وحدت نیوز(آرٹیکل)  کچھ دنوں پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قبلہ اول اور تمام عیسائی، یہودیوں کی مقدس جگہ یروشلم) جہاں بیت المقدس موجود ہے( کو اسرائیل کا دارلخلافہ قرار دیتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کردیا، جس سے تمام دنیا میں غم و غصے کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے اور سعودیہ اور بحرین کے علاوہ تمام اسلامی ممالک حتاکہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، جرمنی، چین اور فرانس وغیرہ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کی مذمت کی ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ٹرمپ پاگل ہے ،میرا سوال ہے اگر وہ پاگل ہے تو امریکہ کے ہر اسٹیٹ کو آزاد اور الگ کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتا؟ہر وقت مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں؟ ۔ظاہر سی بات ہے وہ دیوانہ یا پاگل نہیں ہے بلکہ عمدا اس کام کو انجام دیتا ہے۔اب ہمیں آہستہ آہستہ سمجھ آتا ہے کہ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب کے وجوہات کیا تھے ۔کیونکہ کسی بھی صدر کا دورہ یا خطاب اسٹیٹ پالیسی اور قومی مفادات کا حصہ ہوتا ہے۔

اسرائیل ایک ایسا غاصب ملک ہے جس نے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی پر فلسطین پر قبضہ کیا اور صدیوں سے آباد مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجر بنادیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھالے جانے والے مظالم کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں آئے روز مسلمانوں پر ظلم و ذیادتی کی جاتی ہے کبھی نماز پڑھنے پر پابندی تو کبھی مسجد اقصیٰ کو بند کیا جاتا ہے ، کبھی مسلم خواتین کی سرعام بے عزتی کی جاتی ہیں، حتیٰ انہیں زد وکوب کیا جاتا ہے ، کبھی شک کی بنیاد پر بچے، بوڑھے، جوان اور مرد و زن کی تمیز کئے بغیر ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں تو کبھی رات کے سناٹے میں گھروں کو مسمار کئے جاتے ہیں۔یہ وہ مظالم ہیں جو ہم ہر روز میڈیا پر دیکھتے ہیں۔لیکن عالم دنیا کے نام و نہاد حقوق انسانی کے علمبرداروں کا کہی کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔

لیکن امریکی و اسرائیلی مظالم سے زیادہ تکلیف دہ ظلم ہم پر خود ہمارے مسلمانوں کی جانب سے ہوتا ہے جسے سوچ کر ایک باشعور انسان خون کے آنسو بہائیں تو بھی کم ہے۔آخر ہمارے اوپر ہونے والے مظالم کے اسباب کیا ہیں؟ کیا ہم مسلمان اتنے کمزور اور ناتوان ہے کہ ہمارے اوپر ہونے والے مظالم کا مقابلہ نہیں کرسکتے؟تو جواب ہوگا نہیں کیونکہ خدا کے فضل سے مسلمانوں کے پاس تمام نعمتیں موجود ہیں، ہمارے پاس ایمانی طاقت بھی موجود ہے اور مالی وسائل بھی، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے پاس کیا طاقت ہے اور ان سے کیسے استفادہ کرنا ہے۔ اس میں سب سے بڑا نقص ہمارے مسلم حکمرانوں کے ہیں جنہوں نے اپنے زاتی مفادات کی خاطر سر اٹھا کے جینے کی بجائے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سامنے غلامی کو قبول کیا ہے۔اور جب غلامی کی عادت ہو جائیں تو تمام تر وسائل و آزادی ہونے کے باوجود بھی ہم ذہنی طور پر غلام بن جاتے ہیں۔ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے، مسلمان ممالک تیل ،گیس ، سونے و دیگر تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس نہیں ہے تو صرف ایمان نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے ساتھ بھی خیانت کر رہے ہیں اور اپنے دین ووطن کے ساتھ بھی۔ لیکن ہمارے برعکس دشمن چاہے وہ امریکہ ہو یا سرائیل یا کوئی اور ملک وہ اپنے فلسفہ ، اپنے مقاصد اور اپنے اہداف پر یکجا ہیں۔ وہ اپنے باطل عقیدوں اور پالیسیوں پر دل و جان سے عمل کرتے ہیں اسی لئے وہ کامیاب بھی ہیں۔ہم پورے عالم اسلام میں دیکھیں تو مغربی طاقتیں صرف ایک فارمولےdivide and rule  پر عمل کر رہے ہیں وہ مسلمانوں میں انتشار و تفرقہ پیدا کرتے ہیں اور ہمارے اوپر حکومت کرتے ہیں افغانستان سے لیکر پورے مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کو دیکھیں ہر جگہ اسی فارمولہ کے تحت کام ہو رہا ہے۔آخر دشمن کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ جس جگہ چاہیں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیتیں ہیں اور جس جگہ چاہیں فساد بر پا کر دیتیں ہیں اس سے بڑھ کر مسلمان با آسانی ان کے فریب میںبھی آجاتے ہیں۔ اس کے لئے ایک چھوٹی مثال کا سہارا لینا ہوگا کہ ایک جنگل میں کچھ لوگ درختوں کو کاٹ رہے تھے۔ جنگل کے درخت پریشان تھے کہ اگر اس طرح انسانوں نے اپنا کام جاری رکھا تو کچھ دنوں میں ہم سب نابود ہو جائینگے ۔ ایک دفعہ جنگل کے تمام درخت میٹنگ کر رہے تھے کہ ایک عمر رسیدہ، بلند و بزرگ درخت نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ جنگل کی نابودی میں یقینا ہم میں سے کوئی ہے جو انسانوں کی مدد کر رہا ہے، بزرگ کی بات سن کردرختوں نے سر جوڑ کر سوچنا شروع کیااور آخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں کاٹنے میںہمارے ہی شاخیں انسانوں کی مدد کر ر ہے ہیں۔انسان ان شاخوں سے کلہاڑی کے دستے بناتے تھے اور انہی کے سہارے درختوں کو کاٹتے تھے۔

اس وقت عالم اسلام کو درپیش مشکلات کا سبب بھی اسی مثال کی طرح ہیں، مسلمانوں میں ہی کچھ گروہ ایسے ہیں جو اسلام کے خلاف یا تو استعمال ہو رہے ہیں یا اپنی مفادات کی خاطر جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منافقت کر رہے ہیں۔ طالبان سے لیکر داعشی خلافت کے اعلان تک مسلمانوں میں کچھ منافقین ہی تھے جنہوں نے اسلام کے لبادے میں دشمنان اسلام کے لئے مزدوری کے عوض کام کیااور ان کے آلہ کار بن گئے۔ان مغربی ساختہ چند گروہوں نے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا یا ہے شاید اس کی مثال کہی نہیں ملتی۔مشرق وسطیٰ کے حالات ہمارے سامنے ہیںکہ جب یہاں پر داعش نے اسلام کے نام پر قتل و غارت گری شروع کی تھی تو ہمارے کچھ مسلمان حکمران اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے شانہ بہ شانہ ان تکفیریوں کی فکری، مالی و نفری مدد کر رہے تھے اور ان کو اسلام کے ہیرو بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ان کا ہدف ایک ہی تھا کہ اسلامی ممالک کو کمزور کرنا اور ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر ہمارے ہی لوگوں کے زریعے ہمارے ہی لوگوں کو تربیت دیتے ہیں، پھر انہی کے خلاف قیام کرتے ہیں اور پھر انہی کو ختم کرنے کے لئے ہم سے ہی پیسے وصول کرتے ہیں اور بدنام بھی ہمیں ہی کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک تمام تر حقائق کو دیکھتے ہیں سمجھتے ہیں لیکن اپنی کرسی کی خاطر ان غاصب صہونیوں کا ساتھ دیتے ہیں ان سے تعلقات قائم کرنے کو کامیابی قرار دیتے ہیں ۔

ٹرمپ کے اسرائیلی دارلخلافہ کے اعلان کے بعد اسلامی اتحادی افواج کی جانب سے خاموشی ٹرمپ کے اعلان سے بڑھ کر خطرناک ہیںکیونکہ اس ملٹری الائنس کے رسمی طور پر اعلان ہونے کے بعدہی امریکی صدر نے اسرائیلی دارلخلافہ کا اعلان کیا ہے اور اس کے بنانے والوں میں سے کوئی چپکے چپکے تو کوئی کھلے عام اس اعلان کی حمایت کر رہے ہیں۔حقیقت دیکھا جائے تو اس وقت اس اسلامی ملٹری الائنس پر فرض بنتا تھا کہ وہ سب سے پہلے مظلوم فلسطینوں کی حمایت کرتے۔۔مگر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتابلکہ بحرین نے ایک وفد کو" امن" کے عنوان سے اسرائیل بیجا ہے تاکہ دو طرفہ تعلقات پر کوئی آنج نہ آنے پائے۔

لیکن اگر ہم دوسری جانب دیکھیں توہمارے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور ہمیں اس اندھیری گلی میں امید کی کرن نظر آتے ہیں اور وہ ہے مقاومتی تحریک ، جو سنی ،شیعہ مسلمانوں کا اتحاد ہے جنہوں نے عراق ،شام اور لبنان میںعالمی سازشوں کو ناکام بنا کر ساری دنیا کو بتا دیا ہے کہ حقیقی مسلمان اور اسلام کی حفاظت کرنے والے ہم ہیں۔ وہ اسلام و مسلمان جن کو مغربی و عالمی طاقتوں نے پروموٹ کئے ہیں وہ دراصل کرایہ کے لوگ تھے جن کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور مغربی مفادات و اسرائیل کا تحفظ کرنا تھا ۔مگر الحمد اللہ باشعور مسلمانوں نے آج اس فتنے کو شام ، عراق میں دفن کر دئیے ہیںاور ہمیں امید ہے کہ جس طرح داعش کو شام ، عراق میں شکست دیا ہے اسی طرح اسرائیل اور امریکہ کو فلسطین میں شکست دینگے اور نیل سے فرات تک قبضہ کرنے کی اسرائیلی خواب کو چکناچور کر دینگے۔


تحریر : ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) اقوام  و ممالک کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک اس ملک   کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف پاکستانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جہانِ اسلام کے لئے بھی  امیدکی شمع ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ہر دور میں پاکستان آرمی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔

اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ  سیاہ چن کے برفیلے پہاڑوں سے لے کر  بلوچستان کے صحراوں تک ہر طرف پاکستان آرمی کی عظمت و شجاعت کی داستانیں رقم ہیں اور دہلی سے لے کر تل ابیب تک ہر دشمن طاقت پر  پاکستان آرمی کے نام سے خوف چھایا ہوا ہے۔

پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کا لفظ لفظ پاکستان آرمی کے جوانوں کے خون سے عبارت ہے، ملک کی سرحدوں پر باہر سے حملہ ہو یا اندرونِ ملک سے طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسے ٹولے حملہ کریں، یہ پاکستان آرمی ہی ہے جو اِن سب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔

ملکی تاریخ میں پاکستان آرمی نے ملک دشمن عناصر کے خلاف متعدد آپریشن کئے  ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:

 آپریشن راہ حق سوات 2007  میں کیا گیا، آپریشن صراط مستقیم خیبر ایجنسی2008 میں  آپریشن شیر دل باجوڑ 2008 میں  آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم بنیر 2009میں  آپریشن راہ راست سوات 2009 میں  آپریشن راہ نجات جنوبی وزیرستان 2009 میں ، آپریشن ضربِ عضب ۲۰۱۴ میں اور آپریشن ردُّ الفساد  میں ۲۰۱۷ فروری کے مہینے   میں  شروع کیا گیا۔

اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ یہ آپریشنز کن حالات میں اور کن لوگوں کے خلاف کئے گئے تو ہمیں پاکستان آرمی کے بہادر سپوت  لائق حسین کی شہادت کی ویڈیو ضرور دیکھنی چاہیے ،  یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے دشمن کس قدر وحشی اور ظالم ہیں،  14 اگست 2007ء میں طالبان نے لائق حسین کو دوران حراست  جانوروں کی طرح ذبح  کر کے شہید کردیا تھا۔

۱۴ اگست پاکستان کا یومِ آزادی ہے، اس روز پاکستان کے دشمنوں نے،  پاکستان کی فوجی  وردی میں ملبوس پاکستان کے بیٹے کو ذبح کر کے  ملت پاکستان کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کے سینوں میں دل نہیں بلکہ پتھر ہیں، اگر اس کے باوجود کسی کو اطمینان نہ ہو تو وہ  آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے مُنّےبچوں کی لاشیں گن کر دیکھ لے۔ سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کو پاکستان کے ان دشمنوں نے وحشت و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے  تقریبا ۱۴۴ بچوں کو شہید کردیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے  خود کُش دھماکوں میں  بھی ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں اور پاکستان فوج اور پولیس کے کئی مراکز پر حملے کرنے کے علاوہ کئی قیمتی افیسرز کو بھی شہید کر کے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ملک و ملت کے ان دشمنوں نے مذہبی مقامات  حتی کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کئے اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی قتل کر کے دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ۔

ابھی گزشتہ دنوں میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں9 افراد شہید 38 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ پاکستان کے دشمن پاکستانیوں کے خلاف  مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔

طالبان ،القاعدہ اور  لشکر جھنگوی  وغیرہ کے بے شمار لوگوں کی گرفتاریوں اور اُن سے ہونے والی تفتیش کے بعد اب یہ حقیقت سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان کے دشمن ،بانی پاکستان کو کافر اعظم ، ملت پاکستان کو کافرو مشرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں، یہ  پاکستان میں بسنے والی کسی بھی قوم، قبیلے یا مسلک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

یہ دہشت گرد ٹولے پاکستان اور بانی پاکستان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے 15 جون 2013 کو زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو  بھی بم دھماکوں سے تباہ کردیا ،تفصیلات کے مطابق  ایک سے دو منٹ کے وقفے کے ساتھ چار بم دھماکے کئے گئے۔

چنانچہ  موجودہ  حالات میں پاکستان آرمی  مسلسل ملک دشمنوں کے مظالم کے سامنے بند باندھنے میں مصروف ہے۔ پاکستان آرمی کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب عوامی سطح پر بھی لوگ اپنے ملک  کےدشمنوں کو پہچانیں اور اُن سے نفرت کریں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ماضی میں ہماری افغانستان پالیسی اور امریکہ و سعودی عرب کے ایجنڈے کی وجہ سے ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط ہونے میں مدد ملی ہے تاہم اب یہ ہم سب کی ملی ذمہ داری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور  اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں اپنی فوج کا ساتھ دیں۔

جن مدارس اور مراکز میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو اور جولوگ ملک و قوم کے خلاف نوجوانوں اور جوانوں کو تیار کرتے اور بڑھکاتے ہوں ان کی نشاندہی کرنا ہم سب کا قومی و ملی فریضہ ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو جان اور مان لینا چاہیے کہ اقوام کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک  اس ملت کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں،لہذا اپنے دشمنوں کو ناکام اور نامراد کرنے کے لئے ہمارے عوام کو اپنی آرمی سے ہر ممکنہ  تعاون کرنا چاہیے۔

ہمیں اپنے قومی اتحاد، وسعتِ قلبی، دینی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی سے اپنے بدترین دشمنوں پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس ملک کی حفاظت کے لئے ہم سب پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

رجعت کا عقیدہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) شیعوں کےمخصوص عقائد میں سے ایک {عقیدہ  رجعت }ہے ۔یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ مہدی موعود {عج}کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قائم ہونےکے بعد اولیائے الہی اوراہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمنوں  کا ایک گروہ دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آئیں گے۔اولیاءاور نیک لوگ دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت دیکھ کر خوش ہو ں گے اور انہیں اپنے ایمان اورعمل صالح کے ثمرات دنیا میں حاصل ہوں گے جبکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو اپنے ظلم کی سزا ملے گی البتہ آخری جزا و سزا قیامت میں ملیں گی ۔ رجعت ایک ممکن امر ہے جو عقلی لحاظ سے محال نہیں ہے ۔اس کے امکان پر واضح دلیل گذشتہ امتوں میں اس کا واقع ہونا ہے یعنی گذشتہ امتوں میں بھی کچھ لوگ مرنے کے بعد زندہ ہو ئے  ہیں۔قرآن کریم جناب عزیر علیہ السلام کے بارے میں فرماتاہے کہ وہ مرنے کے سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوئے ۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک  معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔رجعت اور مردوں کے زندہ ہونے کا ایک نمونہ بنی اسرائیل کےمقتول کا زندہ ہونا ہے۔بنابریں بعض شبہ ایجاد کرنے والوں کا  رجعت کو تناسخ کے ساتھ تشبیہ دینا  ان کی کوتاہ فکری اور نا آگاہی کی دلیل ہے ۔

شیعہ علماء نے عقیدہ رجعت کے اثبات میں تین طرح کے دلائل ذکر کئے ہیں:1۔آیات قرآنی 2۔سنت نبوی 3۔احادیث اہل بیت علیہم السلام۔  علماء کے نزدیک سب سے  عمدہ دلیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام  سے تواتر کے ساتھ نقل شدہ احادیث ہیں۔علامہ مجلسی  نے بحار الانوار میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ان احادیث کو چالیس سے زیادہ موثق شیعہ علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کیا ہے اور یہ احادیث پچاس سے زیادہ شیعوں کی تفسیر ، حدیث  اور کلام کی کتابوں میں نقل ہوئیں ہیں ۔ علاوہ ازیں شیعوں کے کچھ بزرگ علماء نے رجعت کے بارےمیں مستقل کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح دوسرے افراد نے بھی اپنی کتابوں میں باب غیبت میں اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔ لہذا اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت پر ایمان رکھتاہو تو ان تمام دلائل  کے بعد اس مسئلے میں شک و تردید کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اسی لئے رجعت کے بارے میں شیعہ علماء کا اجماع ہے ۔علمائے علم کلام نے رجعت کے اثبات کے لئے ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث سےاستدلال کرنے کے علاوہ قرآن کریم کی بعض آیات سےبھی استدلال  کرتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف دو نمونےذکر کرتےہیں:

1۔{وَ يَوْمَ نحَشُرُ مِن كُلّ‏ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِايَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُون}  اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔یہ آیت اس دن کے بارے میں بیان کر رہی ہے کہ جس دن ہر امت سے خدا کی نشانیوں کو جھٹلانے والے چند افراد زندہ ہو ں گے ۔اس آیت  میں {حشر}صرف اورصرف ایک گروہ{ناصالح افراد} کے ساتھ مخصوص ہے ۔یعنی اس آیت  میں صرف ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کا ذکر موجود ہے حالانکہ قیامت کے دن{حشر}عام ہوگا یعنی تمام انسان محشور ہوں گے جیساکہ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : {وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنهْمْ أَحَدًا}اور سب کوہم جمع کریں گےاوران میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
بنابریں قرآن کریم دوقسم کے {حشر}کے بارے میں خبر دے رہا ہے ۔1۔حشرعمومی جو قیامت اور آخرت کے ساتھ مربوط ہے۔2۔حشر خصوصی جو چند افراد کے ساتھ مخصوص ہے ۔چونکہ یہ آخرت کے ساتھ مربوط نہیں ہے  لہذا یہ دنیا میں ہی انجام پائے گا اوریہ وہی رجعت ہے ۔
2۔{قَالُواْرَبَّنَاأَمَتَّنَااثْنَتَينْ‏وَأَحْيَيْتَنَااثْنَتَينْ‏فَاعْترَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلىَ‏ خُرُوجٍ مِّن سَبِيل}وہ کہیں گے :اے ہمارےپروردگار!تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کر تےہیں تو کیا نکلنے کا کوئی راہ ہے ؟ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں خبر دے رہی ہے جو قیامت کےدن عذاب الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔یہ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں بخشش  طلب کرتے ہیں ۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ افراد دو مرتبہ مرنے اور دو مرتبہ زندہ ہونے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں ۔یعنی خدا نے انہیں دو مرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندگی عطاکی حالانکہ تمام انسان ایک دفعہ مرتے ہیں اور ایک دفعہ ہی زندہ ہو تے ہیں یعنی روح  انسان کےبدن میں دوبارہ داخل ہو تی ہےتاکہ وہ اپنے اعمال کا جزا و سزا دیکھ سکے۔مذکورہ گروہ دو مرتبہ مر جاتا ہے اور دو دفعہ زندہ ہو جاتاہے بنابریں یہ مطلب عقیدہ رجعت کےساتھ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ رجعت کرنےوالوں کے لئے دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی حاصل ہوگی ۔

منکرین رجعت اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں : دو مرتبہ موت واقع ہونےسےمراد ایک دنیوی زندگی سےپہلے والی موت اور دوسری دنیوی زندگی کے بعد آنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سے مراد ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی ہے ۔یہ تفسیر لفظ {اماته}کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ اس سےمراد صاحب حیات کو موت دیناہے یعنی پہلے وہ حیات رکھتا ہو پھر اسے موت دی جائے۔ بعبارت دیگر لفظ{اماته}اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ موت سے پہلے ایک زندگی ہے جبکہ انسان کو اس  کی ابتدائی شکل میں موت دینا یعنی جب وہ مٹی یا نطفہ کی شکل میں موجود ہو اورابھی تک اس کے بدن میں روح نہ پھونکی گئی ہو تویہ صاحب حیات نہیں ہے کیونکہ ایسے مقام پر لفظ {اماته}استعمال نہیں ہوتا ۔علاوہ ازیں یہ انسانوں  کا کلام ہے  اور اس کا ظہور بھی یہی ہے کہ انہیں انسانی زندگی  گزارنے کے بعد دو مرتبہ موت دی گئی ہے ۔

بعض افراد اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں :دو مرتبہ موت دینے سے مراد ایک دنیوی زندگی کےبعد آنےوالی موت ہے اور دوسری منکرونکیر کےسوالات کا جواب دینے کے لئے قبر میں زندہ ہونے کے بعدآنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سےمرادبھی ایک دنیوی زندگی اور دوسرا قبرمیں زندہ ہونا ہے ۔
یہ تفسیربھی آیت کے ظہور کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ آیہ کریمہ کا ظہور یہ ہے کہ یہ افراد جوعذاب الہی میں گرفتار ہیں اپنے ان دو زندگیوں  کے بارے  میں  [جو ان کے اختیارمیں دی گئ تھی}نادم ہیں کیوں انہوں نے اپنی  ان زندگیوں کومعقول اور جائز طریقے سے نہیں گزاری کہ آخرت میں عذاب کے مستحق نہ ہوں جبکہ یہ اس صورت میں ہوگا جب انہیں دو مرتبہ زندگی اسی دنیامیں ہی ملی ہوں کیونکہ عمل اسی دنیا کے ساتھ مختص ہیں لیکن قبر میں زندہ ہو نا عمل کے لئے نہیں ہے تاکہ یہ افراد اپنی اس زندگی کے  گناہوں کے بارے میں ندامت کا اظہار کریں  ۔

رجعت کےدلائل میں سےایک دلیل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث ہے جو شیعہ و اہلسنت دونوں کے نزدیک مقبول و مشہور ہے ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں جتنے وقائع اور حوادث رونما ہوئے وہ سب امت اسلامی میں بھی رونما ہوں گے۔صحیح بخاری میں ابوسعید خدری سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرابشبر،وذراعا بذراع} “تم  گذشتہ  امتوں کی روش پربعینہ عمل کرو  گے”۔ شیخ صدوق {کمال الدین} میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کرتےہیں کہ آپ ؐنے فرمایا:{ کل من کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هذه الامة مثله،حذو النعل بالنعل و القذة بالقذة}جو کچھ گذشتہ امتوں میں واقع ہوا وہ سب اس امت میں بھی واقع ہو گا۔واضح رہے کہ رجعت گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے اہم حوادث میں سے ہے۔ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ حدیث کی روشنی میں امت اسلامی میں بھی رجعت واقع ہوگی  ۔مامون عباسی نے جب امام رضا علیہ السلامسے رجعت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی حدیث سے استدلال فرمایا۔علامہ شبر رجعت کے عقلی اورنقلی دلائل ذکر کرنے کے بعد اسے مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :گزشتہ دلائل کی روشنی میں رجعت پر اجمالی طور پر ایمان رکھنا واجب ہے لیکن اس مسئلہ کی تفصیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام  پر ہی چھوڑنی چاہیے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارےمیں روایات متواتر ہیں جبکہ بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی رجعت  کے بارے میں بھی روایات  توا تر سے نزدیک ہیں لیکن ان کی رجعت کی کیفیت ہمارے لئےواضح نہیں ہے۔اس بارےمیں علم صرف خدا اور اولیاء کو ہی حاصل ہیں۔

حوالہ جات:
۱۔بقرۃ،259۔
۲۔مائدۃ،110۔
۳۔ بحار الانوار ،ج53،ص132 – 134۔
۴۔نمل:83۔
۵۔کہف،47۔
۶۔مصنفات الشیخ المفید،ج7،ص33۔{المسائل السروریۃ}
۷۔غافر،11۔
۸۔مصنفات الشیخ المفید،ج7 ،ص33 – 35 {المسائل السروریہ}
۹۔صحیح بخاری : ج 9،ص 112،کاتاب الاعتصام بقول النبی{ص}۔
۱۰۔کمال الدین ،ص 574۔ا
۱۱۔بحار الانوار ،ج53،ص59،حدیث 45۔
۱۲۔حق الیقین،ج2،ص35۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

سقوط ڈھاکہ

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو ماضی کے تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ھوئے اپنے مستقبل کو تابناک بناتی ہیں مگر ہم ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اسی ڈگر پر چلے جارہے ھیں یہاں46سال قبل 16دسمبر 1971 کے دن پاکستانیوں نے اپنے وطن کو دو حصوں میں منقسم ہوتے دیکھا تھا۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو صدق دل سے تسلیم نہیں کیا اوراسکی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں آپنی ریشہ دیونیوں کا آغاز اور ھندو اساتذہ نے بنگالی بچوں میں مغربی پاکستان کے متعلق زہر اگلناشروع کیا اور جب وہ بچے جوان ہوئے تو انہوں نے ان محرومیوں کا اظہار کرنا شروع کیا تومغربی پاکستان میں بیٹھے حکمرانوں نے ان کی طرف توجہ نہ دی اور الٹا حقوق کے حصول کو وطن دشمنی قرار دیا۔ یہی وجہ تھی ایک نظریاتی مملکت اپنے قیام کے چند ہی سالوں بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اشرافیہ اسی ڈھٹائی سے اسی طرز عمل پر گامزن ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ’’آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘ اْن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔‘‘

یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے نااہل لالچی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے خود پیدا کئے۔ہم بھارت پر یہ الزام کیوں عائد کریں کہ اْس نے یہ مذموم کھیل کھیلا، دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہیکیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اْن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی اگر 3 مارچ کے اجلاس میں مغربی پاکستان کے ممبران قومی اسمبلی شریک ہوجاتے تو مجیب الرحمان اور بنگالی علیحدگی پسند گروپوں کو تقویت نہ ملتی اس سلسلہ میں جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئیمشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔

اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔اور ہمارے فوجی افسران نشے میں بدمست رہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ انداز سے مشرقی پاکستان جنگ لڑی جبکہ مغربی پاکستان میں موجود افواج تماشہ ہی دیکھتی رہی۔جنرل یحی جرنل رانی کے ساتھ لطف اندوز ھوتا رہا۔مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں افواج کو مس گائید کیا گیا اور جس دشمن کو ہم نے 1965 میں شکشت فاش کیا 1971 میں اسی دشمن سے ذلت آمیز شکشت سے دوچار ہوئی۔

سانحہ ڈھاکہ پر بننے والا حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو آج تک پبلک نہی کیا۔ دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے ہی عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی، یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان۔ کے بعد بھارتی فوج اور عوامی لیگ کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد شہریوں کو قتل کیا، درست نہیں کیونکہ حمود الرحمٰن کمیشن کے مطابق ان ہلاکتوں کی اصل تعداد 26 ہزار ہے جو مکتی باہنی کے علیحدگی پسند تھے اور انہی علیحدگی پسندوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا۔آج بھی لاکھوں بہاری پاکستانی پرچم لہرائے پناہ گزین کیمپوں میں ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان محب وطن لوگوں کونہ بنگلہ دیش قبول کررہا ہے اور نہ ہی پاکستان۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ اور حقوق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے اور محرومیوں،مایوسیوں اور نا مناسب سیاسی فیصلوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتاہے۔۔ اگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی بجائے اپنی افواج کو دریاؤں سے نکال کرباؤل فال میں حکمت عملی سے لڑتے تو بھارتی سورمائوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا سکتا تھا اورذلت آمیز شکشت سے بچا جا سکتا تھا۔یہ کتنا شرم ناک فعل تھا کہ جنرل نیازی جنر ل اروڑا کے سامنے لطیفے سناتا رہا اور اس کا سر شرم سے جکھنے کی بجائے بے شرمی سےپنجابی اشعار سناتے سناتے سلنڈر کیا۔اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواء  نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

 تحریر :محمد عتیق اسلم

وحدت نیوز (آرٹیکل) عوامی طاقت کا کوئی متبادل نہیں، خصوصا عوام اگر خدا پر توکل کریں تو وہ اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں، عوامی طاقت کو اُس وقت نقصان پہنچتا ہے جب  حکومتی فرعون مذہبی دجالوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرتے ہیں، سادہ لوح عوام مذہبی دجالوں کی  جوشیلی تقریروں اورباتوں میں بہہ جاتے ہیں ۔

یہ ہمارے ہی دور کی بات ہے ، جب ایران میں عوام نے بادشاہ کے خلاف قیام کیا تھا، ایران کا بادشاہ  ایک شیعہ ڈکٹیٹر تھا، ایران صدیوں سےشیعت کا قدیمی مرکز  چلا آرہاتھا، ایران میں اس وقت بھی اہلِ تشیع کے مجتہد اورمراجع کرام تھے۔

ایران کا بادشاہ لوگوں کو یہ بھی یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کا مذہبی پیشوا بھی ہے اور اس کے ہمراہ کشف و کرامات کا سلسلہ بھی ہے۔  ایرانی بادشاہ کو مغرب ، امریکہ   اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

ایران کی داخلی حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو بادشاہ پچیس ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن مناتا تھا ، اور دنیا میں سب سے طاقتور بادشاہ یہی شہنشاہِ ایران تھااور دوسری طرف عوام نالیوں اور کچرے سے روٹی کے ٹکٹرے چن کر چبانے پر مجبور تھے۔

بہر حال ۱۹۷۹ میں ہر طرف سے مایوس ہوکر ایرانی  عوام نے خدا پر توکل کر کے بادشاہ کے خلاف قیام کیا، یہ آمریت کے خلاف جمہوریت کا قیام تھا، یہ بادشاہت کے خلاف انسانیت کا انقلاب تھا، یہ حیوانیت کے خلاف عقل و شعور کی آواز تھی ۔

جس وقت ایران کے مضبوط ترین بادشاہ کے خلاف یہ عوامی و جمہوری انقلاب رونما ہوا تو منطقے میں ہر طرف آمریت کا دور دورہ تھا، پاکستان میں ضیاالحق کی آمریت، عراق میں صدام کی استبدادیت اور عرب ریاستوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈکٹیٹر براجمان تھا۔ ایران کا عوامی انقلاب  خطے کی تمام ریاستوں  کے عوام کے کے لئے  یہ پیغام تھا کہ عوامی  اور الٰہی طاقت کو کوئی بادشاہت نہیں دبا سکتی۔ ایرانی بادشاہ کا تخت الٹنے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ جب عوام کے سامنے شہنشاہِ ایران نہیں ٹھہر سکتا تو پھر کسی اور بادشاہ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ وہ عوامی انقلاب کا مقابلہ کر سکے۔

ایرانی عوام کے اس  انقلابی پیغام کو دبانے اور ایران تک محدود کرنے کے لئے  دنیا  کے  ڈکٹیٹروں نے مذہبی دجالوں کو اکٹھا کیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ایران کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے۔ لہذا کافر کافر شیعہ کافر۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انقلاب سے پہلے ایران کوئی حنفی، حنبلی ، شافعی یا سُنّی ملک تھا، انقلاب سے پہلے بھی تو ایران ایک شیعہ ریاست تھی، ایرانی عوام کی اکثریت، مجتہدین، مراکز ، تہذیب و ثقافت حتیٰ کہ بادشاہ بھی شیعہ تھا۔ اس سے پہلے تو کسی نے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔

 ارباب دانش سوچیں اور فکر کریں کہ ۱۹۷۹ میں  ایرانی عوام سے ایسا کیا گناہ  سرزد ہو گیا تھا کہ اس کے بعد ہر طرف شیعہ کے کفر پر تقریریں ہونے لگیں، لٹریچر چھپنے لگا، چودہ سو سالہ پرانے مسائل کو اچھالا جانے لگا،پروپیگنڈے ، جھوٹ اور افترا پردازی کی انتہا کی گئی  حتی کہ ۲۰۱۷ میں بھی راولپنڈی میں ایک فرقے نے خود اپنے ہی مدرسے کو آگ لگا کر اور اپنے ہی افراد کو قتل کر کے اس کا الزام اہل تشیع پر لگایا۔

 کیوں آخر کیوں!؟ اس درجے تک ضد ، بغض اور حسد کرنے کی وجہ کیا ہے؟

اس قدر جھوٹ، اس قدر افترا پردازی ، اس قدر پروپیگنڈہ آخر کیوں!؟

وجہ صرف اور صرف اتنی سی ہے کہ اگر ایران کے انقلاب کو شیعہ کہہ کر اہل سنت کو اہل تشیع سے دور نہ کیا جاتا تو ایرانی عوام کی دیکھا دیکھی  دنیا کی ساری ریاستوں کے مسلمان،اپنے اوپر مسلط  آمروں کے خلاف قیام کرنے لگتے اور یوں مسلمانوں پر مسلط بادشاہتیں دم توڑنے لگتیں۔

آمریت کے خلاف  ایرانی عوام کی جدوجہد  کو چھپانے لئے عراق کے ڈکٹیٹر صدام نے دیگر آمروں کی ایما پر ایران پر حملہ کیا اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو یہ تاثر دیا کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ ہے ۔

آج وقت نے  ثابت کر دیا ہے کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں تھی بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ٹکراو تھا، شعور اور تعصب کی لڑائی تھی،  اور بادشاہت و بیداری کا معرکہ تھا۔

وقت کا پہیہ گردش میں رہا، مورخ کا قلم چلتا رہا، تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے، چہروں سے نقاب الٹتے رہے، مذہبی دجا ل اپنے ڈکٹیٹروں سمیت جہنم کا ایندھن بن گئے، جھوٹ بولنے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتےگئے، ان چند سالوں میں  اگر کچھ باقی رہا تو صرف اور صرف حق اور سچ باقی رہا۔۔۔!

وہ  عوامی شعور اور جمہوری انقلاب جسے شیعہ کہہ کر  ایران میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس نے تونس سے بھی سر نکالا ، اس نے مصر میں بھی دستک دی، اس نے عراق کو بھی ہلایا ، اس نے قطر کو بھی جھنجوڑا اورآج  وہ  سعودی عرب پر بھی خوف طاری کئے ہوئے ہے۔

آج ہر منطقے ، ہر ریاست اور ہر علاقے کے مسلمان اپنے اوپر مسلط بادشاہت سے بیزار ہیں، آج مسلم دنیا کے ڈکٹیٹر تو شہنشاہِ ایران کی طرح امریکہ و اسرائیل کے تلوئے چاٹ رہے ہیں لیکن آج عرب ریاستوں کے عوام  اپنے اوپر مسلط  بادشاہوں سے نالاں ہے۔

عوام کی بادشاہوں سے ناراضگی، لوگوں کی آمریت سے نفرت، جمہور کا شعور کی آواز پر لبیک کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ حکومتی  آمروں اورمذہبی دجالوں سے آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں، اب ان بیدار اور باشعور لوگوں کے خلاف چاہے کافر کافر کے نعرے لگائے جائیں اور مذہبی دجال ان کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کریں ، یہ انقلاب، شعور اور بیداری کی لہر اب کافر کافر کے نعروں سے رکنے اور تھمنے والی نہیں، اب لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی لازم و ملزوم ہے ، جب تک دنیائے اسلام سے آمریت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک قدس کی آزادی ممکن نہیں، لہذا  اب عوامی  شعور کی یہ لہر آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی پر ہی منتہج ہوگی۔

بقول شاعر اب وہ وقت آگیا ہے کہ

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

ان شااللہ

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطینی زرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بعض عرب ممالک(سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر) اب فلسطینی مسئلے کو وہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جو سن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں دے رہے تھے اور نہ ہی ان ممالک کے لئے اسرائیل ایک غیر قانونی غاصب وجود رہا ہے بلکہ یہ ممالک اسرائیل کی جانب ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جس کے ساتھ تعاون ہوسکتا ہے اور جس سے تعاون لیا جاسکتا ہے ۔

ان ممالک کا خیال ہے کہ انہیں اسرائیل کے حوالے سے مزید عملی (Pragmatic)اور حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنا چاہیے ۔

انکا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی یہ حقیقت پسندی عرب رائے عامہ اور عربوں کی مجموعی سوچ کے دائرے کو پھلانگنا نہیں چاہتی اور زیادہ سے زیادہ وہ اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے میں غیر جانب دارانہ کردار اپنانے کی کوشش کرے گی ۔

ظاہر ہے کہ عرب رائے عامہ کو پھلانگنے کا مطلب حکمرانوں کیخلاف عرب عوام کا ردعمل ہوگا جو ان کے اقتدار کے لئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔
ان عرب ممالک نے اسی نام نہاد حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارملائزکرنے کی جانب قدم اٹھانا شروع کردیا ہے لیکن یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو رائے عامہ کی ہمواری تک پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں جیسے کہ کسی برے عمل کی انجام دہی کے بعد اسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے یا پھر جیسے کہ ہر برا کام خفیہ و پوشیدہ انداز سے انجام دیا جاتا ہے ۔

 اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ’’مسئلہ فلسطین ‘‘کی رائج اصطلاح کی جگہ ’’اسرائیل عرب تنازعہ ‘‘کی اصطلاح کا استعمال کیا اور یہ اصطلاح تیزی کے ساتھ عرب مخصوص زرائع ابلاغ میں عام ہونے لگی یہاں تک کہ الحیات جیسے اخبار نے دس اکتوبر کو اپنے ایک مضمون میں ایک گام آگے جاتے ہوئے ’’اسرائیلی فلسطینی موضوع‘‘کی اصطلاح کا استعمال کیا ۔

اس مضمون سے بات واضح تھی کہ وہ اس سارے مسئلے کو دو اطراف کے درمیان جاری کشمکش اور جنگ و جدال کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

سات اکتوبر کو الشرق الاوسط اخبار میں ایک سعودی رائٹر نے 1973کی جنگ کے حوالے سے لکھا کہ ’’اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید کسی قسم کی توسیع پسند جنگ نہیں کی ۔۔۔اسرائیل نے اس کے بعد جو بھی جنگیں کیں ہیں وہ سب دفاعی نوعیت کی تھیں خواہ وہ لبنان میں ہو جیسا کہ فلسطینی جماعت پی ایل او کیخلاف یا پھر حزب اللہ کیخلاف ۔۔‘‘ مضمون نگار نے بڑے ظالمانہ انداز سے یہ بھی لکھا کہ ’’جو کچھ اسرائیل نے غزہ میں کیا وہ صرف چند آپریشنز تھے ۔

عرب حکمران شروع سے ہی فلسطین کے مسئلے میں اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں انکے سیاسی بیانات اور ان کے عمل میں موجود تضاد واضح ہے۔

حال ہی میں استنبول میں ہونے والی ہنگامی اسلامی سربراہی کانفرنس کے پہلے ہی سیشن میں اکثر اہم عرب ممالک کے سربراہ غائب تھے شائد وہ قبلہ اول سے مطلق اس حساس نوعیت کے مسئلے کو اس قدر اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اب بھی چاہتے ہیں زبانی کلامی بیانات پر اکتفا کریں ،عرب اور مسلم عوام کی بھر پور خواہش تھی کہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس کچھ عملی اقدامات کے بارے میں اعلان کرے جیسے فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ ،پہلے گام کے طور پرامریکی سفیروں کو بلاکر احتجاج ریکارڈ کرانا اور روابط کے خاتمے کی دھمکی دیناتاکہ ٹرمپ اپنا اعلان واپس لے ،اقتصادی و تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کرنا اور فلسطینی انتفاضہ کی مکمل حمایت کا اعلان کرنا ۔۔۔

لیکن اگر بغور اوآئی سی کے اعلامیے کو پڑھا جائے تو یہ اعلامیہ ماسوائے خالی بیانات اور تشہیرات کے کچھ بھی اپنے اندر ٹھوس چیز نہیں رکھتا ۔

استنبول میں ہونے والے اس اجلاس میں سب سے سخت لب و لہجہ اردگان کا تھا لہذا مسلم امہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ دنیا بھر کے حریت پسند انسان اردگان سے یہ توقع رکھ رہے تھے کہ وہ اس اجلاس ترکی میں اسرائیلی سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان تو کرے گا لیکن اردگان نے سوائے جذباتی گفتگو کے عملی طور پر نہ تو سفارتخانہ بند کرنے کی بات کی اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ جاری تجارت اور میگا پروجیکٹس سے پچھے ہٹنے کی بات کی ۔

فلسطین صدر محمود عباس کی طویل اور تکراری گفتگو میں ایک بھی بار ’’مزاحمت اور انتفاضہ ‘‘کا تذکرہ نہیں ہوا وہ بھی اردگان کی مانند صرف بار بار جذباتی الفاظ کو دہرانے کے علاوہ کچھ بھی ایسا نہ کہہ سکا جیسے عملی اقدام کہا جاسکے ۔

اسرائیلی تجزیہ کار سچ کہا کرتے تھے کہ عرب کچھ دن خوب شور مچاینگے لیکن سچائی وہ بھی جانتے ہیں ،نیتن یاہو نے بھی سچ کہا تھا کہ ہمارا مسئلہ عرب حکمران نہیں ہیں بلکہ وہ رائے عامہ ہے جو عرب و مسلم ممالک کی سڑکوں پر موجود ہے ‘‘

لہذا دنیا بھر کے حریت پسندوں کو چاہیے کہ وہ اس ظلم اور ناانصافی کیخلاف آواز اٹھاتے رہیں مسلم و عرب عوام کو چاہیے کہ وہ آواز اٹھاتے رہیں اور فلسطین میں موجود انتفاضہ کی پیٹھ گرماتے رہیں یہاں تک حکمران مجبور ہوں کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کریں ۔


تحریر۔۔۔۔حسین عابد

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree