وحدت نیوز(آرٹیکل) یمن مشرق وسطی کا ترقی پذیر اور غریب ترین ملک ہے جس کا کل رقبہ پانچ لاکھ ستائیس ہزار نو سو ستر مربع کلومیٹر ہے۔جس کے شمال میں سعودی عرب مغرب میں بحرہ احمر جنوب میں خلیج عدن اور مشرق میں بحرہ عرب اور عمان واقع ہیں یمن تقریبا دو ہزار کلومیڑ ساحل سمندر بھی رکھتا ہے یمن کی ا?بادی 2016کی شماری کے مطابق تقریبا دو کروڑ پچھتر لاکھ چوراسی ہزار کے لگ بھگ تھی بنیادی طور پر یمن ایک زرعی ملک ہییمن پر 275قبل مسیح یہودی حکمران تھے چوتھی صدی مسیح میں یہاں عیسایت پہنچی اور ساتویں صدی میں میں اسلام کی تیزی سے ترویج ہوئی اور یمن اب ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ یمن کی جنگ کا محرک 2011قبل پیدا ہونے والا سیاسی بحران تھا جو کہ غربت بے روزگاری کرپشن کے خلاف عوامی احتجاجی مظاہروں سے شروع ہوا اور سن1978یعنی 34سال سے یمن پر حکمرانی کرنے والے صدر علی عبداللہ صالح کو عوامی احتجاج کے جواب میں مستعفی ہونا پڑا۔21فروری 2012 میں صدر عبداللہ منصور الہادی کو عبوری صدر کے طور پر اقتدار منتقل کیا گیا ۔
اقتدار کی اس منتقلی میں عوامی کسی قسم کی رائے شامل نہیں تھی اور عوام منصور کو بیرونی ممالک سے وابستگی رکھنے والے ایک فرد کے طور دیکھ رہے تھے۔ عبداللہ منصور الہادی نے دو سال میں الیکشن کروا کر اقدار منتقل کرنے کا وعدہ کیا مگر اس پر عملدا?مد نہیں کیا دوسال بعد بھی حکومت چلتی رہی اور اس نے استعفی بھی دیا مگر خود ہی واپس لے لیا جس نے یمن کی دو بڑی سیاسی قوتوں الاصلا ح اورانصاراللہ پارٹی کے درمیان سیاسی کشمکش کو مزید بڑھا دیا اور عوامی احتجاجات نے شدت اختیار کرلی 2014میں انصاراللہ نے دارالحکومت میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے اور دارالحکومت کی اہم عمارتوں پر قبضہ کرلیا اس میں سابق صد ر علی عبداللہ الصالح کی مدد بھی شامل تھی۔دارحکومت صنعا پر اپوزیشن جماعتوں کے قبضے کے بعد صدر منصور الہادی نے سعودی عرب میں پناہ لے لی۔ اور اپنی عبوری حکومت کی بحالی کے لئے سعودی عرب سے مدد مانگی وہ اس عوامی احتجاج کا سارا ملبہ حوثی قبائل پر ڈال رہا تھا جبکہ منصور ہادی کیخلاف احتجاج میں یمن کی اکثر چھوٹی بڑی پارٹیاں بشمول معزول صدر علی عبداللہ کی پارٹی بھی شامل تھی۔
سعودی عر ب صدر منصورالہادی کی بحالی چاہتاتھا اوراپوزیشن چاہتی تھی کہ الیکشن دوبارہ کروائے جائیں۔ اور نوبت جنگ وجدل کی جانب چلی گئی یوں عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عرب نے دیگر عرب ممالک کے ساتھ مل کر یمن پر چڑھائی کردی۔اسی دوران سابق صدر علی عبداللہ صالح تنازعات کا شکار ہوئے اور انہوں دسمبر 2017میں قتل کر دیا گیا۔اس قتل نے بھی ملکی سیاسی تنازعے میں اضافہ کیا ۔ سعودی عرب کا دعوی تھا کہ وہ جلد ہی منصورالہادی کی حکومت بحال کروا دے گا۔مگر تین سال سے زیادہ عرصہ مسلسل جنگ کے بعد صر ف اور صر ف یمن کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا۔مسلسل بمباری اور میزائل حملوں نے انفرسٹریکچر تباہ کر دیا جنگ کے نتیجے میں اب تک لا کھ لوگ لقمہ اجل بن گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ جنگ نے ملک کی معیشیت تباہ کر گی۔ ملک میں قحط کی صورت حال پیدا ہو گی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اگر جلد ہی اقوام عالم نے یمن کا مسئلہ حل کرنے کی سنجید ہ کوشش نا کی تو جنگ سے پیدا ہونی والی قحط سالی اور اس کے نتیجے میں انسانی ہلاکتوں ایک عظیم انسانی المیہ جنم دے گی جس کے بعد لوگ افریقہ کے ممالک کی قحط سالی کے سانحات کو بھول جائیں گے۔ سعودی عرب کو اب تک اس جنگ میں شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ ایک مثال ہی لے لیں حدیدہ کی بندرگا ہ پر سرتوڑ کوششوں کے باوجود 16جون سے جاری حملوں کے بعد بھی قبضہ نہیں کیا جا سکا ۔16جون کو حدیدہ بندرگاہ پر ہونے والے آپریشن میں امریکی ،برطانوی اور فرانسیسی نیوی ایئر فورس سمیت متحدہ عرب امارات کی فورسز بھی موجود تھیں ۔ایک غریب پڑوسی ملک میں سیاسی بحران کی پشت پناہی اور عوام پر مرضی مسلط کرنے کی ضد نے خود سعودی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اب تک اس جنگ میں سعودی عرب اربوں ڈالر جھونک چکا ہے۔مگر نتیجہ کچھ حاصل نا کر سکا۔ عالمی سطح پر سبکی الگ ملک کے اندر سے اٹھنے والے سوالات اور تشویش خود سعودی بادشاہت کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔جنگ سے ہاتھ ہٹاناسعودی بادشاہت کی انا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اور سعودی عرب یمن جنگ کے دلدل میں بری طرح پھنس چکاہے۔ جنگ کے اخراجات اور دنیا کو خاموش رکھنے کے لئے دی جانی والی بڑی رقوم نے ملکی معیشت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ۔ٹیکسوں میں اضافہ۔مہنگائی۔غیر ملکی مقیم ہنر مندوں اور مزدوروں کو اپنے ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اب خود حکومت سعودی عرب اس جنگ سے باعزت باہر نکلنے کا رستہ تلاش کر رہی ہے۔
حوثیوں کے ساتھ سعودی عرب کے اعلی سطح پر کئی مزاکرات کے دور بھی چلے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے عوامل خصوصا اثر انداز ہونے والے ممالک سے یمن صورتحال حال پر سعودی بیانیہ کو تقویت دینا بھی شامل ہے۔ الاصلاح اور انصاراللہ جو کہ منصور الہادی کے معاملے پر دست وگریبان ہو گئے تھے لیکن اب بیرونی حملے نے یمن بحران کے دو سیاسی کرداروں کو بھی متحد کر دیاہے اس وقت الاصلاح جماعت انصاراللہ سے تعاون کر رہی ہے ۔عوام میں انصاراللہ جماعت کی محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ تو تھے کچھ تاریخی اور موجودہ حقائق اب بات کرتے ہیں پاکستان کی، آیا ایسی کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان یمن جنگ کا حصہ دار بن گیا بلکہ یوں کہنا بجا ہو گا فریق بن گیا ہے۔ تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ پاکستانی سیاست کبھی بھی عالمی طاقتوں کی مداخلت اور اثر ورسوخ سے خالی نہیں رہی۔ اگر ہم عرب ریاستوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ اثر سعودی عرب کا رہا ہے جہاں ایک طرف سعودی عرب میں موجود مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات کی بدولت پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ سرزمین وحی کے لئے تقدس اور احترام کا جذبہ رہا وہیں پر علاقائی سیاسی صورت حال نے بارہا سعودی بادشاہت کو علاقے میں اہم رول ادا کرنے کا موقع دیا۔
نائن الیون کے بعد عالمی سطح پر سعودی عرب کا ایک نیا تعارف اور کردار سامنے آیا۔ پاکستان کے سیاسی و سماجی معاملات میں سعودی عرب کا ہمیشہ ایک نقش موجود رہا ہے۔ جب یمن جنگ کی ابتدا ء ہوئی تو کسی کو اندازہ نہیں تھاکہ مفلوک الحال ننگے پاوں لڑنے والے یمنی زیادہ دیر مزاحمت کر سکیں گئے۔مگر یہ جنگ شروع دن سے ہی خود سعودی عرب کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی چلی گئی۔ اس دوران سعودی عرب کی جانب سے ایک اکتالیس ملکی ملٹری الائینس کی تشکیل سامنے آئی جسے کو دہشت گردی کے خلاف آراستہ کرنے کا نعرہ لگایا گیا یاد رہے اس دوران شام و عراق میں داعش کا عفریت اپنے پنچے گاڑ چکا تھا۔مگر سنجیدہ طبقے نے اس الائنس کو علاقے کی ایک اور طاقت ایران کے خلاف اور یمن جنگ میں استعمال کرنے کا خدشہ پیش کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس ملٹری الائینس کے مقاصد دہشتگردی سے نمٹنا نہیں تھا بلکہ درپردہ مقاصد یمن جنگ میں فتح حاصل کرنا اور خطے میں اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔اسی ملٹری الائنس کی متنازہ کردار نے قطر کے ساتھ جوکہ سعودی عرب کا سب سے اہم اور بڑا اتحادی تھا اختلافات کو جنم دیا اور بات ایک دوسرے کے بائیکاٹ دھمکیوں اورپھر جو ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جو چلا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اس متنازہ اسلامی ملٹری الائینس کی سربراہی کے لئے پاکستانی ریٹائرڈ جنرل رحیل شریف کو پیشکش کی گئی جو کہ انہوں نے قبول کر لی جبکہ جنرل صاحب نے حکومت وقت سے اس حوالے سے کوئی اجازت نہیں لی۔سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں جنر ل راحیل شریف کی سعودی ملٹری الائینس کی سربراہی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔سعودی حکومت نے اس وقت کی حکمران جماعت سے ن لیگ سے یمن جنگ میں براہ راست شمولیت کے لئے درخواست کی جبکہ اس وقت بھی مختلف پروگرامات کے تحت پاکستانی ملٹری سعودی عرب میں موجود ہ تھی۔ حکومت ابھی اس حوالے سے کشمکش کاشکار تھی کہ آیا فورسز بھیجی جائیں کہ نہیں اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر حکومت کی مخالفت شروع کر دی جس میں تحریک انصاف پیش پیش تھی اس کے علاوہ ایک سیاسی مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین نے ملک کے کئی شہروں میں افواج پاکستان کی غیر ملک کی جنگ میں شمولیت کی مخالفت میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہر ے کئے۔
تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی نے اس وقت پارلیمنٹ ہاوس میں بیان دیا کہ ہم ہر صورت یمن جنگ میں پاکستانی افواج کی شمولیت کی مخالفت کرتے ہیں ہم پاکستان کو مذید کسی غیر کی جنگ کا فریق نہیں بننے دیں گے۔یمن پر حملہ کیا گیا ہے وہا ں موجود سیاسی بحران کو حل کرنے کے لئے غلط رستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ہم حکومت پاکستان کے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کریں گئے۔ جس کے بعد حکومت کو اس معاملے پر پسپائی اختیار کرنا پڑی اور سعودی حکومت نے ابھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ 2018کے الیکشن کے بعد اقتدار تحریک انصاف کے پاس آیا۔تبدیلی کے نعرے سے حکومت بنانے والی تحریک انصاف کو جب اقتدار ملا تو سابقہ حکومتوں کی رویات کے مطابق انہوں نے بھی چلانا شروع کردیا کہ خزانہ خالی کر دیا گیا ہے ملکی معیشت خطرے میں ہے۔لہذا قرض لینا ضروری ہو گیا ہے۔ لیکن حسب روایت تحریک انصاف نے آئی ایم ایف یا دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت اور اوپن شرائط پر قرض لینے کی بجائے۔اپنے دوست ممالک سے نرم اور خفیہ شرائط پر قرض لینے کی تگ ودوشروع کی پھر رویت کے برخلاف نئے وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ یا چین کی بجائے سعودی عرب کا دورہ کیا مگر قرض کی شرائط میں یمن جنگ پر تحریک انصاف کے سابقہ موقف کے برخلاف نکات شامل تھے لہذا فوری طور پر کوئی بات نہیں بن سکی مگر درپردہ بات چیت چلتی رہی اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نے یمن جنگ پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا۔اور کچھ ہی دنوں بعد پھر سعودی عرب میں منعقد ایک عالمی تجارتی کانفرنس میں شمولیت کے لئے وزیراعظم عمران خان سعودی عرب پہنچے اور چھ ارب ڈالر کا ایک پیکچ منظور کروائے میں کامیاب بھی ہو گئے یاد رہے کہ ترقی میں سعودی صحافی جمال خاشجقی کے قتل کے بعد دنیا کی بہت سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنزنے اس کانفرنس کا بائیکاٹ بھی کیا۔ اور یہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یمن میں قتل ہوتے ہوئے ہزاروں خاشجقی نظر نہیں آئے ، پاکستان کی وزارت خارجہ نے گزشتہ دونو ں ایک بیان میں پاکستان کی جانب سے یمن جنگ میں ثالثی کے کردار کی تائید اور اس پر پیشرفت کی نوید سنائی۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں یمنی سفیر جسے آج تک کبھی کسی سرکاری پروگرام میں مدعوبھی ناکیا گیا جوکہ منصورالہادی حکومت کانمائندہ ہے سے ملاقات کی اور اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ وہ منصور الہادی کی حکومت کی بحالی کے لئے کوشش کریں گئے۔ مگر یہ کیا ہو ایہ موقف تو شروع دن سے سعودی حکومت کا تھا کہ منصور الہادی کی حکومت بحال کی جائے جس کے لئے اس نے یمن پر ہزاروں ٹن بارود برسا دیا جبکہ یمنی عوام کا مطالبہ نئے آئین کی تشکیل اور نئے سرے سے انتخابات تھے اور اب بھی یہی مطالبہ ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کا موجودہ موقف اپنے گزشتہ موقف سے یکسر مختلف ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر منصورالہادی کی حکومت کی بحالی ہی تحریک انصاف کا موقف تھا تو ن لیگ دور حکومت میں یمن مسئلہ پر کیا صرف اپوزیشن کی گئی تھی؟ن لیگ بھی تو سعودی حکومت کے موقف یعنی منصورالہادی حکومت کی بحالی کی کوشش کرنا چاہتی تھی۔ ثالثی تو تب ہوتی جب حکومت کا موقف کوئی نیا حل نکالنے پر ہوتا مگر سعودی عرب کے موقف کو بیان کر کے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی جانب داری واضع کر دیا ہے۔
اس وقت عوامی مزاحمت کے نتیجے میں قائم ہونے والی انصاراللہ کی حکومت جس نے چار سال سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی بمباری کا مقابلہ کیا ہے اسی منصور الہادی کی حکومت بحالی کے سیاسی بحران نے جہاں ہزاروں یمنی جان سے گئے اور لاکھو ں زخمی ہوئے ہیں اور یمن قحط سالی کے حالات سے گزر رہا ہے وہ کیسے منصورالہادی کی حکومت کو بحال کروانے پر رضا مند ہو سکتے ہیں۔ لہذ اتحریک انصاف کی حکومت نے جو موجودہ موقف اپنایا ہے یہ مذید مسئلے کو بڑھا سکتا ہے حل نہیں کر سکتا۔ حکومت اگر چاہتی ہے کہ یمن کے مسئلہ پر کوئی سنجیدہ کردار ادا کرئے تو اسے تما م فریقین سے بات کرنا ہو گی ،لیکن ایسا دیکھائی نہیں دیتا ہے 6ارب ڈالر تھوڑی رقم نہیں ہوتی ہے ۔اور یمن مسئلہ پر ہی وزارت خارجہ نے عالمی سطح پر ایک اور سبکی بھی اٹھا ئی ہے گزشتہ دونو ں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں یمن پر جاری جنگ اور اس کی تحقیقات کے لئے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی جانب سے جاری تحقیقات کے دورانئے میں اضافے کے لئے ایک قرادراد پیش کی گئی جس کی مخالفت میں تحریک انصاف کی حکومت نے ووٹ دیا باوجود اس کے یہ قرادرا منظور ہو گئی یادر رہے کہ یہ وہی موقف ہے جو کہ پاکستان کا مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ہندوستانی مظالم پر عالمی انسانی حقوق کی تنظم کے زریعے تحقیقا ت کروانے سے متعلق ہے۔اور ہم کشمیر میں تو عالمی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں مگر یہی ادارہ اگر یمن جنگ پر تحقیقات کرنا چاہ رہا ہے تو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں ہیں پاکستان کے اس موقف سے مسئلہ کشمیر پرپاکستانی موقف کمزور اور متاثر ہوا ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب ملک یمن کے خلاف جنگ فوری طور پر روکی جائے اور وہاں فوری طورپر امدادی پیکچ فراہم کئے جائیں۔انفرسٹکچر کی بحالی کے لئے امداد کی جائے یمن جنگ کے تمام فریقین جب تک برابری کی سطح پر آکر بات چیت نہیں کریں گئے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اس مسئلے کا سب سے اہم فریق خود یمنی عوام ہے یمنی عوام کی رائے کے برخلاف کوئی بھی لا ئحہ عمل یا منصوبہ کسی صورت مسئلے کا حل اور پائدار امن کی ضمانت نہیں دے سکے گا ۔
تحریر :شجاعت علی بلتی
وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کی ستر سالہ تاریخ کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود سنہ1948ء میں قائم ہوا جس کی پشت پناہی سنہ1917ء میں برطانوی سامراج نے اعلان بالفور نامی خط کے ذریعے کی تھی تاہم یہ کہنا درست ہو گا کہ فلسطینی عربوں کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کو ایک سو سال یعنی ایک صدی بیت چکی ہے اور فلسطینی عوام تاحال اپنے حقوق کی جد وجہد کر رہے ہیں اور مسلسل غاسب صہیونی ریاست اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ درا صل دیکھا جائے تو روز اول سے ہی فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی میں استعماری قوتوں کا باقاعدہ کردار رہاہے جہاں ایک طرف برطانوی سامراج نے فلسطین سے اپنی کفالت کو ختم کرنے سے قبل صہیونیوں کو فلسطین میں آباد کیا اور بعد میں یہاں ایک غاصب جعلی ریاست بنام اسرائیل قائم کی وہاں امریکہ جیسی شیطان استعماری طاقت بھی برطانوی سامراج کی جرائم میں کسی طور پیچھے نہ رہی اور دنیا میں سب سے پہلے جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دیگر یورپی ممالک پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کی پشت پناہی کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا اور تاحال ایک سو سالوں سے امریکی سیاست کا مرکز و محور صہیونیزم کے دفاع اور اس کی بقاء پر استوار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام ہمیشہ سے حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں کہ آخر امریکی عوام کے ٹیکسز کا پیسہ صہیونیوں کو کیوں دیا جا رہاہے اور اس پیسہ سے بالآخر صہیونی فلسطین میں عربوں کا قتل عام صرف اور صرف نسل پرستی کی بنیاد پر کر رہے ہیں ، واضح رہے کہ فلسطینی عرب کی جب بات ہوتی ہے تو ا س سے مراد فلسطینی قومیت کے حامل وہ تمام فلسطینی مسلمان، عیسائی اور یہودی سمیت دیگر چھوٹے مذاہب کے لوگ شامل ہیں کہ جو فلسطین کے باسی تھے اور ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر قائم ہونے والی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو یہودیوں کی ریاست تسلیم نہیں کیا۔اس حوالے سے خود امریکہ میں دسیوں ہزار یہودی اور ان کی تنظیم نووی کارٹا موجو دہے کہ جس کا نعرہ آزادی فلسطینی ریاست ہے اور ایسی فلسطینی ریاست کہ جس کا دارلحکومت یروشلم یعنی بیت المقدس ہے۔
جہاں تک امریکہ کی فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنے کی بات ہے تو دنیا بہت اچھی طرح سے واقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے فلسطین میں قائم جعلی ریاست اسرائیل کے لئے امداد کے نام پر اربوں ڈالرز جاری کئے جاتے ہیں اور اس رقم کے علاوہ اسرائیل کو امریکی ساختہ جدید اسلحہ اور بھارتی جنگی سازو سامان کے ساتھ ساتھ جدید جنگی ٹیکنالوجی بھی فراہم کی جاتی ہے جس کا استعمال غاصب صہیونی ریاست مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف کرتی ہے اور نہ صرف فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستیں بھی صہیونی ریاست کے ناپاک عزائم اور جنگی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں رہتے ہیں ۔ اس کی چند ایک مثالیں شام، لبنان، اردن اور مصر جیسے ممالک ہیں کہ جن کی پہلے ہی کچھ زمینیں غاصب صہیونی ریاست اپنے تسلط میں لے چکی ہے اور اس کے علاوہ لبنان پر جنگیں مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور مختلف علاقوں میں بمباری کرتی رہی ہے۔
امریکہ کی اسرائیل کی دی جانے والی مسلح امداد سے ہمیشہ فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوتا رہاہے۔ سنہ1982ء میں جب صہیونیوں نے لبنان میں فوجی اتاریں تو صابرا اور شاتیلا کے کیمپوں میں انسانیت کا قتل عام صہیونی درندوں کے ہاتھوں امریکی اسلحہ سے کیا گیا جس پر نہ تو امریکہ کے ایوانوں میں انسانی حقوق کی دفاع کا شور و غل سننے میں آیا اور نہ ہی کسی اور مغربی ملک نے فلسطینیوں کے اس بہیمانہ قتل عام پر انسانی حقوق کے بارے میں واویلا کیا ۔لیکن جب بات امریکی مفادات کے بر خلاف ہو رہی ہو تو امریکہ کو ہر دوسرے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی نظر�آتی ہے لیکن امریکہ کو کبھی یہ نظر نہیں آتا ہے کہ امریکی امداد کے نام پر اسرائیل جیسی جعلی صہیونی ریاست کو دیا جانے والا بھاری اسلحہ اور جنگی ساز و سامان غز ہ میں محصور مظلوم اور نہتے فلسطینی عربوں کیخلاف استعمال کیا جا رہاہے۔امریکی سرکار کو کبھی یہ نظر نہیں آتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی عرب انسان ہیں بلکہ شاید استعماری قوتوں کے نزدیک فلسطینیوں کو انسان قرار ہی نہیں دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حقوق کے بارے میں بات کرتے وقت امریکہ سمیت تمام استعماری قوتیں گونگی اور بہری ہو جاتی ہیں اور جبکہ فلسطینیوں کی جانب سے اپنے دفاع میں اگر ایک پتھر بھی غاصب صہیونی فوجیوں کی طرف پھینکا جائے تو دنیا میں سب سے بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے ، اسی طرح اگر ایک نوجوان فلسطینی لڑکی اپنے گھروں اور اپنے لوگوں کے دفاع کی خاطر صہیونی فوجی کو تھپڑ مار دے تو یہ دنیا کے تمام قوانین کی توہین قرار پاتی ہے اور اس جرم میں اس نوجوان لڑکی کو کئی ماہ صہیونیوں کی جیل میں قید رہ کر مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کے لئے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
ان تمام باتوں سے بالا تر امریکہ نے دنیا بھر میں اسرائیل کی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے نت نئے ناموں سے دہشت گرد گروہ قائم کئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسی حکومتوں کو مدد و تعاون فراہم کیا ہے جو ان دہشت گردوں کی طرح کام انجام دیں، اس حوالے سے داعش، النصرۃ، القاعدہ ، طالبان سمیت نہ جانے کئی ایک نام موجود ہیں کہ جنہوں نے پاکستان سمیت افغانستان، عراق، ایران، لبنان ، لیبیا اور دیگر مقامات پر امریکی و صہیونی مفادات کے خاطر قتل عام کیا اور دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکہ نے جہاں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے میں صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی کی ہے اسی طرح اب ایک مرتبہ پھر امریکہ نے اپنا سفارتخانہ القدس شہر میں منتقل کر کے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال کئے ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں، اسی طرح فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ایک نیا راستہ جو امریکہ نے اختیار کیا ہے وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق نام نہاد راہ حل ہے کہ جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا نام دیا ہے جس کا لب لباب کچھ اس طرح سے ہے کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دو اور صہیونیوں کو پورا فلسطین دے دو۔اب اس کام کے لئے امریکہ دنیا کے تمام تر قوانین اور انسانی حقوق کی اقداروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے مکمل طورپر نکالنے پر تلا ہو اہے اور اس کام کے لئے عرب ممالک کی ملوکیت کو رام کر لیا گیا ہے تاہم فلسطینیوں نے اس ڈیل کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے کا اراد ہ کر رکھا ہے اور کسی صورت بھی فلسطین سے بے دخلی کو قبول نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے جس کا ایک نمونہ ہمیں گذشتہ دنوں غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں او ر جنگ کے نتیجہ میں دیکھنے کو ملا ہے کہ جہاں فلسطینیوں نے پائیدار مزاحمت کے نتیجہ میں اسرائیل کو دو روز میں ہی پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔بہر حال امریکہ فلسطینی تاریخ میں فلسطینیوں کے حقوق کا ایک سو سال سے دشمن اور حقوق کو پامال کرنے والی ایک شیطان قوت کے طور پر سامنے آیا ہے جسے یقیناًآئندہ تاریخ میں نسلیں اسی عنوان سے ہی یاد رکھیں گی کہ امریکہ فلسطینیوں کے حقوق کا دشمن ہے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
وحدت نیوز(آرٹیکل) [دورہ یونان}علم منطق کب اور کیسے اپنے سیر تکامل کو طے کیا اس کا بیان ایک دشوار اور ناممکن کام ہے لیکن اکثر مورخین کا عقیدہ ہے کہ اس علم کی بنیاد دوران یونان باستان سے ملتا ہے ۔تاریخی کتابوں کےمطابق پہلا شخص جس نے عقلی استدلال سےاستفاد ہ کیا وہ {پارمیندس م 487} تھا۔ اس نے ان مباحث کو جدلی رو ش کےمطابق بیان کیا لیکن اس کے بعد [زنون م426۔491] جو پارمیندس کے شاگرد تھااپنے استاد کی پیروی کرتے ہوئے اس روش کو مزید آگے لےگیا اوراس استدلالی روش کومزید رونق بخشا۔
قرن پنجم کےآخر میں یونان کے بعض اندیشمندوں نے اپنے شاگردوں کو جدل اور مناظرہ کی طرف تشویق کی۔ان اندیشمندوں میں سے برجستہ ترین فرد[پرودیکوس] کا نام لیا جاسکتا ہے جو آخری عمر میں جلا وطن ہو ا یہاں تک کہ اس کے تمام تالیفات جلائے گئےکیونکہ اس نے عرف یعنی موجودہ نظام کی سخت مخالفت کی تھی ۔ اس نے جدلی روش کو اس حد تک آگے بڑھایا کہ تمام موجودات کے لئے انسان کو معیار و ملاک قرار دیا اور حقایق ہستی کے منکر ہو ا۔بعض افراد محکمہ قضائی میں اپنے حقوق کی اثبات کے لئے جدلی و استدلالی دانشمندوں سے استفادہ کیاکرتے تھے جو ایک مدت کے بعد سوفیست [دانشمند ] کے نام سے پہچانے جانےلگے۔ ان افراد میں [پروتاگراس 380 ۔485 م] کا نام لیا جاسکتا ہے۔ان دانشمندوں کے لئے جو چیز زیادہ اہمیت کا حامل تھا وہ محکمہ قضائی میں اپنے موکلوں کےحق کوحاصل کرنا تھا۔یہ افرادحق بات کی اثبات کے درپے نہیں تھے اس لئے انہوں نے اپنی استدلال میں مغالطہ سے کام لینا شروع کیا جس کی وجہ سے یہ لقب [سوفیست] اپنے حقیقی معنی سے نکل کر ان لوگوں پر اطلاق ہونا شروع ہواجو روش مغالطہ سے استدلال کیا کرتے تھے۔
اس غبار آلود دور میں سقراط[399 ۔469 م] نےعلم و دانش کے میدان میں قدم رکھا۔ اس نے سوفیست کی فکری روش کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ قلیل عرصے میں زیادہ مشہور ہوگیا ۔اس نے اپنے علمی کوششوں سے اس گروہ کا خاتمہ کیا اوراس گروہ کوسخت شکست سے دوچار ہوناپڑا اور یہی سقراط کے لئے بہت زیادہ پیرورکار فراہم کرنے کاسبب بنا ۔
سقراط کے برجستہ ترین پیروکاروں اور شاگردوں میں افلاطون [347 ۔427 ق م ]کا نام لیا جاسکتا ہے۔ افلاطون نےسقرا ط کے تجربات کی حفاظت کی ۔افلاطون اشیاء کی تعریف کرنے کے لئےجنس و فصل کا سہارالیا کرتے تھے ۔ اس نے [آتن] میں زندگی گزارنے اور تدریس کرنے کے لئے ایک باغ کاانتخاب کیا جو بعد میں افلاطون اکیڈمی کے نام سے مشہورہوا۔افلاطون کے برجستہ شاگردوں میں سے ایک ارسطو تھا۔ مورخین کے مطابق ارسطو [ارسطا طا لیس 322 ۔384 ق۔م ] مقدونیہ کے شھر استاگیرا میں متولد ہوا۔اس کا باپ [نیکو ماخوس]ایک طبیب تھا ۔ارسطو اپنے خاندانی پس منظر اور علم دوستی کے سبب تحصیل علم میں مصروف ہوا اور اسی بنا پر 17 [سترہ] سال کی عمر میں افلاطون کے درس میں حاضر ہوا اور افلاطون کے پاس بیس سال تک شاگردی اختیارکی اور یہ شاگرد زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے استاد سے بھی زیادہ مشہور ہو گیا۔
افلا طون استدلال کے لئے صرف صحیح تعریف کو کافی نہیں سمجھتا تھا۔ اس لئے اس نے پہلی مرتبہ علم منطق کو آٹھ ابواب میں تدوین کیا جو یہ ہیں:
۱۔ قاطیغوریاس [مقولات دہ گانہ]
۲۔باری ارمیناس [قضایا]
۳۔انولوطبقای اول [قیاس]
۴۔ انولوطبقای دوم [برہان]
۵۔طوبیقا [جدل]
۶۔ ریطوریقا [خطابہ]
۷۔سوفیسطیقا [مغالطہ]
۸۔ بوطیقا [شعر]
ارسطو کی طرف بہت سے تالیفات کی نسبت دی گئی ہے یہاں تک کہ بعض مورخین کے مطابق ان تالیفات کی تعداد ایک ہزار ہیں۔انہی تالیفات میں سے صرف منطقی مباحث کے بارے میں تالیف کی گئی منطق ارسطو باقی رہ گیا ہے ۔یہ کتاب [ارغنون ۔ ارگانون] {آلت و ابزار} اب بھی علم منطق میں ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے ۔
ارسطو کے دنیا سے جانے کے بعد زنون رواقی[260 ۔350 ق۔م] نے ارسطو کے مباحث کوجا ری رکھا اور اس نے [معرف] اور [قیاس شرطی] کے مباحث کو اضافہ کیا۔فرفوریوس صوری [233 ۔304 ق۔م] نےزنون کے بعد ارسطو کی کتاب پر شرح لکھااور ایک مقدمہ بعنوان مدخل کا اضافہ کیاجو کلیات خمس کے مباحث پر مشتمل تھا۔اس کے بعد یہ بحث ایک مباحث منطقی اور ایساغوجی مباحث کے نام سےمشہور ہوا۔ارسطو کی یہ تقسیم بندی ایک طولانی مدت تک بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ فر فوریوس کے بعد بعض اہل منطق نے مقولات عشر کو منطق سے جدا کر کے فلسفے کے مباحث کے ساتھ ملحق کیااور مباحث معرف جو برہان کےباب میں شامل تھا اسے کلیات خمس میں سے قرار دیا۔یہ سلسلہ دکارت[1596 ۔1650 ق۔م] کے زمانے تک جاری رہا ۔دکارت نے نئے نظریوں کے ذریعے علم منطق میں قابل توجہ تحول لے آیا اور یہ تحول و تبدل منطق جدید کے وجود میں آنے تک فراز و نشیب کے ساتھ پائیدار رہا ۔
بعض مورخین اس گزارش کے برخلاف علم منطق کے زادگاہ کو مشرق زمین سمجھتے ہیں اور ہندوستان ، ایران ، جاپان ،چین اور مصر کو اس علم کا مرکز و گہوارہ سمجھتے ہیں ۔
[دورہ اسلامی]
اسلامی تہذیب و تمدن میں علم منطق کب اور کیسے وارد ہوا اس حوالے سے بھی مورخین کے درمیا ن شدید اختلافات پائے جاتےہیں لیکن جو بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ فلسفہ [فلوطین] پہلی مرتبہ مشرق زمین میں وارد ہوا ہے۔مسلمانوں نے جب اسکندریہ کو فتح کیا تو مسلمانوں نے یونان کے علمی و فلسفی مراکز تک رسائی حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں اسکندریہ فلسفہ و الہیات یونان کا مرکز تھا ۔ شام و عراق کے مناطق میں بسنے والے افراد جو سریانی زبان بولتے تھے، یونانی زبان کے مطالعے میں مشغول ہو گئے اور انہی افراد نے بہت سارے اہم منطقی آثارکا ترجمہ کیا اور یہی مسلمانوں کے ان آثار سے زیادہ آشنائی پیدا کرنے کا سبب بنا ۔یہ ترجمے فقط ارسطو کے مباحث{ ایساغوجی ،فرفوریوس و قاطیغوپارس باری آرمیناس اور آنولو طبقای اول} پر مشتمل تھے۔ جن افراد نے ترجمے کاکام مکمل کیا ا ن میں یعقوب ہاوی م 708 م سورس بسوخت م667 م جارجیوس م 724م اور حسین بن اسحاق قابل ذکر ہیں ۔
اسلامی مناطق میں فلسفی و منطقی مباحث کو اس وقت زیادہ رونق آیا جب وہاں علمی مراکز وجود میں آیا مخصوصا ایسے مراکز جن میں یونانی متون اور کتابوں کا ترجمہ کرتے تھے اور اکثران مراکز کی بنیاد خلفای عباسی کے دور میں رکھی گئی ۔اہم ترین مدرسہ و مرکز[ بیت الحکمۃ] تھا جو مامون عباسی کے دستور پر بنایا گیا تھا۔ عبد اللہ بن مقضع جنہوں نے ارسطو کے قاطیغوریاس اور انولوطبقای اور فرفوریوس کے ایساغوجی کو منصورخلیفہ عباسی کے لئے ترجمہ کیا ۔منصور عباسی کے دورکے بعد منطق دانوں نے منطقی کتابوں کی تفسیر وتشریح پر زیادہ کام شروع کیا یہاں تک کہ بعض افراد نے اس ضمن میں نئی کتابیں بھی تالیف کی ۔ابو یوسف ،یعقوب بن اسحاق الکندی [م258 ھ۔ق] ملقب بہ فیلسوف عرب جو اپنے استعداد علمی کی وجہ سے مامون اور معتصم کے پاس ایک خاص مقام رکھتا تھا نے بیشتر ارسطو کی کتابوں کا شرح لکھا۔ ابو العباس سرخسی [م280ھ۔ق]اور محمد بن زکریا رازی[م 151 ھ۔ق] کے دور میں بھی یونان سے آئے ہوئے علوم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اس زمانے میں علم منطق اپنے طفولیت سے گزر رہاتھا۔اس دور کے بعد فلسفہ ا و رمنطق جدید دور میں داخل ہوا جسے عصر طلائی حکمت کہا جاتاہے۔
اس دور میں جس اہم شخصیت نے بنیادی کردار ادا کیا وہ حکیم ابو النصر محمد فارابی [260۔ 339 ھ۔ق] معروف بہ معلم ثانی ہے ۔فارابی کا علم منطق میں نقش و تاثیر اس قدر زیادہ ہے کہ اکثر دانشمندان فارابی کو اسلامی دور میں علم منطق کا بنیان گزار سمجھتے ہیں ۔
فارابی کے اہم کاموں میں سے ایک [منطق ارسطو ] ارغنون اور [ایساغوجی] فرفریوس پر شرح لکھنا ہے ۔اس کے علاوہ انہوں نےبے شمار کتابیں علم منطق کے موضوع پر تالیف کی جو آج بھی علم منطق کے اہم ترین کتابوں میں شمار ہوتے ہیں ۔فاربی نےمتعدد شاگردوں کی تربیت کی۔ ان کے معروف شاگردوں میں یحیی بن عدی منطقی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔اس عصر کے دوسرے منطق دانوں میں ابو سلیمان سجتانی[398 ھ ۔ ق ] ابوحیان توحیدی[م414 ھ۔ق] عیسی بن زرعہ[م 398 ھ۔ق] ابن مسکویہ [م 325 ھ۔ق ابو عبد اللہ ناتلی [343 ھ۔ق] وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ فارابی کے علاوہ یہ تمام افراد اس قدر مشہور نہیں ہوا اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ [ناتلی]
کے برجستہ ترین شاگرد علم و حکمت کے میدان میں وارد ہوا اور یہ فیلسوف و حکیم حسین بن عبد اللہ شیخ الرئیس بو علی سینا جو شہر بخارا کے کسی دیہات میں 370 ھ ق میںمتولدہوا۔پانچ سال کی عمر میں والد کے ہمراہ بخارا آیا اور قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔دس سال کی عمر میں ادب کے علوم میں مہارت حاصل کی اور کچھ مدت تک مذہب اسماعلیہ کوقبول کیا ۔انہوں نے حکمت ، منطق اور ریاضی کو ابو عبد اللہ ناتلی کے پاس سیکھا اور بعد میں وہ خود ان علوم کے برجستہ ترین اساتیذمیں شامل ہوا ۔ابن سینا عقلی علوم کے علاوہ طبی علوم کے بھی بڑے اساتیذ جیسے ابو ریحان بیرونی اور ابو سہل مسیحی سے سیکھااور اپنے دور میں معروف طبیب کے عنوان سے مشہور ہوا۔بو علی سینا کے بے شمار گرانقدر تالیفات ہیں کہ ان میں سےکتاب شفا و قانون قابل ذکر ہے ۔ بھمینار بن مرزبان [458ھ۔ق] ابو عبد اللہ معصومی بو علی سینا کے شاگرد ہیں ۔ ابن سینا کے بعد بے شمار منطق دان میدان میں واردہوئے لیکن کوئی بھی ابن سینا کی طرح مشہورنہیں ہوا جیسے ابو حامد غزالی ،قاضی زید الدین عمر سہلان ساوجی ،محمد بن عمر فخر رازی ۔ابو جعفر نصیر الدین طوسی ،نجم الدین علی بن کاتبی قزوینی ،شیخ شہاب الدین سہروردی [بنیانگذار حکمت اشراق]ابو جعفر قطب الدین محمد بن رازی ،سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی ،سعد الدین محمد داونی ،محمد بن ابراہیم شیرازی ملا صدرا[بنیادگذارحکمت متعالیہ اور ملا ہادی سبزوار ی وغیرہ ۔یہ سب حکماء ایک درجے کے نہیں تھے ان میں سے بعض جیسے سہروردی اور ملا صدرا نےحکمت مشائی میں ایک نئے تحول لے کرآیا جس کی وجہ سے یہ افراد بنیانگزار کے طور شہرت پایا۔
[دورہ منطق جدید ]
منطق جدید کو منطق ریاضی و منطق نمادی بھی کہا جاتا ہے ۔بعض ریاضی دان جیسے لایب نیتز[1646 ۔1716] فلیسوف و ریاضی دان آلمانی علم منطق اور ریاضی کو تلفیق کرنےکے لئےکوشش کی کیونکہ وہ چاہتے تھا کہ منطقی مسائل کو حل کرنے کے لئے ریاضی سے مدد لے۔
لایب نیتزنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے زیادہ سعی و کوشش کی اسی بنا پر بعض افراد ان کو[ پدر علم منطق جدید] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔جرج بوی ریاضی دان انگلستان،آگو ستوس دمورگانریاضی دان انگلستان ،گوتلوپ فرگر ،زوزف پائانو ریضی دان اٹلی یہ سب ایسےافراد تھے جنہوں نے منطق جدید کی تدوین میں کام کیایہاں تک کہ بر تراند راسل [1872 ۔1970 م]اور آلفردنودث وایتہد [1871۔ 1937م] فلاسفر انگلستان نے اصول ریاضی کے عنوان سے کتابیں لکھی جو منطق جدید کی تدوین میں مددگار ثابت ہوئے۔اور یہ سلسلہ ان دونوں کے بعد بھی جاری و ساری رہا لیکن اختصار کی خاطرہم ان سب کو یہاں ذکر نہیں کریں گے ۔
علم منطق آج ایک اہم بحث اور موضوع کے طورپر پورےدنیا کے یونیورسٹیوں میں تدریس کی جاتی ہے ۔ علم منطق کی اہمیت اور مختلف علوم میں اس کا اثر اورنقش قابل انکار ہے ۔
منابع:
1۔سیر حکمت در اروپا، آماکوویسکی
2۔تاریخ فلسفہ۔ برتداندراسل ترجمہ:بہالدین خرمشاہی
3۔تاریخ فلسفہ اسلامی۔ ترجمہ گروھی از دانشمندان
4۔تاریخ فلسفہ غرب۔ ترجمہ:نجف دریا بندری
5۔سیر فلسفی در جہان اسلام۔دکتر علی اصغر حلبی
6۔مبانی منطق جدید۔ سید علی اصگر خندان
7۔دوران اسلامی۔ میر محمد شریف
8۔یونان باستان۔محمد علی فروغی
9۔تاریخ منطق۔کاپلتون فردریک ترجمہ:فریدون شایان
10۔درآمدی بر منطق جدید۔ضیاء موحد
11۔دورری منطق جدید۔ لطف اللہ نبوی
12۔تاریخ فلاسفہ ایرانی از آغاز اسلام تا امروز۔دکتر سید حسین نصر
13۔تاریخ فلسفہ درایران۔میر محمد شریف
14۔منطق مقدماتی ۔ابوالفضل روحی
15۔ تاریخ فلسفہ د ر اسلام میر محمد شریف ج 1 باب 1
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) شروع کرتا ہوں اُس ذات اقدس کے بابرکت نام سے جو نہایت رحمان و رحیم ہے، وہ مالک و خالق ہے جس کی قدرت میں ہماری جان ہے اور یہ تمام کائنات اُسی کی بنائی ہوئی ہے وہ عالمین کا رب ہے۔ سورہ حمد میں ہم ہر روز ہر نماز میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ "ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے"۔ اس خالق نے کائنات کو ایسے ہی خلق نہیں فرمایا ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا قادر، دانا و حکیم ہے اور حکیم کبھی کوئی بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا، اُس نے اس عالم کو خلق کیا ہے تو ایک خاص مقصد اور ہدف کے ساتھ خلق کیا ہے، اس کائینات میں موجود ہر چیز چاہے وہ جاندار ہو یا بےجان بےفائدہ نہیں ہیں۔ وجود کائینات کے بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں کوئی اس کو ایک حادثہ قرار دیتے ہیں تو کوئی انسانوں کو بندروں یا ان جیسی نسلوں سے قرار دیتے ہیں لیکن انسان جو اس دنیا کی تمام چیزوں سے افضل اور قیمتی شی ہے بلکہ یوں کہیں کہ دنیا بنی ہی انسانوں کے لئے ہے اور انسانوں کو جو چیز باقی سب سے ممتاز کرتی ہے وہ اُس کی عقل ہے۔ آج ہم خلقت کائنات کے حوالے سے مختلف نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ دنیا بے فائدہ اور ہدف سے خالی نہیں ہے اس صورت میں فقط نظریہ اسلامی ہی ہے جو انسانوں کے اس شبہ کو دور کرتا ہے اور انسانوں کے قلوب کو تسکین واقعی پہنچاتا ہے۔
تو ہم ذکر کر رہے تھے دانا و حکیم خالق کا کہ اُس نے انسانوں کو ہدف کے بغیر خلق نہیں فرمایا بلکہ ایک خاص ہدف کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور حکیم جو کام کرتا ہے اُسے سلیقے کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ اُس نے انسانوں کو خلق کیا ہے پھر ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھی ایسے انسانوں کو خلق فرمایا جو کہ ہمارے ہی جنس سے ہیں لیکن وہ ایمان کے اعلی درجہ پر فائز ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خداوند عالم کی طرف سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں تاکہ انسانوں کو اپنے اصلی ہدف کی طرف رہنمائی کرسکیں اور ان کو اس دنیا کی رنگینیوں سے نکال کر صراط مستقیم کی راستے پر چلا سکیں۔
ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو پیغمبر آخرزمان کے امتی کہلاتے ہیں جودنیا میں رب عالمین کی طرف سے آخری پیامبر ہیں اور ان پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتاب آسمانی ہے اور تمام آسمانی کتب میں سے جامع ترین کتاب ہے جو قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت و معجزہ بن کر نازل ہوئی ہے۔
ربیع لاول کا مہینہ مسلمانوں کے لئے خوشی کا مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں خداوند عالم کے پیارے اور محبوب نبی، سردار انبیاء رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ص دنیا میں تشریف لائے۔ تاریخ ولادت پیامبر کے حوالے سے اھل سنت حضرات اور اھل تشیع میں اختلاف ہے، اھل سنت کی نظر میں آپ کی ولادت ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی اور اھل تشیع ۱۷ ربیع الاول کو روز ولادت مانتے ہیں۔ لیکن کچھ سالوں سے اس ہفتہ کو "ہفتہ وحدت" کے طور پر مناتے ہیں جوکہ اتحاد امت مسلمہ کے لئے ایک اچھی کاوش ہے۔
ہمارے نبی ص وہ عظیم پیامبر ہے کہ جس کے بارے میں سورہ الانبیاء کی آیت نمبر ۱۰۷ میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے " اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔"
رحمت کا معنی بخشش و مھربانی ہے یعنی پیغمبر ص کی ہر رفتار و گفتار انسانوں کی اصلاح کے لئے ہے ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کا جہاد ان کی قضاوت، ان کے اصول ان کے فرامین غرض ان کی ہر ہر حرکت رحمت سے خالی نہیں ہے بس صرف سمجھنے کی دیر ہے۔مگر ہم ان چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں ہمارے میموری میں اتنی کیپسٹی بھی نہیں ہوتی کہ ہم ان کے افکار کو سمجھ سکیں بشرطیکہ ہم غوروفکر کریں۔ ہم جب بھی بازار سے کوئی نئی چیز خریدتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے ہدایت نامہ کو پڑھتے ہیں تاکہ اس چیز کے چلانے کے طریقے کو صحیح سمجھ سکیں اور اس کی حفاظت کر سکیں لیکن افسوس کہ آج کے دور میں ہم سب سے آسان اسلام کو سمجھتے ہیں جس کے بارے میں تلاش و تحقیق تو کوئی نہیں کرتا لیکن نظریہ دینے کے لئے سب تیار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں نااتفاقی، انتشار، فساد کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ یہی ہے۔ ہم صرف خاندانی مسلمان ہیں لیکن تحقیقی کوئی نہیں ہے اسی لئے ہم فوری دوسروں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک جگہ چار دوست رہا کرتے تھے ان میں سے ایک ترکی، ایک عربی، ایک رومی اور ایک پاکستانی تھا۔ ایک دن وہ لوگ پیشے جمع کر کے میوہ فروش کے پاس میوہ خریدنے جاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر ان کے درمیان لڑائی شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ ان چاروں کا ایک میوہ پر اتفاق نہیں ہوتا، پاکستانی بولتا ہے مجھے انگور خریدنا ہے، عربی کہتا ہے مجھے عنب چاہئے، ترکی بولتا ہے مجھے اُزوم چاہئے اور رومی بولتا ہے مجھے استنابیل خریدنا ہے۔ اتنی دیر میں ایک شخص وہاں پہنچتا ہے جس کو ان چاروں زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ اس مسئلہ کو سمجھتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ پیسے مجھے دو میں تمھارے مسئلہ کو حل کرتا ہوں۔ وہ شخص ان چاروں سے پیسے لیتا ہے اور میوہ فروش سے کہتا ہے کہ بھائی ان کو انگور دے دو، جب وہ انگور دیتا ہے تو چاروں خوشی خوشی اسے لے کر چلے جاتے ہیں۔ ان چاروں کا ہدف ایک ہی ہوتا ہے یعنی انگور لیکن چاروں اپنی اپنی زبان میں بول رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ لوگ لڑ رہے تھے۔
میری نظر میں مسلمانوں کی اختلافات کا ایک سبب ہمارے پاس دین اسلام کے بارے میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ دین اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جس میں انسانوں کے لئے مکمل ہدایت و رہنمائی موجود ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی، عائلی زندگی، معاشرتی زندگی، معاشی زندگی، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، حقوق والدین، حقوق زوجین، حقوق ہمسائگی، طریقہ جہاد، دشمنوں کے ساتھ سلوک، مجرموں کے ساتھ سلوک، حقوق بشر کوئی ایسی چیز نہیں جس کا ذکر اسلام نے نہ کیا ہو۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کیونکہ ہم نے اسلام کو صرف زبان کی حد تک محدود رکھا ہوا ہے کبھی اسلام کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔ اسلام کے اصولوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن ، روایات، احادیث و تفاسیر کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنی اصلاح کے لئےکس کو اپنا نمونہ عمل بنانا چاہئے؟ اسی بارے میں سورہ احزاب آیہ نمبر ۲۱ میں خداوند ارشار فرماتا ہے "مسلمانو، تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔" جس دن ہم نے اپنا آئیڈیل رسول اکرم ص کو بنایا، سمجھیں اس دن ہم کامیاب ہوجائیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں راہ راست سے نہیں ہٹا سکتی نہ ہی ہمارے درمیان فتنہ و فساد پیدا کر سکتی ہے۔ ہمارا جس فرقے سے بھی تعلق ہو ہم سب کا اصل اثاثہ پانچ چیزوں پر مشتمل ہے۔ اول توحید، دوسرا عدل، تیسرا نبوت، چوتھا امامت، پانچواں قیامت ہے جس پر تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ بس ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہیں جس کو دور کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح اوپر مثال میں چار دوستوں کا ذکر کیا جن کے ہدف ایک تھے لیکن وہ لوگ ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھ نہیں پارہے تھے لیکن ایک عالم و دانا شخص نے ان کے اختلاف کو ختم کیا۔ اسی طرح ہم سب بھی اگراپنے فرائض کو صحیح انجام دیں تو دین اسلام کی نشوونما اور حقیقی اسلام کو دنیا تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی اور ہمارے اختلاف بھی ختم ہونگے ساتھ ہی عالم اسلام کے دشمنوں کے ناپاک عزائم بھی خاک میں مل جائیںگے۔
لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کی اس ہفتہ کو ہفتہ وحدت کے طور پر منائیں اوراس پلیٹ فارم سے اپنے مشترکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں اور اتحاد امت کے لئے اپنی کوششوں کو برروی کار لائیں، اور اسلام کے حقیقی چہرہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اسلام کے خلاف مغربی اور ان کے آلہ کاروں کے پروپگینڈوں کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) تعریف کے بعد تطبیق کا مرحلہ ہے، علمی دنیا میں جب کوئی محقق اپنے سکول آف تھاٹ کے مطابق کسی چیز کی علمی تعریف کر دیتا ہے تو اس کے بعد اس تعریف کو خارج میں تطبیق دینے ، اس کی انواع و اقسام کو دریافت کرنے اور علمی انکشافات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ہم نے ایک کالم سےمستشرقین کی بحث کا آغاز کیا تھا، اس بحث کے آغاز کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں جھانکنے اور ان کی فکری بنیادوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔چونکہ کہیں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خود کش دھماکوں کی نوعیت قدرتی آفات یعنی زلزلے اور سیلاب کی مانند نہیں ہے۔بلکہ جہاں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خود کش دھماکے ہوتے ہیں ان کے پیچھے ایک فعال، مدبر اورمنصوبہ ساز انسانی دماغ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔
موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں گزشتہ کالم میں ہم نے اپنے مکتب (School of Thought ) کےمطابق مستشرقین کی تعریف میں یہ کہا تھا کہ ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں۔
اس تعریف کے بعدقارئین کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں مستشرقین کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ؟ مستشرقین کی کون کون سی انواع و اقسام ہیں؟ کیا مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوںمیں بھی مستشرقین موجود ہیں؟ کن شعبوں میں مستشرقین کا کیا کردار ہے؟وغیرہ وغیرہ
ہم نے اپنے قارئین کی اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اورمستشرقین کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے گروہ قرآن ومستشرقان (امام خمینیؒ یونیورسٹی قم)سے اس بارے میں مزید سوالات کئے، اس کے علاوہ قبلہ ڈاکٹر مجتبی زمانی اور ڈاکٹرمحمد جواد اسکندرلو سے بھی اس طرح کے سوالات پوچھے تاکہ اس موضوع کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اپنے قارئین تک پہنچائی جا سکے۔
محقیقین کی تحقیقات اور ماہرین کی آرا کے مطابق مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے وہ کارندے جو اسلامی ممالک کو کمزور کرنے نیز مسلمانوں میں فرقہ واریت اور شدت پسندی ایجاد کرنے کے لئے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی معلومات کی جمع آوری اور جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازی کی جاتی ہے ،انہیں مستشرقین سیاسی واستعماری اور اس شعبے کو استشراق ِ سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔
اگر قارئین کو یاد ہوتو گزشتہ کالم میں ہم نے مستشرقین کی تقسیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجموعی طور پر تین طرح کے مستشرقین ہیں:
1۔ عیسائی مبلغین
2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے
یہ جو دوسرے نمبر پر مختلف حکومتوں کے جاسوس ہم نے ذکر کئے ہیں انہیں مستشرقین سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔ایسے مستشرقین، میڈیا، انٹرنیٹ، سفارتخانوں، خفیہ ایجنسیوں،ریڈیو، ٹیلی ویژن، نیوز ایجنسیز اور اخبارات و مجلات کے ذریعے اپنی فعالیت انجام دیتے ہیں۔ان کی فعالیت کے بارے میں مصری محقق محمد غزالی اپنی کتاب دفاع عن العقیدہ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین کے صفحہ ۳ پر لکھتے ہیں کہ جس طرح توپ خانہ، دور سے گولہ باری کرکے پیادہ فوج کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے، اسی طرح یہ مستشرقین ، اسلامی معاشرے کے اذہان کو استعمار کے داخلے و نفوذ کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔
ہم آپ کو یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ گزشتہ ہفتے برادر اسد عباس نے اپنے کالم میں مغربی ذرائع ابلاغ کے بارے میں لکھا تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے انداز کو سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ وہ لوگ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنی خبروں کو ایسا رنگ دیتے ہیں، جس سے ادارہ خبر دیتا ہوا ہی محسوس ہوتا ہے، تاہم وہ رائے عامہ کے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہمارے معاشروں میں نفوذ کے سبب اب جنگ فقط ہتھیاروں کی جنگ نہیں رہ گئی۔ یہ جنگ، جنگ نرم میں بدل چکی ہے۔
اسی حقیقت کو حضرت امام خمینی ؒ نے اس طرح بیان فرمایا تھا:
امریکہ یہاں پر فوجی نہیں لائے گا،امریکہ یہاں لکھاری لے کر آئے گا، امریکہ بات کرنے والے اور بولنے والے لے کر آئے گا، امریکہ ہمارے ملک کو درہم برہم کرنے کے لئے ان لوگوں کو بھیجے گا کہ جن کی اس نے کئی سال تربیت کی ہے۔ امریکہ فوجیوں سے بدترین لوگوں کویہاں بھیجے گا، یہ فوجیوں سے بدترین ہیں۔ [1]
مندرجہ بالا سطور سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استشراقِ سیاسی و استعماری ایک معاشرتی ناسور ہے جس کا مقابلہ اس کی شناخت اور اس کے بارے میں علم و آگاہی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ہمیشہ سے ایک بہترین نظام حکومت کی تلاش میں ہے، کبھی اس نے آمریت کو بہترین نظامِ حکومت جانا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پھر اس نے بادشاہت کو منتخب کیا اور ایک بڑے عرصے تک اسے ہی بہترین نظام ِ حکومت سمجھتا رہا پھر اس نے جمہوریت کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ تو end of the history ہے، یعنی اس سے بہترین نظام ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے لئے دینِ اسلام نے کس نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ مبارک ہے :
وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أنَّ الارضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ
اور البتہ تحقیق ہم ذکر (تورات)کے بعد زبور میں لکھ چکے ہیں کہ بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے والی کتابوں میں بھی خدا نے بنی نوعِ انسان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہونگے۔مقامِ فکر یہ ہے کہ ان نیک بندوں کو آیا خود بخود حکومت مل جائے گی یا انہیں کچھ کرنا بھی پڑے گا۔
چنانچہ دینِ اسلام کی معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ رہ جائے تو بھی خدا وندِ عالم اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ حضورﷺ کے اہل بیت سے ایک شخص مبعوث ہوگا کہ جس کا اسم گرامی نبی آخرالزماں ﷺ کا اسم ہی ہوگا اوروہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی۔
مندرجہ بالا سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام انسانوں کو ایک ایسے انسان کا سراغ بتا رہا ہے ، جس کی حکومت قائم ہو کر رہے گی اور اس کی حکومت میں ہر طرف عدل ہی عدل ہوگا۔
یقیناً ایک خوشحال اور عادل حکومت ہی ہر انسان کو پسند ہے اور وہی حکومت انسان کے لئے بہترین حکومت ہے جس میں کسی پر کسی بھی قسم کا ظلم نہ ہو اور ہر طرف عدل و انصاف کی حاکمیت ہو ۔
سنن ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے کہ یہ دنیا اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گی مگر یہ کہ ایک مرد میرے اہلِ بیت سے عرب پر حکومت کرے گا، وہ میرا ہم نام ہو گا۔
سنن ابی داود میں ہے کہ المهديّ من عترتي من ولد فاطمه ، مہدی ؑمیری آل میں سے اور فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ امام مہدیؑ ، اہلِ بیت رسولﷺ سے ہونگے۔
مفہومِ مہدویت
اس زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے امام مہدی ؑ نامی ایک شخص کی عادلانہ اور مثالی حکومت کا قیام
مہدوی حکومت کے خدو خال
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کی ایسی خصوصیات کیا ہونگی کہ جن کی وجہ سے لوگ اس کے شیدائی ہونگے اور عوام میں مقبولیت کے باعث وہ حکومت ایک مثالی حکومت کہلائے گی۔اس حکومت کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہوگا کہ دیگر حکومتیں اس میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔
۱۔ اسلامی تعزیرات کا نفاذ
اس حکومت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس حکومت میں مکمل طور پر اسلامی تعزیرات نافذ ہونگی اور کسی کو نہ ہی تو چھوٹ دی جائے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اجرا کیا جائے گا اور امام مہدیؑ لوگوں کو اپنے جد نبی اکرم ﷺ کی مانند دینِ اسلام کی طرف شفاف دعوت دیں گے اور دینِ اسلام کا نفاز کریں گے۔
۲۔ہر دلعزیز حکومت
یہ حکومت مال و دولت والوں اور ثروت و طاقت والوں کے بجائے اسلامی اخلاق و اطوار والوں کی حکومت ہو گی ، اس حکومت میں جو جتنا دیندار ہوگا وہ اتنا ہی عزت دار اور محترم شمار ہوگا۔ لوگوں میں عزت و وقار کا پیمانہ دینداری اور اخلاق ہو گا۔پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو قریش کے ایک فرد مہدیؑ کی بشارت دیتا ہوں کہ جس کی خلافت سے زمین و آسمان والے راضی ہونگے۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ہی حدیث ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کے قیام سے تمام اہلِ زمین و آسمان ، پرندے ، درندے اور سمندر کی مچھلیاں شاد و خوشحال ہونگی۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے۔
۳۔علم و آگاہی کا دور دورہ
اس دور میں طبقاتی نظامِ تعلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی تعلیم پر چند خاندانوں کا قبضہ نہیں ہوگا بلکہ تعلیم و شعور کی دولت عام ہو گی ، عام انسانوں حتیٰ کہ گھریلو خواتین کے فہم و شعور کی سطح بھی بہت بلند ہوگی اور لوگ اپنے علم و شعور کی بنیاد پر نظام زندگی اور معاشرتی تعلقات کو استوار کریں گے۔ ہر طرف علم و حکمت کے چشمے جاری ہو نگے اور مکار اور شعبدہ باز افراد لوگوں کی جہالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔
۴۔زمین کے خزانوں سے انسانیت کی خدمت
آج کل کے دور کی طرح زمین کے خزانوں پر استعمار اور طاغوت کا قبضہ نہیں ہوگا اور استعماری طاقتیں مختلف بہانوں سے دیگر اقوام کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف نہیں کر سکیں گی۔ یعنی اس زمانے میں معدنی وسائل اور معیشت پر محدود لوگوں کا قبضہ نہیں ہو گا بلکہ زمین کے خزانوں کے منہ عام انسانوں کے لئے کھلے ہوئے ہونگے اور عام لوگ اپنی صلاحیت ، استعداد اور ضرورت کے مطابق زمین کے ذخائر سے بھرپور اور عادلانہ استفادہ کریں گے۔
رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت سے مہدیؑ ظہور کریں گے ، خدا انہیں انسانوں کا ملجا بنا کربھیجے گا اور اس زمانے میں لوگ نعمت و آسائش میں زندگی گزاریں گے۔
۵۔اختراعات و ایجادات کا دور
علم و شعور کے عام ہونے کے باعث یہ اختراعات و ایجادات کا دور ہو گا، انسان نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی معاشرے کی خدمت کریں گے اور پورا انسانی معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔علم اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہونگے اور انسان علوم و فنون سے انسانی معاشرے کی تعمیر کریں گے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ کی حدیث ہے کہ علم و دانش کے ۲۷ حروف ہیں، اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حروف ہیں اور باقی پچیس حروف سے لوگ آشنا نہیں ہیں، لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی پچیس حروف کو بھی لے آئیں گے اور پھر پورے ستائیس حروف لوگوں کے درمیان رائج ہوں گے۔
رسول خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ تمہارے بعد ایسی اقوام آئیں گی جن کے پاس طی الارض یعنی قدموں تلے زمین سمٹنے کی صلاحیت ہوگی اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے، زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی، اس طرح سے کہ اگر کوئی مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹے میں ایسا ممکن ہو جائے گا۔
۶۔ظلم و جور کا خاتمہ
ظلم چاہے اقتصادی ہو، معاشی ہو، عسکری ہو یا جارحیت اور شب خون کی صورت میں ہو ، اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ ظلم ہمیشہ جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جب جہالت ختم ہو جائے گی تو ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف نظام ِ عدل بھی پوری طرح فعال ہوگا لہذا دنیا ہر طرح کے ظلم سے پاک ہو جائے گی۔ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور مجرم پیشہ افراد کے ساتھ سخت قانونی برتاو کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کی رشوت یا سفارش کسی بھی ظالم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
حدیث میں ہے کہ جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے تو کوئی ایسا مسلمان غلام نہیں رہ جائے گا جسے امام خرید کر راہِ خدا میں آزاد نہ کر دیں نیز کوئی مقروض ایسا نہیں بچے گا جس کے قرض کو امام ؑ ادا نہ کر دیں۔
رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں کہ جب عیسیٰ ابن مریم ؑ آسمان سے زمین پر آئیں گے تو چرواہے اپنے مویشیوں سے کہیں گے کہ فلاں جگہ چرنے کے لئے جاو اور اس وقت لوٹ آو، گوسفندوں کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہونگے لیکن ایک خوشے کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ایک شاخ تک اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے۔
۷۔انسان کی قدر دانی
وہ انسانیت کی معراج کا دور ہوگا۔ اس دور میں علم و شعور اور آگاہی کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنے کو عبادت اور شرف سمجھے گا اور کوئی بھی انسان دوسرے کے حقوق کو پائمال نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور دوسرے انسانوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کو اللہ سے قرب کا وسیلہ سمجھا جائے گا اور ایک مومن دوسرے مومن کی مدد کرنے کو واجب سمجھے گا۔
اس طرح معاشرے میں انسانوں کی درمیان کسی قسم کی کوئی طبقاتی ، جغرافیائی ، لسانی یا ذات پات کی کوئی تفریق اورفاصلہ نہیں ہوگا۔ سب آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔پیغمبرِ اسلام ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کے دلوں سے کینہ اور دشمنی ختم ہو جائے گی۔
۸۔ میرٹ کی حاکمیت
انسان اس دور میں بھی اپنا کام کاج کریں گے اور ہر انسان کو میرٹ کے مطابق اس کا حصہ ملے گا، ہر طرح کی رشوت اور سفارش ختم ہو جائیگی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق اپنے لئے کام کاج کا انتخاب کریں گے۔تمام تر اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر افارد کا انتخاب ہوگا اور تمام تر فیصلے بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونگے۔
میرٹ کی حاکمیت کے باعث، برادری ازم، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور مکر و فریب کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حدیث میں ہے کہ آپ اس طرح مال تقسیم کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے اس طرح تقسیم نہیں کیا ہو گا۔
۹۔غربت و افلاس کا خاتمہ
عدالت ، علم اور میرٹ کے باعث دنیا میں کوئی شخص فقیر اور نادار نہیں رہے گا حتیٰ کہ لوگ ذکواۃ دینے کے لئے فقرا اور نادار حضرات کو ڈھونڈتے پھریں گے لیکن انہیں کوئی فقیر یا نادار شخص نہیں ملے گا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ فرماتے ہیں کہ ناامیدی اور فتنوں کے زمانے میں مہدیؑ نامی شخص ظہور کرے گاجس کی بخشش اور عطا لوگوں کی خوشحالی کا باعث ہوگی۔
ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ ، ملاوٹ اور بخل و کنجوسی جیسی برائیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے کے عام لوگ بھی مطمئن اور ثروت مندانہ زندگی بسر کریں گے۔
پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ مہدی ؑ میری امت میں ہونگے ، ان کی حکومت میں مال و دولت کا ڈھیر لگ جائے گا۔
۱۰۔ نبی آخرالزماںﷺ کی سنتوں کا احیا
اس زمانے میں ہر طرف حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا دور دورہ ہوگا اور لوگ اپنے شب و روز کو سرکارِ دوعالم کی سنتوں سے مزین کریں گے۔پورا انسانی معاشرہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح محبت ، اخوت اور رواداری کی مثال بن جائے گا۔اگر کسی کو کوئی نعمت میسر ہوگی تو وہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور عزیزو اقارب میں اسے تقسیم کرنے کو سعادت سمجھے گا، اسی طرح ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے لئے دعا اور طلبِ مغفرت کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مدد بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ گویا پوری عالمی برادری ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جائیگی۔
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ قریش سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور اپنے نبیﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔
۱۱۔ صحت و علاج
مہدوی حکومت میں سب کے لئے یکساں طور پر صحت اور علاج کی سہولتیں میسر ہونگی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ امیر لوگ اچھے اہسپتالوں میں جائیں یا بیرون ملک علاج کے لئے جائیں اور غریب ایڑیاں رگڑتے رہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے معیاری علاج کی سہولتیں عام ہونگی جس کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی عمریں بھی طویل ہونگی۔یہانتک کہ بعض عام افراد کی عمریں ہزار سال تک بھی پہنچ جائیں گی۔
۱۲۔ امام مہدیؑ کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ عہد وپیمان
۱۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے
۲۔ چوری نہیں کرو گے
۳۔ناجائز کام نہیں کرو گے
۴۔حرام کام نہیں کرو گے
۵۔برے اور قبیح اعمال انجام نہیں دو گئے
۶۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے
۷۔کسی کو ناحق نہیں مارو گے
۸۔جو اور گیہوں ذخیرہ نہیں کرو گے
۹۔کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے
۱۰۔ناحق گواہی نہیں دو گے
۱۱۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کرو گے
۱۲۔سود نہیں کھاو گے
۱۳۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہو گے
۱۴۔خداپرست و یکتا پرست انسان پر لعنت نہیں کر وگے
۱۵۔ شراب نہیں پیو گے
۱۶۔ سونے کے تاروں سے بنا لباس نہیں پہنو گے
۱۷۔ حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے
۱۸۔بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کرو گے
۱۹۔ محترم خون نہیں بہاو گے
۲۰۔کافر و منافق پر انفاق نہیں کرو گے
۲۱۔ خز کا لباس نہیں پہنو گے
۲۲۔ مٹی کو اپنا تکیہ بناو گے
۲۳۔ ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرو گے
۲۴۔نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے
اس وقت آپ کے اصحاب کہیں گے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی ہیں اور آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں، اس وقت امامؑ بیعت کے طور پر ہر ایک سے مصافحہ کریں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کا انسان ایسی مثالی حکومت کے قیام سے لا تعلق اور محروم کیوں ہے!؟
بات یہ ہے کہ در اصل اسلامی معاشرے نے ہی مہدویت کے تصور کو دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا لیکن مہدویت کے حوالے سے خود یہی معاشرہ مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مہدوی حکومت کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا اور دنیا مہدویت کو بطورِ حکومت ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔
اسلامی معاشرے میں مہدویت کے حوالے سےغلط تصورات
مسلمانوں کے ہاں مہدویت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ ضروری ہے:
۱۔ صرف انتظار
مسلمانوں کے ہاں عام طور پر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت امام مہدیؑ کا انتظار کیاجائے۔ حالانکہ جب بھی کسی حکومت کے قیام کے لئے انتظار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اس حکومت کے لئے باقاعدہ کمپین اور مہم چلائی جاتی ہے تب جاکر وہ حکومت قائم ہوتی ہے۔
۲۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنائی
مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ اسے ایک مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے کیاکرنا چاہیے، یعنی عام مسلمان اس حوالے سے یہ نہیں جانتا کہ اس کی کیا زمہ داری بنتی ہے؟!
۳۔ مہدویت کے بارے میں عدم شعور
بہت سارے مسلمان مہدویت کے بارے میں تفصیلی طور پر کچھ بھی نہیں جانتے ، بلکہ یوں تو جمہوریت و آمریت اور بادشاہت کے بارے میں تو ہماری معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کی نسبت مہدویت کے بارے میں ہم سطحی سے معلومات بھی نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے مہدویت کی حکومت کی تشکیل میں مشکلات حائل ہیں۔
۴۔ مہدویت بغیر نصاب کے
ہمارے ہاں مسلمان ہونے کے باوجود مہدویت ہمارے نظامِ تعلیم میں شامل نہیں ، جس کی وجہ سے ہم نسل در نسل مہدویت سے نا آشنا ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت محض ایک یا کچھ معجزات سے قائم ہو جائیگی۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ مہدویت کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ مہدویت کو اچھی طرح سمجھیں اور امام مہدیؑ ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو بھی پہچانیں۔
۵۔ مہدویت بدونِ نظامِ حکومت
ہمارے ہاں اگر مہدویت پر بات کی بھی جاتی ہے تو بطورِ نظامِ حکومت نہیں کی جاتی، بلکہ مہدویت کو قیامت کی نشانیوں اور آخرت کی علامات سے جوڑ کر اس بحث کو ختم کر دیا جاتا ہے۔
مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے درست لائحہ عمل
۱۔ جمہوریت سے مہدویت کی خدمت
سب سے پہلے جمہور کو مہدویت سے آشنا کیا جائے اور عوام النّاس میں ایک مہدوی حکومت کے قیام کی تڑپ پیدا کی جائے، لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ سمجھایا جائے کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل مہدوی حکومت کی تشکیل میں پو شیدہ ہے تاکہ لوگ کسی تشنہ شخص کی طرح مہدویت کی تشنگی کو محسوس کریں۔
۲۔ مہدویت شناسی کے لئے اداروں کا قیام
ہر عمر، ہر مذہب اور ہر دین کے شخص کو مہدوی حکومت سے آشنا کرنے کے لئے مخصوص اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے سنٹرز میں محقیقین مخاطب شناسی کر کے مخاطبین کی زہنی سطح کے مطابق مہدویت کو تبیین کریں۔
۳۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین
اس دنیا کو بدبختی، فقر، جہالت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مہدوی حکومت کی خصوصیات کیا ہیں!؟ مثلا ً مہدوی حکومت کی ایک خصوصیت علم و ااگاہی کا دور دورہ ہے تو ہمیں دنیا میں علم و ااگاہی کو عام کرنے کے لئے کمربستہ ہو جانا چاہیے ، اسی طرح اگر مہدوی حکومت کی ایک اور خصوصیت ظلم و جور کا خا تمہ ہے تو ہمیں جہاں بھی ہوں ظلم و جور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جس حال میں ہے وہاں سے کس مہدوی خصوصیت کو عملی کر سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کا کام شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود مہدوی حکومت کی طرف بڑھنے لگے گا۔
۴۔ انتظار کا درست مفہوم
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کا بس انتظار کیا جائے اور یوں خود بخود وہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا اسباب اور مسبب کی دنیا ہے، اگر ہم خود مہدوی حکومت کے اسباب فراہم نہیں کریں گے تو اسی طرح مختلف انواع و اقسام کی حکومتیں ہمارا استحصال کرتی رہیں گی۔ لہذا جس طرح ہم دیگر حکومتوں کے قیام کے لئے کمپین اور مہم چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں مہدوی حکومت کے لئے بھی کمپین اور مہم چلانی چاہیے، ہماری تحاریر و تقاریر میں جابجا مہدویت کا ذکر ملنا چاہیے اور لوگوں کو مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کی تلقین کی جانی چاہیے۔
۵۔ مہدوی حکومت اور انقلاب
ظاہر ہے دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ظلم کی جگہ عدل لے لے، تاریکی کی جگہ نور لے لے، کفر کی جگہ اسلام آجائے، شر کی جگہ خیر سنبھال لے، رشوت کی جگہ میرٹ کا بول بالا ہو یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے ہونے والا نہیں ہے ، اس کے لئے ایک بہت بڑی انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اور تبدیلی لوگوں کے سرکاٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس نقلاب اور تبدیلی کے لئے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگوں کا باطن تبدیل ہوجائے اور لوگ عقلی طور پر ظلم و ستم، کرپشن اور دھاندلی ، فقر اور ناداری نیز جبر و استحصال سے نفرت کرنے لگیں تو باہر کی دنیا خود بخود تبدیل ہو جائے گی۔
ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا انسان ابھی تک اچھائی اور برائی کو تشخیص دینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، یہ بے چارہ یہ تو چاہتا ہے کہ دوسرے غلط کام نہ کریں لیکن اگر اسے موقع مل جائےتو یہ خود وہی کام کرنے لگتا ہے جن سے دورسوں کو منع کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے دور کے انسان کی تربیت ابھی اس سطح کی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لئے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔
تربیت پر توجہ کی ضرورت
کسی بھی انقلاب کے لئے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت امام مہدیؑ کے انقلاب کے لئے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، وہ ایسے افراد ہونے چاہیے کہ جو سب سے پہلےخود مہدویت کی خصوصیات سے مزین ہوں اور دوسرے لوگ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مہدوی بننے کی تمنّا کریں۔ اگر ایسے اخلاق و کردار کے حامل افارد کی تربیت نہیں کی جاتی تو ظاہر ہے کہ پھر مہدوی حکومت کے قیام میں بھی بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔یہ تربیت بھی دوطرح کی ہونی چاہیے:
تربیت عمومی اور تربیت خصوصی: تربیت عمومی کے طور پر تمام انسانوں کو خیرو بھلائی اور دین اسلام پر عمل کرنے کے دعوت دی جانی چاہیے اور تربیت خصوصی کے طور پر ایسے افراد کی خصوصی تربیت کی جائے جو مہدویت کے عمیق مسائل کو قرآن و سنت سے بطریقِ احسن استخراج کر کے لوگوں تک مہدویت کا پیغام عملی طور پر پہنچائیں۔
جس نظریے کے پاس تربیت یافتہ افراد نہ ہوں وہ نظریہ کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتا لہذا ایک مہدوی انقلاب کے لئے افراد کی نظریاتی و عملی تربیت ضروری ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے حکومتی اہلکاروں میں حضرت عیسیٰؑ، اصحاب کہف، مومن آل فرعون جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی آتے ہیں۔
نتیجہ:۔
دینِ اسلام اللہ کا آخری دین ہے، یہی دین انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا بھی ضامن ہے، اس دین میں فقط انسانوں کے لئے اخلاق و طہارت اور عبادات کے احکام نہیں بیان کئے گئے بلکہ انسانوں کی خوش بختی کے لئے ایک مکمل نظام حکومت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اس دینی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جس کا کتاب و سنت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
جب تک مسلمان ایک الٰہی اور عالمی حکومت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے تب تک خود بخود مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو جائے گی۔اس عالمی اور عادل حکومت کا نام مہدویت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، مہدویت کے حوالے سے تحقیق کریں اور مہدوی حکومت کے قیام کے لئے ممکنہ راہ حل سوچیں اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دیں۔
فہرست منابع
1. قرآن مجید
2. احقاق الحق مكتبة المرعشي النجفي. مكان چھاپ: قم
3. ارشاد مفید كنگره شيخ مفيد قم
4. سنن ابي داود دارالرائد العربی، بیروت
5. سنن ترمذي دارالرائد العربی، بیروت
6. عقدالدرر دارالکتب الاسلامیه قم
7. غیبہ النعمانی دارالرائد العربی، بیروت
8. کمال الدین دارالکتب الاسلامیه قم
9. مستدرک حاکم انتشارات دار الکتب العلمیه، چھاپ بیروت
10. مصنف عبد الرزاق انتشارات دار الکتب العلمیه، چاپ بیروت
11. معجم رجال الحدیث وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چھاپ اول، تهران
12. ینابیع المودّۃ دار العراقیۃ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چھاپ ہشتم
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.