وحدت نیوز (آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین کا ملک گیر سالانہ تنظیمی کنونشن اس اعتبارسے خاصی اہمیت کا حامل رہاکہ تین سال بعدمرکزی سیکرٹری جنرل کی نشست پر انتخاب کا مرحلہ بھی اسی دوران طے کیا جانا تھا۔جماعت کے منشور کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کو مرکزی سیکرٹری جنرل کہا جاتا ہے۔انتخابی عمل سے قبل مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری اپنی آئینی مدت کے اختتام پر عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔علامہ ناصر اس سے قبل دو بار منتخب ہو چکے ہیں۔کنونشن کی آخری نشست میں شیعہ سنی علما کی موجودگی نے باہمی احترام اور رواداری کی پر رشک فضا قائم کی ہوئی تھی۔میڈیا کے دوستوں اور مبصرین کی موجودگی میں رائے شماری کا عمل شروع ہوا۔ ووٹنگ کے اختتام کے بعد شوری عالی کے اراکین جو کہ انتخابی عمل کے نگران بھی تھے نے گنتی شروع کی۔بزرگ عالم دین علامہ شیخ صلاح الدین نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھاری اکثریت سے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے ہیں۔اس اعلان پر حاضرین کھڑے ہو کر نومنتخب سیکرٹری جنرل کو بھرپور نعروں کی صورت میں خراج تحسین پیش کیا۔

علامہ ناصر عباس جعفری ایم ڈبلیو ایم کے بانیان میں سے ہیں۔پارہ چنار،گلگت بلتستان، کراچی ،کوئٹہ اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے نہ تھمنے والے واقعات پر مذہبی جماعتوں کے سکوت کے ردعمل میں مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں آیا۔اس جماعت کے اولین اہداف میں ملکی ترقی و استحکام کے لیے مشترکہ کاوشیں،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کی طرف سے موثر حکمت عملی طے نہ ہونے تک آئینی جدوجہد اور اتحاد بین المسالک کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہے۔علامہ ناصر عباس نے روز اول سے یہ واضح کر رکھا تھا کہ ہم ظالم کے مخالف ہیں چاہے وہ کوئی ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو اور مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کوئی غیر مذہب ہی ہو۔ یہ نعرہ علامہ نا صر عباس کی مقبولیت کا باعث بنا۔مجلس وحدت مسلمین نے مختلف قومی اور عالمی ایشوز پر جوٹھوس موقف اختیار کیا اسے اگر اس وقت حکومت کی طرف سے پذیرائی نہیں بھی ملی تو بھی بعد کے حالات اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ اس سیاسی و مذہبی جماعت کی پالیسی قوم و ملک کے حقیقی مفاد میں تھی۔طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے قبل مجلس وحدت مسلمین کے علاوہ ملک کی تقریباََ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی حامی تھیں ۔ایم ڈبلیو ایم نے واضح طور پر حکومت سے مطالبہ کیا یہ مذموم عناصر پاکستان کے امن و استحکام کے دشمن ہیں۔ان کے ہاتھ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ رعایت برتنا اپنوں کے خون کے ساتھ غداری ہو گی۔مذاکرات کا طویل راگ الاپنے کے بعد بھی طالبان کو رام نہ کیا جا سکا تو پھر ان کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا گیا۔اگر اس آپریشن کی راہ میں مصلحت اور سیاسی دباو اثر انداز نہ ہوتا پاکستان کی بہت ساری قد آور شخصیات اور دیگر افراد دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھتے۔

اسی طرح یمن اور سعودی عرب کے مختلف تنازعات میں پاکستانی فوج کومدد کی غرض سے بھیجنے کے فیصلے کے خلاف ایم ڈبلیو ایم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کی موجودہ داخلی صورتحال اس کی قطعی متحمل نہیں۔ ہماری افواج اس وقت لاتعداداندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ہمیں بہت سارے دیگر محاذوں پر دشمن کی سازشوں کا سامنا ہے۔ایسی صورتحال میں پاک فوج کوکسی دوسرے کی لڑائی میں دھکیلنا دانشمندی نہیں۔بعد ازاں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسی موقف کو دہرایا۔وطن کی داخلی صورتحال کی ابتری میں ان قوتوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے جو دین کے نام پر تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔یہی قوتیں طے شدہ ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے دہشت گردی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔مجلس وحدت مسلمین نے ان عناصر کو شکست دینے کے لیے ملک میں شیعہ سنی اتحاد کی عملی بنیاد ڈالی۔دہشت گردی اور حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف سنی جماعتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی گئی۔سانحہ ماڈل ٹاون لاہور میں پاکستانی عوامی تحریک کے بے گناہ کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں شہادت پر ایف آئی آرنہ کرنے کے خلاف جب دھرنے کا اعلان ہو تو علامہ ناصر عباس نے مظلوم کی حمایت کی پالیسی کو مقدم رکھا اور علامہ طاہر القادری کے ہم قدم رہے۔ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط طویل ترین دھرنے میں مجلس وحدت مسلمین کی نمائندگی نے شیعہ سنی اتحاد کی ایک انمٹ تاریخ رقم کی۔2013محرم الحرام کے دوران راولپنڈی میں پیش آنے والا سانحہ راجہ بازار میں کچھ شر پسند کی جانب سے پنڈی میں تفرقہ بازی کی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔جسے اس وقت ایم ڈبلیو ایم کی مدبر قیادت نے سنی علما کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے میڈیا کے ہر فورم پر یہ آوازبلند کی کہ ملت تشیع ایک پر امن قوم ہے۔کچھ منفی عناصر ہمیں آپس میں دست گریبان کرنا چاہتے ہیں۔شیعہ سنی وحدت کے ہتھیار سے راولپنڈی میں بدامنی پیدا کرنے والوں کے عزائم خاک میں ملا دیے گئے۔علامہ ناصر عباس ہر سال ربیع الاول کے موقعہ پر تمام صوبائی و ضلع عہدیدران کو ہدایات جاری کرتے ہیں کہ وہ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر اپنے اپنے علاقوں میں سٹیج بنوائیں اور نعتیہ مقابلوں کا انعقاد کریں۔گزشتہ سال ماہ ربیع الاول کو مذہبی جوش و ولولے سے منانے کے لیے مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے ملک بھر میں تیس سو سے زائد سٹیج سجائے گا۔ شیعہ سنی وحدت کی یہ عمدہ مثال اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔علامہ ناصر عباس نے سہ بارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد خطاب میں پاکستان کی حفاظت کو واجب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس وطن کے باوفا بیٹے ہیں۔ہم اس پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ قوم و ملت کی سربلندی اور وطن کے استحکام کے لیے میری جدوجہد بلا خوف خطر جاری رہے گی۔کوئی بھی حکمران ہمیں ہمارے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔انہوں نے کہاپاکستان سمیت دنیا بھر میں بلا تخصیص مسلک و مذہب دو گروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔ایک گروہ مظلومین کا اور دوسرا ظالمین کا۔ہمیں آپ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا دیکھیں گے۔پاکستان کے پاک وجود کو داعش سمیت کسی بھی دہشت گرد طاقت کے نجس وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وطن عزیز کو اس وقت لاتعداد چینلجز کا سامنا ہے۔نفرتیں پھیلا کر قوم کو تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان قوم متحد نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے اتحاد و اخوت کے عملی اظہار سے ان ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانا ہو گا۔

حکمران عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بجائے آئے روز گرتی ہوئی لاشوں کے تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز ،ہونہار طلبہ اور علم کی روشنیاں بکھیرنے والوں سے زندگیاں چھینی جا رہی ہیں۔ہمارے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ہمارے ہی لوگوں کے خلاف مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ قانون انصاف کو طاقت کے زور پر پامال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جتنا بڑا مجرم ہے اتنا ہی بڑا مجرم اس کا سہولت کار بھی ہے۔ دونوں ملک کے امن و سکون اور انسانیت کے دشمن ہیں۔وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ان مذموم عناصر کے سختی سے کچلنا ہو گا۔عالمی استکباری قوتیں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں۔ان کے حلقہ اثر سے آزادی ہی حقیقی آزادی سمجھی جائے گی۔یہ طاقتیں قائد و اقبال کے اسلامی پاکستان کو مسلکی پاکستان کی شکل دینا چاہتے ہیں تاکہ تصادم کی راہ ہموار ہو ۔اس ملک میں بسنے والے سنی ، شیعہ ،عیسائی، ہندو اور دیگر تمام مکاتب فکر کو مذہب و مسلک کی بنیاد سے آزاد ہو کر برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ملک میں موجود سیاستدانوں، فوج، بیورکریسی اور عدلیہ سمیت سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے قومی ترقی و خوشحالی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جہادی گروہوں کو پالنے کی ضرورت نہیں اگر جنگ کرنی ہے تو تو عوام کو آواز دی جائے ۔ملک کے باوفابیٹے ایک آواز پر میدان میں موجود ہوں گے۔پاک ایران مضبوط تعلقات کے سٹریٹجک کونسل تشکیل دی جائے جسے میں دونوں ممالک کے لوگ شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کو تقویت نہ مل سکے اورمتنازعہ معاملات کا احسن انداز میں حل نکالا جا سکے۔پاک ایران کے مضبوط تعلقات خطے کے استحکام میں بہترین کر دار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوامی حقوق کے حصول کے لیے آئینی جدوجہد جاری رہے گی۔جو لوگ ریاست میں مسلح جدوجہد کے قائل ہیں وہ غدار ہیں۔مقاصد کے حصول کے لیے آئین و قانون کی پابندی ہمارا طرہ امتیا ز رہا ہے۔پاکستان میں مہذب احتجاج کی روایت ہم نے ڈالی ہے۔پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حکمران صرف کرپٹ ہی نہیں بلکہ اخلاقی قدروں سے بھی عاری ہیں۔ہم اس کرپشن کے خلاف پورے عزم اور نئے ولولے سے آگے بڑھیں گے۔


تحریر۔۔۔۔۔سید نادِعلی کاظمی

8وحدت نیوز(آرٹیکل)اپریل سنہ 1980کو عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام کے کارندوں نے عظیم فلسفی اور عالم دین آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ بنت الہدیٰ کو جیل میں اذیتیں دینے کے بعد شہید کردیا۔

آیت اللہ سید محمد باقر الصدر سنہ 1934 میں عراق کے شہر کاظمین میں آقائی سید حیدر الصدر کے گھر پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے شہر میں ہی حاصل کی اس کے بعد وہ اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نجف اشرف چلے گئے ۔

ابھی ان کی عمر بیس سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ درجۂ اجتہاد پر فائز ہوگئے ۔انہوں نے صرف بائیس سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب غایت الفکر فی علم الاصول الفقہ تحریر کی۔اس کے بعد انہوں نے دو معرکۃ الآرا کتابیں فلسفتنا اور اقتصادنا تحریر کیں جنہوں نے علمی حلقوں میں تہلکہ مچادیا۔وہ دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے اور علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتے تھے اسی بنا پر بعث پارٹی والے ان کے وجود کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے ۔آیت اللہ باقر الصدر نے امام خمینی ؒ کی قیادت میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی حمایت میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ آپ امام خمینی سے اپنی محبت کے اظہاراور انقلاب اسلامی کی ھمایت کے پیش نظر فرماتے تھے ۔

’’امام خمینی کی ذات میں اسطرح ضم ہوجاؤ جسطرح وہ اسلام میں ضم ہوگئے ہیں‘‘شہید باقر الصد رکی انقلاب اسلامی کی حمایت سابق ڈکٹیٹر حکومت کے لئے انتہائی ناگوار امر تھا۔

عراق میں اسلام مخالف قوتوں کے خلاف اور بالخصوس بعث پارٹی کی اسلام دشمن کاروائیوں کو روکنے کے لئے آیت اللہ باقر الصدر نے مہدی حکیم کے ساتھ مل کر حزب الدعوۃ پارٹی کی بنیاد رکھی ۔یہ وہ موقع تھا کہ پورے عراق میں نوجوانوں اور عوام کی بڑی تعداد اسلام کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہو گئی تھی اوراسلام دشمن بعث پارٹی کے خلاف آواز بلند ہوئی۔اسی کے نتیجہ میں بعث پارٹی کو خطرہ محسوس ہوا تو بعث پارٹی کے کارندوں نے انہیں اور ان کی عالمہ بہن سیدہ آمنہ بنت الہدای کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ان پر تشدد اور ظلم و ستم کی انتہا کردی۔آخر کار یہ دونوں بہن بھائی 8 اپریل سنہ 1980کو عراق کی بعثی حکومت کی جیل میں تشدد اور ظلم و ستم کے باعث درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے اور صدامی فوجیوں نے دونوں کو رات کی تاریکی میں ایک گمنام مقام پر دفنا دیا ۔صدام ملعون کے دور کے ایک سیکورٹی آفیسر کی جانب سے بتائی جانے والی تفصیلات کے مطابق آیت اللہ باقر الصدر اور ان کی بہن آمنہ بنت الہدیٰ کو کس طرح شہید کیا گیا،سیکورٹی آفیسر کے مطابق وہ لوگ شہید باقر الصدر اور ان کی بہن کو بغداد کے نیشنل سیکورٹی سینٹر میں لے کر آئے اور ان کے ہاتھ پاؤں کو بھاری زنجیروں سے جکڑ دیا گیا۔کچھ دیر میں عراق کا سابق صدر صدا م ملعون پہنچا اور اس نے شہید آیت اللہ باقر الصدر سے پوچھا 146146کیا تم عراق میں حکومت بنانا چاہتے ہو145145؟اور اس کے ساتھ ہی صدام نے ان کے چہرے اور جسم پر لوہے کی ایک راڈ سے تشدد کرنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد آیت اللہ سید باقر الصدر نے صدام کو جواب دیا کہ میں حکومت کو تمہارے لئے چھوڑرہا ہوں لیکن تم ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کی برکتوں کو نہیں روک سکوگے ،اس پر صدا م کوغصہ آیا اور اس نے اپنے گارڈزکو کہا کہ ان پر تشدد کرو۔صدام ملعون نے کہا کہ سیدہ آمنہ بنت الہدی ٰ کو لایا جائے جو کہ قید میں تھیں اور دوسرے کمرے میں ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ،جب شہید باقر الصدر کی شہید ہ بہن آمنہ بنت الہدیٰ کو لایا گیا تو ان کی حالت انتہائی خراب تھی ،جس پر شہید آیت اللہ باقر الصدر غصے میں آئے اور انہوں نے صدام سے کہا۔اگر تم انسان ہو تو انسان کی طرح پیش آؤ۔اس کے بعد صدام نے لوہے کی راڈ سے شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر سید باقر الصدر شدید غصے کی حالت میں صدام سے بولے کہ اگر تم مرد ہو تو آؤ مجھ سے مردوں کی طرح لڑو اور میری بہن کو جانے دو۔اس کے بعد صدا م نے اپنی پستول نکال کر سید باقر الصد ر اور ان کی بہن آمنہ بنت الہدیٰ کوگولی کا نشانہ بنایا جس کے بعد وہ شہید ہو گئے ،اور صدام ملعون وہاں سے چلا گیا،عراق میں صدام کی ڈکٹیٹر حکومت کے خاتمے کے بعد شہید آیت اللہ باقرالصدر کی قبر کا پتہ چلا اور گمنامی میں دفنائے جانے والی اس عظیم ہستی کی قبر پر ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے ۔

َََآیت اللہ سید باقر الصدر کے آثار و تالیفات۔
شھید صدر نے مختلف موضوعات پر متعدد علمی کتابیں تالیف کی ہیں متعدد موضوعات پر آپ کی قلم فرسائی سے یہ اندازہ ھوتا ھے کہ آپ مختلف سماجی، دینی، سیاسی، اقتصادی اور فلسفی میدانوں میں وسیع النظر اور صاحب رائے تھے ۔ آپ نے ان تمام موضوعات پر گرانقدر کتابیں تالیف کی ھیں کہ جن میں درج ذیل کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے ۔

۱ ۔ اقتصادنا ۔(یعنی ہماری اسلامی معاشیات جس میں انہوں نے واضح کر دیا کہ اسلام کا اپنا ایک معاشی نظام ہے جو دنیا کے مادی نظاموں سوشلزم،سرمایہ دارانہ نظاموں اور کمیونزم سے لاکھوں درجہ بہتر اور قابل عمل ہے ۔)
۲ ۔ الاسس المنطقیۃ للاستقراء(یہ کتاب متعدد مرتبہ چھپنے کے علاوہ فارسی میں ترجمہ ھو چکی ھے جس کا فارسی نام " مبانی منطقی استقراء
" ھے اور مترجم جناب سید احمد فھری ھیں)
۳ ۔ الاسلام یقود الحیۃ( اس مجموعہ کے کل چھ جزء ھیں جو سن ۱۳۹۹ھ میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی مناسبت سے ایران میں چھپ چکی ھیاس کے چھ جز ہیں۔)
۴ ۔ البنک اللاربوی فی الاسلام،۵ ۔ بحوث فی شرح العروۃ الوثقی
۶ ۔ بحوث حول المھدی عج (یہ کتاب متعدد بار چھپ چکی ھے اور فارسی میں بھی ترجمہ ھو چکی ھے پھلے یہ کتاب سید محمد صدر کی کتاب " تاریخ الغیبۃ الصغریٰ " کے اوپر مقدمہ کی حیثیت سے تحریر کی گئی لیکن بعد میں مستقل طور کتاب کی شکل میں طبع ھوئی اس کے فارسی ترجمہ کا نام " امام مھدی حماسہ ای از نور " ھے ۔)
۷ ۔ بحث حول الولایۃ ۔
۸ ۔ بلغۃ الراغبین آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد رضا آل یاسین کے رسالہ عملیہ پر شھید صدر کا تعلیقہ
۹ ۔ دروس فی علم الاصول، یہ کتاب تین مرحلہ میں " حلقات " کے نام سے لکھی گئی ھے جس کا حلقہ سوم دو حصوں پر مشتمل ھے ۔
۱۰ ۔ فدک فی التاریخ اس کتاب میں صدر اسلام کے اھم ترین حادثات میں سے ایک واقعہ پر بحث کی گئی ھے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد رونما ھوا ۔ اور آنحضرت کے بعد اسلام کی سیاسی و سماجی نظام کی تشکیل کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ھے ۔
۱۱ ۔ فلسفتنا۔ یہ کتاب ان اسلامی فلسفہ کے مباحث پر مشتمل ھے جنھیں دوسرے جدید مادی مکاتب فکر خاص طور سے مارکسیزم کے ساتھ موازنہ کر کے پیش کیا گیا ھے ۔
۱۲ ۔ غایۃ الفکر فی علم الاصول۔
۱۳ ۔ المعالم الجدیدۃ للاصول۔
۱۴ ۔ المدرسۃ الاسلامیۃ۔یہ کتاب دو حصوں میں چھپ چکی ہے ،پہلاحصہ: الانسان المعاصر و المشکلۃ الاجتماعیۃ، دوسرا حصہ: ماذا تعرف عن الاقتصاد الاسلامی ھے۔
۱۵ ۔ منھاج الصالحین،حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم کے رسالۃ عملیہ پر آپ کا تعلیقہ ھے۔
۱۶ ۔ موجز احکام الحج
آیت اللہ شہید باقر الصدر ایک ایسے مفکر اور اسلام کے رہنما تھے کہ جنہوں نے مسلمانوں کو سکھایا کہ وہ اسلام دشمن پالیسیوں اور اسلام دشمن ثقافت کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں۔آیت اللہ باقر الصدر ایک ایسے رہنما تھے کہ جنہوں نے نے نوجوانوں کے دلوں کو اسلام کی محبت سے مالا مال کر دیا۔

شہیدہ سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ
یہ 1979ء کی بات ہے جب بعثی دہشت گردوں نے شہید باقر الصدر ؒ کو نجف اشرف سے گرفتار کر لیا ،اسی وقت ایک باحجاب خاتون حرم امام علی علیہ السلام میں بھاگتے ہوئے داخل ہوئی اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا،اے لوگو!146146کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمہارے رہنما کو گرفتار کیا جا چکا ہے ،کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمہارے مرجع تقلید پر بیہمانہ تشدد کیا جا رہاہے ،باہر نکلو اور احتجاج کرو146146۔شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ کے ان ملکوتی اور الہیٰ الفاظ کا اثر تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل آئے اور شہید باقر الصدر ؒ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کر دیا،جس کے سبب صدامیوں نے انھیں اسی دن مجبوراً رہا کر دیا۔اس احتجاج نے صدامی دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ لوگ صدام ملعون کی شیطانی حکومت کے خلاف قیام کے لئے تیار ہیں۔عزم وسیرت زینبی کا پرتو سیدہ آمنہ بنت الھدیٰ 1937ء میں قدیمیہ بغداد میں پیدا ہوئیں اپنے گھر کی واحد خاتون تھیں۔شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی اور بعد میں باقی تعلیم اپنے عظیم بھائی شہید باقر الصدرؒ ؒ سے حاصل کی تھی۔اپنی اس مختصر زندگی میں عظیم خاتون شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ نے صدامی دہشت گردوں کے خلاف بلا خوف و خطر عراقی غریب عوام کے بہبود اور تعلیم کی پسماندگی کی دوری اور شعور اسلامی کی بیداری کے لئے فعال ترین کردار ادا کیا ،اپنی زندگی اور فعالیت سے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ جوآپ ؒ اسلامی دعوہ پارٹی کی خواتین ونگ کی سربراہ تھیں،1966ء میں آپ نے الدعوۃ میگزین کا آغاز کیا تا کہ معاشرے میں شعور کی بیداری کے لئے کام کیا جا سکے ،آپ کی تحریروں نے جو خواتین میں انتہائی مقبول و معروف ہیں معاشرے کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔1967ء میں آپ نے نجف اشرف ،بغداد اور دیگر مستضعف شیعہ علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے لئے اسکولوں کا جال بچھا دیا تھا تا کہ شیعہ بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے ۔آپ نے سینکڑوں کتابیں تحریر کیں جن میں اکثر فکشنل کہانیاں ہیں جو معاشرے کے مسائل اور ان کے حل پر مشتمل ہیں۔آپ کی ایک معروف نظم ’’میں جانتی ہوں‘‘کو جناب ثاقب اکبر نے منظوم اردو ترجمہ کے قالب میں ڈھالا ہے جو نذر قارئین ہے


میں جانتی ہوں۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ
حق کا رستہ بڑا کٹھن ہے
مگر میں ان خار زار راہوں کو طے کروں گی
یہ وہ سفر ہے
جو ان گلوں سے سجا نہیں ہے
جو اپنی مہکار ندیوں میں بکھیرتے ہیں
مگر مرا تو یہ فیصلہ ہے
چلوں گی کانٹوں پہ خوں بہے گا
راہِ صداقت پہ اک نیا نقش پا بنے گا۔
میں ان شگوفوں کو جانتی ہوں
پیامِ فصل بہار بن کر
مجاہدوں کا وقار بن کر
ہجومِ گل میں رہیں جو تنہا
میں جانتی ہوں کہ
حق کی نصرت وفا کے خوگر سپاہیوں کے لیے رہی ہے
اگرچہ تھوڑے ہوں وہ سپاہی، وفا کے راہی
میں جانتی ہوں کہ
حق ہمیشہ رہا ہے باقی
ہے جو بھی اس کے خلاف،
بے شک اسے تباہی کا سامنا ہے
اسی لیے تو ہے میرا پیماں
کہ میں تو اسلام پر جیوں گی
رہ حقیقت پہ جان دوں گی
مری رگوں میں لہو ہے جب تک
ہر ایک باطل کا، ہر دغاکا
شدید انکار ہی کروں گی
میں جانتی ہوں کہ حق کا رستہ بڑا کٹھن ہے ۔


تحریر۔۔۔۔(سید تصور حسین نقوی الجوادی)

" را" کے ایجنٹ ہیں کون

وحدت نیوز (آرٹیکل) را کے ایجنٹ کی گرفتاری اور سانحہ لاہور اس وقت یہ سارے واقعات انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اور ایک واقعہ دوسرے واقعہ سے جوڑے نظر آتے ہیں ،ان سب باتوں میں جو بات حقیقت ہے دشمنان پاکستان کی سر گرمیاں اور وطن عزیز پاکستان کو کمزور اور بدنام کرنے کی سازش ہے۔

سانحہ اقبال پاک لاہور ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ کہتے تھے کہ پنچاب میں آپریشن کی ضرورت نہیں درحقیقت دہشت گردوں کہ جڑ پنچاب میں موجود ہے جہاں سے ملک بھر میں ان کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔

اس افسوس ناک اور دل خراش سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے معصوم بچوں کے چہرہ اور بکھرے انسانی اعضاء دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ آخر ان نہتے معصوموں نے کیا جرم کیا تھا جس کی ان کو یہ سزا دی گئی ہے؟؟اور یہ درندہ صف انسان نما حیوان کون تھے جنہوں نے اس قیامت کو بر پا کیا؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟

حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ہم سب کی نا اہلی ہے عوام کی نااہلی یہ ہے کہ انہوں نے ایسے حکمرانوں کو منتخب کیا جن کو وطن عزیز کی سالمیت سے زیادہ زاتی مفادات کا خیال ہوتا ہے،عوام نے کبھی سیاسی شعور اور آگاہی سے اپنے نمائندوں کو منتخب نہیں کیا اسی لئے ان منتخب شدہ نمائندوں کو عوام کی جان و مال کی فکر نہیں ہوتی اور تمام تر سیکورٹی انتظامات زاتی مفادات کی خاطر ہوتی ہے۔

جب سے را کا آفیسر پکڑا گیا ہے انگنت انکشافات ہوئے ہیں کہ بلوچستان،کراچی سمیت ملک بھر میں بدامنی پھیلانے اور قتل و غارت گری میں را ملوث ہے،جن کا مقصد وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے، ہمسایہ ممالک سے تعلوقات کو خراب کرنا ، پاکستان کو اندورونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنا اور محب وطن پاکستانیوں کے دلوں میں مایوسی پھیلانا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کو متاثر کیا جا سکے۔اگر ہم حقیقت میں دیکھیں تو دشمنوں کی یہ کوئی پہلی سازش نہیں ہے اور نہ ہی یہ آخری ہے جب سے وطن عزیز پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے پاکستان کے خلاف مختلف سازشیں ہوتی رہی ہے اور دشمن کہ تو ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے پاکستان ایک ایٹمی مسلم ملک دنیا کو برداشت نہیں، عالمی طاقتوں کو خصوصا انڈیا اور عالم اسلام کے دشمنوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کی پاکستان ترقی کرے اور پاور فل ملک بنے، الحمد اللہ پاکستان اس وقت خطے میں ایک پاور فل ملک ہے جغرافیائی طور پر بھی اور دفاعی طور پر بھی اور تمام اسلامی ممالک کو وطن عزیز کی ایٹمی طاقت پر فخر ہے ۔

را کے ایجنٹ کے لئے ضروری نہیں کی وہ انڈیا سے ہی آیا ہو اور اس کی شناختی کارڈ انڈیا کا ہی ہو، ہر وہ شخص یا ادارہ را کا ایجنٹ ہے جس کو پاکستان کی سلامتی کا خیال نہ ہو وطن عزیز سے محب نہ ہو۔ افسوس کہ کچھ عناصر جن کا تعلق کلعدم جماعتوں اور دہشت گرد گروہوں سے ہے ظاہری طور پر وہ مسلمان بھی ہے اور پاکستانی بھی مگر حقیقت میں یہ لوگ را کے ایجنٹ سے زیادہ خطرناک ہے، را کے ایجنٹ تو ہے ہی ازل سے پاکستان کے دشمن مگر را اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والوں سے پاکستان کو زیادہ خطرہ ہے، چاہے وہ سیاسی ہویا مذہبی جس پیٹ فارم پر بھی وطن عزیز پاکستان کی سالمیت اور امن و سلامتی کے خلاف سازش ہوتی ہو وہ را کے ایجنٹ ہے ۔ را کے بھی یہی مقاصد ہوتے ہیں کی پاکستان میں سیاسی،مذہبی ،لسانی ،معاشی اور معاشرتی طور پر افراتفری رہے اور ان دہشت گرد گروہوں کا بھی یہ مقصد ہے کہ پاکستان غیر مستحکم ہوں اور کبھی متحد نہ ہوں۔میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا جس میں تحریر تھا "جو دین وضو کرتے بلا ضرورت پانی بہانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ کسی کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے" حقیقت بھی یہی ہے کہ بم دھماکہ، ٹارگٹ کلنگ ،قتل کا فتوی ان دہشت گردوں کو کس نے دی؟؟ اسلام تو امن و سلامتی کا درس دیتی ہے اسلام تو کبھی کسی بے گناہ کے قتل کا فتوی نہیں دے سکتا،اسلام بچوں،خواتین پر ظلم کا درس تو نہیں دیتا حتاکہ اسلام کسی جانور پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام امن و سلامتی اخوت و بھائی چارگی کا درس دیتا ہے مظلم کی حمایت ظالم سے نفرت کا درس دیتا ہے، تو پھر یہ کون لوگ ہے جو کفر کا فتوی دیتے ہیں اور پُر امن جگہ کو قتل گاہ بنادیتا ہے؟ اخر وہ کون لوگ ہے جو بچوں خواتین بزرگ،نسل، مذہب کی تمیز نہیں کرتے اور سب کو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیتے ہیں، حقیقت میں یہ گروہ اسلام اور پاکستان کے دشمن اور را کے ایجنٹ ہیں، قتل و غارت گری کرنے والا اور اس میں معاونت کرنے والا اور اس واقعہ پر خوش ہونے والا تینوں طبقہ اس ظلم میں شریک ہیں ا ور یہ سب کے سب غیر ملکی ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں،ظاہری طور پر یہ اسلام کے ٹھیکہدار ہیں حقیقت میں ان کو ٹھیکہ اسلام اور پاکستان دشمن عناصر نے دی ہے۔

لاہور سانحہ کے بعد جنرل راحیل شریف کے حکم پر پنجاب میں آپریشن قابل تعریف ہے ان دہشت گردوں کو ان کے سرپرستوں کو ملک کے جس کونے میں بھی ہوں ان کے خلاف آپریشن شروع کرنا چاہے، پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے امید ہے کہ وہ پنچاب آپریشن کے دائرے کو اسلام آباد ، سندھ سمیت ملک کے دوسرے حصوں تک وسیع کریں گے تاکہ جہاں کہی بھی اسلام اور پاکستان دشمن عناصر کے ٹھکانے اور سہولت کار موجود ہوں ان کو ختم کیا جاسکے، زمینی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کاروائی بھی ہونی چاہے اور ان دہشت گردوں کو سیاسی یا مذہبی طور پر پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے تاکہ وطن عزیز پاکستان کی سیاسی فضاء بھی پاک صاف ہوں،اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے درمیان بھی آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ سادہ لوح عوام کو ان دشمنوں کے حربوں کا علم ہو اور وہ ان کے نرغے میں نہ آسکے۔ ہمیں وطن عزیز کے سیکورٹی اداروں پر فخر ہے اور امید بھی ہے کہ وہ وطن عزیز کے دشمنوں کا پردہ چاک کریں گے اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلوبلائزیشن وہ نظام ہے جس كی ابتداء اٹهارويں صدی كے يورپی صنعتی انقلاب كے بعد استعماری دور كے آغاز سے ہوئی۔ يورپ كو ايک طرف تو اپنی فيكٹريوں اور كارخانوں كے لئے خام مال كی ضرورت پيش آئی اور دوسری طرف انہیں اپنی مصنوعات اور پيدوار كی فروخت كيلئے منڈيوں اور صارفين كی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان اہداف كے حصول كيلئے يورپ نے عسكری طاقت كا استعمال كيا اور دنيا كے مختلف ممالک پر قبضہ جما كر انكو اپنی كالونیاں بنانے کا پلان بنایا۔ نيو گلوبلائزيشن ميں امريكہ اور يورپ نے بغير عسكری طاقت كے بين الاقوامی منڈيوں پر قبضہ جمايا اور اپنے اہداف حاصل كئے۔ اس معركے كو انہوں نے تجارت، بين الاقوامی كمپيٹيشن اور ٹيكنالوجی كے پهيلاؤ، ميڈيا، انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن وسائل كی فراہمی كے ذريعہ سر كيا۔ 1991ء كو جب روسی اتحاد كے ٹوٹنے سے مشرقی بلاک كا خاتمہ ہوا اور دنيا پر مغربی بلاک كا غلبہ ہوا، جس كی سربراہی امريكہ كے پاس تهی، امريكہ نے نئے عالمی نظام "نيو ورلڈ آرڈر" كا اعلان كيا اور آئی ايم ايف، عالمی بنک اور عالمی تجارت كی تنظيم وغيره كے ذريعہ دنيا كے وسائل اور مقدرات پر امريكہ مسلط ہو گيا۔

گلوبلائزیشن كے اہداف، مراحل اور اثرات كو بيان كرنے سے پہلے اسكا مختصر تعارف اور مفہوم بيان كرنا ضروری ہے كہ گلوبلائزيشن كيا ہے۔
گلوبلائزيشن كيا ہے؟
اس سے مراد ايک نيا عالمی نظام ہے جو كہ علم و ٹيكنالوجی كی ترقی اور كمیونیکیشن كی دنيا ميں انقلاب اور روابط و اتصالات كے مختلف جديد ترين آلات وسائل كی بنياد پر قائم ہے، تاكہ مختلف اقوام و ممالک كے مابين قائم سرحدوں كو توڑ كر پوری دنيا كو ايک جهوٹے سے گاؤں ميں تبديل كيا جاسكے۔ آج ہم اس اصطلاح "گلوبلائزيشن"  كو بڑے فخر سے استعمال كركے اپنے آپكو تعليم يافتہ اور علمی پيش رفت كے ساتھ چلنے والا ثابت كرتے ہیں اور بهول جاتے ہیں كہ ايسی خوبصورت اصطلاحوں اور رنگ برنگے نعروں اور دعوؤں كے ذریعے ہمارے دشمن كيسے ہمارے ذہنوں كو مسخر كرتے ہیں اور ہميں مرعوب كركے اپنے اہداف كی تكميل كے لئے استعمال كرتے ہیں۔ حقيقت يہ ہے كہ وه هماری سرحديں توڑ كر ہمارے كلچر اور ثقافت پر حملہ آور ہیں۔ يہ ثقافتی يلغار ہے اور ہم حملہ آوروں كے گن گاتے ہیں اور دشمن كا ساتھ دے رہے ہیں۔ وه ہماری فكر و سوچ، عادات و تقاليد اور اعتقادات و نظريات كو اپنی مرضی كے مطابق تبديل كرنا چاہتے ہیں۔

گلوبلائزیشن كے اہداف:
1۔ دنيا كو ايک چھوٹے گاؤں سے تشبيہ دينا اور ايسا بنانے كا بنيادی مقصد امريكی اور مغربی طرز زندگی اور ايمان و عقيده كی ترويج کرنا۔
2۔ جديد آلات و وسائل كی پيش رفت كے ذريعے وه يہ پيغام بهی دے رہے ہیں كہ معيار زندگی كو بلند كرنے كے لئے انكی اتباع ضروری ہے۔
3۔ گلوبلائزيشن كا اقتصادی ہدف يہ ہے کہ دنيا كو ايک منڈی ميں تبديل كر ديا جائے، تاكہ اس پر فقط ايک ہی اقتصادی نظام حاكم ہو، كمزور اور ترقی پذير ممالک کی اقتصاد كو اپنی بڑی بڑی ملٹی نيشنل كمپنيوں كے ذريعے كنٹرول كيا جائے، وسيع پيمانے پر غير ملكی سرمايہ كاری کی جائے اور ان ممالک كے قدرتی ذخائر، گيس پٹرول اور پاور جنريشن كے ديگر وسائل پر قبضہ كيا جاسكے۔
4۔ اسكا ثقافتی ہدف اقوام عالم كی خصوصيات و اقدار كا خاتمہ ہے۔ گلوبلائزيشن كے ذريعے وه مختلف اقوام كی ثقافتی ميراث، عادات و تقاليد، فكر و عقيدہ كو فرسوده و خرافات سے تعبير كرتے ہیں اور مادی وسائل اور طاقت كے استعمال سے اقوام عالم كو اپنا غلام بناتے ہیں۔
5۔ دين و مذہب چونکہ انكے راستے ايک بڑی ركاوٹ بنتے ہیں، اس لئے دينی اقدار اور روح دين كو دينی عبادات و رسومات سے جدا كرنا انكا اہم ہدف ہے۔

گلوبلائزيشن كے مراحل:
كمیونیکیشن اور ميڈيا كے جديد ترين وسائل، انٹرنیٹ، فلم انڈسٹريز وغيره كے ذريعے دنيا كو تسخير كيا جا رہا ہے اور مختلف بين الاقوامی ادارے اور این جی اوز، ملٹی نيشنل كمپنياں مصروف عمل ہیں اور اس نطام كی ترويج كے لئے مختلف مراحل طے كئے گئے، جن میں کچھ یہ ہیں۔
1۔ مادی وسائل، انڈسٹريز اور جنگی اسلحہ وغيره كو پہلے مرحلہ ميں پوری دنيا ميں پھيلايا گيا۔
2۔ ماڈرن كلچر كی ترويج اور اقوام عالم كے رہن سہن كے اصول، انكے لباس و رہائش اور كهانے كے آداب و سليقہ كو دوسرے مرحلے پر تبديل كيا گيا۔
3۔ اخلاقی اقدار، ويليوز، طرز زندگی اور معاشرتی آداب كو تيسرے مرحلہ پر نشانہ بنايا گيا۔
4۔ چوتهے مرحلہ پر نظريات و عقائد اور عبادات كو نشانہ بنايا جاتا ہے، ان پر كڑی تنقيد كی جاتی ہے اور جو ان پر ايمان ركهتا ہے يا عمل كرتا ہے، اس كا مذاق اڑايا جاتا ہے۔

گلوبلائزيشن كے سلبی اثرات:
اس ميں كوئی شک نہیں كہ ميڈيا و كمیونکیشن كے وسائل كی فروانی سے لوگوں كے لئے بہت سہوليات پيدا ہوئی ہیں، فاصلے كم ہوئے اور كاموں ميں آسانياں پیدا ہوئی ہیں، ليكن ان وسائل كے غلط استعمال اور غلط وسائل كی فراوانی اور آسانی سے ان تک رسائی سے بہت سلبی اثرات مرتب ہوئے۔
* سماجی زندگی متاثر ہوئی، معاشرے سے اجتماعی روابط، تعلقات اور رشتے چھین لئے گئے اور اقوام كی قومی اور ثقافتی شناخت ختم ہوگئی۔
* ثروت مند ممالک اور زیادہ ثروت مند ہوگئے اور غريب و فقير ممالک کے فقر و غربت ميں اور ہی اضافہ ہوا۔
* امريکہ نے پوری دنيا کی اقتصاد كو اپنے كنٹرول ميں لے ليا۔
* بے روزگاری اور فقر و فاقہ ميں اضافہ ہوا اور متوسط طبقے كا خاتمہ ہوا۔ امير امير تر اور غريب غريب تر ہوگیا۔
* مختلف ممالک بحرانوں كی زد ميں آئے اور اندر سے كمزور و ناتواں اور كهوكهلے ہوگئے۔
* اخلاقی طور پر گری ہوئی بے مقصد فلموں اور پروگراموں كی ترويج سے جرائم اور فسادات ميں اضافہ ہوا۔
* زندگی كی مجبوريوں كے پيش نظر كمسن ليبرز كے رجحان ميں اضافہ ہوا۔

تحریر۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) صحافت ایک  مقدس مشن ہے۔مشن تقدس کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔تقدس کو بددیانتی ٹھیس پہنچاتی ہے۔آج ہی "اسلام پرستی یا فرقہ پرستی؟" کے عنوان سے ایک کالم میری نظروں سے گزرا۔ پڑھ کر نہایت دکھ ہوا ۔دکھ  اس وجہ سے بھی ہوا کہ لکھنے والے سنئیر صحافی خورشید ندیم تھے۔ میں حیران رہ گیاکہ  اتنے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار صحافی کی ایران کے بارے میں معلومات اتنی  کم ہیں !اور پھر دکھ اس بات کا بھی ہوا کہ موصوف نے اپنی کم علمی کا تدارک کئے بغیر ہی  ایران کے بارے میں اندھا دھند کالم لکھ مارا ہے۔

موصوف نے اپنے کالم میں سب سے پہلے ایرانی صدر حسن روحانی کو تنقید کا نشانہ  بناتے ہوئے کہاہے کہ  ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ " اہل تشیع کے دفاع کے لیے کسی جگہ مداخلت سے گریز نہیں کریں گے"۔

اب اسے موصوف کی کم علمی کہا جائے یا پھر موصوف کو معلومات فراہم کرنے والے گروہ کی شیطانیت ۔حقیقت یہ ہے کہ ایرانی صدر نے یہ بیان شیعوں کے حوالے سے نہیں بلکہ مقامات مقدسہ کے حوالے سے دیاتھا کہ اگر کہیں شام یا عراق میں شیعوں کے مقامات مقدسہ کو خطرہ لاحق ہوا تو  ان مقامات کی حفاظت کے لیے ایران براہ راست میدان میں اترے گا ۔

 یہ صرف ایرانی صدر کی بات نہیں بلکہ دنیا کا ہر مسلمان مقامات مقدسہ کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔بات یہیں تک رہتی تو پھر بھی کوئی بات نہ تھی ،موصوف نے اس کے بعد ایران کے اسلامی انقلاب  کو شیعہ سنی تقسیم کازمہ دار ٹھہرایاہے۔

یہ الزام آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے چونکہ  یہ تو ہر باشعور پاکستانی کو پتہ ہے کہ   انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے گذشتہ پینتیس سالوں میں ایران ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوموں کا حامی رہا ہے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں اور ایران نے ہمیشہ شیعہ سنی وحدت کی بات کی ہے۔

۶ اپریل ۱۹۹۲ ء سے ۱۴ دسمبر تک سربیا اور بوسنیا ہرزیگووینا کے درمیان جنگ میں ایران نے بوسنیا کا بھرپور ساتھ دیا، حالانکہ وہاں کوئی مسلک کی بات نہیں تھی، کیونکہ بوسنیا کے لوگ مسلکی حوالے سے شیعہ نہیں تھے۔ فلسطینی سرزمینوں پر ۱۹۴۸ء سے قابض اسرائیل کے مقابلے میں ایران نے ہمیشہ حماس جیسی حریت پسند تنظیموں کی مالی اور دفاعی مدد کی ہے، حالانکہ فلسطین میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہی ہے اور دوسری جانب انکے اپنے  ہم مسلک عرب حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ان مظالم پر ٹس سے مس نہیں ہو ئے اور انہی عرب حکمرانوں نے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھ کر دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کر دیا ہے اور پاکستان کے حوالے سے تو انکی وطن مخالف پالیسیاں کسی بھی محبِ وطن پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔  پاکستان میں انہی کے اشاروں پر پہلےسنی کو شیعہ سے لڑایا گیا اور اب سنیوں میں بھی رخنہ ڈال کر دیوبندیوں کو بریلویوں سے لڑایا جا رہا ہے۔

موصوف نے یہاں تک لکھا ہے کہ "تہران میں دو میلین سنی بستے ہیں لیکن انہیں مسجد بنانے کی اجازت نہیں" لگتا ہے جناب عصرِ حجر میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ تہران میں سنی دو میلین نہیں بلکہ انکی تعداد انتہائی محدود ہے جو کاروبار کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔  رہی یہ بات کہ انہیں مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے تو انکے اطلاع کے لیے میں کالم کے آخر میں تہران میں سنیوں کے چند اہم مساجد اور مراکز کا اڈریس دیتا ہوں تاکہ دوبارہ ایسے غیر عاقلانہ الزامات لگانے سے پرہیز کریں۔

موصوف کو اس قدر تاریکی میں رکھا گیاہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ایران میں سنیوں کوشیعوں کے مساوی  حقوق حاصل ہیں، یہاں تک کہ ایران کے سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی کمیٹی (شوریٰ خبرگان) میں بھی سنی علماء موجود ہیں اور حال ہی میں عام انتخابات کے ذریعہ سے صوبہ سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنی حنفی مسلک عالم دین مولوی نذیر احمد سلامی اس کمیٹی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں جنہوں نے دینی تعلیم کراچی میں حاصل کی ہے اور ان کا شمار مفتی محمد شفیع کے خاص شاگروں میں ہوتا ہے۔

موصوف نے اپنے کالم میں اصلاح پسند مسلم رہنماؤں کی لمبی فہرست بنائی ہے میں اس کے جواب میں صرف اتنا کہوں گا کہ پہلے آپ لاعلمی اور تعصب کی تاریکی سے نکلیں اور پھر اصلاح پسندی کی بات کریں۔آپ کے پاس تو ابھی تک ایران کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی نہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ محترم خورشید ندیم صاحب دور سے ایران کو نشانہ بنا رہا ہے، اس کی مثال دوسرے سنئیر صحافی جاوید چودھری کی سی ہے جو دو ماہ قبل پاکستانی وزیر اعظم کے ہمراہ وفد میں سعودی عرب سے ایران آئے تھے۔ اس نے پہلے کالم میں ایران کے خلاف لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن تہران میں چند گھنٹوں کی سکو نت کے بعد جب انہوں نے نزدیک سے ایران کو دیکھا تو "تہران، پہلی محبت کی نظر میں" کے عنوان سے الگے کالم میں ایرانیوں کے گن گانے لگا تھا۔

جناب خورشید ندیم! کبھی فرصت ہو تو مطالعے کے لئے کچھ وقت نکالئے اور اگر آپ کے بس میں ہو تو معلومات فراہم کرنے والے لوگوں اور ذرائع کو بدل کر دیکھئے !یقین جانئے دنیا اس سے مختلف ہے جیسی آپ کو دکھائی گئی ہے۔


تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری

وحدت نیوز (آرٹیکل) آسمان فضیلت کی مدحت سرائی  ممکن نہیں۔کس کی کیا مجال ہے  جو بوستان فضیلت کی شاخ درخت پر  بلبل   کی طرح بیٹھ کر آسمان فضیلت پر فائز ہستی کی مدح سرائی کا فریضہ نبھا سکے۔  ساتھ ہی جہاں پر بھی کوئی فضیلت کے عنصر کا مشاہدہ کرے تب وہاں  اپنی بساط کے مطابق اس  صاحب فضیلت کی تعریف و تمجید  کو اپنا  وطیرہ بنا کر اس کی مدح  وستائش میں لگ جانا انسانی وجود کا شروع سے ہی  ایک خاصہ رہا ہے۔

 بسا اوقات وہ  مداح اپنے ممدوح کی فضیلتوں کےبیان کا  حق بھی کافی حد تک  ادا کرتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ممدوح ایک عام انسان ہو نے کے ساتھ ساتھ بعض منفرد خصوصیات کے بھی حامل ہوں لیکن اگر موصوف عالم مادہ میں منحصر نہ ہو بلکہ جسمانی کمالات سے سرشار ہونے کے علاوہ ملکوتی فضائل کے بھی حامل ہوں تب یہ مدح خواں فضیلتوں کی فضا میں معمولی پرواز کے بعد اس کے بیان کا پر گرنا شروع ہوجائے گااور اس فضا میں حیران و سرگردان رہنے کے بعد دوبارہ زمین پر واپس پہنچ جائے گا۔ حضرت زہراؑ کا وجود مبارک بھی اس کا ایک بارز مصداق ہے۔

آپ کا حسب بھی بے مثال ہے اور نسب بھی بے نظیر۔ اگر آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد مصطفی ؐ تمام انبیاء سے افضل ہیں تو  آپ پوری جہاں کی خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کے دو شہزادے جنت  کےجوانوں کے سردار ہیں تو آپ کا شوہر گرامی  ان شہزادوں سے بھی بافضیلت ہیں۔ آپ کےحسب و نسب پر آج بھی ساری دنیا  رشک کرتی ہے۔آپ فضیلت کے وہ بحر بیکراں ہیں جس کی تہ تک چودہ سو سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود  آج تک کوئی  رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ  تحقیقی میدان میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ دن بہ دن آپ کی فضیلتوں  کے نئے دریچے کھلتے چلے جارہے ہیں۔ آپ وہ بافضیلت خاتون ہیں جس کی سیرت پوری بشریت کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ درس دیا کہ کس طرح  عبادت الٰہی بجا لانا ہے، کیسے والد کے گھر میں زندگی گزارنا ہے، امور شوہر داری کو کیسے  بطریق احسن نبھانا ہے، بچوں کی تربیت کس پیرائے میں انجام دینا ہے، کیسے مشکلات سے نمٹنا ہے، کیسے راز داری کی رعایت کرنا ہے، کیسے نامحرموں سے اپنے کو دور رکھنا ہے، کیسے  حیا و عفت کا مظاہرہ کرنا ہے، کیسے غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور بے نواؤں کی مدد کرنا ہے۔غرض آپ تمام اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ ہونے کے علاوہ تمام آلائشوں سے پاک و پاکیزہ عصمت کے مقام پر فائز تھیں۔ لہذاآپ کی زندگی کا ہر گوشہ ہر انسان کے لیے ایک بہترین اور مثالی  نمونہ عمل ہے۔

آپ کی  عظمت کے اظہارلیے یہی کافی ہے کہ آپ کی شان و منزلت میں نہ صرف شیعوں اور دوسرے مسلمانوں نے کتابیں لکھی ہیں بلکہ مسیحی اور دوسرے غیر مسلم دانشوروں نے بھی اپنی توانائی کے مطابق قلم فرسائی کی ہیں۔اپنی گزشتہ تحریر میں غیر مسلم دانشوروں کی عقیدت کے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی آج ہم بالترتیب بعض اہل سنت علماء کے اظہار عقیدت کو الفاظ کے روپ میں اتارنے  کی کوشش کرتے ہیں:

1.     روایات کی نقل میں بہت ہی احتیاط برتنے کے باوجود معروف  اہل سنت محدث بخاری نے  صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔  ساتھ ہی یہ بھی نقل کیا کہ آپ ؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔﴿۱﴾

2.     مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا اس نے اپنے پیغمبر کو ناراض کیا اور جس نے ان کو خوش رکھا اس نے اپنے پیغمبر کو خوش رکھا ہے۔﴿۲﴾

3.     حاکم نیشاپوری مستدرک میں حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں  کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا: میری بیٹی!کیا آپ امت اسلامی اور پوری دنیا کے خواتین  کی شہزادی  بننا پسند نہیں کرتیں۔﴿۳﴾

4.     فاطمہ زہرا ؑ عبدالحمید معتزلی کی نگاہ میں:

رسول خداؐ فاطمہؑ کا لوگوں کی توقع  سے زیادہ اور  غیرمعمولی  احترام کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کی محبت سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بارہا عمومی اور خصوصی محفلوں میں آپ ؐ نے  فرمایا: یہ دنیا کی تمام خواتین کی سردار اور عمران کی دختر گرامی مریم کی مانند ہیں۔ قیامت کے دن "موقف" سے گزرتے وقت منادی عرش سے ندا دے گاکہ اے محشر والو! اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا کیونکہ محمدؐ کی دختر گرامی یہاں سے گزر رہی ہیں۔

جب زمین پر رسول اکرمؐ فاطمہؑ کو  حضرت علیؑ کے عقد میں دے رہے تھے  تو اس وقت خداوندعالم نے آسمان پر فرشتوں کو گواہ بنا کر انہیں علیؑ کے عقد میں دیا۔

یہ کوئی  من گھڑت احادیث میں سے نہیں  بلکہ معتبر حدیث ہےکہ پیغمبر اکرم ؐ نے بارہا فرمایا: جس نے انھیں  اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے انھیں  ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔ وہ میرے  وجود کا حصہ ہے۔ جو  ان کے﴿عظمت﴾ بارے میں شک کرے اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جس نے ان کا حق چھینا اس نے مجھے بے چین کردیا ہے۔ ﴿۴ ﴾

5.      فخر رازی :معروف مفسر فخر رازی  سورہ کوثر  کی تفسیر کے ذیل میں مختلف صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد ایک صورت  یہ بیان کرتے ہیں کہ کوثر سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے: اس آیت کی شان نزول دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو  طعنہ دینا ہے۔دشمنوں کا کہنا تھا:محمدابتر ﴿ مقطوع النسل یعنی اپنے بعد بچے وغیرہ کا  نہ چھوڑنے والا﴾ہیں۔ اس آیت کا ہدف یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضورؐ کی نسل میں اتنی برکت عطا کی ہےکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ان کی نسل بڑھتی رہی۔ دیکھئے کہ کتنی بڑی تعدادمیں خاندان اہل بیت ؑ سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیالیکن اس کے باوجود دنیا پیغمبرؐ کی اولاد سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ بنو امیہ تعداد میں کثرت میں ہونے کے باوجود بھی  ان کا کوئی ایک معتبر شخص موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد پر نظر دوڑائیں تو ان کی اولاد علماء  اور دانشوروں سے پر ہیں۔باقر، صادق، کاظم، رضا۔۔۔۔ جیسے افراد خاندان رسالت سے باقی ہیں۔ ﴿۵ ﴾

6.     سیوطی:  ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات کی خواتین میں سے  سب سے افضل مریم ؑ و فاطمہؑ ہیں۔

7.     آلوسی: اس حدیث کی رو سے کہ "بیشک فاطمہ بتول گزشتہ اور آنے والی تمام خواتین سے افضل ہیں" کائنات کی تمام خواتین پر ان کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ رسول خداؐ کی روح رواں ہیں اس حوالے سے آپ کو عائشہ پر بھی برتری حاصل ہے۔

8.     سہیلی: موصوف اس مشہور حدیث کو نقل کرنے کے بعد " فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے" اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے: میں کسی کو بھی بضعة رسول اللہ کی مانند نہیں سمجھتا ہوں۔

9.     ابن الجکنی: صحیح ترین قول کی بنا پر فاطمہ ؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

10.  شنقیطی: بیشک حضرت زہراؑ کی سروری اسلام کی ایک واضح و روشن حقیقت ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ زہراؑ پیغمبر اکرمؐ کے وجود کا حصہ ہیں۔ جس نے زہراؑ کو اذیت دی اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اذیت دی ہے اور جس نے زہراؑ کو ناراض کیا اس نے پیغمبرؐ کو ناراض کیا ہے۔

11.  توفیق ابو علم: ان کی عظمت اور بلند ی  کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ ہی پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی ،علی کرم اللہ وجہہ کی باشرف شریک حیات اور حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی ہیں۔ زہرا ؑوہ باعظمت ہستی  ہیں جس کی طرف کروڑوں عقیدت مند اپنی  عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔زہراؑ آسمان نبوت پر ساطع ہونے والا شہاب ثاقب اور آسمان رسالت پر چمکنے  والا روشن ستارہ ہیں۔ آخری تعبیر آپ کے لیے میں یہی استعمال کروں گا کہ خلقت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ  آپ ہی کو نصیب ہوا ہے۔یہ ساری تعبیریں حضرت زہراؑ کی فضیلت کی دنیا کا صرف ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ ﴿۶﴾

12.  زرقانی: جس حقیقت کو امام مقریزی، قطب الخضیری اور امام سیوطی نے واضح دلیلوں کے ذریعے انتخاب کیا ہے اس کے مطابق فاطمہؑ  کائنات کی تمام خواتین بشمول حضرت مریم  سے  افضل ہیں۔

13.  سفارینی:  لفظ سیادت کے ذریعے فاطمہؑ کا خدیجہ اور مریم سے بھی  افضل ہونا ثابت ہے۔

14.  شیخ رفاعی: بہت سارے قدیم علماء اور دنیا کے دانشوروں کی تصدیق کے مطابق فاطمہؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

15.  ڈاکٹر محمد طاہر القادری: بعض احادیث سے چار خواتین کی افضلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔البتہ یہ احادیث سرور جہان﴿حضرت فاطمہ ؑ﴾ کی تمام  خواتین پر افضلیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ بقیہ تین خواتین﴿ مریم، آسیہ اور خدیجہ﴾ کی افضلیت اپنے اپنے زمانے سے مختص ہے جبکہ سرور جہاں کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور ان کی افضلیت ہر زمانے اور پوری دنیا  کے خواتین پر ثابت ہے۔ ﴿۷﴾

ان تمام علماء کے آراء کو جمع کرنے پر ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ گزشتہ اور موجودہ تمام علماء اور دانشوروں کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ  حضرت فاطمہ زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کی خوشنودی  مول لینا رسول اکرمؐ کی خوشنودی مول لینے کے مترادف  ہے اور رسول ؐکی رضامندی خدا   کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی عبادت ہے۔ پس حضرت زہرا ؑ سے عقیدت کا پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اظہار بھی عبادت ہے۔ اسی  طرح آپ کو ناراض کرنا رسولؐ کو ناراض کرنے کی مانند ہے اور جو رسولؐ کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے۔ جو خدا کی ناراضگی مول لے  اس کی جگہ جہنم ہے پس حضرت زہراؑ کو ناراض کرنے والا اور آپ کو اذیت دینے والا دونوں بھی  جہنمی ہیں۔آج اگر ہماری خواتین سیدہ کونین سے درس لیں تو حسنؑ و حسینؑ  کی سیرت پر چلنے والے بچوں اور زینبؑ و ام کلثومؑ کا کردار پیش کرنے والی بیٹیوں کی تربیت کرسکتی ہیں۔جہاں رسول اکرم(ص) پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں وہاں حضرت فاطمہؑ پوری بشریت کے لیے بالعموم اور صنف نسوان کے لیے بالخصوص نمونہ عمل ہیں۔جہاں پیغمبراکرم (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں وہاں حضرت زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل وبرتر ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حضرت زہراؑ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے آمین ثم آمین!

 

تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی


حوالہ جات:

۱:  صحیح بخاری، ص۶۸۴، حدیث ۳۷۶۷

۲: صحیح مسلم، ص ۱۲۱۸، حدیث۶۲۰۲

۳: حاکم نیشاپوری، مستدرک صحیحین، ص۹۴۶

۴: عبدالمجید  ابن ابی الحدیدمعتزلی، شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۱۹۳

۵: تفسیر فخررازی، ج۳۲،ص۱۲۴

مذکورہ بالا حوالوں کو مکاتب علی نے اپنی تحقیق منزلت حضرت زہرا در احادیث کے ص۱۴۵۔ ۱۵۶میں نقل کیا ہے۔

۶: محمد یعقوب بشوی،شخصیت حضرت زہرا در تفاسیر اہل سنت، ص۱۹

۷: www. Ahlibeyt.pwrsemani.ir                                       

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree