وحدت نیوز(آرٹیکل) اخلاق سے افکار واقدار کو تبدیل کرنے کا نام اسلام ہے۔اسلامی اخلاق کا منبع انسان کا ضمیر ہے۔اگر انسان کا ضمیر زندہ ہوتو وہ کبھی بھی اخلاقیات کو پامال نہیں کرتا۔کوئی بھی شخص جتنا بے ضمیر ہوتاہے اتناہی بداخلاق اور منہ پھٹ بھی ۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ بد اخلاقی پر اتراتے تھے،ظلم کرنے پر فخر کرتے تھے،لڑائی جھگڑے کو بہادری سمجھتے تھے اور اخلاقی معائب کو انسانی کمالات کا نام دیتے تھے۔

انبیائے کرام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے زبردستی لوگوں کی عادات نہیں بدلیں بلکہ اپنی سیرت و اخلاق کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کے مردہ ضمیروں کو زندہ کیا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الٰہی نمائندے پتھرکھاتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن مارتے ہوئے نہیں،اسی طرح گالیاں سہتے ہوئے تو دکھائی ہیں لیکن دیتے ہوئے نہیں۔

الٰہی نمائندوں نے اپنے روشن  کردار کےذریعے  اہلِ دنیا کی تاریک سوچ کوروشن افکار میں تبدیل کیا ہے۔

مقامِ فکر ہے کہ اگر الٰہی نمائندے بھی ظالموں سے مقابلے کے لئے ظلم کا راستہ ہی اختیار کرتے ،وحشت و بربریت کے خاتمے کے لئے وحشت و بربریت کو ہی استعمال کرتے تو آج دنیا کا حال کیا ہوتا!!!؟

الٰہی نمائندوں کی زحمات اور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے وسیلہ بھی مقدس ہونا چاہیے۔

پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ایک مقدس ہدف ہے ،لیکن اس ہدف کو کسی غیر مقدس وسیلے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا اتنا ہی قبیح ہے جتنا کہ خود دہشت گردی۔

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چبائے ہوئے جگر سے لے کرسبطِ رسولؐ کے تابوت پر لگے ہوئے تیروں  نیز  میدان کربلا میں  مرجھائے ہوئے لبوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مظلوموں نے کبھی بھی ظالموں کے نقشِ قدم پر قدم نہیں رکھا۔

اہلِ حق نے کبھی بھی اخلاقی اقدار کو پامال نہیں کیا اور انسانی کرامت کی دھجیاں نہیں اڑائیں۔

پوری تاریخ بشریت میں الٰہی نمائندوں کی یہی اخلاقی فتح ہی ظالموں کی شکست کا سبب بنتی رہی ہے۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیائے ظلم ہمیشہ اعدادو شمار اور لاولشکر کے اعتبار سے برتر ہونے کے باوجود اہل حق کی اخلاقی جرات کے ہاتھوں مغلوب ہوتی رہی۔

اس وقت پاکستان کی کربلا میں بھی ظالموں کے خلاف  ایک احتجاج جاری ہے۔ اگر  ہم نے اس احتجاج کو موثر بنانا ہے تو پھراپنی مظلومیت بھری تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ہر سال دس محرم الحرام کو نواسہ رسول ؐ سے اظہار یکجہتی کے لئے  اورجمعۃ الوداع کو  یوم القدس  کے سلسلے میں پوری دنیامیں  ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاتاہے۔یہ احتجاج بظاہر خالی ہاتھ کیا جاتاہے۔۔۔

کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ  دس محرم الحرام  اور یوم القدس کو ہونے والے اس احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں!؟

حق بات تو یہ ہے کہ اس احتجاج کے فوائد و ثمرات کومکمل طور پر  ابھی تک عقل بشر درک نہیں کرسکی۔

دس محرم الحرام  اور یوم القدس کا عالمی احتجاج ہمیں یہ پیغام دے رہاہے کہ اگر احتجاج کو اس کی زمانی و مکانی شرائط اور زینبی[ع]حوصلے کے ہمراہ انجام دیا جائے تو خالی ہاتھوں اور لبیک یا حسین[ع] کے نعروں سے  بھی قصر شاہی کی بنیادوں کو ہلایاجاسکتاہے۔

اگر سیدِ سجادؑ کے اخلاق  کے مطابق بے ضمیروں کو جگایاجائے تو بہتے ہوئے اشکوں سے بھی ظلم کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔

اگر ہم تخریب،تنقید اور اخلاقی پستی سے جان چھڑواکر اپنی زندہ ضمیری،خوش اخلاقی،سیاسی تقویٰ اور بصیرت  کا ثبوت دیں تو آج بھی   پاکستان میں یہ خالی ہاتھ احتجاج  اور لانگ مارچ کوفہ و شام کے بازاروں کا منظر پیش کرسکتاہے ۔

اگر ہمارے اپنے ضمیر جاگ جائیں،ہمارے اپنے تنظیمی و اجتماعی اخلاق کی اصلاح ہوجائے   تو پھر۔۔۔

بلا شبہ۔۔۔

یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں

فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں

جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم

اہلِ حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں

 


نذرحافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ارض فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراسکے ہم نواؤں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا ۔ صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو ہاتھ اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا ۔فلسطین کا مسئلہ شروع میں تو ایک علاقائی مسئلہ رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی مخلص اور مجاہد قیادت کو یہ ادراک ہونے لگا کہ دشمن صرف زمین اور علاقائی مسئلہ سمجھ کر فلسطین پر قابض نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کے پیچھے دینی اور نظریاتی مسائل ہیں ۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے گزشتہ چھ عشروں میں کئی کوششیں ہوئیں ایک دور تھا کہ فلسطین میں یاسرعرفات کا طوطی بولتا تھا اور فلسطین اور فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ پی ایل او اور یاسر عرفات کے ہاتھوں میں تھا۔ پی ایل او نے شروع میں تو انقلابی نعروں کے ساتھ بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین کی تمام سرزمینوں کی غاصب صہیونیوں سے آزادی کے لئے صدائے احتجاج بلند کی لیکن یاسرعرفات کے یہ افکار و نظریات بہت جلد سازش اور سازباز کا شکار ہوگئے اور وہ بھی دوسرے عرب سربراہوں کی طرح فلسطینیوں کی زبان بولنے کی بجائے امریکہ اور مغرب کی زبان بولنے لگے اور بالآخر صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا حلقہ یاسرعرفات کو فلسطین کاز کا خائن قرار دینے لگا ۔ یاسرعرفات ، پی ایل او اور الفتح تنظیم کی انہی سرگرمیوں کے درمیان اسلامی انتفاضہ کا آغاز ہوا 1980 ؁ء کے آخری عشرے میں مسئلہ فلسطین علاقائی مسئلے سے ایک دینی اور مذہبی مسئلے میں تبدیل ہوگیا ۔ نئے نئے فلسطینی گروپ میدان میں آئے اور بالآخر حماس کی صورت میں ایک فلسطینی گروہ فلسطینیوں کی حقیقی آواز میں بدل گیا ۔

امام خمینی ؒ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ گردانتے تھے آپ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کی بیداری کے لئے کئی اقدامات انجام دیئے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں فوری طور پر اسرائیل کا سفارتخانہ ختم کرکے فلسطین کا سفارتخانہ قائم کیا گیا اور فلسطین کے مسئلے کے حل اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے نئی انقلابی حکومت نے فلسطینی قوم کی ہر طرح کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی امداد کرنے کااعلان کیا اسی دوران امام خمینی ؒ کی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ نے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو عالمی یوم القدس قرار دیا تھا اور اس کا مقصد فلسطین کی مظلوم قوم کا دفاع اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرنا ہے ۔ اس دن دنیا بھر میں مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت کا اعادہ کیاجاتاہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ یوم القدس کی ریلیوں میں وسیع پیمانے پر شرکت کریں اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائیں اور یہ جان لیں کہ ان کا یہ اقدام، عالمی سطح پر غیر معمولی اثرات کا حامل ہو گا۔ اس لئے کہ عالمی یوم القدس فلسطین کی مظلوم قوم کے ساتھ یکجہتی اورصیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے اور اس کی جارحیتوں کے خلاف تمام مسلم قوموں کے متحد ہونے کا دن ہے اور یہ سال ایک منفرد خصوصیت کا حامل ہے ۔ اس لئے کہ داعش دہشت گرد گروہ اپنی دھشتگردانہ کارروائیوں کے سبب مسلمانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کئے ہوئے ہے اور وہ غاصب اسرائیل کے جارحانہ اقدامات سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹا رہا ہے ۔

دراصل بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اپنی دور رس اور گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کے لئے یوم قدس کا اعلان فرمایا تھا۔امام خمینی کی جانب سے ماہ مبارک رمضان کے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم قدس قراردینے سے صیہونی حکومت اور اسکے حامیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ملت فلسطین کی جدوجہد اور عالم اسلام کی پائداری کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا ہے ۔ جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے اور بیت المقدس پر صیہونی حکومت کا قبضہ ہونے سے وہ مکمل فلسطین پر قابض ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ بیت المقدس کی حمایت کو اولین ترجیح دیں۔ آج کے حالات میں عالمی یوم قدس سے ملت فلسطین اور مسلمانوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ قدس پر توجہ دے کر عملی طور سے قدس کو فراموش کرانے کی صیہونی سازشوں کو ناکام بنادیں۔دنیا کے اکثر ملکوں بالخصوص اسلامی ملکوں کے عوام عالمی یوم قدس کو احتجاج کے طور پر منا کر صیہونی حکومت کی جارحیت اور اس کے حامیوں کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔بلاشک اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے عالمی سطح پر ملت فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے ۔ دراصل اسلامی انقلاب نے دنیا کی رائج سیاست میں نئے نظریات پیش کئے ہیں۔اسلامی انقلاب نے جارحیت کی نفی اور سامراج کے مقابل مظلوموں کی حمایت کا نظریہ پیش کیا ہے جو اسلام کی ترقی یافتہ تعلیمات پر مبنی ہے ۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی جانب سے اگست انیس سو اناسی میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے عنوان سے موسوم کرنے سے عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حمایت گذشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے بلکہ یہی امر علاقے میں اسلامی بیداری میں بھی نہایت موثر واقع ہوا ہے ۔

امام خمینیؒ نے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو روز قدس قراردے کر اس دن کو ستمگران تاریخ کے خلاف حریت و آزادی کے بلند بانگ نعروں میں تبدیل کردیا ہے ۔اسلامی انقلاب کے فورا" بعد حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے صہیونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے لئے اس دن کو روز قدس اعلان کرتے ہوئے اپنے تاریخی پیغام میں فرمایا تھا :

’’میں نے سالہائے دراز سے ، مسلسل غاصب اسرائیل کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ و خبردار کیا ہے اور اب چونکہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف ان کے وحشیانہ حملوں میں شدت آگئی ہے خاص طور پر جنوبی لبنان میں وہ فلسطینی مجاہدین کو نابود کردینے کے لئے ان کے گھروں اور کاشانوں پر پے درپے بمباری کررہے ہیں میں پورے عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ ان غاصبوں اور ان کے پشتپناہوں کے ہاتھ قطع کردینے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو جو قدر کے ایام ہیں فلسطینیوں کے مقدرات طے کرنے کے لئے ، روز قدس کے عنوان سے منتخب کرتا ہوں تا کہ بین الاقوامی سطح پر تمام مسلمان عوام فلسطینی مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت و پشت پناہی کا اعلان کریں ۔میں پورے عالم کفر پر مسلمانوں کی کامیابی کے لئے خداوند متعال کی بارگاہ میں دعاگو ہوں اور اس اعلان کے بعد سے ہی روز قدس ، قدس کی آزادی کے عالمی دن کی صورت اختیار کرچکا ہے اور صرف قدس سے مخصوص نہیں رہ گیا ہے بلکہ عصر حاضر میں مستکبرین کے خلاف مستضعفین کی مقابلہ آرائی اور امریکہ اور اسرائیل کی تباہی و نابودی کا دن بن چکا ہے ۔‘‘

