وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کا ارشاد پاک ہے: قل انمااعظکم بواحدۃ ان تکون للہ مثنیٰ و فرادیٰ
خداوند تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہمارا قیام اللہ کے لئے ہونا چاہئے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام انبیاء اور اولیاء کا قیام اللہ کے لئے تھا اور یہی چیز مکتب تشیع میں مبارزہ اور جدوجہد کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے۔مقصد کے حصول کے لئے نیت اور عمل میں خلوص اور پاکیزگی کے ساتھ بصیرت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے تا کہ حق اور باطل کے درمیان فرق واضح کیا جا سکے۔آج اگر ہمارے معاشرے اور سوسائٹی اسی طرح ہمارے ممالک غیروں کے اختیار میں چلے گئے ہیں، ہمارا استقلال ختم ہو چکا ہے،ہماری سالمیت نہیں رہی، آزادی ختم ہوئی ہے، عالمی طاقتوں کا نفوذ بڑھ چکا ہے اور ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری جدوجہد میں خلوص کا نہ ہونااور بصیرت کا فقدان ہے۔اس کے لئے ہمیں اپنی تربیت پر توجہ دینے کے ساتھ اپنی مبارزاتی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہےکہ ہم نے کہاں سے سفر کا آغاز کیا او ر اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ حکومت کی باگ ڈور طول تاریخ میں اکثر مکتب خلافت کے ہاتھ میں رہی۔ جتنی بھی فتوحات جہان اسلام میں ہوئیں تقریباًساری کی ساری مکتب خلافت کے دور میں ہوئیںاور مسلمان ایک بہت بڑی طاقت میں تھے ۔مکتب امامت کا نقش اور رول اپوزیشن کا تھا جو کہ مکتب امامت کے لئے نہایت مشکل دور تھا۔ہمیں اس مسئلے کوایک حدتک بیان کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے مسلمانوں کی طاقت، اسلام دشمنوں کے مقابلے میں کمزور ہوجائے یا ختم ہوجائے۔یہی چیز مکتب امامت کی روح کو تشکیل دیتی ہے جس کا صحیح معنوں میں ادراک کر کے عملی جامہ پہنانا بہت مشکل کام ہے۔مکتب تشیع کے اجتماعی مبارزات کی بنیاد سیدہ کونین سلام اللہ علیہانے رکھی ہے۔
اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مکتب امامت میں خیانت نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے اسی لئے پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیںہم نے کبھی مسلمانوں کے ساتھ خیانت نہیں کی  باوجود اس کے کہ ہمیں بے دردی سے مارا گیا، ہمارے گھروںکولوٹا گیا،ہمیں دیواروں میں زندہ چنوا دیاگیا، زندان کی تاریک کوٹھڑیوں میںبند رکھا گیا اور وہی سے ہمارے جنازے نکلے، تاریخی ہجرت اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ۔کون سا ظلم اور تشدد تھا جو مسلمان حکمرانوں نے ہم پر روا نہیں رکھاہو۔اس کے باوجود کہیں بھی ہماری طرف سے خیانت نظرنہیں آئی ۔ دشمن کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ جائے اور مسلمان دشمن قوتوں کے مقابلے میں کمزور اور ضعیف رہیں لیکن مکتب امامت نے بصیرت کے ساتھ دشمن کی اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔ تاریخ کو اگر خلاصہ کے طور پر پیش کریں تو یہی چیز آپ کو نظر آئے گی جس میں  مظلومیت کی داستان بھی ہے ،استقامت بھی ہے،صبر بھی ہے،برداشت اور بردباری بھی ہے،تمام کے تمام اعلیٰ ترین قدریں اور فضیلتیں مکتب امامت کے پروانوں میں نظرآتی ہیں۔ہماری تاریخ مشکل اور کٹھن ادوارسے گزر کریہاں تک پہنچی ہے۔
اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جنرل ضیاالحق کے زمانے سے ریاست نے ہمیں کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، لیکن ہم نے کبھی بھی ریاستی دشمنوںکے تحفظات نہیں منوائے،کسی پاکستان دشمن قوت کے ساتھ اپنے رشتے استوار نہیں کیے ۔یہ ہماری تاریخ ہے ہم نےکبھی فوج کونہیں مارا ،پولیس کو نہیں مارا، ریاست کو کمزور نہیں کیا ۔ریاست کوانہی لوگوں نےکمزورکیا جن کو ریاست نے پالا تھا۔پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو خیانت دوسروں کی طرف سے نظر آئے گی ہماری طرف سے نہیں۔مسلمانوں کی سرحدیں یورپ کے قلب  تک جا پہنچی تھیں چنانچہ آپ دیکھتے ہیں تقریباً1492ءمیںا سپین مسلمانو ں کے ہاتھوںسے نکل گیا۔بہانااور عذرپیش کیا گیا تھاکہ اسپین اسلام کے مرکز سے بہت دور تھاجس کی وجہ سے ہم اپنا دفاع نہیں کرسکتے تھے لہٰذااسپین سے ہاتھ دھونا پڑا۔تقریباً400یا 600 سال عثمانی خلافت رہی جس میں مسلمان ایک بڑی طاقت بن کر دنیا کے نقشے میں ظاہر ہوئے تھے۔اسلام دشمن قوتوں نے اس کوبھی توڑنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں خانہ کعبہ ہاتھ سے نکل گیا۔عالمی اور استعماری قوتیں برطانیہ ،اسپین ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک بھی اس مہم میں ساتھ شامل ہوگئے۔چھینتے چھینتےنوبت یہاں تک پہنچی کہ  1967میںمسلمانوں کو فلسطین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔وہ فلسطین جو مسلمانوں کا قلب شمار ہوتا تھا، جس میں قبلہ اول تھا۔ مسلمانوں کے پاس اس کے بارے میں کیا بہانااور عزر ہے کہ فلسطین کیوں چھینا گیا؟فلسطین کا چھینا جانا اس بات کی دلیل تھی کی مسلمانوں کی طاقت صفر ہوگئی ہے۔قبلہ اول چھیننے سے پہلے عالمی استعماری قوتوں نے عثمانی خلافت سے مکہ اور مدینہ چھینا  یوں 1967ءمیں مسلمانوں کے اقتدار اور قدرت کا سورج غروب ہوگیا اور مسلمانوں کی طاقت ختم ہو گئی۔
1979ءمیں شیعہ مرجعیت کے ہاتھوں انہی قوتوں کے خلاف جنہوں نے مسلمانوں سےان کی طاقت چھینی تھی ایران میںانقلاب آتا ہے۔ یہ انقلاب در حقیقت اسلام کو اس کا کھویا ہوا وقار اور تشخص لوٹانے کے لئے تھا۔ لہٰذا یران میں شیعہ مرجعیت انہی قوتوں کے خلاف انقلاب لاتی ہے جنہوں نے مسلمانوں کی طاقت چھین کر انہیں ذلیل و  رسوا کردیاتھا۔ ایک مرجع اور ایک فقیہ اسرائیل کے سفارت خانے کو بند کرتا ہے اور وہاںپرفلسطین کا سفارت خانہ کھول دیتا ہے جنہوں نے قبلہ اول چھینا تھا ۔غاصبوں کا سفارت خانہ بند کر کے مظلوموں کا سفاتخانہ کھول دیتا ہے۔مسلمانوں کے دوبارہ طاقتور بنانے کی تحریک کا پرچم ان کے ہاتھ میں آتا ہے جنہیں 1400سال کچلاگیا،ان کو مارنے والے باہر سے نہیں آتے تھے بلکہ اندرسے پیدا کئے جاتے تھے۔حجاج ابن یوسف کوئی عیسائی یا یہودی نہیں تھا اس کی ظلم بھری داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ہم تاریخ میں ہمیشہ دین، مکتب ، مظلوموںاور مسلمانوں کے وفادار رہے ہیں ۔اسلامی انقلاب ایران کے بعد مسلمانوں کو طاقتوربنانے کی نشات ثانیہ شروع ہوئی۔نئے سرے سے مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے اور ان قوتوں سےطاقت چھین لینی ہےجنہوں نے مسلمانوں سے طاقت کو چھیناتھا۔اس وقت مسلمانوں کوطاقتوربنانے کی تحریک کاپرچم شیعہ مرجیعت اور فقہاء کے ہاتھ میں ہے۔ پوری دنیا کی مقتدر قوتیں جنہوں نے مسلمانوں کی طاقت توڑنے میں نقش اور رول پلے کیا تھا مل کر مقابلہ کرتی ہیںکہ کسی طرح اس آواز کو کچل دیا جائے۔ لہٰذا ہر طرف سے حملہ آور ہوتیں ہیں۔  8سال جنگ مسلط کی جاتی ہے ۔جہاںکہیں سےبھی اس تحریک کا آغاز ہوتا ہے اسے وہی پر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بندے مارے جاتے ہیں،72،72شہید کئے جاتے ہیں، وزیر اعظم ، صدر اور وزراء بم دھماکے میں مارے جاتے ہیں،شخصیات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔خودکش حملے شروع کئے جاتے ہیں، اندر سے بغاوتیں شروع کرائیں جاتیں ہیں،  بیرونی حملے شروع کروا دیئے جاتے ہیں، عالمی سطح پہ پابندیا ں لگا دیں جاتیں ہیں، پوری دنیا روس ،آمریکہ اور دیگر استعماری طاقتیں مل کر مقابلے میں آجاتیں ہیں کہ کسی طرح سے اس تحریک اور اس سے مربوط افرادکچل دئے جائیںاور اس آواز کو دبا دیا جائے ۔یہ وہ  تحریک تھی جس کا ہمارے پاس 1400سال کا تجربہ تھا۔ہمارے پاس 1400سال کا شعور اور بصیرت تھی،  ہمارے پاس 1400سال کی عقلانیت تھی ۔ جب ہم نے اس مومنٹ کا آغاز کیا، اندرونی طور پر شیعہ سنی اختلاف شروع کرائے۔ہم بلا تفریق شیعہ و سنی،مسلمانوں کوطاقتور بنانا چاہتے ہیں۔ابتداء سے سامراج کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جنہیںہم طاقتوربنانا چاہتے ہیں انہی کو ہمارے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔اس طرح ہماری تکفیر شروع ہوئی۔کفر کے فتوے شروع کروائے گئے۔یہ کام انہی قوتوںنےکیا جنہوں نے مسلمانوں سےان کی طاقت اور قدرت چھینی تھی۔اب ہم دوبارہ مسلمانو ں سے کھوئی ہوئی قوت چھین کر مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔لہٰذااندرونی وبیرونی مختلف قسم کےحملے شروع ہوئے۔دنیا کی سپر طاقتیں صدام کو سپر بنا کر میدان میں اتریں تھیں آٹھ سال تک ان سے جنگ لڑنا کوئی آسان کام  نہیں تھا ۔ہم نے اس راہ میں لاکھوں شہید اور زخمی دئے۔جب لاکھوںکی تعداد میں شہید اور زخمی ہیں تواس کا مطلب ہے لاکھوں گھراس راستے میں قربان اورفدا ہوئے ہیں ۔اس جنگ کو وطن عزیزپاکستا ن میںبھی لایا گیا اور ہمیں یہاں بھی خون دینا پڑا اور اب تک دیتے آرہے ہیں۔ ہم نےیہاں بھی استقامت دیکھائی اور مقاومت کی۔ شیعو ں کے اندر بھی اختلاف اور مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اندر سے انہیں تقسیم کر دیا جائے،ہم آپس میں الجھ جائیںاور شیعوں کے اندر سے ایسی گفتگوئیں کرائیں جائیں کہ جس کی وجہ سے انہیںکافر کہنا اور لوگوں کو دھوکہ دینا آسان ہوجائے۔اس مقصد کے لئے منبر کا سہارا لیا گیا اورایسے لوگ ہمارے اندرپروان چڑھائے گئےتاکہ انہیںاپنے مزموم عزائم پرآسانی سے کامیاب ہونے کا موقع فراہم ہو سکے۔
 خمینی ؒبت شکن کی بصیرت، استقامت ، ارادے کی مظبوطی ،  صبر اور حوصلے کو سلام کہنا چاہیے۔عالمی قوتوں کے مقابلے میں اٹھا اوران کا دبائو برداشت کرتا رہا۔لوگ اس کے ساتھ کھڑے رہے۔میں نہیں کہتا سارے ایرانی کھڑے ہوئے بلکہ جو مخلصین تھے وہ کھڑے ہوئے۔ایران عراق جنگ میں شہید ہونے والے ایرانیوںمیں 72فیصد کی عمریں 14سے 24 سال کے درمیان ہیں ۔بالکل نوجوان بچے سا تھ کھڑے ہوئے۔ رہبر انقلاب جب ایران کے صدر بنےتو ان کی عمر 41سال تھی اورجب امام خمینی ؒ کے ساتھ ملے تو اس وقت نوجوان لڑکے تھے۔ روایت ہے کہ ایک صحابی  بصرہ میں امام ؑ کے پاس گیااور گفتگو سے پتہ چلتا ہےکہ امام ؑ کا مبلغ بھی ہے۔امام ؑ نے اس سے پوچھا کہ بصرہ کے لوگوں کا ہماری امامت اور ہمارے بارے میں کیا تجزیہ ہے؟کتنی تبلیغ کررہے ہو؟کیا صورت حال ہے؟صحابی سے جواب دریافت کرنے کے بعدامام ؑ نے فرمایا کہ بوڑھوںکو چھوڑ دو اور جوانوں کی طرف توجہ کروکیونکہ جوان ہر نیک کام کی طر ف تیزی سے بڑھتے ہیں۔سب سے پہلے امام رضوان اللہ تعالیٰ کے ساتھ لبنان کھڑا ہوا؟ پاکستان کی سرزمین پرشہید عارف حسین الحسینی نے اس  تحریک کا پرچم اپنے ہاتھ میں لیا۔شروع شروع میں ہم  لبنانیوں سے طاقتور تھے۔لبنانی اس وقت بہت کمزورتھے۔لبنان کے شیعہ نےتسلسل رکھا آہستہ آہستہ اتنے طاقتور ہو گئےکہ وہ اسرائیل جوپوری دنیا میںشر شیطان کا مرکز اور محور تھااس کے آگے بند باندھ دیا،اسکی فتوحات کا راستہ روک دیا۔وہ اسرائیل جوخانہ کعبہ اور قبلہ اول پر قبضہ کرنے کے بعدمسلمان ممالک اور ان کی علامتوں اور زمینوںپر قبضہ کرنے کےلیےآگے بڑھنا چاہتا تھااوربڑھ رہا تھا۔اس کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم ہم نے توڑا۔فلسطین کے اندریاسر عرفات کی جو مومنٹ نیشنلزم کی بنیاد پرتھی جو نہیںچل پا رہی تھی اور اسرائیل کا مقابلہ نہیںکر سکتی تھی ۔اس کے نام پر جہا داسلامی اور حماس بنیں۔ہم نے ان کی مدد کی اور ہم سے انہیں حوصلہ ملا۔اگر ہم 35روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست نہ دیتےتو غزہ کےفلسطینیوں کو حوصلہ نہ ملتا کہ اسرائیل کو شکست بھی دی جاسکتی ہے۔یہ مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانے کی تحریک تھی۔فلسطین میں شیعہ نہیں ہیں اہلسنت ہیں۔ہم مخلص ہیںمسلمانوں کے لیےہمارا دل دھڑکتا ہے۔ ہمارے سامنے بڑے بڑے چلینجز کھڑے کیےگئے،ہمیںدہشتگردی میں الجھایا گیا اور تقسیم کرنے کوشش کی گئی۔ جب ہم نے ان قوتوں سے مسلمانوں کے اقتدارکوچھیننا شروع کیا جو غاصب تھیں اورجنہوں نے مسلمانوں کو کمزورکیا تھا ہمارے خلاف سازشیںشروع کرائی گئی۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہے ہیں۔ساتھ ہی شیعہ سنی اتحاد کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اگر شیعہ سنی متحد ہوجائے،اسلام دشمن قوتوں سے اپنا کھویا ہوا وقار اور اقتدارچھینا جا سکتا ہے۔دشمن طاقتوں نےوحدت کے مقابلے میں تفرقہ اور تکفیر شروع کی اور جب تفرقہ اور تکفیرکارگاہ ثابت نہ ہوئی تو پھر دہشتگردی شروع کروائی ۔پوری دنیا میں القاعدہ بنا دی گئی، طالبان ،داعش،لشکر جھنگوی اور سپا ہ صحابہ اور۔۔۔ بنایا گیا۔اسلام دشمن طاقتوں نے ہمارے خلاف اتنی وسیع سرمایہ گزاری کی۔ہمارے اندر سے خائن تلاش کیے اوران کو مسلح کیا اور ہمارے سامنے لاکے کھڑا کیا۔مکتب تشیع گزشتہ 1400سال کی تاریخ میں اس وقت تاریخ کے بہترین دورسے گزر رہا ہے۔یہ دور مشکل ہےلیکن بہترین بھی ہے۔ ہم نہ ہوتے تو اس وقت جہان اسلام پر اسرائیل اور امریکہ کا قبضہ ہوتا۔قبلہ اول کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ اور مدینہ بھی یہودیوں کے ہاتھ میں ہوتا۔یہ تحریک چل رہی ہےجس کا ہم حصہ ہیں، جس میں تشیع آگے ہے ۔یمن میں تکفیریت اور دہشتگردوںکے مقابلے میں کون کھڑا ہے؟یمن میں ہم اس  تحریک کو لیڈ کر رہیں ہیں۔عراق کے اندر داعش اسی لیے لائی گئ ہے تاکہ ہماری طاقت کوتوڑا جائے۔ ہماری اس جدوجہد کےنتیجہ میں رزسٹنس کاجو بلاک وجود میں آیا ہے جس میںایران ،شام ، لبنان اور بعض دیگر ممالک ہیںاس میںشام کو اسی لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نہیں تھا۔90ملکوں کے دہشتگردبشارالاسد کے ہاتھوں شکست کھا گئے ۔انہوں نے لبنان میں مار کھائی، عراق میںبھی مار کھا رہے ہیں۔ یہ لوگ عراق میں داعش کو لے کے آئے لیکن الحمداللہ آج داعش کے غبارے سےدن بدن ہوا نکل رہی ہے ۔ ان کوایسی مار پڑ رہی ہےکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے تکفیریت کوہمارے مقابلے میں تیا ر کیا تھا لیکن خداوند متعال نے ایک قانون بنایا ہے کہ جوکسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔یہ تکفیریت اب ان کے گلے میں پڑی ہوئی ہے۔یہ تکفیریت کے گڑھے میں خود گریں گے۔ یہ اللہ کا قانون ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ لوگ اس میں نہ گریں۔آپ دیکھیںگے سعودی عرب تکفیریت کے اس گڑھے میںگرے گا،اردن گرے گااور جو بھی اس کے حامی ہیں وہ سب اس میں گریں گے۔پاکستانی تکفیریت ہمارےخلاف تیا ر کی گئ تھی جنہوں نے اسے تیا ر کی تھی اب انہی کے گلے پڑی ہوئی ہے۔اب وہ تکفیریت، داعش اور القاعدہ کی صورت میں سعودی عرب کے گلے پڑی ہوئی ہے،اردن کے گلے پڑی ہوئی ہے۔انشاءاللہ ان سب کے گلے پڑے گی جن کا کسی طرح اس کے بنانے میں ہاتھ تھا۔انہوں نے داعش کا گڑھا ہمارے لیے کھودا تھا انشاءاللہ وہ خود اس میں گریں گے۔ہم تو مردوں کی طرح مقابلہ کرلیں گے۔ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا، عراق میں وحدت پیدا ہوئی، پولیٹیکل یونٹی پیدا ہوئی۔ وہ کام جو صدام کے بعد انہیں کرنے چاہیے تھے،نہیں کیئےاب انہوں نے کر لیئے۔تمام صدام کے حامیوںکوفوج سے نکالا،سکیورٹی ایجنسی سے نکالا،انہیں جیلوں میں ڈالا،انہیں گرفتا ر کیا۔وہاں پرعوامی فوج تیا ر کی گئی جیسے ایران میں انقلاب کے بعد تیار کی گئی تھی جس نے صدام کا مقابلہ کیا تھا۔آج وہاں پر جیش شعبی کے نام سے عوامی فوج تیار ہے جو دہشتگردوںسے لڑنے اوروطن کا دفاع کرنے کے لئے ہے۔ یہ فوج شام تک جاچکی ہے۔ دولاکھ کے قریب شام میںعوامی فوج تیار ہوئی ہے۔یہ رزسٹنس کی بنا پر گزشتہ 35سالوں میں ثابت کیا ہے۔جس مشکل میں بھی ڈالا گیا ہے جب اس مشکل سے باہر نکلاتوطاقتور ہو کر نکلا ہے۔ ایران 8سال حالت جنگ میں رہا لیکن 8سال جنگ کے بعد ایران اب اتنا طاقتور ہوگیا ہےکہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرسکتا۔حزب اللہ کواسرائیل کے ساتھ لڑنا پڑا ۔اس مشکل سے اتنی طاقتور ہو کر باہر نکلی کہ آج اسرائیل میںجرأت نہیں ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے۔شام بھی ایسے ہی بنتا چلا جارہا ہے۔عراق اور یمن میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ آج الحمداللہ یمن کے شیعہ اتنے طاقتور ہیںاگر چاہیں تو ایک ہفتہ میں سعودی عرب کی نجدیت کی حکومت گرا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ یمن کے شیعہ اتنے زبردست ہیں  ان کا ایک مجاہد حزب اللہ کے چھ مجاہدوں کے برابر ہے۔اس وقت پوری دنیا میں القاعدہ اور تکفیری عناصر اور ان کے حامیوں سے عملی میدان میںہم مقابلہ کر رہے ہیں۔یہ ہمارے لئےایک سنہری دور ہے جس میں ہمارا ایک مؤثر سیاسی کردار ہے۔ہم نے ہر حال میں مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے۔امریکہ نےپاکستان، لبیا اور مصر کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیاہے؟ ان تکفیریوں کے ذریعےان ممالک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے ۔رزسٹنس بلاک کی وجہ سے دنیا بدل رہی ہے،امریکہ اب پہلے والا امریکہ نہیں  رہا۔کسی بھی ملک کے طاقت کے چار ستون ہوتے ہیں۔اس ملک کی طاقت کے لئےیہ چار ستون بہت اہم ہوتےہیں ۔ ایک عسکری طاقت، دوسری معاشی طاقت، تیسرا اقوام عالم میں نفوز جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا طاقتور ہوتا ہےاور چوتھااس کے اپنے سسٹم کے اوپر عوام کا اعتماد۔یہ چار اہم ستون ہوتے ہیںکسی بھی ملک کی طاقت کے۔امریکہ کی اب پہلے والی طاقت نہیں رہی۔کوئی اس سے ڈرتا ہی نہیںہے، کسی کو اس سےپرواہ ہی نہیں ہے ۔امریکہ کہتا ہے کہ میں 60 ملکوں کا نائب بن کر عراق میں داعش کے خلاف آیاہوں لیکن نہ تو کوئی امریکہ سے ڈر رہا ہے اور نہ ہی اب اس کی فوجی طاقت کا روپ اور دبدبہ رہا۔معاشی طاقت میں امریکہ دنیا کا مقروض ترین ملک ہے وہاں پر باقاعدہ معاشی مشکلات بہت حد تک و سیع پیمانے پر چلی گئیں ہیں۔اقوام عالم میں کھوکھلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ دنیا کے اقوام کے اندر منفور ترین ملک ہے۔ اگر لوگوں کاان کے اپنے سسٹم پراعتماد ہوتاتو وہاں لوگ سڑکوںپر مظاہرہ کرتے نظر نہیںآتے ۔امریکی لوگوں کااپنے سسٹم پر اعتماد ختم ہوگیاہے۔ وہاں آئے دن نژاد پرستی کی بنیاد پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔ جو حشر روس کا ہوا وہی یورپ اور امریکہ کا بھی ہوگا۔کیا ممکن ہے کہ یہ لوگ دنیا کےمختلف ممالک میںظلم کریں گے، قتل وغارت گری کروائیں گے،خیانتیں کروائیں گے،انہیں پریشان کریں گے،ان کو لوٹیں گے اورپھر ان کو دنیا میں سزا نہیں ملے گی۔ اگر روس ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ کیوں نہیں ٹوٹ سکتا؟یورپ کیوں نہیں ٹوٹ سکتا؟۔نئی طاقتیں دنیا میں ابھر رہیں ہیں ۔ رزسٹنس کابلاک جوایران ،عراق،شام، لبنان اورفلسطین تک پھیلا ہوا تھااس کا دائرہ مزید وسیع اور طاقتور ہوگا۔ اس بلاک کو طاقتور ہم نے بنایا ہے۔ فلیسطینوں کی اسرائیل سے 50یا 55روزہ لڑائی ہوئی ہے،غزہ چاروں طرف سے محاصرے میں ہے ۔غزہ میں موجود فلسطنیوں کووسائل کس نے فراہم کئے؟ انہیں کس نے لڑنا سکھایا ؟کوئی دنیا کا عرب اسلامی ملک اسرائیل سے لڑنے کے لئے انہیں دو گولیاںتک نہیں دے سکتا۔ہم نے انہیں سپورٹ کیا اور انہیں طاقتور بنایا۔ ہم نے انہیںان قوتوں کے خلاف جنہوں نے مسلمانوں سے طاقت چھینی تھی مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ہماری تاریخ گواہ ہے ہم نے کبھی کسی سے خیانت نہیں کی۔ہم مسلمانوں کے ساتھ باوفا ہیںجس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔آج اسرائیل وہ پہلے والا نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیںکہ وہ اسرائیل جوپہلے نیل اور فرات کی باتیں کرتا تھاآج اپنے ارد گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔اسرائیل کو اس پوزیشن میں کس نے لا کے کھڑا کیا؟اس میں نہ تو سعودی عرب کا کوئی کردار ہے نہ مصر کا اور نہ ہی ترکی کا بلکہ یہ ہماری مقاومت کا نتیجہ ہے کہ آج اسرائیل اپنے گرد دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ہم نے فلسطین کے مظلموں کو سپورٹ کیا ۔ہم وہ ہیں جسے امامؑنے کہا تھا کہ ظالموں کے دشمن اور مظلموں کے ہمدرد بن کے رہنا۔ہم ہر ظالم کے دشمن ہیں خواہ وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ہر مظلوم کے حامی ہیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ہم نے دنیا کے حالات کا رخ بدل دیا ہے۔وہ مرجع عالیقدر جوپوری دنیا کے طاغوت اور یزیدوں کے مقابلے میں اٹھا تھا،مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانے کی اس نے تحریک شروع کی تھی آج اس تحریک کا پرچم ایک فقیہ کے ہاتھ میں ہے۔جو گزشتہ تقریباًتین دھائیوں سے ہر محاذپر امریکیوں کے حملے کو شکست دے رہا ہے ۔جس نے لبنان کے شیعوں کو طاقتور بنایا۔سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ حزب اللہ کی ایک ایک اینٹ مقام معظم رہبری نے اپنے ہاتھوں سےرکھی ہے۔اس بابصیرت قیادت نے لبنان میں حزب اللہ کو طاقتور بنایا،فلسطینوں کو طاقتور بنایا،یمن کے شیعوںکوطاقتور بنایا،شام میں بشارالاسد کو  سپورٹ کیا کہ اس کی حکومت نہ گرے ۔ابھی جب عراق پر حملہ ہوا تو آگے بڑھ کر اسی نے ان کے حملہ کو روکا۔ سب سے پہلے جو وہاں بندے پہنچے یا ایران کے جنر ل سلیمانی تھے یا حزب اللہ کے کمانڈر اور مجاہدجنہوں نہ صرف داعش کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ روکا بلکہ ان کے پائوں توڑ ڈالے ۔اسی طرح افغانستان میں بھی شیعہ طاقتور ہیں،عراق میں طاقتور ہیں، لبنان میں طاقتور ہیں ۔بحرین میں مشکلات تھیں لیکن جب سے انہوں نے دفاعی تحریک شروع کی اب وہ بھی طاقتور ہو کر سامنے آرہے ہیں۔اسی طرح شیعہ یمن میں بھی بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ یمن کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں شیعہ سنی اتحاد ہے۔ جن دنوں ہم نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھاانہوں نےبھی وہاں مشترکہ طور پر دھرنا دیا ہوا تھا۔ شیعہ سنی نے مشترکہ نماز جمعہ پڑھی تھی۔ اس نما ز جمعہ میں ڈیڑھ بلین کے قریب لو گ شریک ہوئے تھے۔سعودی عرب کی انیس ملین آبادی میںسے 38فیصد شیعہ ہیں۔ بحرین سے چلتے چلتے یمن تک حساس علاقوںمیںشیعہ آباد ہیں ۔اسی فیصد تیل اس پورے ریجن میں شیعہ علاقوں میں ہے ۔دنیا کا اہم جغرافیائی اور انرجی کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہمارے پاس ہے۔ ہم چاہتے تو خطے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو سکتی تھیں لیکن ہمارا دین، مذہب اور دینی لیڈرشپ ہمیں اجازت نہیں دیتی۔ ہماراہدف صرف یہ ہے کہ مسلمان اس خطے میں طاقتور ہو جائیں۔ اسی فلسفہ کی بنیاد پر ہم اٹھے ہیں، مسلمانوں کو طاقتور بنانے کے لیے ہم نے سپورٹ کیا ہے۔اسی لئے ہم نے شروع سے ہی فلسطین میں حماس کی حمایت کی اور انہیں سپورٹ کیا۔ ہمارا سپورٹ کرنا شیعہ بنیاد پر قطعا نہیں ہے۔ ہم خطے میں اسلام کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، ہم مسلمانوں کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلانا چاہتے ہیں۔ہم ہر جگہ کھڑے ہو دشمن کا مقابلہ کر رہیں ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔میںنے ایک جگہ CIAکی رپورٹ پڑھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ پاکستان میں پونے پانچ کروڑ شیعہ ہیں۔الحمد للہ ہم یہاں بھی طاقتور ہیں لیکن جس طرح ہمیں طاقتور ہونا چاہئے تھا نہیں ہیں۔مجھے سید حسن نصرا للہ کہہ رہےتھےکہ ہم لبنان میں چٹکی کے برابر نہیں ہیں ۔ یہاں شیعوں کی آبادی بارہ لاکھ ہے ۔جس دن پاکستان کے شیعہ اکھٹے ہوکرایک طاقت بن جائیں گے اس دن پوری دنیا کے حالات بدل دیں گے ۔اس کے لئے بیداری،بصیرت،حوصلہ ،ہمت اور شعور و آگاہی کی ضرورت ہے۔اگر لبنان کے بارہ لاکھ شیعہ یمن ، سعودیہ، شام، بحرین اور عراق کوسپورٹ کر سکتے ہیں توہم پانچ کروڑ پاکستانی شیعہ پوری دنیا کے مظلوموں کی مدد  کیوں نہیںکر سکتے ہیں ۔ جب سے مجلس وحدت شروع کی تب سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کیوں دشمن نے شہید قائد کو مارا گیا۔شہید قائدؒاگر زندہ ہوتے اس وقت ہم ایران کے بعد دنیاکی سب سے بڑی طاقت ہوتے۔ اس وقت لوگوں نے انہیں نہیں پہچانا لیکن دشمن نے پہچان لیا اور شہید کر دیا۔ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہوگا۔اسوقت ہم نے دنیا کے اندر ایک تحریک شروع کی ہے۔ 35سال سےہم شہید دے رہے ہیں اور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ہمیں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے ؟ہماری تکفیر کیوں ہوتی ہے؟ ہمارے مملک میں دہشتگردی کی وارداتیں کیوں ہوتیں ہیں ؟ ہم نے ان سب کا مقابلہ کیسے کرنا ہے ؟ ہما را مشن بہت مقدس ہے۔ ہم نے  مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانا ہے۔ مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور وہی بنا سکتا ہے جو خود طاقتور ہو اور کمزور نہ ہو۔آج 1400ءسال بعدجہان اسلام کی رہبری کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہے اوراس وقت ہم مظلوموں کو لیڈ کررہیں ہیں ۔جو آگے کھڑا ہوتا ہے اس میں آگے کھڑے ہونے کی لیاقت اور صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ اس لئے ہمیں بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے ،آمادگی کی ضرورت ہے،اکھٹے ہونے کی ضرورت ہے ، باہمی رواداری کی ضرورت ہے، حالات سے با خبر رہنے کی ضرورت ہے ،اپنےآپ کو ہر لحاظ سےبہتر بنانے کی ضرورت ہے جس امت کا امام علیؑ ہووہ امت، امتوں کی امام ہونی چاہیے۔امام وہ ہوتا ہے جو عادل ہوتا ہے تو علی ؑ کے ماننے والے بھی دوسروں سے عادل ہونے چاہیں ۔اخلاق، سیرت، کردار، انسانی صفات اور افکارو نظریات میں اعلیٰ ترین ،عقائد کے حوالے سے سب سے بہترین  غرض ہر لحاظ سے شیعیان علی ؑ کودوسروں سے بہتر ہونا چاہیے ۔
اس وقت پاکستان میں اللہ نے ہمیں وہ دن دکھائے ہیں جس کا چوتھے امامؑ دعا کیا کرتے تھے : ’’اے خدا ظالموں کو ظالموں سے لڑا‘‘ خدابہت کریم ہے آٹھ سال صدام نے جنگ کی امریکہ اس کی مدت کرتا رہا پھر اللہ نے امریکہ کے ذریعہ اسے مروایا ۔پھر وہاں داعش لے کے آگئے ۔داعش کے آنے کے بعد وہاں ان سے لڑنے جنرل قاسم سلیمانی اور حزب اللہ چلی گئی۔ امریکہ کسی قیمت پر نہیں چاہتا تھا کہ ایران اور حزب اللہ عراق آئیں۔ اس کائنات پر اللہ کانظام حاکم ہے یہ بھی چال چلتے ہیں پھر اللہ بھی چال چلتا ہے اوراللہ بہترین چال چلنے والا ہے ۔پاکستان میں بھی اللہ نے ظالموں کو ظالموں سے لڑا دیا ہے ۔کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ نواز شریف کی حکومت میں طالبان کے خلاف آپریشن ہوگا اور وہ مولوی جو کہتے تھے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ہمیں ان کا ابو نہ کہیں ۔دشمن اور اس کی سازشوں سے آگاہی اور شناخت بہت ضروری ہے۔مجھے یاد ہے ہم اکیلےکہا کرتے تھے کہ مذاکرات نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔ہم نے نشتر پارک میں عظمت ولایت کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ آپریشن ہوناچاہیے مذاکرات نہیں ہونے چاہیں ۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں اپنے بعض مومنین نےبھی کہا کہ آپ کیوں مذاکرات کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟ اس سے ہمارا نقصان ہوگا ۔میں نے کہا کہ عجیب نہیں ہےکہ ہم اپنے قاتلوں کے خلاف بھی نہ بول سکیں اور ان کا نام بھی نہ لے سکیں ۔ہم بزدل نہیں ہیں جو ہمیں قتل کرے،ہمیںمارے،ہمارے گھروں کو لوٹے،ہمارے گھروں کو لٹوائے اورہم اس کا نام بھی نہ لیں ایسا ممکن نہیں ہے۔لہٰذا ہم نے برملا کہا کہ ان کے ساتھ مذاکرات نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔الحمداللہ کل ہم اکیلے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی نواز شریف سے پارلیمنٹ کےذریعے قوانین میںترمیمات کروائیں اور قانون بنوائے جس کو برسر اقتدار لانے کے لئے انہوں نے سپورٹ اور سعودی عرب نے سرمایا لگایا تھا۔نوازشریف سعودی عرب کا اسٹریٹجیک پارٹنر ہے۔ اس نے پاکستان کو اسی کے ذریعےقبضے میں لینا ہے ؛ لیکن پاکستان میں اب تک جو ہوا ہے وہ ان کی پالیسی کے خلاف ہوا ہے۔اللہ کےمقرر کردہ قوانین ہیں دیکھیںآگے کیا ہوتا ہے۔اب بہترین وقت ہے ہمیں اپنےآپ کوسدھارنے اورتیار کرنے کا۔ ہمیں اکھٹے اور منظم ہونے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں کی تربیت پر توجہ دینے اور انہیں علم و عمل اور عصری تقاضوںسے مزین کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے کردار مضبوط ہوں، صفات مضبوط ہوں اور ہم پاکیزہ بنیں ۔بہترین وقت ہے اپنے آپ کو تیار کرنے کا۔اللہ نے دشمنوں کو دشمنوں سے لڑایا ہے۔ البتہ اس راستے میں مشکلات ہیں جن سے نہایت بردباری اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں خاص طور پر مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ جس طرح بلوچستان کے رئیسانی کو گرانے کے لئے ہم منظم ہو کر میدان میں نکلے تھے اسی طرح  سندھ کے رئیسانی زرداری اور قائم علی شاہ کے خلاف بھی میدان میں نکلنے کی ضروت ہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں مار کریا ڈرا کردیوار سے لگائیں گے،ہم پوری دنیا میں انہیں گھیر سکتے ہیں اورپوری دنیا میں ان کاتعاقب کر سکتے ہیں۔ مکتب تشیع ایک قوم نہیں ہے بلکہ تشیع ایک مکتب اورآیئڈیولوجی کا نام ہے۔اس مکتب میں موجود ولایت کا نظریہ ہمیںپوری دنیا میں ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے۔اس مکتب سے تعلق رکھنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جو آپ کو دنیا کے ہر ملک اور اس کے ہر شہر میں نظر آئیں گے۔ جگہ جگہ اہل تشیع کے مظلوموں کابہتاہواخون ناقابل برداشت ہے۔ ہمیشہ انتظامیہ کی طرف سے ایک جواب ملتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیںہمارے لئے یہ جواب کافی نہیں ہے ۔ہما رے رینجرز کے لوگ مارے جارہے ہیں، پولیس کے بھی مارے جارہے ہیں ساتھ کوشش بھی ہو رہی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ کوشش نہیں ہو رہی لیکن جس طرح سے کوشش ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہو رہی ہے۔
دوستوں جب تک ہم امام زمانہ (عج) کے دئے ہوئے نظام سے مربوط نہیں ہو جائیں گے ہماری مشکلات میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج امام زمانہ (عج) کے نائب برحق نے ثابت کر کے دکھایا ہے کہ امامؑ کا دیا ہوا نظام ہی ہماری بقاکا ضامن ہے ۔ جو بھی ولایت فقیہ کے نظام سے متصل ہوںگےوہ عزت پائیں گےاورجو بھی اس سے کٹ جائیں گے وہ بھیڑیوں کا شکار ہوںگے ۔ جوبھی مرجیعت سے کٹا وہ دنیا پرست بھیڑیوں کا شکار ہوگیا۔جب ہمارا سلسلہ نائب امامؑ سے کٹ جائے گا تو یقینا کسی کا نواز شریف کے ساتھ سلسلہ جوڑ جائے گا، بعض کا زرداری صاحب کے ساتھ، بعض کا عمران خان کے ساتھ اور بعض کا الطاف حسین کے ساتھ تعلق جوڑ جائے گا۔نہایت ہی افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑا جا رہا ہے جن کا ذرہ برابر بھی امام ؑ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔تشیع کی مرکزیت کا نام مرجعیت ہے۔ ہم ان کے پیرو ہیں۔ ہم ان دنیاپرستوں اور قاتلوں کے پیرو نہیں ہیںبلکہ ہم نائب اور مرجعیت کے پیرو ہیں جس نےطول تاریخ تشیع کو مختلف بحرانون سے نکالا ہے اورموجودہ دور میں عزت کی اونچائی تک پہنچایا ہے۔اگر مرجعیت نہ ہوتی تو آج عراق سیاسی بحرانوں کا شکار ہوتا اور وہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ پاکستا ن میں بہت کوشش کی گئی کہ ہمیں مرجیعت اور فقہا سے کاٹ کر الگ تھلگ کر دیا جائے ۔یہ سلسلہ ٹوٹنے نہیں دینا چاہیے ۔ائمہ معصومین نے کہا ہے کہ عصر غیبت میں فقہاء سے راہنمائی لینی ہے۔
 رسولؐخدا جب اس دنیا سے گئے تو امت میں نظام امامت متعارف کراکے گئے جبکہ ہمارےبعض اہل سنت بھائی کہتے ہیں کہ رسول خدا کوئی نظام نہیں دے کر گئے نظام کو ہم نے خود بنانا ہے ۔میرا اپنے دوستوں سے سوال ہے کہ جب بارہویں امام ؑ غیبت کبرا میں گئےتو کوئی سسٹم دے کر گئے ہیںیا نہیں؟ یا ہمارے اہل سنت بھائیوں کی طرح مرضی کا نظام اور اس نظام کی رہبری کرنے والے رہبر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرنا ہے؟ ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ تو رسول خدا امت کو لیڈر اور رہبر کے بغیر چھوڑ کےگئے ہیں اور نہ ہی بارہویں امامؑنے غیبت کبرا کے زمانے میں لوگوں کواپنے حال پر چھوڑا ہے ۔جیسے رسول پاکؐجانے کے بعد سسٹم دے کر گئے ہیں ایسے ہی بارہویں امامؑ بھی مرجیعت اور فقہا کا سسٹم دے کر گئے ہیں ۔ہم نے لوگوں کواس سسٹم سے مربوط کرنا ہے۔علما ء نے اس کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ شیعہ فقہاء اور مراجع کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے ۔شہید ثانی، شہید ثالث، ہزاروںکی تعداد میںعلماء شہید ہوئےہیں۔بعض علماء ایسے بھی ہیں کہ جن کی لاشوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ہے اور زندانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں مکتب آل محمدؐکی فقہ کی کتابیں لکھی ہیں۔ہماری فقہ کی معروف کتاب ’’لمعہ‘‘ جسے شہید اول نےزندان میں تحریر فرمایاجبکہ حوالے کے لئے ایک بھی کتاب موجود نہیں تھی۔ پھر شہید ثانی نے اس پر شرح لکھی جو’’ شرح لمعہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔یہ دونوں بزرگوار شہید ہوئے۔ فقہاء نے راہ امامت کو زندہ رکھنے اور مکتب امامت کو آگے لےکر بڑھنے کے لیےخون جگر دیا ہے۔اس مکتب میں بعض علماء ایسے بھی گزرے ہیںجنہوں نے فقہ کی عظیم الشان کتاب تحریر فرمائیں ہیں۔ جب انہیں خبر ملتی ہے کہ اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہےتو وہ بیٹے کے جنازے میں کھڑے ہوکر فقہ کی کتاب کا ایک صفحہ تحریر فرماتے ہیں اور ثواب کو بیٹے کے نام پر ہدیہ کرتے ہیں۔ہماری تاریخ اس طرح کے واقعات سےبھری پڑی ہے کہ علماء نے غربتوں کے عالم میں جنازوں پر کھڑے ہوکرعلوم آل محمدؐکومحفوظ کیا ہے۔ آج جاکر نجف دیکھیں وہاں پر کیاحال ہےتو آج سے دوسو سال،تین سو سال یا آٹھ سوسال پہلے نجف کا کیا حال ہوگا۔بھوک اورافلاس کے عالم میں میراث آل محمدؐکو آئندہ نسلوں تک منتقل کرتے رہے ۔ فقہی، اصولی، تفسیری، لغوی،  رجالی اسی طرح فلسفہ، عرفان اور کلام پر مشتمل عظیم علمی میراث مکتب تشیع کے فقہاء نے ہمارے پاس پہنچائی ہے ۔تاریخ اسلام کی سب سے بڑی تفسیر ہمارے فقہا نے لکھی ہے ۔تفسیر المیزان لکھنے والا کتنا غریب لیکن کتنا عظیم فقیہ تھا۔ان کی زندگی عبادت ہے ۔میں آیت اللہ مرعشیؒکے بارے میں پڑھ رہا تھاوہ اپنے بیٹے کو وصیت میں لکھتے ہیں کہ مجھے ساری زندگی بہت شوق تھا حج کرنے کامیرے پاس پیسے نہیں تھےاگر تیرے پاس پیسے ہوں تو میر ی نیابت میں حج کروا دینا۔آیت اللہ کاظم تبریزی قم میں فوت ہوئے ان کی سینکڑوں عظیم علمی کتابیں جوان کی حیات میں نہ چھپ سکیںکسی نےان سے سوال کیا کہ آپ ان کتابوں کو کیوں نہیں چھپواتے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس خمس کے پیسے آتے تھےان سے تو میں اپنی کتابیں نہیں چھپوا سکتا تھا۔ فقہاء عظیم سرمایہ ہیں جو ہمیں عصر غیبت میںامام زمانہ (عج) سے مربوط رکھتے ہیں۔
ہمیں بیدار اورآگاہ رہناہے۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے شیعہ سنی کواکھٹا کیا ہے۔آج تکفیریت کو ہم نے تنہا کر دیا ہے ۔ہم نے اپنی مظلومیت کو طاقت میں بدلنا ہے۔ہم عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے ملک کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ہم نے مختلف ایشوز میں مقاومت دکھائی اور میدان میں ڈٹے رہےوہ میڈیا جو ہماری آواز نہیں آنے دیتا تھا، ہمیں ٹائم نہیں دیتاتھا کئی کئی گھنٹے لائیو دکھانے پر مجبور ہوا جو ہماری وحدت اور طاقت کا نتیجہ تھا۔ ہم نے مزید طاقتور بننا ہے آل محمد ؐ کی ولایت کا وزن کمزور لوگ نہیں اٹھا سکتے ۔مشکلات اور سختیاں آئیں گی انہیں جھیلنا ہے۔امام ؑ کا فرمان ہے کہ جو ہم سے محبت کرتا ہے وہ امتحان اور مشکلات کے لیے تیار ہو جائے۔آل محمد (ص) سے محبت کرنے والے ہمیشہ میدان میں ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سامرہ میں ایران کا ایک بہت بڑا کمانڈرامین تقوی امامین عسکریینؑ کے حرم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ۔کافی عمر رسیدہ تھے ۔ انہوں نے آٹھ سال ایران عراق جنگ میں بھی مجاہدانہ کردار ادا کیا تھا۔اسی طرح آئے دن عظیم لوگ کربلا کی سرخ تاریخ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے کیونکہ شہادت ہماری میراث ہے۔ڈاکٹر مصطفی چمران کا جملہ ایک دن پڑھ رہا تھااپنے پائوں اوربدن سے باتیں کر رہا رتھاتم تھک جاتے ہو، تم پرزخم آجاتےہیں، تمہیںسختی میں رہنا پڑتا ہے؛ لیکن میں کیا کروں میں حسین ؑ کاعاشق اور کربلا کا مسافر ہوںکسی ایک جگہ ٹھہرنہیں سکتا تمہیںکچھ دیر اور سختیاں جھیل لینی ہو گی۔ عنقریب تجھے خاک کا نرم بستر مل جائے گا۔پھر کہتا ہے اے خدا تو کتنا کریم ہے جب عزت سے جینے کے سارے راستے بند ہوجائیں تو تونے عزت سے مرنے کادروازہ شہادت کھول دیا۔کبھی کہتا ہے اے خدا تو کتنا کریم ہے کہ تونے مجھے غریبی اور فقر سے نوازا؛اے خدا اگر میں غریب اور فقر نہ ہوتا توکیسے میں یتیموں، بیوائوںاور مسکینوں کی آہوں اور سسکیوں کو محسوس کرتا۔سندھ چلے جائیں کتنے لوگ بھوک سے مرتے ہیں ۔طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلاء ہیں ۔پڑھائی نہیں ، روزگار نہیں اور وہاں پر جو مبلغین کام کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی فیکٹری کے مزدور ہیں۔وہ محرومیت میں بھی مکتب تشیع کو پھلا رہے ہیں ۔لہٰذا یہ سفربہت کٹھن سفر ہے ۔اس سفر کو نہایت ہی بردباری، صبر و تحمل، کربلائی بصیرت اور کربلائی عزم کے ساتھ طے کرنا ہے۔

 

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ناصر عباس جعفری
سکیرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان

وحدت نیوز (آرٹیکل) سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ ہے حالانکہ سلیکشن اسی دن ہوگئی تھی جس دن خائن ممبران نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے مفاد میں بل پاس کیا جس کو کورٹ میں چیلینج کیا گیا جس کے بعد اسی سے ملتا جلتا بل پاس کرکے دیا گیا اور پھر اسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں کی جانے لگی دوسرا مرحلہ حلقہ بندی کا تھاجس طرح وہ سرانجام دیا گیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں اگر فقط ان دومراحل کی تفصیل لکھی جائے تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔بحرحال تیسرا مرحلہ الیکشن کمیشن کا ہے جو کہ اس وقت درپیش ہے جس میں ریٹرنگ آفیسر پہلے عدالتی افسران(جج) ہوتے تھے تب بھی یہ سیاسی آقا اپنی مرضی چلاتے تھے اب تو ان کے سامنے دن رات ہاتھ باندھ کرکھڑے ہونے والے لوگوں کو ریٹرننگ آفیسر بنایا گیا ہے جو بیچارے حکومتی آقاؤں کے سامنے لب ہلانے کی توفیق بھی نہیں رکھتے وہ بھلاکیا آر، او، کا غیر جانبدارانہ کردار اداکریں گے ان ریٹرننگ افسران کو معلوم ہے کہ چار دن کی یہ افسری ہے اس کے بعد یہی حکمران ہونگے لہٰذا جتنے اس دوران ان سے اچھے تعلقات بنا سکتے ہیں بنالو ۔ کہتے ہیں کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتاہوانظر آئے مگریہاں کاتومنظرہی عجیب ہے صبح سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے لائن میں کھڑے محلوں کے معزز بیچارے کبھی بجلی کے بل کی فوٹوکاپی لارہے تھے توکبھی گیس کے بل کی کبھی کسی اعتراض کو ختم کرنے کی کوشش کررہے تھے تو کبھی کسی اعتراض کورفع کرنے کے لئے رکشہ یا موٹر سائیکل پرسندھ کے رہنے والوں کی قسمت کی طرح پسینے پسینے دوڑدھوپ میں لگے ہوئے تھے اور آر،او، صاحب تھے کہ جیسے آج ہی ان کو پورے شہر میں دوڑا کرہی رہیں گے بعد میں پتا چلا کہ ان آر ، اوز کو مخصوص نام دیئے گئے تھے کہ ان کے فارم ہی نہیں لینے اور ایسا ہی ہوا بہت سے لوگوں کے فارم رات بارہ بجے تک نہیں بھرے جاسکے۔


دوسری طرف حکومتی آقاؤں کے فارم بھرنے کا انداز ہی نرالا تھا ان کے امید وار ایک شان حکمرانی سے آتے اور آتے ہی کہیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں تو کہیں تعلقے کے کسی بڑے افسر کے ایئرکنڈیشن روم میں اپنے فل پروٹوکول سے بیٹھ جاتے اور چائے پانی کے بعد ایم این اے یا ایم پی اے اور پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ ان کے وکیل یا کوئی دوسرا شخص ریٹرننگ آفیسر کو ان کے کاغذات نامزدگی دیتا اور امیدوار شان بے نیازی سے ریٹرننگ افسر کے سامنے بیٹھے مسکراتے رہے ریٹرننگ آفیسر نہایت ہی عقیدت و احترام سے کاغذات نامزدگی جمع کرکے خوشامندانہ انداز میں ان حکومتی آقاؤں کو الوداع کرتا اسی مرحلے پر باقی امیدواران کی شان و شوکت کو دیکھ کر شرمندہ ہو جاتے اور ان کو اپنی اوقات یاد آجاتی اور ان کو بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ صاف نظرآنے لگ جاتا اور آقاؤں کے ساتھ ان کے چمچے ان باقی امیدواروں کو لائن میں کھڑا دیکھ کر ان پر حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے طنزیہ اندازمیں مسکراتے گذر جاتے جبکہ ان کے چمچوں کا تعلق بھی اسی لائن میں کھڑے


لوگوں کے طبقے سے ہے اسی لئے چھوٹے آقاؤں نے بھی بڑے آقاؤں کی طرح کسی سیاسی چمچے کے بجائے بلدیاتی الیکشن میں اپنے ہی بیٹوں کو میدان میں اتارا ہے اور اس بات سے چمچے بے خبر اور بے پرواہ ہیں کہ جمہوریت کے نام پر انھوں نے مورثی حکمرانی کو قائم کردیا ہے مگرصرف ان آقاؤں کے جئے جئے کے نعرے لگانے نے ان کو بھی تھوڑی بہت جھوٹی ہی سہی مگر شان و شوکت عطا کی ہے جس پر وہ اِترارہے ہیں اور یہ لوگ پوری قوم بیچنے کے لئے بخوشی تیار ہوگئے ہیں اس حالت کودیکھ کر الیکشن کمیشن کے کردار سے لے کر نتیجے تک کے حالات سمجھ میں آگئے بزرگ کہتے ہیں کہ کسی کاانجام سمجھنا ہو تواس کی ابتد ا کودیکھ لیں۔
ہمارا تعلق شاید معاشرے کے اس طبقے سے ہے جس کی آنکھیں ماضی میں ہمیشہ آزادی کے خواب دیکھتی رہتی تھیں، خوش قسمتی سے ایک غلامی سے آزادی ملتی تھی تو دوسری غلامی کی زنجیریں ہمارے لئے آزادی کے عنوان سے پہلے سے ہی تیار ہوتی تھیں شاید اس لئے ہماری اس نسل نے اس کا خوبصورت حل نکال لیا ہے اور نئی غلامی سے بچنے کے لئے پہلی غلامی کہ جس سے یہ مانوس ہیں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی اسے ناپسند کرتے ہیں جس غلامی میں ہمیں ہمارے آقا رکھتے ہیں اس میں خوشی سے نہ صرف رہتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں بقول شاعر


اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
کہ رہائی ملی تو مرجائیں گے


اس سے غلاموں کو کوئی سروکارنہیں کہ ان کے آقاؤں کی حکومت میں لوگوں کو پانی مل رہا ہے یا نہیں ، پیٹ بھر کھانا میسر ہے یا نہیں ، سر پر چھت ہے کہ نہیں ، بجلی ہو یا نہ ہو ،جان اور مال کی حفاظت ہے یانہیں، ملک ترقی کررہا ہے یا تباہ ہورہاہے ، صحت ،تعلیم ، روڈ راستے ،کاروبار، عدالتیں ، ملکی وعوامی حفاظتی ادارے کس حال میں ہیں ان سے بے پرواہ یہ صرف یہ دیکھ کر پھولے نہیں سماتے کہ ہمارے آقا کا پانی فرانس سے آتاہے، ہمارے آقاؤں کے دسترخوان پر ستر قسم کے کھانے سجتے ہیں ، ہمارے آقاؤں کے محلات کوروشن کرنے کے لئے اربوں روپیہ کے پاورجنریٹر پلانٹ لگائے جاتے ہیں ،آقا کی حفاظت کے لئے ہزاروں محافظ پورے شہر میں ایک اشارہ ابروپر پھیل جاتے ہیں اور آقا ایک جم غفیر کے جھرمٹ میں ہمیں کہیں دیدار کرا دیتا ہے جس کے قصے یہ مرچ مسالہ لگاکر بڑی شان سے سنا کر اپنے دوستوں کو مرعوب کرتے ہیں اور ان آقاؤں کا سارا روپیہ پیسہ فارن اکاٗونٹس میں محفوظ ہے،غلام خوش ہیں کہ ملک میں ہمارے ہی آقاؤں کی حکومت ہے ، آقاکو اگر چھینک بھی آتی ہے تو دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹر آجاتے ہیں ،آقاکی اولادیں جو کہ مستقبل میں ہمارے نئے آقا ہونگے فارن کی بڑی بڑی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہم پر فن حکمرانی سیکھ رہے ہیں ،آقا کا محل اگر ویرانوں میں بھی بنتاہے تو وہاں اتنے بڑے ڈبل روڈ بنتے ہیں کہ جس کے سامنے ہماری قومی شاہراہیں بھی شرماتی ہیں ، ان کے کاروبار دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن کو محفوظ بنانے کے لئے ہماری قومی اسمبلیاں دیگر ادارے روزانہ کی بنیاد پر قانون سازی کے فرائض انجام دے رہی ہین ، علالتیں ان کے احترام میں سزاوجزا کا فیصلہ صادرفرماتیں ہیں ، ملکی و عوامی حفاظتی ادارے ان کے ایک اشارے پر ہروقت مستعد نظر آتے ہیں ۔


اب ایسا آقاچھوڑ کر کسی فقیر صفت درویش ، انسان دوست ، سادگی پسند ، عادل شخص کو اپنا آقا ماننے کو دل ہی نہیں کرتا بلکہ اگر ایسا کہیں ماضی یا حال میں کہیں نظر آبھی جائے تو اسے اپنے ذہن کے مخصوص خانے میں سجاکر اپنے اسی جاہ جلال والے آقا کی پوجا میں مصروف ہوجاتے ہیں اور سیاست خبیثہ کو سرانجام دینے والے سیاست دانون کی طرح اسے فقط نعروں اور تقاریر میں استعمال کرتے ہیں اور نگاہوں میں اپنے اسی حاکم آقاکو رکھتے ہیں۔


ان حالات میں ایسے فرعون صفت آقاؤں سے الیکشن لڑنے کے لئے فقط فارم بھرنا ہی ابابیل کی چونچ میں نمرود کی لگائی آگ کو بجھانے کی کوشش کی یاد تازہ کرانے کا عملی مظاہرہ ہے۔لائق درود و سلام ہیں وہ لوگ جو ان کے سامنے مقابلے کے لئے آئے ہیں اور ان کے اختیار اور دولت کو اپنے کردار کی پختگی سے شرمندہ کر دیتے ہیں میرے نزدیک ان کے سامنے فارم بھرنا ہی باکردار لوگوں کی جیت ہے ، اور یہی ہار ہے بد کردار لوگوں کی باقی الیکشن کے نتائج ہم نے بلدیاتی الیکشن کے بل پاس ہونے ، حلقہ بندیوں سے لیکر فارم بھرنے تک کے طریقہ کارسے ہی سمجھ لیا ہے کہ ووٹ سے زیادہ انجنیئرڈ دھاندلی ہی اس الیکشن میں جیت کی ضمانت ہے ایک سوال عدل کے ایوانوں سے کہ کیا آپ اس کو انصاف کہتے ہیں یا آپ بھی اسی پر راضی ہیں ۔

 

تحریر ۔۔۔۔۔عبداللہ مطہری

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا ماضی اتنا خوبصورت اور تاریخ ساز ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں پر پاکستان کی ثقافت کی اک جھلک عرض کی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی مختلف اقوام و طبقات کی آپس میں اتنا پیار و محبت کہ جس کی مثال شاید ہی کسی ملک میں نظر آتی ہو۔ ملک عزیز میں باہمی پیار و محبت کی فضا تھی، پوری ملت ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگیاں گزار رہی تھی اور ہماری ثقافت ایسی تھی کہ جس کے اندر غیر مسلم کو بھی اتنا تحفظ تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوں کو مسلمانوں نے خود ان کے مال و متاع کے ساتھ روانہ کیا۔ جہاں پر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر بازار بند کر دیئے جاتے تھے اور عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا تھا۔ ہمارا ماضی بہت روشن تھا، جہاں پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔
 
اگر ہم تاریخ پاکستان کے اوراق میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو بہت سی تاریخی اقدار و روایات آج ختم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت جو نعرہ لگایا گیا تھا وہ تھا "پاکستان کا مطلب کیا"، "لا الہ الا اللہ" یعنی پاکستان کا قیام تمام تر مکاتب فکر کی باہمی محنت و کوششوں سے ہوا۔ تحریک پاکستان کے دوران کسی قسم کی کوئی فرقہ بازی یا لسانیت کے عنوان پر تقسیم نہیں تھی۔ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس حریت کی نہضت کو مکمل کرنے میں پرجوش تھے جس کی وجہ سے یہ ملک حاصل ہوا۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ملک پاکستان کے قیام سے لے دو دہائیاں پہلے تک اس دھرتی میں بسنے والے تمام مسلمان چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے، وہ باہم یکجا نظر آتے ہیں۔ شیعہ خاندان کی اہلسنت خاندان میں شادیاں ہوئی تھیں اور اسی طرح اہلنست خاندان کے لوگوں کی شیعہ خاندان میں نظر آتی ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سالہا سال کئی خاندان اکٹھے اپنی اپنی مذہبی روایات و ثقافت کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اہلنست کی محافل میں جاتے تھے اور شرکت کرتے تھے، نہ فقط شرکت کرتے تھے بلکہ انتظامی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اور اسی اہلنست برادران بھی اہل تشیع کی مجالس و محافل میں اسی باہمی یگانگت و بھائی چارے کے جذبہ سے شرکت کرتے تھے۔

جہاں پر تعلیمی اداروں کے اندر طلاب عزیز ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان بھائیوں جیسا رشتہ  ہوتا تھا، وہ ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہوتے تھے اور ان طلاب کے اندر گھریلو تعلقات ہوتے تھے۔ محلوں کے اندر ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اس حد تک قریب ہوتے تھے کہ اگر کسی کے ہاں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو پورا محلہ ان کے غم میں برابر کا شریک ہوتا تھا۔ اگر کسی کی شادی بیاہ کا پروگرام ہوتا تھا وہ پوری برادری بغیر کسی امتیاز کے شرکت کرتی تھی اور کئی کئی دن پہلے پہنچ جاتے تھے اور کئی دن بعد تک شادی والے گھر رہتے تھے۔ اگر کسی کے ہاں اولاد پیدا ہوتی تھی تو سب خوشیاں مناتے تھے۔ اگر کسی علاقے سے کوئی فرد اگر اچھا پڑھ لکھ جاتا تھا تو سارے لوگ فخر محسوس کرتے تھے اور ایک فرد کی کامیابی کو پورے علاقے کی کامیابی قرار دیا جاتا تھا۔ اگر ہم مذہبی تہواروں کی بات کریں تو تمام پاکستانی ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آتے تھے، کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں تھی اور پاکستان پر آنے والی مشکلات میں ہمیشہ سے ملت پاکستان بغیر کسی تعصب کے وطن کے مفاد کو مدنظر رکھ کر مشکلات کا مقابلہ کرتی تھی، جس کی واضح مثالیں پاکستان کے دیرینہ دشمن بھارت کےساتھ لڑی جانی والی جنگیں ہیں۔ مختلف ادوار میں آنے والی ناگہانی آفات جیسے سیلاب، زلزلہ اور قحط سالی ہیں، ان سب میں پوری قوم اپنے متاثر ہونے والے بہن بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک نظر آتی تھیں اور یہ ان کی بحالی کے لئے بغیر کسی مذہبی، لسانی و قومی تفریق کے برابر کوشش کرتے تھے۔

ہمارا ماضی کیسا تھا؟؟؟
پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا ماضی اتنا خوبصورت اور تاریخ ساز ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں پر پاکستان کی ثقافت کی اک جھلک عرض کی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی مختلف اقوام و طبقات کی آپس میں اتنا پیار و محبت کہ جس کی مثال شاید ہی کسی ملک میں نظر آتی ہو۔ ملک عزیز میں باہمی پیار و محبت کی فضا تھی، پوری ملت ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگیاں گزار رہی تھی اور ہماری ثقافت ایسی تھی کہ جس کے اندر غیر مسلم کو بھی اتنا تحفظ تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوں کو مسلمانوں نے خود ان کے مال و متاع کے ساتھ روانہ کیا۔ جہاں پر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر بازار بند کر دیئے جاتے تھے اور عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا تھا۔ ہمارا ماضی بہت روشن تھا، جہاں پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔

کہاں گیا وہ روشن ماضی؟؟؟
جہاں اس غیور قوم کا اتنا روشن اور تاریخ ساز ماضی تھا، جس ملت کی اتنی عظیم الشان روایات تھیں اور جس قوم کی ثقافت قابل رشک تھی پھر ایسا کیا ہوا اس قوم کے ساتھ کہ آج وہ سب کچھ لٹ گیا۔
کہاں گیا وہ سب کچھ؟؟؟
کہاں گئی وہ ثقافت اور حقيقت دین؟؟؟
کہاں گیا وہ باہم بھائی چارے کا جذبہ؟؟؟
کہاں گئی وہ برادرياں اور مذہبی رواداری؟؟؟
کہاں گیا وہ آئین جو اقلیتوں کو تحفظ دیتا تھا؟؟؟
کہاں گئی آباء کی وراثت؟؟؟
کہاں گیا وہ جذبہ حب الوطنی؟؟؟
کہاں گیا وہ نظریہ جو اساس پاکستان تھا؟؟؟
کہاں گیا وہ عالم اسلام کی سرداری کا خواب؟؟؟
کہاں گیا وہ عالمی اسلامی بینک کے قیام کا خواب؟؟؟
کہاں گیا وہ جذبہ و جنوں جو مسئلہ کشمیر پر ہوتا تھا؟؟؟

یہ چند سوالات ہیں جو آج ہر پاکستانی کے ذہن ميں گردش كرتے ہیں، ہر فرد اس کا جواب چاہتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ جس کی بنا پر ہم نے یہ سب کچھ کھو دیا، جس کی بدولت ہم نے اس ملک عزیز میں مصیبتیں پال لی ہیں اور یہ وطن آئے روز بحرانوں کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ آئے روز بدامنی، معاشی بحران، انرجی بحران، سیاسی بحران، قحط سالی جیسے بحرانوں کا سامنا ہے۔ آیئے میرے ہم وطنو ہم سب ملکر ان سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہیں اور ان کو حل کرکے اپنا اسی روشن ماضی كو عصر حاضر كے تقاضوں كے مطابق واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں۔


تحریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ رسول اکرم ؐ کے چچا زاد بھائی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے آپ ککی دعوت پر لبجیک کہا اور آپ نے دین کو گلے لگایا اور آپ نے حضور اکرم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ ؑ نے رسول خدا ؐ کی زیارت کی اور آنحضرت نے سب سے پہلے آپ کے منہ میں اپنی زبان مبارک دی۔ اور مولا علی ؑ چوستے رہے۔ بچپن ہی سے آپ کی تربیت دربار نبوت میں ہوئی وہی پلے وہی جوان ہوئے۔ اور دربار نبوی سے ہی آپ کو باب العلم کا خطاب ہوا۔ جہاں تک کہ آپ ؑ کی وسعت علم کی بات ہے تو خود آپ ؑ کا اپنا قول ہے کہ مجھے رسول خدا نے ہزاروں باب علم کی تعلیم دی جس کے ہر باب سے ہزار باب کھلتے ہیں۔ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ تیرے علم کی تیرے چچا زاد بھائی علیؑ سے کیا نسبت ہے۔ تو اس نے کہا جو بارش کے قطرے کی وسیع سمندر سے ہوتی ہے ۔ حضرت علی ؑ نے خود ارشاد فرمایا کہ اگر میرے لیے مسند علم بچھائی جاتی تو میں بسم اللہ کی اس قدر تفسیر بیان کرتا کہ تحریری صورت میں وہ ایک اونٹ کا بار ہو جاتی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میرے لیے مسند علم بچھائی جائے تو اہل تورات کے درمیان توریت سے اہل انجیل کے درمیان انجیل سے اہل ذبور کے درمیان ذبور سے قرآن کے مطابق فیصلے کروں گا۔ اور میں کتاب اللہ کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کس کے بارے میں نازل ہوئی ۔ مولائے کائنات کی علمی بصیرت کو سامنے رکھتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا کہ میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ آنحضرت کے حدیث مبارک کے رو سے شہر علم میں وہی داخل ہو سکتاہے جو پہلے باب علم سے استفادہ کر سکے برصغیر کے مشہور عالم اہلسنت علامہ مشرقی سے پوچھا گیا کہ حضرت جبرئیل تیئس سالہ نبوت میں آنحضرت کی خدمت میں کتنی مرتبہ وہی لے کر آئے تو آپ نے کہا کہ 12000 مرتبہ جبرئیل کو شہر علم میں آمد ہوئی اور باب العلم کی زیارت 24000مرتبہ کی ۔ بارہ ہزارمرتبہ آنے میں اور بارہ ہزار مرتبہ جانے میں یہی وجہ تھی کہ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کو جبرئیل جیسا مقبرب فرشتہ اپنا استاد مانتے تھے۔ سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا کہ میں شہر حکمت ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ نیز یہ بھی فرمان نبوی ؐ ہے کہ علی ؑ فیصلہ کرنے والوں میں بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔مذکورہ تمام پہلو قابل ذکر حقائق ہیں جن پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ حصول علم کی بنیادیں تعلیمات رسول ؐ کی روشنی میں حضرت علی ؑ ہی نے اہل دنیا کو فراہم کیے حضرت علی ؑ نے سرکار دو عالم ؐ کے عہد میں تمام معلومات تحریری دستاویزات اور دیگر خطوط آپ ؑ ہی تحریر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ معاہدہ صلح حدیبیہ جو تاریخ اسلام میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس معاہدے کے اہم نکات حضرت علی ؑ نے ہی تحریر کیے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضرت علی ؑ کیا یا علیؑ علم و دولت میں کونسی شے بہتر ہے تو آپ ؑ نے فرمایا علم دنیا کے مال سے بہتر ہے کیونکہ علم تیرا نگہبان ہے۔لیکن دولت کی حفاظت تجھے خود کرنی ہوگی ۔ دنیا کا مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اس کے برعکس عقل و علم کو جس قدر استعمال کیا جائے بڑھتی جاتی ہے۔ پھر آپ ؑ نے فرمایا کہ علم و دانش اگر مُشرق ہی سے کیوں نہ ملے حاصل کرو ۔ ایک مرتبہ حضرت علی ؑ نے ارشاد فرمایا انسان علم سے بہتر کوئی ترکہ نہیں چھوڑتا ۔

 

حضرت علی ؑ کے علم و فصل کا چرچا پورے عرب میں تھا آپ کے در پہ اپنے مسائل سننے والے صرف مسلمان ہی تشریف نہیں لاتے تھے بلکہ یہودی عیسائی نصرانی اور دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی آپ سے اپنے مسائل سے رجو ع کرتے تھے۔ اور علم کے سمندر مولائے کائنات انہیں جواب دیتے تھے ۔ حضرت علی ؑ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا تھا جس کا تعلق علم ریاضی سے ہے۔ ایک مرتبہ آپ مکہ مکرمہ کی گلی سے گھوڑے کی رکاب تھامے گزر رہے تھے کہ ایک عربی عورت نے آپ ؑ کو آواز دیکر کہا یا امیر المومنین ؑ میر ا بھائی چھ سو درہم چھوڑ کر مر ا ہے جس سے میرے حصے میں صرف ایک درہم آیا ہے حضرت علی ؑ نے دریافت فرمایا کہ تیرے بھائی کی کتنی اولادہے اس نے کہا کہ دو بیٹیاں۔ آپ ؑ نے فرمایا اس میں سے 2/3 حصہ یعنی چار سو درہم اس کی اولاد کے لیے ہیں پھر دریافت فرمایا کہ اس کی ماں بھی زندہ ہے؟ عورت نے کہا کہ اس کی ماں بھی زندہ ہے ۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا 1/6 حصہ یعنی سو درہم اس کے ہوئے 1/8 حصہ یعنی 75 درہم اس کی زوجہ کے ہیں پھر دریافت فرمایا کہ تیرے کتنے بھائی ہیں اس عورت نے کہا کہ مولا میرے بارہ بھائی ہیں۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ بارہ درہم فی کس کے حساب سے تجھے جو ایک درہم ملا ہے وہ ٹھیک ہے اس میں سے تیر ا اتنا ہی حصہ بنتا ہے۔ایک مرتبہ حضرت علی ؑ منبر کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے کہ سامعین میں سے کسی نے علم ریاضی کیا ایک سوال کیا کہ مولا اس عدد کا نام بتائیے جو ایک سے لے کر نو تک تمام ہندسے اس کو پورا تقسیم کر سکے اور کوئی کسر باقی نہ بچے ۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ اس عدد کو حاصل کرنے کے لیے ہفتے کے دنوں سے سال کے دنوں کو ضرب دیں دو جو عدد کا مجموعہ آئی گا وہ ایک سے لے کر نو تک پورے اعداد اس کو پورا پورا تقسیم کر سکیں گے اور بعد میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ 360x7=2520یہ وہی عدد ہے جسے ایک سے لے کر نو تک تمام اعداد پور ا پورا تقسیم کر سکتے ہیں۔

 

حضرت علی ؑ علم دین اور دیگر علوم کے علاوہ علم غیب پر بھی فوقیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کے مخالفین اور دشمن اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ علیؑ علم غیب کیسے جانتے ہیں۔ چنانچہ آپ ؑ کے عہد خلافت میں ہی ایک ایسا واقع رونما ہوا اپ ؑ کے مخالفین سے چند لوگوں نے ایک منصوبہ بنایا اور وہ ایک عورت کے پاس گئے جس کا ایک ہی بیٹا تھا انہوں نے اس عورت کو لالچ دیا اور کہا ہم تیرے بیٹے کو بظاہر مردہ کی شکل میں علی ؑ کے پاس لے جائیں گے اور علی ؑ سے کہیں گے اس کی نماز جنازہ پڑھائی جاء۔ علی نماز جنازہ پڑھائیں گے تو ان کی یہ بات غلط ثابت ہو جائے گی۔ کہ وہ علم غیب بھی جانتے ہیں۔ چنانچہ اس گرو نے اس لڑکے کو بظاہر مردہ بنا کر جنازے کی صورت میں حضر ت علی ؑ کے پاس لے گئے اور عرض کیا کہ امیر المومنین ؑ اس کا نماز جنازہ پڑھایا جائے آپ ؑ نے فرمایا کیا اس کو کوئی وارث ہے۔ تو اس عورت کو سامنے لایا گیا۔ عورت نے فرمایا یا علی ؑ میرا ایک ہی فرزندتھاآج اس کا انتقال ہوگا۔ میں آپ ؑ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ ؑ اس کا جنازہ پڑھائیں۔حضرت علی ؑ نے تین بار اجازت لے کر نماز جنازہ پڑھائی ۔ نماز جنازہ ختم ہونے کے بعد لوگوں نے دعویٰ بول دیا کہ آپ ؑ نے زندہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ دعویٰ کرتے ہو کہ میں علم غیب جانتاہوں ۔ مولا علی ؑ نے فرمایا ذرا اس کو اٹھا کر تو دیکھو ۔ جب اس سے چادر اٹھائی گئی تو وہ کب کا مردہ ہو چکا تھا۔ یہ عالم دیکھ کر وہ عورت گھبرا گئی اور انتہائی شرمندگی کے عالم میں سارا واقعہ بیان کیااور حضرت علی ؑ سے معافی مانگنے لگی اور عرض کیا یا علی ؑ میرا یک ہی فرزند ہے جو میرا واحد سہارا ہے۔ حضرت علی ؑ کو اس عورت پر رحم آیا اور مردہ کے پاس جاکر کہا قسم بِاذن اللہ ۔ پس وہ خدا کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوگیا۔اور دشمن انتہائی شرمندہ ہوئے۔

 

آپ نے لوگوں کو منبرِ کوفہ سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا مجھ سے جس چیز کے بارے میں چاہو سوال کرو قبل اس کے کہ میں تم پر نہ رہوں۔ میں زمین سے زیادہ آسمان کے راستوں کو زیادہ جانتا ہوں۔ مگر افسوس اس زمانے کے لوگوں میں سے کسی نے بھی علی ؑ سے ایسا سوال نہیں کیا کہ اگر اس وقت علی ؑ کے آسمان کے ستاروں ،سورج،نظام شمسی اور کائنات کی گردش کے بارے میں سوال کرتے اور قیامت کے ہونے والے واقعات کے متعلق سوال کرتے تو آج سائنسدانوں کو مریخ میں پہنچنے تک اتنی دشوری پیش نہ آتی اور اتنا تو معلوم ہوتا کہ سیاروں اور ستاروں میں کیا کوئی ایسا راز ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس وسیع و عریض کائنات میں لامتناہی اربوں کے حساب سے خلق کیا ۔ پھر حضرت علی ؑ نے فرمایا تھا کہ اگر تم چاہو تو سمندر کی گہرائیوں تک بتا دوں اور اس گرتی ہوئی آبشار سے تمہارے لیے روشنی پیدا کردوں تو اس وقت کے لوگ تعجب سے پوچھتے تھے یا علی ؑ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔کہ پانی سے روشنی پیدا کی جائے اب اس سے آپ خود اندازہ لگائیے کہ مولائے کائنات کو کیا زمانہ نصیب ہوا اور اس زمانے کے لوگ اس عظیم درسگاہ اور خزانے کی قدر نہ کرسکے کاش علی ؑ آج کے دور میں ہوتے تو یہ دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی اور وسعت کائنا ت کس قدر آگے جاتی۔

 

حضر ت علی ؑ خلفائے ثلاثہ کے دور میں شہر کے قاضی اور مجلس شوریٰ کے اہم رکن تھے ۔ مشکل سے مشکل مسئلے کا حل اور فیصلے حضرت علی ؑ ہی سناتے تھے۔ اور مملکت اسلامیہ کو وسیع کرنے اور ترقی دینے میں سابقہ تینوں خلفاء کو اہم مشورے بھی یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کہا کہ اے فرزند ابوطالب آپ ؑ ہرمومن مرد اور عورت کے آقا و مولا ہوگئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ علی ؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ نیز فرمایا کہ میں کسی مشکل مسئلہ کے لیے زندہ رہوں نہ رہوں کہ جس کے لیے علی ؑ موجود نہ ہو مذید کہا کہ کہ جب علی ؑ سے والہانہ عقیدت کا حضرت عمرؓ کے اس قول سے لگایاجا سکتا ہے کہ کہ آپؓ نے کہا کہ خدا مجھے فرزند ابوطالب کے بعد زندہ نہ رکھے۔پھر فرمایا کہ علی ؑ ہم سب سے بڑے قاضی ہیں۔ خدا مجھے کسی مشکل مسئلے کے لیے باقی نہ رکھے۔ جس کے حل کے ابوالحسن موجود نہ ہوں اور حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اگر علی ؑ نہ ہوتے تو عثمان ہلاک ہو جاتے۔

 

حضرت علی کے دور خلافت میں ایک شخص نے پوچھا یا علی ؑ کیا وجہ ہے کہ سابقہ خلفاء کے دور میں اتنا انتشار نہیں تھاجتنا آج کے دو ر میں ہے۔ اس وقت مولا علی ؑ نے فرمایا کہ سابقہ خلفا ء مجھ جیسے لوگوں پر حکومت کرتے تھے اور آج میں تم جیسے لوگوں پر حکومت کرتا ہوں۔ اس معقول جواب کے بعد وہ دشمن خاموش ہو گیا۔ علی ؑ کی وسعت علم وسعت فکر کا اندازہ لگائیے کہ آپ ؑ ہر مسئلے کا حل اور ہر بیماری کی دوا اور ہر سوال کا جواب خوب جانتے تھے۔آپ ؑ نے علم کی اہمیت کواجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ علم زندگی ہے اور جہالت موت ۔ نیز آپ ؑ کا فرمان مبارک ہے کہ علم قوموں کو عروج اور جہالت قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے۔استاد کے ادب و احترام کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے مجھے ایک حرف سکھایا وہ میرا آقا ہے میں اس کا غلام ہوں ۔ آخر میں آنحضرت ؐ کی حدیث کے ساتھ حرف آخر ادا کرتا ہوں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسا کہ موسی ؑ کو ہارون ؑ سے تھی۔ تاہم میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

 

 
تحریری۔۔۔۔۔۔شکور علی زاہدی

اتحاد امت کے عظیم داعی، ارضِ پاکستان پر وحدت بین المسلمین کے لئے عظیم خدمات پیش کرنے والی بلند مرتبہ علمی و عرفان شخصیت علامہ سید عارف حسین الحسینی کو ہم سے جدا ہوئے پچیس برس بیت گئے ہیں۔ آپ 5 اگست 1988ء بروز جمعہ پشاور میں اپنے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ میں دم فجر اسلام و پاکستان دشمنوں کی گولی کا نشانہ بنائے گئے، آپ نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور قیادت میں اس ملک و ملت کیلئے بھرپور خدمات انجام دیں اور ان کی رہنمائی کا حق اس طرح ادا کیا کہ آج اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی انہیں ایسے یاد کیا جاتا ہے جیسے کل کی ہی بات ہو۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کی کمی کو کوئی اور پورا کرسکے۔

شہید قائد نے اپنے دور قیادت میں ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں کی فکری، شعوری، مذہبی، اجتماعی، ملی تربیت و بیداری کیلئے دن رات ایک کیا اور مسلسل عوامی رابطہ کے ذریعے ان میں ایک درد، ایک احساس پیدا کر دیا، علامہ عارف الحسینی کی یہ خوبی کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی کہ وہ اپنے ساتھ مختلف دورہ جات میں اہل سنت علماء کو بھی لے کر جاتے اور اتحاد کی فضا کو عوامی سطح پر نمایاں کرنے کی کوشش کرتے، جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کا یہ عمل دکھاوا یا مجبوری نہیں تھی بلکہ وہ اتحاد بین المسلمین پر پختہ یقین رکھتے تھے اور امت کو ایک لڑی میں پرونے کے شدید خوہش مند تھے۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے مولانا عبدالقدوس اور جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ملک اکبر ساقی تو اکثر ان کے ہمراہ دیکھے جاتے اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے برپا کانفرنسز میں نمایاں طور پر شریک ہوتے۔

علامہ عارف الحسینی نے ملک میں مارشل لاء دور میں قیادت کی ذمہ داری سرانجام دی، یہ بڑا سخت دور تھا، جب جنرل ضیاء الحق نوے دن کے وعدے پر برسر اقتدار آیا تھا اور ملک میں مختلف انداز میں تفریق و انتشار عروج پکڑ رہا تھا، کہیں صوبائیت کی بو پھیل رہی تھی تو کہیں لسانیت کا بیج بویا جا رہا تھا، کہیں علاقائیت کا دور دورہ تھا تو کہیں فرقہ واریت کو دوام بخشا جا رہا تھا، افغان روس جنگ کی وجہ سے ملک میں کلاشنکوف کلچر در آیا تھا اور اسی کے باعث منشیات فروشی، خصوصی طور پر ہیروئن نے تباہی مچا رکھی تھی، سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگی تھیں اور سیاسی ورکرز کو شاہی قلعہ لاہور میں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ایسے ماحول میں MRD کے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی، علامہ عارف حسین الحسینی نے اس تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا اور اس کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا، جو سیاسی جماعتوں کیلئے بہت حوصلہ افزائی کا باعث تھا۔ علامہ عارف الحسینی نے اپنے ہر خطاب میں مارشل لاء حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور امریکہ نواز پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور قیادت میں انہوں نے مختلف قومی و بین الاقوامی مسائل پر اپنا مؤقف بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا، انہوں نے پہلی بار اپنی ملت کو دوسری اقوام و ملل کے مقابل لانے کی جدوجہد کی اور 6 جولائی 1987ء کے دن مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس منعقد کرکے اپنی سیاسی طاقت و قوت کا بھرپور اظہار کیا اور ایک سیاسی منشور کا اعلان بھی کیا۔۔۔۔۔ آپ کے افکار پر عمل پیرا ہو کر ملت پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔

آپکی خدمت میں شہید علامہ عارف الحسینی کے چند منتخب افکار پیش کرتے ہیں، جو ہمارے اس موقف کی گواہی دیں گے کہ شہید علامہ عارف الحسینی ایک درد مند ملت تھے، جنہیں اتحاد بین المسلمین کی پاکستان میں جاری تحریک کا سرخیل اور بانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کلمات و اقتباسات ان کی مختلف تقاریر سے حاصل کردہ ہیں، جو انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں عوامی اجتماعات میں کیں۔۔۔!
مشترکہ دشمن:۔
شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی اختلافات کو حدود میں رکھیں، ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ، روس اور اسرائیل ہیں، جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔
(شیعہ جامع مسجد بھکر میں خطاب "مارچ 1994ء")
اپنی اپنی فقہ پر قائم رہتے ہوئے اتحاد:۔
درحقیقت اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی زندگی میں مل جل کر رہا جاسکتا ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ میں کسی کے یا کوئی میرے مذہبی جذبات مجروح کرے۔ اسلام میں اسی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ممانعت ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ نفرت ہی موجب فساد بنتی ہے، البتہ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنا اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایران میں شروع شروع میں بعض بیرونی طاقتوں نے کرد قبائل کو عقائد کی بنا پر بغاوت پر ابھارا لیکن جب دوسری طرف سے ان کے مذہبی جذبات کے احترام کا وطیرہ اختیار کیا گیا تو شیعہ سنی اتحاد کی شاندار مثال دیکھنے میں آئی۔
(شہید باقر الصدر اور سیدہ بنت الہدیٰ کی چوتھی برسی کے موقع پر پیغامات "اپریل1984ء ")

ہمارا پیغام اخوت:۔
وقت آگیا ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعے پہنچے ہوئے ہمارے عظیم پیغام حیات اسلام کی صداقتوں پر یقین رکھنے والے تمام انسان باہم متحد ہوکر اْٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانوں کو فریب دے کر لوٹنے والی استعماری اور شیطانی قوتوں پر بھرپور ضرب لگائی جاسکے اور دنیا میں عدل و انصاف، الفت و محبت اور حقیقی امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکے۔ بندوں پر بندوں کی حکمرانی ختم کرکے فقط مالک حقیقی کی حکمرانی کا نفاذ ہی ان شہدائے راہ حق کی تمنا ہے اور یہ انسانی کامرانیوں کی منزل ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پیغام شہداء کے امین بنیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس امانت کی حفاظت کریں۔ وطن عزیز پاکستان میں حقیقی اسلامی معاشرے کا قیام ہماری اولین خواہش بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے میں ہر مسلمان محب وطن پاکستانی کو دعوت اتحاد عمل دیتا ہوں۔

آج اتحاد اْمت کی اشد ضرورت ہے:۔
آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔

وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی استحصالی قوتوں کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اْٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی:۔
اسلام کے دشمنوں پر عیاں کر دینا چاہیے کہ فلسطین، لبنان، افغانستان، ہندوستان، اری ٹیریا اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور لیبیا کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اشتعال انگیز کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے، اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور انشاء اللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اْٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔ ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہوجائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے، نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔
(اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل شریف الدین پیرزادہ کے نام کھلا خط 21"فروری 1986ء)

وقت کے تقاضے:۔
میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وقت کے تقاضوں کا ادراک حاصل کریں، جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان متحد ہوکر عالمی سامراج کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ سامراجی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر موجود فروعی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں کمزور کریں۔
(گلزار صادق بہاولپور میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب
"مارچ 1986ء")

شرعی و ایمانی فریضہ:۔
میں تمام مسلمانوں سے بار بار یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہر ممکن طریقے سے امریکہ، روس اور اسرائیل کی اسلام دشمن پالیسیوں کی بھرپور مذمت اور ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہیں کہ یہ ان کا شرعی و ایمانی فریضہ ہے۔
( گلگت، بلتستان کے دورے کے موقع پر خطاب "جون1986ء")

تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری:۔
بعض عناصر نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے فتویٰ سازی کے کارخانے قائم کر لئے ہیں، تنگ نظری اہل تشیع میں ہو یا اہل تسنن میں اس سے فقط اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ فتویٰ سازی اور تعصب بیرونی جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا فائدہ صرف اسلام دشمن قوتیں ہی اْٹھا سکتی ہیں۔ دنیا بھر کے باضمیر اور حریت پسند مسلمان متحد ہوکر ہی سامراجی تسلط، تنگ نظری اور تعصب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
(لاہور میں قرآن و سنت کانفرنس سے خطاب
6" جولائی 1986ء")

پاکستان سب کا ہے:۔
پاکستان کے قیام کیلئے تمام مکتب فکر کے مسلمانوں نے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ آج کسی ایک مکتب فکر کے نظریئے کو دوسروں پر مسلط کرنے کا مقصد نظریہ پاکستان سے انحراف کے مترادف ہوگا۔
(بھکر میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب "جولائی 1986)

25 نومبر 1946ء کے دن پاراچنار کے افغان سرحدی گاؤں پیواڑ میں روشن ہونے والا یہ ستارہ، آسمان پاکستان پر ساڑھے چار سال تک ملت کی رہنمائی کرتے ہوئے انتہائی جراء4 ت و شجاعت کے مظاہرے کرتا ہوا 5 اگست 1988ء کو اسلام و پاکستان دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہو کر بظاہر ڈوب دیا مگر جاتے جاتے قوم میں ایسی روشنی بکھیر گیا، جس کے طفیل آج بھی حق و صداقت کا پھریرا لہرا رہا ہے اور جمہوریت کے سائے تلے سبز ہلالی پرچم سربلند دکھائی دے رہا ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree