وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک وقت وہ تھا کہ جب پاکستان میں ملت تشیع نہ صرف کئی سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں کھٹ پتلی بنی ہوئی تھی بلکہ مساجد و امامبارگاہوں کے ممبروں تک سے اس بات کی تبلیغ کی جاتی تھی کہ ہمیں سیاست سے کیا لینا دیناہم توبس عزادار ہیں اور ہمیں عزاداری کی اجازت ہونی جائے ۔جبکہ جس عظیم ہستی کی عزاداری کی جارہی ہے وہ کائنات کی اس بے مثال تحریک یعنی کربلا کا بانی ہے کہ جس نے نہ صرف یزیدیت جیسی آمرانہ حکومت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے کوڑے دانوں کے سپرد کردیا اور سیاست الہی اور سیاست محمدی اور علوی کو بھی بلندی عطا کی یہاں تک کہ آج ہر انقلاب خود کربلا کا مرہون منت سمجھتا ہے-

عزاداری بذات خود ایک تحریک اور ہر زمانے کے باطل کیخلاف ایک للکارہے دلوں سے نکلنے والی یا حسین کی آہ دنیا کے ہر ستم کے خلاف صدائے احتجاج ہےآنکھوں سے نکلنے والے آنسو ظلم کیخلاف ایک سیلاب ہیں، بقول رہبر کبیر انقلاب امام خمینی رض غم حسین ؑ کایہ سیلاب دنیا کے ظلم و ستم کو بہا لے جائے گا ، سینوں پر آلگنے والے ماتم حسین کے ہاتھ ہر ظالم و ستمگر کے منہ پہ ایک طمانچہ ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ایک زمانے تک ہم سادہ فکری کے شکار تھے اور ہمیں اصل تشیع اور حقیقت عزاداری سے مکمل و گہری آشنائی نہیں تھی لیکن الحمداللہ اب معرفت کے دریچے کھلتے جارہے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتے جارہے ہیں اور بیداری کی تحریک قوت پکڑتی جارہی ہے۔
حق و حقیقت کے متلاشی عاشقوں نے راہ حق میں آخرکار قدم رکھ ہی لیا اور دنیا والوں کے لئے ثابت کردیا کہ کربلاکی روح اب بھی زندہ ہے ، حسینیت آج بھی یزیدیت سے نبرد آزما ہے ۔آج بھی شہدائے اسلام اپنے سرخ لہو سے پھر تاریخ رقم کررہے ہیں، ملتوں میں بیداری کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ آج بھی جاری ہے ۔

ملت پاکستان بھی باقی ملتوں کے شانہ بشانہ اس بیداری کا حصہ ہے اور مملکت پاکستان کا وجود ہی انقلابی بنیادوں پر رکھا گیاتھا اوران بنیادوں میں ملت تشیع بھی کسی دوسری قوم سے نہ صرف پیچھے نہ تھی بلکہ سب کے شانہ بشانہ اپنی آزادی اورخودمختار مملکت  کے قیام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق ملت تشیع سے ہے ،اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سنی شیعہ بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکار جو اس ملک میں آباد ہیں وہ سب ملک کے برابر کے شہری ہیں اور سب نے ملکر قربانیاں دی ہیں لیکن ملت تشیع جس طرح مسلسل قربانیاں دے رہی ہے خاص کر گذشتہ تین دھائیوں جتنی قربانیاں دی ہیں شاید کسی اور قوم نے دی ہوں۔

دشمن نے گذشتہ عرصے میں اس ملت کو نشانہ بنایا اور لاکھوں کی تعداد میں اس کے فرزندوں کو صرف اس جرم میں کہ یہ لوگ محبت اہل بیت اطہار سے سر شار ہیں اور اپنے ملک و ملت کے ساتھ وفادار ہیں انہیں گولیوں ،خودکش حملوں ،خنجروں اور تلواروں کا نشانہ بنایا ۔ہمارے نوجوانوں کو بسوں سے اتار کر نشان دہی کے ساتھ ،نام معلوم کر کے شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔پاراچنار سے لے کر گلگت اور پنجاب سے لے کر سندھ بلوچستان اور کوئٹہ جیسے شہروں میں شیعہ کے خون کی ندیاں بہائی گئیں، وطن کی سرزمین ہمارے خون سے رنگین کی گئی ،ہمارے بڑے بڑے علما اور بالخصوص ہماری ملت کے ہر دلعزیز قائد علامہ عارف الحسینی کو شہید کر دیا گیا۔

دشمن کا یہ خیال تھا کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے اس شہید پرور ملت اور اس ملک میں کمزور کردے گااوران احمقوں نے گمان کرنا شروع کیا تھا کہ شیعہ کو ملک میں اقلیت قرار دے دیا جائے اور اس پہ کفر کےفتوے صادر کرکے اس مظلوم ملت کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے-ہمارے خلاف ایک بہت گہری اور دراز مدت پلاننگ کی گئی جس کا حکومتوں نے بھی کم و بیش ساتھ دیا چونکہ ایک بین الاقوامی سازش بھی پس پردہ کارفرما تھی شائد اس لئے کسی ایسے قاتل کو نہ صرف سر عام سزا نہیں دی گئی جس نے ملت تشیع کے جوانوں کا خون بہایا ہوبلکہ اس کے برعکس مجرموں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا اور آج بھی بہت سے مجرم ملک میں دندناتے پھرتے ہیں-حکومتوں نے بجائے اس ستمدیدہ قوم کی داد و فریاد سننے اور ان کی مدد کرنے کے اسی ملت کو نوجوانوں کو گھروں سے مختلف جگہوں سے اٹھانا شروع کیا اور کتنے ہی جوان اب سالہا سال سے لاپتہ اور جبری گمشدگی میں ہیں ۔

ہمیں مختلف مذہبی اور قومی اختلافات میں دھکیلا گیا تاکہ یہ قوم ملک میں پنپ نہ سکے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ مکتب تشیع مظلومیت ہی میں پروان چڑھتا اور خون سے ہی اس مکتب کی آبیاری ہوتی ہے-چنانچہ جو ملت اس سے پہلے فقط اپنی مجلس اور عزاداری کا سوچتی تھی ان میں رفتہ رفتہ قومی شعور بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا شروع کی-

ایک زمانے میں سیاست کو ہمارے مدارس میں شجرہ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا اور سیاسی امور سے متعلق مجالس میں گفتگو حرام شرعی اور یا پھر مجلس کے تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا تو آج اسی ملت سے متعلق مختلف انقلابی قوتیں اس ملک میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور اب اس بات کو لیکر ہر گز اختلاف نہیں کہ ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں بلکہ اگر کہیں اختلاف ہے بھی تو اس بات پر کہ ہمیں انقلابی بنیادوں پہ ملک میں ایک مکمل تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے یا ہمیں ملکی سطح پراصلاحات کا عمل جاری رکھنا چاہیے یہاں تک کہ ہم خود ملک میں کسی بڑی تبدیلی لانے کے قابل ہو جائیں لیکن دونوں افکار ملک میں ایک سیاسی ارتقا کی دلیل ہیں اور جو بھی اس ملک و ملت کے لئے اخلاص کے ساتھ جذبہ خدمت سےسرشار جدوجہد کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے اور ہمارے فکری اور نظریاتی اختلافات ہماری قومی بالیدگی اور پیشرفت کی علامت ہے جبتک یہ اختلافات ٹکراو و تصادم کی شکل اختیار نہ کریں اور مومنین آپس میں دست وگریبان نہ ہوں اور اپنی اپنی حدود میں ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے اپنی جہت میں حرکت کرتے رہیں تو الہی عمل میں نہ تعارض ہے نہ تزاحم-لیکن جہاں ذاتی مفادات پیش نظر ہوں اور افکار مادی ہو جائیں وہاں رسہ کشی ہوتی ہے اور اختلاف رائے انتشار کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس سے دشمن بھی سو استفادہ کرتا ہے اور ملت میں بھی مایوسی پیدا ہوتی ہے-

بحمد اللہ ان گذشتہ سالوں میں ہمارے انقلابی علما کی جہد مسلسل سے ملت میں بیداری پیدا ہوئی یہ اسی سیاسی کرداراور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ جہاں کچھ علما تربیتی عمل میں مصروف ہیں اور کئی بنیادی کام انجام دینے میں اپنی مساعی جمیلہ کو بروئے کار لا کر ملت کے مستقبل کے لئے عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں وہاں کچھ دوسرے طبقے کے علما ملک کی روزمرہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں-

گذشتہ دہائیوں میں دشمن کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ہمارے مبارز اور مجاہد علما نے اپنی ملت کی صحیح جہت میں رہبری کی لہذا ہماری ملت نے مظلوم ہونے کے باوجود کبھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیاکبھی ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا کبھی ہماری قوم نے ملکی املاک کو ہاتھ نہیں ڈالا کبھی کوئی کسی مسجد پہ حملہ کرتے یاخودکش حملے میں پکڑا نہیں گیا-ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہم ہر زمانے میں مظلوم رہے ظالم نہیں بنے-ہمارے علما نے پر امن مظاہرے کئے کوئٹہ میں بارہا ہزارہ کے مومنین اور دیگر شیعیان اہلبیت کا خون بہایا گیا لیکن ہمارے علما نے قوم کو صبر کی تلقین اور استقامت کا مظاہرہ کر کے عوامی طاقت سے صوبائی حکومت کو گرا دیا-یہ ایک با شعور قوم کا سیاسی عمل تھا جس نے بلوچستان کی حکومت کو فقط ایک بار ہی نہیں بلکہ اب دوسری بار استعفی دینے پہ  نہ ٖصرف مجبور کر دیا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کے باعث آج مجلس وحدت مسلمین کے رہنمااور ممبر بلوچستان اسمبلی آغارضا ملت تشیع کی نمائندگی میں بلوچستان کی ایک سے زائد وزارتوں کے عہدے پہ فائز ہیں ۔
سلام ہے ان شہدا کے خانوادوں پرکہ جنہوں نے اپنے حقوق کی جنگ میں فتح حاصل کی اگرچہ جتنی قربانی پیش کی گئیں اس کے مقابلے میں یہ کامیابی کوئی حیثیت نہیں رکھتی-

ہمارے علما نے گذشتہ سالوں پر امن جدوجہد کی اور ملک کے عالم مجاہد علامہ ناصر عباس جعفری ۸۰ دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرکے اپنی ملت کی بیداری اور دوسری اقوام کو ملت تشیع کی مظلومیت سے آگاہ کرنے اور حکومت وقت کو اپنے عظیم ارداے سے لرزانے میں بہت بڑا کردار ادا کیاکہ جس کے متعلق میں نے اس سے پہلے بھی اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ اسلامی ممالک میں سے کسی عالم کی قوم کے لئے یہ ایک بے مثال قربانی تھی-

چنانچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملت میں گلگت و بلتستان یا کوئٹہ کی سرزمین جو اعتماد اور عزم و ارادہ میں قوت و قدرت پیدا ہوئی اس میں ہمارے علما اور زعما ملت کی انتھک کوششیں ہیں یہاں تک گذشتہ عرصے ملک کی بہت ہی فعال مذہبی اور سیاسی شخصیت کو دن دھاڑے اٹھا لیا گیا اور ایک ماہ سے زیادہ انہیں لا پتہ رکھا گیاتاکہ قومی شخصیات میں خوف و ہراس پیدا کر سکیں لیکن یہ ملت شہید پرور ہے اور یہ ملت خوف سے مقابلہ کرنا جانتی ہے-

آج گلگت و بلتستان کی ملت کی وحدت و کامیابی اور وہاں کے عالم مبارز و مجاہدآغا علی رضوی کہ جس نے وہاں کی قوم کی رہبری کا فریضہ ادا کیا اور اس علاقے کی شدید سردی کے موسم میں اپنے حقوق کی جدوجہدکے لئے دن رات ایک کر کے حکومتی اداروں کا گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا اور دوسری طرف ملک کی دوسری سر حد کوئٹہ کامیاب سیاسی عمل اور عظیم کامیابیوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ملت تشیع پاکستاں ملک کے سیاسی عمل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکی ہے-

باوجود اس کے کہ دشمن ہمیں ملکی دھارے سے ہٹانے کا سوچ رہا تھا جبکہ ہماری قومی جدوجہد نے دشمن عناصر کو کنارے لگا دیا اوروہ سب قوتیں ملک کی منفور قوتیں ہیں یہانتک کہ ہماری ملت نے امریکہ اور اسرائیل سے مسلسل دشمنی کو اپنی قوم و ملت میں رائج کیا کہ اج امریکہ کے صدر کو بھی ملت پاکستان سے بیزاری کا اعلان کرنا پڑا لیکن اسے کیا معلوم ہماری ملت نے تو اس کی حماقتوں کو نیک شگون ہی لیا کہ اچھا ہوا اس چھچھوندر سے جان چھوٹی اگرچہ ہمارے بعض بے ضمیر اور وطن فروش تو اب بھی بھیک مانگنے چلے جائیں گے اور اتنی جلدی جان چھوٹتے دیکھائی نہیں دیتی لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے ہماری قوم و ملت میں ایک شعوری ارتقا کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں ہماری ملت تشیع کے علما کا بہت بڑا کردار ہے-
ہم ان عظیم کامیابیوں پہ جو قوم و ملت کو نصیب ہوئیں تمام شہدا کی اروح کو سلام بھیجتے ہیں جن کی ارواح طیبہ آج بھی ملت میں زندہ اور جن کا خون آج بھی قوم و ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور اگر ہمارے علما و ملک کے ذمہ دار ایک دوسرے سے ساتھ ملکر وحدت و یکجہتی سے اس ملک میں عمل کریں تو ہم کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں-

آج اس قوم کو مخلص قیادت اور رہبری کی ضرورت ہے اور جن مقاصد کے لئے یہ مملکت معرض وجود میں آئی ان مقاصد کے حصول کے لئے مضبوط قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس ملک و ملت کی رہبری میں جو کردار ہمارے شیعہ علما پیش کر سکتے کوئی دوسرا نہ اس کی صلاحیت رکھنا ہے نہ اتنا موثر کردار ادا کرسکتا ہے-اخر وہ قوم جس کے پاس سیاست عکوی موجود ہو اور جو عاشورا و کربلا کے وارث ہوں اور جو مہدویت پہ عقیدہ رکھتے ہوں جن کی بنیادوں میں ائمہ علیھم السلام کا دو سو پچاس سالہ دور ہو اور جن کےمکتب کا پروردہ خمینی بت شکن بنے اور جس مکتب سے حسن نصراللہ جیسے فرزند جنم لیں اور جو قوم حکیم امت رہبر معظم انقلاب کے سائے پروان چڑھ رہی ہو اور جس کی بنیادوں شہید راہ حق علامہ عارف الحسینی کا خون ہو اس کا کوئی کیسے مقابلہ کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس میراث کی درست حفاظت کریں اور انہی خطوط پہ عمل پیرا رہیں اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ان شااللہ وہ دن دور نہیں حرم الہی سے فرزند زہرا کا پرچم بلند ہو اور اہل حق دنیا کے اطراف و اکناف سے اس پرچم کے نیچے جمع ہو جائیں اور پوری دنیا کو نوید امن و امان دی جائے اور انسان عدالت الہی کے سائے میں زندگی بسر کریں-اللہم عجل لولی الفرج واجعلنا من اعوانہ و انصار


از قلم :حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ غلام حر شبیری

شفاعت کا عقیدہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) قیامت کےدن انجام پانےوالے اہم امورمیں سےایک بعض گنہگار افراد کے حق میں شافعین کی شفاعت ہے ۔یہ افراد شفاعت کرنے والوں کی سفارش کی بدولت رحمت الہیٰ کے حقدار ہو کر بہشت میں داخل ہوں گے ۔شفاعت کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک  ایک مسلم عقیدہ ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت نبوی میں اس بارے میں صراحت  ہوئی ہے۔ قرآن کریم مسئلہ شفاعت کو مسلم قرار دیتا ہے اور اس کے بعض احکام کو بیان کرتا ہےچنانچہ ارشاد فرماتا ہے کہ شفاعت صرف اور صرف اذن الہیٰ کے ساتھ ہی انجام پائے گی۔{مَن ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِاِذْنِہ}1کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضورسفارش کر سکے ؟ ایک اور مقام پر فرماتا ہے :{مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِہ}2کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قرآن کریم مشرکین اور بت پرستوں کے عقیدے {بتوں سے شفاعت طلب کرنے}کو باطل قرار دیتا ہے کیونکہ مشرکین اپنے معبودوں کی الوہیت کے قائل تھےاور وہ شفاعت کے نفاذ میں کسی قسم کےقید و شرط کےقائل نہیں تھے۔قرآن کریم ان کے اس عقیدے کو مردود قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہ ِ مَا لَا يَضُرُّہُمْ وَ لَا يَنفَعُہُمْ وَ يَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَؤُنَا عِندَ اللّہ ِ  قُلْ أَ تُنَبِّونَ اللّہ َ بِمَا لَا يَعْلَمُ فیِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فی الاَرْضِ  سُبْحَانہُ وَ تَعَالیَ عَمَّا يُشْرِکُون } 3  اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ  انہیں  کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور{پھربھی}کہتے ہیں : یہ خدا کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں کہہ دیجئے: کہ تم  خداکو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اورنہ زمین۔ وہ پاک و پاکیزہ اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے ۔لہذا قرآن کریم کی ان آیات کےتناظر میں بتوں کی شفاعت کی نفی ہوتی ہے ۔اسلام میں اصل شفاعت سے انکار کرنا کھلم کھلا مغالطہ ہے کیونکہ اسلام نہ شافعین کی الوہیت کا قائل ہے اور نہ ہی کسی قید و شرط کےبغیر انہیں شفاعت کی اجازت دیتا ہے۔یعنی شافعین کی شفاعت کو  اذن الہیٰ میں منحصرکیا ہےاور اسلام کی نظر میں شافعین خدا  کے مقرب بندے ہیں ۔ قرآن کریم فرشتوں کو شافعین میں سےقرار دیتا ہے جو صرف ان افراد کی شفاعت کریں گے جنہیں خدا پسند کرتا ہے ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے:{بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَ. لَا يَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَ ہُم بامْرِہِ يَعْمَلُونَ. يَعْلَمُ مَا بَينْ أَيْدِيہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضی}4بلکہ یہ تواللہ کے محترم بندے ہیں۔وہ تواللہ{ کے حکم }سے پہلے بات {بھی} نہیں کرتےاور اسی کے حکم کی تعمیل کرتےہیں۔ اللہ ان باتوں کوجانتا  ہےجو ان کے رو برو اور جوان کے پس پردہ ہیں اوروہ فقطان لوگوں کی شفاعت کر سکے ہیں جن سےاللہ راضی ہے۔5

قرآن کریم کےمطابق پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محمود پرفائزہوں گے ۔ مفسرین متعدد روایتوں سے استناد کرتےہوئے مقام محمود کو شفاعت سے تعبیرکرتےہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:{ عَسیَ أَن يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا محَّمُود}6امید ہےکہ آپ کا رب آپ کو مقام محمودپر فائز کرے گا ۔طبرسی لکھتےہیں:مفسرین  اس بات پر متفق ہیں کہ مقام محمود سےمراد شفاعت ہے ۔یعنی قیامت  کے دن پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرچم {لواء الحمد}کو ہاتھ میں اٹھائیں گے اور تمام انبیاء اس پرچم تلے جمع ہوں  گے ۔ آپ ؐ پہلے شافع ہوں گے جس کی شفاعت قابل قبول ہوگی ۔7 مسلمانوں کے نزدیک شفاعت کرنےوالوں سے شفاعت طلب کرنا ایک جائز کام ہے خواہ ان کی حیات میں ہو یا مرنےکے بعد۔ شفاعت دو طریقے سےطلب کی جا سکتی ہے :

پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان خدا وند متعال سے براہ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرےافراد جنہیں شفاعت کا اختیار حاصل ہے  کے واسطے سے شفاعت طلب کرے مثلا یہ کہے :{اللہم شفع لی محمدؐ}خدایا !میرے حق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے افراد سےشفاعت طلب کرے مثلاً کہے:{یامحمد ؐاشفع لی عند الله ، کن لی شفیعا عند الله}اے رسول !خدا کےحضور میرے حق میں شفاعت کیجئے ۔وہابی صرف پہلی صورت کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کےنزدیک دوسرا طریقہ ناجائز اور شرک کاباعث بنتاہے ۔

شافعین سے شفاعت طلب کرنا حقیقت میں شفیع سےدعا طلب کرنا  ہے اور اس میں کوئی شک و تردید نہیں  ہےکہ غیرخدا سے دعا طلب کرنا نہ مطلقا حرام ہے اور نہ شرک کا باعث بنتا ہے ۔مسلمانوں سے مدد طلب کرنا ایک جائز کام ہے  اور مسلمانوں پر اپنی وسعت  کے مطابق  دوسرےمسلمان کی مدد کرنا واجب ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:{من سمع مناد ینادی یا للمسلمین و لم یجبہ فلیس بمسلم}جو شخص کسی محتاج کی آواز کو سنے جو مسلمانوں سےمدد طلب کر رہا ہو اور وہ اس کی مدد نہ کرے تووہ مسلمان نہیں ہے ۔اصولی طور پر اگرایک عمل کسی کے لئے جائز ہو تواس شخص سے اس عمل کی درخواست بھی جائز ہوگی ۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے شافعین  کے لئے قیامت  کے دن شفاعت کرنا جائز ہے پس ان افرادسے شفاعت طلب کرنا بھی جائز ہوگا۔

شفاعت سے مراد شفیع  کا  خدا کی بارگاہ میں شفاعت کی لیاقت رکھنے والے افراد کے حق میں دعا طلب کرنا ہے ۔نیشاپوری اس آیت{ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعۃً حَسَنَۃً يَکُن لَّہُ نَصِيبٌ مِّنہْا  وَ مَن يَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئۃً يَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہ}8{جوشخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتاہےوہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اورسفارش کرتاہےوہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے  گا }کی تفسیرمیں مقاتل سے نقل کرتے ہیں: خداوند متعال کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرنے سے مراد مسلمانوں کے حق میں دعاکرنا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :{من دعالاخیہ المسلم بظہر الغیب استجیب لہ و قال لہ الملک:و لک مثل ذلک}جو شخص اپنےمسلمان بھائی کے حق میں اس کی غیرموجودگی میں دعا کرے  تواس کی دعا قبول ہوجائے گی اور فرشتہ اس سےکہے گا کہ تمہارے حق میں بھی ایسا ہو  ۔ لہذا مذکورہ آیت میں نصیب کا معنی وہی ہے جو اس حدیث میں آیاہے یعنی جو دعا انسان کسی دوسرے مسلمان کے حق میں کرتا ہے وہ اس کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے ۔پس جس طرح انسان ہر مسلمان سے دعا طلب کرسکتا ہے  اسی طرح غیر خدا سےشفاعت بھی طلب کر سکتا ہے  لیکن فرق یہ ہے کہ صرف ان افراد سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے جو مقام شفاعت پر فائز ہوں جیسے انبیاء ،ائمہ اہل بیتعلیہم السلاممومنین اورفرشتے ۔

فخر الدین رازی نے فرشتوں کا مومنین کے حق میں استغفار9کرنے کو شفاعت سے تعبیر کیا ہے ۔وہ اس سلسلےمیں لکھتےہیں کہ اس آیت سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فرشتوں کی شفاعت صرف گنہگار افراد سے مخصوص ہے اور اس بارےمیں معتزلہ کا نظریہ صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں کی شفاعت نیک افراد کے لئے ہے تاکہ ان  کے درجات میں اضافہ ہو سکے نہ گنہگار افراد کے گناہوں کی بخشش کے لئے ۔ابن عباس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےایک حدیث نقل کرتےہیں جس میں آپؐ فرماتےہیں:اگر کوئی مسلمان مر جائےاورچالیس مومن موٴحد اس کے جنازے پر نماز پڑھیں تو خدا ان کی شفاعت کو اس کے حق میں قبول کر تا ہے۔10نماز میت مومن کے حق میں دعا کے سوا اور کچھ  نہیں ہے ۔لہذادعاایک قسم کی شفاعت ہے اور مومنین سے دعا طلب کرنا اور یہ کہنا {ادع لی}کسی شک و شبہ کےبغیر جائز ہے ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی سیرت اس کےجائز ہونے پر گواہ ہے ۔ جیسے ترمذی ، انس بن مالک سےنقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس کا بیان ہےکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں ۔11قرآن کریم میں چند موارد ذکر ہوئےہیں جو دوسروں سے دعا طلب کرنے کے جواز  پر دلالت کرتےہیں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کےفرزندوں نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ وہ خدا سے ان کی بخشش کی سفارش کریں۔12۔ قرآن کریم گنہگاروں کے لئے یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ خودبھی مغفرت طلب کریں اورپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی درخواست کریں کہ آپ ؐبھی  ان کے حق میں دعا کریں ۔13

وہابی اورتکفیری گروہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ ؐ سے دعا طلب کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اگر یہی کام شرک ہو تو دونوں حالتوں میں شرک ہوگا یعنی اگر زندوں سے شفاعت طلب کرنا شرک نہیں ہے تو مردوں سے  شفاعت طلب کرنا بھی شرک نہیں ہے ۔علاوہ ازیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت آپ ؐ کے جسم کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ آپؐ کی روح زندہ ہے اور دعا و شفاعت کی درخواست کو سننا اور ان کی اجابت کرنا روح سےمتعلق ہے نہ جسم سے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد آپ ؐ پردرود وسلام بھیجنے  کے بارے میں نقل شدہ بہت ساری احادیث میں یہ بات صراحت  کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود وسلام کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ۔14

پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیار ت کے آداب میں یہ بات نقل ہوئی ہےکہ زائر جب آپؐ کی قبرمبارک  کے پاس دعا کرتا ہے تو آپؐ سےمخاطب ہو کر اس طرح سےکہنا چاہیے:{جئنالقضاء حقک والاستشفاع بک فلیس لنایارسول الله شفیع غیرک فاستغفر لنا واشفع لنا}یا رسول اللہ:ہم آپؐ کے پاس اپنے حوائج کی برآوری اور شفاعت طلب کرنے  کے لئے آئے ہیں۔آپ ؐکےسوا ہمارا کوئی شفیع نہیں ہے۔آپؐ ہماری مغفرت کےلئے دعا کریں اور ہماری شفاعت کریں ۔اہل سنت کے بہت سارے علماءنے اپنےمناسک کی کتابوں میں یہ بات ذکرکیا ہے کہ  پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت آپ ؐسے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے ۔ 15قرآن کریم حق شفاعت کو خدا کے ساتھ منحصر کرنے کےعلاوہ  خدا کے اذن سے اسےانبیاء،اولیاء اور فرشتوں کے لئے بھی ثابت کرتاہے۔  لہذامقام شفاعت صرف خدا کا حق ہے لیکن شافعین کی شفاعت رضائے الہی پر منحصر ہے۔لہذا آیت کریمہ{ قُل لللہ الشَّفَاعَۃُ جَمِيعًا}{کہہ دیجئے:ساری شفاعت اللہ کےاختیار میں ہے}  نہ دوسرے شافعین کی شفاعت کی نفی کرتا ہے اور نہ ان افراد سے شفاعت طلب کرنے کی نفی کرتا ہےکیونکہ شفیع سے شفاعت طلب کرنے کا مطلب یہ ہےکہ وہ بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کی بخشش کے لئے دعاکریں نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے ان کےگناہوں کو بخش دیں ۔

زمحشری اس آیت{قُل لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا}“کہہ دیجئے:
سا ری شفا عت اللہ کے اختیار میں ہے اور کوئی کسی دوسرے کے بارے میں شفاعت نہیں کر سکتا مگر دو شرائط کے ساتھ :
1۔شفاعت ان کی ہوگی جو شفاعت کی لیاقت رکھتے ہوں۔2۔ شفیع کے لئے یہ مقام خدا کی طرف سے حاصل ہواہو یعنی خدا نے شفاعت کرنے کا اختیار انہیں عطا کی ہے جبکہ یہ دو شرائط مشرکین اور ان کے شافعین کے بارے میں موجود نہیں ہیں ۔16 بنابرین شفاعت خدا کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے اس لئے  ذاتا ًیہ حق اسی کےساتھ مخصوص ہے لیکن یہ مطلب انبیاء و اولیاء کے لئے مقام شفاعت کے قائل ہونےکےساتھ منافات بھی نہیں رکھتاہے کیونکہ ان افراد کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ ان افراد کی شفاعت اذن الہی پر منحصر ہے ۔


حوالہ جات:
1۔بقرۃ،255۔
2۔یونس،3۔
3۔یونس،18۔
4۔انبیاء،26،28۔
5۔نجم،26۔
6۔اسراء،79۔
7۔مجمع البیان،ج3،ص435۔تفسیر برہان،ج2،ص440۔
8۔نساء،85۔
9۔غافر،7۔
10۔صحیح مسلم،ج3،ص54۔
11۔صحیح ترمذی ،ج4،ص42۔
12۔یوسف،97۔
13۔نساء،64۔

14۔سنن ابوداود ،ج2،ص218۔کنز العمال،ج10،ص381۔طبقات الشافعیۃ،ج3،ص406۔
15۔کشف الارتیاب، ص320 میں احمد بن زینی دحلان کی کتاب خلاصۃ الکلام سےنقل ہوا ہے ۔
16۔تفسیر کشاف،ج4،ص30۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو  بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔

قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی  ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں  نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل  اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان  ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘  اس قدر  اساسی  اہمیت کا حامل ہے کہ  تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے  میں بھی  دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔

بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔

اس وقت  نیتن یاھو کے ہمراہ  130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں   اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ  اس دورے میں  چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔

قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت  بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔

اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں  کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔

سب سے بڑھ کر  اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان  و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا  پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی  عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر  فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف  بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی  مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔

ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر  دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر  ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.


ہنداورپاکستان۔۔۔ کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فضا دیکھ
وحدت نیوز(آرٹیکل)صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو  بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔

قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی  ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں  نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل  اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان  ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘  اس قدر  اساسی  اہمیت کا حامل ہے کہ  تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے  میں بھی  دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔

بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔

اس وقت  نیتن یاھو کے ہمراہ  130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں   اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ  اس دورے میں  چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔

قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت  بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔

اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں  کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔

سب سے بڑھ کر  اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان  و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا  پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی  عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر  فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف  بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی  مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔

ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر  دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر  ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان ایک گنجان آباد ملک ہے، دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی انسانوں کے روپ میں درندے بھی رہتے ہیں، ایسے میں انسانیت سوز واقعات کا رونماہو نا ایک فطری عمل ہے  البتہ بعض واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان واقعات کے پیچھے جہاں دشمن کی منصوبہ بندی ہے وہیں  قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی بھی شامل ہے۔

قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ بچی 5 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا ہوئی اور 4 دن بعد اس کی نعش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔ڈی پی او قصور ذوالفقار احمدکا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کی شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے۔[1]

ایک ہی نمونے کا ملنا سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر زبردست سوالیہ نشان ہے۔ لوگوں نے پولیس کے خلاف  جگہ جگہ مظاہرے کئے، سڑکیں بلاک اور مارکیٹیں بند کرکے پولیس کی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے اور قصور میں ڈی سی آفس کا گیٹ توڑ کر اندر بھی  گھس گئے، پولیس نے  بھی حسبِ عادت ،مظاہرین پر فائرنگ کر کے تین افراد زخمی کئے۔

مظاہرین کا واویلا یہ تھا کہ  قصور میں ایک سال کے دوران 11کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا ہے، لیکن پولیس ابھی تک  ایک بھی ملزم کو بھی  گرفتار نہیں کر سکی۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس بچی کی نعش جس جگہ سے ملی ہے اس سے پہلے بھی ریپ ہونے والی بچیوں کی لاشیں یہیں سے ملتی رہی ہیں۔

حیف ہے کہ اس سے قبل 2015میں بھی قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی کے بعد ان کی ویڈیوز بنانے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔

اس طرح کے جرائم اپنی جگہ پر جاری ہیں اور اب ملکی حالات کا صفحہ الٹ کر دیکھئے، سال ۲۰۱۷ میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں دہشت گردوں نے نوسے زائد   حملے کئے، ان حملوں میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ابھی بھی  جنوری ۲۰۱۸ میں ایک مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے قریب خود کش دھماکہ کر کے  سترہ افراد کو زخمی اور پانچ کو شہید کر دیا گیا ہے۔

دہشت گردی کے ان واقعات کا تسلسل کے ساتھ کوئٹہ میں ہوانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئٹہ مسلسل دشمن کے نشانے پر ہے۔ دشمن کے سہولت کار اور اصلی مددگار وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کے واقعات کو ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کہہ کر دہشت گردوں کے چہروں پر نقاب چڑھاتے ہیں۔

کیا  دہشت گردی کو ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار کہنے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ  سال ۲۰۱۷ میں کوئٹہ میں دہشت گردی  کا  جو پہلا واقعہ 23 جون کو آئی جی پولیس کے دفتر کے باہر شہدا چوک پر پیش آیا تو اس میں شہید ہونے والے  13 افراد اور  زخمی  ہونے والے ۲۱ افراد میں سے کتنے ایرانی تھے!؟

 کیا جو دوسرا واقعہ 13 جولائی  ۲۰۱۷کو کلی دیبا کے علاقے میں پیش آیا  جہاں نامعلوم مسلح افراد نے پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایس پی قائد آباد مبارک سمیت چار اہلکار شہید ہوئے۔ان میں سے کتنے ایرانی تھے!؟

کیا  تیسرا واقعہ جو  12 اگست ۲۰۱۷ کی رات  کو جب سیکیورٹی فورسز کے ٹرک کو دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، تو  8 جوانوں سمیت 15 شہری شہید ہوگئے تھے ، اُن میں سے کتنے ایرانی تھے!؟

کیا دہشت گردی کا جو چوتھا واقعہ تیرہ اکتوبر۲۰۱۷ کو فقیر محمد روڈ پر پیش آیا جب نامعلوم مسلح افراد نے گشت کرنے والی پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 1 اہلکار شہید ہوا تھا۔کیا وہ اہلکار ایرانی تھا!؟

کیا دہشت گردی کا جو پانچواں واقعہ اٹھارہ اکتوبرکی صبح پیش آیا جب خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی کو پولیس ٹرک سے ٹکرا یا گیا اور  7 اہلکاروں سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے۔ان  شہدا میں سے کوئی ایک بھی ایرانی تھا!؟

کیا دہشت گردی کا  چھٹا واقعہ جو  پندرہ نومبرکی دوپہر کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں پیش آیا جہاں فائرنگ سے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن محمد الیاس، ان کی اہلیہ، بیٹا اور پوتا شہید ہو گئے تھے۔اس سے ایران کا کچھ نقصان ہوا!؟

کیا  دہشت گردی کے ساتویں حملے میں۹ نومبرکو کوئٹہ میں فائرنگ سے ڈی آئی جی بلوچستان سمیت تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اور آٹھویں حملے میں   25 نومبر کو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، بتائیے ان شہادتوں سے ایران کا کچھ بگڑا یا پاکستان کا نقصان ہوا!؟

دہشت گردی کے نویں حملے میں  زرغون روڑ پر گرجا گھر میں خود کش دھماکہ کر کے  8 افراد کی جان لے لی ، کیا اس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی یا ایران کی!؟

ہم سب کو ہماری قومی سلامتی کے اداروں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کسی طرح کی پراکسی وار نہیں ہو رہی بلکہ یکطرفہ طور پر قتلِ عام اور ظلم  ہو رہا ہے۔ خصوصاً بلوچستان کے اندر جتنے بھی دینی مدارس قائم ہیں ان سب کو حکومتی نظارت کے تحت ہونا چاہیے۔

کیا  کل کو قصور میں ریپ کرنے والے شخص کوبھی یہ کہہ کر چھوٹ دی جاسکتی ہے کہ یہ  بھی پراکسی وار ہے،لاقانونیت چاہے ریپ اور زنا کی صورت میں ہو یا خود کش دھماکوں اور قتل وغارت کی شکل میں، انسانیت دشمن قصور میں ظلم کریں یا کوئٹہ میں، ہم سب کو بحیثیت قوم ظالموں کے خلاف قیام کرنا چاہیے۔اس لئے کہ یہ  ملک ہم سب کا ہے اور اس کو ظالموں اور ان کے سہولت کاروں  سے پاک کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

آخر میں اس ہفتے میں صوفی محمد اور اُن جیسے چند دیگر افراد کی ضمانت  اور بلوچستان اسمبلی  کے قریب خودکش دھماکہ ہونے پر    اعلیٰ اداروں کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مائی لارڈ یہ  ملک میں یکطرفہ قتل و غارت ہے کوئی پراکسی وار نہیں۔

 

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ مہینہ جس میں سردی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور انسان گرم لباس زیب تن کر نے کے باوجود گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ہزار بار سوچتا ہے اسے دسمبر کہا جاتا ہے۔ راستوں میں جمی ککر کی پھسلن، برف کے گرتے گالوں اورسرد ہواؤں کے سبب لوگ گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں اسکردو کا شمار سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں اکیس دسمبر کے بعد سردی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ گھروں میں دیسی انگیٹھی میں لکڑی جلا کر اس کے گرد بوڑھے بچے جمع ہو کر آگ کی تمازت سے جینے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اسی موسم میں اس خوبصورت شہر سے خوش گلو پرندے بھی غائب ہو جاتے ہیں ، درختوں کے پردے مرجھا جاتے ہیں، سبزہ و گل غائب ہو جاتا ہے۔ کاروبار زندگی منجمداور یخ بستہ ہو جاتا ہے۔ اس دوران دن کی چادر بھی سمٹ جاتی ہے جبکہ رات کی وادی تاریک اور گہری ہو جاتی ہے۔ سورج بھی ہلال عید بن جاتا ہے۔ بادل اور برفباری کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ برف کی چادر اوڑھ کر اسکردو شہر سنساں ہو جاتا ہے اور ہو کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ صبح دس بجے تک شاہراہوں پر اکا دکا انسان نظر آتا ہے اور سڑکوں پر خاموشی کی سنسناہٹ رقص کرتی اور اعصاب شکن سردی راج کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن اب کی بار لگتا ہے یہ وہ بے جا ن اور منجمد دسمبر نہیں جس میں لوگ آگ کے گرد جمع ہو کر یا کمبل اوڑھ کر گزارا کرتے ہیں۔ میں نے جب ایک ریڑھی چلانے والے مزدور کا بدلا بدلا تیور دیکھا تو دیکھا کہ اس کے عزم کی گرمائش سے برف پگھل جا ئے گی ۔ مڑ کر دوسری طرف دیکھا تو ستر سال کا بوڑھاکانپتے ہاتھ، ہاتھ میں لاٹھی اٹھائے ہوئے ہے جنکی بے خواب آنکھوں میں غیض و غضب ہے یہاں کی برف پگھلانے کیلئے یہی کچھ کافی تھا۔ شاید اس دسمبر میں اس قوم نے کوئی اور تاریخ رقم کرنی ہے۔ اس تاریخی سردی میں قوم نے ٹھانی ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا جائے یہ دسمبر کی 25تاریخ ہے ۔ آج اسکردو شہر کے در و دیوار لرز رہے ہیں۔ میرے لیے یہ منظر انتہائی عجیب و غریب اور ناقابل یقین ہے۔

وہ دسمبر جس میں خاموشی کی سنسناہٹ گاتی ،رقص کرتی ،دھول اڑاتی، یخ بستہ ہوائیں راج کرتیں اورسخت سردی خون جمادیتی ہے اس میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندریہاں موجود ہے۔ سورج غروب ہونے سے قبل گھروں کو لوٹنے والے عوام شام ڈھلنے تک یہاں پر موجود ہیں۔ اس ٹھٹھرتی سردی میں لوگ مظلوموں اور محروموں کی فریاد کی جگہ یاد گار شہدا ء اسکردو کے گرد جمع ہیں۔ حقوق سے محروم عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی حکومتی کوشش پر اب خطے کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہے۔ میں اسوقت یادگار شہداء سے کئی سو فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر عوامی ایکشن کمیٹی اور ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ آغا علی رضوی کی تقریر سن رہا ہوں۔ آغا علی رضوی وہی شخصیت جو میدان عمل کا شہسوار ہے ۔ جو وہ کہتا ہے کر گزرتا ہے۔ جو بھی ان کے دل میں منہ سے کہہ دیتا ہے۔ ان کی سخت گوئی پر مجھ سمیت بہت سوں کو شکایت ہونے کے باوجود دھرنے کو چھ دن گزر چکے ہیں اور ہر کسی کی نگاہیں اس مرد مجاہد کی طرف ہیں۔ ان کا خلوص اور استقامت ناقابل یقین حد تک ہے ۔ میں مسلک کے اعتبار سے ان سے الگ ہوں ،لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ٹیکس کے خلاف جاری تحریک میں جان اس وقت ہی آئی جب یہ شخص زیارات سے واپس آگیا۔انہوں نے خود کربلا سے واپسی کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ کربلا سے امام عالی مقام سے عزم اور حوصلہ لے کر آیا ہوں اور ا س مظلوم قوم پر جاری مظالم کے خلاف لڑنے کا عزم کر کے آیا ہوں۔ٹیکس کے خلاف جاری تحریک کے روح رواں انجمن تاجران کے نڈر صدر غلام حسین اطہر کا لہجہ بھی پر اعتماد تھا وہ کہہ رہے تھے جب آغا علی رضوی نے ساتھ دینے کا کہا ہے تو کامیابی یقینی ہے، یہ شخص جان دے سکتا ہے لیکن عوامی حقوق پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف حکومتی نمائندے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام کو شیعہ سنی اور گلگتی بلتی کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جی بی میں ٹیکسز کا آغا ز پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا تھا اور موجودہ ٹیکس کا فیصلہ بھی اسی دور میں ہوا تھا چنانچہ نون لیگ تمام تر ملبہ پیپلز پارٹی پر ڈال کر خود بری ہونے اور عوامی لعن طعن کرنے اور راہ فرار اختیار کرنے کی کوششوں کے ساتھ دھمکیوں اور الزاما ت بھی شروع کیے ہوئے ہیں۔ حفیظ الرحمان کے ارد گرد پھرنے والوں نے ٹیکس کے خلاف تحریک چلانے والوں کے تانے بانے کو انڈیا اور راء تک سے ملایا ہے۔ وزیر قانون گلگت بلتستان نے واضح پیغام میں کہا کہ حالیہ ٹیکس مخالف تحریک کے لیے را سے پیسے آرہے ہیں اور انکے اشارے پراحتجاج کر رہے ہیں۔ وزیراعلی گلگت بلتستان نے گزشتہ رات اپنے ویڈیو پیغام میں عوام کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کے خلاف ٹحریک غیرملکی ایجنڈا ہے جسے کامیاب ہونے نہیں دیں گے انہوں نے کہا کہ جو شرپسندی کر یں گے انکے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔

اس یخ بستہ ،دسمبر کی سردہواؤں کا راج کرتی اور خون جمادینے والی سرد شاموں میں، میں نے ہر چوک چوراہے سے عوام کو امڈ امڈ کے یادگار شہداء کی طرف ایک عزم کیساتھ بڑھتے دیکھا۔ ان حالات میں لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر پید ل چل کر آتے دیکھا جبکہ ہڑتال کی وجہ سے تما م پیٹرول پمپس بند ہیں۔ صرف یہی نہیں پورے بلتستان میں آج چھٹا روز ہے تمام دکانیں مکمل طور پر بند ہیں جبکہ کسی بھی دکاندار پر جبری اور زبردستی نہیں ہے۔ عوام نے اس تحریک پر سو فی صد اعتما د کا اظہار کر دیا ہے۔ میں نے حکومت کی غیر لچکدار اور میں نہ مانوں کی پالیسی کے سبب پست ہوتے ہوئے حوصلے والے افراد کی زبانی سنا کہ آغا علی رضوی اس تحریک کو کامیاب بنا کر دم لے گا۔ ایک طرف حکومتی رویے اور دوسری طرف عوام کا اعتماد عجیب منظر تھا۔ عوام کے دم توڑتے حوصلوں میں نئی روح پھونکنے کے لیے ایک کالے رنگ کے عمامے والے شخص کی کرشماتی تقریر کافی تھی۔ وہ پست حوصلوں کو بلند کرتے، مرے ہوئے جذبات کو زندہ کرتے، دفن ہونے والے عزم کو قم کہہ کر اٹھاتے دیکھا ۔ میرے لیے یہ زندگی کا عجیب منظر تھا۔

وہ دسمبر جس میں خاموشی کی سنسناہٹ رقص کرتی تھی اس میں، میں نے دیکھا کہ عوامی قیادت کس چیز کا نام ہے۔ قائد اور رہبر وہ ہوتا ہے جو خود آگے بڑھتا ہے اور عوام سے کہتا ہے کہ میرے پیچھے آؤ۔ ہمارے ہاں رہبر اور لیڈر وہ ہوتے ہیں جو عوام کو آگے کرتے ہیں اور خود نرم و گداز صوفوں پر چائے کی چسکیاں لیتے ہیں اور کامیابی پر جشن مناتے ہیں ایسے لیڈر اصل میں گیڈر ہوتے ہیں لیڈر نہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو آگے بڑھ کر جان ہتھیلی پہ رکھ کر تمام تکالیف برداشت کرنے کے بعد کہتا ہے کہ میرے نام کے نعرے مت لگاؤ ہمار ا قائد غلام حسین اطہر ہے۔ ایسی بے لوث قیاد ت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا جب لوگ آغا قدم بڑھاؤ کے نعرے لگا رہے تھے تو انہوں نے روک کر کہا کہ میں عوام کا خادم اور اس تحریک کا ادنی سا کارکن ہوں اور ہمارا قائد اطہر غلام ہے اگر وہ اٹھنے کو کہیں تو اٹھیں گے اور بیٹھنے کو کہیں تو بیٹھیں گے ۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ غلام حسین اطہر کی قیادت ہی اس کی کامیابی کی ضامن ہے۔ یعنی وہ ہر طرح کا کریڈٹ اپنے نام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ تمام انجمنوں اور سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے رہے۔اور تحریک کا چھٹا روز انتہائی منفرد دن تھا جب آغا علی رضوی نے اعلان کیا کہ اطہر غلام نے کورکمیٹی سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ کل گلگت کی طرف لانگ مارچ کریں گے اور وہیں پر ٹیکس سمیت صوبائی حکومت کا تختہ الٹ کر واپس آئیں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ایسا لگا عوام کو فتح کی نوید ملی عوام اٹھ اٹھ کر آغا تیرا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا کے نعرے بلند کرتے رہے۔آغا علی رضوی نے گلگت جانے کے لیے گرم لباس ، کمبل اور راستے میں کھانے کے لیے خشک سامان لے کر اگلے دن پہنچنے کا اعلان کر دیا۔

وہ دسمبر جس میں خاموشی کی سنسناہٹ رقص کرتی ، یخ بستہ ہوائیں راج کرتیں او سردی خون جمادیتی ہے اس ماحول میں میں نے دیکھا کہ یادگار شہداء اسکردو تحریر اسکوائر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا اجتماع نہیں دیکھا تھا۔ چلو چلو گلگت چلو کی صداؤں سے اسکردو شہر کی فضاء گونج رہی تھی ۔اس تحریک میں شہر سے قافلہ علامہ شیخ ضامن اور شیخ طہٰ ٰ موسوی کی قیادت میں پہنچ گئے، کھرمنگ سے مجاہد عالم دین شیخ اکبر رجائی کی قیادت میں پہنچ گئے۔ خپلو سے عوام کی بڑی تعداد پہنچ گئی ۔ اس تحریک میں شیعہ ،سنی، نوربخشیہ ، اہل حدیث سب ایک ہو چکے تھے۔ قافلہ درود و سلام اور دعائیہ کلمات کے ساتھ یادگار شہدا ء سے آغا علی رضوی اور غلام اطہر کی قیادت میں نکلنا چاہتا تھا ۔ میں بھی ان میں موجود تھا اور یہ میرے لیے عجیب جذباتی منظر تھا جب عوام نے قافلے کو یعنی گاڑی والوں نے جانے نہیں دیا۔ لوگ بضد تھے کہ آغا کو تنہا جانے نہیں دیں گے حالانکہ ہزاروں افراد گاڑیوں میں قافلے کی صورت میں موجود تھے لیکن عوام تھے کہ سنبھل نہیں رہے تھے یہاں تک کہ عوام کا ایک بے قابو بپھرا ہو ا سمندر قافلے کے آگے نکل گیا اور پیدل مارچ شروع کر دیا ، قائدین نے مل کر منتیں کرتے ہوئے روکنے کی بھرپور کوششیں کیں ۔ لیکن عوام نے کسی کی نہیں سنی، پید ل اور گاڑیوں کا قافلہ نعروں کی گونج میں گلگت کی طرف چل پڑا۔ یہ قافلہ نہیں سمند ر تھا عوام کا۔

اس یخ بستہ سرد برفیلی رات میں، میں نے عزم و ہمت کے چٹان ، کے ٹو سے بلند حوصلہ رکھنے، نڈر بہادر اور شجاع عوام کے محبوب قائد آغا علی رضوی کو اس وقت رات کے وقت پھوٹ پھوٹ کے روتے دیکھا جب عوام چار گھنٹہ پیدل چل کر گمبہ پہنچ گئے۔ آغا علی رضوی نے انہیں گزارش کہ تیل کی قلت کی وجہ سے گاڑیاں کم ہیں اور جتنی ہیں اس تحریک کی کامیابی کے لیے کافی ہیں آپ لوگوں نے اس سردی میں یہاں تک پید ل سفر طے کیامزید آگے نہ جائیں۔ جب عوام نے دوبارہ کہا کہ ہم ایک لمحے کے لیے آپ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تو آغا علی رضوی جلال میں آگئے وہ بھی عوام کے ساتھ پیدل چل نکلے۔ انہوں نے تاجران سے گزارش کہ فوری گاڑیوں کا انتظام کرو جب سب کے لیے گاڑی مل جائے اس وقت تک میں گاڑیوں میں نہیں بیٹھوں گا ۔ غلام حسین اطہر نے جتنی مزید گاڑیاں منگوائی جاسکتی تھی منگوائیں اور یہاں تک کہ کھلے چھت والی گاڑیوں پر اس ٹھنڈ میں لوگ بیٹھتے گئے ۔ اس کے باوجود گاڑیاں کم پڑ گئیں تو تحریک کے قائد نے آغاعلی رضوی سے گزارش کی کہ آپ مان جائیں اور عوام کو واپس بھیج دیں ۔ قائد تحریک کے حکم پر آغا علی رضوی نے لبیک کہا اور عوام سے دوبارہ خطاب کرکے پیادہ سفر کرنے والوں کو روکنے کو کہا۔ انکی تاکیدانہ لہجے کے باوجود عوام نے روتے ہوئے انکے پاؤں پکڑنا شروع کردئے کہ ہم آپ کو تنہا جانے نہیں دیں گے۔ چند جوانان کو جب یہ علم ہوا کہ انہیں واپس بھیجا جا رہا تو سر پیٹ کر رونے لگے۔ جب محبت ، خلوص اور فدا کاری کا یہ منظر دیکھا تو وہ خود بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔آغا علی رضوی کے سرخ گالوں سے آنسوؤں کے قطر ے موتی کی طرح گرنے لگے۔ یہ عجیب منظر تھا جب وہ رو پڑے تو کئی اور لوگوں نے مل کر رونا شروع کر دیا۔ یہ رونا ،یہ گریہ خوشی کا بھی تھا اور اعتماد کا بھی،اس میں عوام کی محبت کا عنصر بھی شامل تھا اور قیادت کا خلوص بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا جو آنسوؤں کی صورت میں نکل رہا تھا۔یہی وہ موقع تھا جب عوام کو اپنی قیادت پر فخر محسوس ہوا ہوگا،اسی لیئے جب عوام نے اس ماحول میں آغا کے فیصلہ کو سنا تو اس کا فوری اثر ہوا اور عوام نے بات مان لی اور واپس جانے کیلئے تیار ہو گئے۔

دسمبر کی اس یخ بستہ برفیلی رات کے اس پہر میں بھی اپنے اہل تشیع دوستان کیساتھ روندو ڈمبوداس کے ایک امام بارگاہ میں دیگر جوانوں کے ساتھ موجود تھا۔ یہ رات کے بارہ بجے تھے۔ رات یہیں قیام کے بعد اگلے روز گلگت کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اہلیان روندو جو کہ مہمان نوازی اور شجاعت کے حوالے سے یکتا اور یگانہ ہیں نے چھ سات گائے ذبح کرنے کے باوجود کھانا پڑ گیا تھا۔ او ر حسن اتفاق سے کچھ زیادہ جذبات میں آکر دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا البتہ بیگ میں کچھ خشک فروٹس تھے لیکن وہ سب کے سامنے کیسے کھائیں۔ باہر کسی دکان میں جا کر بسکٹ وغیر ہ سے پیٹ کی آگ بجھائی اور واپس امام بار گاہ میں پہنچ گئے تو اس تحریک کو رونق بخشنے والے حاجی پٹھان ماحول کو گرما رہے تھے۔ میں بھی کسی کونے میں دبک کے بیٹھ گیا صبح کی آذان ہوگئی لیکن نیند ندارد ۔ سخت ترین سردی اور شدید برفباری روندو میں ہمارے انتظار میں تھی۔ اس برف میں گاڑی چلانا بھی ایک عذاب سے کم نہ تھا ۔ صبح کی نماز مشکل سے ادا کرنے کے بعد دوبارہ سونے کی کوشش کی تو لانگ مارچ کے شرکاء کی خوش گپیاں بھاری ہوگئیںِ یہ تمام رات ٹھٹھرٹھٹھر کے گزار ی اور صبح کے ناشتے کے بعد دوبار ہ عازم سفر ہونے کو تھے کہ گلگت سے ایکشن کمیٹی کے سربراہ مولانا سلطان رئیس کی طرف سے پیغام آیا کہ دو بجے تک مذاکرات کا تیسرا دور ہوگا دو دور بے نتیجہ ختم ہو ئے ہیں اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ دیں گے۔ اس موقع پر روندو کے عوام امڈ کے آئے اور احتجاجی جلسے بھی ہوئے۔دو بجے کے بعد مذاکرات میں مثبت پیش رفت کے بعد حکم ہوا کہ قافلہ واپس جائے گا۔ لانگ مارچ کے خوف کی وجہ سے حکومت مذاکرات کی ٹیبل پر آگئی تھی ۔ دوسری طرف اس مذاکرات میں کامیابی میں پاکستان آرمی کا بھی غیر معمولی کردار سامنے آیاہے ۔ ایف سی این اے کمانڈر ہی کی ضامن پر انجمن تاجران اور ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کا سمجھنا تھا کہ حکومت پر کوئی اعتماد نہیں اور مذاکرات کے دھوکہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ اس پرگھٹن ماحول میں پاکستان آرمی نے ایک بار پھر پاکستان کو درپیش بحران سے نکالنے میں مثبت کردا ر ادا کیا۔

اس موسم میں رات کے نو بجے جب ہم واپسی پر اسکردو شہر میں داخل ہوگئے تو کچورا سے حسینی چوک تک ہزاروں مرد و زن استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہماری واپسی کی خبر پھیلتے ہی عوام گاڑیوں میں پیدل ہمارے انتظار میں تھے۔ مختصر یہ کہ رات گیارہ بجے قریب جب حسینی چوک انجمن تاجران کے آفس کے سامنے پہنچے تو عوام نے اپنے محبوب قائد غلام اطہر کو دائرے میں لے کر نعرے لگارہے تھے ۔ اس وقت جشن کا منظر تھا ،ابھی محبوب قائد آغا علی رضوی کا انتظار ہو رہا تھا اتنے میں فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ جگمگاتے جوانوں کے دائرے میں مجمع میں داخل ہوگئے ، انکی آمد کا اعلان سٹیج سے کیا گیا عوام ان کی طرف جھپٹ پڑے ان سے گلے ملے انکے عمامے چومے ، محبتوں کے اظہار کے ساتھ انہیں سٹیج پر پہنچایا گیااس دوران آغا آپ پے درود و سلام کے نعرے بلند ہوتے رہے۔اسٹیج پر احمد چو، راجہ جلال حسین مقپون، وزیر عدیل شگر کے علاوہ آغا علی رضوی اور غلام اطہر نے خطاب کرکے کہا کہ ہم نے لانگ مارچ واپس کیا ہے کل سے احتجاجی دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ٹیکس کے خاتمے کا نوٹیفیکیشن ہمارے ہاتھ میں نہیں آتا۔ ادھر گلگت میں مولانا سلطان رئیس کی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت کے سبب ہر قسم کی علاقائی ، لسانی اور مسلکی تعصب کو ابھرنے نہ دیا۔ حکومتی مشینری یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ بلتستان والے شیعہ گلگت کے سنی وزیراعلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تحریک میں شیعہ ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث، نوربخشیہ سب ایک ہو چکے تھے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کی دفن ہو گئی تھی۔ داریل ، تانگیر،چلاس، غذر، ہنزہ ،نگر،اور بلتستان کے تمام مسلم لیگ نون کے عوام دشمن فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگئے تھے۔ ابھی جی بی بھر میں احتجاج جاری ہے اور یہ نوٹیفکیسن ملنے تک جاری رہے گا بلتستان میں ہڑتال میں نرمی لائی گئی ہے۔ اس تحریک میں تمام سیاسی ،سماجی و مذہبی جماعتیں شریک تھیں۔

اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ اس یخ بستہ سرد موسم میں جب انسان اور جاندار تک سوکھ جاتے ہیں ہم نے اس بلند چوٹیوں کی بیچ محبت کے پھول کھلتے دیکھے ہیں ، قربانی کی کلیاں چٹکتی دیکھی، اتحاد کی خوشبو پھیلتی دیکھی،عزم و ارادے کا چمن مہکتے دیکھا، حوصلوں کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، امید کی کرنیں پھوٹتی دیکھیں، خوشیوں کی بہار آتے دیکھی، فتح کا سہرا سجتے دیکھا، نفرت کی راتیں ڈھلتی دیکھیں،وفاداری کا کونپل پھوٹتے دیکھا، سیادت کا چہرہ دمکتے دیکھتا ،شجاعت کا موسم آتے دیکھا،پیار کی گھٹائیں چھاتی دیکھی،جیت کا نغمہ گاتے دیکھا، غریب کا آنسو تھمتے دیکھا، مظلوم کی فریاد سنتے دیکھی اور ظلم کا محل گرتے دیکھا،ناانصافی کے قدم ڈگماتے دیکھے،نفرت کی دیواریں گرتی دیکھی، غرور کا بت گرتے دیکھا، حکمرانی کا تخت لرزتے دیکھا،سازشوں کی کشتی ڈوبتے دیکھی، حاکم کا چہرہ بجھتے دیکھا،فرقہ پرستی کا تراشیدہ بت چٹخ کے زمیں بوس ہوتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔سال رفتہ کا دسمبر تو کتنا مہربان تھا تو میری زندگی میں پھر پلٹ آئے گا۔ اے 2017کا دسمبر تیرا اس عوام پر بہت احسان ہے ۔ تیرا لطف بہت عجیب تو لوٹ کے آنا ، تو لوٹ کے آنا۔۔۔ آخر میں اس تحریک کی جان اور عوامی قائد آغا علی رضوی کی نذر چند اشعار کیساتھ اجازت چاہوں گا۔

یہ تیرا جمال کامل، یہ شباب کا زمانہ
دل دوستان سلامت، دل دشمناں نشانہ
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ


تحریر: عبداللہ گانچھے
بشکریہ: ماہانہ افکار العارف

وحدت نیوز(آرٹیکل) کسی بھی ریاست کا سربراہ ، اس کا ترجمان ہوتا ہے، اس وقت مسٹر ٹرمپ فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ امریکی صدر کا نام ہے، وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں اس کے پیچھے مکمل پلاننگ اور نقشہ ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ  دنیا میں ہونے والی پے درپے تبدیلیوں نے در اصل سعودی و  امریکی مفکرین اور اسٹیٹجک اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

افغانستان میں  سعودی عرب اور امریکہ طالبان کے بعد دوبارہ طالبان نما حکومت بنانےمیں ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں شیعہ و سُنّی کا محاز گرم کرکے ایران کے خلاف ماحول بنانے میں بھی  انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے، عرب دنیا میں قطر  پہلے ہی امریکہ نواز اتحاد سے فرار ہو چکا ہے، عراق میں شیعہ  و سنّی و مسیحی اور یزدی مختلف اقوام و ملل نے مل کر داعش و طالبان جیسے دہشت گرد ٹولوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے ، اور ادھر شام میں بشار الاسد نے امریکہ اور اس کے حامی عربوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں ،لبنان کی سیاست سے حزب اللہ کو باہر کرنے کے لئے سعد حریری کو سعودی عرب بلاکر زبردستی  وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ   دلوانے کی چال چلی گئی جو ناکام ہوئی اور  سعد حریری نے واپس لبنان آکر اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور یوں امریکہ و سعودی عرب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے،  جون ۲۰۱۷ میں ایران کے دارالحکومت تہران میں  داعش سے ایران کی  پارلیمنٹ کی عمارت اور امام خمینی کے مزار حملہ کروایا گیا ،اِن  حملوں میں 12افراد جاں بحق جبکہ 42زخمی ہوگئے ، حملہ کروانے کا مقصد ملک میں انارکی اور خوف پھیلانا تھا اور ایران سے غیرمنطقی  بیانات  داغنےکی امید تھی جو کہ خاک میں مل گئی، اس کے بعد حالیہ دنوں میں ایران میں  ریالوں اور ڈالروں کی مدد سے ننھے مُنّے جلسے جلوسوں کے ذریعے  ایرانی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی گئی لیکن  وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی۔اب رہی بات  یمن اور بحرین  میں سعودی مداخلت کی  تو ساری دنیا ان ممالک میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں  کی مداخلت اور حملوں  کی بھرپور  مذمت کررہی ہے۔

اس وقت امریکی و سعودی حکومتیں مکمل طور پر بوکھلاہٹ کی شکار ہیں،  گزشتہ دنوں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے  بوکھلاہٹ کے مارے پاکستان سے بھی تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں، امریکی ترجمان کے مطابق  پاکستان کو 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد جاری نہیں کی جائے گی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس کی روشنی میں ہی دونوں ممالک کے تعلقات بشمول فوجی امداد کا فیصلہ کیا جائے گا۔

یاد  رہے کہ  ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کی 255 ملین ڈالر کی امداد روکی ہوئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق   امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو15 سال میں33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی،پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا وہ سمجھتے ہیں ہمارے لیڈرز بے وقوف ہیں۔

ٹرمپ نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں  فراہم کرتا ہے ، جس سے افغانستان میں دہشتگردوں کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔[1]

اگر قارئین کو یاد ہوتو کچھ عرصہ پہلے  اسی طرح    سعودی وزیر دفاع   محمد بن سلمان آل سعود نے بھی پاکستانیوں کو دھوکہ باز کہاتھا۔[2]

قابلِ ذکر ہے کہ  اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بعد فلسطین کو بھی امداد روکنے کی دھمکی دے دی ہے۔امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا  ہےکہ امریکا پاکستان و دیگر ممالک کو اربوں ڈالر دیتا ہے مگر یہ کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے فلسطین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہر سال ہم سے اربوں ڈالر لیتا ہے مگر یہ ہمارا احترام نہیں کرتا جب کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کیلئے بھی تیار نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا کہ ہم نے نئے امن مذاکرات کے تحت یروشلم جیسے متنازعہ شہر کا مسئلہ اٹھایا جس پر بحث کرنا ایک بہت مشکل عمل تھا لیکن اسرائیل کو بھی اس کے لیے مزید کام کرنا ہوگا تاہم اگر فلسطین امن کے لیے تیار نہیں تو ہم مستقبل میں اس کی امداد کیوں جاری رکھیں۔[3]

اس وقت امریکہ اور سعودی عرب دنیا میں اپنی واضح شکست اور غلط پالیسیوں کے عیاں ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے ملک کی پُشت کے پیچھے اپنا منہ چھپانا چاپتے ہیں، اس حوالے سےانہیں پاکستان اور فلسطین ہی نظر آئے ہیں لیکن اب یہ پالیسی بھی چلنے والی نہیں چونکہ پاکستان بالآخر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور پاکستانی عوام پہلے سے ہی امریکہ و سعودی عرب کے اثر و نفوز سے نالاں ہیں دوسری طرف فلسطینی عوام  بھی امریکہ و سعودی عرب کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔

اگر صورتحال یونہی چلتی رہی اور امریکی و سعودی پالیسی ساز اداروں نے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی نہ کی تو  مستقبل میں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی امریکہ و سعودی عرب کو ہی بھگتنا پڑے گا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree