وحدت نیوز (آرٹیکل)  محل وقوع کے اعتبار سے یمن سعودی عرب کے جنوب میں،عمان کے مغرب میں، بحیرہ احمر کے مشرق میں اور خلیج عدن کے شمال میں واقع ہے۔یہ مغربی ایشیا میں مشرقِ وسطیٰ کا  دو کروڑ آبادی پر مشتمل انتہائی اہم ملک ہے۔

موجودہ صدی میں  مصر کے جمال عبدالناصر نے  بھی ۱۹۶۲ میں یمن پرحملہ کرکے وسیع پیمانے پر انسانی قتلِ عام کیا تھا لیکن وہ تو ہمارا ہیرو ٹھہرا لہذا ہم کیوں اس کے خلاف بولتے، اسی طرح ۱۹۹۴ میں شمالی اور جنوبی یمن  کے درمیان زبردست کشت و کشتار ہوئی لیکن عالمی برادری کو اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔

یمن کے رہنے والوں کا قصور یہ ہے کہ یمن کی پٹرول اور گیس سے لبریز ۱۸۰۰ کلو میٹر سرحد سعودی عرب کے ساتھ ملتی ہے۔اس کے علاوہ باب المندب  کا دریائی  علاقہ  جنوب کی طرف سے دریائے احمر کو  خلیج عدن اور اوقیانوس ہند سے جوڑتا ہے یوں سعودی عرب، افریقا اور مصر کی شہ رگ اس کے کنٹرول میں ہے۔

یہ کوئی وہابی و شیعہ یا دیوبندی و زیدی یا نجدی و حوثی کا مسئلہ نہیں بلکہ معدنی ذخائر کی خاطر  مضبوط ممالک کی ایک کمزور ملک پر جارحیت ہے۔یمن میں آبادی کے لحاظ سے ۵۰فی صد شافعی اہل سنت ہیں جبکہ ۴۰ فی صد شیعہ ہیں اور اس کے علاوہ  اسماعیلی اور صوفی مسلک کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔

حوثیوں کی تحریک کا آغاز ۱۹۹۰ میں سید حسین الحوثی کے ہاتھوں سے ہوا۔۲۰۰۵ میں حکومت یمن نے اس تحریک  پر کاری ضرب لگائی اور اس کے بانی کو شہید کردیا، اس کے بعد سید حسین الحوثی کے والد بدرالدین حوثی نے اپنے بیٹے کے راستے پر سفر جاری رکھا اور اپنی وفات تک اس پر کاربند رہے، ان کی وفات کے بعد سید حسین کے بھائی سید عبدالمالک حوثی نے اس زمہ داری کو سنبھالا ۔

یاد رہے کہ ماضی میں سعودی عرب یمن کو  قطر کی طرح اپنی بغل بچہ بادشاہت  کےطور پر دیکھتا  تھا ۔سعودی عرب کا منصوبہ تھا  کہ داعش اور القاعدہ کے اسٹریکچر کو یمن میں مضبوط کیا جائے، جیسے ماضی میں افغانستان و روس کی جنگ  میں پاکستان کی سرزمین اور لوگوں کو استعمال کیا گیا تھا۔بالکل اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں یمن کو بھی استعمال کرنے کا ارادہ تھا،  سعودی عرب کے اس منصوبے کو  یمنی حکومت نے تو قبول کر لیا لیکن حوثیوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اپنے ملک کو غیروں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے پر اصرار کیا۔

یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے  سعودی عرب کا دورہ کیا اور ملک عبداللہ کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا چنانچہ حوثیوں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے القاعدہ کے لشکر یمن بھیجے اور یوں یمن میں ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

 بعد ازاں اس خانہ جنگی سے سعودی عرب کو اپنے مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آئے تو سعودی عرب مستقیماً اس جنگ میں کود پڑا ۔یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح  ۱۹۹۷۸میں یمن کے صدر بنے ، انہوں نے ایسے وقت میں یمن کی صدارت سنبھالی کہ جب ان سے پہلے یمن کے دو صدور ایک سال سے بھی کم عرصے میں دہشت گردی کے شکار ہو گئے تھے۔

 علی عبداللہ صالح نے تمام تر مشکلات کے باوجود ۲۳ سال تک  یمن پر حکومت کی۔۱۹۹۰سے پہلے وہ صرف شمالی یمن کے صدرتھے ،تاہم انہوں نےشمالی اور جنوبی یمن کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ۱۹۹۴میں یمن کی داخلی جنگ کو آسانی سے نمٹانے میں بھی  کامیاب ہو گئے،  اس کے بعد ۱۹۹۹ کے انتخابات میں  متحدہ یمن کے پہلے  صدر منتخب ہوئے۔۲۰۱۱ میں عوامی جلسوں اور احتجاجات  کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی صدارت سے استعفیٰ دے دیا،   انہوں نے کچھ عرصہ اپنے تعلقات حوثیوں کے ساتھ بھی اچھے رکھےلیکن  ۱۹۹۰ کے بعد انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے شروع کر دئیے۔

۔ موصوف نے  ایک سیاسی چال کے طور پر عبدربه منصور هادی کے مقابلے میں کچھ عرصہ  انقلابیوں کی زبانی حمایت بھی  کی لیکن پھر کھلم کھلا  سعودی عرب کو ہی  اپنا سیاسی قبلہ بنا لیا  اور انقلابیوں کی مخالفت شروع کر دی۔بعد ازاں ۴ دسمبر ۲۰۱۷ کو انہیں قتل کردیا گیا۔

اس وقت یمن پر سعودی حملے کے مندرجہ زیل اہداف ہیں:

۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے

۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے

۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے

۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے

یہ جنگ کسی طور پر بھی دینی و مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف استعماری  مفادات کی تکمیل کے لئے  ننگی جارحیت ہے۔ جب تک دنیا ، استعمار کے خلاف رد عمل نہیں دکھاتی یہ جنگ جاری رہے گی۔ جو اقوام آج خاموشی کے ساتھ یمن کا تماشا دیکھ رہی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  استعمار کا پیٹ کسی ایک ملک کو ہڑپ کرنے سے نہیں بھرتا ، آج اگر یمن پر بارود کی بارش ہو رہی ہے تو کل کو کسی اور کی باری آئے گی۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہم فتنوں کے دور میں جی رہے ہیں اور اس دور میں دین و آخرت کی بھلائی کے ساتھ جینے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے جینے کا طریقہ کار درست ہو۔رسول اللہ صلی الله عليه وآلہ وسلم سے روایت ہے :

"ليغشين من بعدي فتن كقطع الليل المظلم ، يصبح الرجل فيها مؤمناً ويمسي كافرا ، ويمسي مؤمناً ويصبح كافراً ، يبيع أقوام دينهم بعرض من الدنيا قليل " (كنز العمال ، ج11 ، ص 127)

ترجمه: " میرے بعد اندھیری رات کی طرح فتنے اٹھیں گے. صبح کے وقت ایک شخص مؤمن ہوگا تو رات کے وقت کافر اور اسی طرح  رات کے وقت مؤمن ہو گا تو صبح کے وقت کافر ہو گا. قومیں اپنے دین کو تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے عوض بیچ دیں گی. "

*فتنے کے لغوی معنی:*  فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے اور ابتلاء وامتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. اس کے علاوہ گناہ ، کفر ، قتال ،پریشانی ، لوگوں میں اختلاف رائے اور آگ میں جانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے.

قران مجید میں سورۃ العنکبوت میں خدا وند ارشاد فرماتا ہے.

((الم * أ حسب الناس ان يتركوا ان يقولوا آمنا وهم لا يفتنون * ولقد قتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين *))" کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب کہیں گے کہ ہم ایمان لائے کیا انکا امتحان نہیں لیا جائے گا * ہم نے جو قومیں ان سے پہلے آئیں انکی بھی آزمائش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون سچے اور کون جھوٹے  ہیں ."

*فتنوں کی اقسام*

*الہی فتنے*

امتحان : اللہ تعالیٰ نہیں چاھتا کہ ہم کفر اختیار کریں ، بلکہ وہ تو پسند کرتا ہے کہ ہم ایمان والے ہوں. لیکن ہمارا ایمان سچا ، برھان ودلیل اور یقین کے ساتھ ہو. اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور برگزیده بندوں کا بھی امتحان لیا. اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان کے دعویداروں  کا بھی امتحان لیتا ہے اور چھانٹی کرتا ہے اور چھاننی لگا کر سچے ایمانداروں کو جھوٹے ایمان کے دعویداروں سے علیحدہ علیحدہ اور جدا کرتا ہے.

*شیطانی فتنے*

انسان کا کھلا دشمن شیطان اور اسکی جماعت  ہے. لیکن انسان جب  ان  سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دے کر گمراہی کے راستے پر لگا دیتے ہیں. اللہ تعالیٰ سورة الاعراف 27 نمبر آیت میں ارشاد فرماتا ہے  (( لا يفتننكم الشيطان كما اخرج ابويكم من الجنة )) " شيطان کو موقع نہ دو کہ تمہیں دھوکہ دیکر گمراہ کر دے جیسے اس نے تمھارے والدین ادم وحوا کو دھوکہ دے کر جنت سے نکالا تھا."

سب سے خطرناک فتنہ

. مقتدر قوتیں اور جابر حکمران لوگوں پر ظالمانہ اور جابرانہ تسلط قائم کرنے کے لئے ایسے آرڈر جاری کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں جو لوگوں کے عقیدے اور ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی. ایسی صورتحال میں اگر تو وہ ان قوانین اور احکام کا انکار کرتے ہیں تو انہیں اذیت پہنچائی جاتی ہے. لوگوں کے عقیدے و ایمان اور افکار ونظریات کو طاقت اور قدرت کے استعمال سے تبدیل کرنے کا فتنہ سب سے خطرناک فتنہ ہے. اور اسی فتنے کو قران مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے .

((والفتنة اشد من القتل )) کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ اور شدید نقصان دہ ہے. کیونکہ آزادی انسان کی انسانیت کا جوھر اور اسکا بنیادی حق ہے. جب انسان سے ایمان واعتقاد اور افکار ونظریات کی آزادی کا حق چھینا جاتا ہے گویا اس سے اسکی انسانیت چھین لی جاتی ہے.

 آزادی کے بغیر تو کوئی انسانیت نہیں بچتی. انسانوں کو جبری طور پر انکے عقیدے وایمان وافکار ونظریات تبدیل کروانا انہیں قتل کرنے سے زیادہ سخت ہے اور جس قوم وملت کی آزادی افکار ونظریات اور آزادی عقیدہ وایمان سلب ہو جاتی ہے وہ قوم زندہ نہیں مردہ ہو جاتی ہے. اور مردہ اقوام کبھی آزاد وخود مختار اور فلاحی  مملکت نہیں بنا سکتیں.

آج امریکا اور اسکے اتحادیوں کی سیاست ہمارے سامنے اس قسم کے فتنے کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے. پاکستان میں جب سے امریکی اور اسکے اتحادی سعودیہ کی مداخلت شروع ہوئی اسی وقت سے پاکستان کے شہریوں پر  درہم و دینار وڈالرو  ریال اور طاقت  کے بل بوتے پر لوگوں پر متشدد عقائد زبردستی  مسلط کئے جا نے لگے.

چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں  حکومتی سرپرستی اور امریکی وسعودی مدد سے وھابیت اور تکفیریت کی ترویج کی گئی اور جس نے اختلاف رائے کا حق استعمال کیا اس پر پہلے فتوے جاری ہوئے اور پھر کسی ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکے سے اسے اڑا دیا گیا  اور حکومتیں ایسے مجرمین کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں اور نام نہاد لیڈر انکی پشت پناہی کرتے رہے.

ملک پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے. اب ٹی وی چینلز کے ذریعے نت نئے فتنے ایجاد کرنے پر کام جاری ہے.یاد رہے کہ کہیں پر بھی  دشمن حملہ آور ہونے سے پہلے فتنوں کو ھوا دیتا ہے اور اس ملک کے عوام کے  اجتماعی روابط توڑ کر اجتماعی وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.

پاکستان میں سنی و  شیعہ مذھب اور نئے فتنے

صدر اسلام سے مسلمانوں میں دو بڑے مکتب فکر اور مذھب پائے جاتے ہیں. ایک شیعہ مذھب اور ایک اھل سنت اور پورے جہاں پر نگاہ ڈالی جائے تو  آپکو یہ مذاھب ملیں گے.  لیکن انکے مابین فتنے ایجاد کرنے کی جو ہوا پاکستان میں چالیس سال سے چل رہی ہے آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی. حالانکہ ان مذاہب کی تاریخ 1400 سال پرانی ہے ۔شیعہ مذھب کے اپنے عقائد ونظریات ہیں اور سنی مذھب کے اپنے. ان دونوں کے اکثر عقائد ونظریات مشترک ہیں اور بعض جگہوں پر  آپس میں فرعی  اختلاف  پایا جاتاہے.

تاریخی طور پر بھی دونوں فرقوں کے درمیان ٹھوس اختلافات پائے جاتے ہیں، جیسے جنگ جمل و صفین   وغیرہ کی جزئیات میں دونوں فرقوں  کے نکتہ نظر میں آج تک  بھرپوراختلاف ہے۔البتہ محقیقین ان اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

ختمِ نبوت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور اس کے بعد  امامت کے مسئلے پر اختلاف شروع ہو جاتا ہے، دونوں مسالک کے درمیان امامت کے مسئلے پر تھوڑا بہت اختلاف ہے ، جیسا کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بعد بارہ خلیفہ یا بارہ امام ہونے پر شیعہ و سنی دونوں مسالک کا اتفاق ہے ،  البتہ وہ بارہ امام کونسے ہیں اس میں  اختلاف ہے۔شیعہ  بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں  اور امامت کو ایک  الہی منصب سمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت کے ہاں امامت کے لئے عصمت کی قید نہیں ہے۔

اسی  طرح شیعہ و سنی علما  حضرت امام علیؑ کے مناقب، فضائل اور تفضیل کے قائل ہیں اور اس ضمن میں طرفین نے بہت کچھ لکھا ہے البتہ  اہل سنت امام علیؑ کو چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں جبکہ شیعہ رسول اسلامﷺ کے بعد خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں۔

اب پاکستان میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا کام منبروں کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے لیاجانے لگا ہے، بظاہر کہا تو یہ جاتا ہے کہ دینی پروگراموں سے اتحاد اور وحدت کے فروغ کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عملا  اختلاف و انتشار کو ہوا دی جاتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ اتحاد اور ادغام میں فرق کیا ہے!؟

۔اتحاد ووحدت کا حقیقی مفہوم

اتحاد اور وحدت ہی فقط وہ راستہ ہے جس سے ملک بھی محفوظ رہ سکتا ہے  اور شہریوں کے جان ومال اور ناموس کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے. شیعہ اور سنی دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ  اتحاد کے اعتباد سےافراط وتفریط کے شکار ہیں. کچھ لوگ  سرے سے ہی اتحاد کے مخالف ہیں اور پرانے فتنوں کو ہوا دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں   اور کچھ  ان سے بھی خطرناک ہیں جو اتحا ووحدت کے نام پر اتحاد ووحدت کو سبوتاژ کرتے ہیں۔

 یہ گروہ اتحاد کے یا تو مفہوم سے واقف نہیں یا کسی لالچ ، خوف یا ڈر یا  پھر کسی سیاسی مصلحت کے تحت اپنے ہی  مذھب کے اصولوں اور مسلمہ عقائد سے دستبرداری کا اظہار کرتا ہے، ایسی دستبرداری  جسے نہ تو اسکے مد مقابل مذھب کے لوگ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسکے اپنے مذھب کے پیروکار اس موقف کو مانتے ہیں. اور پھر ایک ھیجان اور بےچینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہےجیسا کہ  آجکل ہو رہاہے.

ہم یہاں پر اتحاد اور ادغام میں فرق کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

*اتحاد اور ادغام میں فرق*

اتحاد کا مطلب  یہ ہے کہ اپنے عقائد کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔ یعنی  شیعہ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے اور دوسری  جانب سنی بھی اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے مل کر  اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں ۔

ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہمارے حکمران اپنے سیاسی مفادات کے لئے اسرائیلیوں اور یہودیوں کے ساتھ مشترکات ڈھونڈ کر اتحاد کر سکتے ہیں تو کیا اسلام کے دفاع اور حفاظت کی خاطر  شیعہ اور سنی علمائے کرام مل بیٹھ کر متحد نہیں ہو سکتے۔

اب رہا ادغام تو  ادغام یہ ہے کہ شیعہ اور سنی  ایک دوسرے کے ڈر سے یا  کسی سیاسی و دنیاوی مفاد کی وجہ سے اپنے ہی مسلمہ  عقائد کو چھوڑ کر یہ تاثر دیں کہ وہ دوسرے فرقے میں ضم ہو گئے ہیں جبکہ  ایسا ادغام چاپلوسی  جھوٹ اور منافقت  پر تو منتہج ہو سکتا ہے لیکن  اتحادِ اسلامی کا ترجمان نہیں ہو سکتا۔اس سے کوئی تیسرا فرقہ تو جنم لے سکتا ہے لیکن وحدتِ اسلامی کی بنیاد نہیں پڑ سکتی۔اتحاد اسلامی کی درست نہج یہی ہے کہ تمام مسلمان  اپنے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل کریں اور ایک دوسرے کے عقائد کا دل سے احترام کریں۔


تحریر:ڈاکٹر شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔ ہر حال میں  انسان اپنی معلومات میں افزائش اور  کچھ کرنے کی اپنی استعداد میں اضافے کا متمنی ہے۔ایک عاقل ، ہوشیار اور بیدار انسان کبھی بھی اپنی ان دو خواہشوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہے کسی بھی دین و مذہب اور نظریے سے تعلق رکھتے ہوں باقی دنیا کے بارے میں جاننا اور اس دنیا میں کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنا ہی ہماری سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہی خواہش ہے جو انسان کو خلاوں میں لے کر گھوم رہی ہے ، فضاوں میں اڑا رہی ہے اور سمندروں کی تہوں میں اتار رہی ہے۔ اگر انسان سے یہ دو خواہشیں چھین لی جائیں تو انسان کا انسان ہونا خطرے میں پر جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ذمہ دار اور سرکردہ افراد ہمیشہ کچھ جاننے اور کچھ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔انسانی معاشرے میں انسان جدید معلومات اور نئے حالات سے لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتا۔اس وقت ہمارے ارد گرد کی دنیا میں  بڑی تیزی سے سائنسی، سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتیں نت نئی تھیوریز اور ایجادات کے ساتھ کمزور اقوام پر جدید تجربات کر رہی ہیں۔  یعنی ہماری دنیا میں طاقتور اقوام ، کمزور اقوام کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔

ایک نئے مشرق وسطیٰ کا تجربہ امریکہ کو مہنگا تو پڑا لیکن اس کے نتیجے میں چاندہ چہرہ ممالک کھنڈر بن گئے، ممالک کو کھنڈرات بنانے کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور اس وقت   امریکی ایما پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ’عرب اتحاد‘  نے یمن کی مرکزی بندرگاہ الحدیدہ  پر دھاوا بول رکھا ہے۔ یہ اتنی مصروف اور اہم بندرگاہ ہے کہ یمن کی ستر فی صد در آمدات اسی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ۲۰۱۵ سے جاری اس جنگ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے اور اس کی ابتدا میں ہی   انصار اللہ نے امارات کے  فرسٹ نیول سارجنٹ خلیفہ سیف سعید الخاطری، علی محمد راشد الحسانی، سارجنٹ خمیس عبداللہ خمیس الزیودی اور العریف حمدان سعید العبدولی جیسے متعدد افراد  کو موت کے گھاٹ اتار کر حملہ آوروں کے دانت کھٹے  کر دیے ہیں۔

اس سنہری فتح  نامی حملے کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ  کچھ دن پہلے  اقوام متحدہ نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر الحدیدہ پر دھاوا بولا گیا توانسانی جانوں کی  خوفناک تباہی ہوگی۔بہر حال ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اقوامِ متحدہ  کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرے اور حملہ کرنے والوں نے حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر اقوامِ عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ  طاقتور اقوام کے سامنے انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے۔

یہاں پر لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ وہ میڈیا جو  شام کے کسی علاقے میں داعش کے درندوں کے محصور ہونے پر تو انسانی ہلاکتوں کا واویلا کرتا ہے لیکن  اس وقت الحدیدہ میں ہونے والے انسانی المیے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔

یعنی  میڈیا کے نزدیک یمن میں مارے جانے والے انسان گویا انسان ہی نہیں ہیں۔

  عالمی برادری کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہیے کہ الحدیدہ اس جنگ کا آخری مرحلہ نہیں ہے، امریکہ اور سعودی عرب ایک طولانی ایجنڈے کے تحت پوری دنیا میں سرگرمِ عمل ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کے پیچھے ان دونوں ممالک کا ہی ہاتھ ہے۔  

انسانی ہمدردی کے ناتے ہی یہ ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم الحدیدہ میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں پر غم کا اظہار کریں اور  جارحین کی مذمت کریں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مناطق کی طرح الحدیدہ سے بھی جارحین زلیل و رسوا ہو کر نکلیں گے لیکن اس جارحیت کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انسانی و مالی نقصان کا احتمال ہے جس کے تدارک کے لئے عالمی برادری کو سامنے آنا چاہیے۔

انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔الحدیدہ کے حوالے سے ہمیں زیادہ سے زیادہ  حقائق کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور الحدیدہ پر ہونے والی جارحیت کی مذمت  کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔

 اگر ہم الحدیدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کچھ نہیں کرتے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار ہوجانا یا خاموش ہوجانا در اصل باطل کی ہی مدد ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) رات کا وقت تھا، محل میں مکمل سنّاٹا تھا، بادشاہ کے کمرے میں ایک وزیر بادشاہ کے ساتھ محو گفتگو تھا، اتنے میں محل کی چھت سے دھڑام کے ساتھ کوئی چیز زور سے نیچے گری اور پورے محل میں شور شرابا مچ گیا، لوگ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگنے اور چھپنے لگے، بادشاہ بھی سراسیما ہوگیا، کچھ دیر بعد شور ختم ہوگیا تو پتہ چلا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں تھی بلکہ چھت سے کسی نے ایک بہت بڑا برتن نیچے پھینکا تھا۔

بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ سب لوگ ڈرے اور بھاگے لیکن تم کیوں نہیں ڈرے!؟ وزیر نے کہا جناب عالی میں نے ہی  آج رات کے اس وقت پر یہ برتن گرانےکا حکم دیا تھا، اور میرا مقصد آپ کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر انسان کو پہلے سے ہی واقعے کا پتہ ہو تو انسان وقت آنے پر گھبراتا نہیں ہے، اگرچہ برتن گرنے کی یہ آواز میرے لئے بھی خوفناک تھی لیکن چونکہ میں اس کی منصوبہ بندی سے پہلے ہی آگاہ تھا سو میں اس  کی آواز سے نہیں ڈرا۔

اس وقت پاکستان کے عوام انتخابات پر نظریں لگائے ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کے مسائل  پاکستانی انتخابات سے  ہٹ کر بھی بہت زیادہ ہیں،خصوصا جب سے عراق میں امریکہ و سعودی عرب کی پالیسیوں کا جنازہ نکلا ہے اور شام میں داعش اور اس کے سرپرستوں  کو دندان شکن شکست ہوئی ہے تو اب امریکہ و سعودی عرب کے لئے اپنے وجود کی بقا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

اگرچہ سعودی عرب اپنا غصہ یمن پر بمباری کر کے نکال رہا ہے لیکن اسوقت امریکہ اور سعودی عرب پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ ممالک کوآپس میں  لڑوا کر اور دہشت گرد گروپوں کے ساتھ الجھا کر اپنا تسلط قائم رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل نواز داعشیوں کی شکست نے  امریکہ و سعودی عرب کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ظاہر ہے اگر شام میں داعش کا مکمل صفایا ہوجاتا ہے تو امریکی و سعودی پالیسیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ چنانچہ امریکہ و سعودی عرب کے لئے اب داعش کو بچانا اور محفوظ بنانا ضروری ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی طرح داعش پر بھی شکست کی مہر ثبت ہو چکی ہے لہذا اب داعش کی جگہ دہشت گردوں کا کوئی نیا نام رکھ کر  پرانے دہشت گرد ٹولوں کو  نئے سرے سے منظم کیا جانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اور ہندوستان کی ایما پر نئے دہشت گردوں کو افغانستان کے شمال میں منظم کیا جا رہا ہے۔چونکہ اسرائیل اور ہندوستان کو دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے۔

چنانچہ وہی لوگ جو اسلام آباد کی لال مسجد میں جمع ہو کر پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے تھے اب انہیں افغانستان کے شمال میں جمع کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے سعودی عرب نے پہلی فرصت میں  80 ملین ڈالرز کی رقم فراہم کی ہے۔

ہندوستان اور اسرائیل کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ عنقریب افغانستان سے نئے نام اور نئی توانائی کے ساتھ دہشت گرد گروپ پاکستان پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ان نئے دہشت گردوں کے فعال ہونے سے سعودی عرب اور امریکہ کو بھی  یہ فائدہ ہوگا کہ افغانستان سے ایران کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا اور روس اور چین کو بھی نکیل ڈالی جا سکے گی۔

ایسے میں ہماری ساری توجہ انتخابات پر مرکوز ہے جبکہ ہمارے ہمسائے میں پاکستان کے لئے  نئی منصوبہ بندی کے ساتھ نئے دشمن  ٹولےتراشے جا رہے ہیں،  یعنی اگلے چند ماہ میں عراق اور شام کے بعد دہشت گرد ٹولے پاکستان کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنائیں گے۔

افغانستان کو مزید جنگوں میں جھونکنے کے لئے جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے اور اس کی پسماندگی میں طالبان اور القائدہ و داعش کی مدد سےمزید اضافہ کیا جا رہاہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف اور یو ایس ایڈ کی طرف سے جاری شدہ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق افغانستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں  2002 کے بعد پہلی مرتبہ  تیزی  سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سات سے 17 سال عمر کے 37 لاکھ یعنی تقریباً 44 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔وزیرِ تعلیم میر واعظ بالغی نے بتایا کہ سکول نہ جانے والے 37 لاکھ میں سے 27 لاکھ لڑکیاں ہیں۔

اس وقت ایک طرف تو ہم سی پیک کے خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ناخواندہ اور پسماندہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف  بھرپور طریقے سے منظم کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ادارے آنکھیں بند کر کے انتخابات ، انتخابات کی رٹ لگانے کے بجائے بدلتے ہوئے حالات اور شمالی افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی گہری نگاہ رکھیں۔اگر انسان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار ہو تو وہ بڑی سے بڑی مشکل کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔اگر ہم اپنے دشمنوں کی پلاننگ سے پہلے ہی باخبر ہونگے تو وقت آنے پر گھبرانے کے بجائے انہیں بہترین جواب دے پائیں گے۔

پاکستان کے خلاف امریکہ، سعودی عرب، افغانستان ، اسرائیل اور ہندوستان کیا نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، اس کو جاننے کے لئے بین الاقوامی میڈیا سے مربوط رہیے خصوصاً اس لنک پر بھی بہت کچھ پڑھنے کو مل سکتا ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  الیکشن پر بحث جاری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، نگران وزیر اعظم جسٹس ناصرالملک سمیت الیکشن کمیشن کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن 25جولائی ہی کو ہوں گے۔ میں نے 25جولائی کو الیکشن نہ ہوسکنے کی وجوہات پچھلے کالم میں بیان کردی تھیں، اب دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ تازہ باتیں ہیں، پہلے ان تازہ باتوں کا تذکرہ ہو جائے۔ سوائے سندھ کے ابھی تک باقی صوبوں میں نگرانوں کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اس سے ہمارے سیاستدانوں کی فیصلہ سازی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ قانون ہی عجیب بنایا گیا تھا کہ صرف دو شخصیات یعنی لیڈرآف دی ہائوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن بیٹھ کر کسی نگران کا فیصلہ کردیں اسی لئے تو پچھلے سالوں میں مک مکا کی حکومتیں رہیں، اسی لئے تو بھرپور اپوزیشن نہ ہو سکی، اسی لئے تو ملک قرضوں تلے چلا گیا، اسی لئے تو عمدہ حکمرانی نہ ہوسکی۔ دو روز پہلے آپ نے منظر نہیں دیکھا کہ جو شہباز شریف اپنے کارنامے گنواتے نہیں تھکتا تھا، اسے سپریم کورٹ میں خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے چیف جسٹس کے سامنے کرپشن کی داستانوں کی کہانیوں میں چھپے کرداروں کی وارداتیں تک یاد نہ رہیں۔ اسے افسران کے نام بھی بھول گئے۔ چیف جسٹس صاحب کو کہنا پڑا..... ’’کہاں گئے آپ کے کارنامے، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔‘‘ بہت افسوس ہوا کہ جو وزیر اعلیٰ نیب کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتا رہا، خود اس کی اپنی پوری حکومت کرپشن کی داستانوں سے لبریز رہی۔ اسے یہ تک پتا نہیں کہ اس کی حکومت میں افسران کو بھاری تنخواہوں پر کیوں رکھا گیا؟ نہ وہ مجاہد شیردل کی خوبی بتا سکے اور نہ ہی کیپٹن عثمان کا کوئی وصف گنوا سکے۔ برہمی ہوئی، قطار اندر قطار برہمی، ایسا طرز حکومت سوائے ندامت کے کچھ نہیں۔

مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں میں فیصلہ سازی کی قوت نہیں۔ نگرانوں ہی کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ آج کل دو ہی لوگوںکا رش نظر آرہا ہے یا ٹکٹوں کے حصول کے لئے سیاسی پارٹیوں کے لوگ کوششیں کر رہے ہیں یا پھر ریٹائرڈ جج اوربیوروکریٹس نگرانوں میں جگہ بنانے کے لئے لابنگ کر رہے ہیں۔ ہر پانچ سال کے بعد ریٹائرڈ ججوں اوربیوروکریٹس کے لئے بہار کے یہ چنددن آتے ہیں کہ وہ وزیر، وزیراعلیٰ یا پھر وزیر اعظم بننے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ایک طویل عرصے سے پاکستانی سیاست میں انتخابات، الیکشن سے پہلے اور بعد میں نگرانوں کی حالت، الیکشن کمیشن کے دعوے اور پھر دھاندلی کے مناظر الیکشن ٹربیونلز، ان کے فیصلے اور ان فیصلوں کے لٹکتے ہوئے مناظر، نتائج پر دھاندلی کا شور، پولنگ ڈے پر مارکٹائی اور پھر پولنگ ڈے کی شام، شام میں ابتدائی نتائج اور پھر رات ساڑھے دس گیارہ بجے کسی کا اکثریت مانگنا، یہ سب کچھ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔اس دکھ کے مداوے کے لئے ظاہر ہے ہمیں اپنی حکومتوں ہی کی طرف دیکھنا پڑتاہے۔ ہمارے ہاں حکومت سازی پرکبھی عمدہ انداز میں توجہ ہی نہیں دی گئی، حالت تو یہ ہے کہ ہم اپنا انتخابی نظام بھی ابھی تک درست نہیں کرسکے۔ ابھی تک اس میں دھونس، دھاندلی کا راج ہے۔ ابھی تک انتخابی شفافیت قائم کرنے میں ناکامی ہماری ہے کسی اور کی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا انتخابی نظام چوروں اورلٹیروں سے جان نہیں چھڑوا سکا اور اب تو انہوںنے نامزدگی کے فارم ہی کو ’’برقع‘‘ پہنوا دیا ہے تاکہ کسی کوکچھ پتا ہی نہ چل سکے کہ برقعے کے اندر دہشت گرد ہے یا کوئی عورت ہے؟

آج کل سخت گرمی کے دنوں میں رمضان المبارک کے باوجود اگلےاقتدار کے حصول کے لئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی اکثریت دن رات مصروف ہے۔ سب کو الیکشن جیتنے کی فکر ہے مگر ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جسے سب سے زیادہ پاکستان کی فکر ہے۔ یہ حالیہ دنوں کی ایک رات کا قصہ ہے۔ دس بارہ لوگوں کی محفل تھی۔ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس پاکستان کی اہمیت بتارہے تھے۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ میرے لئے حیرت تھی بلکہ سب کے لئے حیرت تھی کہ جس شخص کوہم صرف ایک مذہبی جماعت کا سربراہ سمجھتے تھے، وہ تو ایک دانشور سیاستدان ہے۔ اسے صرف مذہب کا علم نہیں اسے تو عالمی حالات کی بہت خبرہے۔ وہ تو دنیا بھر کی جنگی اور معاشی حکمت ِ عملیوں سے آگاہ ہے۔ اسے سازشوں کی خبر بھی ہے اورحالات سدھارنے کا ادراک بھی۔رات سحری کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ شخص بول رہا تھا جس کے والدسانحہ ٔ مشرقی پاکستان کی خبر سن کر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس پیارے وطن کے نقصان کا سننا ہی موت کا سبب بنا۔ جس کا والد پاکستان کی محبت میں چلا گیا تھا اور وہ خود ایک چھوٹا سا یتیم بچہ رہ گیا تھا۔ رات کے آخری پہر میں وہی یتیم بچہ اور آج کامعتبرسیاستدان علامہ راجہ ناصر عباس حب الوطنی سے بھرپور گفتگو کر رہا تھا۔

 ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ایسے ادارے ہی نہیں بنے جو حکومت سازی میں رہنمائی کرسکیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی یہ سوچ نہیں بلکہ وہ تو ایسے افراد کو وزیر خارجہ لگا دیتی ہیں جنہیں خارجہ امور کا پتا نہیں ہوتا۔ زراعت کے وزیرکو یہ خبر نہیں ہوتی کہ دنیامیں زرعی ترقی کی اصلاحات کون سی ہیں۔ صحت والا وزیر اپنے محکمے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ معیشت والوں کا حال سامنے ہے کہ انہوں نے ملک کو قرضوں تلے دے ڈالا۔ ہم نے نیشن بلڈنگ کے ادارے ہی نہیں بنائے، نہ ہمارے ہاں حکومت سازی کے ادارے ہیں اور نہ ہی ہمارے ہاں ملت سازی کے ادارے۔ ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی کےلئے کچھ بھی نہیں۔ ہم بطور قوم آگے نہیںبڑھ رہے بلکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں۔ کہیں صوبائی تعصب کے نام پر تو کہیں لسانی بنیادوں پر، ہماری یہ تقسیم دشمن کی چال ہے۔ ہم کہیں ذاتوں اور قبیلوں میں تو کہیں فرقوں میں تقسیم ہیں حالانکہ یہ ہمارے چھوٹے چھوٹے سے اختلافات ہیں، انہیں مدھم کیاجاسکتاہے۔ قوم اور ملک کی محبت اس سے اوپر کی چیزیں ہیں لیکن ہم ملک و قوم کا سوچتے ہی نہیں۔ مجھے اس دن بہت افسوس ہوا جب تین دفعہ کے وزیراعظم نے اپنی ہی فوج پر تنقید شروع کی۔یہی دشمن کی چال ہے۔ہمیں اس وقت ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم کو اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہمیں پاکستانی بن کر ہی بڑا کردار اداکرنا چاہئے۔علامہ راجہ ناصر عباس کی باتیں درست ہیں مگر ہم سوچتے کہا ں ہیں؟ منیرنیازی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا، کسی اور شہر میں جا بسا


تحریر۔۔۔۔مظہربرلاس،بشکریہ روزنامہ جنگ

وحدت نیوز (آرٹیکل)  حضرت خدیجہ (س)کا شمارتاریخ انسانیت کی ان عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانیت کی بقاء اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئےاپنی زندگی قربان کر دی تاریخ بشریت گواہ ہے کہ جب سے اس زمین پر آثار حیات مرتب ہونا شروع ہوئے اور وجود اپنی حیات کے مراحل سے گزر تا ہوا انسان کی صورت میں ظہور پذیر ہوا اور ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اولین نمونہ انسانیت اور خلافت الہیہ کے عہدہ دار بن کر روئے زمین پر وارد ہوئے اور پھر آپ کے بعد سے ہر مصلح بشریت جس نے انسانیت کے عروج اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اس کو اس کے خالق حقیقی سے متعارف کرانے کی کوشش کی، کسی نہ کسی صورت میں اپنے دور کے خود پرست افراد کی سر کشی اور انانیت کا سامنا کرتے ہوئے مصائب و آلام سے دوچار ہوتا رہا دوسری طرف تاریخ کے صفحات پر ان مصلحین بشریت کے کچھ ہمدردوں اور جانثاروں کے نام بھی نظر آتے ہیں جو ہر قدم پر انسانیت کے سینہ سپر ہوگئے اور در حقیقت ان سرکش افراد کے مقابلے میں ان ہمدرد اور مخلص افراد کی جانفشانیوں ہی کے نتیجے میں آج بشریت کا وجود برقرار ہے ورنہ ایک مصلح قوم یا ایک نبی یا ایک رسول کس طرح اتنی بڑی جمعیت کا مقابلہ کر سکتا تھا جو ہر آن اس کے در پئے آزارہو یہی مٹھی بھر دوست اور فداکار تھے جن کے وجود سے مصلحین کے حوصلے پست نہیں ہونے پاتے تھے مرور ایام کے ساتھ پرچم اسلام آدم (ع) و نوح (ع) و عیسیٰ و ابراہیم علیہم السلام کے ہاتھوں سربلندی وعروج حاصل کرتا ہوا ہمارے رسول کے دست مبارک تک پہونچا اور عرب کے ریگزار میں آفتاب رسالت نے طلوع ہو کر ہر ذرہ کو رشک قمر بنا دیا،ہر طرف توحید کے شادیانے بجنے لگے از زمین تا آسمان لا الہٰ الا الله کی صدائیں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگیں، محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محیط ہوگیا اور تبلیغ الٰہی کا آخری ذریعہ اور ہدایت بشری کے لئے آخری رسول رحمت بنکر عرب کے خشک صحرا پر چھاتا ہوا سارے عالم پر محیط ہو گیا دوسری طرف باطل کا پرچم شیطان و نمرود ، فرعون و شداد کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ابولہب ، ابو جہل اور ابوسفیان کے ناپاک ہاتھوں بلند ہونے کی ناپاک کاوشوں میں مصروف ہوگیا۔ـ رسول پاک ﷺکے کلمہ توحید کے جواب میں ایذا رسانی شروع ہوگئی اور حق و باطل کی طرح برسر پیکار ہوگئے ایسے عالم میں کہ ایک طرف مکہ کے خاص و عام تھے اور دوسری طرف بظاہر ایک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ہو چکے تھے ـ لیکن پیغام الٰہی کی عظمت، مصائب کی کثرت پر غالب تھی اور ہر اذیت کے جواب میں رسول اللهﷺ کا جوش تبلیغ اور زیادہ ہوتا جاتا تھا ـ ایسے کسمپر سی کے عالم میں جہاں ایک طرف آپ کے چچا ابوطالب ؑنے آپ کی ہر ممکنہ مدد کی وہیں دوسری طرف آپ کی پاک دامن زوجہ حضرت خدیجہ (س)نے آپﷺ کی دلجوئی اور مدارات کے ذریعہ آپﷺ کو کفار مکہ سے پہچنے والی تمام تکالیف کو یکسرہ فراموش کرنے پر مجبور کر دیا ـ حضرت خدیجہ(س) نے آپﷺ کی زبان سے خبر بعثت سنتے ہی اٰمنا وصدقنا کہہ کر آپﷺ کی رسالت کی پہلے ہی مرحلے میں تائید کردی جناب خدیجہ کا یہ اقدام رسول اکرم ﷺکے لئے بہت حوصلہ افزاء ثابت ہوا ۔ـ آپ(س) کی اسی تائید و تعاون کو رسول اکرم ﷺآپ(س) کی وفات کے بعد بھی یاد فرماتے رہتے تھے اور اکثر و بیشتر آپﷺ کی زبان اقدس پر حضرت خدیجہ (س)کا تذکرہ رہتا تھا (1) حضور کی ایک زوجہ نے جب آپ ﷺکے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ خدیجہ(س) ایک ضعیفہ کے سوا کچھ نہیں تھی اور خدا نے آپ کو اس سے بہتر عطا کر دی ہے ( اس حضور ﷺکی بیوی کا اشارہ اپنی طرف تھا ) تو حضورﷺ ناراض ہو گئے (2 ) اور غضب کے عالم میں فرمایا کہ خدا کی قسم خدا نے مجھ کو اس سے بہتر عطا نہیں کی وللٰہ لقد اٰمنت بی اذکفر الناس واٰوتینی اذرفضنی الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس (3) خدا کی قسم وہ (خدیجہ ) اس وقت مجھ پر ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہو ئے تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کردیا تھا اور اس نے میری اس وقت تصدیق و تائید کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے۔

 خاندان و نام ونسب :
شجر اسلام کی ابتدائی مراحل میں آبیاری کرنے والی اور وسطی مراحل میں اس کی شاخوں کو نمو بخشنے والی یہ خاتون قریش کے اصیل و شریف گھرانے میں پید ا ہوئی روایات میں آپ(س) کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ذکر ہوئی اور بعض لوگوں نے اس سے کم بیان کیا ہے ـ آپ کے والد خویلد ابن اسد بن عبد العزی بن قصی کا شمار عرب کے دانشمندوں میں ہوتا تھا اور آپ(س) کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ہیں (4) آپ(س) کا خاندان ایسے روحانی اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کی محافظت کے عہد یدارتھے ـ جس وقت بادشاہ یمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے یمن منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت خدیجہ (س)کے والدکی ذات تھی جنہوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جس کے نتیجہ میں مجبور ہوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ہو نا پڑا ـ(5) حضرت خدیجہ(س) کے جد اسد بن عبد العزی پیمان حلف الفضول کے ایک سرگرم رکن تھے یہ پیمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درمیان ہو ا تھا جس میں متفقہ طور پر یہ عہد کیا گیا تھا کہ مظلومین کی طرف سے دفاع کیا جائے گا اور خود رسول اکرمﷺ بھی اس پیمان میں شریک تھے (6) ”ورقہ بن نوفل “ (حضرت خدیجہ(س) کے چچا زاد بھائی )عرب کے دانشمند ترین افراد میں سے تھے اور ان کا شمار ایسے افراد میں ہوتا تھا جو بت پرستی کو نا پسند کرتے تھے (7) اور حضرت خدیجہ(س) کو چندین بار اپنے مطالعہ کتب عہدین کی بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمدﷺ اس امت کے نبی ہیں ـ(8) خلاصہ یہ کہ اس عظیم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ، دانشمند اور دین ابراہیم کے پیروتھے ـ۔

 تجارت:
تجارت ایسے با عظمت افراد کی آغوش عاطفت کی پروردہ خاتون کی طبیعت میں اپنے آبا و اجداد کی طرح رفق ودانشمندی کی آمیزش تھی جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کی تجارت کو بطریقہ احسن سنبھال لیا اور اپنے متفکر اور زیرک ذہن کی بنا پر اپنے سرمایہ کو روز افزوں کرنا شروع کردیا ـ آپ کی تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنار تک پھیلی ہوئی تھی روایت کی گئی ہے کہ ”ہزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مین تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جیسے ممالک کے اطراف میں مصروف تجارت تھے“ (9) جن کے ذریعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لی تھی ـ آپ کی تجارت ایسے افراد پر موقوف تھی جو بیرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکیں چنانچہ حضرت ختمی مرتبت ﷺکی ایمانداری ، شرافت ، او ردیانت کے زیر اثر حضرت خدیجہ (س)نے آپﷺ کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا اور باہم قرار داد ہوئی اس تجارت میں ہو نے والے نفع اور ضرر میں دونوں برابر شریک ہوں گے ـ(10) اور بعض مورخین کے مطابق حضرت خدیجہ (س)نے آپﷺ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کیا تھا ـ (11)لیکن اس کے مقابل دوسری روایت ہے جس کے مطابق رسول اللهﷺ اپنی حیات میں کسی کے اجیر نہیں ہوئے ـ (12) بہر کیف حضرت کاروان تجارت کے ہمراہ روانہ شام ہوئے حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھا ـ(13) بین راہ آپ سے کرامات سرزد ہوئیں اور راہب نے آپ ﷺمیں علائم نبوت کا مشاہدہ کیا اور ”میسرہ“کوآپ کے نبی ہونے کی خبر دی ـ (14)تمام تاجروں کو اس سفر میں ہر مرتبہ سے زیادہ نفع ہوا جب یہ قافلہ مکہ واپس ہوا تو سب سے زیادہ نفع حاصل کرنے والی شخصیت خود پیام اکرم کی تھی جس نے خدیجہ کو خوش حال کردیا اس کے علاوہ میسرہ (غلام خدیجہ ) نے راستے میں پیش آنے والے واقعات بیان کئے جس سے حضرت خدیجہ(س) آن حضرتﷺ کی عظمت و شرافت سے متاثر ہوگئیں ۔

 ازدواج :
حضرت خدیجہ(س) کی زندگی میں برجستہ و درخشندہ ترین پہلو آپ کی حضرت رسالت مآبﷺ کے ساتھ ازدواج کی داستان ہے ـ جیسا کہ سابقہ ذکر ہوا کہ ” حضرت خدیجہ(س) کی تجارت عرب کے ا طراف و اکناف میں پھیلی ہوئی تھی اور آپ کی دولت کا شہرہ تھا چنانچہ اس بنا پر قریش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد چندین بار پیغام ازدواج پیش کر چکے تھے ، لیکن جن کو زمانہ جاہلیت میں ”طاہرہ“ کہا جاتا تھا (15) اپنی پاکدامنی اور عفت کی بنا پر سب کو جواب دے چکی تھیں ـ حضرت جعفر مرتضیٰ عاملی تحریر فرماتے ہیں ”ولقد کانت خدیجہ علیہا السلام من خیرة النساء القریش شرفا واکثر ہن مالا واحسنہن جمالا ویقال لہا سیدةالقریش وکل قومہا کان حریصا ًعلی الاقتران بہا لو یقدر علیہا (16)الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج2/ص107) ”حضرت خدیجہ(س) قریش کی عورتوں میں شرف و فضیلت ، دولت و ثروت اور حسن و جمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالاتھیں اور آپ(س) کو سیدہ قریش کہا جاتا تھا اور آپ کی قوم کا ہر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواہاں تھا“ حضرت خدیجہ(س) کو حبالئہ عقد میں لانے کے متمنی افراد میں ”عقبہ ابن ابی معیط “” صلت ابن ابی یعاب “”ابوجہل“اور ”ابو سفیان “جیسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اور با حیثیت لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا(17) لیکن حضرت خدیجہ(س) با وجود اپنی خاندانی اصالت ونجابت اور ذاتی مال و ثروت کی بناپر بے شمار ایسے افراد سے گھری ہوئی تھیں جو آپ سے ازدواج کے متمنی اور بڑے بڑے مہر دے کر اس رشتے کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے ہمہ وقت آمادہ تھے ہمیشہ ازدواج سے کنارہ کشی کرتی رہتی تھیں ـ کسی شریف اورصاحب کردار شخص کی تلاش میں آپ کا وجود صحراء حیات میں حیران وسرگرداں تھا ایسے عالم میں جب عرب اقوام میں شرافت و دیانت کاخاتمہ ہو چکا تھا، خرافات و انحرافات لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر کے عقیدہ و مذہب کی شکل اختیار کر چکے تھے خود باعظمت زندگی گذارنا اور اپنے لئے کسی اپنے ہی جیسے صاحب عز و شرف شوہر کا انتخاب کرناایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا ، ایسے ماحول میں جب صدق و صفا کا فقدان تھا آپ کی نگاہ انتخاب رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھہر گئی جن کی صداقت و دیانت کا شہرہ تھا، حضرت خدیجہ نے کم ظرف صاحبان دولت و اقتدار کے مقابلے میں اعلی ظرف ، مجسمہ شرافت و دیانت اورعظیم کردار کے حامل رسول کو جو بظاہر تنگ دست ، یتیم اور بے سہارا تھے ترجیح دے کر قیامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دیا کہ دولت و شہرت اور اقتدار کی شرافت ، عزت اور کردار کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہےـ المختصر برسر اقتدار افراد کو مایوس کرنے والی ”خدیجہ “ نے باکمال شوق و علاقہ ازطرف خود پیغام پیش کر دیا (18) اور مہربھی اپنے مال میں قرار دیا جس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمایا ”لوگوں گواہ رہنا“”خدیجہ “ نے خود کو محمدصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیا اور مہربھی اپنے مال میں قرار دیا ہے اس پر بعض لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام پر طنز کرتے ہوئے کہا یاعجباہ!ا لمہر علی النساء للرجل (تعجب ہے مرد عورت کے مال سے مہر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالبؑ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے غضب کے عالم میں فرمایا، ”اذاکانوا مثل ابن اخی ہذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمہر الفالی“ (19)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ہوگا توعورت اس کوبڑے بھاری مہر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمہاری طرح ہوا تواسکو خود گراںو بھاری مہر دیکر شادی کرناہوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ﷺنے اپنامہر (جو بیس بکرہ نقل ہواہے) خود ادا کیا تھا (20) اور ایک روایت کے مطابق آپ ﷺکے مہر کی ذمہ داری حضرت علی ؑنے قبول کر لی تھی ، حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ (س)سے آپ ﷺنے پہلی شادی 25/سال کی عمر میں کی لیکن خود حضرت خدیجہ (س)کی عمر کے بارے میں کثیر اختلاف وارد ہوا ہے چنانچہ 25،28،30اور 40 سال تک بہت کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں (21) لیکن معروف ترین قول یہ ہے کہ آپ کی عمر شادی کے وقت 40 سال تھیـں (22)

آیاحضرت خدیجہ (س) رسول اللہ ﷺسے قبل شادی شدہ تھیں ؟:
 اس مسئلہ میں کہ آیا رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آنے سے قبل حضرت خدیجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھی رشتہ مناکحت سے منسلک رہ چکی تھیںیا نہیں تاریخ کے مختلف اوراق پر متعدد راویوں کے اقوال میں کثیر اختلاف واقع ہوا ہے چنانچہ بعض راویوں کے نزدیک رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور سابقہ شوہروں سے آپ(س) کی اولاد یں بھی ہوئیں تھیں تاریخ کے مطابق آپ کے سابق شوہروں کے نام بالترتیب ”عتیق بن عایذبن عبد اللهفخروی “ اور ”ابوہالہ تمیمی“ ہیں (23) اس کے علاوہ خود آنحضرت ﷺکے بارے میں روایت وارد ہوئی ہے کہ ”عائشہ“ کے علاوہ آپﷺ نے کسی کنواری خاتون سے شادی نہیں کی تھی (24) لیکن یہ تمام روایات جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور رسول سے قبل بھی دوسرے کی شریک حیات رہ چکی تھیں ،دلائل اور دوسری روایات معتبرہ کی روشنی میں صحیح نظر نہیں آتیں ، بلکہ تمام تاریخ کو سیاست کے ہاتھوں مسخ کئے جانے کی ناکام کوششوں میں سے ایک کانتیجہ ہیں۔

حضرت خدیجہ(س) کا گھر تجزیہ وتحلیل:
 1) ابن شہر آشوب کا بیان ہے کہ ”مرتضیٰ شامی میں اور ابوجعفر تلخیص میں رقم طراز ہیں کہ ”ان النبی تزوج وکانت عذراء“ (25) نبی اکرمﷺ نے آپ سے شادی کی درحالیکہ آپ کنواری تھیں“ اس کے علاوہ اسی مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ہوئی ہے جو ثابت کرتی ہے”ان رقیہ و زینب کانتا ابتی ہالہ اخت خدیجہ (26)رقیہ اور زینب خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں(نہ کہ خدیجہ (س)کی)

2)ابوالقاسم کوفی کابیان ہے کہ ”خاص و عام اس بات پر متفق ہیں کہ تمام اشراف سر بر آوردہ افراد حضرت خدیجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے لیکن خدیجہ کے بلند معیار کے سامنے ان کی دولت کی فراوانی اور شان و شوکت ہیچ نظر آتی تھی یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ نے سب کے رشتوں کو ٹھکرا دیا تھا لیکن زمانے کی حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب اسی خدیجہ نے عرب کے صاحبان مال و زر اور فرزندان دولت و اقتدار کوٹھکرا کر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کر لیا جن کے پاس مال دنیا میں سے کچھ نہ تھا اسی لئے قریش کی عورتیں خدیجہ سے تحیر آمیز ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کر بیٹھیں کہ اے خدیجہ ! تو نے شرفا و امراء قریش کو جواب دے دیا اور کسی کوبھی خاطر میں نہ لائی لیکن یتیم ابوطالب ؑ کو جو تنگ دست و بے روزگار ہے انتخاب کرلیا اس روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت خدیجہ (س)نے مکہ کے صاحبان دولت و ثروت کو رد کر دیاتھا اور کسی سے بھی شادی کرنے پر آمادہ نہیں تھیں ، دوسری طرف اس روایت کی رو سے جوپہلے ذکر ہوئی آپ کے ایک شوہر کانام ”ابوہالہ تمیمی “ ہے جو بنی تمیم کا ایک اعرابی تھا، عقل انسانی اس بات پر متحیر ہوجاتی ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اشراف کے پیغام کوٹھکرا دے اور ایک اعرابی کو اپنے شریک حیات کے طور پر انتخاب کرلے ،علاوہ بر ایں اس سے بھی زیادہ تعجب کا مقام یہ ہے کہ خدیجہ کے اشراف کو نظر انداز کرکے رسول اکرم ﷺ کو (جو خاندانی اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے ) انتخاب کرنے پر تو قریش کی عورتیں انگشت نمائی کرتی نظر آئیں لیکن ایک اعرابی سے شادی کے خلاف عقل فعل پر، سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ج/2ص/123)اس دلیل کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ نے رسول سے قبل کوئی شادی نہیں کی تھی اور اگر کی ہوتی تو زمانے کے اعتراضات تاریخ میں محفوظ ہوتے۔

 3)بعض لوگوں نے حضرت خدیجہ (س)کے شادی شدہ ہونے پر ا س روایت سے استدلال کیاہے کہ”راہ اسلام کا اولین شہید حارث بن ابی ہالہ فرزند حضرت خدیجہ ہے (27) مذکورہ بالا روایت کے مقابلے میں دوسری روایات جن کی سند یں معتبر ہیں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پہلے شہید کی صورت میں پیش کرتے ہیں ”ان اول شہید فی الاسلام سمیہ والدہ عمار “ (28) (اسلام کی راہ میں پہلی شہید ہونے والی سمیہ والدہ عمار ہیں )اورابن عباس اورمجاہد کی روایت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتیلین قتلا من المسلمین“ (29) اسلام کی راہ میں شہید ہونے والے پہلے افراد ابوعمار اور ام عمار ہیں ـ ان روایات سے کاملاً رد ہوتی ہے کہ یہ شخص جس کو حضرت خدیجہ کے بیٹے کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر مرقوم کر دیا گیا ہے اسلام کی راہ میں قربان ہونے والا پہلا شہید تھا، لہٰذا معلوم نہیں ہے کہ اس شخص کا وجود خارجی تھابھی یا نہیں چہ جائیکہ حضرت خدیجہ کا فرزند ہونا پائے ثبوت کو پہنچے۔

 4)،روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ کی ایک بہن تھیں جنکانام ’ہالۂ تھا اس ہالہ کی شادی ایک فخروی شخص کے ساتھ ہوئی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کانام ”ہالہ“ تھا ،پھر اس ہالہ اولی (خواہرخدیجہ (ع))سے ایک بنی تمیم سے تعلق رکھنے والے شخص نے شادی کرلی جو ابوہند کے نام سے معروف ہےـ اس تمیمی سے ہالہ کے ایک بیٹاپیدا ہوا جس کانام ہند تھا اوراس شخص ابوہند تمیمی(شوہر خواہرخدیجہ ) کی ایک اور بیوی تھی جس کی دو بیٹیاںتھیں ’رقیہ ٔ اور ”زینب“ کچھ عرصے کے بعد ابو ہند کی پہلی بیوی جو رقیہ اورزینب کی ماں تھی فوت ہو گئی اور پھر کچھ ہی مدت کے بعد ”ابوہند “بھی دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس کابیٹا”ہند “ جوہالہ سے تھا اور دو بیٹیاں جو اس کی پہلی بیوی سے تھیں جن کا نام تاریخ ،رقیہ اور زینب ذکر کرتی ہے ”خدیجہ “کی بہن کے پاس باقی رہ گئے جن میں سے ہند اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی قوم بنی تمیم سے ملحق ہوگیا اور”ہالہ “(حضرت خدیجہ کی بہن )اور اس کے شوہر کی دونوں بیٹیاں حضرت خدیجہ کے زیر کفالت آگئے ،اور آنحضرتﷺ سے آپ کی شادی کے بعد بھی آپ ہی کے ساتھ رہیں اورآپ ہی کے گھر میں دیکھا گیا تھا اس لئے عرب خیال کرنے لگے کہ یہ خدیجہ ہی کی بیٹیاں ہیں اورپھر ان کو حضرت سے منسوب کر دیا گیا لیکن حقیقت امر یہ تھی کہ رقیہ اورزینب حضرت خدیجہ کی بہن ”ہالہ “کے شوہر کی بیٹیاں تھیں ـ (الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ج/2ص/126) مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پہنچی ہے کہ حضرت خدیجہ حضرت رسولﷺ کے حبالئہ عقد میں آنے سے قبل غیر شادی شدہ تھیں اور آپ کے شوہروں اورفرزندوں کے نام جو تاریخ میں نظر آتے ہیں یا تو کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں یا سیاست کے ہاتھوں عظمت رسولﷺ کو کم کرنے کی ایک ناکام کوشش ، مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی حلّی اور نقضی جوابات دئے گئے ہیں جو تاریخ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے والے ہیں لیکن یہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اور روایات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، آپ کی اولاد میں حضرت فاطمہ زہرا کے علاوہ کوئی فرزند زندہ نہیں رہا ۔

رسول اکرمﷺکی بعثت اورحضرت خدیجہ (س)کاایمان لانا :
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد عورتوں میں جس شخصیت نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائی وہ حضرت خدیجہ(س) کی ذات گرامی ہے (30) طبری نے واقدی سے روایت کی ہے کہ ”اجتمع اصحابنا علی ان اول اہل القبلة استجاب لرسول الله خدیجہ بنت خویلد (31) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ہے ) خود رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ”و الله لقد امنت بی اذ کفر الناس و اویتنی اذ رفضنی الناس و صدقتنی اذ کذبنی الناس (32)خداکی قسم وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کر دیا تھا اور اس نے ایسے موقع پر میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ـ لم یجمع بیت واحد یومئیذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ وا نا ثالثہا (33)وہ ایسا وقت تھاجب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور میں ان میںکی تیسری فرد تھا )ابن اثیر کابیان ہے :ـاول امراء ةتزوجہا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمین لم یتقد مہاوجل ولاامراء ة“ (34)حضرت خدیجہ پہلی خاتون ہیں جن سے آنحضرتﷺ نے رشتئہ ازدواج قائم کیااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آپ سے پہلے نہ کوئی مرد ایمان لایا اورنہ کسی عورت نے اسلام قبول کیا)

آنحضرت کی حضرت خدیجہ(ع) سے محبت وعقیدت :
حضرت خدیجہ کی آنحضرت کی نگاہ میں محبت و عقیدت اورقدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی میں آنحضرت نے کسی بھی خاتون کو اپنی شریک حیات بنانا گوارہ نہیں کیا (35) آپ کے بارے میں حضرت کاارشاد ہے کہ ”خدیجہ اس امت کی بہترین عورتوں میں سے ایک ہے (36)آپ کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ آپ کو یاد فرماتے رہے (37) عائشہ کا بیان ہے کہ مجھے رسولﷺ کی کسی زوجہ سے اتنا حسد نہیں ہوا جتنا خدیجہ (س)سے ہوا حالانکہ خدیجہ کی وفات مجھ سے قبل ہو چکی تھی اور اس حسد کا سبب یہ تھا کہ آنحضرت آپ کا تذکرہ بہت زیادہ فرماتے تھے (38) چنانچہ یہی سبب ہے کہ دوسر ی جگہ عائشہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ ”ایک روز رسول اکرم ﷺ خدیجہ کی تعریف فرما رہے تھے مجھے حسد پیدا ہوا اور میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپﷺ کو اس سے بہتر عطا کردی ہے (عائشہ کااشارہ اپنی طرف تھا) رسول پاک ﷺ یہ سن کر ناراض ہو ئے(39) اورغضب کے عالم میں فرمایا ”لاوالله ماابد لنی اللہ خیر امنہااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی بہالہااذحرمنی الناس ورزقنی منہاالله ولدادون غیرہامن النساء“(40)خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بہتر عطانہیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئےتھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیارسول اکرم ﷺ کے اس جواب سے آنحضرتﷺ کی حضرت خدیجہ کیلئے محبت اورعقیدت واحترام کااندازہ ہوتاہے ـخدیجہ کااسلام کیلئے اپنااورسب کچھ قربان کرکے بھی اسلام کی نشرواشاعت کاجذبہ ہی تھاجس نے اسلام کودنیاکے گوشہ وکنار تک پہنچنے کے مواقع فراہم کئے اوریہی سبب تھاکہ ”حضرت رسول خداﷺنے آپ کوخداکے حکم سے جنت کی بشارت دیدی تھی “عائشہ سے مسلم نے روایت نقل کی ہے کہ ”بشر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم بنت خویلد ببیت فی الجنۃ“(حضرت رسول اکرم ﷺ نے خدیجہ سلام الله علیہاکو جنت کی بشارت دی تھی ) (41) حضرت خدیجہ اور ابوطالبؑ رسول اللہﷺ کے دو ایسے مدافع تھے جن کی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا لیکن رسول کے یہ دونوں جانثار ایک ہی سال بہت مختصر وقفہ سے یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو گئے اور روایات کے مطابق رسول پر دونوں مصیبتیں ہجرت سے تین سال قبل اور شعب ابی طالب سے باہر آنے کے کچھ روز بعد واقع ہوئیں (42)رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(43) اور یہ مصیبت رسول ﷺکے لئے اتنی سخت تھی کہ رسولﷺ خانہ نشین ہو گئے اور آپ ﷺنے حضرت خدیجہ(س) اور ابوطالبؑ کی وفات کے بعد باہر نکلنا بہت کم کردیا تھا(44)ایک روز کسی کافر نے آپ ﷺکے سر پر خاک ڈال دی رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھر میں داخل ہوئے آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے ”مانالت منی قریش شیا اکرہہ حتی مات ابوطالب“(45) قریش ابوطالبؑ کی زندگی میں مجھکوکوئی گزند نہیں پہنچا سکے) آپﷺ حضرت ابوطالبؑ اورخدیجہ(س) کی زندگی میں اطمینان سے تبلیغ میں مصروف رہتے تھے ـ خدیجہ گھر کی چہار دیواری میں اور ابوطالب مکہ کی گلیوں میں آپ کے مدافع تھے ۔ حضرت خدیجہ جب تک زندہ رہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں دن بھرکی تبلیغ کے بعد تتھ کر چور اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوجانے والا رسول جب بجھے ہوئے دل اور پژمردہ چہرے کے ساتھ گھر میں قدم رکھتا تو خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول کے مرجھائے ہوئے چہرے کوپھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی ، خدیجہ(س) کی محبتوں کے زیر سایہ کشتی اسلام کا ناخدا عالمین کے لئے رحمت بن کر دنیا کی ایذا رسانیوں کوبھلاکر ایک نئے جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ ڈوبتے ہوئے ستاروں کا الوداعی سلام اورمشرق سے سر ابہارتے ہوئے سورج سے خراج لیتا ہوا ایک بار پھر خانہ عصمت وطہارت سے باہر آتا اور باطل کو لرزہ بر اندام کرنے والی لاالہ الاالله کی بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے در و دیوار ہل کر رہ جاتے کفارجمع ہوتے رسول پر اذیتوں کی یلغار کر دیتے لیکن انسانیت کی نجات اور انسانوں کی اصلاح کا خواب دل میں سجائے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خوشاآیند مستقبل کے تصور میں ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رہے اورآپ کے اسی صبر و تحمل اورآپ کی پاکدامن زوجہ کے تعاون اور جانثاری سے آج ہم مسلمانان جہان پرچم توحید کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آپ کے اس آخری جانشین کے انتظار میں سرگرداں ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کردے گا۔

منابع و مآخذ
صحیح مسلم /44/76/2435، ترمذی کتاب مناقب حدیث /3901، کنز العمال ح/ 13/ص/693 2ـ اسد الغابہ ج/5 ص / 438 ، مسلم فضائل صحابہ / 3437 ، البدایہ و النہایہ ج/ 3 ص / 158 3ـ بحار ج/ 16 ص/ 12 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 439 4ـ طبقات ابن سعد ج/ 1 ص /88 5ـسیرة ہشام ج/ 4 ص / 281 ، الاصابہ ج / 4 ص / 281،طبری ج / 3 ص / 33 6ـالبدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 262 7ـ سیرة حلیہ ج / 1 ص / 131 ، طبقات ابن سعد ج/ 1 ص / 86 ، حیات النبی و سیرتہ ج / 1 ص / 60 8ـ سیرة ہشام ج/ 1 ص / 259 9ـ البدایہ و النہایہ ج/ 2 ص / 362 ، سیرة ہشام ج / 1 ص / 338 10ـ بحار ج / 16 ص / 22 11ـ البدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 258 12ـ البدء و التاریخ ج / 2 ص / 47 13ـ تاریخ یعقوبی ج / 1 ص / 376 14ـ بدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 358 ، طبری ج / 2 ص / 204 15ـ الکامل فی التاریخ ج/ 1 ص / 472 ، دلائل النبوة ج / 2 ص / 66 16ـ سیرة حلبیہ ج / 1 ص / 135 ، البدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 358 ، الکامل فی التاریخ ج / 1 ص / 472 17ـ السیرة النبویہ (دحلان ) ج / 1 ص/ 92 18ـبدایہ والنہایہ ج/ 2 ص / 358، بحار الانوار ج/ 16 ص / 22 19ـبحار الانوار ج/ 16 ص / 22 20ـ سیرة حلبیہ ج / 1 ص /140 ، طبری ج/ 2 ص / 205 21ـ الصحیح من سیرة النبی ج / 2 ص / 112 ـ113 ، بحار الانوار ج / 16 ص / 14 22ـسیرہ ہشام ج / 1 ص 227 23ـالبدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 360 ، البدء و التاریخ ج/ 2 ص / 48 24ـسیرہ حلبیہ ج / 1 ص /140، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ 2 ص / 115 25ـفروغ ابدیت ج/ 1 ص / 198 26ـ سیرہ حلبیہ ج / 1 ص/ 140 27ـ طبری ج / 3 ص / 36 28ـمناقب آل ابیطالب ج / 1 ص / 206 ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج / 2 ص / 122 29ـمناقب آل ابیطالب ج / 1 ص / 26 30ـ الاصابہ ج / 1 ص / 293 31ـ الاصابہ ج / 4ص /335 ، اسد الغابہ ج / 5 ص / 481 ، حیاة النبی ج /1 ص / 121 32ـ الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ 2 ص 125 33ـ الانساب الاشراف ج / 2 ص / 23 ، الاصابہ ج / 8 ص /99 ، سیرة ہشام ج / 1 ص / 277، طبری ج/ 2 ص / 232 ـ 221 34ـ تاریخ طبری ج / 2 ص / 232 35ـبحار الانوار ج / 16 ص / 12 ، اسد الگابہ ج / 2 ص / 439 36ـ نہج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ ) 37ـ اسد الغابہ ج / 5 ص / 434 38ـ البدء و التاریخ ج / 2 ص / 48 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 360 39ـ الاصابہ ج / 8 ص /101 ، اسد الغابہ ج/5 ص /431 ، سنن ترمذی کتاب مناقب/ 3886۔

ترتیب وتدوین : ظہیرالحسن کربلائی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree