وحدت نیوز(آرٹیکل) برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان کو افسوسناک اور عاجلانہ قرار دیا ہے۔

مجھے دنیا کے ہر ملک کی جانب سے ٹرمپ کے اعلان کی مذمت پر جتنی خوشی ہے اتنا ہی صدمہ تھریسا مے کی جانب سے اظہارِ مذمت پر بھی ہے۔ آج سے ٹھیک سو برس پہلے دو نومبر 1917 ئکو برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور نے برطانوی یہودیوں کے رہنما اور صیہونی نظریے کے مرکزی ستون لارڈ والٹر روتھ چائلڈ کو سڑسٹھ صفحے کا وہ تاریخی خط بھیجا جس میں تسلیم کیا گیا کہ یہودیوں کو فلسطین واپسی اور وہاں اپنی مملکت بنانے کا حق ہے۔ جس وقت یہ خط لکھا گیا فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ گویا کسی اور کے علاقے کو (عثمانی) کسی اور نے (برطانیہ) کسی اور کو (یہودی) الاٹ کردیا۔

اس اعلان کے ٹھیک چالیس روز بعد برطانوی جنرل سر ایڈمنڈ ایلن بی بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوا اور وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈ جارج نے کہا ’’دنیا کے مشہور ترین شہر پر قبضے کے بعد مسیحی دنیا نے مقدس مقامات کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔ امریکی اخبار نیویارک ہیرلڈ کی سرخی تھی ’’برطانیہ نے چھ سو تہتر برس کے (مسلم) اقتدار کے بعد یروشلم کو آزاد کرا لیا۔ مسیحی دنیا میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی‘‘۔

اگلے تیس برس تک فلسطین برطانیہ کے قبضے میں رہا اور یہودی یورپ سے آ آ کر یہاں آباد ہوتے رہے۔ یہ وہ تحفہ تھا جو برطانیہ نے عربوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کی حمایت میں کھڑے ہونے پر دیا۔ جب یہودیوں کی تعداد اتنی ہوگئی کہ وہ ایک چھوٹی سی مملکت قائم کرنے کے قابل ہو سکیں تو برطانوی انٹیلی جینس کی ناک کے نیچے یہودی انتہا پسند تنطیموں ہگانہ اور سٹیرن گینگ نے فلسطینیوں کو ان کی اجدادی املاک سے کھدیڑنے کا کام شروع کیا۔

عین اس وقت نیا نیا اقوامِ متحدہ بیچ میں صلح صفائی کے لیے کود گیا اور اس نے قابض اور مقبوض کی تمیز کیے بغیر مئی 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ اس منصوبے کے تحت جو علاقے جس فریق کو ملنے تھے وہ تو ملنے ہی تھے مگر ایک سفارش یہ بھی تھی کہ چونکہ بیت المقدس تین الہامی مذاہب کا مقدس شہر ہے لہذا یہ شہر کسی ایک فریق کو دینے کے بجائے بین الاقوامی انتظام کے تحت رکھا جائے تا کہ ہر مذہب کے زائرین یہاں بلا رکاوٹ آ جا سکیں۔

اسرائیلی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے یہ تجویز جھٹ سے مان لی کیونکہ اس وقت تک اسرائیل کو پیر ٹکانے کی جگہ نہ صرف مل چکی تھی بلکہ اقوامِ متحدہ نے بھی ان کا قانونی حق تسلیم کر لیا تھا۔ تاہم فلسطینی قیادت (مفتی اعظم امین الحسینی وغیرہ) نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب ہم سارا قبضہ ہی غیر قانونی مانتے ہیں تو بیت المقدس کی حیثیت کا سوال کہاں سے آ گیا۔ مگر فلسطینی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ بین الاقوامی سامراجی ہوا ان کے خلاف چل رہی ہے لہذا جو بچا لو وہی غنیمت ہے۔

منظم یہودیوں نے پانچ عرب ممالک کی کاغذی فوج کو آسانی سے شکست دے دی اور بیت المقدس کا مغربی حصہ بھی ان کے قبضے میں آگیا اور انھوں نے فوری طور پر اسے اسرائیل میں ضم کر کے اپنا دارلحکومت قرار دے دیا۔ جنگ بندی ہوئی تو مغربی کنارہ اور بیت المقدس کا مشرقی حصہ اردن کے قبضے میں تھا۔

چار لاکھ اسی ہزار فلسطینی عورتوں بچوں، بوڑھوں جوانوں کو بندوق کی نوک پر کھڑے کھڑے نسل در نسل گھروں سے نکال کے اندھے مستقبل کی جانب ہنکال دیا گیا۔ ایک ایک گاؤں کا عرب نام مٹا کر عبرانی نام رکھ دیا گیا۔ فلسطینی اس المئے کو نقبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ نقبہ کا وہی مطلب ہے جو ہولوکاسٹ کا ہے (اب یہی بے خانماں بڑھ کے چالیس لاکھ سے زائد ہو چکے ہیں اور ملکوں ملکوں بکھرے پڑے ہیں)۔

کہا جا رہا ہے کہ امریکا پہلا ملک ہے جو بیت المقدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرے گا۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ حالانکہ بیت المقدس کے کسی بھی حصے کو اسرائیل میں یکطرفہ ضم کیا جانا ہمیشہ غیر قانونی رہا مگر سن 50ء کے عشرے میں سولہ ممالک کے سفارتخانے مغربی بیت المقدس میں قائم ہو چکے تھے۔ گیارہ لاطینی ممالک (بولیویا، چلی ، کولمبیا، کوسٹاریکا، ڈومینیکن ریپبلک، ایکویڈور، گوئٹے مالا، پاناما، یوروگوئے، وینزویلا، ہیٹی) تین افریقی ممالک (آئیوری کوسٹ، زائر، کینیا) اور ایک یورپی ملک ہالینڈ۔ تعجب ہے کہ اس وقت عرب دنیا نے اس بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔

1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد غیرجانبدار ممالک کی تنظیم کے فیصلے کے تحت تینوں افریقی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر لیے۔ باقی تیرہ سفارت خانے بدستور مغربی بیت المقدس میں کام کرتے رہے۔ جب 1980ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ’’یروشلم کا بنیادی قانون‘‘ منظور کیا جس کے تحت متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت قرار دے دیا گیا تب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس قانون کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قرارداد 478 منظور کی اور رکن ممالک سے مغربی بیت المقدس سے اپنے سفارت خانے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد تمام سفارتخانے تل ابیب منتقل ہوگئے (اقوامِ متحدہ کی اس قرار داد کو امریکا سمیت کسی نے ویٹو نہیں کیا)۔

مشرقی بیت المقدس پر جون 1966ء میں اسرائیل نے فوجی قبضہ کر لیا۔ اقوامِ متحدہ نے یہ قبضہ غیر قانونی اور مشرقی بیت المقدس کو ایک مقبوضہ علاقہ قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قابض طاقت حتمی تصفیہ ہونے تک مقبوضہ علاقے کی جغرافیائی، شماریاتی، سماجی و مذہبی حیثیت میں کوئی من مانی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ مگر پچھلے پچاس برس میں مشرقی بیت المقدس کے اندر اور اردگرد درجن بھر اسرائیلی آبادکار بستیاں نمودار ہو گئیں جہاں دو لاکھ یہودی بسائے گئے اور ان کی حفاظت کا ذمے پولیس اور فوج کو سونپا گیا۔ جب کہ بیت المقدس کی ساڑھے چار لاکھ فلسطینی آبادی کو شہریت سے محروم کر کے غیر ملکی تارکینِ وطن کا درجہ دے دیا گیا۔ اب ان کے پاس اردنی پاسپورٹ ہیں جن پر شہریت نمبر درج نہیں اور اسرائیل کے جاری کردہ رہائشی پرمٹ ہیں جنھیں کسی بھی وقت منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

اردن میں کام کرنے کے لیے انھیں اردنی ورک پرمٹ کی ضرورت ہے اور اسرائیلی رہائشی پرمٹ برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک خاص مدت سے زیادہ بیت المقدس کی حدود سے باہر نہیں رہ سکتے۔ بصورتِ دیگر انھیں اپنی املاکی ملکیت، کرائے نامے یا تنخواہ کی سلپ کے ذریعے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی بیت المقدس کے حقیقی رہائشی ہیں لہذا ان کا پرمٹ بحال کیا جائے۔ اس کے باوجود گزشتہ پچاس برس میں تقریباً چودہ ہزار فلسطینی ایسے ہیں جن کا رہائشی پرمٹ مستقل منسوخ کیا جا چکا ہے۔ اب وہ نہ اردن کے شہری ہیں نہ بیت المقدس کے رہائشی۔ عملاً وہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت میں بھی پناہ گزین ہیں۔

اب جہاں بے چارگی کا یہ عالم ہو وہاں یہ توقع کرنا کہ عالمِ اسلام ان کے حق کے لیے ہر ممکن اقدام سے گریز نہیں کرے گا ایک مضحکہ خیز توقع ہے۔ ظاہر ہے عرب لیگ کو ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کرنی تھی سو اس نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ظاہر ہے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو یہ مطالبہ کرنا تھا کہ بیت المقدس میں جو بھی ملک اپنا سفارت خانہ منتقل کرے اس سے تنظیم کے ستاون ممالک سفارتی تعلقات ختم کر لیں سو اس نے اپنی مردانگی کے ثبوت کے طور پر مطالبہ کر دیا۔

ظاہر ہے کہ تمام عرب اور دیگر مسلمان ممالک کو ایک مذمتی بیان اور ’’یہاں سے وہاں تک آگ لگ جائے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ کہنا تھا سو کہہ دیا۔ دو یا تین جمعے تک مذہبی سیاسی جماعتیں کراچی، لاہور اور پشاور وغیرہ میں احتجاجی جلوس نکالیں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ منچلے اپنی ہی املاک کو نقصان بھی پہنچا دیں۔ مگر فلسطینیوں نے اگر تیسرا انتفاضہ شروع کر دیا تو ٹانگیں صرف فلسطینوں کی ہی ٹوٹیں گی۔ ہم بس ایک کورس کی شکل میں ہائے وائے کرتے رہیں گے۔

( جب اگست 1979میں آسٹریلوی یہودی مائیکل روحان نے مسجد اقصی کے منبر کو آگ لگائی تو بہاول پور کے ایک مقامی اخبار میں سرخی لگی ’’سمہ سٹہ کے عوام اسرائیل کو نیست و نابود کر کے دم لیں گے۔مقامی علما کا عزم‘‘ ۔)

آج اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ نہیں اصل مسئلہ اسرائیل سمیت پورے مشرقِ وسطی کی ’’اعتدال پسند حکومتوں‘‘ کو ’’انتہا پسند ایران‘‘ کی شکل میں درپیش ہے۔یہ خطرہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر سو فلسطین اور ہزار بیت المقدس قربان۔

 

 

تحریر: وسعت اللہ خان
بشکریہ :ایکسپریس نیوز

وحدت نیوز( آرٹیکل) چاپلوسی کی بھی حد ہوتی ہے، جب کوئی حد سے زیادہ بگڑ جائے تو ہر عقلمند اُسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چاپلوس  ہروقت صرف واہ واہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

چاپلوسوں کی واہ واہ جب  شروع ہوتی ہے تو پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمران بھی اور نام نہاد مفکرین و دانشمند بھی اپنے مفادات کے لئے اپنے آقاوں کی خوشامد اور چاپلوسی کے لئے واہ واہ  میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔

صرف ہم پر ہی کیا بس، آپ دنیائے اسلام کا مرکز کہلانے والے سعودی عرب کو ہی لے لیں،  مئی ۲۰۱۷ میں ریاض میں  عالم اسلام کی عظیم کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں ۵۵ اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔

اس کانفرنس میں ٹرمپ کی آمد پر جو جشن منایا گیا اور جو بھنگڑے ڈالے گئے وہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن شاباش دیجئے آپ اُن چاپلوسوں کو جنہوں نے اس کانفرنس میں ٹرمپ کی شمولیت، اس کے خطاب اور اس کے چاپلوسانہ  استقبال پر بحیثیت مسلمان کوئی اعتراض کرنے کے بجائے سعودی بادشاہوں کے دفاع اور اُن کی چاپلوسی میں زمین و  آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ یعنی چاپلوسی در چاپلوسی کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔

بعض نے تو یہانتک کہہ دیا کہ حضرت شاہ سلمان اس کانفرنس میں حضرت ٹرمپ کو سنتیں سکھا رہے تھے۔ خیر مسٹر ٹرمپ نے شاہ سلمان سے سنتیں سیکھنے  کے ساتھ ساتھ جو بھاری بھرکم ہدایا وصول کئے وہ بھی  اہلِ شعور سے مخفی نہیں ہیں۔

اگر اس روز چاپلوس حضرات چاپلوسی کے بجائے غلط کو غلط کہہ دیتے تو آج مسٹر ٹرمپ کومقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی جرات نہ ہوتی۔

اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے امریکی صدرکے فیصلے کوتاریخی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اب  کسی بھی امن معاہد ے میں مقبوضہ بیت المقدس بطوراسرائیلی دارالحکومت شامل ہوگا۔

یہ اسرائیل بھی وہی ہے اور امریکہ بھی وہی ہے، ریاض کانفرنس میں خطاب کرنے کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کا دورہ ہی تو کیا تھا، یعنی امریکہ، سعودی عرب ، اسرائیل  اور ان کے چاپلوس ۔ یہ ایک ایسا مربع ہے جس کے اندر عالمِ اسلام کے خلاف سازشوں کاہر مربّہ تیار ہوتا ہے۔

گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہاہے کہ اسرائیلی دارالحکومت کی منتقلی کے فیصلے پر عملدرآمدکو یقینی بنایاجائےگا۔

اگر کہیں پر سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت پر بات کی بھی جاتی ہے تو چاپلوس حضرات اسے سرزمینِ حرم سے دشمنی قرار دے دیتے ہیں ، یعنی چاپلوسوں کے نزدیک سرزمینِ قدس، سرزمینِ حرم نہیں ہے اور قدس کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک فلسطینی مسلمان ہیں۔

چاپلوس صرف اور صرف آلِ سعود کے خادم ہیں ، انہیں قدس اور فلسطین کی آزادی سے کوئی غرض نہیں۔ ان چاپلوسوں نے طالبان اور داعش بن کر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جتنی تباہی مچاہی ہے اگر یہ اتنی جدوجہد اسرائیل کے خلاف کرتے تو یقیناً اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔

لیکن چونکہ ان کا ہدف ہی پاکستان و عراق و شام سمیت تمام اسلامی ممالک کی قومی فوج، عوامی مراکز اور ملکی سلامتی کو نشانہ بنانا تھا ، اس لئے انہوں نے نہتے لوگوں کے گلے تو کاٹے، عوامی مراکز پر خود کش حملے تو کئے لیکن  کبھی اسرائیل کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا۔پاکستان میں ٓرمی پبلک سکول پشاور سے لے کر شام کے شہر حلب اور عراق کے موصل میں ہر طرف ان کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم ہیں لیکن  حکومت اسرائیل کے لئے ان کے سینے  میں فقط پیار ہی پیار موجزن ہے۔

انہیں آرمی پبلک سکول کے ننھے منے بچے تو مشرک نظر آتے ہیں لیکن ٹرمپ مشرک نہیں نظر آتا ، یہ کسی دوسرے فرقے کے مسلمان کی تقریر سن لیں تو ان کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں لیکن ٹرمپ کےارشادات عالیہ سننے سے ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے، یہ ریاض کانفرنس میں ایران کے خلاف تقریریں تو کر سکتے ہیں اور ایک بڑی فوج تو تیار کر سکتے ہیں لیکن فلسطین کی آزادی کے لئے ریاض میں اسلامی  افواج کے سربراہوں کی ایک کانفرنس نہیں بلا سکتے۔

یاد رکھئے !بات ممالک اور مسالک کی نہیں ہے،  بات، جذبہ ایمانی ، غیرت دینی  حق اور باطل کی ہے۔

کیا اس دنیا میں اسرائیل سے بڑھ کر بھی کوئی دہشت گرد ہ! اگر نہیں تو پھر کہاں ہے وہ بین الاقوامی سعودی فوجی اتحاد اور کیوں اس عالمی سعودی آرمی کو سانپ سونگھ گیا ہے!!!

یقین جانیے اور لکھ کر رکھ لیجئے کہ دینا چاہے اِدھر سے اُدھر ہوجائے ، طالبان اور داعش کی طرح یہ فوجی سعودی اتحاد بھی، کبھی بھی اسرائیل کے خلاف ایک گولی تک نہیں چلائے گا۔

جی ہاں بالکل ایک گولی تک نہیں چلائے گا چونکہ جب ملتوں سے غیرت اور حق پرستی ختم ہو جاتی ہے تو زبانیں حق گوئی کے بجائے خوشامد کے لئے اور تلواریں دشمنوں کے خلاف چلنے کے بجائے رقص کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں۔

آخر میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ بقولِ شاعر

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش

 میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ’’یہ ایک اتحادی کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں،میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے احکامات دیتا ہوں یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا،یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ بہت عرصے پہلے ہو جانا چاہیے تھا‘‘

ان الفاظ کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر اعلان کردیا کہ وہ یروشلم یعنی قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردے رہا ہے ۔

دوسری جانب اس اعلان کے بعد غاصب ریاست اسرائیل کی جانب سے کہا گیا کہ’’ آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان نے ہمارے لیے یہ ایک تاریخی دن بنا دیا ہے،دنیا کے ہر کونے میں ہمارے لوگ یروشلم واپس آنے کے لیے بے تاب ہیں۔

یہ ایک تاریخی دن ہے۔ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت 70 سے ہے۔ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں کا مرکز رہا ہے۔ یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں پر ہماری عبادگاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے۔

عالمی اور علاقائی سطح پر ٹرمپ کے اس اعلان پر شدید تنقید جاری ہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل سے لیکر یورہی یونین تک سب کاکہنا ہے کہ یہ ایک غیر ذمہ دار اور یکطرفہ فیصلہ ہے جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کا اعلان بین الااقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف ہے۔

لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اپنے اس اعلان کو عملی شکل دے پائے گا ؟
اس اعلان سے قبل ٹرمپ نے عر ب ممالک خاص کر سعودی عرب سے اربوں ڈالر حاصل کئے تھے جبکہ اسرائیل اور سعودی عرب میں تعلقات میں کے لئے بیگ ڈور روابط کی باتیں زیر گردش ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ بھی دیکھائی دیتا ہے ،مشرق وسطی میں داعش کا پیدا کردہ بحران نسبی طور پر تھم چکا ہےلیکن شام اور یمن میں سیاسی بحران جاری ہے اور یمن کا مسئلہ پہلے سے زیادہ گرم دیکھائی دیتا ہے کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عرب بہت سے عرب حکمرانوں کے لئے بنیادی مسئلہ نہیں رہا ہےاور نہ ہی وہ اسرائیل کو اپنا دشمن ملک سمجھنے کے قائل ہیں گرچہ ان ممالک کی عوام کے دلوں میں اب بھی یہ مسئلہ ایک بنیادی اور سلگتا مسئلہ ہے ۔

ترکی میں اردگان کے لئے فلسطین کا مسئلہ انتخابی مہم کو گرمانے کے لئے ایک بہترین ایشو تو ضرور ہے لیکن وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مکمل خاتمے کے نقصانات کو سہنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا ،ترکی نے اب تک اس مسئلے میں صرف سخت لہجہ اور گرم بیانات دینے تک اکتفا کیاہے لیکن کیا اردگان ٹرمپ کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے روابط ختم کرنے کا اعلان کرے گا ؟

عرب تجزیہ کاروں کا ایک گروہ سمجھتا ہے کہ ٹرمپ کا اعلان فلسطین اور قبلہ اول کے مسئلے کی جانب توجہ کو بڑھائے گا بعض کا خیال ہے کہ یہ اعلان ایک زلزلے کی ماند ہوگا جو مسلم امہ اور عرب ممالک کو ہلا کر رکھ دے گا ۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹرمپ نے اس اعلان سے پہلے مشرق وسطی میں اپنے عرب دوستوں کو پہلے سے ہی آگاہ کیا ہواہے یہاں تک ٹرمپ کا یہودی داماد گھنٹوں عرب بادشاہوںکو اس موضوع پر ڈکٹیشن دے چکا ہے ایسے میں سوائے سخت لہجے کے بیانات ،اجتماعات اورمذمتوں کے علاوہ ہم کسی بھی فائدہ مند چیز کی توقع نہیں کرسکتے ہیں ۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد اس بات کا خطرہ پایا جاتا ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں ان شدت پسندگرہوںجیسے القاعدہ اور داعش ۔۔۔ کے لئے گنجائش پیدا ہوگی جو اپنے خاص ایجنڈے رکھتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی فلسطین کے مسئلے کو لیکر کسی قسم کا سنجیدہ اقدام نہیں کیا جو صرف اپنے مخصوص ایجنڈوں کے لئے ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔

اس صورتحال میں صرف یہ فلسطینی عوام ہی ہوسکتے ہیں جو اس مسئلے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں اور شائد دنیا ایک نئے اور وسیع انتفاضے کا انتظار کررہی ہے جو مسلم امہ اور خوابیدہ عربوں کو جگائے۔

تحریر۔۔۔۔حسین عابد

وحدت نیوز(آرٹیکل)* 4 دسمبر کا دن فقط یمنی کانگرس پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے قتل ہونے کا دن ہی نہیں بلکہ یمن پر 30 ماہ سے زیادہ عرصے سے مسلط کرنے والے نام نہاد ظالم اتحادی قوتوں کی وحشیانہ جنگ کے برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔

* اور یہ دن  ان ظالم طاقتوں کے اسٹریٹیجک پارٹنر  کے خاتمے کا دن بھی ہے۔

* اس دن سعودی عرب امارات اور انکے اتحادیوں کے منصوبے خاک میں مل گئے۔

* وہ تحریک انصار اللہ کو سیاسی وعسکری منظر نامے سے آؤٹ کرنے اور اس کے مکمل خاتمے کے لئے جس پارٹی اور جس خائن لیڈر پر اعتماد وانحصار کر رہے تھے  اور جس پر سعودی عرب وامارات اور انکے ماوراء امریکہ واسرائیل کی یمن پر فتح حاصل کرنے کے لئے  نگاھیں تھیں وہ یمن کے صدام علی عبداللہ صالح تھے۔

* اب یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔

* سعودی عرب اور امارات اور انکے اتحادی تحریک انصار اللہ کو میدان سے آوٹ کرنے کی سازشیں کر رہے تھے آج وہ خود میدان سے عملی طور پر آوٹ ہو چکے ہیں۔

* عاصفہ الحزم نامی سعودی جارحیت اربوں اور کھربوں  ڈالرز کے خسارے ، بیگناہ یمنی عوام کے قتل اور اس ملک کی تباہی کا گناہ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے باوجود اپنی کامیابی اور فتح کی آخری امید پر بھی علی عبد اللہ صالح کی بغاوت والے اس خود کش حملے سے پانی پھیر چکا ہے۔

*پہلے جب عوامی فورسسز اور یمنی فوج امارات پر حملے کا پروگرام بناتے تو صالح آڑے آ جاتا تھا. اب ان حملہ آوروں کا ایجنٹ دفاعی فورسسز کے درمیان نہیں رھا. اب فقط ریاض اور ابو ظہبی پر ایک آدھ نہیں کئی میزائل جوابا گر سکتے ہیں۔

* اب انصار اللہ اور یمنی فوج کے پاس زمین سے زمین پر فائز ہونے والے ، زمین سے سمندر اور سعودیہ وامارات کے وسط اور آخری سرحد تک رینج والے میزائل ہیں. اور یمنی دفاعی پوزیشن اس بغاوت کی سرکوبی اور چند گھنٹوں میں اتحادی افواج کی بین الاقوامی سازش اور اندونی خیانت وخباثت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد بہت مضبوط ہو چکی ہے اور یمنی عوام کے حوصلے بلند اور ارادے پختہ تر ہو چکے ہیں. اب اس مسلط کردہ کے سیاسی حل کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔


تحریر:علامہ   ڈاکٹر سید شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص  ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر  گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق  یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔ اغواء قتل وغارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذراسی بات پر تلواریں نکل آتیں اورخون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔دنیاچشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی ۔راہزن رہنماء بن گئے ۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرابن گئےاور  سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔

تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑدیے۔دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بعثت سے بڑکر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا  کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے عظیم  ہستی کوئی نہیں ہے اورآپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔

امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔

رہبر انقلا ب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ اس بابرکت دن کے  بارے میں فرماتےہیں:روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اورجس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔

حضرت علی  علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{و لیعقل العباد عن ربہم ما جہلوہ، فیعرفوہ بربوبیتہ بعد ما انکروا ، و یوحدوہ بالالویہہ بعد ما عندوا}اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت ،ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔

آپ  فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ  فرماتے ہیں :
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرتہ}تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروہم  منسی نعمتہ}انہیں  اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے ۔{و یحتجوا علیہم بالتبلیغ}تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا :{و یثیروا لہم دفائن العقول}تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا:{ویروہم الایات المقدرۃ، من سقف فوقہم مرفوع،ومہاد تحتہم موضوع ....} تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ  کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپرموجودبلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کےذریعے۔۔۔۔}
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پراتمام حجت کرنا:{وجعلہم حجۃ لہ علی خلقہ، لئلا تجب الحجۃ لہم بترک الاعذار الیہم}  اللہ نے انبیاءکو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے ۔

آئمہ معصومین علیہم السلام  سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہےاور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل وشہود اور حواس ہیں جو  محدودہونے کی بنا پر ہدایت ا ور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔علاوہ از یں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتےبلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل  بھی کراتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کامحتاج ہوتا ہے۔ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضابھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :{ رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلی اللَّہِ حُجَّۃ
ُ  بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینےوالے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔

قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کےاہداف میں شمار کرتاہے  :
1۔لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا:{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فی کُلّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّہَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت}  یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ہم نےاپنےرسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کےساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔انسان کی تعلیم و تربیت:  اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا:  {فطری لحاظ سے}سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اورڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔

مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی ، اجتماعی،مادی او رمعنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت  ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الہیٰ  ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔ امام موسی  کاظم علیہ السلا م انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں ۔{و ان لللہ  علی الناس حجتین :حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنۃ : فاما الظاہرۃ فالرسل و الانبیاء و الائمہ علیہم السلام و اما الباطنۃ فالعقول}

خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے  تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و ا خروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہونیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر وکمال  پر مشتمل ہواور امور دینی میں ان کی  مدد کرےعلاوہ از یں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں ۔

حوالہ جات:
 ۱۔امام خمینی رح
  ۲۔امام خامنہ ای ۔[17 نومبر 1998ء]۔
  ۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۴  ۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
 ۵۔  نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
  ۶۔نساء،165۔
  ۷۔نحل،36۔
  ۸۔حدید،25۔
۹  ۔جمعہ،2۔
۱۰  ۔بقرۃ،213۔
۱۱۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
   ۱۲۔تلخیص المحصل،ص367۔

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بھیانک ناکام منصوبہ بندی کی تفصیل جس کے تحت علی عبد اللہ صالح نے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف بغاوت کی تاکہ وہ دوبارہ سے یمن کا بلا شرکت غیرے حاکم بن جائیں، اور اپنے بیٹے کو جو اس وقت عرب امارات میں مقیم ہیں یمن کا صدر بنایا جائے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔ انصار اللہ کے خلاف بغاوت کی پلاننگ اب سے تقریبا 8مہینے پہلے ہوئی۔ اس پلاننگ میں محمد بن زاید(ابوظبی کا ولی عہد)، جنرل شاول موفاز(سابق اسرائیلی وزیر دفاع)، محمد دحلان کے علاوہ علی عبد اللہ صالح شریک تھے۔ ان سب کے علاوہ مقتول یمنی صدر صالح کے بیٹے احمد علی عبد اللہ صالح نے اس میٹنگ میں خصوصی شرکت کی۔۔

ساری پلاننگ ابوظبی میں ہوئی، جس میں بغاوت کی ساری تفصیلات محمد بن زاید کی طرف سے طے کی گئیں۔ اس کے بعد مزید میٹنگز کے لیے سقطری کے خوبصورت جزیرے کا انتخاب کیا گیا جسے سابق یمنی صدر عبد ربہ منصور نے اماراتیوں کو بیچا تھا۔ اس جزیرے میں لگ بھگ 9دفعہ ان کی میٹنگز ہوئیں، جن میں جنوبی یمن میں تعینات اماراتی آفیسرز کے علاوہ اسرائیلی آفیشلز نے بھی شرکت کی جن کے نام شاوول موفاز نے دئیے تھے۔

پلاننگ کے تحت علی عبد اللہ صالح کے قریبی 1200ساتھیوں کو عدن کے شہر میں موجود اماراتی فوجیوں کے اڈے میں خصوصی ٹریننگ دی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کاصنعاکی بغاوت میں اہم کردار ہونا تھا اور ان کا تعلق علی عبد اللہ صالح کی پارٹی سے نہیں تھا۔ ان لوگوں کو سابق اسرائیلی فوجی آفیسرز نے بھی ٹریننگ دی۔۔ صنعا اور اس کے اطراف میں 6 ہزار لوگوں کو الگ سے ٹریننگ دینے کے لیے بجٹ منظور کیا گیا۔ محمد بن زاید کے کنٹرول روم نے فروری سے لے کر جون 2018تک، علی عبد اللہ صالح کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے، تقریبا 290ملین ڈالرز عدن سے صنعا منتقل کئے۔یہ اس100 ملین ڈالرز کے علاوہ ہے جو اگست اور اکتوبر کے مہینے میں علی عبد اللہ صالح کو دئیے گئے۔۔

طے پایا کہ 24اگست 2017کوبغاوت کرنا ہے۔ لیکن اماراتی اور اسرائیلی آفیسرز نے بعد میں کاروائی کو آگے کی کسی تاریخ تک موخر کر دیا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ صالح کے لوگ ابھی مکمل تیار نہیں ہوئے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار اللہ کے حوثیوں تک اس پلاننگ کی خبر پہنچ چکی تھی، لہذا انہوں نے دار الحکومت اور اس کے اطراف میں اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا۔ جو آفیسرز اس پلاننگ میں شامل تھے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ دار الحکومت صنعا اور اطراف میں 8 ہزار لوگوں کو مسلح تربیت دی جائے ۔ اس مقصد کے لیے مقامی ٹرینرز کے علاوہ، داعش سے بھاگے ان16 افراد سے بھی مدد لینے کا فیصلہ ہوا جو اس وقت عدن میں موجود تھے جو جنگی امور اور امداد میں ماہر تھے۔ان سب کے علاوہ چار سابق اسرائیلی آفیسرز بھی تھے جو اماراتیوں کی مدد سے علاقے میں پہنچے تھے۔

دار الحکومت صنعا کے49 خفیہ مقامات پر اسلحہ چھپایا گیا تاکہ کاروائی کے وقت افراد کے درمیان ضرورت کے تحت تقسیم کیا جا سکے۔ کس وقت کاروائی کا آغاز ہو نا ہے وہ سب سے چھپا کررکھا گیا تاکہ انصار اللہ کو سرپرائز دیا جا سکے تا کہ مقابلے میں وہ لوگ فوری طور پر کوئی دفاعی قدم ن اٹھا سکیں۔ یہ پلاننگ انتہائی احتیاط کے ساتھ ، بہت زیادہ سوچ وبچار سے کی گئی ۔ فنی اور دفاعی حوالے سے یہ ایک مکمل منصوبہ تھا۔

یہی وجہ تھی کہ علی عبد اللہ صالح 3 دسمبر تک انصار اللہ کے سامنے لچک دکھانے کو تیار نہ تھے، چونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس اسلحے کی اور لڑنے والوں کی کمی نہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 6گھنٹے میں دار الحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔ جب انصار اللہ کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ اب بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں رہا، تو انہوں نے مذاکرات کرنے والوں سے کہا کہ وہ علی عبد اللہ صالح کو ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیںلیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف بغاوت سے باز آئیں۔

اگر اس بات کو نہیں مانتے تو ہم صنعا اور اس کے اطراف کو صرف 3گھنٹوں میں اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اور پھر 2 اور 3 دسمبر کو یہی کچھ ہوا۔ جب صنعا میں حالات علی عبد اللہ صالح کے بالکل خلاف ہوگئے ، وہ بھاگنے پر مجبور ہوا۔ اس حوالے سے اپنے بیٹے کے ذریعے متحدہ عرب امارات کے ساتھ پہلے سے ہم آہنگی کی گئی۔ جب علی عبد اللہ صالح کا قافلہ صنعا سے نکلا تو امارات کے جنگی جہاز ان کی فضائی نگرانی اور حفاظت پر مامور تھے۔

اس قافلے میں صالح کی بکتر بند گاڑی کے علاوہ تین بکتر بند گاڑیاں آگے اور تین پیچھے حفاظت پر مامور تھیں۔ ان کے علاوہ جدید اسلحے سے لیس مختلف ٹیوٹا پک اپس بھی ساتھ ساتھ حفاظت کی خاطر چل رہی تھیں۔سعودی اتحاد نے صنعا سے لے کر سنحان تک صالح کے راستے میں آنے والے انصار اللہ کے مختلف چیک پوسٹس پر فضائی حملے کئے۔صالح سنحان جا رہا تھا۔ سنحان پہنچنے سے پہلے ، مآرب کے راستے میں انصار اللہ اور قبائل کے مجاہدین کمین لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے قافلے پر ٹینک شکن میزائلوں کی بارش کر دی۔ اس کے علاوہ بھاری ہتھیاروں سے انتہائی قریب سے حملہ کیا گیا۔

ان کی کوشش تھی کہ علی عبد اللہ صالح کو زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ سعودی اتحاد کے طیاروں نے بھی اسی جگہ پر بمباری شروع کر دی تاکہ انصار اللہ کے مجاہدین کو عبد اللہ صالح کو گرفتار کرنے سے روکا جا سکے۔ چونکہ انہیں ڈر تھا اگر صالح گرفتار ہوا تو امارات، سعودی عرب اور اسرائیل کی اس سازش سے پردہ اٹھ جائے گا۔در حقیقت عبد اللہ صالح کو مارنے کا فیصلہ سعودی اتحاد کی طرف سے ہوا تاکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے براہ راست عسکری تعاون پر پردہ پڑا رہے۔


تحریر: محمد صادق الحسینی
مترجم: عباس حسینی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree