وحدت نیوز (آرٹیکل) جنگ جاری ہے، موجودہ جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی کام نہیں، کسی بھی قسم کا آتشیں اسلحہ استعمال نہیں ہورہا بلکہ یہ جنگ قیادت و اقتدار کے بل بوتے پر لڑی جا رہی ہے۔جب تک مسلمانوں کے پاس قیادت اور اقتدار تھا، دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجتا تھا، مسلمان ہی اقوامِ عالم کی ہر طرح کی رہنمائی کرتے تھے،
اقتصاد، سیاست، دفاع، تعلیم، صحت، اور تحقیق و تالیف سب میں مسلمان قیادت آگے آگے تھی،لیکن جب امریکہ و یورپ نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کے بجائے ان سے قیادت چھین لی اور مسلمان امام کے بجائے مقلد بن گئے، مسلمانوں کو اپنا مقلد بنانے کے بعدانہوں نے تمام شعبہ جات کے لئے مسلمان افراد کی تربیت کر
کے حکومت بھی سنبھال لی اور آج تمام شعبوں میں ہم مسلمان اختراعات کرنے کے بجائے، غیر مسلموں کی نقالی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قیادت کے ساتھ دوسری چیز حکومت ہے، جب کسی ملک میں جمہور اسلامی ہوتو وہاں حکومت بھی جمہوری ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں جمہور تو اسلامی ہوتا ہے لیکن حکومتیں آمرانہ ہوتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور حکومتیں بھی امریکہ و غر ب کی تابعدار اور نقال ہیں۔
حکومت یعنی جمہور کی آواز ، ایک اسلامی ملک میں جمہور کی آواز یہی ہوتی ہے کہ اللہ کی زمین پر الٰہی انسانوں کے ذریعے الٰہی نظام قائم کیا جائے لیکن ہمارے ہاں نام تو اسلام کا لیا جاتا ہے اور نظام غیر مسلموں کا لانچ کیا جاتا ہے۔
مثلا اگر ایک دیگ میں کوئی حرام چیز پکائی جائے اور پکانے والا مسلمان ہو تو وہ حرام چیز، حلال نہیں ہو جائے گی اور اگر پکانے والا وضو بھی کر لے اور قبلہ رخ بھی کھڑا ہو جائے اور منہ سے اونچی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ کر دیگ میں چمچے بھی مارنا شروع کردے تو اس سے لوگوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن پھر
بھی حرام چیز بالکل بھی حلال نہیں ہو گی۔
یہی حال نظامِ حیات کا بھی ہے، اگر کافروں کا بنایا ہوا نظام حیات مسلمان بھی نافذ کریں گے تو وہ حلال نہیں ہو جائے گا بے شک مسلمان باوضو ہوکر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہیں۔
مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا جمہور تو اسلامی تھا لیکن مسلمانوں کی قیادت اور اقتدار جمہوری کے بجائے آمرانہ تھی ۔جب اسلامی قیادتیں اور حکومتیں آمرانہ ہوجاتی ہیں تو پھر وہ نظامِ حیات کے لئے اسلامی جمہور کے بجائے اغیار کی طرف جھکنے لگتی ہیں۔
آج آپ سعودی عرب کو دیکھ لیجئے، سعودی عرب کا جمہور کہنے کو اسلامی ہے لیکن عملاً وہاں آمریت ہے ، وہاں کی قیادت اور حکومت اپنے جمہور کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے اغیار کی آواز پر لبیک کہتی ہے، اغیار سے نظامِ حیات لیتی لیکن نعرے اللہ اکبر کے لگاتی ہے۔
ماضی میں جب سعودی عرب ہمارے سامنے داعش، القاعدہ اور طالبان کی بنیادیں ڈال رہا تھا تو تب بھی سعودی عرب کے جمہور کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا اور آج جب سعودی عرب لبرل بننے جا رہا ہے تو اس میں بھی سعودی جمہور کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
یعنی سعودی عرب میں مسلمان عوام ہونے کے باوجود، پریس آزاد نہیں، اپوزیشن کا وجود نہیں، احتجاج کی اجازت نہیں حتیٰ کہ سعودی شاہی خاندان کو بھی حکومت کی مخالفت کی اجازت نہیں تو ایسی گھٹن میں اسے ہی لبرل اسلام کا نام دیا جا رہا ہے جو امریکہ و اسرائیل کا پسندیدہ اور قابلِ قبول ہے۔
یعنی واضح طور پر سعودی عرب میں اسلامی جمہور اپنی قیادت و حکومت کھو چکا ہے اور صرف اس نظام کو چلانے والوں کا نام مسلمان ہے۔
اب دوسری طرف ایران کو لیجئے، ایران جسے دنیا میں اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ ہے، ایران کے سب سے مضبوط علمی مرکز یعنی شہرِ قم میں ایم آئی سکس کے ایجنٹ مجتہد اور فقیہ موجود ہیں، نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ وہ برطانیہ کے ایجنڈے پر پوری طرح کام کر رہے ہیں۔ ان کا مشن مسلمانوں میں فرقہ واریت
کو ابھارنا، اتحاد امت کے بجاے شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ واریت کی آگ بڑھکانا، پرانے فرعی اختلافات کو روز مرہ کی بنیادوں پر اچھالنا اور شیعوں میں داعش اور القاعدہ کے تفکر کو پروان چڑھانا ہے۔
ایم آئی سکس کے یہ ایجنٹ شیرازی گروپ کے نام سے ایران میں فعال ہیں اور پوری دنیا میں ان کے پیروکار موجود ہیں۔دنیا میں ان کے ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس چل رہی ہیں ،ایران اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اس گروپ کو پوری طرح دبانے میں ناکام ہے۔ ایم آئی سکس کا یہ گروپ پاکستان میں بھی گُل کھلانے میں مصروف ہے
حتی کہ اس کے ایجنٹ پاکستان کے بعض دینی مدارس کے دورے کرتے ہیں اور دینی مدارس کی طالبات ان کے ساتھ تصاویر بھی بنواتی ہیں۔
یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے چونکہ مسلمانوں نے اپنا رہبر و رہنما مغرب کو بنا لیا ہے لہذا ہمارے ہاں، اچھائی و برائی اور عالم و غیر عالم کا معیار بھی وہی بن گیا ہے جومغرب کہتا ہے۔
آج سے ستر سال پہلے کا پاکستانی مسلمان یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے اور پاکستان کے میوزیکل چینلز پر پاکستان کی مسلمان خواتین گانے گائیں گی لیکن مغرب کی اطاعت اور تقلید کے باعث آج ستر سال کے بعد یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔
دنیا بھر کے اسلامی جمہور کو اس وقت اپنی حیثیت اور طاقت کو جمہوری اقدار کے مطابق منوانے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں اچھائی و برائی، سکالر و غیر سکالر، اور عالم و غیر عالم کا معیار مغرب طے کرے گا اور ہم مغرب کے ہی مقلد رہیں گے یا کہ نہیں ہمیں واپس اپنی خود ی کی طرف پلٹنا ہوگا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) لغت کی کتابوں میں لفظ" تربیت" کے لیے تین اصل اور ریشہ ذکر ہوئے ہیں۔ الف:ربا،یربو زیادہ اور نشوونما پانےکے معنی میں ہے۔ ب: ربی، یربی پروان چڑھنا اور برتری کے معنی میں ہے۔ج: رب،یرب اصلاح کرنے اور سرپرستی کرنے کے معنی میں ہے۔1صاحب مفردات کا کہنا ہے کہ "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 2
صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے ، نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔3
بنابر این اگر اس کا ريشہ(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب سے ہو تو نظارت ، سرپرستی و رہبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
اسلامی علوم اوردینی کتابوں میں تربيت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
1۔ قصد اورارادہ کے ساتھ کسی دوسرے افراد کی رشد کے بارے میں ہدایت کرنے کو تربیت کہا جاتا ہے۔4
2۔ تعليم و تربيت سے مرادوہ فعاليت اور كوشش ہے کہ جس میں بعض افراد دوسرے افراد کی راہنمائی اور مدد کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مختلف ابعاد میں پیشرفت کرسکے۔ 5
3۔ تربيت، سعادت مطلوب تک پہنچنے کے لئے انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا نام ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنی استعداد کو ظاہر کرےاور راہ سعادت کا انتخاب کرے۔6
4۔ ہر انسان کی اندرونی استعداد کو بروئے کارلانے کے لئے زمینہ فراہم کرنا اور اس کے بالقوہ استعداد کو بالفعل میں تبدیل کرنے کے لئے مقدمہ اور زمینہ فراہم کرنے کا نام تربیت ہے۔
۴۔شہید مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔7
۵۔تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف جہات میں سے کسی ایک جہت{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانایا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنا تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔8
عقیدتی تربیت
*اعتقادی تربیت سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئے ضروری اعتقادات کا سکھانا اسی طرح وہ تمام اقدامات جن کے سبب متربی ان اعتقادات کو دل سے قبول کرے، ان اعتقادات پر ایمان رکھے اور عملی میدان میں ان اعتقادات پر پابند ہو۔
1۔ماں باپ {اس کے بعد دادا دادی اور سرپرست شرعی} پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کی عقیدتی تعلیم و تربیت کے لئے راستہ ہموار کرے تا کہ بچے ضروری عقائد کی تعلیم حاصل کرسکے۔
2۔بچوں کے لئے لازی عقائد کے علاوہ دیگر عقائد کی تعلیم دینامستحب ہے۔
3۔والدین پر بچوں کی عقیدتی تربیت بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے یا سن تمیز یعنی غلط اور صحیح کی شناخت حاصل ہونے کے عمر میں واجب اور لازم ہے۔
4۔والدین پر بچوں کی اعتقادی تربیت اس شرط کے ساتھ واجب ہے کہ وہ ذہنی اورنفسیاتی طور پر اس تعلیم کے قابل ہو اوروہ اس تربیت کو درک کر سکیں۔
5۔والدین کے لئے مستحب ہے کہ وہ بچوں کی عقیدتی تربیت کے لئے کار آمد تر اور مناسب روش اپنائےجیسے ارشاد،تذکر،ترغیب، امر و نہی اور موعظہ اورنصیحت وغیرہ۔
6۔اگر بچوں کی اعتقادی تربیت کے لئے والدین کو علمی اور عملی تربیت کی ضرورت ہو تو اس صورت میں والدین پر واجب ہے کہ وہ علمی اورعملی طور پر تیار ہو جائے تا کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکے۔
7۔والدین پر بچوں کی اعتقادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگرکوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے ا فراد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
8۔والدین عقیدتی میدان میں اپنے اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈل بننے کی کوشش کریں۔
عبادی تربیت
* عبادی تربیت سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئےعبادات کاطریقہ سکھانا اورمتربی کے اندر عبادت و بندگی کا شوق پیدا کرنا ہے تاکہ وہ ان عبادات کو انجام دینے میں پابند ہو ۔
9۔والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنے اولاد کی عبادی تربیت کرے۔
10۔ بچوں کے لئےمستحب اعمال کی تعلیم دینا اورانہیں اس چیز کی طرف ترغیب دلانا مستحب ہے۔
11۔والدین پر بچوں کی عبادی تربیت ان کے بالغ ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے تا کہ بالغ ہونے کے بعد وہ اپنی اختیار اور بڑےذوق و شوق کے ساتھ خالق حقیقی کے سامنے رازو نیاز کرے۔
12۔ نماز اورروزہ کے احکام بچوں کو سکھانا والدین پر واجب ہے۔
13۔ معتبر روایات کے مطابق بچوں کے لئے ۶یا۷ سال کی عمر میں نماز سکھانا چائیے۔اسی طرح معتبر روایات کے مطابق والدین پر واجب ہے کہ اپنے بیٹوں کو ۹ سال کی عمر میں روزہ کے بارے میں بتائیں۔
14۔ والدین پر بچوں کی عبادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے فرد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
15۔ بچوں کے اندر نماز سے عشق اور محبت کا جذبہ پیدا کرےاور اپنے بچوں میں ایمان کو تقویت دے۔
16۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لئے دعا کریں۔
17۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بچوں کو جلد از جلد اسلامی احادیث سکھائیں اس سے قبل کہ مخالفین تم پر سبقت لے جاتے ہوئے اپنے غلط عقائد اور نظریات سے تمہارے بچوں کے دلوں کو پر کر دے۔
18۔والدین گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح سے پیش آجائے اورایسی تربیت کرے کہ اسے ایک راستگو اورسچا انسان بنا دے۔ جس بچے کو سچ بولنا سکھایا جاتا ہے وہ انصاف کرنا سیکھتا ہے۔
19۔گناہ سے نفرت اوراس کی برائی کو بچوں کو سمجھائیں تاکہ وہ اس چیز سے دوررہے۔
20۔بچوں پر والدین کی نصیحت اس وقت اثر کرتا ہےجب والدین خود ان باتوں پر عمل کرتا ہو۔اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ بچوں کی تربیت اس طرح سے نہیں ہوتے جس طرح سے ہم چاہتے ہیں بلکہ بچوں کی تربیت اس طرح سے ہوتے ہیں جس طرح سے ہم ہیں ۔
21۔بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے اور نو سال کی عمر میں روزہ رکھنے کا حکم دے۔
22۔اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے۔
23۔ والدین کے وظائف میں سے ایک وظیفہ اپنےاولاد کی تربیت اورانہیں واجبات کی تعلیم دینا ہے اور جو شخص ان وظائف پر عمل نہیں کرتا اسلام میں اس کی سخت مذمت ہوئی ہے۔
24۔والدین عبادی میدان میں بھی اپنے اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈل بننے کی کوشش کریں۔
عاطفی تربیت
*عاطفی تربیت سے مراد والدین یا مربی کا متربی میں موجود انسانی عواطف کو بروئے کار لانا اورانہیں کمال تک پہنچاننے کے لئے مدد کرنا۔ اسی طرح متربی میں موجود غیر عاطفی رفتار کی اصلاح کرنا ہے۔
25۔والدین کے اوپر لازم ہے کہ بچوں کے معاملے میں عدالت و انصاف سے پیش آجائے خاص طور پر اولاد کے درمیان پیار و محبت کے اظہار کرنے میں بھی عدالت و انصاف کی رعایت کریں۔
26۔اولاد کی نسبت والدین کی بے توجہی اور ان سے اظہار محبت نہ کرنا ان کےلئے جسمانی یا روحی ضرر یا گمراہی اور فساد کا باعث بنتا ہو تو اس صورت میں والدین پر واجب ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ اظہار محبت کرے۔
27۔والدین کے لئے بچوں پر رحم کرنا اور ان کے اوپر احسان کرنا مستحب عمل ہے۔
28۔بچوں کو شخصیت دینا اور ان کا احترام کرنا مستحب ہے۔
29۔بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح سے پیش آنا بھی مستحب ہے۔
30۔ ہدیہ اورتخفے پہلے بیٹی کو دینا چاہیے۔
31۔بچوں کو رونے کی خاطر نہ ماریں کیونکہ کچھ مدت تک ان کا رونا خدا کی وحدانیت اوررسول کی رسالت کی گواہی اوراسی طرح والدین کے لئے دعا ہے۔
32۔اپنے بچوں کابوسہ لیا کرے کیونکہ ہر دفعہ بچوں کا بوسہ لینا بہشت میں ایک درجہ بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔
33۔اپنے بچوں کو سلام کر کے انہیں شخصیت دے۔
34۔بچوں سے اگر کوئی وعدہ کیا ہو تو وعدہ خلافی نہ کریں بلکہ اسے ضرور انجام دے۔
35۔ بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ محبت کرنا انہیں ایک کمزور اور بزدل بنا دیتا ہے۔
36۔ اپنےبچوں کو تحقیر کا نشانہ مت بنائیں کیونکہ جس بچے پر ہر وقت تنقید کی جاتی ہے وہ ہر چیز کو رد کرنا سیکھتا ہے۔
37۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو نصیحت کرتے وقت آرام اورنرمی سے بیان کریں ۔
38۔اگر کوئی بچہ اپنے گھر میں قابل احترام قرار پائے تو وہ والدین کی نافرمانی سے گریز کرتا ہے۔
39۔بچوں میں خود اعتمادی بڑھانے اور ان کی شخصیت کو پروان چڑھانے کے بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ والدین کا اولادسےاحترام سے پیش آنا اوران سے محبت اورنیک رفتار کرنا ہے۔
40۔بہترین مربی وہ ہے جو بچوں کی ضروریات کو درست طریقے اور صحیح رویے کے ذریعہ ہموار کرتا ہے۔
41۔اپنے بچوں کو نہ ڈارئیں کیونکہ خوف اورترس بچوں کی شخصیت کو ختم کر دیتا ہے اور یہ چیزروحی اورنفسیاتی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
42۔بچوں کے نفسیاتی اورروانی غذا میں سے ایک والدین کی طرف سے بچوں کے لئے پیار و محبت ہے اس لئے بچوں کو یہ غذا مناسب اور کافی مقدار میں ملنی چاہئیے۔
43۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حد سے زیادہ ملامت اور سرزنش لجاجت اور ضد کی آگ کو بھڑکاتا ہے۔
44۔دوسرے افراد کی باتوں کو ہمیشہ اس کے سامنے دہراتےنہ رہیں اور نہ ہی کسی اور کواس کے ساتھ مقایسہ کریں۔
45۔بہت سارے اچھے مفاہیم کو کہانی کی شکل میں بچوں تک پہنچائیں ۔
46۔بچے کا کم عمری میں شرارت کرنا بڑے ہو کر اس کی ذہانت میں اضافہ کی علامت ہے لہذا انہیں ڈانٹ کرروکنے کی کوشش نہ کرے۔
47۔بچوں کو جھٹلانے سے پرہیز کریں کیونکہ جس بچے پر اعتبار نہیں کیا جاتا وہ دھوکہ دینا سیکھتا ہے۔
48۔ والدین بچوں کے مختلف سوالات کا حوصلے سے جواب دیا کریں۔
49۔جس بچے کو ہر وقت مار پیٹ کا سامنا ہوتا ہے اس کی تمام صلاحتیتیں دب جاتی ہے۔
50۔جس بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس میں اعتماد بڑھتا ہے۔
51۔ جس بچے پر شفقت برتی جاتی ہے وہ محبت کرنا سیکھتا ہے۔
52۔ جس بچے کی بی جا خواہشات پوری کی جاتی ہیں وہ سرکش اور خود سر ہو جاتا ہے۔
53۔جس بچے کا ہمیشہ مذاق اڑایا جاتا ہے وہ بزدل بن جاتا ہے۔
54۔والدین اور مربی کو چاہئے کہ وہ بچوں کے لئےمددگا ر ثابت ہو اور انہیں غصہ کرنے یاڈارنے اور دھمکانے کے بجائے،صبر و تحمل،حوصلہ اور محبت کے ساتھ پیش آ جائے تا کہ بچوں کے اندر خود اعتمادی کے علاوہ ان میں موجود ذاتی صلاحیتیں نکھر سکیں۔
55۔والدین کو عاقلانہ رفتا ر انجام دیتے ہوئے بچوں کے درمیان حسادت کو روکنا چاہیےمثلا گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے چھوٹے بچے کے ساتھ پیار و محبت کرنے اورصرف اسی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہونے کے بجائے بڑے بچے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ پیش آ جائے اس کے بعد چھوٹے بچے کے پاس جائے۔
جسمانی تربیت
*جسمانی تربیت سے مراد والدین کا بچوں کی جسمانی نشوو نما اوردوسرے طبیعی اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے۔
56۔بچوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنا والدین پر واجب ہے۔
57۔ بچوں کی جسمانی اور غیر جسمانی ضروریات جیسے نان و نفقہ کا دینا باپ پر واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اور ان اخراجات کو ادا کرے تو باپ کی شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائی گی۔
58۔ماں کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
59۔اگر ماں کادودھ نہ دینا بچہ کے لئے جسمانی طور پر خطرہ کا باعث ہو تو اس صورت میں ماں پر واجب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
60۔ جب تک بچہ مالی اورفکری طور پر مستقل نہ ہو باپ پر واجب ہے کہ اس کے اخراجات ادا کرے لیکن بیٹی کے شادی کرنےے کے بعد اس کا نان و نفقہ اور دیگر اخراجات باپ پر واجب نہیں ہے۔
61۔والدین کواپنے بچوں کے ساتھ بچہ بن کر کھیلنا چاہئیے۔
62۔والدین کو چاہئے کہ بچوں کو گھروں میں آزادانہ طور پر کھیلنے کی اجازت دے۔
63۔والدین بچوں کے غیر متوقع رفتار کو ممکنہ حد تک تحمل کریں۔
64۔ مادی لحاظ سے بچوں کے ساتھ افراط تفریط سے پیش آنے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ دونوں بہت خطرناک ہے۔
65۔والدین بچوں کے جسمانی نشو و نما کے لئے حلال غذا فراہم کرے کیونکہ اس چیز کا اپنا وضعی اثر ہے۔
اجتماعی تربیت
* اجتماعی تربیت سے مراد والدین یا مربی کا متربی کے افکار و رفتار میں مثبت تبدیلی کی خاطراقدامات انجام دینا ہے تا کہ اجتماعی حوالے سے اس کے افکار و رفتار مثبت ہو۔
66۔ اجتماعی امور میں بھی بچوں کی کما حقہ تربیت ہو اور اجتماعی طور پر بھی وہ تکامل کے راستہ کو طے کرے اس لئے والدین کو ان امور کی طرف توجہ رکھنا چاہئے۔
67۔والدین کوشش کرے کہ بچہ مستقل اور خود اعتماد ہو۔
68۔والدین بچوں کو اپنے امور کے متعلق فیصلہ کرنے میں آزاد رکھے اسی طرح دوسروں کے نظریات سے بھی استفادہ کرنے کا حق دے۔
69۔بچوں کو مختلف کاموں کی ذمہ داری سونپا جائے تا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقہ سے انجام دے۔
70۔والدین بچوں کو مستقبل کے بارے میں سوچنے اورفکر کرنے کی بھی تعلیم دے۔
71۔والدین بچوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آجائے تاکہ بچے بھی دوسروں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آئے۔
72۔والدین بچوں کو اجتماعی اورگروہی کاموں کی طرف ہدایت اوررہنمائی کرے۔
73۔والدین بچوں کو دوسروں کے ساتھ بہتر اور مناسب طریقہ سے پیش آنے کا طریقہ سکھائیں۔
74۔والدین بچوں کو مثبت اورپائیدار چیزوں کی تعلیم دے جو ان کی نشو و نما کا باعث بنتا ہے۔
75۔والدین بچوں کو انتقاد پذیر اور ان میں موجود کمزوریوں کی اصلاح کی تعلیم دے۔
76۔والدین کبھی بھی بچوں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑااور غیر منطقی گفتگو نہ کریں۔
77۔والدین بچوں کی خدادادی صلاحیتوں اور استعدادوں کو پہچان لیا کریں اور انہیں پروان چڑھانے میں ان کی مدد کریں۔
78۔بچوں کی عقلانی اورجسمانی رشد و نشوونما کے ساتھ ساتھ انہیں آزادی اور اپنے اختیار پہ چھوڑدیں۔
اگر بچوں کے سامنےوالدین سے خطا یا غلطی سر زد ہو جائے تو وہ اس کا اعتراف کریں تا کہ بچے بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی جرات پیدا کرے۔
79۔والدین بچوں کے سامنے کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر والدین اس چیزکی رعایت نہ کریں تو بچہ بھی خود بخود جھوٹ بولنے کی عادت پیدا کریں گے۔
80۔والدین بچوں کو ہمیشہ اچھے کاموں کی تشویق و ترغیب کرے۔
81۔والدین اور مربی بچوں کو ان کی استعداد ،صلاحییت اور عمر کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داری سونپے۔
82۔بچوں کو اچھے کاموں کی عادت تمرین اور تکرار سے ہی حاصل ہوجاتی ہے اوراچھے عادات تدریجا برے عادات کی جگہ لیتی ہے لہذا والدین اور مربی کو اس بات کی توجہ رکھنی چاہیے ۔
83۔والدین بچوں سے یہ امید نہ رکھے کہ وہ پہلی دفعہ ہی مطیع محض اوراچھے و مطلوب رفتار کے مالک بن جائے ، بلکہ ان مطالب کو سمجھنے اوردرک کرنے میں انہیں وقت درکا رہے ۔
جنسی تربیت
*جنسی تربیت سے مراد والدین یامربی کا بچے کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنا اور اسے مختلف انحرافات سے بچانا تاکہ بچےبالغ ہونے کے بعد جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں انحرافات کا شکار نہ ہو۔
84۔بچوں کی جنسی تربیت کے لئے والدین پہلے اپنے بچوں کو یہ سکھائے کہ وہ والدین کے کمرے میں آتے وقت اجازت لے کر آئیں اور اچانک بغیر اجازت کے اندر نہ آئیں ۔
85۔والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک بچوں کی جنسی طور پر تربیت کرنا ہے اور والدین کو چاہئے کہ بچوں کے بستر کو جدا کرے۔
86۔بچوں کے بستر کو جدا نہ کرنا بچوں کے جلدی بلوغ اور جنسی تحریک کا باعث بنتا ہے۔
87۔والدین بچوں کو محرم اور نامحرم کے حوالے سے آگاہ کریں ۔
88۔والدین نامحرم افراد کے سامنے پردے کی رعایت کریں اوراس سلسلے میں سہل انگاری اور سادہ اندیشی سے پرہیز کریں۔
89۔والدین بچوں کے سامنے عشق و عاشقی سے پرہیز کریں۔
90۔والدین بچوں کو اس چیز کی تعلیم دے کہ انسان کے بعض اعضاء اس کی ذاتی اورشخصی حریم کی حثییت رکھتی ہے اس لئے ان کی طرف نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
91۔ماوں کو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ بچوں کی جسمانی صفائی کرتے وقت کوئی اوربچہ اس کی طرف نہ دیکھ رہا ہو۔
92۔والدین پر واجب ہے کہ وہ بچوں کی جنسی تربیت کرے اوران کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف راہنمائ کرے۔
93۔بچوں کی جنسی تربیت کے وجوب کا حکم ان کی بلوغت سے پہلے ہے لیکن آیہ وقایہ اور رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام کے مطابق اس کی انتہا کے لئے کوئی وقت معین نہیں ہے۔
94۔بیدار اورہوشیاربچوں کے سوتےہوئے مجامعت کرنا سخت مکروہ ہے لیکن اگر ماہرین تربیت کی نظر میں بیدار اور ہوشیاربچوں کے ہوتے ہوئے مجامعت و ہمبستری بچوں کے مستقبل میں انحراف کا باعث بنتا ہو تو { ولاتعاونوا علی الاثم }کے عنوان سے حرام ہے یا آیہ وقایہ کے مطابق ان سے چپھا کر اس عمل کو انجام دینا واجب ہے۔
95۔والدین پرنابالغ بچوں کو والدین کے کمرے میں اجازت لے کر آنے کا طریقہ سکھانا مستحب ہے لیکن بالغ اوربڑے افراد کے لئےیہ طریقہ سکھانا واجب ہے ۔
96۔بچوں کی جنسی تربیت کرنا والدین پر واجب عینی ہے اگرچہ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کی طرف سے یہ ذمہ داری کامل طور پر ادا ہو جائے تو دوسرے فرد سے ساقط ہو جائے گی۔
97 ۔نامحرم انسان چھ سال کی لڑکی کو اپنی آغوش میں نہ لیں اسی طرح اس کا بوسہ بھی نہ لیں۔
98۔چھوٹی بچیوں کے جسم دوسروں کے سامنے عریان نہیں ہونا چاہیے۔
99۔بچوں کے سونے کی جگہ یعنی بسترچھ سال کے بعد جدا ہونا چاہیے۔
100۔والدین ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت اورعشق و عاشقی کرتے وقت اس بات کی طرف توجہ رکھے کہ بچے گھر میں ہمیشہ ان کے اعمال اوررفتار کے نظارہ گر ہیں ، لہذا اس چیز سے غافل نہ رہے۔
حوالہ جات:
1۔طلال بن علی متی احمد، مادۃ اصول التربیۃ الاسلامیہ،مکہ مکرمہ، جامعہ ام القری، الکلیہۃ الجامیہ ، ۱۴۳۱ھ ، ص۸۔
2۔ معجم مقاييس اللغۃ، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرين، ج2، ص63؛ محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۳۔ حسن مصطفوي ، التحقيق في کلمات القرآن الکريم،بیروت ،دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۳۰ق ،چ سوم ،ج4، ص20.
۴۔ فلسفہ تعليم و تربيت، ص32 .
۵۔ ایضا، ص 42۔
۶۔ محمد بہشتي، مباني تربيت از ديدگاہ قرآن، ص 35.
۷۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران: صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔ ، ص۴۳ ۔
۸۔اعرافی علی رضا، سید نقی موسوی،فقہ تربیتی،ص ۱۴۱،موسسہ اشراق قم۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) سفیر انقلاب شھید دکتر محمد علی نقوی کی جدائی کے تئیس سال مکمل ہونے پر تمام پیروان ولایت برادران امامیہ و بزرگان علمائے کرام اور خانوادہ شھید بالخصوص رھبر معظم کی خدمت میں تعزیت و تسلیت عرض ہو۔
ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ امواتا بل احیاہ عندربھم یرزقون
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پچھلی چند دھائیوں سے سرزمین پاکستان ہزاروں فرزندان وطن کے پاکیزہ لہو سے رنگین ہوئی ہے لیکن جب بھی شھیدوں کا نام آتا ہے تو شھید ڈاکٹر محمد علی محفلِ شھداء اسلام میں ایک روشن ستارے کی مانند ہیں جو ملتِ مظلوم کے ایک عظیم محسن، وفا شعاروں کے سالار، جوانوں کے دلوں کی دھڑکن، اور راہ کربلا کے سچے راہی تھے۔شہید بزرگوار کے احسانات کو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ایک ایسا فرد جس نے مکتب کے جوانوں کو شعور بخشا، طلبا کو وحدت کی لڑی میں پرویا، اخوت کا استعارہ بنا، جوانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور انہیں عالمی فکر دے کر زمانے کے فقیہہ سے مربوط کر دیا۔
شھید راہ انقلاب ایسے خاص زمانے میں جوانوں میں صف اول میں نظر آتے ہیں جس کی باگ ڈور خمینیء بت شکن اور شھید حسینی اور شھید عباس موسوی جیسے الٰہی انسانوں کے ہاتھوں میں تھی۔اپ نے راہ ولایت میں کچھ اسطرح کا پیمان باندھاکہ زندگی میں ہمیشہ اپنے بہادر ساتھیوں کے ہمراہ ہر مقام پر صدائے لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں رہے۔ حتی زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنے سرخ خون سے اپنا وعدہ وفا کر دکھایا اور ان ارواح مقدسہ سے ملحق ہوگئے جن کو خدائے عزوجل ان الفاظ میں یاد کرتا ہے۔
’’یا ایتھاالنفس المطمئنتہ ارجعی الیٰ ربک راضیتہ مرضیہ فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی*‘‘ القرآن
اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف پلٹ آاس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی، پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
شھید نقوی روح ملکوتی شھید نقوی کے بدن و روح میں انقلابیت کچھ اسقدر سرایت کی ہوء تھی کہ ہرلحظہ اور ہرآن ان کا ایک جداانداز تھا جو جوانوں کو اب بھی تڑپا دیتا ہے اورآج بھی یہ انداز یاد اتے ہی ہزاروں آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں۔
وہ انقلاب و ولایت کے سچے عاشق تھیاور اسی عشق میں سرشار ہو کر شب وروز ملک کے طول وعرض میں متحرک رہے اور ملت کے جوانوں کے ضمیروں کو جھنجوڑا اور ان میں انقلابی روح پھونکی۔ شھید کا دل ہمیشہ مظلوموں کے لیے تڑپتا تھااور ہر مقام پر مظلوموں کے حق میں قیام کیااورپرچم حق بلند رکھا۔ ان کی ہر صبح آگاھانہ اور مظلوموں کی خاطر تھی چاہے وہ فلسطینی ہو یا کشمیری ہو، بوزنین ہو یا بحرینی، آپ مظلوموں کی ہرتحریک کے لیے بیدار رہے۔ اسی طرح مستضعفین جہان کے پیشواراھبر انقلاب امام خمینی رضوان اللہ کے ہر حکم پر لبیک کہا۔ محاذ جنگ ہو یا سرزمین حرم بیت اللہ یا ضیا ء جیسے آمر کی سختیاں ،شھید ہمیشہ دلیرانہ انداز میں صف اول میں کمر بستہ تھے۔
شھید نقوی نمونہ عمل
شھید ایک ملنسار اور دلجو انسان تھے جو ایک باوفا دوست کی مانند ہر محفل میں شریک ہوتے اور محفل میں اپنی فکر اورسحر انگیز گفتگو کے ذریعے ہر کسی کے دل میں گھر کر لیتے تھے۔ ان میں کسی قسم کا دکھاوا یا جاہ طلبی نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ ایک عام کارکن کی طرح رات بھر متحرک و فعال رہتے۔ ان کی زندگی میں سادگی کوٹ کوٹ کربھری تھی۔ وہ اپنے بیانات میں ولایت فقیہ کو اس طرح پیش کرتے کہ جوانوں کی توجہات بجائے اپنی طرف مبذول کروانے کیراھبر انقلاب سے مربوط کرواتے۔ یہی وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار تھیں جس نے شہید کو ایک امتیازی حیثیت عطا کر دی اور انکی شخصیت قابل تقلید نمونہ بن گئی اورآج دو دھائیوں سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجودجوانوں کے دلوں میں انکی راہ زندہ ہے۔
شھیدنقوی پیکرِاخلاص وعمل
شھیدایک ایسے عملی پیکر تھے جن کا خلوص ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔ اخلاص ان کی روش و طرز زندگی میں اسطرح نمایاں تھا جیسے پروردگار کی طرف سے ودیعت ہو۔ وہ انصاف اور حق گوئی میں اپنی مثال آپ تھے۔انکی دوستوں سے گفتگو کے دوران لہجے میں نرمی اور ہر کسی کی مشکل و پریشانی کو محسوس کرنا اور توجہ دینا ان کے اخلاص کا اوج ثریا تھا۔ شھادت سے چند روز بعد جب ہمیں ان کے مرقد مطہر پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی تو دیکھا وہاں چند خانہ بدوش، بچوں سمیت پھول کی پتیاں اور پانی کا چھڑکاوٗ کر رہے تھے جب ھم نے ان سے پوچھاشھید کو کیسے جانتے ہیں تو انہوں نے کہا سید محمد علی ہر جمعرات ہمارے پاس آتے تھے اور ہماری احوال پرسی کرتے مدد کرتے تھے۔ یقیناًانکی یہ خوبی آئمہ علیھم السلام کی سیرت حسنہ کی عملی پیروی ہے جس کو شہید نے اپنی زندگی میں زندہ کیا۔
شھید نقوی کربلا کے راہی
’’اللھم اجعل محیای محیا محمد وال محمد و مماتی ممات محمد وال محمد‘‘
شھید نقوی کی زندگی مناجات ودعاؤں سے مخمور تھی اور ان کی واحد آرزو راہِ محمد و آلِ محمدﷺ کا احیا تھا وہ جہاں کالجز اور یونیورسٹیز میں جوانوں کے لیے بہترین لیکچرر تھے وہاں ایک عزادار نوحہ خواں اورعارف انسان تھے وہ عارفانہ کیفیت میں دعا و مناجات کرتے تھے دعائے کمیل کے دوران ذکر مصائب شہدائے کربلا کو اھمیت دیتے تھے جو روح انسان کے لیے موثر اور انقلاب آفرین ہے وہ شب زندہ دار آگاہ و بابصیرت اور کربلا کے سچے راہی اور عاشق ابا عبداللہ الحسین ؑ تھے اور عشق شھادت سے سرشار تھے جس کی تمنا انہوں نے اپنے پروردگار سے اپنی زندگی میں یوں کی کہ’’میں نہیں چاہتا کہ زندگی کے آخری سانس ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس دنیا سے چلاجاؤں بلکہ راہ کربلا میں موت شھادت کو اپنے لیے سعادت قرار دیا‘‘ اور اسی راہ میں موت کی تمنا کی اور پروردگار نے ان کو چن لیا اور عزت بخشی۔
سلام ہو اس مجاھد بابصیرت اور شھید راہ کربلا پر جس نے شھید چمران، شھید بھشتی اور شھید عارف حسینی کی راہ کا انتخاب کیااور عزت و شرف کے رستے کا راہی بن گیا۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاو بڑا اندھیرا ہے
از قلم۔۔۔۔ آقای ابرار حسین طاہری
حوزہ علمیہ قم ،رفیق کا ر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒ
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کو چاہیے کہ انسان ہی رہے، بطورِ انسان ہر انسان پر اصلاح کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انسان ایک طرف تو اپنی اصلاح کا ضامن ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی اصلاح کا بھی ضامن ہے۔جب انسان اللہ تعالی کی ذات سے غافل ہوجاتاہے تو وہ صرف خود کو ہی عقلِ کُل اور مصلحِ اعظم سمجھ کر دوسرے انسانوں پر ظلم ڈھانے لگتا ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ نہ ہی تو یمن اور بحرین کا مسئلہ شیعہ اور دیوبندی کا ہے ، نہ ہی شام اور عراق کا مسئلہ وہابی اور شیعہ کا ہے اور نہ ہی افغانستان و کشمیر کے مسائل بریلوی اور اہلحدیث کے جھگڑے ہیں بلکہ اصل مسئلہ اصلاحِ اُمت کا ہے، ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ بطورِ مسلمان ہم اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی اصلاح کے ضامن ہیں۔
جب ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقابلہ کفر اور شرک کے مبتدیوں اور مقلدین سے نہیں ہوتا بلکہ کفر اور شرک کے ائمہ سے ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں کفر و شرک کے امام ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل و روس ہیں۔جب تک ہمارے یہ دشمن منظم، ہوشیار اور بیدار ہیں تب تک انہیں شکست دینے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہم ان سے بھی زیادہ منظم، ہوشیار اور بیدار ہو جائیں، چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم و ٹیکنالوجی کو جہالت سے، نظم و ضبط کو بدنطمی سے،آگاہی اور بیداری کو غفلت سے اور شعور و مکالمے کو تعصب سے شکست نہیں دی جا سکتی۔
عالمِ اسلام کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے ہماری تمام تر توجہ اصلاحِ امت پر متمرکز ہونی چاہیے، ہمیں بحیثیت مسلمان ، دنیا بھر میں ایسی بیدار، دیندار اور ہوشیار سوسائٹی کی ضرورت ہے جو دنیا کے سامنے اسلامی اصولوں، اقدار اور تعلیمات کی درست ترجمانی کرے۔
اگر اسلامی دنیا کی سربراہی اور ملت اسلامیہ کی قیادت ان بادشاہوں کے سپرد کر دی جائے کہ جو اپنا تن من دھن سب کچھ امریکہ کو راضی اور خوش کرنے کے لئے لٹانے پر تیار ہیں تو مسلم دنیا میں طالبان اور داعش سے بچے کچھے ممالک بھی جلد اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
اگر ہمارے حکمران اسی طرح امریکہ و اسرائیل کے مفادات کی جنگوں میں اپنے جوانوں کو لقمہ اجل بناتے رہے تو دہشت گردی کی یہ وبا اب ممالک کے ممالک کو چاٹ جائے گی۔ اس وقت تک بھی امریکہ کی خوشامد ، چاپلوسی اور غلامی کا جو ہولناک نتیجہ نکلا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
اگر ہم خداوندِ عالم کی وحدانیت اور رسولِ اسلام کی ختمِ نبوت پر قطعی عقیدہ رکھتے ہیں تو پھر ہمیں امریکہ و اسرائیل کے قدموں پر ڈھیر نہیں ہونا چاہیے اور ممالک و مسالک کے بجائے اسلامی اصولوں اور معیارات کا ساتھ دینا چاہیے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اذان تو توحید کی دیں اور گردنیں اہلِ قبلہ کی کاٹیں، نعرے تو اللہ اکبر کے لگائیں اور مسلمانوں کے سروں سے فٹبال بھی کھیلیں، باتیں تو اسلامی خلافت کی کریں اور آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے بچوں کو گولیوں سے بھی بھون دیں۔
اس وقت اصلاحِ اُمت کی کوشش صرف اس لئے ضروری نہیں کہ دنیا کو اس کی ضرورت ہے بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ شدت پسندی کی یہ آگ ہمارے ملک میں بھی گھس چکی ہے۔
ظاہر ہے جب ہم نےاسلامی دنیا کا حکومتی نظام ہی امریکہ و اسرائیل کے پٹھو حکمرانوں کے حوالے کیا ہوا ہے تو پھر ہم امن، صلح اور انسانی حقوق کی اپیلیں کس سے کر رہے ہیں!؟
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ شام کی ملت نے اپنے ملک میں غیر ملکی غنڈوں کے خلاف ایک بڑی جنگ بہت کامیابی سے لڑی ہے اور اب غوطہ میں جاری اپریشن دہشت گردوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جا رہا ہے۔
یہ پتھر پر لکیر ہے کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف جاری اپریشن اپنے منطقی نتیجے کو پہنچ کر رہے گا چونکہ اس اپریشن کی قیادت کوئی ایسا چیف آف آرمی اسٹاف نہیں کر رہا جس نے اپریشن کے بعد جا کر سعودی عرب کے ہاں نوکری بھی کرنی ہو۔ لہذا شام سے دہشت گردوں کے انخلا کے لئے اس آپریشن کا جاری رہنا ضروری اور حتمی ہے۔
بے شک آخری فتح اہلِ شام کی ہی ہوگی اور آخری شکست غیرملکی غنڈوں کو ملے گی ۔چونکہ جو اصولوں اور اقدار کی خاطراپنے وطن کی سرزمین پر جان دے دیتا ہے وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے اور جو دوسروں کے گھر میں گھس کر لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے وہ مار کر بھی شکست خوردہ اور زلیل ہوتا ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) آہ آج پھر مارچ آگیا کس کوپتہ تھا سات مارچ وہ دن تھا ہے،صرف فرق اتنا ہے کہ میں آج سے 23سال پہلے میں اس دن ساتویں جماعت کاطالب علم تھاصبح والد محترم کو خوشی خوشی خدا حافظی کر رہا تھالیکن کس آنکھ کو پتہ تھا کہ یہ والدمحترم کا آخری دیدار تھا اور اب میں خود ایک باپ بن چکا ہوں میرا بیٹا خود سات سال کا ہوچکاہے اور اب محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی اولاد کے لئے کتنی تمنائیں اور آرزو ئیں ہوتی ہیں یہی یقناً میرے والد کی آرزو ہو گی کہ وہ بھی اپنی اولاد کی خوشیاں اس دنیا میں دیکھیں لیکن ہر خوشی ان کی ادھوری رہی۔
لیکن خدا کا وعدہ سچا( جو لوگ) خدا کی راہ میں مارے گئے اُنہیں ہرگز مردہ تصور نہ کرو ،بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔
آج جب میں اپنے بیٹے کو اس کے عظیم دادا کے بارے میں بتاتا ہوں یا وہ پھر جب اپنے مظلوم دادا کی تصویر دیکھتا ہے تو اپنی دنیا میں کھو جاتا ہے کچھ یہی سوال اُس کے دل میں اٹھتے ہونگے بابا آپ تو کہتے ہیں کہ میرے دادا بہت بڑئے ڈاکٹر تھے اور مسیحا انسانیت تھے مفلس اور نادار غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے اور ادویات اور ضروریات زندگی مہیا کرتے تھے یتیموں ،بیوگان اور مستقبل کے معماران قوم کی ہرممکن مدد کرتے تھے تاکہ وہ علمی میدان میں آگے بڑھیں اور وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر یں اے میرے بابا کیا میرے شہید دادا کا یہ جرم تھا کہ وہ وطن عزیز پاکستان کے ایک با شعور محب وطن شہری تھے ؟بیٹے آپکے داد ا شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں 1962ء میں پیدا ہوئے اس دواران شہید ڈاکٹر کے والد سید امیر حسین نجفی جو نجف اشرف میں دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے اسی سال واپس آئے اور اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لئے گئے شاید یہ خوش قسمتی تھی شہید کی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف اور کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا اور بولنا کربلا میں شاید یہ وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا
جینا علی ؑ کی صورت اور مرنا حسینؑ بن کر
اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی اس کے بعد والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا وہاں پر آپ نے سنیئیر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا بعد ازاں انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ GCکے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج King Edwardsسے ایم بی بی ایس کیا اور نوکری سرکاری سروسز ہسپتال میں کی۔Ansthesiaمیں Specialization کرنے کے ساتھ ساتھ دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض انجام دئیے۔
سینئیر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں آپ نے اسکا ؤٹنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس دوران اپنے آپ کو بہترین اسکاؤٹ ثابت کیا ،دوران تعلیم سینئیر کیمبرج میں آپ ایک اچھے Debater بھی تھے جس کی وجہ سے آپ کو Debating Society کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا آپ نے ایک Debater کی حثییت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔
آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈوکراٹے سے بھی واقف تھے اور آپ نے بچپن میں مولا علی ؑ کے قول پر عمل کرتے ہوئے تیرا کی بھی سیکھی اوربہترین تیراک کا ایواڈ بھی حاصل کیا اور ساتھ ہی گھڑسواری اور نشانہ بازی سیکھی ۔آپ بچپن سے ہی Stamp Collecting کا شوق تھاجوStampS آپ نے جمع کی وہ آج تک محفوظ ہیں جب کی معیاری کتب کا مطالعہ آپ کا بہترین مشغلہ تھا جسکا انداز اس لابئریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے جہاں ہزارہا انگلش، اردو، فارسی او ر عربی کی کتب موجود ہیں ۔ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں ان تمام کتب کا ڈاکٹر صاحب نے بغوار مطالعہ کیا ہوا تھا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مطالعہ میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے اور یہ اسی ہستی کی کوششوں کا ثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کے نیٹ ورک کی صورت میں آتا ہے۔
ڈاکٹرصاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے انسانی شعور کو بیدار کرنے کے لئے (ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے اس دوران آپ کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہوئی نظر آئی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش کر دی۔
ڈاکٹر صاحب نے والد صاحب کے حکم کی اطاعت کی اور خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی ،ان واقعات کو شہید کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں ہم نے ڈاکٹر صاحب کو 18گھنٹے پڑھتے دیکھا ہے یہاں تک رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے تھے اگر نیند کا غالب آتی تو پانی منہ پر ڈال کر خود کو بیدار کرتے۔آخر کار محنت رنگ لائی آپ نے 70%نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ۔شہید ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت ؑ کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی Student Life میں محسوس کیا وطن عزیز مستقبل کے مماروں کی دینی اور فکری نشونما کے لئے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو کہ اسلامی افکار کی ترجمانی کرئے چونکہ اس دور میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کمیونیزم کی بحث اپنے عروج پر تھی اس لئے شہید نے ایکStudent Organizatoin کی بنیاد رکھی جو آج ایک تناور درخت کی صور تمیں وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سفر جا ری رکھا ہوا ہے شہیدڈاکٹرمحمد علی نقوی کی شہادت کے بعد آج پوری دنیا انہیں بانی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے جانتی ہے۔
ڈاکٹر محمد علی نے اپنی زندگی میں مختلف فلاحی پروجیکٹس کا آغاز کیا جیسے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے المصطفیٰ اسکول سسٹم جس کہ تحت مختلف سکولوں کا آغاز کیا جس کے تحت دور حاضر میں پاکستان بھر میں مختلف ناموں سے یہ سکول کام کر رہے ہیں ان میں نمایاں کامیابیوں سے ہم کنار ہونے والا ادارا گلگت بلتستان میںCareer Guidance School And Collegeہیں اور اسی طرح اٹک میں جناح پیلک سکول اور میانوائی مں انڈس ماڈل سکول اینڈ کالج جھنگ کے علاقہ بھوانہ میں المصطفیٰ سکول قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح شہید نے میڈیکل کے شعبہ میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں،جسکی نظیر آج دنیا میں نہیں ملتی اُسی دوران میانوالی کے علاقہ کالاباغ میں انڈس ہسپتال میں انڑنیشنل ریڈ کراس ا ین جی او کے تحت افغان مہاجرین کے لئے طبی خدمات سرانجام دیں بعد ازاں شہر لاہور میں الزہرا زنبیہ کمپلکس میں بہترین خدمات سر انجام دیں تواس دورکے پاکستانی میڈیا پی ٹی وی ٹو پر تقربیاً پچیس منٹ کا پروگرام کر کے علاقے میں ہونے والی خدمات کا عتراف کیا گیااور آپ کا خصوصی انٹریو بھی نشر کیا گیا
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہادت سے قبل شیخ زاہد ہسپتال لاہور میں رجسٹرار کےعہدے پر فائض تھے ان کیساتھ کام کرنے والوں کی آج بھی اُن کی یادوں میں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں وہ کہتے ہیں شہید وقت کی پابندی کرتے تھے کبھی بھی کام سے نہیں گھبراتے تھے یہ وجہ تھی شہادت کے بعد جب ایک دفعہ مجھے علاج کی غرض سے ہسپتال جانا ہوا ایمبولینس کے ڈرائیوار سے ملاقات ہوئی اس سے جب تعارف ہوا کہ میں شہید کا فرزند ہوں تو کہنے لگا باخدا اس جیسافرشتہ صفت انسان نہیں دیکھا تو کہنے لگا میں آپ کا خادم ہوں کیونکہ آپ ایک عظیم باپ کے فرزند ہیں جہنوں نے دکھی انسانوں کی بلاتفریق خدمات کی۔ویسے تو ان کولوگ شیعہ کے لیڈر کے طور پر جانتے ہیں لیکن میں ایک کرسچن ہوں میری نوکری فقط و فقط اُنہیں کی مرہون منت ہے شہید کی خدمات کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کیونکہ سیرت انہوں نے علی ابن ابطالب ؑ سے حاصل کی اور خود ایک پرائیویٹ کلینک بنایا جو آج بھی انسانیت کی خدمت میں بلا امتیاز مشغول عمل ہے ۔
آج شہید کی فلاحی سرگرمیوں کو زندہ رکھنے کے لئے ان سے محبت کرنے والوں نے ان کی خدمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے نام سے منسوب ایک NGOرجسٹرر کرائی ہے جس کا نام ہے MAWAمحمد علی ویلفیئر فاونڈیشن ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہے جس کے قابل ذکر کام یہ ہیں فری میڈیکل کیمپس ،مستحق طلبا و طالبات کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اسکالرشب پروگرام۔اسی طرح پاکستان میں قدرتی آفات سے بچنے لئے کے Management Disaster سیل کا قیام جس کے تحت بالخصوص پاکستان میں اور اسی طرح سیلاب کے بعد قابل ذکر خدمات سر انجام دیں گئی آج وقت آگیا ہے پھر ااس شہید کے روز شہادت پر اس سے عہد کریں دور حاضر کے طاغوت سے ٹکرائیں گے شہید انسانی محفل کی وہ روشن شمعیں ہیں جن کا نورتا ابد مہکتا رہے گا۔شہداء اپنے کاموں کے سبب ہر دور میں زندہ رہتے ہیں اور وہ کیوں نہ زندہ ہوں کہ ان کے زندہ رہنے کی گواہی خود قرآن نے دی ہے بسا اوقات انسانی معاشرے اپنی قوم کے ان عظیم مسیحوں کے نام تو یاد رکھتے ہیں لیکن ان کے افکار کو اور راہ علم سے یکسر غاغل ہو جاتے ہیں ۔انہی شہداء کا پاک و پاکیزیہ خون ہے جو اس سر زمین کی مٹی میں رچ بس گیا اور اسی نے ہمیں آج وہ قوت وطاقت عطا کی ہے جسکی بنا پر وطن عزیز کے کونے کونے سے دور حاضر کے شیطان و نمرود کے خلاف صدائے حق بلند ہو رہی ہے نوجوانان پاکستان آئی ایس او کی پہچان یہ نعرہ بن گیا ہے۔
ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے
تحریر۔۔۔۔سید دانش علی نقوی (فرزند شہید ڈاکٹر محمد نقوی ؒ)
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان فطرتاً فساد کو پسند نہیں کرتا، فساد صرف یہ نہیں کہ گھروں میں لڑائی جھگڑا عام ہو،بازاروں میں ملاوٹ شدہ اشیا بکتی ہوں، دفتروں میں رشوت اور سفارش کا دور دورہ ہو، منبر و محراب سے بھائی کو بھائی سے لڑایا جائے بلکہ حقیقی فساد یہ ہے کہ معاشرے میں برائی اچھائی پر حاکم ہوجائے، کمینہ ، شریف پر حکومت کرے، رشوت خور لوگوں کے مسائل نمٹائے اور خائن شخص امین لوگوں کا سربراہ ہو۔حقیقی معنوں میں برائی اور برے لوگوں کی حکومت، فساد کی کامل ترین مصداق ہے۔
فساد کے علاج کو اصلاح کہا جاتا ہے اور جو اصلاح کرتا ہے اُسے مصلح کہتے ہیں۔جب کہیں پر یعنی کسی معاشرے میں فساد اس عروج پر پہنچ جائے کہ شرفا ، کمینوں کے ماتحت ہوں،ادارے رشوت خوروں کے ہاتھوں میں ہوں، بھرتیاں سفارش اور پرچی سے ہوتی ہوں، فیصلے دھونس اور دھاندلی سے ہوتے ہوں،سفر، صحت اور تعلیم کی سہولیات امیر و غریب کے لئے الگ الگ ہوں تو اس وقت اس معاشرے کی اصلاح اشیائے خوردونوش کی قیمتیں سستا کرنے سے نہیں ہو سکتی، اس وقت اصلاح چینی اور آٹے کے بہاو میں کمی سےنہیں ہو سکتی بلکہ اس وقت اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ کرپٹ اور خائن لوگوں کو اقتدار سے الگ کیا جائے۔
اللہ نے انبیائے کرام کو مصلح قرار دیا ہے، اگر انبیائے کرام لوگوں کو صرف نمازیں پڑھنا اور اللہ ھو کی ضربیں لگانا سکھاتے رہتے تو دنیا کے بادشاہ اُن کی مخالفت کیوں کرتے!؟
انبیائے کرام سے بادشاہوں کی مخالفت اسی وجہ سے تھی کہ انبیائے کرام معاشرے پر ظالموں، رشوت خوروں اور خائن لوگوں کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔
اپنے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے منافقین بھی اپنے آپ کو مصلحین کہتے ہیں، قرآن مجید کے بقول جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہیں۔
منافقین بھی ، عوامی حقوق، انسانی مساوات، عادلانہ حکومت اور اس طرح کے بڑے بڑے نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔معاشرے سے اس وقت تک فساد ختم نہیں ہو سکتا اور منافقین کے چنگل سے لوگوں کو نجات نہیں دلائی جا سکتی جب تک لوگوں کو حقیقی معنوں میں سیاسی شعور نہ دیا جائے۔
لوگوں کو بیدار کئے بغیر آپ ہزار تقریریں کریں ، لاکھوں ریلیاں نکالیں اور انواع و اقسام کے جھنڈے تقسیم کریں لوگ پھر بھی آٹے کی ایک بوری اور مزدوری کی ایک دیہاڑی کے عوض ووٹ ڈال کر آجائیں گے۔
ملی بیداری اور شعور کے لئے ہم میں سے ہر شخص کو اپنی سیاسی فعالیت پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم سیاسی طور پر معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہماری ذات سے ہمارے ارد گرد رہنے والوں کو کیا سیاسی شعور مل رہاہے!؟
یاد رکھئے معاشرے میں بڑے بڑے نیک لوگ اور خدمتگار موجود ہوتے ہیں لیکن انہیں سیاسی شعور نہیں ہوتا، لوگوں کی خدمت کرنا ایک الگ بات ہے اور لوگوں کی سیاسی رہنمائی کرنا ایک دوسری چیز ہے۔
مثلا ایک حجام، نائی ، موچی ، ترکھان، ٹیچر یہ سب مقدس لوگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ معاشرے کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں کے لئے سڑکیں پکی کروا دینا، سٹریٹ لائٹس لگوا دینا ، ہسپتال بنوا دینا یہ سب قومی خدمت ہے اور جو بھی یہ خدمات انجام دیتا ہے وہ قومی خادم تو ہے لیکن مصلح نہیں۔
مصلح وہ ہے جو قوم کو بدترین حکمرانوں، اذیت ناک زندانوں، رشوت خور افیسروں اور کرپٹ لیڈروں سے نجات دلائے۔
گزشتہ سو سالوں میں مسلمانوں میں جومصلحین گزرے ہیں اُن میں ایک بڑا نام سید جمال الدین افغانی کا بھی ہے۔سید نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک کے سفر کئے اور و ہ عالمِ اسلام کی اصلاح کے لئے اس زمانے میں متعدد اسلامی ممالک کے گروہوں سے رابطے میں بھی تھے۔
سید جمال الدین افغانی کی تعلیمات و افکار کو اگر خلاصہ کیا جائے تو سید کے نزدیک مسلمانوں کو چار بڑے مسائل کا سامنا تھا:
۱۔ داخلی استبداد
۲۔ بیرونی استعمار
۳۔مسلمانوں کی بے خبری
۴۔ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت
داخلی استبداد سے مراد ملک کے اندر ظالم لوگوں کا حکمران بن جانا ہے، بیرونی استعمار کا مطلب بیرونی ممالک کا آبادکاری کے بہانے سے آکر وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لینا ہے اور مسلمانوں کی بے خبری سے مراد مسلمانوں کو پتہ ہی نہ ہونا کہ ہم کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ہمارے ووٹ کی کیا قدر و قیمت ہے جبکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت یہ ہے کہ دوسرے کی سچی اور اچھی بات کو بھی اس لئے نظر انداز کردیا کہ اس کا تعلق ایک دوسرے فرقے سے ہے۔
یہ چاروں مسائل گزشتہ کئی سو سالوں سے عالم اسلام کو لاحق ہیں۔ تئیس مارچ ۱۹۴۰ تک برصغیر کے مسلمان ان مسائل کو درک تو کر چکے تھے لیکن ان کے حل کے حوالے سے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں تھا،تئیس مارچ ۱۹۴۰ کو پہلی مرتبہ مسلمانوں نے داخلی استبداد، بیرونی استعمار، باہمی بے خبری اور آپس کی فرقہ واریت سے بالا تر ہوکر ایک آزاد وطن کا مطالبہ کیا تھا۔
آج خدا کا شکر ہے کہ وہ آزاد وطن حاصل کئے ہوئے ہمیں ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہم بدستور داخلی استبداد، بیرونی استعمار،باہمی بے خبری اور فرقہ واریت میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے داخلی استبداد کا مقابلہ کرنا ہوگا، جب امین اور دیانتدار لوگ منتخب ہونگے تو وہ خارجہ پالیسی بھی آزاد انہ طور پر تشکیل دیں گے ۔ لیکن ایسے لوگوں کا انتخاب تبھی ہو سکتا ہے جب ہم خود بھی بے خبری اور فرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارا پائیں اور دوسروں کو بھی اس کا شعور دیں ۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.