خرچ کیا اور کرسی کو مضبوط کیا اور اب پاکستانی غربت میں پسی ہوئی عوام کے بجٹ اور ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا۔ تکفیریت اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا ملک کے غداروں کے خلاف یا ہوس پرست اور خود غرض سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی، یہ سب کچھ عوامی حمایت کے بغیر ممکن نھیں۔ معتدل اہل سنت اور اہل تشیع کی حمایت اور قومی وحدت سے چیلنجز کا مقابلہ ممکن ہے، لیکن اگر ایک طرف دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ اور دوسری طرف حکمران طبقہ تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا رہا تو نتائج انتہائی خطرناک ہونگے۔
تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) آئین پاکستان پاکستان کے ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے اور اس کو مذہبی رسومات ادا کرنے کی ضمانت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے مناظر ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کی شادی ہو تو وہ روڈ کے بیچوں بیچ شامیانے لگا کر شادی کی رسومات ادا کرتا ہے اور بارات کاجلوس لے کر کسی بھی روٹ پر جاسکتا ہے چاہے اس میں کتنی ہی ہائی ٹیون اسپیکر کیوں نہ لگے ہوئے ہوں ناچ گانے گاتے ہوئے جلوس آپ نے بھی بارہا دیکھے ہونگے ، اگر خدا نا خواستہ کسی کے ہاں میت ہو جائے تو وہ بھی کسی بھی جگہ صفیں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور جنازہ لے کر کسی بھی روٹ یا راستے سے گذر سکتا ہے ، اور عید قرباں پر قربانی کا جانور لے کر کہیں بھی گھما سکتا ہے دوسرے مذاہب کے جلوس جس میں ہولی وغیرہ کے جلوس بھی اسی طرح نکالے جاتے ہیں اور شادی یا فوتگی میں آنے والے مہمانوں کوکسی بھی جگہ پانی پلایا جاتا ہے اور ان تمام معاملات میں کسی پرمٹ یا پیشگی اجازت کی ضرورت نہیںاور نہ ہی اس قسم کے انتظامات میں کسی کمی یا زیادتی کے لئے حکومت سے اجازت کی ضرورت ہے یہ ہر پاکستانی کو آئین حق دیتا ہے اور اس حق کے تحفظ کی ضمانت بھی آئین پاکستان دیتا ہے ۔
لیکن پاکستان مین کچھ عناصر ہیں جو پاکستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں وہ کبھی سیاستدانوں کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی عالم دین کے روپ میں آتے ہیں حالانکہ ان کا تعلق نہ دین سے ہوتا ہے نہ سیاست سے وہ فقط اپنے لالچ اور ہوس کے بندے ہوتے ہیں البتہ نہروپ دھار کر ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو اپنے سیاستدان یا عالم دین ہونے کا دھوکہ دے چکے ہوتے ہیںاور سادہ لوگ انہیں اسی روپ میں قبول کرلیتے ہیں جبکہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے یزداں فروشی اور کشورفروشی کرتے ہوئے سادہ عوام کو دین اور سیاست کے نام پر دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور ایسے ایسے معاہدے کرتے ہین کہ انسانیت دنگ رہ جاتی ہے شیطانیت شرماجاتی ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان معاہدوں کے نتیجے میں کسی پر کوئی پابندی نہیں حتیٰ کہ کالعدم تنظیموں پر بھی پابندیاں نہیں وہ بھی نئے نئے جلو س نکالتی ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کا منہ چڑاتی ہیں مگر آئین کی اجازت کے باوجود اگر پابندی ہے توصرف پاکستان کی اس قوم پر جو جوقیام پاکستان سے لیکر آج تک ہزاروں لاشوں کو اٹھانے کے باوجود کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایابلکہ ہمیشہ ملکی سلامتی کو پیش نظر رکھا اور ضبط کا مظاہرا کیا ملک کو بچانے کے لئے جس قوم نے نیشنل ایکشن پلان کو وجود بخشا آج اسی پلان کا سہارا لے کر اسی قوم کو مزید پابندکیا جارہا ہے۔اورصرف ایک قسم کے جلوس اورمجلس یا پانی پلانے پر حکومت کی جانب سے پابندی ہے اور وہ ہے حسین علیہ السلام کے لئے کیا جانے والا کوئی بھی پروگرام چاہے جشن کی صورت میں ہو یا غم کی صورت ہواگر لوگ زیادہ آئیں تو ان کو پانی پلانے کے لئے بھی جتنی حکومت اجازت دے اتنا پانی پلایا جائے ورنہ حکومتی رٹ کا مسئلہ ہوجاتا ہے ، اس بحث کو چھوڑکر کہ یہ ایک مکتب فکر کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے اس کی وجہ پر غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے ۔
تو اس کے لئے حسین ؑ کو غور سے سمجھنا پڑے گا کہ حسین ؑ نے ایسا کیا کیا تھا کہ ہر حکومت سب کو تو اجازت دے دے مگر حسین ؑ کو یا اس کی یاد منانے والوں کو ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے ۔ تو ہم اس تحریر میں پوری تاریخ تو نہیں لکھ سکتے مگر دیکھتے ہیں کہ حسین ؑ کا راستہ اس وقت کی حکومت نے روکا تھا اور روٹ پرجانے کی اجازت نہیں دی تھی اور فکر حسین ؑ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی تھی پانی پینے پربھی حکومت نے پابندی لگائی تھی تو حکومت کو کیا ضد تھی حسین ؑ سے
تومجموعی طور پر ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت نااہل لوگوں کی تھی اورحکمرانوں نے دین فروش علماء ، ضمیرفروش راویوں اور لاکھوں کی تعداد میں سپاہ اپنے ساتھ رکھنے کے باوجود اس خوف سے نہیں نکل پائے تھے کہ اگر حسین ؑ پرپانبدیاں نہ لگائیں تو ہماری یہ حکومت نہیں رہے گی لہذا حسین ؑ پر پابندیاں لگائی گئیں۔تب سے لیکر آج تک کے نااہل حکمرانوں کے دل سے وہ خوف ختم نہ ہو سکااور نہ ہی یہ خوف قیامت تک ختم ہوگا یہ چاہے جتنے بھی حکومتی پروٹوکول میں رہیں یا ادوار جتنے بھی ترقی یافتہ ہوں یا آئین کیسے ہی جدید کیوں نہ بنا لیں ۔حسین ؑ اور حسینیوں پر وہی پرانی پانی ، روٹ اورحسینی آواز پر پابندیا ںلگاتے رہیں گے ان کی نااہلی ان کے دلوں میں خوف بن کر ہمیشہ رہے گی اور یہ اپنے پیش روئوں کی طرح ہر دورمیں پابندیاں لگاتے رہیں گے ۔ اور دین فروش علما ء ، ضمیر فروش راویوں اور بااثر معاشرے کے افراد کو خرید کر مختلف معاہدے کرکے حسینیوں کو پابند کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے ابھی تو انہوں نے صرف خیرپور اور سکھرکے ضمیر اور دین فروشوں کو خریدا ہے ابھی سندھ بھر میں اور منڈیاں لگیں گی حکمرانوں کے خوف کو دیکھ کر تھوڑا سا اندازہ ہو رہا ہے کہ حسین ؑ نے کتنا شدید حملہ کیا تھا ان ظالموں پر کہ یزید کل کا خوفزدہ حکمران تھا اور یہ آج کے خوفزدہ حکمران ہیں ۔
جوظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جوجبر کا منکر نہیں وہ منکردیں ہے
تحریر ۔۔۔۔۔عبداللہ مطہری
وحدت نیوز(آرٹیکل) گندگی تو گندگی ہے۔ہمارے ہاں گندگی کے ساتھ جینے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اگر کسی شہر میں ہر طرف گندی نالیاں ہوں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوں اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو تو لوگ ہرروزاپنی ناک اور منہ لپیٹ کرخاموشی کے ساتھ وہاں سے گزر جائیں گے۔اکثر اسے اللہ کی مرضی سمجھتے ہوئے تھوکیں گے بھی نہیں۔
بے شک کئی سال گزرجائیں ،کوئی بات نہیں لوگ اسی طرح ناک اور منہ لپیٹ اور پائنچے اوپر اٹھا کر گزرتے رہیں گے۔ایسے میں اگر کوئی شخص اس گندگی کو صاف کرنے کے لئے کمر ہمت کسے اور متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑ کر صفائی کروانا چاہے تو لوگوں کا ایک طبقہ فورا اپنی ناک سے رومال ہٹاکر کہے گا کہ یہ سب تو ایجنسیوں کو خوش کرنے ،میڈیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہورہاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ جو ناک اور منہ پر رومال لپیٹ کر اس گندگی میں سانس لیتے رہے ۔آپ نے کس وجہ سے گندگی کے ساتھ کمپرومائز کئے رکھا!؟
ہمارے ہاں ماحول کی آلودگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی آلودگی اور لاقانونیت کی بھی بھرمار ہے۔لوگوں کی ایک اکثریت اخلاقی اور قانونی مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتی ،لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مسائل کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے کیسے حل کیاجاتاہے۔
اکثریت بس ناک منہ لپیٹ کر وقت گزارنے والوں کی ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے ناک منہ لپیٹ کر کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرتی رہی۔
اس دوران قم کے ایک عالم دین نے اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف آواز بلند کی۔بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے خود تفتان روٹ پر سفر کیا،لوگوں کی مشکلات سنیں اور اعلی سطح پر یہاں کے مسائل کوحل کروانے کے لئے مہم چلائی۔
ابھی ان کا دورہ جاری ہی تھا کہ طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں،میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ہم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ہوجائیں،کیا ناک اور منہ لپیٹ کراور پائنچے اوپر اٹھا کرنسل در نسل اسی طرح گزرتے رہیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افائی کریں۔
لوگ دو طرح کے ہی ہیں کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کر کے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
اب دوسروں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں ،یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم کس طرح کے لوگوں میں شمارہونا پسند کرتے ہیں۔ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضاکی خاطرجدوجہد کرنے والوں کے ساتھ۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آل سعود کی حکومت اور برطانیہ:سلطنت برطانیہ اور آل سعود کے مابین تعلقات کافی پرانی ہیں بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ آل سعود کی حکومت قائم ہوئی ہے تو وہ وہابیت کی تبلیغ اور برطانیہ کی مددسے ہوا ہے ۔ آل سعود نے مذہب وہابیت کے زریعہ عرب کے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا ہمنوا بنایا تو دوسری طرف برطانیہ کی غلامی کے طوق کو گلے میں پہن کر سیاسی اور عسکری مدد حاصل کی۔ عرب کی سرزمین پر خصوصا مکہ و مدینہ میں جو کہ مسلمانوں کے مقدس سر زمین ہے، برطانیہ بزات خود یا براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا تھا، لہذا برطانیہ کو ایک ایسے مسلمان نماء گروہ کی ضرورت تھی جو برطانوی ایجنڈے پر عمل پیراہوں اور عرب کی سر زمین پر برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس کام کے لے آل سعود سے بہتر کوئی نہیں تھا جو پہلے سے ہی عربوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات کا بیج بو چکا تھا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا۔ آل سعود کو بھی کسی طاقت کا سہارا چاہیے تھا تاکہ وہ عرب سے باقی سلطنتوں کا خاتمہ کر سکے اور ترکوں کو نکال کر اپنی حکومت قائم کر سیکں۔
آل سعود اور برطانیہ کے مابین پہلا معاہدہ ۲۶ دسمبر ۱۹۱۵ میں جزیرہ ڈرن میں طے پایا جس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ال سعود کی حکومت کو برطانیہ مکمل تحفظ فراہم کرگا ۔ اس کے بعد ۲۰ مئی ۱۹۲۷ کو معاہدہ جدہ وجود میں آیا جو عبد العزیز اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پایا اور عبد العزیز کی حاکمیت کو سلطنت حجاز اور نجد کے نام سے تسلیم کیا گیا۔
بر طانیہ پہلی ریاست ہے جنہوں نے ۱۹۲۶ میں آل سعودکے ناجائز قبضہ کو باقاعدہ حکومتی سطح پر تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات شروع کئے، سعودی عرب نے ۱۹۳۰ میں اپنا سفارت خانہ لندن میں قائم کیا۔ اس کے علاوہ ۲۰۰ معاہدات سعودیہ اور برطانیہ کے مابین طے پائے جن کی لاگت ۱۷.۵ بلین ڈالر ہے اور تیس ہزار برطانوی شہری سعودی عرب میں تجارتی اور دوسرے زرائع میں کام کر رہے ہیں۔یہ صرف برطانوی اور سعودی عرب کے تعلوقات ہیں امریکہ اور دیگر اسلام دشمن ملکوں سے اس کے تعلوقات الگ ہیں۔
سعودی حکومت اور برطانوی غلامی کے انداز کو جعفر البکی اپنے ایک کالم میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
ـ"سلطنت بر طانیہ کے دور میں سلطان نجد عبدالعزیز السعود عراق میں موجود برطانوی ہاکمشنر پرسی کاکس کے سامنے اس طرح عزت و احترام سے اپنے سر کو جھکا دیتے ہیں اورانتہائی عاجزی سے کہتے ہیں کہ آپ کا احترام میرے لئے میرے ماں باپ کی طرح ہے، میں آپ کے احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ آپ نے مجھے اس وقت سہارا دیا اور بلندی کی طرف اٹھایا جب میں کچھ بھی نہ تھا میری کچھ حیثیت نہیں تھی، آپ اگر ایک اشارہ کریں تو میں اپنی سلطنت کا آدھا حصہ آپ کو دوں۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔نہیں اللہ کی قسم اگر آپ حکم دیں تو میں اپنی پوری سلطنت آپ کو دینے کو تیار ہوں"۔
عبد العزیز نے یہ سب باتیں اکیس نومبر ۱۹۱۲ کو" العقیر کانفرنس ـ"میں اس وقت کہا جب سلطان نجد، سلطنت عراق اور سلطنت شیخین کویت کے سر حدوں کا تعین کیا جارہا تھا۔لہذا آل سعود کی حکومت کا برطانیہ اور عالمی طاقتوں کی غلامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے آل سعود نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری برطانیہ اور امریکہ کو دی ہوئی ہے اور وہ اس کے بدلے ان ممالک کو تیل فراہم کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ برطانیہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے، اس وقت عالم اسلام میں جو شدت پسند گروہ اور دہشت گرد ہیں ان کو آل سعود اور مغربی طاقتیں سپورٹ کرتی ہیں۔ آل سعود نے اپنے حکومت کو پھیلانے کے لئے ہر قسم کے ظلم و ستم کو رواں رکھا یہاں تک کہ انھوں نے شرعت محمدی ؐکو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا اور اپنی حکومت کو وسعت دی اور اسلام میں شدت پسندی کو فروغ دیا۔ آل سعود کی شدت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ان کے کام کافروں سے کم نہیں ہیں۔ یہود و نصای کا جو کام تھا وہ آل سعود نے عملی میدان میں کر دیکھا یا ہے۔ آل سعود نے وہابیت کے زریعہ اسلام کے دوشن چہرہ کو مسخ کیا وہابیت کے علاوہ تمام مذاہب کی توہین کی،حتاکہ اصحابہ کرام کی مزارات اور اہل بیت ؑ کے مزارات کی بھی توہین کی ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں آل سعودکی جانب سے پیغمبر اکرم(ص)، اہل بیت ؑ اور صحابہ کے مسمار شدہ مقامات کی سوسالہ قدیمی اسناد کے ساتھ ایسی تصاویر شائع ہوئی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آل سعود نے مکہ اور مدینہ میں پائے جانے والے تمام تاریخی اور اسلامی آثار کو منہدم کر دیا ہے حتیٰ کہ پیغمبر اکرم ؐ اور جناب خدیجہ کے اس گھر کو بھی مسمار کر دیا جس میں انہوں نے باہم زندگی گزاری۔ان اخباروں نے ۳ دسمبر ۱۹۲۰ میں شائع ہونے والے رسالے "الکفاح العربی" کے شمارے ۵۲۶ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس رسالے میں درج زیل تصاویر کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ آل سعود نے اس گھر کو مسمار کر دیا ہے جس میں پیغمبر ؐ دنیا میں تشریف لائے اور نیز اس گھر کو بھی منہدم کردیا جس میں انہوں نے جناب خدیجہ بن خولد کے ساتھ زندگی گزاری نیز وہ گھر جس میں جناب فاطمہ زہرا ؑ پیدا ہوئی جو مکہ کی گلی " زفاق الحجر" میں آل سعود نے منہدم کر دیا۔اس نادر سند سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آل سعود جو خود کو اصحاب پیغمبر کا واحد حامی سمجھتے ہیں ان کے شر سے صحابہ کے مقامات بھی محفظ نہیں رہ سکے یہاں تک کہ " المسلفلہ" کے علاقے میں جناب ابو بکر صدیق کا گھر بھی گرادیا گیا۔مصر کے اخباروں نے اس سند کو فاش کر کے تاکید کی ہے کہ اس سند کو فاش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آل سعود ابھی بھی تکفیری ٹولے کی حمایت میں تاریخ اسلام کے باقی ماندہ آثار کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ شام ،عراق ، لیبیا اور لبنان میں داعش کی صورت میں کر رہے ہیں۔واشنگٹن میں ایک تحقیقاتی ادارے نے بھی کچھ روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی حکومت نے گزشتہ ۲۰ سالوں میں ۱۹۵ ایسے تاریخی آثار اور مقدس مقامات کو منہدم کر دیا ہے جو ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے تھے۔
مکہ مکرمہ اور آل سعود کاحملہ:مکہ مکرمہ کو روز اول سے دینی اور دنیاوی اعتبار سے مرکزیت حاصل رہی ہے اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بالعمول اور اہل اسلام کے لئے بالخصوص تاریخی کشش رکھتا ہے اس لئے اس شہر مقدس کی تاریخ کافی پورانی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی مکہ کو عرب میں مرکزیت حاصل تھی ارد گرد کے تمام تجارتی قافلوں کا مرکز تھا اس کے علاوہ مذہبی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل رہی۔
دین اسلام کی اشاعت کے بعد مکہ مکرمہ کی حیثیت مزید بڑھ گئی یہاں سے پیغمبر اسلام ؐ نے دعوت اسلام کا آغاز کیا اور جہالت میں ڈوبی عربی قوم کو ایک نئی زندگی بخشی، وقت کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا مرکز بھی مکہ ٹھہرا اور مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بنا اور تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام قرار پایا اسی لئے مسلمانوں کا سرزمین مقدس سے دلی و جذباتی لگائو ہے۔ قرآن مجید میں اس سرزمین پاک کو مکہ ، بکہ اور ام القری جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیاہے۔ سورہ آل عمران، آیت:۹۶ میں ارشاد خداوند ہے "یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لئے مقرر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لئے"۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام، عرفات، مشعرالحرام اور سرزمین منیٰ اور دیگر اہم ترین مقامات مقدسہ موجود ہیں۔
ٓآل سعود نے جب عرب کے باقی علاقوں پر قبضہ کر لیا تو اس نے مکہ مکرمہ اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگا اور کسی بہانے کی تلاش میں تھاتا کہ مکہ پر حملہ کر سکیں اور آخر کار جب عبد العزیز نے دیکھا کہ شریف غالب جنگ پر آمادہ ہے تو اس نے بھی لشکر کو مکہ کی طرف بھیجا، جب شریف غالب اور عبد العزیز کے درمیان جنگ چھڑی تو یہ جنگ تقریبا نو سال تک جاری رہی ۔۔۔جاری
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) کمروں میں ہر طرف گندگی کی سڑاند تھی،اے کاش میں پاکستان ہاوس کے گندے کمروں اور بستروں کی تصاویر بنا کرلاتایہ کہہ کر زائر نے میری طرف دیکھا اور بولا جو جتنا مجبور ہوتا ہے اس سے اتنے زیادہ رشوت وصول کی جاتی ہے۔لوگوں کو کانوائے کے نام پر محصور کیاجاتاہے تاکہ ان کے ویزے کی مدت کم ہوتی جائے اور وہ مٹھی گرم کرنے کے بارے میں سوچیں ،راستے میں گھنٹوں چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بیوی بچوں سمیت بٹھایاجاتاہے تاکہ مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ دیں،پاکستان ہاوس کے تعفن میں حبسِ بے جا میں رکھاجاتاہے تاکہ ان سے جو رقم نچوڑی جاسکتی ہی نچوڑی جائے،کرایہ جتنا زیادہ کوئی وصول کرسکتا ہے وہ کرلیتا ہے کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے،علاقے کے ڈی سی کا لیٹر مانگا جاتا ہے تاکہ ہراسان کرکے پانچ سو یا ہزار روپیہ کمایاجائے۔۔۔
انسان کہیں شکایت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا،اُف کرے توڈانٹ پڑتی ہے،ہائے دہائی کرے تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے،جولوگ کانوائے کے بغیر آتے ہیں ،ان سے پوچھیں کہ ایف سی والوں کا کیا رویہ ہے؟ وہ سیکورٹی ریکارڈ کے نام پر اپنے شخصی موبائل سے مستورات کی تصاویر بناتے ہیں۔۔۔
پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جولوگ اس روٹ پر کبھی زمینی سفر ہی نہیں کرتے وہ ان مسائل کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں۔
بعض لوریاں سنانے لگتے ہیں اور بعض “مٹی پاو اور جہاز سے آو “کا نسخہ بتاتے ہیں۔
ایک زائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ طبقاتی کشمکش چل رہی ہے ،ہر مذہب ،مسلک ،مکتب اور پارٹی میں ایک اشرافی طبقہ موجود ہے ،وہ طبقہ نچلے طبقے کے مسائل کو لمس ہی نہیں کرتا،وہ زمینی سفر کی صعوبتوں،غربت میں زیارت کی لذّت اور خالی ہاتھ حج و عمرے کے ذائقے کو چکھتا ہی نہیں ۔۔۔
اسے پتہ ہی نہیں کہ کانوائے کے نام پر محصور ہو جانا یعنی کیا۔۔۔؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ کرایوں کا بڑھ جانا یعنی کیا؟ وہ اس کرب سے گزرا ہی نہیں کہ بیوی بچوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر میجر صاحب کا انتظار کرنا یعنی کیا؟اسے یہ زخم لگا ہی نہیں کہ ایف سی کے اہلکاروں کا شخصی موبائلوں سے تصاویر بنانا یعنی کیا؟
قارئین کرام !بات شیعہ کانفرنس کی نہیں بات چیک اینڈ بلینس کی ہے ،بات ایف سی اہلکاروں کی نہیں بات شہریوں کے حقوق کی ہے ،بات پاکستان ہاوس کی نہیں بات آئین کی بالادستی کی ہے بات ہزارہ برادری کی نہیں بات اصولوں کی ہے۔
جوقانون شہریوں کو تحفظ نہ دے سکے،جوفوج بھتہ خوروں پر ہاتھ نہ دال سکے ،جو پولیس شہریوں کی شکایات کا نوٹس نہ لے اورجو خفیہ ادارے کرپٹ عناصر کی لوٹ مار سے بروقت باخبر نہ ہوسکیں ۔۔۔وہ کس درد کی دوا ہیں؟؟؟
اس مسئلے کا فوری حل یہی ہے کہ آرمی کی زیرِ نگرانی شکایت سیل قائم کیاجائے اور خفیہ اداروں کے اہلکار زائرین کے روپ میں بھتہ خوروں اور رشوت خوروں کا تعاقب کریں۔
پاکستان کی آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کا لوہا دنیا مانتی ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ادارے کوئٹہ و تفتان کے مسئلے میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور یہ مسئلہ حل نہ ہو۔
ابھی محرم و صفر کی وجہ سے زائرین کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ یقینی ہے لہذا مذکورہ اداروں کو بھی اپنی فعالیت کو یقینی بناتے ہوئے کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر شخص اپنے ملک و ملت سے فطری طور پرمحبت کرتا ہے ،ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کو سنوارنا،اہل پاکستان کی مشکلات کا احساس کرنا اور مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ایک فطری امر ہے۔آئیے پاکستان کو بدنما بنانے والوں،پاکستان کا امیج خراب کرنے والوں اور پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
ایک خوبصورت ،باامن اور خوشحال پاکستان ہی ہم سب کا خواب ہے۔ہمارے اجداد نے پاکستان بنایاتھا اسے سنوارنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کے نام سے ہمارے اجداد کی آنکھوں میں جو نور چمکتا تھا اس نور کو ہمیشہ سلامت رہنا چاہیے۔
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی،
میری آنکھ میں ابھی نُور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزمگاہ کے درمیاں،
ہے میرا نشان کُھلا ہُوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرس،
نئے معرکوں پہ تُلا ہُوا
مجھے دیکھ قبضہِ تیغ پر،
ابھی میرے کف کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو ۔۔۔
یہ میرے نسب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہُوں،
جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اُسے مرگزار کا خوف کیا،
جو کفن بدوش سدا رہا
وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے،
یہ شرف تو میرے لہو کا ہے
مجھے زندگی سے عزیز تر ہے،
یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے
سو میرے غنیم نہ بُھول تُو ،
کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تيرا جور و ظلم بلا سہی ۔۔۔۔۔۔۔
میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے مان جوش و گُرز پر،
مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے
یہی نامہ بر ہے بہار کا ۔۔۔۔
جو گلاب میرے کفن پہ ہے
تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔دنیا میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتی ہیں اور اپنے علمی و معنوی ارث کو ہاتھوں ہاتھ وصول کرتی ہیں۔۲۹ اگست ۱۹۸۳ئ کو قبلہ مفتی جعفر حسین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا انتخاب کریں تا کہ ہم مفتی صاحب سے اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔
یوں تو مفتی صاحب کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن میں اس وقت ان کی زندگی کے صرف ایک ورق کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہاہوں۔زیادہ پرانی بات نہیں ۱۹۸۰کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر قابض دیو جمہوری قدروں کو اپنے بوٹوں تلے روندنے کے بعد کسی اگلے شکار کی تلاش میں تھے کہ ۲۰جنوری۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ۲۰جنوری سے لیکر ۵جولائی۱۹۸۰ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِوقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔
بالآخر ۴جولائی ۱۹۸۰ءکا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک ہر چمچہ دھک سے رہ گیا۔ سرکاری اور درباری دبک کر سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہو گیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رح) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہو گئے تھے اور کیونکر جمع نہ ہوتے یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی۔ یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلوم اسلام کی آواز تھی۔ یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی۔ یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی۔ اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنما کے گرد جمع ہوکر زکوٰۃ وعشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔ ۵ جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے ہزاروں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔
۵جولائی کو شام ۵ بجے کے قریب ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان "محمد حسین شاد" سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعدگھنٹوں آنسوگیس، پتھر لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہو گئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالاخرطاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کےسامنے سر خم کر دیا اور نظام مصطفی کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کر کے فراعنۂ وقت پر یہ ثابت کردیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر حکومت کرتے ہو اور ہم صبر سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔
محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیاگیا نیزمحمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امرکاگواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔
پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد ۵جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیرمسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کر کے ان کا پانی تک بند کر دیا۔
یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ آج پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی گویا روزِعاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے لشکری، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں"شاد" کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔ بظاہر "شاد" کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جارہی تھی۔ حکومت کی طرف سےلاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی جس نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔
۶جولائی کو تین بجے صبح "شاد" کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ ۲۰ ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے لیکن شہید کے وارثوں نے روپے سرکاری چمچوں کو واپس تھما دئیے۔ اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں ۶جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی لیکن حکومت جانتی تھی کہ ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔
مطلق العنان اختیارات کے مالک حکمران نے ـ کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا ـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
مفتی جعفر حسین (رح) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ آج بھی مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جب یہ بوڑھا مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کر کے باہر نکلا توسیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند ، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ امیر شام کے چیلوں کے چہروں پر شکست کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔
ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رح) نے منتشر ہونے کا حکم دیا ادھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تارآگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کی حکومت بچ گئی۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر {ر}احمد ارشاد کی کتاب "حساس ادارے" کا مطالعہ کر لیجئے۔
آج بھی جب سرکاری ادارے ،زائرین کو لوٹتے ہیں،دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں،ملک کے اائین کو پامال کرتے ہیں، تو مفتی جعفرحسین قبلہ کی اقدار کے وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں مفتی صاحب والا کردار ادا کریں۔
یاد رہے کہ سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۳ئ کو قبلہ مفتی جعفر حسین اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا قومی و تنظیمی راستہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا انتخاب کریں تا کہ ہم اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.