روز قدس دنیا کی مظلوم و محروم تمام قوموں اور ملتوں کی تقدیروں کے تعین کا دن ہے کہ وہ اٹھیں اور عالمی استکبار کے خلاف اپنے انسانی وجود کوثابت کریں اور جس طرح ایران کے عوام نے انقلاب برپا کرکے وقت کے سب سے قوی و مقتدر شہنشاہ اور اس کے سامراجی پشتپناہوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا اسی طرح دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں کے عوام بھی اپنے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے انقلاب برپا کریں اور صہیونی ناسور کو دنیائے اسلام کے قوی و مقتدر پیکر سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیں ۔روز قدس جرات و ہمت اور جواں مردی و دلیری کے اظہار کا دن ہے مسلمان ملتیں ہمت و جرات سے کام لیں اور
مظلوم و محروم قدس کو سامراجی پنجوں سے نجات عطا کریں ۔روز قدس ان خیانتکاروں کو بھی خبردار کرنے کا دن ہے جو امریکہ کے آلۂ کار کی حیثیت سے غاصب قاتلوں اور خونخوار بھیڑیوں کے ساتھ ساز باز میں مبتلا ہیں اور ایک قوم کے حقوق کا خود ان کے قاتلوں سے سودا کررہے ہیں ۔روز قدس صرف روز فلسطین نہیں ہے پورے عالم اسلام کا دن ہے ، اسلام کا دن ہے قرآن کا دن ہے اور اسلامی حکومت اور اسلامی انقلاب کا دن ہے ۔اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا دن ہے ۔اگر اپنی اسلامی یکجہتی کی بنیاد پر لبنان کے حزب اللہی صہیونی طاقتوں کے خلاف 33 روزہ جنگ میں سرخرو اور کامیاب ہوسکتے ہیں تو فلسطینی مجاہدین بھی اگر خیانتکاروں کو اپنی صفوں سے نکال کر اتحاد و یکجہتی سے کام لیں اور پوری قوت کے ساتھ غاصب صہیونیوں کے خلاف میدان میں نکل آئیں تو یقینا" کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومے گی کیونکہ خدا نے وعدہ کیا ہے " اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کردے گا ۔‘‘حضرت امام خمینیؒ نے ایک موقع پر ’’یوم قدس‘‘کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا :’’یوم قدس ایک عالمی دن ہے یہ دن صرف قدس سے مخصوص نہیں بلکہ عالمی سطح پر مستکبرین عالم سے مستضعفین عالم کے مقابلے اور استقامت کا دن ہے یہ تمام سامراجی طاقتوں کے خلاف کمزوروں اور محروموں کی دائمی جنگ و پیکار کا دن ہے ، ان تمام قوموں کی جدو جہد اور کارزار کا دن ہے جو امریکہ اور اس کے ہم قبیل و ہم فکر دوسرے سامراجی ملکوں کی زیادتیوں کا شکار ہیں اس دن بڑی طاقتوں سے مقابلے کے لئے مستضعفین کو لیس ہوکر دشمنوں کی ناک خاک میں مل دینا چاہئے ۔"

اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کے لئے اسلام و قرآن اور کعبہ ؤ قدس کے تحفظ کے لئے ، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اوربس ایک ہوجائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صہیونیوں کا تصرف ، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے ۔ آج مظلوم فلسطینی اپنے لاشوں سے لپٹ کر دشمن کے ٹینکوں اور توپوں کے مقابل غلیل اور پتھر لے کر یہ ملت اسلامیہ کی ملتجی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان کی مدد کے منتظر ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے قبلہ اول کی خون میں لت پت ہو کر حفاظت کریں گے بس ہمیں ملت اسلامیہ کا ساتھ چاہیے ۔ہم قدس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں گے لیکن قدس کو غاصبوں کے وجود سے پاک کرکے ہی دم لیں گے ۔ بقول شاعر :
جو پتھروں میں بھی کھلتے ہیں وہ گلاب ہیں ہم
جو سرخرو ہے بہرحال وہ شباب ہیں ہم
ہمارے خون کی موجیں انہیں ڈبودیں گی
سمجھ رہے ہیں جو بس وقت کا حباب ہیں ہم
اجڑ کے بسنے نہ دیں گے کسی بھی غاصب کو
جو ان حسرتوں کی مانگ کا خضاب ہیں ہم
ہمارے دم سے ہے باقی حرارت اسلام
نگاہ جس پہ ہے سب کی وہ آفتاب ہیں ہم
کریں گے قدس کو صہیونیوں کے شرک سے پاکخلیل وقت خمینی (رح) کا سچا خواب ہیں ہم

 

 

تحریر : علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی
(سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیر)

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شیعہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں ،یہ گذشتہ پینتیس برسوں سے وقفے وقفے اور تسلسل سے جاری ہے،اس کے مختلف فیزز ہم نے دیکھے ہیں،اور اس کی کئی اقسام سامنے آئی ہیں،کبھی تو یہ اہدافی قاتلوں کے ذریعے کسی شخصیت ،کسی عزادار،کسی نامی گرامی شیعہ رہنما،کسی ڈاکٹر،کسی استاد ،کسی پروفیسر یا ایجوکیشنسٹ،کسی شاعر،کسی مذہبی رہنما،کسی سیاسی شخصیت،کسی متولی،کسی نوحہ خوان،کسی ذاکر،کسی عالم دین کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی ان قاتلوں کے ذریعے اجتماعی قتل عام کا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے اور کسی بڑے اجتماع،کسی مجلس،کسی جلسے،کسی جلوس،کسی ریلی،کسی نماز باجماعت،کسی درگاہ،کسی دربار،کسی امام بارگاہ کو بیگناہوں کے خون سے رنگین کیا جاتا ہے، اگر ہم ملت تشیع کے مجموعی رویہ اور ری ایکشن کو دیکھیں تو بلا شک و شبہ یہ ایک پرامن قوم کے طور پہ سامنے آئے گی،سینکڑوں جنازے سامنے رکھ کے چار دن انتہائی بے ضرر احتجاج و دھرنے کی مثال کسی اور کے پاس نہیں ہماری ہی ہے جبکہ ہمارے مخالفوں کی تاریخ اور کارنامے اٹھائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پاکستان ان کا وطن نہیں بلکہ یہ ہندوستان یا اسرائیل کے شہری ہیں جو پاکستان  کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں،آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر امریکہ نے کسی قبائلی ایریا میں کسی دہشت گرد گروپ کو کسی ڈرون کا شکار کیا ہے تو اس کا رد عمل پاکستان کو دیا جاتا ہے،پاکستانی عوام اور اس کے اثاثوں کو نقصان پہنچا کر فخریہ اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے ہمارے وہ مہربان مذہبی جغادری بھی قائل نظر آتے ہیں جو بظاہر سیاسی جماعتیں ہیں مگر ان کی اصل طالبانائزیشن ہی ہے۔

لہذا یہ پاکستان افواج کو شہید کہنے سے کتراتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کا کوئی سرغنہ مارا جائے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھاتے ہیں جو اس ملک کے ّآئین سے روگردانی اور انحراف کے مترادف سمجھا جانا چاہیئے،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے آج تک کبھی بھی کہیں بھی برے سے برے حالات میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اداروں اور فورسز کو نشانہ نہیں بنایا،جبکہ ہمارے مقابل دہشت گرد گروہ نے اس ملک کے ہزاروں قیمتی فوجیوں و افسران کو نشانہ بنا کر فخریہ اس کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیںکہ سیکیورٹی اداروں اور متعصب حکمرانوں کا رویہ مکتب تشیع کے پیروان کے ساتھ انتہائی جانبدارانہ اور متعصبانہ رہتا ہے،کئی ایک واقعات و حادثات نے ثابت کیا ہے کہ ہمیں خواہ مخواہ رگڑا جاتا ہے،ہم سے تعصب برتا جاتاہے،ہمیں توہین آمیز سلوک کا شکار کیا جاتا ہے،ہمیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اقلیتی شہریوں جیسے حقوق بھی حاصل نہیں ان کیلئے تو آواز بلند کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں،عالمی ادارے و میڈیا بھی ان کی زبان بن جاتا ہے مگر ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
    
اتنے سارے واقعات اور حادثات کے باوجود ہم کیا کریں کہاں جائیں ۔کیا اس کے بعد بھی ہم خاموش ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور اپنے آپ کو اہل کوفہ کی پیروی میں لگا دیں ۔کیا مختلف علاقوں سے لوگوں کا ہجرت کر جانا اور آبادیوں کا خالی ہو جانا، ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ کیا کئی لوگوں کا خوف کی وجہ سے مذہب چھوڑ دینا کافی نہیں؟عزاداری اباعبداللہ الحسین علیہ السلام پر قدغنیں شیعہ نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کاجو بازار گرم ہے ۔کیا ہم اس پر بھی خاموش رہیں ؟۔نیشل ایکش پلان کو تبدیل کر کے شیعہ اور سنی (بریلوی) کی جانب موڑنے اور انہی دومکتب فکر کے خلاف آئے دن مقدمات کے اندراج ،خطباء و واعظین پر پابندی ،جلوس عزاء اور ماتم داری کے سامنے رکاوٹوں پر بھی ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں ؟۔تو کب اور کہاں سے اس ظلم کے خلاف قیام کریں گے ؟کیا اب بھی کو ئی عذر باقی ہے ؟ اگر آج جب ہمارے خلاف ہمارے ملک میں بڑی بڑی سازشوں کا احساس کرکے ناصر ملت حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنی قوم کے دفاع اور اپنی ملت کے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک عظیم اور خاموش احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہے اور آج کئی دنوں سے اپنی صداقت کو ہر عام و خاص سے منوا لیا ہے اوراپنےپر مشقت اس سفر کو ماہ مبارک کے مہینے میں بھی جاری رکھا ہوا ہے، تو کیا اس مجاہد عالم باعمل کے اس جہاد نے کیا ہمارے لئے حجت تمام نہیں کر دی؟
     
ظلم کے خلاف جدوجہد کا درس ہمیں دین اسلام سے ملتا ہے۔ ظلم کے خلاف خاموش رہنا غیر اسلامی اور دین محمدی ﷺسے متصادم ہے۔ اس وقت دنیا میں دو طاقتیں برسرپیکار ہیں۔ ایک طاقت ظالموں کی اور دوسری مظلوموں کی ہے۔ ہم نے ظالم کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہنا ہے۔ دنیا بھر میں جو جو حکومتیں ظالمین کی تائید کرتی ہیں، وہ ظلم کی حکومتیں ہیں، ان کے خلاف قیام کرنا واجب ہے۔ وطن عزیز کو گذشتہ تین دہائیوں سے قاتلوں، ظالموں اور لٹیروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس مادر وطن کو ان کے شکنجے سے چھڑانا ہے۔

آئیے !   
اپنے آئینی حقوق کی باز یابی کےلئے عید کے بعد اپنے آپ کو ایک عظیم اور تاریخی لانگ مارچ کے لئے آمادہ کریں جس کا رخ ظالم حکومت کے ایوانوں کی طرف ہو گا اوراس پیغام کو گھر گھر تک پہنچائیں ۔                                                                   


تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیرالحسن کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل)لیں جی امجد صابری بھی مر گئے ،مرنا تو سب کو ہے۔موت تو سب کو آتی ہے ۔لیکن وہ کیسے مرے!

بھائی صاحب وہ مرے نہیں بلکہ مار دئیے گئے!

کس نے مار دئیے !؟

کچھ لوگ موت کا کاروبار بھی  تو کرتے ہیں۔یہ  بھی ایک پیشہ ہے۔۔۔اوریہ پیشہ بڑی طاقتوں کی ایما پر حاصل کیا جاتاہے۔

ہوں!یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بڑی طاقتیں اپنے بڑے بڑے مفادات کے لئے چھوٹے موٹے لوگوں کو ملازمتیں دیتی ہیں۔

اگر یہ جانتے ہیں تو پھر یہ بھی تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ۔۔۔ ملازموں کی  بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں،بعض ہرکام کرنے پر اتر آتے ہیں اور بعض اپنی شخصیت کا لحاظ کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ نوکرپکے وفادار اور کچھ ہڈ حرام ہوتے ہیں۔

جی جی کیوں نہیں!!!دنیا میں ہر جگہ ہڈ حرام لوگوں کے ساتھ محدود پیمانے پر کام کیا جاتاہے جبکہ وفاداروں کو ہمراز بنایاجاتاہے اور ان سے اہم کام لئے جاتے ہیں۔

بس پھر یہ  بھی سمجھ لیجئے کہ انسان کُشی  ہڈ حرام لوگوں کا کام نہیں بلکہ استعمار کے وفاداروں کا مخصوص پیشہ ہے۔استعمار کے وفادار ملازم انسانوں کو مارتے ہیں اور استعمار اُن کے مارے ہوئے انسانوں کی لاشوں کو بھنبوڑتا ہے۔

جی قارئین محترم!انسانوں کو دو طرح سے مارا جاتاہے،جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی۔جس طرح جسمانی طور پر ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اسی طرح ذہنی طور پرمارنے کے لئے بھی افراد کی ٹارگٹ  کلنگ ہی کی جاتی ہے۔یاد رہے کہ جسمانی طور پر کسی کی ٹارگٹ کلنگ ،ذہنی ٹارگٹ کلنگ کی نسبت بہت آسان ہے۔

ذہنی طور پر ہر کوئی نہیں مرتا اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتاہے۔اس کے لئے سب سے پہلے استعمار کے آلہ کار مختلف اقوام و ممالک کے درمیان  کم ظرف اور احساس کمتری کے ڈوبے ہوئے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔کسی بھی کم ظرف انسان کی شناخت یہ ہے کہ وہ پس پردہ  رہنے کی صورت میں سازش اور غیبت کرتاہے جبکہ مدِّ مقابل کے سامنے آنے کی صورت میں اس کی خوشامد،چاپلوسی یا توہین کرتاہے۔قابلِ ذکر ہے کہ چاپلوسی کی طرح توہین بھی کم ظرفی کے ترکش کا تیر ہے۔

جب ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی نے استعمار کے اوسان خطا کئے تو  استعمار نے ایسے ہی افراد کو ہمارے ملک میں بھی ڈھونڈا۔وہ لوگ جو درپردہ اسلامی انقلاب  کے خلاف  استعماری طاقتوں کو گرین سگنل دیتے تھے اور آمنے سامنے اسلامی انقلاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے یا پھر اس انقلاب کی توہین کرتے تھے،استعمار نے ان لوگوں کو ڈھونڈا اور یوں در پردہ سازشیوں نیز توہین اور خوشامد کرنے والوں کے لئے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ لگائے،انہیں درہم و دینار اور اسلحے سے مالا مال کیا اور پھر انہیں مجاہدینِ اسلام کہہ کر ان کے ذریعے سادہ لوح افراد کی ذہنی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔

لوگ جوق در جوق ان کیمپوں میں انسان کشی کی تربیت حاصل کرتے رہے اور پھر اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے پر اتر آئے۔

پھر اس مُلک میں کوئی شاعر،ادیب،صحافی،استاد،موسیقار،قوّال،امام بارگاہ،مسجد،مندر،کلیسا،سکول،یونیورسٹی،پولیس ،فوج ۔۔۔کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اہلیانِ پاکستان کی اتنے بڑے پیمانے پر ذہنی ٹارگٹ کلنگ کس نے کی؟

کس نے لوگوں کو دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے پر زہنی طور پر آمادہ کیا؟

کیا وہابی علما،دیوبندی مدارس اور اہلحدیث کہلوانے لوگ اس کے ذمہ دار ہیں؟!

کیا سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی  کے لوگ اتنی بڑی ذہنی تبدیلی کے موجد ہیں؟!

آپ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی تاریخ کا عمیق مطالعہ اور تجزیہ و تحلیل کرکے دیکھ لیں ،آپ کو صاف نظر آئے گا کہ دہشت گردی کے راستے میں استعمال ہونے والے لوگ خواہ کسی بھی مسلک یا ٹولے سے تعلق رکھتے ہوں،اُن کی حیثیت ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔

ٹشوپیپر کی طرح استعمال ہونے والے کسی ملت میں کوئی ذہنی  تبدیلی یا فکری انقلاب نہیں لاسکتے۔اس تبدیلی کے پیچھے وہ مکار ذہن کام کررہا ہے جو شیعہ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو شیعہ کاز کی بات کرتاہے،سنی کے ساتھ بیٹھتا ہے تو اہل سنت کی مظلومیت پر ٹسوے بہاتا ہے اور وہابیوں کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہابیوں کے علاوہ باقی سب کو ختم کرنے کی باتیں کرتاہے۔

وہ دینی قوتیں جنہوں نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لئے عوامی ذہن کو تیار کرنا تھا ،خود اُن کے ذہنوں پر دہشت گردوں کا خوف سوار کردیاگیاہے۔اگرچہ مجموعی طور پر ایک خاص  مسلک نے پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی ایک خونی تاریخ رقم کی ہے۔

لیکن اس سے اُس مسلک کو فائدے کے بجائے نقصان ہی پہنچاہے،خود اس مسلک کی مساجد و مدارس اور مفتیوں  کے بارے میں لوگوں کو یہ پتہ چل گیاہے کہ یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔

کل امجد صابری کو شہید کیا گیا۔اس سے پہلے قاری سعید چشتی کو بھی خون میں نہلایاگیاتھا،یہ شہادتیں ایسے ہی نہیں ہورہیں۔ان شہادتوں کے  پیچھے کچھ درپردہ سازشیں ہیں،کچھ ممالک ہیں،کچھ طاقتیں ہیں ،کچھ پارٹیاں ہیں،کچھ ریاستی  ادارے  اورکچھ سازشی عناصر ہیں ۔۔۔جن کے ہوتے ہوئے قاتل گرفتار نہیں ہوتے اور دہشت گردی پر قابونہیں پایاجاسکتا۔۔۔ انہیں پہچاننا ضروری ہے ۔۔۔جب تک دہشت گردوں کے سہولت کاروں،سرپرستوں اور شریکِ جرم  اداروں کو بے نقاب نہیں  کیاجاتا جرائم پیشہ عناصر کو لگام نہیں دی جاسکتی۔

بات یہ نہیں کہ امجد صابری کو موت آگئی ۔۔۔

مرنا تو سب کو ہے،

موت تو سب کو آتی ہے ،

لیکن  کل ایک مقتول کے  قاتل مرگئے ۔۔۔

شرمندگی کی موت

ندامت کی موت

شکست کی موت

کل آواز کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی

بھلا آواز بھی قتل ہوئی ہے کبھی

کل عقیدت کو مٹانے کی سعی کی گئی

بھلا  مٹانے سےعقیدت بھی مٹی ہے کبھی

شاید یہ نامراد قاتل

اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں

خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ

یہی وجہ ہے کہ

 مقتول مرانہیں بلکہ زندہ ہوگیا ہے

ہمیشہ کے لئے امر ہوگیاہے

من مات علی حب آل محمد۔۔۔

 

 

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کی معیشت کا حجم ڈھائی سو بلین ڈالر ہے۔ اس معیشت میں پچھلے آٹھ برس سے ساڑھے چار تا چھ فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر گذشتہ انہتر برس میں اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں ( بائیس ارب ڈالر سے زائد )۔ڈالر کے مقابلے میں روپے نے پچھلے تین برس سے مسلسل کمر باندھ کے رکھی ہوئی ہے۔رواں برس پاکستانی اسٹاک ایکسچینج براعظم ایشیا میں سب سے بہترین پرفارمر ہے۔پاکستان میں موجودہ شرحِ سود گذشتہ بیالیس برس میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح تین فیصد کے آس پاس ہے جس کے سبب اشیائے زندگی کے نرخوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔

اگلے مالی سال کے لیے جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، وہ پچھلے کئی عشروں میں سب سے زیادہ زراعت و صنعت دوست کہا جا رہا ہے۔گذشتہ تین برس کے دوران قومی گرڈ میں مزید ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ڈالی گئی ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ محض ہوائی نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ تک لوڈ شیڈنگ پر بہت حد تک قابو پا لیا جائے گا۔موجودہ حکومت کے معاشی اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آنے والے دونوں کے معاشی انڈیکیٹرز کے بارے میں سوچ کر آئی ایم ایف کا ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے امدادی پروگرام کا کشکول اگلے چند ماہ کے دوران توڑ دینے کے لیے بے چین ہے۔

امن و امان کے حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ضربِ عضب کے نتائج نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔پراپرٹی ، اسٹاکس اور صنعتی سیکٹر میں جنبش محسوس ہو سکتی ہے۔ملکی معیشت کا انجن یعنی کراچی پھر سے ہارن بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا ہے۔مڈل کلاس  کی جیب میں پیسہ اچھل رہا ہے تو ریسٹورنٹ اور ہوٹل انڈسٹری بھی انگڑائی لے رہی ہے۔

یہ سب اس سب کے باوجود ہے کہ کرپشن کا زور اب تک نہیں ٹوٹا ، سیاسی حکومت تین برس بعد بھی خود کو تنے ہوئے رسے پر محسوس کر رہی ہے اور حزبِ اختلاف ہو کہ اسٹیبلشمنٹ ، بدلتے علاقائی حالات سمجھنے کے لیے سرنگی بینائی ( ٹنل ویژن ) کو بصیرت سمجھنے پر بضد ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اتنے حوصلہ افزا اقتصادی انڈیکیٹرز کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔گذشتہ نو ماہ کے دوران پاکستان میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ ملا اور وہ بھی پہلے سے موجود آٹوموبیل اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری وغیرہ میں۔

پاکستان کی تمام تر توجہ اس وقت پندرہ برس کے دورانئیے پر پھیلے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے کی طرف ہے۔اور بے یقین و مشکوک فیصلہ سازوں کو یوں لگ رہا ہے، گویا تمام ہمسائیہ ممالک اور امریکا پاکستان  کے گرد گھیرا تنگ کر کے اس منصوبے سے محروم کرنا چاہتے ہیں یا ہتھیانا چاہتے ہیں۔ہر طرف سازشوں کے جال تنے ہیں۔کون دوست ، کون دشمن ، کون دوست نما دشمن ؟  کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔بس جو ہو رہا ہے غلط اور خلاف ہی ہو رہا ہے۔

مزے کی بات ہے کہ دو برس پہلے جب چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے بارے میں صرف باتیں ہو رہی تھیں تو پاکستان خود کو اتنا تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا۔اقتداری کاریڈورز میں کچھ ایسی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ بس عالمی پابندیاں اٹھنے کی دیر ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن گیم چینجر بن جائے گی۔وسطی ایشیا سے ٹیپی ( ترکمان۔افغان۔پاک۔انڈیا ) گیس پائپ لائن آئے گی اور بجلی بھی اور جنوبی و وسطی ایشیا کی منڈی یکجائی کے خوشحال سفر پر روانہ ہو جائے گی۔

لیکن کل کے ممکنہ ساجھے دار آج کے دشمن نظر آ رہے ہیں۔پہلے صرف بھارت سے مسلح تصادم کی تاریخ تھی، اب افغانستان سے بھی مسلح جھڑپوں کی روایت پڑ گئی ہے۔جب تک یاریاں اور مفادات و امکانات تھے تب تک پاک افغان بارڈر ہو کہ پاک ایران سرحد ’’ حسابِ دوستاں در دل ’’ والا معاملہ تھا۔اب یہ ہے کہ سب سے پہلے بارڈر کنٹرول ، اس کے بعد کچھ اور۔

بارڈر کنٹرول یقیناً قائم ہونے چاہئیں تاکہ ناپسندیدہ عناصر کی آمد جامد اور غیر قانونی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔لیکن بارڈر کنٹرول احساس ِ عدم تحفظ  یا معاندانہ جذبے کے زیرِ اثر قائم کرنے کا مطلب اپنے خول میں سمٹنے جیسا ہے۔طورخم گیٹ چاہ بہار سمجھوتے سے پہلے قائم ہو جاتا تو معمول کی بات ہوتی۔لیکن اس کی تعمیر میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد سے غیر معمولی جلدی مچانا معمول کی بات نہیں۔ایران برسوں سے کہہ رہا تھا کہ تافتان پر بارڈر کنٹرول کے لیے پاکستان بھی گیٹ قائم کرے مگر پاکستان دوستانہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔اب پاکستان ازخود تافتان پر گیٹ بنا رہا ہے جس کا افتتاح چودہ اگست کو ہو جائے گا۔

حالانکہ بے چین چین کو ہونا چاہیے جو اربوں ڈالر کا سرمایہ لا رہا ہے۔مگر چین خاصا پرسکون ہے۔جو ممالک پاکستان کے خیال میں پاکستان  کا گھیراؤ  کر رہے ہیں، ان سب سے چین کے بہت اچھے عامل تجارتی تعلقات ہیں۔مثلاً بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے کوشاں امریکا چین کا سب بڑا اقتصادی پارٹنر بھی ہے۔خود بھارت تمام تر جھگڑوں اور مسابقت کے ہوتے چین کا دسواں بڑا اقتصادی پارٹنر ہے۔چین کی پاکستان سے جتنی دو طرفہ تجارت ہے اس سے تین گنا تجارت ایران کے ساتھ ہے۔

پاکستان کو خوف ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک کلیدی رول دینے  کے لیے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور بھارت اپنے سافٹ پاور امیج سے افغانیوں کے دل جیت رہا ہے۔ مگر چین کو افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ایسا کوئی خوف نہیں۔وہ افغان مسئلے کے حل کے لیے کوشاں چہار ملکی گروپ کا عامل فریق بھی ہے ، افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس کے تمام افغان فریقوں سے تعلقات بھی پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔

تو پھر پاکستان پر  اچانک اپنے گھیراؤ کا اتنا خوف کیسے طاری ہوگیا ؟ اگر واقعی یہ خوف حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ہر سمت ہاتھ پاؤں چلانے اور بار بار ’’ہم کسی سے کم نہیں’’  کی تکرار کیا دنیا کو سنانے  کے لیے ہے یا اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے ہے۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان پہلے تو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پئے۔پھر کچھ گہرے گہرے سانس لے کر اعصاب نارمل کرے اور پھر سوچے کہ اب تک اس سے کیا اچھا کیا برا سرزد ہوا۔اس کی خواہشات کیا ہیں اور وسائل کتنے ہیں۔کہیں اس کی خواہشات وسائل سے زیادہ تو نہیں ؟ اسے اپنی بقا کی جنگ معاشی اسلحے سے لڑنی ہے یا پھر ادھاری دساوری بندوق سے ؟ چین جو اس وقت واحد طاقتور دوست ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اتنی ٹینشن میں نہیں اور ہم اس کے سائے میں بیٹھنے کے باوجود اس قدر ٹینشن میں ہیں ؟ کیا چین کو ہماری طرح معاملات کی نزاکت کا ادراک نہیں یا پھر ہم نرگسیت کی دلدل میں  دھنستے  چلے جا رہے ہیں؟

یہ جائزہ معقولیت کی نگاہ سے تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کی خود سے ملاقات کا بندوبست ہو۔کوئی بتائے گا کہ ستر برس میں پاکستان کی اپنے سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟
متعصب ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے تکفیری افسران کے ہاتھوں لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار ہونے والی پاکستانی شہری سیدہ مسرت بانو رہا ہوگئیں، جبکہ انکی رہائی سے ریاستی اداروں میں چھپے تکفیری افسران کی سازشیں بھی ناکام ہوگئیں ،جبکہ یوں کہا جائے وہ ذلیل و خوار ہوگئے کہ جنہوں نے آل رسول (ص)  میں سے ایک سید زادی پر دہشتگردی اور فرقہ ورانہ فسادات کروانے کا بے بنیاد اور بھونڈا الزام لگایا تھا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان

وحدت نیوز(آرٹیکل) عالمی استکباری صہیونی ایجنڈے کے مطابق یہ نااہل کرپٹ اور ظالم حکمران اور بعض اداروں میں موجود کالی بھیڑیں مملکت خدادادِ پاکستان کو ناامنی ، تباہی و بربادی کی آخری حد تک پہنچا چکے ہیں۔ جس کے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔پاکستان میں کراچی سے پارا چنارتک شیعہ ،سنی ،عیسائی،ہندواور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے عدم تحفظ اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی۔
۲۔تکفیریوں کا نام بدل بدل کر بھارت و اسرائیلی پلان کے مطابق ملک دشمن و اسلام دشمن سرگرمیوں کی ،ریاستی سرپرستی و حوصلہ آفزائی جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی رسومات  جیسے جشن میلاد،اذان میں درود و سلام ،  عزاداری کی مجالس اورجلوسوں میں حکومت کی طرف سے ناروا رکاوٹیں۔
۳۔ملک کے بعض علاقوں مثلاً پاراچنار و گلگت میں لوگوں کے ہزاروں ایکڑ رقبہ پر حکومت کے قبضے اورآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی حکومتی سازش۔
۴۔اسرائیلی و استکباری اشاروں پر بننے والے نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کے بعد، مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش ۔
۵۔کراچی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان، پشاور اور پارا چنار میں بے گناہ لوگوں(سیاسی و مذہبی شخصیات ، ڈاکٹرز، انجینئرز،ججز،وکلاء ، پروفیسرز، نمازیوں اور عزاداروں ) کے قتل عام روکنے میں حکومتی عسکری اداروں کی ناکامی، اور فورسسز میں موجود بعض کالی بھیڑوں( جیسے پارا چنار میں کمانڈنٹ ملک عمر) کے حکم پر بے گناہ عوام پر فائرنگ و قتل عام ریاستی و عسکری اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے سینکڑوں پریس کانفرسوں ، احتجاجوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کے بعدہم نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔
    
قارئین محترم ؛آپ گواہ ہیں کہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تعصب کی اندھی آگ میں یہ ملک جل کے راکھ ہو سکتا ہے،اگر حکمرانوں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہر سو دہشت و وحشت راج کرے گی،بد قسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ،ڈیرہ اسماعل خان میں جہاں کچھ عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ رک گئی تھی ایک بار پھر اس فتنے نے پورے زور کیساتھ سر اٹھا لیا ہے،اور اب دن دیہاڑے ،کھلے عام ،بھرے بازاروں اور پولیس چیک پوسٹس کے سامنے اہل تشیع کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،انہیں چن چن کے مارا جاتا ہے 19مارچ کے دن ایک شیعہ پولیس کانسٹیبل اظہر حسین کو شہید کیا گیا،اس کے بعد 22مارچ کو ایک امام بارگاہ کے متولی ایڈووکیٹ سید رضی الحسن کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں نے سر میں گولیاں مارکے شہید کیا گیا،جس کی سی سی کیمرہ فوٹیج میں نمایاں طور پہ دیکھاجا سکتا ہے،معلوم ہوا ہے کہ اس واردات کے مرتکب قاتلوں کو شہر میں لگے ہوئے چالیس کیمروں میں دیکھا گیا ہے پھر بھی کسی نے زحمت نہیں کی کہ دہشت گردوں کی تصویریں جاری کرتے تاکہ ان کو پہچان کے نشاندہی کی جا سکتی،اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ 5 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی دو مختلف وارداتوں میں ایک پروفیسر اختر علی،ایک ٹیچر مختیار بلوچ اور دو ایڈووکیٹس عاطف علی اور علی مرتجز کو سرکلر روڈ پر نشانہ بنایا گیا یہ دونوں وارداتیں چند منٹوں کے وقفے سے ہوئیں،ایک ہی دن چار پروفیشنلز کا قتل کسی قومی سانحہ سے کم نہیں تھا،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں 3اپریل کو جامعہ کراچی سے فزکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ہاشم رضوی کو نشانہ بنایا گیا،8  اپریل کو دو مومنین شاہد حسین اور علی سجاد کو ٹارگٹ کیا گیا،8 اپریل کو ہی سول سوسائٹی کے معروف قومی کارکن خرم ذکی کو نشانہ بنایا گیا خرم ذکی نے تکفیری قوتوں کو نتھ ڈالی ہوئی تھی اور ان کے خلاف توانا آواز بن چکے تھے،انہیں شدید جانی خطرہ تھا مگر سند ھ کی نااہل حکومت نے انہیں کسی قسم کی سیکیورٹی نا دی جس کا فائدہ دہشت گرد گروہ نے اٹھایا آخر انہیں ہم سے چھین لیا،خرم ذکی کو جن لوگوں سے خطرہ تھا وہ بہت ہی واضح تھے لہذا ن کیخلاف ہی ایف آئی آر کٹوائی گئی مگر نہایت افسوس کہ حکمران ان قاتلوں کو لگام ڈالنے کے بجائے انہیں کھلا چھوڑ رہے ہیں ، قاتل سرکاری گارڈز کی معیت میں پورے ملک میں گھومتے پھرتے ہیں ،جلسے جلوس کرتے ہیں،للکارتے ہیں،روزانہ نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ نکالتے ہیں اور اسے پائوں میں روندتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیںپوچھتا،خرم ذکی کا غم اور دکھ ابھی تازہ تھا کہ پاراچنار میں معصوم اور بے گناہ مومنین کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،امام حسین ؑ کے جشن ولادت کے عنوان سے جانے والے علما ء کو کرم گیٹ پر روک کر بری طرح ضدوکوب کیا جاتا ہے اس پر جب قبائلی احتجاج کرتے ہیں تو ایف سی کے متعصب اہلکار سڑک پر پرامن طور پہ بیٹھے عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ،تین مومنین شہید اور دس سے زائد زخمی ہوتے ہیںجنہیں ایف آئی آرز میں نامزد کیا جاتا ہے،یہ ظلم اور تشدد کسی بھی قوم و معاشرے کی تباہی کیلئے اور لوگوں کو بغاوت کیلئے تیار کرنے کیلئے کافی ہے مگر اس کے باوجود ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو زحمت اور سختی کا شکار کیا ہے ، اگر ہم اس ملک کے وفادار نا ہوتے تو تخریب کا راستہ اختیار کرتے ،اس ملک کے دشمنوں کی طرح خود کش دھماکے کرتے،بم چلاتے،فورسز کو نشانہ بناتے ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے مگر مکتب تشیع جو آئمہ کا مکتب ہے جو اہلبیت کا مکتب ہے جو کربلا کا مکتب ہے ہمیں اس کا درس نہیں دیتا ہم نے دنیا تک اپنے آواز پہنچانے کیلئے باوقار تہذیب یافتہ اقوام کا راستہ منتخب کیا ہے،ہم اس سے قبل جلوس نکال چکے،ریلیاں نکال چکے،دھرنے دے چکے،حتیٰ کہ لانگ مارچ کا تجربہ بھی کر چکے ،اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ دنیا ہماری آواز کو دبانہ سکے،ہمیں نظر اندازنہ کر سکے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیرالحسن کربلائی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree