وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کا ذکر آتے ہی سنہ1948ء کا تاریخی نکبہ یعنی فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی صیہونی مصیبت ارو تباہی غاصب اسرائیل کے وجود کا خیال آتا ہے جس کے بعد سے آج تک تقریبا ستر سالہ دور میں مظلوم فلسطینی ملت غاصب صیہونیوں کے شکنجہ میں ہے اور بد ترین مظالم برداشت کر رہی ہے اور خاص بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت روز اول سے ہی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے وحشت ناک مظالم کی سرپرستی کر رہی ہے اور صیہونیوں کے لئے مسلسل اسلحہ کی امداد میں اربوں ڈالرز غاصب اسرائیل کو دے چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حالیہ دنوں امریکی حکومت نے انسانی قتل وغارت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ اور مسیحی برادری کے خلاف ایسا اقدام اٹھا لیا ہے کہ جس کے باعث نہ صرف دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجودکروڑوں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کے تاریخی دارلحکومت یروشلم (القدس) کو صیہونی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے لئے دارلحکومت قرار دینے کا یکطرفہ فیصلہ اور اعلان کیا ہے اس عنوان سے دنیا بھر میں مسلم دنیا احتجاج کر رہی ہے جبکہ فلسطین کے اندر مسیحی عوام نے بھی امریکی حکومت کے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اسی عنوان سے سب سے اہم پیش رفت انڈونیشیا کے دارلحکومت جکارتہ میں منعقد ہوئی جو کہ ٹھیک 7دسمبر کو جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی جبکہ 6دسمبر کو امریکی حکومت نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔جکارتہ میں ہونے والی کانفرنس میں اہم ترین فیصلے کئے گئے جس کو ’’اعلان جکارتہ‘‘ کا عنوان دیا گیاہے۔
جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والی کانفرنس کاعنوان ’’اعلان بالفور کے ایک سو سال اور فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی مزاحمت‘‘ رکھا گیا تھا جس میں انڈونیشیا کی اہم شخصیات سمیت پانچ سو سے زائد این جی اوز، انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل اداروں کے اراکین سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں اور بالخصوص فلسطین،پاکستان ، لبنان، شام،ایران،بھارت، ملائیشیا، فلپائین،ارجنٹائن سمیت دیگر ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ بین الاقوامی مندوبین میں فلسطین سے معروف اسکالر طاہر شیخ، پاکستان سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر صابر ابومریم، لبنان سے عالمی تحریک برائے حقوق واپسی فلسطین کے سربراہ شیخ یوسف عباس، ایران سے انقلاب اسلامی ایران کے بانی رہنما آیت اللہ امام خمینی کی دختر محترمہ ڈاکٹر زہرا مصطفوی ، فلسطینی تحریک آزادی کی این جی اوز کے اتحاد کے ترجمان سروش نژاد، بین الاقوامی خبر رساں ادارہ قدس پریس کے سربراہ شکیبائی ، بھارت سے معروف اسکالر او ر فلسطین موومنٹ کے چئیر مین فیروز مٹھی بور والا ، ملائیشیا سے علماء کونسل کے مرکزی رہنما شیخ محمد عزمی، فلپائن سے فلسطین فاؤنڈیشن کے چیئر مین علی البنال اور ارجنٹائن سے رابن سہیل اسد و دیگر نے شرکت کی ۔
کانفرنس کی میزبانی وائس آف فلسطین انڈونیشیا کے چیئر مین مجتہد ہاشم کی جانب سے کی گئی تھی جبکہ کانفرنس میں جکارتہ کی معروف شخصیات پارلیمنٹ کے اراکین بین الاقوامی ہم آھنگی برائے مذہب کے صدر اور صدر انڈونیشیا کے ترجمان بالترتیب رکن اپرلیمنٹ ڈاکٹر زلکفی حسن، عبد اللہ بیک، معروف پانسیلا، ایما راچمن اور دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کے اختتام پر شرکائے کانفرنس سے متفقہ طور پر مسئلہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کہ جس میں امریکی صدر نے القدس شہر کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، اس حوالے سے اہم اعلان جاری کیا جسے تاریخی حیثیت دیتے ہوئے ’’اعلان جکارتہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ کانفرنس اعلان بالفور کے ایک سو سالہ سیاہ تاریخ کی مذمت میں منعقد کی گئی تھی جس پر اعلان جکارتہ کی ایک تاریخی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔اعلان جکارتہ مندرجہ ذیل ہے۔
اعلان جکارتہ میں کہا گیا ہے کہ ہم انڈونیشیا کے دارلحکومت جکارتہ میں پارلیمنٹ ہاؤس میں مورخہ7,8دسمبر2017 ء کو منعقد ہونے والی عالمی فلسطین کانفرنس کے شرکاء جو کہ فلسطین، پاکستان، لبنان، شام، ایران، بھارت، ارجنٹائن، فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہیں متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ، تحریک آزادئ فلسطین کہ جس کا دارلحکومت یروشلم شہر (القدس شہر) ہے اس کی حمایت جاری رکھیں گے، ہم دنیا بھر کے عوام اور اقوام سے کہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کے لئے دنیا بھر میں جاری عالمی مزاحمت اور انتفاضہ فلسطین کی حمایت جاری رکھیں تا کہ فلسطین کے مظلومین کے لئے سنہ1948ء کی سرحدوں پر محیط ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کہ جس کا دارلحکومت القدس ہو، اوروہ تمام فلسطینی اقوام (مسلمان، عیسائی، یہودی) اوروہ لوگ کہ جو سنہ1917ء سے پہلے اور بعد میں دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے فلسطین نہ آئے ہوں باہم اتفاق و یکجہتی کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کریں۔اعلان جکارتہ کے سات نکات میں دوسرا اہم نکتہ میں کہا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس ۔ جکارتہ واضح طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے دارلحکومت القدس ۔یروشلم کی حیثیت بدلنے کے یکطرفہ فیصلہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے ٹرمپ کے اس فیصلہ کو زبردست طریقے سے مسترد کر دیا گیاہے ۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کاالقدس سے متعلق یکطرفہ فیصلہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلی توہین اور خلاف ورزی ہے۔ہم ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی دارلحکومت القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کے اس اعلان کویروشلم کے لئے شدید خطر ناک تصور کرتے ہیں اور اسے فلسطین و القدس کو صیہونیوں کے لئے یہودیانے کی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں جو کہ نہ صرف یروشلم میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کے لئے سنگین خطرہ ہے بلکہ مسیحی مقدس مقامات کو بھی شدید خطرہ لاحق سمجھتے ہیں۔
اعلان جکارتہ کے تیسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ برطانوی استعمار کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کے لئے پیش کیا گیا ’’اعلان بالفور‘‘ فلسطینیوں کے لئے ’’نکبہ‘‘ ثابت ہوا جس کے باعث گذشتہ ایک سو سال سے فلسطینیوں کی نسلوں کی تباہی جاری ہے ، ہم متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ برطانوی استعماری حکومت کی جانب سے سنہ1917ء میں فلسطینیوں کے خلاف پیش کیا جانے والا ’’اعلان بالفور‘‘ ایک ناقابل رحم اور ناقابل معافی جرم ہے ۔چہارم بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور فلسطین کے مظلوم عوام پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط اور روزانہ کی بنیادوں پر فلسطینیوں پر جاری رکھے جانے والے صیہونی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔اعلان جکارتہ کا پانچواں نکتہ دنیا بھر میں تحریک آزادی فلسطین کے لئے سرگرم افراد سے اپیل سے متعلق ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں تحریک آزادئ فلسطین کے لئے سرگرم عمل اداروں، گروہوں، تنظیموں، این جی اوز، سول سوسائٹی، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور رہنماؤں، انسانی حقوق اور امن پسند کارکنوں سے کہتے ہیں کہ سب کے سب متحد ہو کر ایک آواز ہو تے ہوئے فلسطین کی آزادی کے لئے جاری مزاحمت اور مزاحمتی گروہوں کی حمایت کریں اور فلسطین کے مقدس دارلحکومت القدس کے دفاع وتحفظ کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔اعلان جکارتہ کا چھٹا نقطہ خصوصی طور پر مسلم و اسلامی دنیا سے متعلق ہے کہ جس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ہم خصوصی طور پر مسلم دنیا سے کہتے ہیں کہ القدس کے دفاع کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد کو قائم رکھیں اور دشمن کے منفی ہتھکنڈوں فرقہ واریت، تقسیم اور دیگر منفی سازشوں کا مقابلہ اپنی وحدت اور اتحاد سے کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور فلسطین و القدس سے متعلق اپنی شرعی ذمہ داریوں کو انجام دیں تا کہ القدس غاصب صیہونیوں کے شکنجہ سے آزاد ہو جائے۔اعلان جکارتہ کے ساتویں اور آخرین نقطہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس جکارتہ فلسطینی مہاجرین کہ جنہیں غاصب صیہونیوں نے جبری طور پر فلسطین سے بے دخل کیا ہے ان سب فلسطینیوں کے کے حق واپسی کی بھرپو ر حمایت کرتے ہیں ، ہم عالمی برادری سے غزہ کے مسلسل کئی سالہ صیہونی محاصرے کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور فلسطین بالخصوص مغربی کنارے میں صیہونی آباد کاری کے عمل کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تحریر: صابر کربلائی
وحدت نیوز (آرٹیکل) میں نے جب پہلی مرتبہ ان کی گفتگو سماعت کی میرے دل پہ پڑا غلاف اتر گیا۔ آپ اتحاد امت کا درس دے رہے ۔ واعتصموا بحبل للہ جمیعا کی تشریح میرے سینے میں اتر گئی۔ میری آنکھوں سے تعصب کا چشمہ اتر گیا۔ ان کی اس دلنشیں گفتگو میں اتنی حلاوت تھی کی الفاظ واقوال کی لذت میں اپنے اندر محسوس کرنے لگا۔ دوران گفتگو ہی میرے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش مجھے بھی ایسی اہل علم ہستی کی رفاقت ، قرابت و صحبت نصیب ہو جو اتحاد امت کے لئے کوشاں ہے۔ وقت قبولیت تھا فورا مجھے مصافحہ و دست بوسی کا موقع میسر آیا، دوران مصافحہ میرا ایک دوست بھی میرے ساتھ تھا، انھوں نے فرمایا کہ شام کو اس برخوردار کو بھی ساتھ لے آنا ۔ مجھے ان کا یہ حکم سن کہ بہت مسرت ہوئی۔ شام کو حمید مجھے ساتھ لے گیا، فرمانے لگے کہ مجھے دوران گفتگو ایسا لگا کہ آپ پہ میری باتیں اثر کر رہی ہیں ۔ اس لئے آپ کو بھی زحمت دی۔ اتحاد امت اور مشن حسینی کے لئے میں اپنا سینا گولیوں کے بھی پیش کر سکتا ہوں۔
بہر حال طویل گفتگو ہوئی میں نے ان کے قلب میں امت رسول کا غم ریکھا ۔ محبت میں اور اضافہ ہوتا رہا۔ یہی اضافہ قرب و رفاقت کی شکل اختیار کر گیا ۔ اب اکثر شرف زیارت بھی ہوتا اور نورانی علم کی موتیوں کی خیرات بھی ملتی۔ اب قرب کی جہ سے ان کے شب و روز سے آگاہ و آشنا بھی ہوتا رہا۔ ان کو حلیم الطبع اور ملنسار و باوفا پایا۔ ہمیشہ برادر اکبر کی طرح دیکھا، اور ان سے بھی ایسی ہی شفقت و محبت پائی ۔ میرا محسن شب و روز میرے قلب و دماغ میں رہتا ہے۔ ملنساری میں اپنے اجداد کا آئینہ ہے۔ وفاایسی بے مثل ہے کہ علمدارکربلا کی جھلک نظر آتی ہے۔ جرات و ہمت ہمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی ہلکا سا گائل ہو تو ہمت ہار جاتا ہے ۔ مگر اس کے گلو ے نازک سے گولی آر پار ہو گئی مگر یہ وارث شجاعت علی اس حالت میں رفیقہء حیات کو صبرو حیا کی وصیت کرتا رہا۔ صبر و حوصلہ دیکھتا ہوں تو سید سجاد کے مقدس لہو کی بو آتی ہے۔ خلوص و وفا میں بھی لاثانی ہے، اپنے تو خیر اپنے ہیں غیر و بیگانہ بھی نثار ہوتے ہیں ۔ گفتار ایسی کہ ہر کوئی فدا ہو جاتا ہے۔ گفتار میں علی المرتضی کا پیرا لگا نظر آتا ۔
اعداء سے بھی مروت سے ایسے پیش آتا ہے جیسے کردار پہ حسن مجتبی کا سایہ ہو۔ میں اس کی سخاوت کابھی شاہد ہوں کہ اپنا سب کچھ احباب، اقارب و حاجت مندوں میں لٹا دیتا ہے۔ شاہد اسی وجہ سے اہل محبت اس کو جوادی کے نام سے پکارتے ہیں ۔ پدر علمدار مہدی و ھادی خطہء کشمیر میں اپنی لوگوں سے محبت و اخلاص، وفا و مروت کی وجہ سے مقبول ہیں ۔ شاہد دشمن انسانیت کو یہ محبت کی فضا گوارہ نہ تھی ، اسی لئے اس نے اس کوکب درخشاں کو گل کرنے کی ناپاک سعی کی۔ ان پہ حملہ دراصل وفا، اخلاص، شجاعت، مروت اور اتحاد بین المسلمین پہ حملہ تھا۔
ارباب اختیار واقتدار نے اگر ایسے رونما ہونے والے واقعات کے پشت پناہوں کا خاتمہ نہ کیا تو شاہد کل چوکوں میں ، مجھے کیوں نکالا کے نغمے کے ساتھ ماتم کناں نظر آئیں ۔ علامہ تصور نقوی جیسی ہستیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔۔
خدا اس چراغ علم و وفا کو حیات خضر و عیسیٰ سے نوازے اور سعادت کاظمی کو ان کا سابا نصیب کر کے سعادت مند کر دے۔
تحریر: سعادت حسین کاظمی
وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ جنوبی ایشیا میں امریکی اقتصادی اور اسٹریٹجک ضروریات‘‘
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابقہ روس یا سوویت یونین اور مریکہ کے درمیان موجود کشمکش یعنی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ تنہاامریکہ ہی تھا جو ایک بڑی قوت کے طور پر جانا جاتا تھا ،یہاں تک کہ امریکہ کی اس تنہا قوت ہونے کو مختلف عنوانات کے ساتھ یاد کیا جانے لگا جیسے امریکی صدی، نیا عالمی نظام، (نیو ورلڈ آرڈر))یونی پولر)یا ایکبروویی دنیاوغیرہ ۔
یہاں تک کہ کچھ زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ دنیا میں بہت سے گہری نگاہ رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے اپنے شکوک کا اظہار کرنا شروع کردیا کہ امریکہ تنہا عالمی طاقت ہوسکتا ہے اور بہت ہی مختصر عرصے میں یک قطبی(یونی پولر ورلڈ) نظریے کی جگہ کثیر القطبی ( ملٹی پولر ورلڈ)نظریے نے لینا شروع کردیا اور یوں دنیا آہستہ آہستہ سمجھنے لگی کہ اکیسویں صدی میںامریکہ اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ پارہا ہے اور اب صرف امریکہ واحد طاقت نہیں رہا ہے ۔
خاص کرایک جانب افغانستان اور عراق جنگ میں امریکی مداخلت ،داخلی سطح پر معیشتی بحران نے رائے عامہ امریکہ کی اس پوزیشن کو مزید کمزور کردیا تو دوسری جانب اس کی حریف دو طاقتوں کی عسکری سیاسی اور اقتصادی اثرو رسوخ نے امریکہ کے بجائے بہت سوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ۔
(۱)چین اور امریکہ کے تعلقات کا مختصر بیگ گرونڈ
گرچہ چین اور امریکہ میں ڈیپلومیٹک تعلقات کی تاریخ انیسویں صدی ۔(1884)میں وانگیانامی ڈیپلومیٹک معاہدے سے شروع ہوتی ہے کہ جس میںا مریکی شہریوں کو ڈیپلومیٹک اور استثنائی حیثیت دی جاتی ہے لیکن 1911میںچینی بادشاہت کے خاتمے کے بعد چین کوچیانگ کی شیک کو مقامی فوجی بغاوت سے درپیش مسائل اور پھر جاپانی قبضے سے آزادی خاص کر دوسری عالمی جنگ میں امریکی تعاون حاصل رہتا ہے ۔ لیکن اس کے بعد ماو زے تنگ کی کیمونسٹ تحریک کیخلاف بھی امریکہ چیانگ کی شیک ہی کی حمایت جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ1949میں ماوزے تنگ کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے اور امریکی حمایت یافتہ چیانگ کی شیک تا ئیوان بھاگ جاتا ہے۔
یوں چینی باغی رہنماچیانگ کی شیک تا ئیوان میں ہی اپنی حکومت کا اعلان کرتا ہے اور ماوزے تنگ کی مخالفت کو جاری رکھتا ہے ،اسے مکمل طور پر ایک عرصے تک نہ صرف امریکی حمایت حاصل رہتی ہے بلکہ امریکہ ماوزے تنگ کی حکومت کی قانونی حیثیت سے انکار کرتے ہوئے تائیوان میں قائم باغی چینی رہنما کی حکومت کو قانونی حکومت قرار دیتا ہے یوں اس وقت سے ہی امریکہ اور کیمونسٹ چین کے تعلقات کی نوعیت میں ایک خاص قسم کی اجنبیت اور کھچاو کا آغاز ہوتا ہے ۔
شمالی اور جنوبی کوریا کے مسئلے (سن1950- 1953)میں بھی چین اورسوویت یونین جہاں شمالی کوریا کی مدد کررہے تھے تو وہیں پر امریکہ اور تا ئیوان جنوبی کوریا کے مدد گار بنے ہوئے تھے تو اسی طرح ویتنام کی جنگ میں بھی خاص کر اس جنگ میں امریکیوں کے کودنے کے بعد سن (1965- 1973)کے درمیان کیمونسٹ بلاک امریکہ کے مدمقابل کھڑا تھا یہاں تک کہ امریکہ کو انتہائی سخت قسم کی حزیمت اور شدید نقصان اٹھانے کے بعد ویتنام سے نکل جانا پڑا ۔اسی اثنا میں یعنی سن 1972میں امریکی صدر رچڑ دنکسن کے دورہ چین کے بعد طرفین میں تعلقا ت کشیدگی سے نکل کر نارمل سطح پر آجاتے ہیں۔چین میں امریکی صدر کے اس دورے کو جسے شنگھائی اعلان کا نام بھی دیا جاتا ہے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ میں تا ئیوان کی نمائندگی کو ہٹاکر اپنی رسمی نمایندگی کے آغاز کے ساتھ ساتھ سیکوریٹی کونسل کی دائمی ممبرشب بھی حاصل کرلیتاہے ۔اس کے بعد چینی اور امریکی تعلقات میں اگرچہ بہتری رہی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ طرفین میں موجود اختلافی مسائل پس پشت ڈا ل دیئے گئے ہوں ۔
تا ئیوان انہی اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ جس کے بارے امریکی پالیسی جوں کی توں موجود ہے اور امریکہ تائیوان سے اقتصادی اور عسکری تعلقات برقراررکھے ہوئے ہے۔طرفین میں تا ئیوان جیسے مسائل کے باجود بہت سے مفادات کے پیش نظر تعلقات کی سطح بہتر رہی خاص کر دو کیمونسٹ قوتوں یعنی چین اور سوویت یونین کے درمیان موجود اختلافات اور سرد جنگ نے بھی امریکی اور چینی قربت کو بنائے رکھنے میں مدد فراہم کی لیکن جوں ہی سوویت یونین کا خاتمہ ہوا طرفین کے تعلقات نے بھی نارمل سطح کی جانب رخ کیا ۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی تھینک ٹینک مسلسل اس بات کو دہرارہے تھے کہ اب کسی طاقت کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ہمارا ہم پلہ بن سکے ،بطور مثال نوے کی دہائی میں دفاعی پلاننگ گائیڈ لائن یا اسٹریٹیجک ڈاکیومنٹ لکھنے والے پال وولف وٹز جن کاتعلق نئے قدامت پسندوں نیو کنزرویٹیوسے ہے اور اب بھی وہ امریکی وزارت دفاع کا اہم ترین تھینک ٹینک شمار ہوتاہے، کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا پہلا ہدف اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنا کوئی بھی حریف پیدا ہونے ہی نہ دیں ،یہ ہماری وہ تھیوری ہے کہ جس کے نیچے ہماری بین الاقوامی دفاعی اسٹراٹیجی پوشیدہ ہے،یہ ہمیں بتلاتی ہے کہ ہم نے دنیا کے کسی بھی خطے میں ایسی کسی بھی مخالف قوت کو پنپنے ہی نہیں دینا کہ جس کے پاس اپنے وسائل ہوں،اگر ہم ایسا کرسکیں تو پھر ہمیں واحد عالمی قوت کہا جاسکتا ہے ،اور یہ علاقے ذاتی ریسورسزیا وسائل کے حامل ،مغربی یورپ ،مشرقی ایشیا،جنوب مغربی ایشیا اور سابق سوویت یونین سے جدا ہونے والی ریاستیں ہیں ‘‘
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس وقت جارج ڈبلیوبش کا دور شروع ہوتا ہے تو نئے قدامت پسندوں کی ہی اسی لہر سے تعلق رکھنے والے تین اہم افراد ،زلمائے خلیل زاد،فرنک کارلوسی اور رابرٹ ہنٹر ایک خط لکھ کر اسی دفاعی گائیڈلائن اسٹرٹیجک ڈاکیومنٹ کی یاد دلاتے ہیں کہ ’’امریکہ نے اپنی حریف کسی بھی قوت کو پنپنے نہیں دینا ‘‘وہ اس خط میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’یورپی یونین ،چین اور روس وہ ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جو مستقبل میں امریکہ کے مد مقابل کھڑ ی ہوسکتی ہیں ‘‘اس دفاعی گائیڈ لائن کے حساب سے چین کا مقابلہ کرنے کے دو مرحلے ان کے مدنظر ہیں کہ’’ نہ تو چین کے ساتھ مکمل شراکت داری رہے اور نہ ہی مکمل دوری ‘‘اس حکمت عملی کے مطابق چین کے ساتھ امریکی تجارتی اور عسکری روابط بھی رہیں گے اور دوسری جانب چین میں اپنی من پسند ڈیمو کریسی کا فروغ اورچین کے عالمی سطح پر بڑھتے اثر ورسوخ کو روکنے کی بھی کوشش جاری رہے گی ۔
کونڈالیزا رائز سے لیکر امریکی قومی سلامتی امور کے اداروں سے تعلق رکھنے والے اہم عہدار مسلسل چین کی بڑھتی قوت کی روک تھام کے بارے میں مختلف قسم کی تھیوریز اور حکمت عملیوں کو بیان کرتے رہے کہ ’’چین موجودہ طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے ،چین ایک سافٹ پاور بن چکا ہے ۔یہاں تک کہ بہت سے امریکی تھینک ٹینک کا کہنا ہے کہ ہمیں ان اصطلاحات کے بجائے ’’چین کی واپسی ‘‘کی اصطلاح استعمال کرنا چاہیے بعنوان مرکزی سلطنت ،واضح رہے کہ یہ اصطلاح چین کے قدیم نام اور پوزیشن سے تعلق رکھتی ہے ۔امریکی تھینک ٹینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی میڈیا اور سرکاری مشنری امریکہ کے بارے یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ ان کا پہلے نمبر کا دشمن ہے ،امریکی سمجھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ چین امریکہ کے مفادات کے لئے کوئی خطرہ نہیں لیکن امریکہ کسی بھی وقت چین کیخلاف کھلی محاذ آرائی کرسکتا ہے ۔اگر ہم بغور چینی نکتہ نظر کا مطالعہ کریں تو واضح ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ ہی وہ واحد طاقت ہے جو چین پر کسی بھی وقت جنگ مسلط کرسکتی ہے چین کی یہ سوچ اس وقت مزید تقویت پکڑتی نظر آتی ہے کہ جب جارج بش کے دور میں چین پر امریکہ کی جانب سے کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
۔
چینی حکمران جماعت کی پپلیکیشنزاور میڈیا نشریات سے واضح ہوجاتا ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ اس کا دشمن ملک ہے، سن 1992اور اسی طرح سن 1995میں نشر ہونے والے چینی دستاویز کے مطابق چین کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ جب سے واحد قوت کے طور پر سامنے آیا ہے تب سے اس کی کوشش ہے کہ وہ ہم پر کنٹرول حاصل کرے ‘‘جبکہ سن 1995میں چینی صدر نے کھل کر کہا تھا کہ ’’مغربی قوتیں ہمارے ملک کو تقسیم و تباہ کرنے کے لئے ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گی ۔اسی سال چینی وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیا ئی ممالک کی تعاون تنظیم آسیان کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے سخت لہجے میں کہا تھا کہ ’’امریکہ کو یہ تصور چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ مشرق کا نجات دہندہ ہے ،ہم ایشیا کے امن و امان میں کسی بھی قسم کے امریکی کردار کے دعووں کو نہیں مانتے ‘‘
چین کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ چین ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے لیکن کسی کو اس چینی قوت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ’’چین کا ایک طاقت کے طور پر ابھرنا پرامن مقاصد لئے ہوئے ہے ‘‘۔سن 2002میں چینی حکمران جماعت کے سالانہ اجلاس میں چینی صدر جیانگ ژمن نے اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’چین کو گذشتہ بیس سال سے یہ اسٹراٹیجیکل فرصت میسر ہے کہ داخلی ترقی پر فوکس رکھتے ہوئے عالمی سطح پر ایک معتدل اور عملیت پسند (پراگیمنٹ) حکمت عملی کے زریعے خود کو بین الاقوامی طور پر آگے بڑھائے ‘‘طرفین میں موجود ان متصادم تھیوریز کے باوجود نوے کی دہائی کے بعد چین اور امریکہ کے تجارتی روابط میں قابل ملاحظہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے یہاں تک چین تجارتی اعتبار سے امریکہ کا پہلا ملک بن جاتا ہے اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد طرفین میں تعلقات کو ایک نیا باب دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوشش کی شکل میں کھل جاتا ہے ۔
لیکن سن 2007میں شروع ہونے والا عالمی مالیاتی بحران کے سبب چین امریکی نظام اور بین الاقوامی کردارپر کڑی تنقیدکرنا شروع کرتا ہے چین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کا ذمہ دار امریکہ ہے اور اس مالیاتی بحران کو ایجاد کرنے کا مقصد چین کے بین الاقوامی اقتصادی کردار کو متاثر کرنا ہے ۔یوں سن 2010 بحری آبی حدود کو لیکر چین کا ہمسائیوں کے ساتھ ہونے والے تنازعے پر بھی چین امریکہ پر الزام لگاتا ہے کہ وہ چین کے گرد محاصرہ بنانا چاہتا ہے ،اور اس طرح ایک بار پھر طرفین میں موجو د پہلے نمبر کے دشمن کی سوچ ابھر کے سامنے آجاتی ہے ۔
(۲)امریکہ کی ایشیا میں قدم جمانے کی کوششیں ۔
بات صرف یہ نہیں ہورہی ہے کہ امریکہ ایشیا میں قدم رکھنا چاہتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ اب امریکہ قدم جمانا چاہتا ہے کیونکہ امریکی پہلے سے ایشیا میں موجود ہیں ۔
دنیا کے قریب 130ممالک میں 750سے زائد امریکی اڈے موجود ہیںاور بعض ممالک میں ایک زائد اڈوں کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد1000سے زائد بنتی ہے کہ جن میں سے 109کے قریب فوجی اڈے جاپان میں جبکہ جنوبی کوریا میں 85کے قریب فوجی اڈے موجود ہیں ان فوجی اڈوں میں تقریبا 47ہزار فوجی جاپان میں جبکہ 37ہزار کے قریب جنوبی کوریا میں موجود ہیں ۔باراک اوباما کے دور میں سن 2014میں اس کے جاپان اور جنوبی کوریا کے دورے کے وقت جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں امریکی نئی پالیسی کا اعلان کھلے لفظوں کردیا گیا تھا۔
اگر ہم ہیلری کلنٹن کا مضمون امیرکن پیسیفک کنٹری کو پڑھیں تو اس سلسلے میں ایشیاء کے بارے میں امریکی حکمت عملی کے خدوخال مزید واضح ہوجائینگے ۔
ہیلری آنے والے وقتوں میں ایشیا اور پیسفک یعنی بحر الکاہل کی امریکی اسٹراٹیجی میں اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایشیا اور پیسفک عالمی سیاست میں مرکزی اور حرکی اہمیت حاصل کرچکے ہیں انڈین سب کانٹیننٹ( بر صغیر)پیسفک یا بحر الکاہل ،بحیرہ ہندسے لیکر لا طینی امریکہ کے ساحلوں تک کہ جو اپنے اندر دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو سموئے ہوئے ہے ہمارے لئے انتہائی اسٹرٹیجیک اہمیت کا حامل علاقہ ہے ۔
ہیلری کے دوست اور سابق امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا بھی اپنے ایک مضمون امیرکن پیسیفک ری بیلنس میںاس بات کی تاکید کرتاہے کہ امریکہ کو ایشیا اور پیسفک یا بحرالکاہل میں طاقت کے توازن کی برقراری کے لئے اپنی قوت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے کہ جس میں جنوب مشرقی ایشیا اور بحرہ ہند میںفوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ،اسٹریلیا کے شمالی حصے میں فضائیہ کا مزید اضافہ،سنگاپور کے ساتھ معاہد ہ تاکہ وہاں بحری بیڑوں کا پڑاو بنایا جاسکے ،اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جنگی مشقیں ،یوں سن 2020تک امریکی بحریہ کا ساٹھ فیصد حصہ پیسفک یا بحرہ الکاہل میں موجود ہوگا ۔
امریکہ بحرہند میں بھی بڑھتی ہوئی چینی موجودگی کو روکنے کے لئے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹرٹیجک سطح تک لے کر جارہا ہے اس خطے میں امریکہ کو چین کی سری لنکا سے لیکر پاکستان کے گوارد پورٹ اور سی پیک نامی وسیع تجارتی پلان بری طرح کھٹک رہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت اور افغانستان کو ایک ایسا پل بنانا چاہتا ہے جو ان چینی منصوبوں کو روک سکے ۔پاکستان پر مسلسل بڑھتا ہوتا امریکی دباو اور نہ ختم ہونے والے الزامات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
تحریر۔۔۔حسین عابد
(ریسرچ اسکالر اور تجزیہ کار )
وحدت نیوز(آرٹیکل) سوچتی ہوئی عقل سے ہر فریب کار کو خطرہ ہے، اگرکسی کا دماغ فعال ہے اور اُس کی عقل کام کر رہی ہے تو پھراُسے فریب دینا آسان کام نہیں۔کسی بھی ملت کا دماغ اس کے دانشور ہوتےہیں، اگر کسی ملت کے دانشور اپنا کام نہ کریں تو وہ ملت فہم و فراست اور شعور سے عاری ہو جاتی ہے یعنی پسماندہ رہ جارتی ہے۔
دانشوروں کا کام اچھائی اور برائی کی تمیز اور حق و باطل کا فرق کر کے اچھے کو اچھا اور برے کو برا اسی طرح حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ہوتا ہے۔ چنانچہ فریب کار جب کسی معاشرے میں برائیوں کی ترویج اور باطل کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس معاشرے، قوم اور ملک کے دانشوروں کو اچھائی اور برائی نیز حق اور باطل کی نسبت غیر فعال کرتے ہیں۔آج کے دور میں دانشوروں کو اُن کا کام کرنے سے روکنے کے لئے انہیں غیر جانبداری کے درس دئیے جاتے ہیں۔
حالانکہ غیر جانبداری کے یہ درس دینے والے خود بھی غیر جانبدار نہیں ہوتے، یہ فریب کار اپنے مدِّ مقابل کو نرم کرنے کے لئے اُسے کہتے ہیں کہ سارے گروہوں ، سارے ادیان ، ہر طرح کے حق و باطل سے بالاتر ہو جاو۔ بالاتر ہو جاو یعنی حق کا ساتھ نہ دو اور ہمارے ساتھ مل جاو۔ یہ در اصل کسی کو حق کی حمایت سے ہٹانے کاایک حربہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خداواندِ عالم جو سارے انسانوں کا خالق ہے وہ بھی سارے گروہوں کی نسبت غیر جانبدار نہیں ہے بلکہ وہ حزب الشیطان کا سخت ترین دشمن ہے اور سارے ادیان میں سے صرف اسلام کو ہی دین قرار دیتا ہے اور باقی ادیان کی نفی کرتا ہے اسی طرح اس کے نزدیک حق و باطل سے بالاتر یا ان کے درمیان کچھ نہیں ہے جو کوئی بھی ہے وہ یا حق پر ہے اور یا باطل پر۔
اگر کوئی حزب اللہ اور حزب الشیطان سے بالاتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اورمیدانِ حرب میں زبان و قلم کے ساتھ حزب اللہ کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ در اصل حزب الشیطان کے پلڑےمیں اپنا ووٹ ڈالتا ہے،اسی طرح اگر کوئی مقامِ ضرورت پر دینِ اسلام کی مدد و نصرت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور دینِ اسلام کی نصرت نہیں کرتا تو در اصل اسلام کے دشمنوں کی کمر مضبوط کرتا ہے اور یونہی اگر کوئی حق و باطل کے معرکے میں یہ کہتا ہے کہ میرے لئے تو سب برابر ہیں تو ایسا شخص در اصل حق والوں کی حمایت نہ کر کے باطل کو مضبوط کرتا ہے۔
آج ضروری ہے کہ دانشورحضرات غیر جانبدار ہونے کے دلکش اور پُر فریب نعرے سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ یہ جان لیں کہ ایک اصول پرست انسان کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حق والے اُسے پھولوں کے ہار پہنائیں اور باطل والے اس کے پاوں دھوکر پئیں۔
بلکہ وہ ایک گروہ کے نزدیک بہترین اور دوسرے کے نزدیک بدترین کہلائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر حق کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار بن کر حق پر پردہ ڈالا جائے اور حق کو عقب نشینی پر راضی کیا جائے اور اس طرح دنیا میں جنگ و جدال میں کمی واقع ہو جائے گی تو یا تو ایسے شخص کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے اور یاپھر وہ دوسروں کی عقل پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔
دنیا میں نفرت، جنگ و جدال اور خون خرابہ ہے ہی باطل کی وجہ سے، اگر باطل کے مقابلے میں کسی بھی محاز پرایک قدم عقب نشینی کی جائے تو باطل دو قدم آگے بڑھتا ہے، یہ باطل ہی ہے جو ظلم کرتا ہے، جو جارحیت کرتا ہے، جو شب خون مارتا ہے جو لوگوں سے ان کے پیدائشی و جمہوری اور فطری حقوق چھینتا ہے۔
باطل کے مقابلے میں پیچھے ہٹ کر کسی فساد، کسی ایٹمی جنگ یا خون خرابے کو نہیں روکا جا سکتا، بلکہ باطل کے مقابلے میں آگے بڑھ کراور سینہ سپر ہو کر ہی خونریزجنگوں ، مظالم اور ناانصافیوں کو روکا جاسکتا ہے۔
اپنے سامنے تاریخِ پاکستان کا تجربہ رکھئے اور دیکھ لیجئے کہ ہم جس قدر باطل لشکروں اور ٹولوں کے مقابلے میں عقب نشینی اور نرمی کرتے گئے اُسی قدر یہ باطل لشکر آگے بڑھتے گئے ، پہلے ایک ایک کر کے ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے، پھر امام بارگاہوں میں، پھر مسجدوں میں، پھر مزارات پر، پھر مسافروں پر، پھر عوامی مراکز پر ، پھر فوج و پولیس پر ، پھر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حتی کہ پھر تو سکولوں کے بچوں کو بھی قتل کرنا شروع ہو گئے۔
پاکستان آج غیر محفوظ نہیں ہوا بلکہ سچ اور حق بات یہ ہے کہ پاکستان اُسی روز غیر محفوظ ہوگیا تھا جس روزپہلی مرتبہ کسی بے گناہ کے قتل پر ہم سب نے بحیثیت قوم غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) کوئٹہ میں چرچ پر حملہ ہوا، یہ حملہ عیسائیوں کے مذہبی پیشواپوپ فرانسس کی 81ویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا، بحیثیت مسلمان ہم مسیحی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ظالم ہمیشہ رسوا ہوتے ہیں، خدا ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے لیکن چھوٹ نہیں دیتا، اور ان سے بڑا ظالم کون ہوگا جوپاکستان کو بدنام اور کمزور کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔
اتوار کو کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع بیتھل میتھوڈسٹ میموریل چرچ میں دعائیہ تقریب کے دوران دوپہر 12بجے کے قریب چار دہشت گردوں نے چرچ پر حملہ کرکے 9افراد کو جاں بحق اور 56افراد کو زخمی کر دیا ہے۔
ہم غم اور دکھ کے اس موقع پر مسیحی برادری کو تجزیہ و تحلیل اور غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والی مسیحی برادری بھی تحقیق اور جستجو کے ساتھ پاکستان کے حقیقی دشمنوں کو پہچانے۔یہ مسیحی برادری کے اکابرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ غوروفکر اور تحقیق کے ساتھ قاتلوں کی صحیح نشاندہی کریں اور اُن کے خلاف آواز اٹھائیں۔
ہماری یہ خواہش ہے کہ مسیحی برادری اس غلطی کا ارتکاب نہ کرے جو پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں سے ہوئی۔ ایک عرصے تک جب پاکستان کے دشمن کہیں پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو عوامی حلقے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لیتے تھے تھے کہ یہ تو فرقہ واریت کا مسئلہ ہے۔ اگر ملت پاکستان اس وقت غوروفکر سے کام لیتی اور ظالم کو ظالم کہتی تو ظالموں کو اس قدر مضبوط ہونے کا موقع نہ ملتا۔
ہم یہاں پر اپنے مسیحی بھائیوں کو یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات، ایک مخصوص گروہ کی طرف سے تمام ادیان و مسالک کے خلاف ہوتے رہتے ہیں،اس گروہ کے ہاتھوں شیعہ، سنی، عیسائی، یہودی اور ہندو الغرض کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی اس ساری قتل و غارت کی جڑیں عرب بادشاہتوں کے خمیر میں ہیں۔ در اصل ایران میں انقلاب کے آنے کے بعد عرب ریاستیں عوامی بیداری سے ڈر گئیں۔ عرب بادشاہوں نے دنیا بھر میں مذہبی و دینی بنیادوں پر ایک خوفناک جنگ کا آغاز کیا اور عرب بادشاہوں کے ٹکڑوں پر پلنے اور چلنے والے مدارس اور مولویوں نے بھی اس منافرت کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔
عرب بادشاہوں کو خطرہ تھا کہ اہلِ تشیع کی طرح اہلِ سنت بھی بیدار ہو کر کہیں بادشاہوں کے خلاف انقلاب برپا نہ کرنے لگ جائیں چنانچہ دنیا کے اہلِ سنت مسلمانوں کو ابتدا میں اہلِ تشیع سے ٹکرانے کی دانستہ کوشش کی گئی، اس کوشش کے نتیجے میں وقتی طور پر عربوں کی بادشاہتیں تو بچ گئیں لیکن دہشت گردی کی وجہ سے دنیا بھر میں دینِ اسلام کی بہت بدنامی ہوئی اور جہانِ اسلام مزید چالیس سال تک اوباش بادشاہوں کے بوجھ تلے دبا رہا۔
دیر آید درست آید، لوگوں کو حقائق سمجھنے میں دیر ضرور ہوئی لیکن اب لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ پاکستان میں کہیں پر بھی شیعہ اور سُنّی کا جھگڑا نہیں تھا بلکہ یہ سب بادشاہتوں کو بچانے کا کھیل تھا۔ اس کھیل میں پاکستان کے بے شمار دانشور، صحافی، شعرا اور فوج و پولیس کے اعلی افیسران نے جامِ شہادت نوش کیا۔
گزشتہ چار دہائیوں میں بادشاہوں کے نوکر نعرہ تکبیر لگا کر ہماری قیمتی شخصیات کو قتل کرتے رہے ، ہمارے ملک میں اقلیتوں پر شب خون مارتے رہے ، سکولوں اور کالجوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے اور خود عرب بادشاہ حضرات عیاشیاں کرتے رہے ۔
آج ان بادشاہوں کی عیاشیوں کا یہ عالم ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے روسی ٹائیکون کی ملکیت 440 فٹ طویل لگژری بحری جہاز جوکہ ایک محل ہے اسے 45 کروڑ پاؤنڈ میں خریدا جب کہ لیونارڈو ڈاؤنچی کی ایک معروف پینٹنگ 450 ملین ڈالر میں خریدی، اس کے علاوہ اس وقت دنیا میں سب سے مہنگا اور قیمتی گھر بھی انہی کا ہے جو انہوں نے 30 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے فرانس میں خریدا ہے۔اس قیمتی گھر میں ۵۷ ایکڑ رقبے پر محیط ایک پارک بھی شامل ہے۔یاد رہے کہ اس گھر میں وسیع رقبے کا فش ایکوائریم، سنیما گھر اور زیر زمین نائٹ کلب بھی موجود ہے۔
مجھے ایسے میں وہ مولوی حضرات بہت یاد آرہے ہیں جو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو بھی ہو جائے آل سعود ہم سے بہتر ہیں۔
آلِ سعود کے نمک خواروں اور وفاداروں کے پاس سب سے آسان اور موثر ہتھیار یہ ہے کہ جو بھی امن، محبت، بیداری ، شعور، سوچ و بچار کی بات کرتا ہے وہ اسے کافر اور واجب القتل قرار دے دیتے ہیں، جیسا کہ ایران کے انقلاب کے ساتھ بھی کیا گیا، اس انقلاب کا قصور یہ تھا کہ اس نے عوام کو بیدار کیا تھا چنانچہ اس انقلاب کو بھی شیعہ انقلاب کہہ کر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔
یہ سچائی اب سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان میں قتل وغارت کرنے والے کسی ایک مسلک ، اقلیت یا ایران کے دشمن نہیں ہیں بلکہ انہوں نے جس طرح اہلِ تشیع کا خون بہایا ہے ، اسی طرح داتا دربار اور بری امام سمیت ہر طرف اہل سنت کے خون سے بھی ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں اور اسی طرح عیسائی حضرات اور دیگر اقلیتوں کے خون کے دھبے بھی ان کے دامن پر ہیں۔
ان کا پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں، پاک فوج اور پاکستان کے عوامی مراکز پر شب خون مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ٹولے اس وقت پوری ملت پاکستان کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔
یہ کس قدر بھیانک حقیقت ہے کہ اگر آپ ان انسان کش ٹولوں پر تحقیق کریں تو آپ ان سب کو میڈ اِن سعودی عرب پائیں گےوہ طالبان ہوں، القاعدہ ہو ، سپاہ صحابہ و داعش و لشکر جھنگوی، سب کو وہیں سے کنٹرول اور فیڈ کیا جاتا ہے۔
ہم اس وقت بحیثیت مسلمان، مسیحی برادری کے دکھ اور غم میں برابر کے شریک ہیں اور واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ بادشاہوں سے ہے اور دہشت گردوں کی تربیت اسلام نہیں بلکہ بادشاہ کرتے ہیں نیز دہشت گردوں کی جنت پاکستان نہیں بلکہ عربستان کے بنائے ہوئے دینی مدارس ہیں۔
یہ حکومت پاکستان کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ کرائے کے قاتلوں کے بجائے ان کے تربیتی دینی مدارس کے خلاف آپریشن کرے ۔ان نام نہاد دینی مراکز کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے جو دہشت گردوں کی تربیت کرتے ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔
اس نازک وقت میں ہم سب کو پاکستان کے پرچم تلے متحد ہو کر، تحقیق و جستجو، غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کے ساتھ اس ملک کی حفاظت کرنی ہے۔یہ ایک روشن سچائی ہے کہ ہم پاکستانی اس حملے کو صرف ایک چرچ پر حملہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے پورے پاکستان پر حملہ سمجھتے ہیں اور اس حملے سے پورا پاکستان رنجیدہ ہے ۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیس ویں صدی کی دنیا دو عالمی جنگوں اور پھر سرد جنگ کے بعد وہ نہیں رہی تھی جو انیس ویں صدی یا اس سے پہلے تھی ،بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نے دنیا کو یکدم بدل کررکھ دیا اور ایران میں آنے والے انقلاب کہ جس کی بنیاد مذہبی تھی نے اس بدلتی دنیا پر اپنے منفرد انداز کے گہرے نقوش مرتب کرنا شروع کردیئے۔لیکن اکیسویں صدی ،خاص کر اس کی پہلی دہائی کے بعد بین الاقوامی سطح پر جس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہورہی ہیں وہ بھی یقینا اپنے اندر بالکل ہی انفرادیت کی حامل ہیں ۔اب دنیا کسی ایک بڑے ملک یا طاقت کے زیر اثر نہیں رہی ہے اور نہ ہی کسی ایک بلاک یا دو بلاکوںکے کنٹرول میں ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔
آج کی ہماری دنیا اس حوالے سے کثیر قطبی (ملٹی پولر)بنتی جارہی ہے جس کی اہم وجہ سامراج ازم کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن تو دوسری جانب ان کے مدمقابل وجود میں آنے والی نئی طاقتیں جیسے روس ،چین تو دوسری جانب انتہائی اثر رسوخ اور موثر کردار کے حامل ممالک جیسے ایران ،جنوبی افریقا ،ترکی اور برزایل وغیرہ نے بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن کو ہر پہلو سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔گرچہ ایران کو اس کے اتحادیوں (مزاحمتی بلاک)کے سبب بہت سے دانشور اور تجزیہ کار روس اور چین کے بعد تیسرے درجے پر قراردیتے ہیں خاص کر مشرق وسطی جیسے انتہائی اہم اور زرخیز علاقے میں ایران کا مضبوط کردار اسے انفرادیت ضرور دیتا ہے ۔
خیال ظاہر کیا جارہاہے کہ چند قوتوں یا کثیر قطبی ( ملٹی پولر)موجودہ عالمی صورتحال کا تسلسل باقی رہے گا گرچہ بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے سبب دنیا میں بے چینی اور تصادم کے خطرات میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہے گا لیکن ہمارے خیال میں بے چینی اور تصادم کے خطرات کی اصل وجہ کثیر قطبی کو قرارد دیناکچھ زیادہ درست تجزیہ نہیں لگتا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خود کوعالمی طاقت کا تنہا مرکز ومحور سمجھنے والی سامراجی ( امپیریلزم )قوتوں کے ہاتھوں سے لمحہ بہ لمحہ سرکتی بساط کے سبب پیداہونے والی صورتحال ہے جو کہیں بے چینی تو کہیں تصادم کی شکل میں سامنے آرہی ہے ۔
امریکی برتری میں کمی ۔
امریکہ جوکہ دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد واحد عالمی قوت کے طور پر خودکو پہچنوا رہا تھا گذشتہ قریب ایک دہائی سے بری طرح اپنی برتری کو باقی رکھنے کی کوششوں میں ہے لیکن مسلسل اس کی طاقت اور اثر رسوخ میں کمی ہوتی جارہی ہے ۔بارک اوباما کے دور میں ہم امریکی بے بسی اور پریشانی میں اس کی عالمی سطح پر گرتی ہوئی پوزیشن اور کم ہوتا کنٹرول کو دیکھ سکتے ہیں کہ خود اوباما کا کہناتھا کہ امریکہ پس پشت رہ کرمسائل کو ہینڈل کرنے کی کوشش کرے گا مطلب واضح تھا کہ امریکہ سامنے آکر فرنٹ لائن میں کھیلنے کی پوزیشن نہیں رکھتا ۔اوباما کی اس پالیسی کے بارے میں بہت سے امریکی تجزیہ کار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ایک کمزور،گومگو اور ناکامی اورز وال کے شکار ہوتے ملک کی پالیسی ہے ۔بین الاقوامی سطح پرامریکہ کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک مسلم امہ کے درمیان انتہائی اہم و منفرد اتحادی سعودی عرب کو بھی اوباما کی اس پالیسی کے بارے میں کہنا پڑا کہ’’ امریکہ اب اپنے اتحادیوں کو چھوڑ رہا ہے ،وہ پہلے جیسا مددگار اور پشت پناہ نہیں رہا ،اس نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے ‘‘۔
ظاہر ہے کہ اوباما کی پالیسیاں خود اس کی اپنی ذاتی پالیسی تو ہرگز نہیں تھی بلکہ یہ جارج ڈبلیوبش کی پالیسیوں خاص کر عراق و افغانستان پرحملہ کے نتائج اور سن دوہزار چھ ،آٹھ اور نو میں لبنان،فلسطین کے علاقہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ناکامی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال تھی تو دوسری جانب اسی دوران سن دو ہزار آٹھ میں امریکی معیشت بھی شدید بحران کا شکار رہی ہے ۔اس دوران میں گرچہ جارج دبلیوبش نے کوششیں تو بہت کیں کہ امریکی پوزیشن کو روس چین ،ایران ،ترکی جنوبی افریقہ اور برازیل کے حوالے سے برقرار رکھے لیکن لاطینی امریکہ اور ایشیا میں حریت پسندتحریکوں اور مزاحمتی موومنٹس ،عرب ممالک میں پیداہونی والی عوامی تحریکیں ایک چلینج بن کر سامنے آگئیں ۔
یقینا ان حالات نے بھی اوباما انتظامیہ پر بہت دباو ڈالا ہواتھا یہاں تک کہ اس کے اثرات کو اوباما کے بعدامریکی انتخابات میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نے امریکہ جیسے ممالک کی اندرونی ساخت اور اسٹریکچر ،پالیسیز اور اداروں میں موجود بے یقینی اور تضادات کو مزید واضح کردیا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابات میں کامیابی در حقیقت امریکی پالیسیوں کی فرسودگی کو ظاہر کرتی ہے ۔ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے وقت پہلے سے اندرونی طور پر منقسم امریکی معاشرہ اور ریاستی ادارے ایک ایسے صدر کا سامنا کررہے تھے جو بذات خود نفسیاتی طور پر ایک ایسا بے چین شخص کے طورپر سامنے آیا ہے کہ ایک طرف جہاںریاستی معاملات کو چلانے کے لئے جرنیلوں کا سہارا لیتا ہے تو دوسری جانب اندرونی طور پر امریکی روایتی پالیسی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے کئی قسم کے محاذ کھڑا کردیتا ہے ۔وہ نہ تو نہ تو میڈیا کے ساتھ معاملات اچھے رکھ پارہا ہے اور نہ ہی خود اپنے ایڈوائزروں کے ساتھ اس کی بنتی ہے ۔ٹرمپ کے دور اقتدار میں اٹھائے گئے بہت سے اقدامات یکے بعد دیگر شکست کا سامنا کررہے ہیں ،خواہ پناہ گزینوں کا معاملہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ ہونے والی ڈیل کا معاملہ ٹرمپ کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔
ٹرمپ نے مشرق وسطی میں مسلسل امریکن پالیسی کی ناکامی کو سہارادینے کی خاطر ایک بڑی چھلانگ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 53ممالک کے اجلاس سے خطاب کیا جو در حقیقت روس، ایران ،حزب اللہ اور حماس (یعنی مزاحمتی بلاک )کیخلاف اظہار قوت کرنا اور مشرق وسطی میں اپنے دوستوں کو تحفظ کا احساس دلانا تھا لیکن یہ تمام تدبیریں اس وقت الٹی پڑ گئیں جب امریکی اتحادی خود دست و گریباں ہوئے اور قطر کیخلاف سعودی عرب ،امارات بحرین اور مصر نے محاذ کھڑا کردیا ۔ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے ایک بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی اور اس کوشش کو ’’تاریخی معاہدہ‘‘اورـ’’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘‘ کا نام دیا لیکن یہ کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہیں باوجود اس کے کہ اپنے دو اہم ایڈوائزوںجیراڈ کاونجراور جیسین گرین پلاٹ کی دیوٹی لگائی کہ وہ اسے جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچائیں۔ان کے ایڈوائزر محمود عباس ،نیتن اور سعودی عرب کے درمیان بڑے چکر کاٹتے رہے لیکن ان چکروں کا کوئی بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا کیونکہ ٹرمپ محمود عباس سے یہ ڈیمانڈ کررہا تھا کہ غزہ پٹی میں حماس کے کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے ،جو اس پر توانائی سے زیادہ بوجھ تھا ،یہاں تک کہ ٹرمپ کودرمیان میں مصر کو لے آنا پڑا اورخود محمود عباس سے براہ راست یہ کہنا پڑا کہ غزہ والوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے پائیں وہ مصر کے چینل کے ذریعے انجام پانے چاہیے اور یوں فتح اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ غزہ ایک حد تک تنہائی سے نکل آیا اور فتح کی جانب سے غزہ کے لئے موجود روکاوٹیں ختم ہوئیں، فلسطینی دو گروہوں کے درمیان موجود کشیدگی کسی حدتک کم ہوئی لیکن اب اس کے بعد اگلا مرحلہ کیا ہوگا اور کیا اس کی شکل صورت ہوگی؟کیونکہ اس معاہدے کا مقصد غزہ پٹی کی عوام ریلیف دینا تو نہیں ہرگز نہیں تھا۔یہ وہ اہم سوال ہے کہ جس کے جواب کی تلاش ہمیںیہ بتلا رہی ہے کہ مشرق وسطی اور عالمی سطح پر ایک نئی بے چینی پیدا ہورہی ہے کیونکہ دونوں گروہوںکے درمیان اس بات پر اتفاق تو ہوا کہ ایک ہی حکومت ہوگی اور غزہ والے خود کو مکمل طور پر رام اللہ کی اتھارٹی یعنی محمود عباس کے کنٹرول میں دینگے لیکن غزہ میں موجود مزاحمتی تحریک اپنا اسلحہ،زیر زمین خندقوں اور گذرگاہوںکے ساتھ برقرار رہے گی ۔ٹرمپ اسرائیل کے کہنے پر جس اصل چیز کی تلاش میں تھا وہ اب بھی اپنی جگہ پر اسی طرح باقی تھی یعنی تحریک مزاحمت کا وجود،اس کی طاقت ،اس کا اسلحہ کہ جس کے خاتمے کے لئے یہ ساراجال بنا گیا تھا۔
ٹرمپ کے سامنے موجود مسائل کی فہرست طویل ہے کہ جہاں ہر قدم اسے یہ احساس دلارہا ہے کہ امریکہ اب تنہا قوت نہیں رہا ہے ،شمالی کوریا کے میزائل و ایٹمی پروگرام ہو یا پھر ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل کا خاتمہ ،داعش کیخلاف اس کی جنگ کے نعرے ہو ںیا پھر حزب اللہ، حماس اور ایران اورچین و روس کے بڑھتے اثر روسوخ کیخلاف اس کی محاذ آرائی کی کوششیں ۔یہاں تک کہ ٹرمپ اپنے ہی اتحادیوں کے ہاتھوں بھی بری طرح شکست کا سامنا کررہا ہے عالمی ماحولیات اور ایرانی ایٹمی معاہدے میں اسے یورپ کی شدید مخالفت کا سامنا ہے تو نیٹو کے مسئلے پر اب بھی تنازعہ باقی ہے،اکتوبر میں ٹرمپ کی جانب سے ایران اور لبنانی جماعت حزب اللہ کیخلاف پارلیمنٹ سے چار قوانین کو منظور کرایا گیا جسے کسی بھی وقت سینٹ میں پیش کیا جانا ہے یہ چار قوانین ایران کے بلیسٹک میزائل پروگرام ،عام انسانوں کو ڈھال کے طور استعمال کرنا( بطور ہیومن شیلڈ)، مالی امدادکو روکنا اور لبنانی جماعت حزب اللہ کو مکمل طور پر دہشتگردی کی لسٹ میں شامل کرنا ہے ،واضح رہے کہ اس سے قبل امریکہ نے حزب اللہ کو سیاسی و عسکری طور پر دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کے عسکری حصے کو دہشتگرد قرار دیا تھا ۔
اگرچہ یہ پابندیاں اور قوانین کی تشکیل کوئی نئی چیز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس بار ان قوانین کے حق میں دو نوںپارٹیوں یعنی ڈیموکریٹ اور ریپپلکنز نے اتفاق سے ووٹ دیا ہے یہ چیز ٹرمپ کو اس بات کی جرات دے سکتی ہے کہ یورپ پر دباو ڈالے کہ وہ بھی اس قرارداد میں شامل ہوجائیںا گرچہ ایرانی ایٹمی معاہدے کے خاتمے کو لیکر ٹرمپ کویورپ کی جانب سے سخت قسم کا ردعمل دیکھنے کو ملاہے ۔گرچہ امریکہ کہہ سکتا ہے کہ نئی پابندیوں کا ایٹمی ڈیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس ڈیل کو متاثر کرتا ہے لیکن کیا یورپ اتفاق کے ساتھ ان نئی پابندیوں میں ٹرمپ کا ساتھ دے گا ؟کیا یورپ ان پابندیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حق میں ہوگا ؟کیونکہ یہ پابندیاں مشرق وسطی خاص کر لبنان میں بڑے بحران کو جنم دے سکتیں ہیں اور مسلسل سیاسی بحران میں چلے آرہا لبنان اس قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ جس کی خواہش مشرق وسطی میں امریکی اتحادی رکھتے آرہے ہیں ۔
اور کیا امریکی اس پابندی کا اثر یورپی ان کمپنیوں اور میگا پروجیکٹس پر نہیں پڑے گا جو ایران میں اربوں ڈالر کے معاہدے کرچکیں ہیں ؟
اہم سوال یہ بھی ہے کہ ان نئی پابندیوں کو چین اور روس کیسے دیکھیں گے ؟اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ان نئی پابندیوں کے لئے اقوام متحدہ یا سیکوریٹی کونسل کا شیلٹر کسی طور بھی حاصل نہیں کر پائے گا لیکن ان پابندیوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات عالمی سطح پر موجود تقسیم کو مزید گہرانہیں کرے گی ؟اور اگر ان پابندیوں کو ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو خود امریکہ اس وقت کس پوزیشن میں کھڑا ہوگا۔کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ چاہتا ہے کہ ان پابندیوں کا اعلان 1983میں بیروت میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے دن کے ساتھ ہو اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی سکریٹری خارجہ کا حالیہ دورہ سعودی عرب ،قطر و پاکستان میں دیگر ایشو ز کے علاوہ یہ موضوع بھی زیربحث رہا ہے۔دوسری جانب بہت سے تجزیہ کار پیوٹن کا دورہ ایران اور ایرانی سپریم لیڈر سے ملاقات کے ایک پہلو کو اسی تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ شائد مزاحمتی بلاک اور اس کے اتحادی اس قسم کی ممکنہ صورتحال کے لئے پہلے سے ہی خود کوسیاسی وسفارتی میدانوںمیں تیارکر رہے ہوں ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشرق وسطی میں امریکی پالیسی بری طرح ناکامی کا شکار ہے اور ہر کوشش مزید ناکامی کو گہری کرتی جارہی ہے ،وہ مشرق وسطی کہ جہاں بیرونی قوت کے طور پر صرف امریکہ تن و تنہا کھلاڑی کے طور پر دیکھائی دیتا تھا آج اپنی پوزیشن کو باقی رکھنے کی کوشش میں ہے ۔لبنان میں سعد الحریر ی کو ہٹانے سے لیکر محمود عباس کا دورہ سعودی عرب و فلسطینیوں کے درمیان معاملات کے حل کی کوشش تک ٹرمپ اور مشرق وسطی میں اس کے دوستوں کی اسی حکمت عملی کے ابتدائی گام تھے کہ جنہیں اٹھنے سے پہلے ہی گھٹنے ٹیک دینا پڑے۔
مشرق وسطی خاص کر شام و عراق کے اندرپیدا کیا گیا دہشتگردی کا بحران کہ جسے مذہبی فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کی بہت کوشش ہوئی جو کہ ایک جیوپولیٹکل جنگ تھی اور اپنے اندر متعدد اہداف رکھتی تھی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ تباہ کن جنگ اپنے اختتام کو پہنچی اور اس کے منصوبہ سازوںکو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت وہ اس جنگ میں ناکامی کے آفٹرشاکس کو سہہ رہے ہیں ۔ان حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ مشرق وسطی میں اٹھایا جانے والا امریکی ہر اقدام بری طرح شکست سے دوچار ہورہا ہے عراق یمن شام سے لیکر لبنان تک تمام مہرے جو امریکہ اور اس کی پالیسی فالورز چلاتے ہیں بری طرح پٹتے جارہے ہیں ۔
صدام کے بعد کا عراق ہو یا اربوں ڈالر خرچہ کروانے والے شام و یمن تینوں ممالک میں امریکہ نہ صرف اپنی پوزیشن کھو چکا ہے بلکہ یہ تینوں ملک اس بلاک میں اپنی پوزیشن مزید گہری کرچکے ہیں جسے مزاحمتی بلاک ،روسی چینی ایرانی بلاک یا اتحادی کا نام دیئے جاتے ہیں ۔
چین ،روس اور یورپ ۔
چین نہ صرف اقتصادی ،عسکری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز رفتاری کے ساتھ دوسروں کے لئے چلینج بنتا جارہا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی ایسا اتحاد اور وحدت کو قائم رکھا ہوا کہ کسی بیرونی قوت کو ایسا کوئی سوراخ نہیں مل رہا کہ وہ چین کو اندر سے الجھانے کی کوشش کرے یا چینی معاملات میں اثر انداز ہوسکے ،جیسا کہ ماضی کی بڑی قوت سودیت یونین کے ساتھ ہوا تھااور جیساکہ آج بھی بہت سے ممالک کے ساتھ ہورہا ہے ۔حکمران کیمونسٹ پارٹی ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنی پوزیشن مضبوط کرتی جارہی ہے ،اسی سال اکتوبر میں ہونے والا چینی حکمران جماعت کا سالانہ انیسواں کنونشن اس بات کی علامت تھا کہ اکیسویں صدی کے آدھے سے بھی کم عرصے میں چین دنیا میں اپنی پوزیشن سب سے اوپر لیکر جائے گا۔چین کی اس کامیابی کو اس سوشلسٹ نظام میں بھی دیکھا جارہا ہے جو خاص چینی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام اور چینی مخصوص اشتراکی اقتصادی نظام کے درمیان ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے لئے پیدا کی جانے والے گنجائشات شامل ہیں ۔
چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا ایک اہم راز اس کی اس حکمت عملی میں بھی پوشیدہ ہے کہ دیگر طاقتوں کے برخلاف چین نے اب تک ثابت کیا ہے کہ وہ کسی قسم کا سامراجی ایجنڈا نہیں رکھتا اور ساتھ میںاس نے اب تک دنیا میں کہیں پر بھی کسی بھی قسم کے براہ راست ٹکراو یا جنگ سے بھی خود بچائے رکھا ہوا ہے ۔جبکہ اس کے برعکس دیگرطاقتوں نے اپنے سامراجی نوعیت کے ایجنڈوں کے ساتھ ساتھ جنگوں اور تصادم میں بھی خود کو مصروف کر رکھا ہوا ہے ،حتی کہ روس نے بھی خود کو براہ راست کئی محاذوں میں مصروف رکھا ہوا ہے کہ جس کے سبب اس کی معیشت کی بڑھتی ہوئی رفتار متاثر ہو رہی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بہت سو ں کا خیال یہ ہو کہ روس کا شمار اس کی معیشت اور اندرونی ایشوز کے سبب بڑی قوت کے طور پر نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ روس اور ایران جیسے ممالک اپنی درست اور بروقت کامیاب پالیسیوں کے سبب ایسی مضبوط پوزیشن میں آکر کھڑے ہوئے ہیں کہ کم ازکم روس کو کسی بھی طور بڑی قوت اور ایران کو موثر طاقت کی صف سے باہر نہیں کیا جاسکتااسی طرح اگر ہم روس اور ایران کو ان کی حلیف دیگر قوتوں جیسے عراق شام لبنان و فلسطین اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ دیکھیں گے تو واضح ہوگا کہ یہ اتحاد چینی ہم آہنگی اور تعاون کے بعد دنیا میں ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر چکا ہے جبکہ اسی اتحاد ی اعضاء کی دوسرے اہم فورمز کی تشکیل اور موجود گی جیسے شنگھائی تعاون تنظیم وغیرہ تو ان کے طاقت کے دائرے کا مزید بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔روس کے کردار کو یوکرائن سے لیکر مشرق وسطی میں شام عراق ایران سعودی عرب مصر ترکی تک اگر دیکھا جائے تو اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت اور طاقت کے توازن میں اس کا بڑھتا ہوا کردار مزیدواضح ہوجائے گا ایک طرف وہ جہاں ایران اور شام کا حلیف ملک ہے وہیں پر اس کے مصر سعودی عرب ترکی کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں ۔
گذشتہ سات سالوں نے واضح کردیا کہ یورپ اور امریکہ کا مختلف پہلو سے روس پر برتری رکھنے کے باوجود روس نے عالمی سطح پر کامیاب حکمت عملی (ٹیکٹیکل ایڈاوانٹیج)کے اعتبارسے بہت سے عالمی مسائل میں برتری حاصل کی ہے ۔انہی کامیابیوں نے روس کی پوزیشن کو جہاں رائے عامہ میں تقویت دی ہے وہیں پر یورپ اور امریکہ کی پوزیشن کو سخت نقصان پہنچایا ہے ،جبکہ دوسری جانب جہاںبین الاقوامی سطح پر امریکہ اور یورپ کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے وہیں پر انہیں داخلی سطح پر بھی انتہائی مسائل کا سامنا ہے کہ جن میں سرفہرست امریکی انتخابات اور ایک غیر مستقل مزاجی کے حامل بے چین شخص کا بطور صدر انتخاب ،اور انتخابات میں روسی مداخلتوں کا بحران ،جو کہ اب بھی ایک لٹکتی تلوار کی طرح موجود ہے ،برطانیہ کا یورپی یونین سے باہر نکلنا ،عوامیت یا پاپولرازم اور دائیں بازو کی علیحدگی پسند تحریکوں کا وجود میںآنا ،امریکہ کے ساتھ نیٹو اور ماحولیاتی بل پر عدم اتفاق جیسے مسائل شامل ہیں ۔
تحریر۔۔۔حسین عابد
(ریسرچ اسکالر اور تجزیہ کار )