وحدت نیوز (آرٹیکل) رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفٰیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پروردگار عالم کی جانب سے احسان عظیم ہے۔ سید الانبیاء امام المرسلین سے منسوب ایام کو ہفتہ وحدت المسلمین کے طور پر منانے کا فلسفہ پوری ملت اسلامیہ کو اتحاد و یگانگت کی لڑی میں پروتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ نے 12 سے17 ربیع الاول کو ھفتہ وحدت کے نام سے موسوم کیا ہے ، ھفتہ وحدت اپنے دامن میں بے شمار برکات و ثمرات سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کے اثرات سے پوری نسل آدم فیضیاب ہو رہی ہے۔ انسان کو اپنے خالق سے روشناس کرانے کے لئے اللہ نے حیات انسانی کے ہر دور میں اپنے پیغمبر بھیجے، جنہوں نے اللہ کے پیغام کو بندوں تک پہنچا کر انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اپنے خالق کی خوشنودی و رضا کے لئے اسی کے بتائے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔
    
روئے زمین پر جتنے بھی پیغمبر آئے، سب نے اپنے فرائض کے تحت تعلیمات الہی کو اللہ کے بندوں تک پہنچایا۔ احکام خداوندی، اپنے تمام اصول و ضوابط کے ساتھ مکمل ہونے تک نبوت کا دروازہ کھلا رہا اور اللہ نے یکے بعد دیگرے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر روئے زمین پر بھیجے۔ ہر رسول و پیغمبر کی رحلت کے بعد اس کی امت نے اپنے نبی کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب انسان اپنی قدر و منزلت سے غافل، جہالت و ضلالت کی دلدل میں غرق، احساس محرومی کی زندگی بسر کر رہا تھا، بنت حوا شعور کی آنکھ کھولنے سے قبل صحرا کی تپتی ریت میں ہمیشہ کے لئے زندہ درگور ہو جاتیں تھیں۔ فتنہ و فساد اور شر نے حیات انسانی کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا تھا۔ عجیب عالم بےچارگی تھا، انسانیت اقدار کی ردا گنوا کر تپتے صحراؤں میں سسکتی، بلکتی مسیحا کو آوازیں دے رہی تھی۔
    
ایسے میں اس نور مبین کی آمد ہوئی، جس نے جہالت کے اندھیروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور علم و حکمت و دانش کا ایسا چراغاں کیا کہ نگاہ بشر اس کی چکاچوند کی تاب نہ لاتے ہوئے خود بخود سجدہ ریز ہوگئیں۔ یہی وہ پاک و پاکیزہ ہستی ہے جو اللہ کی بہت زیادہ محبوب ہے، جس کے لئے پوری کائنات کو خلق کیا گیا، جن سے محبت و عقیدت اور عشق رکھنے والوں کے لئے جنت انعام مقرر ہوئی اور ان سے بغض و عداوت رکھنے والوں اور اس ہستی کے صفات و معجزات اور سیرت و کردار پر شک کی نظر کرنے والوں کے لئے دوزخ وجود میں لائی گئی۔
    
امام الانبیاء، سیدا لاوصیاء، فخر کائنات، رحمت للعالمین، حبیب خدا، حضرت محمد مصطفے، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد اللہ کی جانب سے اپنے بندوں پہ انعام عظیم ہے۔ آپ کی آمد سے ہی انسان کو اپنے خالق کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کا موقع میسر آیا ۔آپ تمام علوم کا سرچشمہ ہیں، آپ کی رحمت سے صرف ایک خاص مکتب فکر یا صرف انسان ہی فیضیاب نہیں ہوئے بلکہ چرند پرند سمیت کائنات میں وجود رکھنے والی ہر شے آپ کی رحمت سے بہرہ مند ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت کے موقع پر آپ سے محبت اور عشق رکھنے والے اپنے اپنے انداز میں آپ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔حضرت محمد مصطفےصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا کے سامنے اسلام کا ایسا جامع نظام پیش کیا جو انسانی اقدار اور تہذہب و اخلاق سمیت حیات انسانی کے ہر پہلو کو تحفظ و ناموس فراہم کرتا تھا۔
    
اللہ نے لاکھوں انبیاء، رسل، اولیاء، اوصیاء اپنے بندوں کو صراط مستقیم سے روشناس کرانے کے لئے بھیجے اور ان تمام کو مختلف علوم و فنون، معجزات اور فضیلت و کرامات سے نوازا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان تمام فضائل و کرامات اور معجزات کا سرچشمہ بنایا اور آپ کی ذات مبارک کے ہر پہلو کو اتنا مکمل خلق کیا کہ کائنات کے تمام ظاہری و مخفی علوم آپ کی شخصیت کا حصہ بنے۔
     
تاریخ انسانی شاہد ہے کہ دنیا میں کسی تحریک، کسی مذہب نے قلیل وقت میں اتنی ترقی نہیں کی کہ جتنی اسلام نے کی ۔یہ آپ کی شخصیت کا ہی اعجاز تھا کہ صرف دس سال کی قلیل مدت میں اسلام کا دائرہ 9 مربع میل تک پھیل چکا تھا۔ آپ کی تعلیمات، شخصیت اور اسوہ حسنہ نے دوسرے تمام مذاہب پر اسلام کے اتنے خوش نما نقوش ثبت کئے کہ دنیا بھر کے لوگ بلا تفریق رنگ و نسل دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور آج روئے زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں مسلمان نہ بستے ہوں۔
    
اسلام کا دائرہ اس قدر وسیع ہونے کے باوجود آپ نے دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا اور فرمایا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہو گی تو پورا جسم بےچین ہو گا۔
    
اتحاد و اخوت و بھائی چارے کی اس سے بہترین اور جامع تعریف ممکن نہیں۔ یہ آپ کی سیرت و کردار، تعلیمات اور حسن سلوک کا ہی خاصہ تھا کہ جزیرۃ العرب سے بلند ہونے والی "لا الہ الا اللہ " کی صدا پوری دنیا میں گونج اٹھی اور اسلام کا چراغ ہر گھر کو اپنے نور سے منور کرنے لگا ایسے میں اسلام دشمن عناصر اسلام کے عالمگیر و آفاقی نظام سے شکست فاش کھانے کے بعد مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے جن میں سب سے گھناؤنی اور خطرناک سازش مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا تھا اور ملت اسلامیہ کے فرزندوں کے درمیان اختلافات کو اس حد تک ہوا دینا تھا کہ یہ آپس میں دست گریباں ہو جائیں۔
    
ماہ ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے جب حضور اکرم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنے نور سے عالم کو منور فرمایا جس کے باعث ہر مسلمان کے لئے یہ مہینہ یکساں عقیدت و احترام کا حامل ہے۔ امام الانبیاء خاتم المرسلین سید العالمین کی ولادت باسعادت کے مبارک موقع کو پوری دنیا میں ہفتہ وحدت 12 تا 17ربیع الاول کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تمام مسلمان اس مبارک موقع پہ حضور نبی کریم ﷺ کے ذکر سے محافل آباد کرتے ہیں اور آپ کی نمونہ عمل سیرت و کردار کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ربیع الاول کے بابرکت مہینے میں ہفتہ وحدت، ذکر رسالت مآب سے منور و روشن ہے جس کے ثمرات و برکات کا کوئی احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انقلاب اسلامی کے پہلے سال ہی ہفتہ وحدت کا اعلان کرکے مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینے کی جو کوشش کی ہے یقیناً وہ قابل ستائش ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ان کی اسلام سے دلی وابستگی اور عشق رسول کی عکاسی کرتا ہے۔
    
رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے، فی الوقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف جتنی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہود و عیسائیت کی ناموسِ رسالت مآب ﷺ میں بےادبی، جسارت، توہین اور گستاخی کا معاملہ نمایاں ہے، اسی پر اسلام مخالف مشینریاں اپنی توانائیاں اور مال و دولت صرف کر رہی ہیں، تمام ذرائع بشمول میڈیا کا استعمال اس کے لئے کیا جا رہا ہے، اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اہانت رسالت کی مہم کو عالمی بنا دیا گیا ہے، احترام رسالت مآب ﷺ کو پسِ پشت ڈالنے کی خاطر تمام باطل قوتیں اس کے لئے شب و روز متحرک و فعال ہیں، فطری امر ہے کہ حملے کا رُخ جس سمت سے ہوگا دفاع بھی اسی رُخ سے کیا جائے گا، حملہ پشت کی طرف سے ہو اور حصار سامنے کھڑا کیا جائے تو غیر دانشمندانہ بات ہوگی، یوں ہی موجودہ دور میں بلکہ گزری دو صدیوں سے جاری حملوں کے جواب میں مسلمانوں کے لئے لازم ہوگیا ہے کہ اب اپنے رحمت عالمین ﷺسے اپنی نسبت، عقیدت و ارادت مزید مضبوط کرلیں، اس کے لئے وہ تمام جائز امور استعمال میں لائیں جس سے مسلمانوں کے دل کا رشتہ محبت نبی کریم ﷺ کی بارگاہ سے استوار رہے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان عید میلاد النبی کوزور و شور سے پرعزم و پرارادت طریقے سے مناتے ہیں تاکہ اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا علم ہو ساتھ ہی مسلمانوں کی اجتماعیت، اتحاد اور اجماعی تسلسل کا بھی اندازہ ہو سکے، نیز اس سے ہمیں اسلامی سوسائٹی کو مضبوط کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور آستین میں چھپادشمن مایوس ہو جاتا  اور اس طرح ہم میں جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہتاہے۔
    
دنیا کی باشعور، باحس اور زندہ قومیں اپنے رہنماؤں اور قائدین کو ان کے یومِ ولادت کی مناسبت سے یاد کر کے اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتی ہیں، پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات باعث رحمت عالمین ہے، ان کا ذکر باعث رحمت ہے، عین عبادت ہے، ان کی ولادت کے موقع پر ان کی یاد کو قائم کرنا اور آپﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا نہ صرف عقیدت و فرض شناسی ہی نہیں بلکہ آپ کا ہم پر یہ حق بھی ہے کہ آپ کے پیغام امن عالم و انسانیت اور پیغام وحدت و اخوت کو عام کریں۔


ترتیب و تدوین ۔۔۔۔ ظہیرالحسن کربلائی

وحدت نیوز (آرٹیکل) جہاں اتحاد بین المومنین اہم ہے اور اس حوالے سے اپنے ہمارے دوست کا م کر رہے ہیں وہیں اتحاد بین المسلمین کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس حوالے سے جو کام ہو رہا ہےاسےجاری رہنا چاہیے یہ ایسے ہی ہے کہ یہ دونوں اصول ہیں کہ جن کو زندہ کرنےاور اپنے اندر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ متصادم نہیں ہیں ۔اور نہ ہی ایک دوسرے کی جگہ لے رہے۔اپنی اپنی جگہ پر کام جاری رہنا چاہیے اس میں جو رول پلے کرنے والاانداز ہے وہ مختلف ہے۔لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیںاتحاد بین المومنین کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کو بھی عملی طور پر دیکھانا ہوگا۔اتحاد سے مراد انضمام نہیں بلکہ اتحاد ہی ہے ۔ انضمام یعنی ایک دوسرے میں ضم ہو جانا اور اتحاد یعنی اپنے اپنے مکتب فکر پر عمل پیرا رہتے ہوئےاور دوسروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی خدمات کو انجام دینا ۔ تاکہ معاشرہ ہر قسم کے تفرقہ سے پاک رہے ۔
    
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر ہمارا اتحاد بین المسلمین کے حوالے سےویژن کیا ہے؟پاکستان میں بنیادی طور پراگر ہم کہیں کہ اسوقت چار یا پانچ مکاتب فکر  موجود ہیں ۔ جس میں اہلسنت، اہلحدیث، اہلسنت دیوبندی اور اہلسنت بریلوی حضرات ہیں شیعہ سائیڈ پر فقہ جعفریہ لیڈ کر تی ہے اور اس کے بعد اسماعیلی حضرات فقہ جعفریہ کے ساتھ آتے ہیں ۔ تو ہمارا پاکستان کے اندر کام کرنے کا ویثرن یہ ہے کہ ہم اسوقت کسی بریلوی ، دیوبندی یا شیعہ تفریق کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ افراد جو تکفیری ذہن رکھتے ہیں یا وہ گروہ یا وہ پارٹیاںجو تکفیر کی قائل ہیں ان کو ہم اس سسٹم سے جدا کریں اور دیگر وہ تمام مکاتب فکر جو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں ایک دوسرے کو آزادی اظہاررائےاور اپنے مکاتب فکر کے مطابق آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیتےہیں اوردوسرے مکاتب فکر کا احترام کرتے ہیں، ذہنی اور فکری طور پر ان کا الائنس ڈولیپ کریں ۔یہ سوچ دیوبندی حضرات کے اندر بھی پائی جاتی ہے ،بریلوی حضرات اور اہلحدیث کے اندر بھی موجود ہے ۔وہ سارے لوگ جو اتحاد بین المسلمین کےلئے کوشاں ہیں ۔ اس کا حصہ ہیں ۔ اور وہ سارے تکفیری گروہ جو نظریاتی طور پراور آئیڈیالوجی کے اعتبار سےایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں اور جن کی سوچ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہیںسمجھتے خواہ کسی بھی مکتب فکرسے اس کا تعلق ہو ۔ہم چاہتے ہیں کہ انہیں آئسولیٹ کیا جائے انہیں تنہا کیا جائے اور ان کو اپنے مکتب فکر کے اندر بھی  پذیرائی حاصل نہ ہونے پائے۔وہ اپنے مکتب فکر کو بھی بدنام کرنے کا سبب بن رہےہیں اس کی بھی توہین کرنے کا باعث ہیں ۔ لہذا ان کے حوالے سے کلئیر سٹینڈ لیناہو گا ۔تمام مکاتب فکر کے وہ معتدل لوگ جو تکفیر کے قائل نہیں ہیں ان کو مشترکات پر اکھٹا کرنا ہو گا اور اختلاف رائے کا حق دیتے ہوئے تمام مسالک کا احترام کرنا ہو گا جو اپنے انداز سے آزادی سےاپنے مسلک پر عمل کرنا چاہیںیہ وہ روح ہےاتحاد کی جس کے لئے ہمیں پاکستان کے اندرجو کام بھی کرنا ہے اسے اس کی اصل روح (اتحاد)کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا ہے۔
    
 اس حوالے سے ہم نے جو قدم اٹھائے ہیں۔جیسے ہم نے نہیں دیکھا بڑی پارٹی کون سی ہے؟بڑی شخصیت کون سی ہے؟ہم نے یہ دیکھا ہے کہ وہ کون سے گروہ ہیں ؟ جو تکفیری گروہوں کو سپورٹ نہیں کرتے خود تکفیری نہیں ہیں لیکن تکفیری گروہوں کو سپورٹ بھی نہیں کرتے ان کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملاتے ان کے ساتھ ان کی ایڈجیسٹمنٹ نہیں ہے۔لہذا پہلے مرحلے میں ہم نے تمام مکاتب فکر میں سے ان گروہوں کی شناخت کی ہے کہ جو تکفیریت کے مقابلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے آمادہ ہیں اور ہم نے الحمداللہ اس کے اندربڑی ایچومنٹ حاصل کی ہےاور پاکستان میں جس میں سنی اتحاد کونسل، 30 جماعتوں کا ایک بڑا الائنس سنی تحریک اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف گروہ ان کے ساتھ مربوط تنظیمیں یہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئیں ہیں اور بہت سی شخصیات بھی شامل ہونا شروع ہوئیں ہیںجن میں بالخصوص دیوبندی حضرات میں سے وہ لوگ کہ جو تکفیریت کے قائل نہیں ہیں کہ جو وطن عزیزاور ملت کیلئےتکفیر کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں وہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئے ہیں توپہلے مرحلے میں ہم نے جو تکفیریت مخالف  تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ان مشترکہ اہداف پر اکھٹے کرناشروع کیا ہے۔
    
دوسرےمرحلے پر ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ غیر اعلانیہ ،غیر سیاسی اتحاد و وحدت کی فضاء پیدا کی جائے جس کے لئے ماحول بنایا ہے ۔ مختلف گروہوں کو اپنے ساتھ اکھٹا کیا ہےہم چاہتے ہیںکہ یہ گروہ اتنےمضبوط ہو جائیں ان کی آواز مضبوط ہو جائے کہ عملی طور پر تکفیریت کی حمایت کرنا پاکستان کے اندر مشکل امر ہو جائے اور اس کے جو سہولت کار حمایت کرنے والے ہیںان کے لیے بھی یہاںزمین تنگ ہوجائے ایسی معاشرتی فضاءقائم کرنی ہے ۔اب ہم اس اگلے مرحلے کی طرف گامزن ہیں ہمیں یقیناً یہ اس کے لئے اور کام بھی کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ وہ چیزیں جس کی وجہ سے تکفیریت کو مواد ملتا ہے جیسے توہیں آمیز مواد(لٹریچر،خطاب،گفتگو)یا وہ توہین آمیزحرکات جو ہمارا شیلٹر لے کر کی جائیں جو فقہ جعفریہ کا شیلٹرلے کر کی جائیں لیکن اس سےتکفیریت کے لیے بنیاد مضبوط کی جائےاور اس خطاب ،لٹریچر یا گفتگو کو تکفیری لوگ بنیاد بنا پیش کریں ، اور پھرتکفیری گروہ آپ کے خلاف ماحول سازی کرے، اس کو بھی روکنا ہے ۔ اس کی اجازت بھی نہیں دینی ہوگی ۔ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنے کے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔ جو یقیناً اتحاد بین المومنین کی طرف بھی ایک قدم ہے اس میں اصلاح بھی ہے کہ ہم نے اپنا اجتماعی ویژن درست کیا ہےمیں صرف اس میں اتنا عرض کروں گاکہ اس سلسلے میں ذاکرین، خطباء ، علماء ،ماتمی انجمنوں بالخصوص بانیان مجالس ان کے ساتھ ہماری بات چیت اور ڈسکشنز اور انڈرسٹینڈنگز ڈوویلپ ہوئی ہیں ۔اور بعض نےہمارے ساتھ یاداشتیں لکھی ہیں بعض نے ایگری مینٹس اس حد تک کیے ہیں کہ ضابطہ اخلاق تک مرتب کیے ہیں اس کے اندر ہم نے تین نقاط کو واضح کیا ہے۔ان کی حفاظت کی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا قدم ہے۔ ہم نےتکفیریت سے اس کی غذا چھین لی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس کے اندر پہلا نقطہ یہ طے کیا ہے جس پر پاکستان کےنامور ذاکرین نے اور اہم بانیان مجالس نےبھی دستخط کیے ہیںکہ ہم اپنی مجالس عزاء اور اپنے دینی اجتماعات کو کسی بھی مکتب فکر کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی اپنے داخلی گروہی تقسیم ہے اس کو بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے اور تیسرا اس کے اندر یہ نقطہ ہے کہ انشاء اللہ پاکستان اور پاکستانیت اور پاکستانی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہم اپنے اجتماعات کے اندر گفتگو کریں گے تو الحمداللہ اس کے اندر بھی بہتری آئی ہے اب دشمن کو ایسا مواد نہیں ملتا ہےیا کم ملتا ہے جس کی بنیاد پر وہ فضاء سازی کر سکے اور اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھاسکے۔ پھر وہ ادارے  جو دہشت گردی کے مقابلے میںبنے ہیں میں یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ جامع ہیں لیکن وہ ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیںتکفیریت کی روح کے خلاف ہے کہ شیعہ اور سنی مل کر بیٹھیں ملی یکجہتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے اور ایسامشترکہ فورمزسے کہ جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ بیٹھتے ہیں یہ تکفیریت کے خلاف ہے تو ایسےفورمز کو بھی مضبوط کرنا شروع کیا ہےمجلس وحدت مسلمین، ملی یکجہتی کونسل کے بانیان میں سے ہیں اور اسی طریقے سے ایسے کئی فورمز غیر اعلانیہ طور پر وجود رکھتے ہیں جس میں شیعہ اور سنی مل کر بیٹھتے ہیں یو ں تکفیریت کے لیے فضاء تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔اور اسی میں وطن عزیز اور ملت پاکستان کی کامیابی ہے ۔
    
 اگلے مراحل میںوہ قوانین جو پاکستان کے اندرتکفیریت مخالف بنے ہیں ابھی کچھ نئے قوانین بھی متعارف ہوئے ہیں ان کے اوپر ان کی روح کے مطابق عمل درآمدکرانے کی ضرورت ہے اور اسی طریقے سے ضرب عضب پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو نا چاہیے تاکہ کوئی شخص کسی دوسرے کی تکفیر اور نفرت انگیز مواد کے ذریعے سے پاکستان کی فضاء کو مسموم نہ کرسکے اس پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنےا تحادیوں کے ساتھ مل کر فضاء سازی کی ہے اور اس فضاء سازی کے نتیجے میں کئی چیزیں بہتر ہوئی ہیں اورنفرت انگیز مواد میں کافی کمی ہونا شروع ہوئی ہے اور اس کا جو مس یوز ہونا تقاریر کی صورت میں تھا ،اس میںکمی ضرور آئی ہے یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ ختم ہوا ہے ابھی بھی اجتماعات میں مکتب اہل بیتؑ کے خلاف نعرے لگتے ہیں لیکن اب اس پر آواز بلند ہوتی ہے اس پر سیاسی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں مذہبی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں اور ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں رہی ہےبڑی تیزی سے ان کو انشاء اللہ تعالیٰ تنہا کرنے کی طرف جارہے ہیں ۔ یہ ایک ایسا کام ہے کہ جس میں آئینی اور قانونی گنجائشیں موجود ہیں ۔ہم تمام گنجائشوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے چیزوں کو آگے بڑھائیں پھر ایک بہت بڑا کام آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نےبھی تکفیر یت کے لیے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دی ہے ازواج مطہرات اوراصحابہ کرام کے حوالے سے ایک تاریخی فتویٰ صادر کیا ہے ’’ اہلسنت کے مقدسات (ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ) کی توہین کو انہوں نے حرام قرار دے دیا ہے ‘‘ اس کے بعد ہمارے ہاں بھی یقینی طور پر اصلاح ہوئی ہے۔بہر حال کچھ لوگ تکفیریت پھیلانے کے حوالے سے اس سے استفادہ کرتے تھے جب تشیع کی اتنی بڑی لیڈر شپ سٹینڈ لے لیتی ہے تو اس کے بعد ان کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے جو تکفیریت کو بڑھاوا دیں جو اس میں سب سے بڑی سپورٹ ہمیںآغا کے اس فتویٰ کی روشنی میں ملی ہے۔     

ظاہر ہےیہ ایک اتحاد کی جانب بہت بڑا سٹپ تھا ۔ قدم بہ قدم ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ایک چیز جو ہمارے پاس بہت اہم ہے اس حوالے سے بھی ہم کچھ ڈوویلپمنٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ عمان معاہدہ ہے جو اہلسنت کی طرف سے ایک پیش کش ہے۔کنگ آف جورڈن کی طرف سے اور اس کے بعد اس پر تقریباً اہل تشیع،اہل تسنن اور اہل حدیث میں سے عالم اسلام کی برجستہ شخصیات نے اس کے اوپر دستخط کیے ہیں یہ اہلسنت کی طرف سے وہ پہلا معاہدہ ہے جس میںمسلمان کی تعریف کی گئی ہے اور اس میں پانچ مکاتب فکر معین کیے گئے ہیں جس میں فقہ جعفریہ کو اسلامی مکتب فکر کے طور پر معین کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان تمام مکاتب فکر میں سے کسی ایک کے اوپر بھی عملدرآمد کرتے ہوئے صحیح مسلمان رہ سکتے ہیں اس کے علاوہ جوکرتا ہےوہ دائرہ اسلام میں نہیں ہے تو اس کے اندر باقاعدہ تعریف کی گئی ہے کہ یہ تمام مکاتب فکراسلامی مکاتب فکر ہیں  اس میں اہلسنت کے مکاتب فکر ہیں حتیٰ اہلحدیث ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے معین ہے یہ ایک پہلا بڑا ڈاکومینٹ ہے جس پر مراجع کے بھی دستخط اور توثیق موجود ہے اسی طرح سے عالم اسلام مصر،آفریقی ممالک اور بعض دیگراسلامی ممالک کے بڑےجید مفتیان اعظم کے دستخط ہیں تو یہ بھی ایک ڈاکومینٹ ہے عمان ڈیکلریشن کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی بھی ایک ویلیو ہے اوراقدام اہلسنت کی طرف سے کیا گیا ہے تو پاکستان میں اہلسنت بھائی ہمارے ساتھ اتحاد کے عملی اقدام کو آگے بڑھارہے ہیں ۔
    
تو اب ہمارا ویژن یہ ہے اگر ہم عملی اتحاد کی بات کریں توآئندہ ماہ ربیع الاول آرہا ہے جیسے ابھی ماہ محرم و صفر تھاتواس میں اہلسنت بھائیوںنے ساتھ دیا ہے۔پاکستان میں کہیں کوئی تفرقہ پیدا نہیں ہوا ہے۔مجالس عزاء اور عزاداری سید الشہداء کے جومعاملات ہیں ان میں کہیں بھی پاکستان کے اندر نفرت پیدا نہیں کی ہےلو گ ایک ساتھ  ہیں۔اہلسنت کو اپنائیت محسوس ہوئی ہے کوئی ایسا ایونٹ نہیں ہوا ہے کہ جس سے کوئی دہشت گردوں کو یا جو تکفیریت والوں کو مواد ملا ہولیکن ابھی ربیع الاول کا مہینہ آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ تو آپ دیکھیں گے یہ بھی شیعہ سنی اتحاد کا مہینہ ہو گااور محمدعربی ﷺکو غلام ماننے والے شیعہ اور سنی مل کران ایام کو منائیں گے یہ جو مہینہ شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے ایک عجیب تاثیر رکھتا ہو گا۔تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ تین مہینے تو عملاً شیعہ سنی اتحاد کے ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ہمیں توقع ہے انشاء اللہ تعالیٰ کرم کریںگے۔ ہم اس وثر ن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حمایت کرنے والےلوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے بنیادی مٹریل میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ ہمارے ساتھ گروہ انجمنیں، جماعتیں ہیں ملنا شروع ہوئیں ہیں ان کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہوئی ہے عوام کے اندر بھی مقبولیت بڑھی ہے اس کے نتیجے میں مجموعی فضاءبھی بہتر ہوئی ہے اس کے جواثرات اور اس کی لہریں پارلیمنٹ کے اندر اورپولیٹکل کوریڈورز کے اندرسنائی دینے لگی ہیں۔
    
پاکستان ایک ایسا ملک ہے شیعہ اور سنی نے مل کربنایا اور اس کے اندر تکفیریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ایک اس موضوع کے اوپر کام کیا ہےکہ کون سے گروہ، ممالک اور آئیڈیالوجیز ہیں جنہیں تکفیریت کا آئیڈیا سوٹ کرتا ہے۔ان کو بے نقاب کیا جائےانکی پاکستان کے اندر مداخلت کم کی جائے جن میں بدقسمتی سے ایک بڑے ملک کا نام آتا ہے آل سعود کا نام آتا ہے کہ جنہوں نے پاکستان کے اندرشیعیت کے خلاف نفرت انگیز مواد پیدا کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
    
ابھی ایک تازہ سلسلہ شروع ہوا ہے حرمین شریفین بلکہ تحفظ آل سعود ہے ۔ حرمین شریفین کوکوئی خطرہ الحمداللہ نہیں ہے۔اور عالم اسلام اس کا پورا دفاع کرے کو تیار ہے۔لیکن آل سعود نے ایک فضاء بنائی ہے کہ اس کی بنیاد پر اہل تسنن اور اہل تشیع کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے ہمیں اس کا رستہ روکنا ہے ہمیں پاکستان کے اندر کسی بھی ملک کی مداخلت روکنی ہے پاکستان کے اندر فارن فنڈنگ روکنی ہے پاکستا ن کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔پاکستان کے اندر کسی مدرسے کسی انسٹیٹوشن اور کسی پارٹی کیلئے بیرونی فنڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور یہ بیرونی فنڈنگ اہداف کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ایک خطرہ بھی ہے
    
بالآخریہ معلوم ہے جو مزارات پر حملے ہوئے ہیں اورانہیں شرک کے مراکز قرار دیا گیا ہے ان کو بالآخریہ سوچ اور فنڈنگ آل سعود سےہو ئی ہے اور انہوں نے پہلے سعودی عرب کے اندر رسول ﷺکے اصحاب اور اہلبیتؑ کے مزارات کو مسمار کیا ہےاس کے بعد جو تفکر داعش کی صورت متشکل ہو ا ہے جو انہی سی مانوس ہے اس نے شام و عراق کے اندران مقدس مقامات کو مسمار کیا اور ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ داتا دربار سے لے کر عبداللہ شاہ غازیؒ تک اور ابھی جو شاہ نورانی ؒ کے مزار پر جو حملہ ہوا ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اس تفکر کے خلاف ہیں جو صوفیاء کا تفکر ہے جس کے نتیجے میں تمام مکاتب فکر مل بیٹھتے ہیں جس میں نفرتیں نہیں ہیں ۔جس میں محبتیں ہیں جس میں اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کیا جاتاہے۔ تو اس موضوع پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ہمیں پولیٹکل پروسیس کے نتیجے میں ہم بالآخر بڑی حد تک اس کو ایکسپوز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ سلسلہ نہیں روکا ہے اور اس پربیرونی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہو رہی ہے۔
    
 بالخصوص یمن کےمسئلہ پر پاکستان نے سعودی عرب کی یمن پر مسلط کردہ جنگ میں ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بعد سے یہ انولومینٹ بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کے اثرات بھی ہمیں کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں ۔لیکن ایک بات حقیقت ہے پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیںرہا۔کیونکہ جہاں شیعہ سنی مسئلہ آتا ہے وہاں شیعہ سنی کو قبول نہیں کرتا ہے اور سنی شیعہ کوقبول نہیں کرتا ہےلیکن یہاں مشترکہ شادیاں ہیں مشترکہ فیملیز ہیں مشترکہ پروگرامز ہیں مشترکہ ایکٹوٹیز ہیں کسی بھی جگہ گلی یا کوچہ میں سول وار کی سی کیفیت نہیں ہے یہاں نامعلوم ہاتھ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اس کے پیچھے تفکر اور آئیڈیالوجی ہوتی ہے یقیناً اس کے مراکز ہیں لیکن عوامی سطح پر شیعہ اور سنی کے درمیان دوری نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو وہ سول وار میں ڈوویلپ نہیں کر سکے عوام نے شیعہ اور سنی اختلاف کو جنگ میں بنانے کو قبول نہیں کیا ہے اختلاف یقناً موجود ہےاور اختلاف حسن ہوتا ہے اختلاف پولیٹیکل موجود ہے مذہبی موجود ہے۔
    
 لیکن ہمیںیہ اختلاف اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ ہم کسی کی جان و مال کو پامال کریں توانشاء اللہ تعالیٰ ایک ویثرن کے تحت ہم نےآگے بڑھنا شروع کیا ہے کہ خداوند کریم ہمیں توفیق دے گا۔اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس ویثر ن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں شیعہ اور سنی کواسلا م کے دو بازئوں کی صورت میں متعارف کرائیں گے اور یہ جو وحدت ہے تکفیریت کو شکست دے گی اورلوگ یہ سمجھنا بھی شروع ہو گئے ہیں پاکستانی عوام، میڈیا اور دیگر کہ تکفیریت ایک ایجنڈ ا ہے اس ایجنڈے کا مقصد عالم اسلام کو کمزور کرنا ہے  خدانے جو طاقت دی ہے اس سے استفادہ نہ کرنے دینا ہے۔
    
 تو ا ن شاء اللہ تعالیٰ جب ہم اس بڑے دشمن کو سمجھ جائیں گے تو ہم ان چھوٹے بڑے اختلافات کو بڑا نہیں بننے دیں گے۔کہ وہ مسالک کے درمیان مذاہب کے درمیان اور فرقوں کے درمیان نفرت اور جنگی فضاء ڈوویلپ کریں ہم انشاء اللہ تعالیٰ ان جزئی اختلافات کو نفرت میں نہیں بدلنے دیں گے۔اسی میں اتحاد ہے ۔ اور ہماری ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ہم نےہی اس وطن عزیز کو بنایا تھا اور ہم شیعہ و سنی ملکر اس کو بچائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے درمیان وحدت پیدا کرے اور ہمت دے کہ ہم ملکر دشمن  کا مقابلہ کرسکیں ۔ اور ہمیں ہر میدان میں ثابت قدم رکھے -

تحریر۔۔۔۔سید ناصرعباس شیرازی

ہماری تنزلی کا سبب

وحدت نیوز (آرٹیکل) دسمبر کا مہنیہ تھا حسب معمول میں کراچی شاہ فیصل کالونی میں واقعہ سپیریئرکالج کے لئے روانہ ہوا ، کالج پہنچنے کے بعد کوئی دس گیارہ بجے کے قریب اور شائد تیسری کلاس ابھی شروع ہوئی تھی، پروفیسر صاحب نے اپنے درس کا آغاز کیا ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دس بارہ اوباش نوجوان لڑکے کسی کی اجازت لئے بغیر کلاس میں داخل ہوئے اور پروفیسر کو اشارہ سے کلاس چھوڑنے کا حکم دیا، استاد بھی کراچی کے حالات سے واقف تھے لہذا خاموشی سے سرجھکا کر نکل گئے۔ کلاس میں سناٹا چھا یا ہوا تھا چالیس لڑکوں کی موجودگی کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا تھا کی کوئی زندہ انسان موجود نہ ہو اتنے میں اُن آنے والے لڑکوں نے جن کا تعلق سیاسی تنظیم سے تھا گرجدار آواز میں پوچھا کہ فلاں پارٹی کے حمایت میں کالج کے اندر وال چاکنگ کس نے کی ہے اس پارٹی کے حمایتی کتنے لوگ موجود ہیں؟ اس کے بعد ایک ایک کر کے تمام لڑکوں سے ان کے نام اور رہائش کا پوچھنے لگے، جس کے اوپر شک ہوا اس کو باہر نکالتے گئے، کالج کے اندر تین کمروں پر مشتمل سیاسی پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ کا دفتر تھا جہاں وہ اپنے نظریہ کے مخالف لڑکوں کو لے جاتے تھے اور ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ذردو کوب بھی کرتے تھے لیکن پرنسپل سمیت کالج کے اسٹاف میں سے کسی کی مجال نہیں کہ وہ کچھ کہیں، بے چارے پروفیسرز روز آتے تھے اور اپنی اپنی کلاس ٹائمینگ پر کلاس لیتے مگر تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے بجائے سیاسی کام زیادہ ہوتے تھے ، استاد و طلبہ کسی تعلیمی استفادہ کے بغیرہی گھر واپس چلے جاتے، یہ تو ایک کالج کا آنکھوں دیکھا حال ہے جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔

ہمارا موجودہ تعلیمی نظام چھ حصوں میں تقسیم ہے، کے جی اسکول، پرائمری، مڈل، ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، ہائیر سکینڈری سرٹیفکیٹ یعنی یونی ورسٹی کی تعلیم، پاکستان میں ہر سال تقریبا445000 اسٹو ڈنٹس یونی ورسٹیوں سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کر تا ہے، پھر بھی ہم دیگر ممالک کی نسبت تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہمارے بچے اسکولوں سے محروم ہیں، جی ڈی پی کا بہت کم فیصد ہماری تعلیم پر خرچ ہوتاہے ، جو اسکول بنتے ہیں وہ یا تو کبھی سیاسی آفس بن جاتے ہیں یاپھر کبھی بم دھماکوں سے اڑا دیے جا تے ہیں ۔ہم نے کبھی تعلیم کو اپنے اور معاشرے کی اصلاح کیلئے حاصل ہی نہیں کیااور نہ ہی ایسا کوئی رواج ہے، والدین کا بچوں کو تعلیم حاصل کرانے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر نوکری کرے اور پیسا کمائے اسی لئے ابھی تک پڑھا لکھا انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی حکمران نہیں آیا، بلکہ ہر پڑھالکھا نوجوان کسی غیر تعلیم یافتہ کا نوکر بن جاتا ہے۔بعض افراد ہمارے تعلیمی نظام کو پورانا اور فرسودہ قرار دیتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ ابھی اس وقت جو ہمارا تعلیمی نظام موجود ہے اگر اسی کو دیانت داری اورقوم کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح معنوں میں چلایا جائے تو ہم ایک تعلیم یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ ایسا تعلیمی نظام صرف کراچی میں ہوگا مگر مجھے اسلام آباد کے اسلام آباد ماڈل اسکول اینڈ کالج فار بوائز بارہ کہو میںیہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چھٹی ساتویں کلاس کے طالب علم ریڈنگ تک صحیح سے نہیں کر سکتے تھے، لیکن یہ بچے کیسے صحیح تعلیم حاصل کرتے، ہر کلاس میں ساٹھ سے ستر بچے موجود ہوتے ہیں ،کچھ استاد دیانت داری سے پڑھانا توچاہتے ہیں مگر وہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو صحیح طرح سے پڑھا ہی نہیں پاتے، بعض اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل بھی ہیں، یہ بچے سارے نالائق ہیں پڑھنے والے نہیں ہیں کہہ کر حاضری کی حد تک محدود رہتے ہیں، اگر ہم پرائیویٹ اسکولوں کی طرف دیکھیں تو بعض کے علاہ ہر محلہ گلی کا اسکول صرف کاروبار کی حد تک ہے جہاں پر بچوں کو تعلیم یافتہ نہیں رٹہ یافتہ بنایا جاتا ہے ،پھر یہ بچے نقل کر کے پیسے کھلا کر جیسے تیسے کر کے میٹرک پاس کرتے ہیں اور اکثر نوکری کے چکر میں لگ جاتے ہیں کچھ گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے باقی جب کالجوں میں پہنچتے ہیں تو کالج کے غیر تعلیمی ماحول (یہاں پر اکثریت کی بات ہو رہی ہے) اور سیاسی و دیگر سرگرمیاں ان کو مزید نالائق بنا دیتی ہیں،بچے کالج کم ٹیویشن اور کوچنگ سنٹر میں زیادہ جاتے ہیں شہر میں اتنے ریڑی والے نہیں ہونگے جتنے جگہ جگہ کارباری تعلیمی مراکز موجود ہیں۔بلا آخر کچھ فیصد بچے یونی ورسٹیوں میں پہنچتے ہیں تو اس میں بھی سفارش اور پیسے شامل ہوتے ہیں اُوپر سے ڈگری بھی بگتی ہے جتنا پیسا اتنی اعلیٰ ڈگری جس فیلڈ میں چاہو دستیا ب ہے، بحر حال خلا صہ یہ کہ جب تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اچھی نوکری حاصل کرنا ہو اورعلم کے حصول کو کاروبار بنادیا جائے تو ہم ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔

 کبھی ہم پر بم و بارود کی بارش ہوتی ہے تو کبھی کرپٹ ، دین اور ملک کے سوداگرہم پر حکمرانی کرتے ہیں، جن کی ڈگری جعلی ہوتی ہے وہ بے خوف خطر ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں، جن کو الحمد، بلکہ قومی ترانہ تک نہیں آتا وہ ہمارے سینٹ اور پالیمنٹ میں موجود ہیں تو کیسے یہ ملک ترقی کرے گا؟ کس طرح جی ڈی پی میں تعلیم کیلئے ضرورت کے حساب سے فنڈ مختص کریں گے؟کس طرح دہشت گردی، کرپشن سے ہم مقابلہ کریں گے؟کیسے ہم اپنے ملک کے مستقبل کی اصلاح کریں گے؟اس زمانے میں ترقی کا واحد حل تعلیم ہے، جب سے ہم نے اپنے آباو اجداد کی رسم کو چھوڑا ہے تب سے ہم تنزلی کا شکار ہوہے ہیں ایک زمانہ وہ تھا کہ کیمیا دان ، ریاضی سے لیکر طب تک کے ماہر مسلمان تھے علم کا مرکز بغداد تھا ، جب سے مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کی ہے تب سے ہم کمتر اور حقیر ہو کر رہ گئے ہیں، ہر دور میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان پڑھ جاہل ہم پر مسلط ہوئے ہیں جس کا تسلسل آج تک جاری ہے اور جہاں جہاں جس جس نے علم کے دامن کو تھوڑا تھامے رکھا ہے وہ آج بھی دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں، علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہی کہا تھا

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

کسی قوم یا شخص کے لئے سب سے مشکل وقت وہ ہے جب وہ اندر سے کھوکھلا کر دیا جائے اس کے اندر کچھ نہ ہو اس کو دشمن کی سازش کا علم نہ ہو،جب انسان علم کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کو کوئی زیر نہیں کرسکتا بے شک وہ غریب ہی کیوں نہ ہو وہ دشمن کی ہر سازش کو آرام سے سمجھ سکتا ہے اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکتا ہے لیکن علم کی قیمت اچھی نوکر ی حاصل کرنے کی حد تک ہو تو پھر 69 سال گزرنے کے باوجود نوکر ہی رہتا ہے اور نااہل لوگ حکمران بن کر سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں، اور اشرف المخلوقات کو بھیڑ بکریوں کی طرح چن سکوں کے عوض اپنا قیدی بنالیتے ہیں ۔اس موقع پر صاحبان علم پر فرض ہے کہ وہ علم کی شمع کو بجنے نہ دیں اور معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کریں اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی توانائیوں کو بروکار لائیں تاکہ اس امت کو اندھرے سے نکالا جا سکے۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) مجرم پروری بھی ایک ہنر ہے۔مجرم لوگ ہی  مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں،انہیں پناہ دیتے ہیں،خطرات میں محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے  مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

مجرمانہ زہنیت رکھنے والے افراد کو کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی،وہ کسی بھی مذہب ،مکتب یا نظریے کے ہمدرد نہیں ہوتے بلکہ وہ مذہب اور نظریے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہوتے ہیں۔

۱۴ اگست ۱۹۴۷میں جب پاکستان بنا تو سولہ سو کلومیٹر فاصلے کے باوجود مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہو کر اقوام عالم کو یہ پیغام دیا کہ جنہیں نظریہ آپ میں ملا دے انہیں زمینی فاصلے ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔

اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں نے بنگالیوں کو فکری طور پر اتنا تبدیل کیا کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو مشرقی پاکستان کے باسی ہم سے جدا ہوگئے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں کی وجہ سے ہمارے ہاں عوام ہمیشہ پریشان حال اور مختلف اداروں کےمسئولین مست رہتے ہیں۔

۱۶دسمبر ۲۰۱۴ کو ہی طالبان نے حملہ کرکےپشاور کے آرمی پبلک سکول میں تقریبا ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کو شہید کیاتھا۔یہ بدترین سانحہ بھی کبھی پیش نہ آتا اگر ہمارے ہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجاتا اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں کاصفایاکیاجاتا۔

حکمرانوں کی بے حسی ،بیوروکریٹوں کی من مانی اور مسئولین کے منفی رویے ہی مجرموں کو پلنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں۔

ابھی مسئلہ تفتان ہم سب کے سامنے ہے۔لوگ سخت سردی میں ننگے آسمان تلے ٹھٹھرتے ہیں،ان کے ساتھ بدتمیزی ہوتی  ہے اور ان سے رشوت لی جاتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت اور کوئی ادارہ  ہی نہیں جو ان کے مسائل کو حل کرے۔

اب آئیے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کی طرف چلتے ہیں،جہاں پاسپورٹ کا عملہ تو ماشاللہ اچھی طرح اپنی ذمہ داری انجام دے رہاہے لیکن شناختی کارڈ  بنوانے والے لوگوں کو خون کے آنسو رلایا جاتاہے۔

لوگوں سے فیس وصول کرکے کہاجاتاہے کہ پاکستان سے نادرا والے آپ کا شناختی کارڈ نہیں بھیج رہے ۔لوگ چکر پر چکر لگاتے ہیں،فون کرتے ہیں،درخواستیں لکھتے ہیں لیکن بے حسی کی انتہا ہے کہ آگے  سےصرف ایک ہی جواب دیا جاتاہے کہ ہم کیا کریں یہ تو پاکستان سے نادرا والے نہیں بھیج رہے۔

بطور ثبوت اس وقت صرف دو رسید نمبر پیش کررہاہوں کہ جنہیں ایک سال ہوگیا ہے اور ابھی تک وہ شناختی کارڈ وصول کرنے کے لئےدھکے کھا رہے ہیں۔ایک رسید نمبر ۱۴۴۴۸۷۳ہے اس کی فیس ۱۳جولائی ۲۰۱۵ کو جمع کروائی گئی اور دوسری رسیدکا نمبر ۱۴۴۹۴۳ہے اور اس کی فیس ۲۸ جنوری ۲۰۱۶ کو جمع کروائی گئی ہے۔

بے حسی،من مانی اور منفی رویوں نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ شریف آدمی قانون  اور انصاف کے نام سے ہی ڈرتا ہے۔ہر جگہ عام آدمی کو یہ یقین ہوگیاہے کہ  کسی بھی ادارے کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف اس کے درخواست دینے اور واویلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ابھی گزشتہ روز ہی چترال ائیرپورٹ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہونے والا  ایک طیارہ حادثے کا شکارہوگیا جس میں سینتالیس کے لگ بھگ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔

یہ حادثہ کیوں پیش آیا !؟اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ یہ  یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا۔۔۔

جب یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا توپھر کس کی بے حسی اور من مانی نے اس طیارے کو اڑنے کی جازت دی۔

جب تک ہمارے ملک کے اداروں میں من مانی کرنے والے،بے حس اور منفی رویہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں اس وقت تک عوام سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔

عوامی بھلائی،فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بے حسی کو ترک کرے،من مانی کرنے والے اہلکاروں کو نشان عبرت بنایاجائے اور کسی بھی ادارے کے اہلکاروں کے منفی رویوں کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔باشعوراقوام اپنے بہادر جرنیلوں کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں،استعمار جب بھی کسی ملک کو توڑنا چاہتاہے تو سب سے پہلے اس کی فوج کو کمزور کرتاہے،چونکہ صرف کمزور فوج ہی استعمار کی آلہ کار بنتی ہے۔جب تک کسی ملک کی ملی فوج مضبوط رہتی ہے ،اس ملک  کا پرچم سربلند رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک و اقوام کی طرح ملت پاکستان بھی اپنی فوج سے والہانہ عشق  اور لگاو رکھتی ہے۔

ہمارے ہاں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا تقرر بنیادی طور پرجی ایچ کیو کی جانب سے ہی کیا  جاتاہے۔ابتدائی طور پر جی ایچ کیو کی طرف سے سینئر ترین فوجی افیسرز کی فہرست وزارت دفاع کے ذریعے وزیر اعظم کو بھیجی جاتی ہے۔فہرست کا مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم ریٹائرمنٹ کے دہانے پر کھڑے آرمی چیف سے اس بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔

جب وزیرا عظم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو صدر مملکت کو اعلان کرنے کے لئے مجوزہ نام بھیج دیتے ہیں۔یوں وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے ہیں۔چنانچہ صدر مملکت کو کمانڈر انچیف بھی کہاجاتاہے۔

مذکورہ مرحلے سے گزرنے کے بعد پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پرلیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقررکردیاہے۔یہ دونوں جنرل 29 نومبر بروز منگل سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھا لیں گے اور اسی دن موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف  بھی ریٹائرڈ ہوں گے۔

جنرل قمر باجوہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج (ٹورنٹو)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹیری (کیلی فورنیا)، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے گریجویشن کے  علاوہ  کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرنے کے علاوہ انفینٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف  کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے۔

اسی طرح لیفٹننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو بھی پروفیشنل اعتبار سے ایک مثالی افیسر سمجھا جاتاہے۔ وہ فورٹ سل اوکلوہوما (امریکا)، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کیمبرلے (برطانیہ) اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ  ہونے کے ساتھ ساتھ  حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل  اور بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں ۔

یہاں پر ہم یہ نکتہ بیان کرتے چلییں کہ کوئی بھی شخص جتنا باصلاحیت اور لائق ہوتا ہے ،اس سے توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔  مملکت پاکستان ہمارے پاس ایک الٰہی نعمت ہے اورہمارے مسئولین کے پاس  اس کی اہم پوسٹیں ایک خدائی امانت ہیں۔چنانچہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں مملکت خداداد میں  دین اور ملک و قوم کی خدمت کا شرف حاصل ہوتاہے۔

اس وقت ہمارا ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان  کے حل کی اصلی کلید پاکستان آرمی کے پاس ہی ہے۔لہذا ملت پاکستان اپنے  سپہ سالاروں سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ  اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاس ملت کو مسائل سے نجات دلائیں۔

اس وقت ہمارے اہم مسائل کی فہرست ہم پیش کئے دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے نئے سپہ سالار ،ان مسائل کو حل کرنے میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔

۱۔مسئلہ کشمیر اور پاکستانی فوج کا کردار

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی فوج کبھی بھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتی لیکن اس مسئلے کو کشمیری عوام کی منشا  اور رضایت کے بغیر حل بھی نہیں کیاجاسکتا۔دشمنوں کی چالوں اور اپنوں کی نااہلی کے باعث گزشتہ چند سالوں سے اس مسئلے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس وقت کنٹرول لائن پر پائی جانے والی کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود یہ جان لیجئے کہ موجودہ کشیدگی کسی مسئلے کا حل نہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کو اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کا براہِ راست اثر اہلیانِ کشمیر پر پڑا ہے۔کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو اپنا جزوِایمان سمجھنے والے کشمیری اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں تو کسی ہندو کی گولی کے بجائے کسی تکفیری کے فتوے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

پاکستان کو اپنی آخری اور اصلی منزل سمجھنے والے کشمیریوں کی نئی نسل اپنے ابا و اجداد کے فیصلے پر نظر ثانی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس وقت پاکستان میں پائے جانے والے تکفیری عناصر کے حوالے سے پاکستانی فوج کو فیصل کن کردار ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلہ کشمیر کے سلسلےمیں پاکستان سے تکفیریت کا خاتمہ ضروری ہے۔

دشمن پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہاہے،لہذا پاکستانی فوج کو بھی  تکفیریت کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۲۔جہادی گروہ ضرورت یا مصیبت

بلاشبہ پاکستان نے کسی دور میں روس اور ہندوستان سے نمٹنے کے لئے جہادی گروپوں کو تشکیل دیا تھا۔اب یہ گروپس اپنے اصلی خطوط سے منحرف ہوچکے ہیں اور اپنے اصلی محازوں کو چھوڑ کر گلی کوچوں میں نہتے عوام کا خون بہارہے ہیں۔

اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ جو گروپس آئین پاکستان  اور افواج پاکستان کی تابعداری کرتے ہیں اور اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہیں انہیں باقی رہنا چاہیے لیکن جو قائد اعظم کو کافر اعظم ،پاکستان کو کافرستان، ملت پاکستان کو کافر و مشرک ،آئین پاکستان کو شرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں ،ایسے گروپوں کا فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہیے۔

ایسے گروپ، ہماری نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان کے خلاف  ابھارتے ہیں،اپنے ہی ملک کے خلاف اکساتے ہیں اور خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نہتے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔

ایسے گروہوں  کو فعالیت کی اجازت دینا در اصل پاکستان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔لہذا افواج پاکستان کو سب سے پہلے اپنے ان اندرونی دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

۳۔ملکی اثاثوں کی حفاظت

ملکی اثاثوں میں صرف ایٹمی اثاثہ جات نہیں آتے بلکہ ہمارے ملک کے اصلی اثاثہ جات وہ دانشور ،پولیس آفیسر اور آرمی کے جوان ہیں جو اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ملک میں شعرا،ادبا،دانشمندوں اور پولیس و فوج کی قیمتی شخصیات اس کے علاوہ سکول کے بچوں کو شہید کیا جارہاہے۔

موجودہ صورتحال پاکستان آرمی کے سامنے ہے،اب فوج کو چاہیے کہ ایٹمی اثاثوں کی طرح اہم شخصیات اور مراکز کی حفاظت کو بھی اپنی اولین ترجیح قرار دے۔

۴۔دوسرے ممالک کے نفوز کا خاتمہ

پاکستان میں دہشت گردوں کی مدد اور سرپرستی کے حوالے سے،افغانستان ،ہندوستان اور سعودی عرب کا نفوز کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔دہشت گرد گروہ جہاں اندرونی طور پر ہمیں کمزور کرتے ہیں وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو دھچکا لگتاہے۔پاکستان کی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں پاکستان کے مفاد کے خلاف  دیگر ممالک کے اشاروں پر چلنے والے تمام  نیٹ ورکس کو توڑا جائے اور ایسے اداروں کو سیل کیاجائے۔ یہ کام پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت کو بروئے کار لائے بغیر نہیں ہوسکتا۔

۵۔پاکستان آرمی سے فرقہ واریت کا خاتمہ

اگرچہ پاکستان آرمی بظاہر ہرقسم کی فرقہ واریت سے پاک ادارہ ہے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ  جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ایک مخصوص فرقے کی تبلیغ کو آرمی میں رائج کیاگیا۔اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا،لہذا پاکستان آرمی سے فرقہ وارانہ سوچ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے اور فرقہ واریت کی جگہ بھائی چارے،اخوت اور مواخات کی عملی ٹریننگ کے لحاظ سے اقدامات کئے جانے چاہیے۔

۶۔کرپشن کا خاتمہ

پاکستان ایک اسلامی و نظریاتی ملک ہے۔جولوگ اس ملک میں کرپشن کرتے ہیں وہ در اصل ملک و قوم کے غدار ہیں۔ان غداروں سے نمٹنے کے لئے پاکستان آرمی کے پاس شفاف اور بااختیار مانیٹرنگ سیل ہونا چاہیے۔

یاد رکھئے !کرپشن صرف بڑی سطح پر نہیں ہوتی بلکہ میڈیسن کمپنیوں،پلاٹوں کی خریدوفروخت، تھانے، کچہری ،نادرا ،برقیات اور دیگر اداروں میں میں چپراسی اور اردلی  کی سطح سے شروع ہوتی ہے اور اوپر کی سطح تک جاتی ہے۔

لوگ پریشان حال ہیں،کہیں میرٹ نہیں کہیں شنوائی نہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔برقیات والے بغیر میٹر ریڈنگ کے بل دیتے ہیں،واٹر سپلائی والے  کئی ہفتوں تک پانی ہی نہیں دیتے،دہشت گرد دندناتے ہیں،عدل بکتا ہے،انصاف سسکتاہے،مخلوق خدا بے بس ہے۔

آرمی کے ایسے شکایات سیل ہونے چاہیے جہاں لوگ اپنی چھوٹی موٹی شکایات سے لے کر بڑے  بڑےمسائل تک سب کچھ لے کر جائیں اور آرمی کے دیانتدار ادارے کی زیر نگرانی  عوامی مسائل حل کئے جائیں۔اس طرح سے ریاست پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا اور جذبہ حب الوطنی میں بھی  اضافہ ہوگا۔

۷۔قبائلی علاقہ جات

قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔جب تک قبائلی علاقہ جات قومی ٓارمی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے اس وقت تک ملکی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوںمیں نصاب تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اجتماعی اور قومی شعور کو پروان چڑھایاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات کی تعمیروترقی میں بھی مسلح افواج کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور وہاں کےعوام کے ساتھ مکالمے کی فضا کو بہتر بنانا چاہیے۔

۸۔شمالی علاقہ جات کے آئینی حقوق

پورے ملک خصوصا شمالی علاقہ جات کے عوام اور پاک فوج یک جان دو قالب ہیں۔پاک فوج کو شمالی علاقہ جات کے عوام کے آئینی حقوق کے حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چونکہ   جنرل باجوہ کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے لہذا شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنے آئینی حقوق کے حوالے سے ان سے امیدیں لگانے میں حق بجانب بھی ہیں۔

۹۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد

نیشنل ایکشن پلان کو اس کے حقیقی اہداف کی طرف پلٹانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ملکی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔فوج کی سب سے اہم ذمہ داری ملکی تحفظ ہے اور یہ تحفظ نیشنل ایکشن  پلان پر عملدرآمد کے بغیر ممکن نہیں۔

یاد رہے کہ افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔جو جرنیل اس امتحان میں پورے اترتے ہیں آئندہ نسلیں ان کی عظمت کے گن گاتی ہیں اور جو اس امتحان میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ جاتے ہیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) سی پیک ایک معمہ ہے جس پر حکومت کی پوزیشن روز بروز الجھتی جارہی ہے،اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین سی پیک میں صوبے کو محروم رکھے جانے کا واویلا کررہے ہیں لیکن صوبائی وزراء اس میگا پراجیکٹ سے خاطر خواہ فائدے سمیٹنے اور خطے میں خوشحالی کی منادی کرتے نہیں تھکتے۔صرف یہی نہیں بلکہ حکمران جماعت اور ان کے حامی اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں حزب اختلاف اور ناقدین کے اعتراضات کو مخالفین کی مایوسی پھیلانے اور حتیٰ کہ اس منصوبے کے خلاف سازش کرنے کی انتہائی سنگین الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے ،لیکن کیا کہا جائے کہ اب یہ باتیں صرف مخالفین ہی نہیں بلکہ انتہائی ذمہ دار حلقے بھی ببانگ دھل اقتصادی راہداری منصوبے میں حصہ نہ ملنے پر صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں۔اس سلسلے میں چیئرمین اقتصادی راہداری کونسل سنیٹر طلحہ محمود نے گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے " صوبائی حکومت سی پیک میں اپنا حصہ نہیں مانگ رہی ہے" انہوں نے اس سیاق و سباق میں بہت کچھ کہا ہے جس کی تفصیلات اخبارات میں موجود ہیں (بحوالہ روزنامہ بادشمال مورخہ 26 نومبر 2016) ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں وہ یہ کہ موصوف کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں بلکہ دوسرے صوبے سے ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں کاروباری اور سماجی شعبے میں ایک عرصے سے خدمات انجام دیتے چلے آرہے ہیں ۔اسی کو کہتے ہیں جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے۔
گلگت بلتستان جو اقتصادی راہداری منصوبے کا گیٹ وے ہے لیکن بظاہر تمام حکومتی دعوئوں کے برعکس ابھی تک گلگت بلتستان میں کوئی بڑا منصوبہ سی پیک میں شامل ہونے کے مستند ثبوت سامنے نہ آسکے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے جو سنیٹر سید مشاہد حسین نے گلگت بلتستان سی پیک میں شامل نہ ہونے کا انکشاف کیا اور اس حوالے سے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اقتصادی راہداری منصوبے نے بھی خطہ گلگت بلتستان میں کوئی منصوبہ اس حوالے سے نہ رکھے جانے کا آن ریکارڈ آبزرویشن دی چنانچہ اتنے زیادہ معتبر ذرائع سے آنے والی خبروں اور اطلاعات کو مخالفین کی ریشہ دوانیاں قرار دیکر عوام کو بیوقوف بنانا سی پیک کی قطعاً کوئی خدمت نہیں بلکہ افسوناک اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ یہ بات بھی قابل ملاحظہ رہے کہ صوبائی وزراء اکثر ایسی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں ۔کبھی گلگت سکردو روڈ،کبھی گلگت میں میڈیکل کالج،کبھی دیامر باشہ ڈیم اور نہ جانے کون کونسے منصوبے سی پیک کا حصہ قرار دئیے جاتے ہیں۔
اقتصادی راہداری منصوبہ ایک عظیم ترقیاتی منصوبہ ہے جو دنیا بھر میں زیر بحث ہے،دوست اور دشمن سب اس میگا پراجیکٹ پر اپنے تاثرات اور رد عمل دے رہے ہیں۔دوست اس منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی آمادگی کا اظہار کررہے ہیں،روس،ایران اور ترکمانستان اور دیگرکئی ممالک نے اس منصوبے میں اپنی شمولیت پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور مستقبل قریب میں کئی اور ممالک بھی ان کے پیچھے پیچھے اس عظیم منصوبے کا حصہ بننے کی تیاری کررہے ہیں۔ہندوستان اور دیگر کئی طاقتیں اس منصوبے سے ناخوش ہیں ،ان حالات میں اس منصوبے کو بہترین حکمت عملی اور شفاف طریقے سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے اربوں ڈالر کا یہ عالمی سطح کا منصوبہ زبانی کلامی خرچ سے تو نہیں چل سکتا بلکہ اس حوالے سے سالوں پہلے تخمینے، تجزیئے اور پورا پورا حساب کتاب کے بعد ڈیزائن کیا گیا ہے اگر صوبائی حکومت اور وفاق نے گلگت بلتستان کو اس کے حصے کا کوئی منصوبہ دیا ہوتا تو لامحالہ اس پراجیکٹ کے کسی بھی مرحلے میں مرتب نقشوں اور بجٹ میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا لیکن ابھی تک اس کی تصدیق کسی بھی فورم پر تاحال سامنے نہیں آئی۔چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو طفل تسلیوں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجائے اس اہم ترین خطے کو سب سے پہلے اس میگا پراجیکٹ کی اکائی تسلیم کرتے ہوئے قابل عمل منصوبے بنائے اور حقائق تسلیم کرے ورنہ صوبائی حکومت کے دعوئوں اور اعلانات کی حیثیت کوکوئی تسلیم نہیں کرے گا۔
گلگت بلتستان فطری اور جغرافیائی طور پر پاک چین دوستی اور تجارت کا بلا شرکت غیرگیٹ وے ہے۔یہ رشتہ دونوں خطوں کے مابین قیام پاکستان سے صدیوںقبل سے قائم ہے،اس دوستی اور تعلق میں کسی خاص پارٹی یا جماعت سے زیادہ ان تہذیبی، جغرافیائی قربت اور تاریخی قدروں کا عمل دخل رہا ہے۔ صدیوں قبل چینی سیاح اور بدھ مت کے پیروکار مذہبی دوروں اور سیاحت کیلئے اس علاقے سے گزرتے رہے ہیں جس کے شواہد آج بھی گلگت بلتستان کی مختلف وادیوں میں پتھروں اور چٹانوں پر کندہ ہیں،لہٰذا کوئی سازش یا طاقت ان خطوں کی آپس کے رشتوں اور تعلق کو خراب نہیں کرسکتی، چنانچہ اس حوالے سے حکومت کو چندان پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ان اسباب کی روک تھام پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے جو عوام میں اس حوالے سے بد گمانیاں پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام اور یہاں کا بچہ بچہ اپنی تاریخ اور روایات کا امین ہے آج ہمارے بھائی نہ صرف سیاچن اور کارگل میں پانی مادر وطن کا دفاع کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے ہیں بلکہ پاکستان کے ایک ایک چپے کے دفاع کیلئے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔انشاء اللہ گلگت بلتستان کے عوام بیرونی دشمنوں کی ہر سازش کے سامنے قراقرم اور ہمالیہ کی چٹانوں کی مانند سربلند اور سربکف دفاع کیلئے آمادہ و تیار ہیں تاہم گلگت بلتستان کے عوام کی خلوص اور سادگی کا جواب بھی ویسا ہی ملنا چاہئے۔یہ بھی یاد رہے کہ گلگت بلتستان معاشی افلاس، بیروزگاری اور دیگر گوناگوں مسائل کے دلدل میں ہے خطے کو اس کیفیت سے نکالنے اورآنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے صوبائی حکومت کووفاق سے اپنا حصہ لینے کیلئے دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے اور اختلاف اور مثبت تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی کیونکہ تاریخ میں وہی کردار امر ہوتے ہیں جو سچائی اور حقیقت کیلئے قیام کرتے ہیں،چل چلائو کے خوگر تاریخ کے صفحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔


تحریر: عالمگیر حسین

ای میل:This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree