وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مدتوں بعد تحریک انصاف کو پاکستان کی تقدیر سنوارنے کا موقع ملا ہے، ہمسایہ ممالک کے علاوہ عالمی برادری بھی پاکستان کے بدلتے حالات پر نظریں لگائے ہوئے ہے۔گویا پاکستان دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے  ایران کے وزیرخارجہ  جواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور آج اس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ،  امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ہمراہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان سے پہلے امریکہ نے پاکستان پر اپنا سفارتی  اور اقتصادی دباو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا، شاید اس دباو کے بڑھانے کا مقصد اس دورے کو کامیاب کروانا تھا۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی دورے کی کامیابی کا انحصار ایجنڈے پر عملدرآمد پر ہوتا ہے، یوں تو پاکستان کئی دہائیوں سے امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کرتا چلا آرہا ہے لیکن اس مرتبہ شاید امریکہ ہمیشہ کی طرح اپنے مقاصد مکمل سو فیصد  حاصل نہ کرپائے۔

 امریکی ایجنڈے کی عدم تکمیل کی ایک وجہ عوام میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت کا پایا جانا بھی ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی لوگ امریکہ سے نفرت کرتے تھے لیکن اس مرتبہ عوام  کے اندر خاصا اعتماد پایا جاتا ہے، اس اعتماد کی ایک وجہ پاکستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ اور ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی بندش بھی ہے۔ عوام کو اب یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم بھی بحیثیت قوم  ایک وزن اور حیثیت رکھتے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ کا تندوتیز لہجہ اور بھارت کی طرف نمایاں جھکاو بھی اس مرتبہ تعلقات کو سنوارنے  اور آگے بڑھانے میں آڑے آئے گا۔

امریکہ نے اس منطقے میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کے لئے گزشتہ چند سالوں میں  طالبان کا کنٹرول بھارت کے ہاتھوں میں دیدیا ہے۔اب طالبان یعنی مجاہد بھائی جان  بھارتی ایجنڈے کے مطابق پاکستانی و افغانی عوام کو کشت و خون میں غلطاں کرتے ہیں اور اس کا ملبہ حکومت پاکستان پر گرادیا جاتا ہے۔

پاکستان جو ایک عرصے سے اس منطقے میں امریکی و سعودی اتحادی تھا اور طالبان کے بنانے کے عمل میں برابر کا شریک تھا اس کے لئے یہ سب کچھ ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے افغانستان کے حساس مقامات پر طالبان سے حملے کروا کر امریکہ و افغانستان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اب بھی طالبان کے بعض دھڑے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور وہ یہ سب کارروائیاں ، پاکستان کی ایما پر  کر رہے ہیں۔

ان دنوں  افغانستان میں داعش کو بھی آباد کیا جا چکا ہے جو کبھی بھی پاکستان کی سیکورٹی اور سلامتی  کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے بجائے طالبان و داعش نیز بھارتی بالا دستی کے مسائل میں ہی الجھا رہے گا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی سلامتی سے کوئی دلچسبی نہیں ، لہذا امریکی ہمیشہ کی طرح محض احکامات صادر کریں گے  اور کوشش کریں گے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح ان حکمرانوں کے سامنے بھی پیسہ پھینکیں اور تماشا دیکھیں۔

پاکستان اگرچہ اقتصادی دباو اور مشکلات  کا شکار ہے تاہم اس مرتبہ صرف پیسے کی خاطر امریکیوں کی  ہاں میں ہاں ملانا آسان نہیں ہوگا اور اگر امریکیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی تو پاکستان کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکہ فقط یہ  چاہے گا کہ پاکستان اپنی  افغان پالیسی کو بھارتی احکام کے تابع انجام دے۔یہ پاکستان کے حکمرانوں کے لئے کڑے امتحان کا وقت ہے کہ وہ پیسہ لے کر بھارتی بالادستی کو تسلیم کر تے ہیں اور یا پھر انکار کر کے  اپنے لئے مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔

انکار کی صورت میں پوری ملت پاکستان کو ایک صبر آزما دور سے گزرنا پڑے گا ، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومیں مشکلات سے گزر کر ہی کندن بنتی ہیں۔

یہاں پر یہ بھی قابل ذکر نکتہ ہے کہ طالبان کے گوریلا کمانڈر جلال الدین حقانی کی موت کی خبر گزشتہ پانچ سالوں میں کئی مرتبہ چلائی گئی ہے لیکن اس مرتبہ امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان  سے صرف ایک دن پہلے افغا ن طالبان کی طرف سے حقانی کی ہلاکت کا باضابطہ اعلان بھی کسی اہم راز کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

المختصر یہ کہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے لئے ایک کڑوا گھونٹ ہے،اس گھونٹ کے بعد اس کے نتائج ناقابلِ یقین حد تک مثبت یا منفی ہو سکتے ہیں۔

