وحدت نیوز(آرٹیکل) آج ہم ایک برائے نام انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانیت فقط برائے نام ہے ، اسی طرح ہم اسلامی عقائد کے بجائے اپنے من گھڑت عقائد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے عقائد کے پیچھے کسی قسم کی تحقیق کے بجائے دوسروں سے سنی سنائی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔
ہم جب کسی سے لڑتے ہیں، کسی کے خلاف یا حق میں فتوے دیتے ہیں، کسی کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا کسی کو گلے سے لگاتے ہیں، یا کسی کو اچھا برا کہتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی اصول ، ضابطہ ، اخلاقی جذبہ یا قانونی و آئینی پہلو نہیں ہوتا۔
درحقیقت سب کچھ ہماری نادانی اور خاندانی جہالت کے گرد گھومتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود عقلِ کل بن کر بولتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے وقوف اور جاہل بولنا بند کردیں تو دنیا کے مسائل ہی حل ہو جائیں۔
اب ہم نے اپنی نادانی کے باعث کچھ اس طرح کے عقائد بنا رکھے ہیں اور دوسروں کوبھی ان کی تعلیم دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں:
۱۔ پاکستان کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی
۲۔ہمارے ارد گرد سب لوگ راشی، مرتشی اور بد دیانت ہیں
۳۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوجائے وہیں چاپلوسی کرنی اور رشوت دینی شروع کردیں
۴۔ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہنے کے بجائے سب کو اچھا کہنے یا سب کو برا کہنے کا راگ الاپیں
۵۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا،مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر چپ سادھ لینی چاہیے، یعنی طاقتور کے خلاف احتجاج در اصل بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے
۶۔ یہاں تو دہشت گردی کبھی رُک ہی نہیں سکتی، دیگر ممالک کا اثرو نفوز ختم نہیں ہو سکتا
۷۔ اجتماعی ناانصافی کے باعث یہاں بے روزگاری اور فقر کبھی ختم نہیں ہو سکتا
۸۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات سب کتابی باتیں ہیں
۹۔ اور ۔۔۔۔
اس طرح کے عقائد اور سوچ کا منبع خدا سے ناامیدی ہے، جب لوگ خدا کے بجائے اقوام، قبیلوں، صوبوں، زبانوں، نوکریوں، دولت اور سٹیٹس کی پرستش شروع کر دیتےہیں تو اپنی اور معاشرے کی اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں اورجہاں پر لوگ مایوس ہو جائیں وہاں پر انحرافات ، برائیوں اور منکرات کے خلاف جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم خدا کی توحید اور یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس خدا نے ہمیں یہ ملک عطا کیا ہے اس کی مدد و نصرت سے اس کی اصلاح بھی ممکن ہے، اللہ پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں منکرات کے خلاف جدوجہد اور حرکت کریں ۔ حرکت اور جدوجہد زندگی کی علامت ہے۔ توحید انسانوں کو زندگی دیتی ہے اور توحید پر عدمِ ایمان انسانوں اور معاشروں کی موت ہے۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انسانی افکار کی زندگی اور انسانی سماج کی اصلاح کا انحصار عقیدہ توحید پر ہے۔اگر ہم اصلاح اور جدوجہدسے مایوس ہیں تو در اصل ہمارا عقیدہ توحید کمزور ہے۔
ارشادِ پروردگار ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کونسی اللہ کی رسی ہے اور وہ کونسی نعمت تھی جس نے متفرق لوگوں کو متحد کر دیا، دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا، کالے اور گورے ، عربی و عجمی کے فرق مٹا دئیے ، اگر ہم تدبر کریں تو اس میں سب سے بڑی نعمت ہمیں توحید ہی نظر آئے گی۔
بقولِ اقبال:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی!
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو!
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا‘ نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز(آرٹیکل) ملت کا ہر شہید قوم کے مقدر کا ستارہ اور ملت کے ماتھے کا جھومر ہے اس وقت ہمارے ملک کا ہر حصہ ملت جعفریہ کے باوفا بیٹوں کے پاکیزہ خون سے رنگین ہو چکا ہے اور قبرستانوں کے شہر آباد ہو گئےہیں لیکن اج شہادت کے درجے پہ فائز ہونے والے شہید محمد سیدین زیدی حقیقتا شوق شہادت سے سر شار اور سالہا سال سے اسی تمنا میں اپنی زندگی کے آخری سال گذار رہے تھے،کوئی چارسال قبل میں ہیوسٹن امریکا میں مرکز اسلامی میں دینی وظائف کی ادائیگی میں مشغول تھا کہ کہ ایک دن مجھے سیدین بھائی کا فون آیا اور وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے چنانچہ دوسرے دن گیارہ بجے وہ مجھ سے ملنے میرے آفس تشریف لائے اور انہوں نے اپنامدعا کچھ یوں بیان کیا کہ میں پاکستان میں ایک ایڈووکیٹ کی حیثیت سے کافی عرصہ کام کر چکا ہوں اور ابھی کافی مدت سے امریکا آکر رہائش پذیر ہو گیا لیکن اب جبکہ ملک میں ملت کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور آئے دن وطن عزیز میں ہونے والی شہادتوں کا سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے اپنے ملک جا کر قوم و ملت کی خدمت کروں اور اس وقت جب مختلف علاقوں میں تکفیری قوتوں نے ہمارے بہت سے مومنین کو جھوٹے مقدمات میں جکڑ کر ان کو جیلوں میں بند کروا دیا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ وہ اپنی خدمات اور سابقہ تجربے اور وکلا کے ساتھ ملکی سطح پہ دیرینہ تعلقات کو پیش کرنے لئے حاضر ہیں اگر ان کو مجلس وحدت میں لیگل ایڈوائزر کے طور پہ رکھ لیا جائے تو وہ ملک میں شیعہ وکلا پہ مشتمل ایک ایسا لیگل فورم بنائیں گے جو ملک بھر میں قید و بند کی صعوبتوں گرفتار مومنین کے مقدمات کی پیروی کرکے ان کی آزادی کے لئے تگ و دو کریں گے اور قوم کی خدمت میں اپنی زندگی کے آخری ایام کو گذاریں گے،پھر اچانک فرط جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور ان کی آواز گلے میں اٹک گئی جب وہ شوق شہادت میں مخمور ہو کر یہ کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنی زندگی تو گذار ہی لی ہے اور بچے بھی سب بڑے ہو گئے اب چاہتا ہوں کہ زندگی کے آخری سال قوم کی خدمت میں وقف کر دوں شاید اللہ تعالیٰ مجھے آخر ی عمر میں شہادت کی موت عطا کر دے ،میں چاہتا ہوں کہ مجھ ناچیز کی جان دین مبین کے کام آ جائے،مجھے کہا اپ پاکستان میں قبلہ راجہ ناصر عباس صاحب سے بات کریں،تو میں جانے کے لئے تیار ہوں چنانچہ اقا صاحب سے بات کی تو انہوں اس تجویز کا استقبال کیا اورسیدین صاحب ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر وطن عزیزجانے کو تیار ہو گئے،پاکستان پہنچ کر اسلام آباد میں ان کے لئے مجلس نے ایک دفتر اور رہائش بنائی جہاں سے انہوں نے اپنی فعالیات کا آغاز کیا اور اس دوران انہوں نے ملکی سطح پہ دورے کئے اور کئی قیدیوں کی آزادی کے لئے مقدمات لڑے اور بالخصوص راولپنڈی سانحہ عاشور میں سینکڑوں بے گناہ اسیران کی قانونی مشاورت اور وکالت میں کلیدی کردار ادا کیا،سال بھر مسلسل ملک میں گذارا اورپھر کچھ ناگزیر حالات کے باعث انہیں واپس امریکا جانا پڑا جہاں پھر سے میری ان سے ملاقات ہوئی۔
شہید علماء سے بہت انس اور محبت رکھنے والے انسان تھے چنانچہ ان کے دو بیٹوں کی شادیاں علماء ہی کے خانوادہ سے ہوئیں ان کی ایک بہو مولانا سید سرتاج زیدی صاحب کی بیٹی اور دوسری مولانا شمشاد حیدر کی صاحبزادی ہیں،وہ واپس جاکر بھی تمام اوقات ملک و قوم کی فکر میں مبتلا رہتے انہوں وہاں بیٹھ کر کئی مومنین قیدیوں کے مقدمات کے لئے مدد فرمائی-وہ ہر آن قوم کی فکر میں رہتے،ہر سال زیارت اربعین پہ جانے والے، تہجد گذار ، مومن و متقی،اجتماعی فکر کے حامل، مخلص، پیرو رہبری ،باپ کی حیثیت سے بہترین باپ اور بچوں کی کچھ اس طرح تربیت کی کہ سب بچے امریکا میں رہتے ہوئے بھی انتہائی متدین اور با تقویٰ ہیں . ان کے ایک فرزند اس وقت حوزہ علمیہ قُم میں زیر تعلیم ہیں- اج شہید کی دیرینہ تمنا پوری ہو گئی اور وہ زیارت اربعین کے بعد مشہد مقدس کی زیارت سے فارغ ہو کر حرم ہای اہل بیت کی زیارت سے توشہ آخرت لے کر حریم الہی کی زیارت کو لبیک کہتے ہوئے دشمنان اہل بیت کی گولیوں کا نشانہ بن کرامام بارگاہ کے باہر ایک نمازی کی حیثیت سے اپنے پروردگار سے جا ملے،اے عاشق حقیقی اہل بیت اطہار اور اے شوق شہادت میں شراب شہادت نوش فرمانے والے سید محمد سیدین ہمارے آپ پر سلام ہوں ،ہم تو اسی مادی دنیا میں باقی رہ گئے اور آپ لقاءاللہ کے لئے رخصت ہوگئے،خدا انکے درجات بلند فرمائے اور انہیں جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ نصیب فرمائے۔
از قلم ۔۔۔حجتہ الاسلام.علامہ غلام حر شبیری
وحدت نیوز(آٹیکل) حزب اللہ کے گناہوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اُس کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ یہ امر بھی قابلِ معافی ہوتا اگر یہ لبنانی تنظیم اتنی جنگجو (militant) نہ ہوتی۔ حزب اللہ نے لیکن اپنا لوہا میدانِ حرب میں منوایا ہے۔ دیگر عرب فوجوں کے برعکس‘ جنہیں ہر معرکے میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست اُٹھانی پڑی‘ حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں وہ واحد فوجی قوت ہے‘ جس نے اسرائیل سے نہ صرف برابر کی لڑائی لڑی بلکہ اُسے پسپائی پہ مجبور بھی کیا۔ یہ اعزاز کسی اور عرب فوج کو حاصل نہیں۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایران کے قریب ہے۔ ایران اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ قدر تو دونوں میں مشترک ہے کہ اِن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کے وجہِ اشتراک ان کی اسرائیل اور امریکہ دشمنی ہے۔ بیشتر عرب ممالک نہ صرف امریکہ کے قریب ہیں بلکہ امریکہ ان کا گاڈ فادر اور محافظ ہے۔ بیشتر عرب ممالک کی اسرائیل سے دشمنی الفاظ کی حد تک ہے۔ عملاً وہ اس سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ وہ اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات‘ الفاظ کی حد تک بھی کچھ نہیں کہتے۔ حزب اللہ اور ایران البتہ کئی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ سے برسر پیکار ہیں۔ہم نے دیکھا کہ شام میں کیا صورتحال بنی۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں بشارالاسد کو گرانا چاہتی تھیں‘ لیکن حزب اللہ بشارالاسد کی مدد کو پہنچی اوراس کے فوجی دستوں نے مملکتِ شام میں جا کے لڑائی میں حصہ لیا اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی کچھ ایران نے کیا‘ اور روس بھی اپنی فوجی طاقت کے ساتھ بشارالاسد کے ساتھ کھڑا ہوا۔ شام میں مکمل طور پہ امن قائم نہیں ہوا‘ لیکن جو خانہ جنگی 2011ء سے شروع ہوئی‘ اس میں اب بشارالاسد کا پلڑا بھاری ہے اور انہیں ہٹانے کی تمام تر تدبیریں ناکام ہو چکیں۔
اگر روس، ایران اور حزب اللہ ایک طرف تھے تو دوسری طرف امریکہ، سعودی عرب، قطر اور کچھ حد تک ترکی‘ تھے‘ گو ترکی حالات کے جبر کے پیش نظر اپنی پالیسی میں تبدیلی لایا ہے اور صدر طیب اردوان اب وہ نہیں کہتے‘ جو وہ پہلے کہتے تھے یعنی‘ بشارالاسد کو جانا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس تمام صورتحال سے سعودی عرب سخت پریشان ہے۔ شام میں بشارالاسد کی کامیابی کو وہ بجا طور پہ ایران اورحزب اللہ کی کامیابی سمجھتا ہے۔ عراق میں کئی حوالوں سے ایران کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ آخر ایرانی فوجی دستوں نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی نے عراق اور شام‘ دونوں میں فوجی کارروائیوں کی رہنمائی کی ہے۔ یمن میں دو سال پہلے سعودی عرب نے اپنے چند عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ اس لئے کیا تھا کہ حوثیوں (Houthi) کا قبضہ ملک کے شمال سے چھڑایا جائے۔ لیکن جلد نتائج کی بجائے سعودی فوجی مداخلت الٹا کارگر ہی ثابت نہ ہوئی اور سعودی عرب یمن میں تقریباً پھنسا ہوا ہے۔بجائے کسی ایک محاذ پہ توجہ دینے کے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی محاذ کھول لئے ہیں۔ یمن میں مداخلت کے وہی روح رواں تھے۔ پھر اُنہوں نے قطر کو تائب کرنے کی کوشش کی۔ مصر اور عرب امارات اُن کی اس کاوش میں معاون تھے۔ قطر سے مخالفت اس بنا پہ کی گئی کہ اس کے تعلقات ایران سے ہیں اور وہ ایسی تنظیموں کی مالی معاونت کرتا ہے جن سے مصر وغیرہ کو شکوہ ہے۔ یہ بیرونی محاذ ابھی گرم تھے کہ شہزادہ محمد نے ایک اندرونی محاذ بھی کھول ڈالا۔ جواز کرپشن کو بنایا گیا حالانکہ عام تاثر یہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان اندرونی اقدامات کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ پرنس محمد نے ایک اور کارنامہ کر دکھایا۔ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کو ریاض بلایا گیا‘ اور مبینہ طور پہ دباؤ کے تحت اُن سے استعفیٰ کا اعلان کروایا گیا۔ فرانسیسی صدر ایمونیل میکرون اُن کی مدد کو آئے اور اب سعد حریری فرانس جا چکے ہیں۔ یہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟ کیونکہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ لبنان میں ایسی سیاسی تبدیلی آئے جس سے حزب اللہ کا اثر کم ہو اور لبنانی حکومت میںحزب اللہ کے نمائندے اپنی وزارتیں چھوڑ دیں۔ یہ بچگانہ خواہش ہے کیونکہ حزب اللہ لبنان میں نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ سب سے مؤثر فوجی قوت بھی اُسی کی ہے۔ سعد حریری تو بے بس تھا۔ وہ بیک وقت لبنان اور سعودی عرب کی شہریت رکھتے ہیں۔ اُن کی تعمیراتی کمپنی 'اوجر‘ (Oger) مالی مشکلات میں پھنسی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں دے پا رہی۔
سعد حریری کو تو وہ کرنا تھا جو سعودی اسے کہتے۔ حزب اللہ البتہ سعد حریری نہیں۔ اُس نے وہ کرنا ہے جو اُس کے مفاد میں ہو۔ جب وہ امریکہ اور اسرائیل کی نہیں مانتی تو سعودی شہزادوں کی اس نے کہاں سُننی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل جنوبی لبنان کے ایک ٹکڑے پہ قابض تھا اور اُس نے وہ علاقہ کبھی نہ چھوڑنا تھا‘ لیکن حزب اللہ نے ایسی مزاحمتی تحریک چلائی کہ اسرائیل وہ علاقہ خالی کرنے پہ مجبور ہو گیا۔ پھر 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔
ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے۔ہماری فوج کے افسران بڑے شوق سے امریکہ اور برطانیہ میں کورس کرنے جاتے ہیں۔ انہوں نے وہاں سے کیا سیکھنا ہے؟ ہمیں تو سبق حزب اللہ کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے، کیسے وہ منظم ہوئی، اُس کی قیادت کا کیا کردار رہا ہے اور وہ اسرائیل اور امریکہ کے سامنے کیسے ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک بات بھول رہا تھا، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا بیٹا بھی ایک معرکے میں مارا گیا۔ معرکے میں اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ حسن نصراللہ جب ہلاکتیں دیکھنے گئے تو اپنے بیٹے کا چہرہ اتنی دیر ہی دیکھا جتنا کہ دوسرے مجاہدین کے چہروں کو۔ روئے ہوں گے تو اکیلے میں، سامنے آنسو نہ بہائے۔چیئرمین ماؤ کا ایک بیٹا کوریا کی جنگ میں مارا گیا‘ کیونکہ جنگ جاری تھی۔یہ خبر چیئرمین ماؤ سے چھپائی رکھی گئی۔ کچھ عرصے بعد کوریا میں چینی افواج کا کمانڈر چیئرمین ماؤ سے ملنے آیا اور بغیر سوچے کہہ بیٹھا: مجھے افسوس ہے کہ آپ کے بیٹے کی حفاظت نہ کر سکا۔اس سے چیئرمین ماؤ کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا پتہ چلا۔ چہرے کا رنگ اڑ گیا، سکتے میں آئے لیکن جلد ہی اپنے آپ پہ قابو پا لیا اور گفتگو جاری رکھی۔ پھر بیٹے کا ذکر تک نہ کیا۔ ہمیں نصیب ہوئی ہیں اقاموں کی ماری قیادتیں۔لیکن ہمارے عرب مہربانوں کو بھی دیکھیے۔ غارت میں پڑی ہوئی ہے دنیائے اسلام‘ لیکن کوئی ڈھنگ اور ہمت کے لوگ اُبھرتے ہیں تو وہ اُنہیں برداشت نہیں کر سکتے۔
تحریر۔۔۔۔ایاز میر( دنیا نیوز)
وحدت نیوز(آرٹیکل) داعش نامی گروہ کہ جس کا پہلی مرتبہ نام شام میں سنہ2011ء کے وسط میں سنا گیا تھا اور اس گروہ کا نعرہ تھا کہ شام و عراق میں اسلامی خلافت کا نظام قائم کرنا۔اس اسلام کے نام لیوا گروہ نے شام میں مسلح جد وجہد کا آغاز ایسے وقت میں کیا کہ جب تیونس سمیت مصر اور دیگر عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر عروج پر تھی اور اس گروہ کے منظر نامہ پر آنے کے بعد جہاں ایک طرف اسلامی بیداری کی تحریک کو نقصان پہنچا وہاں ساتھ ہی عالم اسلام اور بالخصوص اسلام کے خوبصورت چہرے کو ایک مرتبہ پھر بری طرح مسخ کرتے ہوئے اسلام کو مجموعی طور پر دنیا کے سامنے بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ،داعش نے شام و عراق میں دولت اسلامیہ یعنی اسلامی خلافت کے نظام کی بنیاد ڈالنے کا نعرہ لگایا لیکن اس داعش نامی گروہ کا ہر فعل اسلام اور اسلامی خلافت کے اصولوں کے بر عکس جاتا رہا۔بہر حال یہ دہشت گرد گروہ سنہ2011ء سے شام میں تباہ کن بربادی شروع کرنے کے بعد سنہ2014ء میں عراق میں داخل ہوا، اسی طرح سنہ 2016ء میں لبنان کے جنوبی و شمالی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی تا کہ پورے خطے کو نقصان پہنچا یا جائے ، اب ذرا غور کیجئے کہ ا س خطے میں سب سے زیادہ اہم اہداف کس ملک کے ہیں؟ مختصر تاریخ کا مطالعہ اور تحقیق کے بعد ہر ذی شعور اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اس خطے کا غیر مستحکم ہونا در اصل امریکا اور براہ راست اسرائیل کے مفاد میں ہے اور یہی کام داعش کے ذمہ لگا کر امریکا اور اسرائیل نے انہیں پہلے شام پھر عراق اور بعد میں لبنان میں اتارا، اب حالیہ تازہ خبروں کے مطابق انہی چند ایک بچے کھچے دہشت گردوں کو امریکی و صیہونی حمایت میں افغانستان تک پہنچایا گیا ہے تاکہ اگلا ہدف افغانستان اور پھر اسی طرح پاکستان میں موجود داعش کے سلیپنگ سیلز کو جگانا اور پاکستان کو انارکی کی طرف لے جانا ہے ۔(خاکم بدھن)تحریر کے آغاز میں بیان کرنا ضروری ہے کہ آج تا دم تحریر ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں نشر کی جا رہی ہیں کہ داعش نامی دہشت گرد گروہ کا شام و عراق سے مکمل خاتمہ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ تحریر اسی پیراہے میں لکھی جا رہی ہے تا کہ قارئین کی خدمت میں عرض کی جا سکے کہ آخر یہ داعش نامی دہشت گرد فتنہ کس طرح اسلام و مسلمین کے خلاف سرگرم عمل تھا اور اپنے غیر ملکی آقاؤں امریکا و اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کا خون بہانے میں مصروف تھا۔
بہر حال داعش کے وجود نے نہ صرف عرب دنیا میں اسلامی انقلابی بیداری کو امریکی ایماء پر متاثر کیا بلکہ مصر میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کا زمینہ بھی فراہم کیا، لیبیا میں عدم استحکام پیدا کرنے اور امریکی بالا دستی قائم کرنے میں داعش کا کردار سر فہرست تھا،دوسری طرف شام و عراق میں معصوم انسانوں کے خون سے بد ترین انداز سے ہولی کھیلی جاتی رہی جس کی تاریخ میں اس سے زیادہ بد ترین مثالیں نہیں ملتی ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکی ایماء پر خطے میں اسلامی بیداری کا راستہ روکنا اور خطے میں امریکا اور اسرائیل کے اہداف کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیل کے آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے والی لبنانی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ اور فلسطینی حماس کو بھی ختم کرنا تھا جسے امریکا و اسرائیل گذشتہ کئی برس کی ناپاک سازشوں کے ذریعے انجام نہیں دے پائے تھے۔
داعش کے وجود اوراس کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی سفاکانہ کاروائیوں نے اوائل اسلام او ر اسلام کی آمد کے زمانے کے حالات کو تازہ کر دیا تھا کہ جب مشرکین و کفار اسلام کے خلاف سازشیں کرتے نظر آتے تھے اور منافقین مسلمانوں کی صفوں میں چھپ کر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں ہی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا کرتے تھے، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے چچا سید الشہداء امیر حمزہ (رض) کی لاش کا مسلہ کیا جانا اور ہندہ کا ان کا جگر نکال کر چبانا ، ایسے ہی واقعات داعش کے اس خوارجی گروہ کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئے تقریبا 6 سال قبل ٹھیک اسلام کے اوائلی زمانے کی طرح ایک خطرناک فتنہ کھڑا کیا گیا جس کے پیچھے اسلام دشمن عناصر بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے ایک ویرانگر فتنہ پورے عالم اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی گئی جس کو داعش کا نام دیا گیا تھا۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکا و اسرائیل کی جانب سے داعش کو اس لئے وجود بخشا گیا تا کہ پورے عالم اسلام میں نفاق اور فرقہ واریت کو ہوا دی جائے جبکہ دوسری طرف دنیا کے مسلمانوں کی مسئلہ فلسطین و القدس کی طرف بڑھتی ہوئی توجہ کو ختم کیا جائے تا کہ صیہونیوں کے خلاف کم سے کم مزاحمت سامنے آئے ۔داعش کا وجود اس لئے قیام عمل میں لایا گیا تھا تا کہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے اور داعشی دہشت گردوں نے ابتداء میں عراق اور شام کے ہزاروں جوانوں کو تہہ و تیغ کرکے اس ممالک کے شہروں اور دیہاتوں سمیت ہزاروں مربع کلومیٹر پر قبضہ جمالیا تھا اور ہزاروں سڑکیں، پل، ورکشاپس، فیکٹریاں، تیل اور گیس کے متعدد ذخائر، اسکول، ہسپتال، رہائشی مکانات اور بنیادی ڈاھانچے مکمل طور پر تباہ کردئیے گئے تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب تباہ کاریوں کی انہیں اسلام محمدی نے اجازت دی تھی ؟ ہر گز نہیں اسلام محمدی ہر گز ایسا اسلام نہیں ہے کہ جس کا چہرہ داعش کے دہشت گردوں نے پیش کیا۔
عراق اور شام میں داعش کی جانب سے کی جانے والی تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حسا ب لگانا انتہائی مشکل کام ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم 500 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ داعش دہشت گردوں کے مظالم قابل بیان نہیں ہیں، دہشت گردوں نے درندگی کی انتہا کردی تھی جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں کا سرقلم کرنا، زندہ انسان کی کھال اتارنا، مردوں کو ان کی ناموس کے سامنے زندہ جلانا، جوان لڑکیوں کو اغوا کر کے خرید وفروش کرنا وغیرہ۔ عراق اور شام کے مظلوم عوام داعشی سفاکانہ مظالم کے سامنے بالکل بے بس ہوکر گھر بار سب کچھ چھوڑ کر دوسرے علاقے اور ملکوں کی طرف ہجرت کی اور جو نہ جاسکے ان کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔داعشی دہشت گردوں نے جس علاقے میں قدم رکھا وہاں کی تمام آثار قدیمہ، مساجد، امام بارگاہوں، چرچ سمیت دیگر مذاہب کے عبادت گاہوں کو بموں سے اڑا دیا جس میں ہزاروں بے گناہ نمازی اور عبادت گزار شہید ہوگئے۔
داعش نے 6 ہزار سے زائد مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نام پر فریب دے کر خودکش حملے کروائے جس میں مساجد، مدارس، طبی مراکز، مسلمانوں کے عمومی اجتماعات کے مراکز، فیکٹریاں وغیرہ کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمان جام شہادت نوش کرگئے۔ان تمام تر ظلم و تشدد کے پیچھے امریکی حکام کا ہاتھ تھا جیسے کہ حال ہی میں امریکی اعلی عہدہ دار( صدر ٹرمپ) نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ داعش کو امریکی سابق حکمرانوں نے بنایا۔ اب بھی امریکی داعش کی بھرپور مدد کررہے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ داعش کا آج اکیس نومبر 2017ء کو شام وعراق سے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے درا صل یہ اعلا ن داعش کی شکست کا نہیں بلکہ امریکا و اسرائیل کی شکست کا ہے کہ جنہوں نے داعش کی پرورش کی اور اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہوئے اسلام و مسلمین کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کیا، ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کیا، اس جرم میں جہاں امریکی و صیہونی شریک ہیں وہاں خطے کی خلیج عرب ریاستوں نے بھی امریکا کے ساتھ عہد وفا نبھاتے ہوئے داعش کی مالی و مسلح معاونت سمیت افرادی قوت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے جس کی قلعی حالیہ دنوں قطری شہزادے حمد بن جاسم نے بی بی سی کو دئیے اپنے ایک انٹر ویو میں کھول دی ہے اور بتا د یا ہے کہ داعش کو امریکا و اسرائیل کے ساتھ ساتھ ترکی، قطر، سعودی عربیہ اردن اور دیگر کئی خلیج ریاستیں مدد فراہم کر رہی تھیں، بہرحال اب شام و عراق سے اس فتنہ کا خاتمہ یعنی امریکا و اسرائیل کو ایک اور شکست کا سامنا ہو اہے جو یقیناًداعش کی شکست نہیں بلکہ امریکا و اسرائیل کی شکست ہے۔
ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ داعش کی شکست کے بعد اس کے حامی (امریکا و اسرائیل )نئے منصوبوں پر کام کریں گے۔ شام وعراق میں داعش کا قیام در اصل گریٹر اسرائیل کی تشکیل اور علاقائی ممالک کی سرحدوں کی توڑ پھوڑ کے لئے بنایا گیا تھا جسے براہ راست امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب حکومتوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان عرب ممالک نے عراق اور شام کی تباہی کے لئے اربوں ڈالر صرف کئے ہیں۔ داعش کی شکست درحقیقت امریکہ، اسرائیل اورتمام ایسے عرب حکومتوں کی شکست ہے جو داعش کی حمایت کر رہے تھے،لہذا مذکورہ ممالک داعش کی شکست کے بعد خطے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کے لئے نئے منصوبوں پر کام کریں گے۔ لہذا ان کے شوم منصوبوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
تحریر۔۔۔ صابر ابو مریم
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ، احساسات و جذبات سے عبارت ہے، بعض افراد اتنے حسّاس ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں لگے پودوں اور پالتو جانوروں و پرندوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے ہیں۔انسان جتنااحساسات و جذبات سے عاری ہوتا ہے اتنا ہی انسانیت سے بھی دور ہوتا ہے۔
اگر کسی کا ایک جانور گم یا لا پتہ ہو جائےتو پورے گھر پر سوگ کی فضا چھا جاتی ہے، اب پوچھئے اُن بچوں سے جن کے والدکو لاپتہ ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اور محسوس کیجئے اُن ماں باپ کا اضطراب جن کے بچے کو گم ہوئے کئی دِن ہو چکے ہیں۔
کیا آج ہزاروں سالہ پرانے فرعونوں کے دور سے بھی بدتر زمانہ آگیا ہے!!!؟؟؟ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کروا دیتا تھا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا لیکن آج عورتیں اور مرد سب لا پتہ ہو رہے ہیں۔
بات فوجی اور سول کی نہیں،پولیس اور ایجنسیوں کی نہیں، جمہوریت اور آمریت کی نہیں بلکہ اس ملک کے حال اور مستقبل کی ہے اور اس ملت کی حالت زار کی ہے۔
بھلا کوئی حکومت اپنے عوام کے ساتھ ایسا رویہ بھی اپنا سکتی ہے کہ لوگ اشکوں میں تر کر کے نوالے کھائیں، سانسوں میں سسکیاں بھریں، اور کروٹ کروٹ دکھوں میں سلگیں۔
انگریزوں کی حکومت ہوتی تو اور بات تھی، ہندووں کی سلطنت ہوتی تو الگ مسئلہ تھا، طالبان کا نظام ہوتا تو دوسری نوعیت تھی لیکن یہاں تو نہ انگریز ہیں، نہ ہندو ہیں، نہ سکھ ہیں ، نہ عیسائی ہیں ۔۔۔
عوام کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں، ایک اسلامی، فلاحی ، روشن خیال اور جمہوری سلطنت میں اُن کے سینوں میں خنجر گھونپنا کسی طور بھی روا نہیں۔ کوئی بلوچ ہو، سندھی ہو، پٹھان ہو، پنجابی ہو ، شیعہ ہو یا سُنّی ہو وہ اس ملک کا بیٹا ہے اور اس دھرتی کا فرزند ہے ۔ یہ زمین، یہ دھرتی، یہ ملک، یہ وطن ، یہ دیس اُس کی ماں ہے۔ اولاد جتنی بھی نافرمان ہو ماں کبھی بھی اپنے دامن کے سائے کو اُس کے سر سے نہیں ہٹاتی۔
کل تک جس طرح کچھ مذہبی جنونی بات بات پر دوسروں کی تکفیر کرتے تھے، دوسروں کو اسلام سے خارج کرتے تھے اور دوسروں کے خون کو مباح سمجھتے تھے پھر اس جنون سے ایسی آگ بھڑکی کہ جس نے داتا دربارؒ سے لے کر آرمی پبلک سکول پشاور تک ہر خشک و تر کو جلا کر راکھ کر دیا۔
آج اُسی طرح مذہبی تکفیر کے بعد اب سیاسی تکفیر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے،اب وطنِ عزیز میں ایسی رسم چلی ہے کہ جس سے سیاسی اختلاف ہو اُسے ملک کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے، جو سیاسی میدان میں سر اٹھانے کی کوشش کرے اُسے غدار کہہ دیا جاتا ہے، جو عوام کے حقوق کی بات کرے اُس پر قوم پرست اور غیروں کے جاسوس کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
ہم اربابِ حل و عقد کی خدمت میں مودبانہ طور پر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح لوگوں کو زبردستی اسلام سے خارج کرنے کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلا ہے اُسی طرح لوگوں کو زبردستی پاکستانیت سے خارج کرنے کا انجام بھی اچھا نہیں ہو گا ۔
لہذا بحیثیت پاکستانی ہماری گزارش ہے کہ مسائل کاحل تکفیر سے نہیں بلکہ تدبیر سے کیاجانا چاہیے، سیاسی مخالفین کو زنجیر سے نہیں اخلاق سے اسیر کیا جانا چاہیے اور مشکلات کو جبروتشدد سے نہیں صبروتحمل سے حل کیا جانا چاہیے۔
اگر سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے تکفیر کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کل کو جب دو ہمسائے بھی جھگڑا کیا کریں گے تو ایک دوسرے پر غداری اور مُلک دشمنی کا الزام ہی لگایا کریں گے۔
یقیناً یہ امر جہاں عوام میں بے چینی کا باعث ہے وہیں مُلک کی بدنامی کا سبب بھی ہے۔ گزشتہ دنوں سیاسی ٹسل کے باعث ایڈوکیٹ ناصر شیرازی کو بھی لا پتہ کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کا اس طرح سے لا پتہ ہونا قانونی مسئلے کے ساتھ ساتھ دینی ، اخلاقی اور انسانی احساسات و جذبات کا مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے نزدیک ملک و ملت کی مصلحت یہی ہے کہ اس سلسلے کو اب بہر طور رُک جانا چاہیے۔
کوئی مذہبی مخالف ہو یا سیاسی، تکفیر کے حربے سے اُسے راستے سے ہٹانے کے بجائے اُس کے خلاف قانونی اور آئینی جدوجہد کرنی چاہیے۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ انسان جتنااحساسات و جذبات سے عاری ہوتا ہے اتنا ہی انسانیت سے بھی دور ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے میں دوسروں کے مذہبی اور سیاسی احساسات و جذبات کو مجروح ہونے سے بچائیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصرو ف ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هہوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هہے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا:ہم اس کے شاگرد هہیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هہو ؟
شاگرد نے کہا:ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور وہ جو کام کرنا چاہتا هہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال هہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں هے جو تم سمجھ رہے هہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وہ مفہوم و معانی نہیں هہیں جو آپ نے سمجھا هہے؟ وہ کہے گا: هہاں یہ احتمال پایا جاتا هہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل هہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے هہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!ہوسکتا هہے قرآن کا مفہوم کچھ اورہو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی هو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے هہوں!۔
شاگرد اپنے استاد کے پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ہو بہو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں غرق ہو گیااس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔ استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رہا اورشاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رہاآخر کاراسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی پیداوارنہیں هے اور ممکن هہی نہیں هہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے اذہان میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔
اس دفعہ شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا هہے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔۱
تاریخ میں نقل ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا قید میں تھے،شدید قحط پیش آگیا خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں، نماز استسقاء بجالائیں اور خداوندمتعال سے بارش کی دُعا کریں ۔مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن بارش نہ برسی۔
چوتھے دن جاثلیق نصرانی مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لیے صحرا گئے۔وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش برسنے لگی۔اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کیلیے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے بارش برسنا شروع ہو گیا اور لوگ سیراب ہوئے۔لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا،اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے ۔
خلیفۂ وقت کے لئے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح بن وصیب کو حکم دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کوآزاد کر دے اور اس کے پاس لے آئے۔ حضرت نے خلیفہ سے فرمایا:لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں۔خلیفہ کہنے لگا:لوگوں کی ضرورت پوری ہوئی ہےاور دوبارہ طلب باران کی اب ضرورت نہیں ۔حضرت نے فرمایا میں چاہتا ہوں لوگوں کے اذہان سے شک نکال دوں اور اس واقعے سے اُنہیں نجات بخشوں۔
خلیفہ نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب تیسرے دن بھی طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں۔خلیفے کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے تمام مسیحو ں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا،اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا،اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش برسنے لگی۔اس موقع پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو کھولے،جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے۔پس امام علیہ السلام نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی،ایک کپڑےے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا:اب طلب باران کرو۔راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے سورج ظاہر ہوگیا۔
لوگوں نے اس واقعے سے مزید تعجب کیا۔اس وقت خلیفہ نے حضرت سے سوال کیا:یا ابا محمد! اس امر کی وجہ بیان فرمائیں ۔ حضرت نے فرمایا:ان لوگوں نے کسی قبرستان میں ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی وضاحت پر یقین کرلیا،پھر اسی طرح خود بھی آزمائش کر کے دیکھا تو قضیہ ویسے ہی تھا جیسے حضرت نے بیان فرمایا تھا۔اس واقعہ کے بعد لوگوں کے اذہان سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے۔ خلیفہ اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے۔یہاں حضرت نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی خلیفے سے فرمایا اور خلیفے نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا
جائے۔
حوالہ جات
۱۔مناقب، ج۴، ص۴2۴۔
۲۔ زندگی حضرت امام حسن عسکری(ع)، علیاکبر جہانی، ص۱۳۵۔
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی