وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک شخص کسی بیابان یا صحرا میں تنہا سفر کر رہا تھا کہ اچانک ایک خونخوار شیر کو دیکھا، جو اُس پر حملہ آور ہو رہا تھا، وہ اپنی موت کو نزدیک دیکھ کر وحشت زدہ ہو جاتا ہے، اتنے میں اس کی نظر ایک کنویں کی طرف پڑتی ہے اور اسی کی طرف بھاگ جاتا ہے، لیکن شیر بھی اس کے طرف دوڑتا ہے۔ جب جوان کنویں کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ ایک رسی کنویں میں لٹک رہی ہے، وہ فوراً کچھ سوچے سمجھے بغیر رسی کو پکڑ کر کنویں میں اتر جاتا ہے، لیکن رسی آدھے ہی راستے میں تمام ہو جاتی ہے اور وہ بیچ میں لٹک جاتا ہے، اتنے میں شیر بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور شیر کنوں کے دھان پر کھڑے غرانے لگا ہے۔ جوان جب کنویں کے نیچے کی جانب دیکھتا ہے تو اس کے ہوش اڑ جاتے ہیں، کیونکہ ایک بڑا سا اژدھا اپنا منہ کھولے اُس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ابھی وہ اس وحشت سے نہیں نکل پایا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی چیز کی کریدنے کی آواز آتی ہے، اس کی نظر اوپر کی طرف اٹھتی ہے تو دیکھتا ہے کہ دو چوہے رسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔ نوجوان جب یہ حالت دیکھتا ہے تو اس کا دل حلق میں آجاتا ہے اور اس کا خون رگوں میں منجمد ہو جاتا ہے۔ اسی لمحے میں اچانک اسکی نظریں کنویں کی دیوار پر پڑھتی ہے اور دیکھتا ہے کہ یہاں شہد کی مکھیوں کا چھتا موجود ہے اور اس میں سے کچھ شہد دیوار پر لگا ہوا ہے۔ اس جوان کے دل میں شہد کو چکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ تمام تر خطرات کو بھول جاتا ہے، وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ کنویں کے باہر شیر اور کنوں میں ایک اژدھا اس کا منتظر ہے، وہ ان سب کو فراموش کرکے شہد کی خواہش میں غرق ہو جاتا ہے اور ایک ہاتھ سے رسی کو پکڑتا ہے، دوسرے ہاتھ سے شہد کو چکھنا شروع کر دیتا ہے۔
اس واقعہ میں کنویں کو دنیا سے تشبیہ دی گئی ہے اور رسی انسان کی عمر ہے، یہ دو چوہے دن رات ہیں، جو ہر روز انسان کی عمر کو کم کرتے ہیں، اژدھا قبر ہے اور عسل یعنی شہد اس دنیا کا مال، دولت و لذت و خواہش ہیں اور اس شہد کے چھتے پر موجود مکھیاں اہل دنیا ہیں۔ انسان کی زندگی دنیا میں بالکل اسی طرح ہے اور آج کے دور میں ہم بھی سو فیصد اس نوجوان کی طرح تمام تر خطرات اور حقیقت سے بے خبر ہو کر اس دنیا کی لذت میں مگن ہیں، حالانکہ اس لذت کی عمر کچھ سیکنڈ سے زیادہ نہیں، لیکن اسی لذت اور خواہش نفس کی خاطر ہم دنیا میں ہر وہ کام انجام دیتے ہیں، جو انسانوں کو اشرف المخلوقات کے درجے سے گرا کر حیوان سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں۔ دنیا میں آج عدل و انصاف نہیں ہے تو اس کی ایک اہم وجہ ہمارا اپنے فرائض سے غافل ہونا ہے۔ ہم سب صدر سے لیکر چپڑاسی تک اگر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں تو معاشرے اور ملک میں خوشحالی نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن ہم اپنے نفس کو کچھ دیر لذت دینے کی خاطر اپنے فرائض سے غفلت برتے ہیں اور کام چوری کرتے ہیں، اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں، دولت و ثروت کو حاصل کرنے کے لئے انسانیت اور اخلاقیات کی حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔ جب معاشرے میں افراتفری کا عالم ہو، ہر کوئی اپنی ہوس کو پورا کرنے میں مصروف ہو تو معاشرے سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جب معاشرے سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر معاشرے میں ایسے درندہ صفت انسان پیدا ہوتے ہیں، جو قصور کے زینب کو سفاکی اور درندگی کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن اس سے بڑی سفاکیت یہ ہے کہ ذمہ داران ان ملزموں کو ابھی تک کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔ چونکہ ہم میں سے ہر کوئی کرپٹ اور کام چور ہیں، جب ہمیں کہیں سے کوئی مٹی میں مخلوط شہد ملنے کی امید پیدا ہوتی ہیں تو ہم اپنی انسانیت اور ذمہ داریوں سے دور بھاگتے ہیں۔
زینب کا واقعہ تو ایک ایسا واقعہ ہے، جس پر ملک بھر میں آواز اٹھی ہے، لیکن ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں اور اُن مظلوموں کی آوازیں ظالموں کے رعب و دبدبہ اور ناانصافیوں میں دب کر رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے آج تک کسی ایک ملزم کو بھی اس کے کئے کی سزا نہیں ملی۔ آخر مجرموں کو کیوں سزا نہیں ملتی؟ اس میں قصور کس کا ہے؟ میرے نزدیک اس میں ہر وہ شخص قصوروار اور مجرم ہے، جس نے مظلوم کی حمایت نہیں کی اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر اپنی زبانوں پر تالے لگا بیٹھے ہیں، یا وہ افراد جو مختلف ذریعے سے واقعہ کی حقیقت کو چھپانے اور ملزمان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، چاہئے وہ قلم و میڈیا کے ذریعے سے ہو یا سفارش و طاقت کے ذریعے سے۔ ہمارے معاشرے کی ایک اہم شخصیت اور صحافی اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ "عوام دس بچیوں کے قاتل کو سرعام پھانسی لگتا دیکھنا چاہتے ہیں"، آگے وہ لکھتے ہیں کہ "سر عام پھانسی دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ عمران علی درندہ ہے، لیکن کیا ریاست سرعام پھانسی دے کر خود کو بڑا درندہ ثابت کرنا چاہتی ہے اور کیا ریاستوں کو درندوں کے ساتھ درندگی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔۔" اور یہاں سے پھر اس مسئلہ کو کسی اور طرف لئے جاتے ہیں۔۔۔۔ جناب آپ نے دیگر جو تجاویز دی ہیں، وہ بالکل بجا ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن آیا کسی کے کئے کی سزا دینا درندگی ہے؟؟ آپ کی نظر میں ظالم و مظلوم، سزا و جزا میں کوئی فرق نہیں ہے؟ اس طرح نعوذ باللہ جس دین پر آپ یقین رکھتے ہیں، اُس نے آپ کو درندگی کا درس دیا ہے؟۔۔۔۔۔
جب یہ شخص قاتل ہے تو اس کو اس کے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے اور اسے نشان عبرت بننا چاہئے، اس میں کوئی درندگی کی علامت نہیں ہے، اس کی سزا سے معاشرہ تبدیل ہوگا یا نہیں ہوگا، یہاں پر معاشرے کی تبدیلی اور عمران علی کے ذاتی فعل کی سزا سے کوئی تعلق نہیں ہے، عمران علی کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہئے، کیونکہ سزا و جزا اسلام کا ایک اہم جز ہے اور اگر مجرموں کو ان کے عمل کی سزا نہیں ملے گی تو اس سے جرائم میں مزید اضافہ ہوگا اور جرائم پیشہ افراد کو مزید تقویت ملتی ہے اور مظلوموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، قرآن مجید سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۷۹ میں خداوند عالم فرماتے ہیں "اور اے عقل مندو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے، تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔" باقی معاشرے سے جرائم کی روک تھام کے لئے جدوجہد حکمرانوں سمیت ہم سب پر فرض ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشرے کو ایک پُرامن اور تہذیب یافتہ معاشرہ بنائیں اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم معاشرے میں علم و آگاہی اور عدل و انصاف کو رائج کریں اور سب اپنی ذمہ داریوں پر دنیا و آخرت کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل کریں۔ اس طرح ممکن ہے کہ کچھ عرصے میں ہمارا معاشرہ بھی برائیوں سے پاک معاشرہ بن جائے، لہذا آج سے ہی ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ خود سازی اور معاشرہ سازی میں ہماری غلطیاں کہاں کہاں ہیں اور اس چیز کو فراموش نہ کریں کہ ہماری زندگی بہت مختصر ہے اور یہاں کی لذتیں کچھ لمحے کے لئے ہیں۔
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز (آرٹیکل) سب کو جدید نظام چاہیے، سب تبدیلی کے خواہش مند ہیں، تبدیلی اور نئے نظام سے پہلے ہم پرانے نظام کو تو سمجھیں، جب ہم پرانے نظام کو سمجھ سکیں گے تو پھر اس کی جگہ جدید نظام لا سکیں گے۔
پرانا نظام کیا ہے،!؟کسی طاقتور فرد، قوم ، قبیلےیا گروہ کی کمزور پر حکومت کو پرانا نظام کہتے ہیں، اسے چاہے آپ آمریت کہیں یا جمہوریت ۔اگر انسان ، انسان کو غلام بنا لیتا ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دبا کر رکھتی ہے ، ایک قبیلہ دوسرے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ایک لیڈر دوسرے لیڈر کی اہانت کرنے اور گالیاں دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا تو یقین جانئے یہی فرسودہ اور پرانا نظام ہے۔
جدید نظام وہ ہے جو خدا نے انسانوں کے لئے بھیجا ہے، جس میں کوئی طبقاتی فرق، لسانی تفریق، علاقائی تقسیم اور گروہی جھگڑا نہیں ہے ، اس جدید نظام میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی، قریشی اور حبشی، مشرقی اور مغربی کی کوئی تقسیم نہیں ہے، سب کے حقوق مساوی ہیں اور سب کے فرائض مشخص ہیں۔
اس جدید نظام میں اگر بھوک کے مارے لوگوں نے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھ رکھا ہے تو ان کے امیر و سردارنے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں، اس جدید نظام میں ریاست کا امیر نمک کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور ریاست کے سب سے غریب شخص کے معیارِ زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے ، اس جدید نظام میں ملک کا سربراہ اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے بعد کسی یہودی کے باغ میں مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔
اس جدید نظام میں پارٹی کا سربراہ کسی کو گالیاں نہیں دیتا بلکہ اس کا حسنِ اخلاق اور کرادر دیکھ کر لوگ اس کے نام کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں۔
جی ہاں یہ ہے فرعونوں، شدادوں، نمرودوں، سامریوں ، بادشاہوں اور لٹیروں کے مقابلے میں جدید نظام ۔
اسی نظام کی خاطر خدا نے انبیا بھیجے اور کتابیں نازل کیں ، اسی نظام کی خاطر انبیا نے جیلیں برداشت کیں، صعوبتیں کاٹیں اور شہادتوں کو گلے لگایا، اسی نظام کی خاطر سرورِ کونینﷺ نے ہجرت کی، پتھر کھائے اور اپنے دانت شہید کروائے۔
یہ ہے انسانی اقداراور الٰہی عدل پراستوا دنیا کا جدید ترین نظام ،جسے ہم اسلام کہتے ہیں۔
آج ہمارے ہاں اسلام کے بجائے فراعین، ملوکیت اور نام نہاد جمہوریت کا قدیمی چربہ حکومت کر رہاہے۔ چنانچہ جب زینب کے والدین بیت اللہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو پیچھے ایک پانچ وقت کا نمازی اور نعت خوان ننھی زینب کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنا تا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ملزم نے مزید پانچ بچیوں سے زیادتی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔
قارئین کرام! جس سوسائٹی میں امیرِ شریعت اور پیر طریقت کہلانے والے لوگ دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوں وہاں پر کسی نعت خوان سے بدکرداری کا کیا گلہ کیا جائے!!!
ہمارے معاشرے میں سب لوگ محبت، امن ، اخوت اور رواداری سے رہتے تھے، پاکستان بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اس میں سب مسلمان آزادانہ زندگی بسر کریں گے لیکن چند اللہ والے اٹھے انہوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنایا، دوسروں کی تکفیر شروع کی اور ملک میں جی بھر کر قتلِ عام کیا اور آج نوسو چوہے کھا کر بلی پیغامِ پاکستان کے نام سے حج کرنے چلی گئی ہے۔
قارئین کرام ! جس ملک میں ایک ایس ایس پی اڑھائی سو لوگوں کو آن دی ریکارڈ موت کے گھاٹ اتار دے اس ملک کے حافظوں اور قاریوں سے قانون کی پابندی کا کیا تقاضا کیا جائے!!!
پرانی بات نہیں، ابھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے ،علی ٹاﺅن کا رہائشی 15 سالہ زین کام کی غرض سے علاقہ کے مدرسہ میں قاری نوید کے پاس گیا تو قاری اسے بہلا پھسلا کر اپنے حجرے میں لے گیا اور اس کے ساتھ بدفعلی کر ڈالی.[1] تھانہ رضا آباد کے اے ایس آئی علی جواد کا کہنا تھا کہ واقعہ کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ مگر دونوں کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔
قارئین کرام جہاں پر والدین درندوں کے ساتھ صلح کر لیتے ہوں وہاں پر بچوں کے حقوق کے درس کسے دئے جائیں!!!
اب یہ صلح بھی اللہ کے نام پر کی جاتی ہے ، جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے بن قاسم ٹاؤن کے علاقے میں 8 سالہ طالب علم کو تشدد کرکے ہلاک کرنے والے مدرسے کے استاد کو بچے کے والدین نے معاف کردیا۔ تفصیلات کے مطابق طالب علم محمد حسین کو مدرسے کے قاری نجم الدین نے ماضی میں مبینہ طور پر جسمانی سزا دی تھی، جس کے بعد طالب علم مدرسے سے بھاگ گیا تھا۔
تاہم جمعہ کے روز محمد حسین کے والدین اسے دوبارہ مدرسے لے آئے تھے۔
محمد حسین سے جب مدرسے سے دوبارہ فرار ہونے کی کوشش کی تو قاری نجم الدین نے اسے پکڑ کر شدید تشدد کیا، جس سے طالب علم کی موت واقع ہوگئی۔[2]
یہ اس بچے کے ساتھ ہوا ہے جو بچہ حافظ قرآن بننے آیا تھا، کیا کہنے اُن ولدین کے جو اپنے بچے کے درندہ صفت قاتل کو بھی فی سبیل اللہ معاف کر چکے ہیں، اب جو والدین بچوں کو مدرسوں میں بھیجتے ہی خود کُش بننے کے لئے ہیں اُن سے کیا گلہ اور کیا شکوہ کیا جائے!!!
صرف یہی نہیں ہو رہا بلکہ چاولوں اور آٹے میں بھی پلاسٹک ملا کر لوگوں کو کھلایا جا رہا ہے ، جعلی دوائیاں بک رہی ہیں لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جارہے ہیں اور مریضوں کے گردے نکال کر بیچے جا رہے ہیں ۔۔۔
یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے چونکہ ہم نے جدید نظام کے طور پر قدیم جاہلیت ،پرانے مذہبی پنڈتوں، گالی گلوچ اور غنڈہ گردی کی سیاست کو اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام حاکم ہو اور اللہ کے بندے سکھ کا سانس لیں تو ہمیں قدیم فرعونی رسومات، خاندانی سیاست ، پارٹیوں کی غلامی ، قبیلوں کی سیاست اور وڈیروں کی چودھراہٹ سے ہٹ کر اللہ کی رضا کے لئے اللہ کے نیک بندوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔
جدید نظام یعنی اللہ کے بندوں پر اللہ کی حکومت
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) سچائی فتووں کی محتاج نہیں ہوتی، البتہ سچائی کی خاطر زبان کھولنے کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے،۱۶ جنوری ۲۰۱۸ کو منگل کے روز ایوان صدر اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی ، جس میں سینکڑوں علما اور دانشوروں کے دستخطوں سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا کہ دہشت گردی کی ترغیب دینے والے، خودکش حملوں کی تربیت، اوردہشت گردی کا حکم دینے والےاور ان کے حکم پر عمل کرنے والے یہ سب لوگ اسلامی تعلیمات کے باغی ہیں، فتوے کے متن کے مطابق متحارب جہاد کا حکم صرف ریاست کا اختیار ہے اور اپنے طور پر یہ عمل کرنے والے باغی تصور کیے جائیں گے۔
اس فتوے میں دہشت گردی کو اسلام کے منافی اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات مسلط کرنے والوں کو اسلامی تعلیمات کا باغی قرار دیا گیا۔
اس فتوے میں جوکچھ بیان کیاگیا ہے ، اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے، یہ اسلام کی چودہ سو سالہ تعلیمات ہیں جن کا اعادہ کیا گیا ہے ، البتہ اس فتوے کا صدور اس حقیقت کی غمازی ضرورکرتا ہے کہ عصر حاضر میں کچھ لوگ خوارج کی طرح دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہو گئے ہیں اور انہیں راہِ راست پر لانے کے لئے اس فتوے کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس فتوے پر 1829 علمائے کرام کے دستخط لیے گئے ہیں اور صدرِ پاکستان سمیت ، پاکستان کی کئی اہم شخصیات نے اس فتوے کی تائید کی اور اسے مثبت پیشرفت کا نام دیا۔
یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب دہشت گردوں کے حقیقی سرپرستوں یعنی امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے بار بار پاکستان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
دوسری طرف سعودی عرب نے بھی بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے تناظر میں تکفیر یت، تحریک طالبان و مولوی صوفی محمد کی کالعدم نفاذ شریعتِ محمدی، لشکر جھنگوی ، القاعدہ او رداعش وغیرہ کی سرپرستی سے تقریباً ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
چنانچہ ان سارے گروہوں کو بھی اب ایک پناہ گاہ کی ضرورت ہے ۔ایسے میں ریاستِ پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دے اور اس بیانیے کی روشنی میں دہشت گردوں کے خلاف قانونی اور عسکری کارروائیاں جاری رکھی جائیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس سے پہلے بھی مختلف علمائے کرام فتوے دیتے رہے ہیں اور دہشت گردی کرنے والے لوگ بھی دہشت گردی کے حق میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔جہاں تک فتووں کی بات ہے تو دونوں طرف دہشت گردی کے حق میں بھی اور دہشت گردی کے خلاف بھی فتووں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں فقط کاغذی طور پر فتویٰ فتویٰ کھیلنے سے ریاست اور عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
اس فتوے پر اٹھارہ سو کے بجائے اگر ۱۸ ہزار علما بھی دستخط کر دیں لیکن اگر حکومت ریاست کے دشمنوں کو دار پر نہ لٹکائے، مقتولین کا قصاص نہ لئے، فتنہ گروں کی سرکوبی نہ کرے اور تکفیر کرنے والوں کو لگام نہ دے تو اس فتوے کی حیثیت ردّی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔
اس فتوے کے باوجود اگر نفرت انگیز تقریریں اور نعرے بند نہیں ہوتے، دہشت گردی کی تربیت دینے والے مدارس سیل نہیں ہوتے ، مغرضانہ اور باغیانہ لٹریچر چھپتا رہتا ہے ،ریاستی اداروں کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے تو پھر دہشت گردوں کی از سرِ نو حوصلہ افزائی ہوگی اور دہشت گرد اپنی بکھری ہوئی طاقت کو سمیٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونگے۔
ہماری ریاست کو چاہیے کہ ریاستی اداروں کے ذریعے اس فتوے کی طاقت اور اہمیت کا اظہار کرے۔ اگر ریاستی ادارے اس فتوے کی اہمیت کے قائل نہیں ہوتے اور اس فتوے کی طاقت کا لوہا نہیں منواتے تو پھر اس فتوے کی ناکامی بھی ریاست کی ہی ناکامی تصور ہوگی۔
اب بات فتوے سے آگے بڑھ چکی ہے، بین الاقوامی پسِ منظر میں پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، ایسے میں ریاستِ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کے تحفظ اور عالمی برادری کے دباو کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پاکستان اپنے دفاعی اتحادیوں اور اسٹریٹیجک اثاثہ جات پر نظرِ ثانی کرے۔
حالات تیزی سے تبدیل ہو چکے ہیں ایسے میں پیغامِ پاکستان جہاں ساری دنیا کے لئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے وہیں خود پاکستان کی انا اور بقا کا مسئلہ بھی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) مبارک ہو!پیغامِ پاکستان فتویٰ صادر ہوگیا۔ اب اس فتوے کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کی کسی کو خبرنہیں لیکن تعریفوں کے ڈونگے برسائے جا رہے ہیں دوسری طرف یہ بھی مبارک ہو کہ کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد بھی ان دنوں پاکستان کے آئین پر ایمان لے آئے ہیں اور اُن کے ایمان کی قانونی حیثیت کا بھی ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اب جن کی قانونی حیثیت سب پر عیاں ہے ان کی کارکردگی بھی کچھ تسلی بخش نہیں، اس طرف سے بھی بعض چونکا دینے والی خبریں گردش کر رہی ہیں جیسے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں کراچی میں دوجعلی پولیس مقابلے ہوئے، بغیر کسی کریمنل ریکارڈ کے پولیس نے جعلی مقابلوں میں دو نوجوان ٹھکانے لگا دیے۔انیس سالہ انتظار احمد کو ڈیفنس میں صرف گاڑی نہ روکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور نقیب اللہ محسود کو سچل گوٹھ کے قریب پولیس نے پار کر دیا۔
دونوں کے کیس میں لواحقین اور عوام نے پولیس پر عدم اعتماد ظاہر کیاہے اور اسے کھلی پولیس گردی سے تعبیر کیا ہے۔مبینہ طور پر صرف ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اب تک پولیس مقابلوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے. میڈیا کے مطابق نقیب اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ راؤ انوار پر اس سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کرنے اور زمینوں پر قبضے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2016ء میں بھی معطل کیا گیا تھا تاہم بعدازاں اعلیٰ سطح سے آنے والے دباؤ کے بعد کچھ ہی عرصے میں بحال کردیا گیا۔ 2016 میں ایک انٹرویو میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ وہ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس مقابلے اور ان میں درجنوں مبینہ ملزمان کو ہلاک کرچکے ہیں۔
جہاں تک پولیس کے لگے ناکوں کو دیکھ کر لوگوں کے فرار ہونے کا تعلق ہے تو اس میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ بعض متاثرین کے مطابق پولیس والے ناکے لگا کر ڈاکووں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں اور جو کچھ لوگوں کی جیب میں ہو وہ ابھی انیٹھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ گھڑیاں اور موبائل تک ہتھیا لیے جاتے ہیں۔
یہ سارے الزامات اپنی جگہ قابلِ تحقیق ہیں البتہ ایک فوری کام یہ بھی ہے کہ پولیس والوں کی اخلاقی تربیت کرنے نیز حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف بھی ایک مشترکہ فتویٰ اور قومی بیانیہ منظرِ عام پر آنا چاہیے ۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے کہ جو پولیس کی مسلسل نگرانی کرے اور موصولہ شکایات پر نوٹس لے۔
عوام میں ظلم، استحصال، حرام خوری اور رشوت کے خلاف آگاہی اور شعور کی مہم چلانا بھی علمائے دین کا اوّلین فریضہ ہے، اگر ٹرمپ کے ڈالر رکنے پر پیغامِ پاکستان صادر ہو سکتا ہے تو ملک میں حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف نیز مختلف اداروں کے جبر و استحصال کے خلاف کوئی مشترکہ فتویٰ یا بیانیہ کیوں صادر نہیں ہو سکتا۔
بہرحال آئین پاکستان سے صوفی محمد جیسے لوگ کھیلیں یا پولیس وردی میں ملبوس حضرات یہ ارباب حلو عقد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاحِ احوال پر توجہ دیں۔ اگر ٹرمپ کے دباو پر سارے مسالک کے علام حضرات کو ایک میز پر بٹھایا جاسکتا ہے تو عوامی شعور اور یکجہتی کے ساتھ پولیس کو بھی راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی و عوامی اکابرین لعن طعن اور گالی گلوچ کی سیاست سے ہٹ کر عوامی سطح پر آکر مسائل کو درک کریں اور مسائل کے حل کے لئے عملی کوشش کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) صحافت ایک آفاقی شعبہ ہے، ایک صحافی کی ماضی پر عقابی، حال پر احتسابی اور مستقبل پر فیصلہ کن نگاہیں ہوتی ہیں، بعض لوگ ایک ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کی ٹکر کی خبر چھاپنے کو صحافت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت صحافت آنے والے زمانوں پر نگاہ رکھتی ہے اور مستقبل کے آسمان پر سیاسی و سماجی ستاروں کی حرکات کا نوٹس لیتی ہے۔
16 جنوری 2018ء کو ایوانِ صدر پاکستان میں پیغامِ پاکستان کے نام سے کیا ہوا!؟ اس پر ہماری صحافی برادری کو جو دلچسبی لینی چاہیے تھی وہ نہیں لی گئی۔بات فقط پیغامِ پاکستان کے نام سے ایک فتویٰ جاری کر دینے کی نہیں بلکہ اِن فتویٰ دینے والوں کی شناخت قومی زبوں حالی اوت کشت و کشتار میں ان کا کردار اور اس وقت میں یہ فتویٰ دینے کی وجہ نیز اس فتوے کے ہمارے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں یہ سب کچھ زیرِ بحث آنا چاہیے۔
بلاشبہ جو لوگ ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے کوشاں رہے ہیں وہ ہمارے لئے لائق صد احترام ہیں لیکن صحافت کسی کی جی حضوری کرنے، خوشامد کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے کا نام نہیں ہے۔
یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ جب ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں مسٹر ٹرمپ کو مطمئن کرنے کے لئے 1829 علمائے کرام کو بٹھا کر ایک فتویٰ صادر کیا گیا۔ان فتویٰ صادر کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں امریکہ سے ڈالر ملنے پر ہی فتوے جاری کئے تھے اور ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا۔
یعنی بالکل وہی لوگ جنہوں نے امریکی ڈالر ملنے پر قتل وغارت کے فتوے دئیے تھے اب انہوں نے امریکی ڈالر رکنے پر بھی فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس سے ڈالر کی طاقت اور اپنے ہاں کے علمائے کرام کے قلم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں کی زندگی ہی وحدت اسلامی کے لئے وقف ہے وہ ہمارا موضوع نہیں ہیں بلکہ ہمارا موضوع سخن وہ لوگ ہیں کہ جن کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں ، جن کی آستینوں پر نہتے لوگوں کے لہو کے نشانات ہیں ، جن کے فتووں سے مساجد پر خود کش حملے کئے گئے ہیں ، جن کی تقریروں نے مسافروں کو قتل کروایا ہے ۔۔۔
وہ لوگ جو کل ڈالر لے کر معصوم انسانوں کے قتل کے فتوے جاری کرتے تھے اور آج ڈالر رُکنے کے خوف سے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں ایسے لوگ کسی طرح بھی قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
اگر حکومتی ادارے معاشرے میں واقعتاً اسلامی اتحاد چاہتے ہیں اور علمائے کرام اس ملک کو امن و اخوت کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بے گناہ انسانوں کے قاتلوں سے قصاص لیا جائے، دین فروشوں، فتویٰ فروشوں، خود غرضوں، زر پرستوں اور اغیار کے ایجنٹوں کو علمائے کرام کی صفوں سے باہر کیا جائے۔
جن کی ایک تقریر سے نفرتوں کےا لاو بھڑکتے رہے اور ایک ایک فتوے سے سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے ، انہیں عدالتوں کے کٹہرے میں لایا جائے۔
جب تک بے گناہ شہیدوں کے لہو کی روشنائی قصاص مانگتی رہے گی، جب تک بے آسرا مائیں بد دعائیں دیتی رہیں گی، جب تک اجڑے ہوئے سہاگ خون اگلتے رہیں گے، جب تک بیواوں کے بین گونجتے رہیں گے ، جب تک یتیموں کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں گی تب تک فتووں کی سیاہی اس ملک کو کوئی روشنائی نہیں بخش سکتی۔
جو فتویٰ قاتل کو دار تک نہ پہنچائے، جو قلم درندے کو زندان تک نہ پہنچائے جو علم وحشی کو رام نہ کرے جوحکومت باغیوں کو لگام نہ ڈالے وہ عوام کے لئے قابلِ اعتماد نہیں اور عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں۔
یہ یتیم ، یہ بے نوا، یہ بے آسرا ، یہ بیوائیں، یہ بے زبان، یہ اداس لوگ فتوے نہیں قصاص مانگتے ہیں، یہ ٹرمپ کی خوشی نہیں اپنے دشمنوں کا سراغ مانگتے ہیں ، اور یہ ڈالر کی امداد نہیں قاتلوں کے سر مانگتے ہیں۔
یہ صحافت اور میڈیا سے مربوط افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے فتوے جاری کرنے والوں کا محاسبہ کریں ۔ یہ مقامِ فکر ہے کہ ۱۸ سو سے زائد علمائے کرام نے ٹرمپ کو مطمئن کنے کے لئے فتویٰ دیا لیکن گزشتہ ستر سالوں میں قوم کو مطمئن کرنے کے لئے انہیں اکٹھے ہونے کی توفیق نہیں ہوئی۔
اگر ان لوگوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا اور فتوی فروشی کے اس کاروبار سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تو مستقبل میں اس سلسلے کو روکنا سب کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
ہمیں چاپلوسی اور خوشامد کے بجائے صاف انداز میں یہ بیان کرنا چاہیے کہ یہ پیغام ، پیغامِ پاکستان نہیں بلکہ ٹرمپ کی خوشامد کے لئے فتویٰ فروشوں کا پیغام ہے۔ پاکستانی قوم مستقل طور پر فتویٰ فروشی اور شدت پسندی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔
پاکستانی بحیثیت قوم فتویٰ فروشی اور شدت پسندی دونوں کو یکسر طور پر مسترد کرتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) میرے ابو کتنے اچھے ہیں، ابو نے کہا تھا کہ واپسی پر وہ میرے لیے بہت سارے کھلونے لائیں گے، ابو ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ میں ان کی اچھی بیٹی ہوں اور ضد بھی نہیں کرتی ۔۔۔۔ امی نے بھی کہا تھا کہ وہ بھی میرے لیے اچھے اچھے کپڑے اور بہت ساری کھانے کی چیزیں لائیں گی۔۔۔۔۔
اور ابھی وہ دونوں اللہ کے گھر گئے ہیں تاکہ اللہ میاں سے بولیں کہ میں ہمیشہ ان کی اچھی بیٹی بن کر رہوں ۔۔۔۔ لیکن امی ابو کے بغیربلکل بھی میرا دل نہیں لگتا ۔۔۔ جب وہ آئیں گے تو میں کہوں گی کہ اب کبھی بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔۔ مجھے یہاں ڈر لگتا ہے اور یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔
ابھی تک اس معصوم بچی کی اس طرح کی ہزاروں باتیں و خواہشیں فضا میں موجود ہیں کہ جو بار بار ایک ہی سوال کی شکل میں میرےکانوں سے ٹکراتیں ہیں ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔۔ کیا ابھی بھی ہم زندہ ہیں ؟؟ اور کیا زینب مر گی ؟؟ ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔
ہم بھی مر چکے ہیں اور مجھے اپنے مردہ ہونے کا یقین اس وقت ہوا کہ جب میں نے اس دل خراش واقعہ کی آڑ میں لکھی گی چند روشن خیال تحریروں کو پڑھا ۔ جن میں بجا ئےاس کے کہ ان جیسے انسان سوز واقعات کی بنیادوں کو ذکر کیا جائے ۔۔ لگے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے ۔ کسی نے لکھا کہ یہ اس لیے ہوا کیونکہ ہماری سوسائٹی میں سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی۔ تو کوئی بولا کہ آخر زنا کی حد کے لیے چار گواہ کیوں ضروری ہیں۔ تو کسی نے تو سیدھا یہ کہہ دیا کہ یہ سب مولویوں کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے ۔
تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب تک اندر کے لوگ ساتھ نہ دیں کسی بھی مضبوط سلطنت کی بنیادوں کو ہلایا تک نہیں جاسکتا ۔ تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ آخر کون لوگ آج آزادی نسواں و روشن خیالی کی باتیں کر رہے ہیں ۔۔ وہی کہ کل تک جن میں یہ رائج تھا کہ ؛ عورت ،مرد کے ساتھ ایک جگہ نہیں سو سکتی کیونکہ اس کی نحوست کی وجہ سے مرد کی زندگی کم ہو جاتی ہے[1] اور مرد کو اختیار ہے کہ وہ عورت کو فروخت کر سکتاہے یا بھر وہ کہ جو کل تک خواتین کی شادیاں زبردستی حیوانات سے کرتے رہے [2] اس روشن خیالی کا ماضی یہی ہے کہ جس میں عورت کو اجازت نہ تھی کہ وہ کسی بھی جگہ مرد کے ساتھ نظر آئے چاہے وہ اس کی ماں یا بہن ہی کیوں نہ ہو ، عورتوں کا بازار ، گلیوں ، سڑکوں حتی تمام پبلک پلیسسز پر آنا ممنوع تھا[3]۔ بعض جگہ تو مرد کے مرنے کے ساتھ عورت کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور جب کبھی گھر پر مہمان آتا تو اپنی ناموس کو اسے پیش کیا جاتا[4] حتی افریقا کے کچھ قبائل میں تو ایک گائے کے بدلے بیٹی کو فروخت کیا جاتا۔ اگر کسی کو جنگجو یا کسی بھی خوبی والا بیٹا چاہیے ہوتا تو اپنی ناموس کو اسی قسم کے مرد کے پاس بیھجا جاتا[5] ۔ کبھی خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا [6] ۔تو کہیں پر اپنی ناموس کا تبادلہ کیا جاتا[7] ۔ کہیں پہ یہ ہوتا کہ اگر مرد و عورت دونوں راضی ہیں تو آزادی سے معاشرے میں کچھ بھی کرتے پھریں [8] تو کہیں پیسوں کے عوض اپنی ناموس کو سرعام فروخت کر دیا جاتا[9]۔
مگر جیسے ہی اسلام جیسے مقدس دین نے طلوع کیا تو ان خرافات و واہیات کی جگہ انسانی اقدار اور تو انسانیت کے تقاضوں نے لے لی ، دینِ اسلام نے معاشرے میں عورت کو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمانی بلندیاں عطا کیں اور بلند صدا دے کر کہا کہ عزت و تکریم کا معیار فقط تقوی ہے نہ کہ نسب و جنسیت ۔
وہی عورت کہ جسے معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا جنت جیسی عظیم نعمت کو اس کے قدموں میں قرار دیا گیا۔ وہ بیٹی کہ جسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا جنت کو اس کی پرورش کا صلہ قرار دیا گیا ۔ آج قوانین اسلام سے ہٹ کر آزادی کا علمبردار ہونا ایسا ہی ہے کہ جیسے گھپ اندھیروں میں سیاہ ورق تلاش کرنا ۔ اور رہی بات سیکس ایجوکیشن کی تو میں اپنے ناداں دوستوں سے یہ عرض کروں گا کہ اس روشن خیالی کو پھیلانے سے پہلے اُن علل و اسباب کا ضرور مطالعہ کریں کہ جن کی بنا پر غرب معاشرے کو اس ایجوکیشن کی ضرورت پڑی ۔
اگر ہم ذرا بھی اسلام اوراسلامی تہذیب سے آشنا ہوتے تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا کہ ہمیں قطعا ایسی مشکلات کا سامنا نہیں جن مشکلات سے مغربی سوسائٹی گزر رہی ہے ۔ مغرب میں بسنے والے پاکستانیوں سے ہی پوچھ لیجئے جہاں آج بھی ایک عورت کے دو ، دو اور تین تین شوہر ملتے ہیں اور بعض اوقات محرموں کے ساتھ بھی شادی کا پراسیس انجام دینا پڑتا ہے۔
اور ساتھ ہی یہ یاد رہے کہ بچے کا ذہن ایک سفید ورق کی مانند ہے جیسی بنیاد رکھو گے ویسی ہی عمارت بنتی نظر آئے گی ۔ جہاں تک چار گواہوں کا مسئلہ ہے تو بیان کرتا چلو کہ چار گواہوں کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ خداوند متعال اصلاً نہیں چاہتا کہ ہر کوئی ہماری ناموس پہ انگلیاں اٹھاتا پھر ے جبتک کہ ٹھوس ثبوت نہ ہوں۔
حتی اسلام نے مسئلہ ناموس کو اسقدر محترم رکھا کہ بعض علما کے نزدیک سورہ یوسف تک کی تعلیم کو بچیوں کے لیے مکروہ قرار دیا ہے۔ مقام فکر ہے کہ بقول اقبال ؒ آج ہم بدعملی سے بدظنی کی طرف گامزن ہیں[10]مگر دوسری طرف آج پھر خاتون کو آزادی کے نام پر اندھیروں کی اس دلدل میں دھکیلاجا رہا ہے کہ جس کے تصور سے ہی انسانیت کانپ اٹھتی ہے ۔
مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کل عورت بازار میں ایک جنس کے طور پر فروخت ہوتی تھی جبکہ آج مختلف اجناس کو فروخت کرنے کےلیے اسے بازاروں میں لایا جاتاہے۔
[1] ۔ تاریخ تمدن جلد ۱ ص ۴۴
[2] ۔ سیر تمدن ص ۲۹۵
[3] ۔ تاریخ تمدن جلد ۱ ص ۳۸
[4] ۔ ایضا ص ۶۰
[5] ۔ زمانہ جاہلیت میں (نکاح الاستیظاع)
[6] ۔ نکاح رھط
[7] ۔ نکاح البدل
[8] ۔ نکاح معشوقہ
[9] ۔ نکاح الاشغار
[10] ۔ بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے (از جواب شکوہ)
تحریر۔ ساجد علی گوندل
Sajidaligondal88gmail.com