امکان ہے کہ اس مرتبہ پیسہ پھینکو اور تماشا دیکھو کا منصوبہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) جہالت ہر درد کی ماں ہے،پسماندگی کی جڑ ہے،  شیاطین اور طاغوت کا ہتھیار ہے، انسان دشمنوں کا اوزار ہے اور انسان کی بدبختیوں کا سرچشمہ ہے۔ دینِ اسلام کسی طور بھی انسانوں کو جاہل رکھنے کے خلاف ہے۔ انسانوں کو دوطرح سے جاہل رکھا جاتا ہے، ایک یہ کہ تعلیمی داروں کو بند کر دیا جائے اور یا پھر انہیں غیر معیاری کر دیا جائے جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ  تعلیمی ادارے تو کھلے رہیں لیکن وہ  علمی معیارات کے بجائےتعصب ، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم اپنے نظریات لوگوں کے سامنے پیش کریں۔

ظہورِ اسلام سے پہلے لوگوں میں یہ وہم عام تھا کہ چاند گہن اور سورج گہن اس وقت لگتا ہے کہ جب زمین پر کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آتا ہے چنانچہ   جب نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ایک مرتبہ سورج گہن لگا تو اسی روز اتفاق سے آپ کے فرزند حضرت ابراہیمؑ کا انتقال بھی  ہوا  اور لوگوں نے یہ چہ مہ گوئیاں شروع کر دیں کہ یہ سورج گہن جنابِ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔

اس وقت نبی اکرمﷺ نے لوگوں کی جہالت کو دور کرتے ہوئے فرمایا:

سورج اور چاند خدا کی دو نشانیاں ہیں انہیں کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ہے۔[1]

اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کا جانشن اور وارث کہنے والوں کی یہ اولین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ببانگِ دہل عوامی جہالت کے خلاف آواز اٹھائیں اور جہالت کے مقابلے میں اپنا علمی نظریہ پیش کریں۔

عصرِ حاضر میں عوام اس مسئلے میں سرگرداں ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے بعد وہ کونسا نظامِ حکومت ہے جس کے نفاذ کے لئے تگ و دو اور کوشش کی جائے۔

میں نے اسلامی نظامِ حکومت کا پرچار کرنے والے بہت سارے لوگوں سے پوچھا  کہ بھائی دنیا تشنہ ہے، لوگ جاننا چاہتے ہیں، آپ بتائیں کہ عصرِ حاضر کے لئے اسلام کا مجوزہ نظامِ حکومت کیا ہے!؟ بعض نے کہا کہ بھائی ولایت و امامت ہی عصرِ حاضر کا مطلوبہ نظام ہے۔ میں نے خوش ہوتے ہوئے عرض کیا اچھا تو یہ بتائیں کہ ولایت کی واو پر فتحہ ہوتو اس کا کیا مطلب ہے اور کسرہ ہوتو س کا کیا مطلب ہے!؟ بہت سارے دانشور تو یہیں پر پھسل گئے ، اب جو رہ گئے ان سے ہم نے پوچھا کہ یہ جو نظام ولایت و امامت ہے آپ نص خاص کے ذریعے اس کے معتقد ہیں یا نص عام کے ذریعے ۔۔۔

کہنے لگے جب آمر ہوگا تو نظام آمریت ہوگا، بادشاہ ہوگا تو نظامِ بادشاہت ہوگا، جمہور ہونگے تو نظام جمہوریت ہوگا اسی طرح جب امام ہونگے تو نظامِ امامت ہوگا۔  اس پر ہم نے عرض کیا کہ کیا اس وقت امام ؑ موجود ہیں!!!؟

 کہنے لگے نہیں اس وقت عصر غیبت ہے اور ہمیں نص عام کے ذریعے نظام مرجعیت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔

امام مہدی علیہ السلام نے  سنہ260ہجری قمری میں اپنی امامت کے آغاز ہی سے شیعیان آل رسول(ص) سے اپنا تعلق نمائندگان خاص کے ذریعے محدود کیا ہوا تھا۔ آپ(عج) کے آخری نائب علی بن محمد سمری تھے جو 15 شعبان سنہ 329 ہجری قمری / 9 مئی 941 عیسوی کو وفات پاگئے۔

ان کی وفات سے صرف ایک ہفتہ قبل امام زمانہ(عج) کی جانب سے ان کی طرف ایک توقیع جاری ہوئی جس میں امام(عج) نے انہیں لکھا تھا:

علی بن محمد سمری! خداوند متعال تمہارے بھائیوں کو تمہارے حوالے سے [یعنی تمہاری وفات کے حوالے سے] اجر عطا فرمائے؛ کیونکہ تم 6 دن بعد وفات پاو گے؛ اپنے آپ کو تیار کرو اور کسی کو بھی اپنی موت کے بعد اپنا جانشین نہ بناؤ۔ کیونکہ ابھی سے غیبت کبری کا آغاز ہوچکا ہے، اور کسی قسم کا ظہور نہ ہوگا اس وقت تک جب خداوند متعال اذن عطا کرے گا۔ اور وہ [اذن] طویل مدت کے بعد ہوگا، جب لوگوں کے دل پتھروں جیسے ہوچکے ہونگے اور دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اور اس عرصے میں بعض لوگ میرے حامیوں (پیروکاروں) کی طرف آئیں گے اور دعوی کریں گے کہ انھوں نے مجھ سے ملاقات کی ہے؛ لیکن آگار رہو کہ جس نے بھی سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کا دعوی کیا وہ الزام لگانے والا اور جھوٹا ہے۔[2]

امام مہدی(عج) نے سنہ 329ہجری قمری میں چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد کسی نائب کا تعین نہیں کیا اور یوں عوام کے ساتھ آپ(عج) کا براہ راست تعلق بھی اور آپ(عج) کی وکالت خاصہ کا دور بھی اختتام پذیر ہوا۔ دوران غیبت کے بارے میں منقولہ روایات ـ منجملہ امام مہدی(عج) سے منقولہ ایک روایت ـ میں شیعیان اہل بیت کو دین و دنیا کے امور میں فقہاء سے رجوع کرنے پر مامور کیا ہے، غیبت کے دور میں امام مہدی(عج) کی نیابت عامہ کا منصب فقہاء نے سنبھالا۔

"عام" ’’عام ‘‘کی قید "خاص" کے مقابلے میں آئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اس دور میں کوئی بھی امام مہدی(عج) کی طرف سے خاص اور متعینہ نیابت کا عہدیدار نہیں ہے بلکہ جامع الشرائط فقہاء ـ جن کی شرطیں روایت میں منقول ہیں؛ امام عسکری(ع) نے فرمایا:

"فَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَى هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ یُقَلِّدُوهُ۔ [3]

ترجمہ: پس جو فقیہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور اپنے دین کا نگہبان ہو اور اپنی نفسانی خواہشات کا کی مخالفت کرے اور اپنے مولا کے فرمان کا مطیع و فرمانبردار ہو، تو عوا پر واجب ہے کہ اس کی تقلید کرے۔ اور ان شرائط پر پورے اترنے والے فقہاء عام طور پر نیابت امام زمانہ(عج) کے حامل ہیں۔
نتیجہ:۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عصرِ حاضر میں ہمارے پاس ہماری نجات کے لئے نظامِ مرجعیت موجود ہے۔ اگر کوئی نظام مرجعیت کی رعایت نہیں کرتا تو وہ در اصل نظامِ امامت سے ہی کٹ جاتا ہے۔ اس دور میں یہ مراجع عظام ہی ہیں جو یہ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کے کس خطے میں کونسا نظامِ حکومت مناسب ہے اور لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے یا نہیں، نظام مرجعیت کو نظرانداز کر کے اور پس پشت ڈال کر یا پھر  مسترد کر کے ہم نظامِ امامت تک نہیں پہنچ سکتے۔

عصر غیبت میں یہ مراجع کرام ہی ہیں جو دین کے چراغ، ہدایت کے ستون اور تحریکوں کے قطب ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے تمام تر مسائل میں مراجع عظام کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔

جب تک ہم نظام مرجعیت کے اتنظام و احترام پر پورےنہیں اترتے تب تک نظام امامت کی باتیں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے پہلی کلاس کے بچے کو پی ایچ ڈی میں داخل کرانے کی ضد کی جائے۔

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  خوشیاں منانے کا روز تھا، عید کا دن تھا، بازار بند تھے، مارکیٹیں سنسان تھیں، ہر طرف ہو کا عالم تھا، سکوت تھا، سناٹا تھا، خاموشی تھی اور اس خاموشی اور سکوت کے درمیان میں کچھ لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، میری طرح یقینا آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ عید کے دن غم کیسا! یہ جشن کے روز ماتم کیوں اور  یہ خوشی کے دن سیاہ پٹیاں کیوں! یہ لوگ بازار میں نکلے تھے  احتجاج کرنے، ظلم کے خلاف، بربریت کے خلاف ، دھاندلی کے خلاف، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اور ارباب اقتدار کی موج مستی کے خلاف ۔

عین اس وقت جب  مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کے مقام پر  قابض فوج نے نماز عید کے دوران نمازیوں پرآنسو گیس شیلنگ اور پیلٹ گنز سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور اس کے بعد وادی بھر میں بھارتی فوج اور نہتے کشمیریوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا اور بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے  تو  تو دوسری طرف  کوٹلی آزاد کشمیر کے  شہید چوک میں بھی  کچھ لوگ  محکمہ لائیو اسٹاک کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے، یہ ان کے احتجاج کا تیسرا دن تھا۔ یوں تو ہر طرف  ہی ظلم و زیادتی کا راج ہے لیکن ظلم کے خلاف بولنے والے اور آواز اٹھانے والے کہیں کہیں ہی نظر آتے ہیں ۔ ان چند لوگوں میں انجمن تحفظ حقوق عامہ کوٹلی آزاد کشمیر کے ممبران بھی شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق  علاقے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ  اور پانی کے قطع ہونے  کے علاوہ متعدد مسائل اپنے عروج پر ہیں جس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں بھی لوٹ کھسوٹ اور دھونس دھاندلی عام ہے۔

اس احتجاج کے پیشِ نظر فوری مسئلہ یہ تھا کہ   محکمہ لائیو اسٹاک کوٹلی کے دفتر میں خالی ہونیوالی چوکیدار کی آسامی پر ڈسٹرکٹ لائیو اسٹاک آفیسر سردار فرید نے آسامی کومشتہر کئے بغیر اپنے کسی عزیز کو  تعینات کیا ہے۔ قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ  اس آسامی سے ریٹائرڈ ہونے والی شخصیت سید شہپال حسین شاہ کے دو  جوان بیٹے   میرٹ پر پورے اترتے ہیں اور قانونی طور پر یہ ان کا حق بنتا تھا جسے نظر انداز کیا گیا اور اس پر عوام ِ علاقہ نے اخوت باہمی کے تحت احتجاج شروع کردیا جو آج چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیر ایک طرف تو گڈ گورننس کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف  سرکاری اداروں میں ڈنکے کی چوٹ پر میرٹ کو پامال کیا جاتا ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوامی  احتجاج کے باوجود اشرافیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور متعلقہ محکمے شکایات کا نوٹس تک نہیں لیتے ۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ محکمہ لائیو اسٹاک کے ریٹائر ہونے والی جس شخصیت کے بیٹوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ، ان کا ایک بیٹا کشمیرکی آزادی کی خاطر ہندوستان میں پچیس سال جیل کاٹ کر واپس آزاد کشمیر آیا ہے۔ اس طرح اس ستم دیدہ فیملی کے ساتھ  ہمدردی کے بجائے مزید ظلم یہ کیا گیا کہ بے روزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں اس خاندان کے میرٹ کو پامال کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین کے مطابق آزاد کشمیر میں اس طرح کی بے ضابطگیاں عام ہیں، جن پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی اور عام عوام خاموشی سے ان مظالم کو برداشت کرتی چلی آرہی ہے لیکن اب کی بار عوام نے احتجاج کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے جسے جاری رکھا جائے گا اورتمام مطالبات پورے ہونے تک عوامی و قانونی جدوجہد کے ساتھ عوامِ علاقہ کے حقوق کا دفاع کیا جائے گا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر نہ بنایا جائے اور عوامی حقوق کا احترام کیا جائے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہمارادشمن کون ہے ؟ کیا چاہتا ہے؟ اس کے مراکز کہاں ہیں؟ اس کے سرپرست کون ہیں؟ اس کی سہولتکاری کا کام کون انجام دے رہا ہے؟اس کی مدد کون کر رہاہے؟

آج دشمن مخفی نہیں آشکار ہے  اور اس کے مراکز و سہولت کار سب عیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے سرکاری ادارے  ملک و قوم کے دشمنوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے ہچکچا رہے ہیں،  اس ہچکچاہٹ کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ  خود ہمارے  اداروں کے اندر دشمنوں کے سہولتکار براجمان ہیں۔

 بحیثیت پاکستانی ہمارے دشمن وہی لوگ ہیں جو قیامِ پاکستان کے دشمن ہیں جو آئین ِ پاکستان کے باغی اور قائداعظم محمد علی جناح کے دشمن ہیں ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کوچہ و بازار میں ہمارا قتلِ عام کیا اور  جنہوں نے  آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے منھے طالب علموں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا اورکئی اساتذہ کو زندہ  آگ لگا دی ، جس کے بعد  اب آئے دن  یہ لوگ پاکستان میں تعلیمی اداروں  کو نذرِ آتش کرنے میں مصروف ہیں۔

گزشتہ دنوں  گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں دہشتگردوں نے 12 تعلیمی اداروں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگادی۔نجی ٹی وی کے مطابق دیامر میں چلاس کے علاقے داریل اور تنگی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے 10 تعلیمی اداروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کے بعد انہیں آگ لگادی جب کہ 2 کو تباہ کرنے کے لیے بارودی مواد بھی استعمال کیا۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے علاقے پشین میں پاکستان کے دشمنوں  نے لڑکیوں کے دو سکولوں کو آگ لگا دی یہ واقعہ چھٹی کے بعد پیش آیا۔اسی طرح بنوں میں بھی  ایک   پرائمری سکول کو بم سے اڑانے  کی کوشش کی گئی جسے بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکام بنا دیا۔

شدت پسندوں کے لئے  کارروائیوں اور فرار کی راہیں فراہم کرنے والے ہی ان واقعات کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ابھی پاکستان میں جو حالیہ انتخابات ہوئے ان میں بھی دہشت گردوں  اور شدت پسندوں کو  سیاسی میدان میں کودنے کی کھلی چھٹی دی گئی جس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو نذرِ آتش کرنے کی لہر بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ۸۶۷ حملے ہو چکے ہیں۔اس وقت پاکستان میں  سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 67 لاکھ سے زائد ہے، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میںسکولوں میں غیر معیاری نصاب تعلیم اور اسٹاف کی کمی سمیت دیگر شکایات عام ہیں،  ایسے میں تعلیمی اداروں پر حملے مزید کسی بڑے  تعلیمی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔

تعلیم قوموں کا زیور، انسانیت کاحسن، ترقی کی شاہراہ اور افراد کی طاقت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زمینی حقائق کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ آہنی و قانونی ہاتھوں کے ساتھ نمٹیں۔

جو لوگ  طالب علموں کو خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں، تعلیمی اداروں پر حملہ ا ٓور ہوتے ہیں، اور اساتذہ کونذرِ آتش کر تے ہیں، ایسے وحشی افراد کسی رعایت اور نرمی کے مستحق نہیں ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے اصلی دشمن ہیں۔

شدت پسندی ، پاکستان کے لئے ایک پرانا چیلنج ہے، اس کی جڑیں ہمارے سرکاری اداروں کے اندر سرطان کی طرح پھیلی ہوئی ہیں، ہمارے کسی بھی نئے وزیراعظم کے لئے سب سے کڑاچیلنج  بابائے طالبان اور شدت پسند سوچ کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔جب تک پاک سر زمین پر بابائے طالبان اور ان کے گماشتے آزاد گھومتے رہیں گے تب تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  ویژنری شخصیات کا اکھٹ دھرنوں سے لیکر سیاست تک نئے پاکستان کے نعرے اور عزم کے ساتھ کامیابی ہونے والی جماعت پی ٹی آئی وزارت عظمی کے لئے نامزد امیدوار عمران خان سے ملاقات کے لئےامریکہ کے علاوہ بہت سے قابل الذکرممالک کے سفیر وں نے ملاقات کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔بات صرف سفیر کی نہیں بلکہ اس وقت امریکی اسٹیٹ ڈیپارنمنٹ کا رویہ بھی روکھا سا ہے تو عالمی بینک سے پاکستان کے لئے ممکنہ قرضے کو لیکر پہلے سے ہی امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پیمپیو نے تحفظات دیکھانے شروع کردیے ہیں ۔بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی ذاتی مخاصمت تو نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اس خطے کے بارے میں امریکی نئی پالیسی اور پاکستان بعنوان ریاست کے اس پالیسی کواپنے قومی مفاد کے خلاف سمجھنا ہے ۔لیکن گذشتہ دو جماعتوں کے بارے میں اس بات کا امکان موجود تھا کہ وہ کسی نہ کسی لیول پر امریکہ کے ساتھ کمپرومائز کرسکتیں تھیں جو اب ختم ہوچکا ہے ۔عمران خان کاسلوگن پاکستان کا استحکام اور بیرونی مداخلتوں کو قبول نہ کرنا ہے جسے وہ نیا پاکستان کے نام دے دہا ہے یقینا یہ نیا پاکستان کسی بھی اعتبار سے خطے اور خاص کر افغانستان و پاکستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کے بالکل مد مقابل کھڑا ہے ۔

کہا جاسکتا ہے کہ خان کی نوخیز حکومت امریکہ کے ساتھ بچ بچاو کی پالیسی کو ترجیح دے گی نہ تو وہ مزید خلش پیدا کرنا چاہے گی اور نہ ہی امریکہ کے قریب جانا چاہے گی کیونکہ دونوں صورتوں میں نئے پاکستان کی تشکیل کا بنیادی ہدف متاثر ہوسکتا ہے ۔عمران خان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بہت سی قیادتی خامیوں کے باوجود وہ ایک ویژنری لیڈر ہیں اور اپنے مقصد کا پچھا کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں گرچہ ان میں افراد شناسی کو لیکر بڑی خامیاں پائی جاتیں ہیں جس کا تجربہ شائد وہ اپنی نجی زندگی میں بھی کرچکے ہیں ۔خان کے ساتھ پارلیمان سے ہٹ کر دو اور دینی ایسی قیادتیں موجود رہی ہیں جو بہت سے ایشوزمیں ان کی اچھی اتحادی شمار ہوتی ہیں اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یہ دونوں قیادتیں ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک ویژن رکھتی ہیں ۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری دو الگ مسلکوں سے تعلق رکھنے والی وہ شخصیات ہیںجو خاص مسلک کی نمایندگی رکھنے کے باوجودان کا ویژن وسیع اور ہمہ گیر ہے ۔

ان شخصیات کو دھرنے کے دوران بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑ ی تھیں اور شنید یہ بھی ہے کہ اس دھرنے کی درست مینجمنٹ اور بھونڈے اختتام سے بچانے میں ان سے ایک شخصیت کا انتہائی اہم کردار رہا ہے کہ جس کی دور رس نگاہیں کہتی تھی کہ اس کا نتیجہ سیاسی خودکشی کی شکل میں نکل آئے گا ۔علامہ قادری کے حالیہ انتخابات میں عدم شرکت اور زیادہ تر وقت بیرون ملک گذارنے کے سبب ہوسکتا ہے کہ کوئی بہت زیادہ کردار نئے پاکستان کی تشکیل میں دیکھائی نہ دے۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کہنے کو تو ایک مذہبی رہنما ہیں لیکن مذہبی رہنماوں کے بارے میں جو عام تاثر پایا جاتاہے اس سے بالکل الگ تھلگ ان کی شخصیت ہے ۔قرآن و سنت کے علوم پر وسیع اور گہری عمیق دسترس رکھنے کے علاوہ ایک دانشور اور مفکر ہیں کہ جن کی نگاہ ہمیشہ آنے والے حالات کو وقت سے پہلے پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ نہ صرف اس خطے کے حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ عالمی حالات پر بھی ان کہ گہری نگاہ ہواکرتی ہے ۔ان کا وسیع تر مطالعہ اور چار اہم زبانوں انگلش ،عربی فارسی اور اردو سے واقفیت کے ساتھ ساتھ پولیٹکل سائنس پر گرفت تو دوسری جانب تقریبا دس سالوں سے اپنی جماعت کی قیادت اور مختلف بحرانوں کے کنٹرول کی صلاحیت نے ان کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں کردیے ہیں ۔

ان کے بارے میں مشاہدات کچھ یوں ہیں کہ وہ سوچتے ہیں تو ایک پائے کے دانشور لگتے ہیں ،بحرانوں میں ایک زبردست لیڈر دیکھائی دیتے ہیں دینی حلقوں میں ایک زبردست عالم دین اور استاد و معلم جبکہ عام سماجی تعلقات میں ایک اچھے دوست ۔اس کی جماعت کے عام کارکن انہیں مرد قلندر اور خاک نشین کہتے ہیں کیونکہ وہ تمام تر پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے کارکنوں میں جلد گل مل جاتے ہیں ۔گذشتہ روز دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی حمایت مظلومین کانفرنس میں جو کچھ ان اس خطےخاص کر پاکستان کے حالات کے بارے میں انہوں نے کہا وہ انتہائی قابل توجہ ہے ان کا کہنا تھاکہ جس سیاسی لیڈرشب کا پیسہ بیرون ممالک میں ہے اور ان کے مفادات ان ملکوں سے وابستہ ہیں وہ ان کی پالیسیوں کے آگے جھکنے پر مجبور ہونگے ۔’’ان کا پیسہ وہاں پر ہے یہ لوگ عالمی قوتوں کے آگے دبتے ہیں کیونکہ ان کی کمزوریاں ان کے پاس ہیں ۔ان کی کرپشن کی فائلیں ان کے پاس ہیں ،ان کے اربوں روپےوہاں پر ہیں ۔ لہذا یہ عالمی قوتوں کےnationals interest قومی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنے ملک کے قومی مفادات کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بحرانوں کا شکار ہے ‘‘پاکستان کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کہا وہ موجود صورتحال میں انتہائی توجہ طلب ہے  ’’پاکستان ایشیا کا دل ہے پانچ ارب انسان کےcollectiviti  اکھٹ کا مرکز ہے ،پانچ ارب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے جہاں انرجی کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں اور جہاں deficiencyاور ضرورت ہے اور جہاں یہ چیز آپس میں ملتی ہے۔

ایشیا دنیا کا سب سے بڑابراعظم ہے ،وسائل کے اعتبار سے بھی آبادی کے اعتبار سے بھی تہذیبی اعتبار سے بھی ،لیبر بھی سستی ہے ۔ اہم مہارتوں کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی ایشیا میں ہیں ۔اور دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا مرکز بھی ایشیا ہے ،یہودیت یہاں پیدا ہوئی، عیسائیت یہاں پیدا ہوئی اسلام یہاں پیدا ہوا ،ہندوازم ،بدھ ازم ،سیکھ ازم ،حتی کہ کیمونزم بھی ایشیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ایشیا بہت امیر خطہ ہے ، طول تاریخ میں پاور ایشیا اور یورپ کے درمیان شفٹ ہوتی رہی ہے۔ اس وقت پاور کا سرکل ایشیا کی طرف آرہا ہے ۔امریکہ یورپ اور اس کے حامی اس طاقت کی منتقلی کو روکنا چاہتے ہیں۔ سست کرنا چاہتے ہیں اور اپنے غلبے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں ۔اسی بنیاد پر ایشیا کے جو اہم حصے ہیں ان کو destabilize غیر مستحکم کررہے ہیں اور گریٹر میڈل ایسیٹ بنارہے ہیں ۔توجہ چاہتا ہوںمیں ان دنوں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں a peace to end all peaceیعنی امن پورے امن کے خاتمے کے لئے یہ David Fromkin کی کتاب ہے جو امریکی ہے جس نے 1914سے لیکر 1922تک پہلی عالمی جنگ کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے ۔جس میں وہ لکھتا ہے یورپین یہ کہتے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ماڈرن میڈل ایسٹ پیدا ہوگا  اور وہ افریقی ممالک سے لیکر افغانستان اور وسطی ایشیا تک تھا جو دوسری جنگ عظیم میں اسرائیل بنے پر مکمل ہوا اور مسلمان ممالک چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہوگئے ۔

آپ دیکھ لیں افریقہ کے مسلمان ممالک سے لیکر وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک یہ آبای آپس میں جڑی ہوئی ہے اور اس مسلمانوں کی طاقت کو توڑ دیا گیا ۔ان کے اندر کیمونسٹ مومنٹس شروع کی گئیں نیشنلسٹ مومنٹس شروع کیں گئی تاکہ اسلامی سوچ مرجائے اور یہ الگ الگ ہوجائیں ۔کوئی ایرانی نیشنلسٹ کوئی عراقی نیشنسلٹ کوئی ترک نیشنلسٹ کوئی عرب نیشنلسٹ ۔۔کیا کیا بن جائے دوستو اب جو گریٹر میڈل ایسٹ کی بات ہورہی ہے تو بالکل وہی علاقہ ہے جو پہلے ماڈرن میڈل ایسٹ کہلایا تھا یعنی مراکش سے لیکر افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک اس کو reshapeتشکیل نو کرناچاہتے ہیں اور اگر وہ reshape اس کی دوبارہ تشکیل نہ کرسکے تو امریکہ ٹوٹ جائے گا ،یورپ بھی ایسے نہیں رہے گا ‘‘۔اب اہم سوال یہ ہے عمران خان نئے پاکستان کے سامنے موجود ان مشکلات کا مقابلہ کرنےکے لئے کس قسم کی ٹیم کو لیکر میدان میں اترتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جس وقت انہوں نے ولڈکپ جیتا تھا تو ٹیم انہوں نے خود تشکیل دی تھی اور اسے ایسے کھلاڑی میسر آئے تھے کہ جنہوںنے فتح دلانے میں کردار ادا کیا تھا تو کیا اس بار میدان سیاست میں بھی وہ ایک ایسی ٹیم تشکیل دے پاینگے ؟اور کیا اس وقت ان کے پاس اس قسم کی ٹیم موجود ہے ؟اگلے چھ ماہ ہی ہمیں عملی طور پر ان سوالات کا جواب فراہم کرینگے ۔۔۔ہمیں ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ نیا پاکستان کسی ایک شخص یا جماعت کی بس کی بات نہیں بلکہ پوری قوم کے مل جانے سے ممکن ہوگا اسی طرح عالمی طاقتوں کی پاکستان کو لیکر مزید دباو بڑھانے اور مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش بھی کسی ایک شخص یا جماعت کے سبب نہیں بلکہ ریاست پاکستان کیخلاف ہے لہذا پوری ریاست ہی ان موجودہ و ممکنہ بحرانوں کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔  


تحریروتحقیق: حسین عابد

وحدت نیوز (آرٹیکل)  عہد تمیمی کا نام گزشتہ کئی ماہ سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتا رہا، آخریہ عہد تمیمی کون تھی ؟ عہد تمیمی کا تعلق مقبوضہ فلسطین سے ہے کہ جہاں اس نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف اس کو صیہونی درندگی کا سامنا کرنا پڑا، ایک ایسی سرزمین کہ جہاں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کو بد ترین پامالیوں سے روند ڈالا جاتا ہے ، مقبوضہ فلسطین ایک ایسی سرزمین کہ جہاں پر بچوں کو بھی جیل خانوں میں قید کیا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ تک ان بچوں کو ان کے گھر والوں سے ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ عہد تمیمی ایک ایسے معاشرے میں جنم لے کر آئی کہ جہاں فلسطین کے مظلوم عوام کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں کی مدد سے کسی بھی وقت مسمار کیا جاتا ہے، حتیٰ ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ رات کو جب فلسطینی گھروں میں نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں تو ان کے گھروں کو صیہونی درندوں کے بلڈوزر مسمار کرنے پہنچ جاتے ہیں اور ان واقعات میں متعدد معصوم بچے اور معذور بزرگوں کی موت ملبے تلے دب کر واقع ہوتی ہے۔عہد تمیمی ایک سولہ سال کی فلسطینی نوجوان لڑکی ہے کہ جس نے سرزمین فلسطین پر اپنی پیدائش سے لے کر اپنی زندگی کے سولہ سالوں کو غاصب صیہونیوں کی جانب سے روا رکھے گئے بدترین مظالم اور وحشت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا ہے۔عہد تمیمی فلسطین کے باقی ان تمام بچوں جیسی نہیں رہی ، عہد تمیمی نے بچپن سے ہی مزاحمت کاری کے راستہ کو اپنایا اور یہ راستہ اس کو وراثت میں اس کے والدین کی جانب سے ملا ۔

آج بھی اگر انٹر نیٹ کی دنیا پر عہد تمیمی کی والد ہ ناریمان تمیمی اور والدباسم تمیمی کا نام لکھ کر سرچ کیاجائے تو ایسے درجنوں واقعات سامنے آئیں گے کہ جس میں اس خاندان کی جانب سے نہ صرف صیہونیوں کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کیا ہے بلکہ علاقے میں بسنے والے دیگر فلسطینیوں کو بھی حوصلہ دینے اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے میں اسی خاندان اور بالخصوص عہدتمیمی کی والدہ اور والد کا بڑا کردار رہا ہے۔واضح رہے کہ عہد تمیمی کی والدہ اور والد کو غاصب صیونی ریاست اسرائیل پہلے بھی قید و بند کی سزائیں دے چکی ہے ۔گذشتہ دنوں 29جولائی اتوار کو عہد تمیمی اور اس کی والدہ ناریمان تمیمی کو اسرائیلی جیل سے آٹھ ماہ کے بعد رہا کیا گیا ہے، عہد تمیمی کا جرم کیا تھا؟ عہد تمیمی نے بہادری اور شجاعت کی ایک ایسی مثال قائم کی تھی کہ جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ تاریخ فلسطین اور آزادی فلسطین کی جد وجہد میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔عہدتمیمی نے فلسطینی عوام کے ساتھ جبر و ستم کے ساتھ پیش آنے والے ایک غاصب صیہونی فوجی کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا اور اس جرم میں عہد تمیمی کو گرفتار کیا گیا اور پھر مختلف اوقات میں سنگین سزائیں اور نفسیاتی ٹارچر کیا جاتا رہا تاہم 29جولائی سنہ2018ء کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی قید سے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آزادی پا کر ایک مرتبہ پھر فلسطینی عوام سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں اور متوالوں کے لئے رول ماڈل بن گئی ہیں ۔ایک سولہ سالہ فلسطینی نوجوان بہادر لڑکی کا غاصب صیہونی فوجی کو تھپڑ رسید کرنا یقیناًایک قابل جرات اور شجاعت مندانہ عمل ہے جو ا س بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطین کی نئی نسل بھی پرانی نسلوں کی طرح جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور جد وجہد کو ترجیح دے رہی ہے اور یہ نسل نو کسی بھی طرح سے غاسب اسرائیل یا اس کے مدد گار امریکہ و مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی صیہونیوں کی مسلح مدد سے مرعوب نہیں بلکہ یہ نسل اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر نہتے ہی برسرپیکار رہنے کو عزت و شرف کا راستہ سمجھ کر فلسطین و القدس کے دفاع کے لئے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔

یہ عہد تمیمی اور ان جیسی سیکڑوں فلسطینی نوجوان بچیاں اور بچے گذشتہ کئی ہفتوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے ناجائز قائم کردہ بارڈر پر حق واپسی مارچ کا حصہ ہیں اور اس پاداش میں صیہونی غاصب افواج کی جانب سے مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاحال اس نسل نو کا حوصلہ پست کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے، بلکہ فلسطین کی نسل نو کے حوصلہ مزید بلند سے بلند ہو رہے ہیں اور وہ مزاحمت کاری کے عمل کو ہی اپنی بقاء اور فلسطین کی آزادی کا راستہ قرار دے رہے ہیں ، یہی کچھ دراصل فلسطین کی اس بہادربیٹی عہد تمیمی نے بھی انجام دیا۔فلسطین کی نئی نسل میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف جنم لینے والا جذبہ حریت اور مزاحمت دراصل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل مسلسل زوال کی طرف ہے ۔

جہاں ایک طرف صیہونی جعلی ریاست اسرائیل اپنے دفاع کی خاطر اب مختلف دیواریں بنا کر سہارا لے رہی ہے وہاں غزہ اور مغربی کنارے کے راستے کو جدا کر کے ناجائز سرحد کی تعمیر کے ذریعہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے لئے شکست کا ایک اور باب کھول لیا ہے اور خود کو مزید محدود کر لیا ہے۔یہی اسرائیل سنہ48ء سے پہلے اور بعد میں عظیم تر اسرائیل کی بات کرتا تھا آج عہد تمیمی جیسی بہادر نوجوان نسل کے سامنے تسلیم خم ہو رہاہے اور خود کو محدود سے محدود کرنے میں مصروف ہے۔یہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کہ جو چھ مسلمان ممالک کے ساتھ ہونے والی جنگ میں چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کر لیتا تھا او ر فتح حاصل کرتا تھا آج ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی کے ہاتھوں اس غاصب ریاست کے درندہ صفت فوجی تھپڑ کھا رہے ہیں اور اس پر شکست تو یہ ہے کہ آٹھ ماہ قید رکھنے کے بعد بالآخر فتح کس کی ہوئی ہے؟

اسرائیل پھر بھی شکست سے دوچار ہو اہے، جعلی ریاست اسرائیل کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں اور فلسطینی نوجوانوں کی جد وجہد رنگ لائی ہے اور عہد تمیمی کو اس کی والدہ کے ہمراہ آزاد کرنا پڑا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور دنیا کی بڑی مغربی طاقتیں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر دے کر اسے مزید طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اب اس جعلی ریاست اسرائیل کی حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک سولہ سال کی نوجوان لڑکی اسرائیلی غاصب فوجیوں سے نہتے ہی نبرد آزما ہے اور اپنے آہنی ہاتھوں کے تھپڑ ان صیہونی درندوں کو رسید کر رہی ہے۔یقیناًاسرائیل تاریخ میں اس سے زیادہ زوال کا شکار نہیں ہوا تھا کہ ایک پوری نسل جو کہ فلسطین میں مقبوضہ حالات میں جنم لے کر نوجوانی کی منزل گزار رہی ہے آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے درد سر بن چکی ہے اور اسرائیل کو کسی بھی محاذ پر چین و سکون میسر نہیں آ رہا۔عرب دنیا اور خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھی فلسطین کی اس بہادر اور شجاع نوجوان لڑکی عہد تمیمی کی رہائی فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور فلسطین کی نئی نسل کی ناقابل تسخیر کامیابی ہے جس پر اسرائیل کے حصے میں فقط ذلت و رسوائی کے کچھ اور نہیں رہا۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عہد تمیمی کی رہائی پر پوری پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور فلسطین کاز کے لئے سرگرم عمل تنظیم فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے عہد تمیمی کی صیہونی قید سے رہائی کو فلسطینی عوام کی عظیم کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کو مبارک باد پیش کی ہے۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree