وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں کی امریکہ ایران تنازعہ نے سر اٹھایا ہو، انقلاب اسلامی ایران کے بعد ہر سال یہ تنازعہ مختلف صورتوں میں رونما ہوتا رہا ہے اور اس کا انجام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست پر تمام ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور عالمی طاقتیں کبھی یہ نہیں چاہتیں کہ کوئی ملک خصوصا اسلامی ممالک خودمختار ہو جو عالمی طاقتوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرے، اور ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرے۔

 لہذا انقلاب اسلامی ایران کے بعد نظریہ انقلاب امریکہ و اسرائیل اور ان کے حواریوں کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گیا۔ انقلاب دشمنوں کی صبر کا پیمانہ کچھ مہینے پہلے لبریز ہوا جب ایران نے انقلاب کی چالیسویں سالگرہ منائی اور ان کی تمام تر پیشنگوئیوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔کچھ دنوں پہلے امریکہ نے ایرانی افواج پاسداران انقلاب کو بلیک لسٹ قرار دیا جس کے جواب میں ایران نے امریکی سنٹرل کمانڈ کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیا، یوں امریکہ ایران تنازع نے ایک دفعہ پھر سر اٹھایا ہے۔

یاد رہے امریکی سنٹرل کمانڈ انقلاب اسلامی کے بعد وجود میں آیا ہے اور اس کی جغرافیائی اسٹریکچر اسرائیل کے گرد گومتی ہے یعنی اس کے بنانے کا مقصد ایران سے کسی بھی ممکنہ خطرے سے اسرائیل اور امریکی مفادات کی تحفظ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، عراق جنگ سے لیکر مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیاء میں جتنی بدامنی و انارکی پھیلتی ہے یہ سب اسی کمانڈ سنٹر سے کنٹرول ہوتا ہے۔امریکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ایران پر دباء ڈالنا چاہتا تھا تاکہ ایران پریشر میں آکر کسی حد تک امریکہ کو تسلیم کرے لیکن ایسا نہیں ہوپایا۔ بلکہ برعکس ایران کی طاقت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا اور انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے ساتھ ساتھ عراق، شام، فلسطین، لبنان کے محازوں پر بھی امریکہ اسرائیل کو شکست دینے کا جشن منایا جس نے امریکی شکست اور بے بسی کو ساری دنیا کے سامنے واضح کیا۔

اب امریکہ دوبارہ اپنے جھوٹے دعوں کو سچ ثابت کرنے اور ایران کو محکوم کرنے کے لئے میدان میں کود پڑا ہے جس کا مقدمہ پاسداران انقلاب کو بلیک لیسٹ کرنے کے بعد عرب امارات کی بندرگاہ فجیرہ پر حملہ اور عراق سے اپنے تمام باشندوں کو انخلاء کا حکم، ایران کی طرف سے عراق میں امریکیوں پر ممکنہ حملے کے خدشہ کو ظاہر کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ فجیرہ پر چار جھازوں میں تخریب کاری کی کوشش کی گئی جن میں سے دو تیل بردار جہازوں کو شدید نقصان پہنچا اور یہ دونوں جہازیں سعودی عرب کی تھیں۔ کہتے ہیں کہ تخریب کاری کی یہ کوشش بھی امریکہ کی طرف سے بنایا گیا منصوبہ تھا تاکہ ایران کے خلاف اس کے دعوں کو سچ ثابت کر سکیں مگر ابھی تک اس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔

امریکہ زبانی حد تک تو ایران سے جنگ کرتا ہے مگر حقیقی میدان میں وہ ایران کے ساتھ دو بہ دو جنگ کو تیار نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے، جب انقلاب اسلامی نومولد تھا اور اُس نے آٹھہ سالہ عراق جنگ مسلط کیا تھا تب ایران کو شکست نہیں دے سکے تھے۔ ابھی تو ایران ایک ناقبل تسخیر طاقت بن چکی ہے جس کی میزائیلوں کی رینج میں امریکہ کا قلب اسرائیل موجود ہے اور کسی بھی امریکی جارحیت کا خمیازہ اسرائیل کو اٹھانا پڑے گا۔ لہذا کہتے ہیں کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے بلکل اسی طرح امریکہ نے مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے اوراسی لئے ایک دفعہ پھر سعودی عرب اور امارات کو آگے کیا ہے جس نے اپنی بادشاہت کی خاطر امریکہ و اسرائیلی غلامی کو قبول کیا ہوا ہے اور عالم اسلام میں اس وقت جو مشکلات ہیں ان کی اسی فیصد جڑیں انہیں ممالک سے ملتی ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں سعودی جہازوں کو نشانہ بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اسلامی ممالک کو ایران کے روبرو کھڑی کریں { واضح رہے کی ایران نے سعودی جہازوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی ہے اور اس تخریب کاری کی مخالفت کی ہے} اور خود جنگی طبل بجا کر پیچھے ہٹ جائے، لیکن اس میں ابھی تک امریکہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ بلکہ امریکہ کی طرف سے ان تمام تر جنگی خطرات کا ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہٰ ی نے صرف دو جملوں میں جواب دیا کہ " جنگ نہیں ہوگی اور مذاکرات ہم نہیں کرینگے"۔

دوسری طرف امریکی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کبھی جنگ کی دھمکی دیتا ہے تو تو کبھی تردید کرتا ہے، کبھی حملے کی بات کرتا ہے تو کھبی ٹرمپ اپنا فون نمبر دیتا ہے کہ ایرانوں سے کہیں وہ ان سے بات کریں۔ان سب کے باوجود میری نظر میں ابھی ایک خطرہ موجود ہے اور وہ سعودی اور عرب امارات کے خائن و بے وقوف حکمرانوں کی جانب سے ہے جو امریکی اور اسرائیلی باتوں کو کسی بھی چوں چرا کے بغیر تسلیم کرتے ہیں، کہیں ان کی مشوروں میں آکر مسلمان ممالک کو پھر کسی مشکلات سے دوچار نہ کر دیں۔

ابھی فجیرہ تخریب کاری کو گزرے کئی دن ہوئے ہیں اور کل واشنگٹن کی طرف سے بن سلمان کو کال کی جاتی ہے اور ایک گھنٹے کی طویل گفتگو کے بعد ان کو یاد آتا ہے کہ فجیرہ حملے اور یمنی ڈرون حملے کے حوالے سے عرب سربراہان کی ایمرجنسی میٹینگ ہونی چاہئے اور اس حملے کے حوالے سے لاحہ عمل طے ہونا چاہئے یعنی ایران کے خلاف ایک نئے محاز کا آغاز کرنا چاہئے۔ اگر یہاں پر اسلامی ممالک نے ذاتی مفادات کو بالائی طاق رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی نہیں سوچی تو ایک نئے فتنہ کا آغاز ہوسکتا ہے، لیکن اگر مدبرانہ اور مخلصانہ فیصلہ کیا گیا تو امریکہ کی شکست لازمی ہے۔ لہٰذا اب کچھ دن مزید انتظار کریں اور دیکھیں کہ حالات کہا تک پہنچتے ہیں اور عرب سربراہان کیا گل کھلاتے ہیں۔

 تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل)حضرت عباس علیہ السلام جو "ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند ہیں۔ حضرت عباس 4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔حضرت عباس،شیعوں  کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبت رکھتے ہیں اور اسی اعلی مرتبت کی بنا پرمحرم کا نواں دن آپ سے مختص کیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباس(ع) کی عزاداری کی جاتی ہے۔ شیعہ مصادر و منابع میں آپ سے متعلق بہت سے کرامات نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح آپ کو ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر، وفا کا پیکر اور امام معصوم کی اطاعت میں نمونۂ کاملہ سمجھا جاتا ہے۔آپ کو نہایت خوش چہرہ نوجوان ہونے کے ناطے قمربنی ہاشم کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کربلا میں اپنے بھائی حسین بن علی (ع) کی سپاہ کے علمدار اور سقا تھے اسی بنا پرشیعیان اہلبیت (ع)  کے درمیان علمدار کربلا اور سقائے دشت کربلا کے لقب سے مشہور ہیں۔ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی۔ کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

آج تک لوگ حضرت عباس علیہ السلام کی بہادری اور شجاعت کو مکمل عقیدت و احترام اور پورے جوش وجذبہ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا کہ جو اتنے زیادہ دکھ درد اور غموں سے چور ہونے کے باوجود ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہزاروں فوجیوں پر اکیلا ہی حملہ کر کے انھیں میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دے۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں جب بھی حضرت عباس علیہ السلام دشمن کی فوجوں پر حملہ کرتے تو ہر سامنے آنے والا موت کے گھاٹ اترتا اور فوجی خوف اور دہشت سے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے یوں بھاگتے جیسے سب کو یقین ہو کہ موت ان کے پیچھے آرہی ہے اور ان کی کثرت ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، جب حضرت عباس علیہ السلام نے تن و تنہا ہزاروں کے لشکر پر حملہ کر کے فرات کو دشمن سے خالی کیا تو تین دن کی پیاس اور شدید جنگ کرنے کے باوجود بھی فقط اس لیے پانی نہ پیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے اور اہل و عیال پیاسے تھے جناب عباس علیہ السلام کی وفا و غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال تو پیاسے ہوں اور وہ پانی پی لیں لہٰذا اپنے آقا اور بچوں کی پیاس کو یاد کرکے بہتے دریا سے پیاسے واپس آئے۔ دنیا کی پوری تاریخ کو ورق ورق چھاننے سے بھی اس طرح کی وفا کی نظیر نہیں مل سکتی کہ جس کا مظاہرہ جناب عباس علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں کیا۔جناب عباس علیہ السلام نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔

 پس جناب عباس علیہ السلام نے انسانیت کی آزادی،عدل و انصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشر و اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کی طرح شہادت کو اختیار کیا ۔جناب عباس علیہ السلام نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی اور عزت و سعادت کے میدان میں اترنے والے شہداء کے قافلوں کی قیادت کی اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت کو اپنا فریضہ سمجھا۔
جناب عباس علیہ السلام پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے خدائی دستور اور زمین کی ترقی کے لائحہ عمل کی خاطر میدانِ جہاد میں اترے۔ پس جناب عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ جس کے ذریعے حقیقی اسلام اور بنی امیہ اور سقیفہ کے خود ساختہ اسلام میں فرق واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے اصل وارث کے بارے میں ہر شک و شبہ ختم ہو گیا اور سقیفہ کے بنائے ہوئے ظلم و جور کے قلعے پاش پاش ہو گئے۔

حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر عظیم الشان خطبہ
«بسم الله الرّحمن الرّحیم»
«اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی شَرَّفَ هذا (اشاره به بیت الله الحَرام) بِقُدُومِ اَبیهِ، مَن کانَ بِالاَمسِ بیتاً اَصبَح قِبلَةً. أَیُّهَا الکَفَرةُ الفَجَرة اَتَصُدُّونَ طَریقَ البَیتِ لِاِمامِ البَرَرَة؟ مَن هُوَ اَحَقُّ بِه مِن سائِرِ البَریَّه؟ وَ مَن هُوَ اَدنی بِه؟ وَ لَولا حِکمَ اللهِ الجَلیَّه وَ اَسرارُهُ العِلّیَّه وَاختِبارُهُ البَریَّه لِطارِ البَیتِ اِلیه قَبلَ اَن یَمشیَ لَدَیه قَدِ استَلَمَ النّاسُ الحَجَر وَ الحَجَرُ یَستَلِمُ یَدَیه وَ لَو لَم تَکُن مَشیَّةُ مَولایَ مَجبُولَةً مِن مَشیَّهِ الرَّحمن، لَوَقَعتُ عَلَیکُم کَالسَّقرِ الغَضبانِ عَلی عَصافِیرِ الطَّیَران.اَتُخَوِّنَ قَوماً یَلعَبُ بِالمَوتِ فِی الطُّفُولیَّة فَکَیفَ کانَ فِی الرُّجُولیَّهِ؟ وَلَفَدَیتُ بِالحامّاتِ لِسَیِّد البَریّاتِ دونَ الحَیَوانات.هَیهات فَانظُرُوا ثُمَّ انظُرُوا مِمَّن شارِبُ الخَمر وَ مِمَّن صاحِبُ الحَوضِ وَ الکَوثَر وَ مِمَّن فی بَیتِهِ الوَحیُ وَ القُرآن وَ مِمَّن فی بَیتِه اللَّهَواتِ وَالدَّنَساتُ وَ مِمَّن فی بَیتِهِ التَّطهیرُ وَ الآیات.وَ أَنتُم وَقَعتُم فِی الغَلطَةِ الَّتی قَد وَقَعَت فیهَا القُرَیشُ لِأنَّهُمُ اردُوا قَتلَ رَسولِ الله صلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِه وَ أنتُم تُریدُونَ قَتلَ ابنِ بِنتِ نَبیّکُم وَ لا یُمکِن لَهُم مادامَ اَمیرُالمُؤمِنینَ (ع) حَیّاً وَ کَیفَ یُمکِنُ لَکُم قَتلَ اَبی عَبدِاللِه الحُسَین (ع) مادُمتُ حَیّاً سَلیلاً؟ تَعالوا اُخبِرُکُم بِسَبیلِه بادِروُا قَتلی وَاضرِبُوا عُنُقی لِیَحصُلَ مُرادُکُم لابَلَغَ الله مِدارَکُم وَ بَدَّدَا عمارَکُم وَ اَولادَکُم وَ لَعَنَ الله عَلَیکُم وَ عَلی اَجدادکُم.

ترجمہ
آپ علیہ السلام نے یہ خطبہ امام حسین علیہ السلام کی ۸ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری کو مکہ سے کربلا روانگی کے موقع پر خانہ کعبہ کی چھت پر جلوہ افروز ہو کر ارشاد فرمایا:حمد ہے اللہ کے لیے جس نے اسے (کعبے کو ) میرے مولا (امام حسینؑ) کے والد گرامی (امام علیؑ) کے قدم سے شرف بخشا جو کہ کل تک پتھروں سے بنا ایک کمرہ تھا ان کے ظہور سے قبلہ ہو گیا ۔اے بد ترین کافروں اور فاجروں تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امام کے لیے روکتے ہو جو کہ اللہ کی تمام مخلوق سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور جو اس کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اگر اللہ کا واضح حکم نہ ہوتا اور اسکے بلند اسرار نہ ہوتے اور اس کا مخلوق کو آزمائش میں ڈالنا نہ ہوتا تو یہی اللہ کا گھر خود اڑ کر میرے مولاکے پاس آجاتا لیکن میرےکریم مولانے خود اس کے پاس آکر اس کوعظمت بخشی بے شک لوگ حجراسود کو چومتے ہیں اور حجر اسود میرے مولا کے ہاتھوں کو چومتا ہے ۔ اللہ کی مشیت میرے مولاؑ کی مشیت ہے اور میرے مولا کی مشیت اللہ کی مشیت ہے خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تم پر اس طرح حملہ کرتا جیسے کہ عقاب غضبناک ہو کر اڑتا ہوا چڑیوں پر حملہ کرتا ہے اور تم کو چیر پھاڑ دیتا کیا تم ایسے لوگوں سے خیانت کرتے ہو جو بچپن ہی سے موت سے کھیلتے ہوں اور کیا عالم ہوگا ان کی بہادری کا جب کے وہ عالم شباب میں ہوں ؟ میں قربان کر دوں اپنا سب کچھ اپنے مولاءپر جو کہ اس پوری کائنات پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کا سردار ہے ۔ اے لوگوں ! تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کیا تم غور و فکر نہیں کرتے ( کیا موازنہ ہے خاندان یزیدلعنہ کا خاندان رسالتﷺ سے ؟ ) ایک طرف شراب پینے والے ہیں اور دوسری طرف حوض کوثر کے مالک ہیں ایک طرف وہ ہیں جن کا گھر لہو لہب اور سارے جہان کی نجاستوں کی آماجگاہ ہے اور دوسری طرف پاکیزگی کے جہان اور آیات قرانیہ ہیں اور وہ گھر جس میں وحی اور قرآن ہے اور تم اسی غلطی میں پڑ گئے ہو جس میں قریش پڑے تھے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور تم اپنے نبیﷺ کے نواسے کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہے ہو ۔ قریش اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ امیر المومنینؑ کی ہیبت و جلال کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور کیسے ممکن ہوگا تمہارے لیے ابا عبداللہ الحسینؑ کا قتل جب کہ اسی علی ؑکا بیٹا رسول ﷺکے بیٹے کی حفاظت پر مامور ہے اگر ہمت ہے توآؤ میں تمہیں اس کا راستہ بتاتا ہوں میرے قتل کی کوشش کرو اور میری گردن اڑاؤ تا کہ تم اپنی مراد پا سکو اللہ تمہارے مقصد کو کبھی پورا نہ کرے اور تمہارے آباء و اولاد کو تباہ کرے اور لعنت کرے تم پر اور تمہارے آباء و اجداد پر ۔


تحریر : ظہیرالحسن کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) گزشتہ دنوں ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ کیا۔اس دورہ میں مہمان وزیر اعظم کو ملک میں شایان شان پروٹوکول دیا گیا یقیناًوہ اسی کے مستحق تھے۔مہاتیر محمد بظاہر بہت ضعیف العمر شخص نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ توانا اور طاقت ور دکھنے والے مسلمان رہنماؤں سے کئی گنا زیادہ مضبوط اور طاقتور انسان ہیں۔مہاتیر محمد کی پاکستان سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔جب وہ پاکستان کے دورے پر تشریف آور ہوئے تو اس وقت خبریں گردش کر رہی تھیں کہ بھارت نے سفارتی ذرائع سے مہاتیر محمد کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیں یا کم سے کم ملتوی ہی کر دیں لیکن جواب میں مہاتیر محمد نے اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا کہ بھارت سے ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا نہیں، انہوں نے پاکستان سے اپنی والہانہ محبت اور اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کا اصولی موقف اپنائے رکھا اور بھارتی دشن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ ایسے وقت میں کیا کہ جب قرار داد پاکستان کی یاد گار منانے کے دن یعنی 23مارچ کی رسومات کیا دائیگی ہونا تھی اور یہ بھی طے تھا کہ مہمان وزیر اعظم افواج پاکستان کی پریڈ کا معائنہ بھی کریں گے اور اس تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے جبکہ دوسری طرف بھارت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان کے اس قومی دن کو خراب کیا جائے جس کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں نے کاروائیاں کر کے اس دن کی اہمیت کو سبو تاژ کرنے کی کوشش بھی کی اور دوسری طرف یہ تاثر بھی عام تھا کہ شاید بھارت یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد یا کسی اور شہر کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود مہاتیر محمد کی پاکستان سے بے مثل دوستی میں کوئی دراڑ قائم نہیں ہوئی ۔

انہوں نے قوم دن کی تقریبات میں شرکت بھی کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے عنوان سے سرگرمیوں کا حصہ بھی بنے۔پاکستان اور ملائیشیا میں جہاں اور کئی باتیں مشترک پائی جاتی ہیں وہاں ایک اہم ترین بات فلسطین سے دونوں ممالک کی نظریاتی وابستگی اہمیت کی حامل ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کی تحریک کے اوائل میں ہی فلسطینیوں کی زمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کی امریکی و برطانوی کوششوں کی کھل کر مخالفت اور مذمت کی تھی اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر مغرب کو لگتا ہے کہ صہیونیوں کے لئے الگ ریاست قائم ہونی چاہئیے تو پھر یہ فلسطین میں کیوں ؟ امریکہ یا برطانیہ کیوں اپنی زمین پر قائم نہیں کر لیتے؟ قائد اعظم نے کہا تھا کہ مسلمانان ہند فلسطین کے ساتھ ہونیو الی ناانصافی اور فلسطین کی سرزمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام پر خاموش نہیں بیٹھے رہیں گے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لئے جس قدر ہو گا جد وجہد کریں گے۔

مہاتیر محمد کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک ایسے وقت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد کو زندہ کیا ہے کہ جب پاکستان کی حکومت پر عرب ممالک کے بادشاہوں کی جانب سے امریکی دباؤ ڈالا جا رہاہے کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے راستے کھولے جائیں یا کم سے کم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے جائیں۔ اس کام کے لئے حکومت پر اندرونی اور بیرونی ذرائع سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا ۔سابق صدر پرویز مشرف کی نام نہاد قومی سلامتی پریس کانفرنس میں بھی حکومت پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے احوال میں بھی آیا ہے کہ عمران خان نے عادل الجبیر کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر سعودی عرب پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے تو بس کرے لیکن اسرائیل پاکستان تعلقات پر کوئی بات نہیں ہو گی۔مہاتیر محمد نے سرمایہ کاری کے عنوان سے بلائی جانے والی کانفرنس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں بیان کیا کہ ملائیشیا کا کوئی دشمن نہین سوائے اسرائیل کے۔

ان کاکہنا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیاہے۔دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہے ۔ہمارا اسرائیل کے سوا کوئی دشمن نہیں، باقی تمام ممالک سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے ہم نے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں مگر دوسروں کے ملک پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہوتا ہے۔ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے یہ کلمات یقیناًپوری ملائیشین قوم کی ترجمانی کر رہے تھے۔کیونکہ اگر مہاتیر محمد کی ملائیشیا کے حوالے سے جد وجہد کی بات کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔انہوں نے بھی عمران خان کی طرح اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کئے ہیں۔دراصل مہاتیر محمد کے ان جملوں میں بڑی تاثیر موجود تھی جو بیک وقت فلسطینی اور پاکستانی قوم کے لئے ایک سنگ میل کی حیچیت رکھتی ہے تو دوسری جانب اسرائیل اور بھارت کے لئے بھی سنگین پیغام رکھتی ہے۔مہاتیر محمد اپنے دورہ پاکستان سے قبل پاکستان بھارت کشیدگی اور فلسطین سے متعلق پاکستان پر عرب حکمرانوں کے دباؤ سے بخوبی آگاہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرمایہ کاری کانفرنس میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنا پیغام ہی نہین بلکہ پاکستان کا پیغام بھی پہنچا دیا ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا فلسطین کے بے مثال دوست ہیں اور اسرائیل ایک جعلی اور ڈاکوؤں کی ریاست ہے۔

دراصل مہاتیر محمد کے اس خطاب نے پاکستان کی اصل روح کو زندہ کیا کہ جس روح کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں دیکھا گیا تھا۔خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان بھی مہاتیر محمد کی طرح تحسین کے حق دار ہیں ۔کیونکہ مہاتیر محمد کی زبان سے ادا ہونیوالے تمام الفاظ کہ جن میں اسرائیل کی جعلی ریاست کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت پنہاں تھی نہ صرف مہاتیر محمد کے الفاظ تھے بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم اور عوام پاکستان کی ترجمانی بھی تھی۔اسی کانفرنس میں عمران خان نے مہمان وزیر اعظم کی خصوصیات بیان کی تھیں جن میں ایک خصوصیت یہ بھی بیان ہوئی تھی کہ مہاتیر محمد ایک ایسے بے باک اور بہادر لیڈر ہیں جو حق بات کہہ دیتے ہیں جبکہ بہت سے مسلمان ممالک کے حکمران ایسا کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔یقیناًمہاتیر محمد نے فلسطین کے حق میں بات کر کے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست کی حقیقت کو آشنا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ مہاتیر محمد پاکستان و فلسطین کے بے مثال دوست ہیں۔

 تحریر: صابر ابو مریم
 سیکرٹری جنرل
 فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) مسلمان بالکل تہی دست تھے،  1936ء و  1937ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مکمل طور پر شکست ہو چکی تھی، ۱۱ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع نہیں ملاتھا، اس شکست سے مسلم لیگ کا یہ دعوی بھی خطرے میں پڑ گیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آج کل کی طرح انفارمیشن اور رابطے کے وسائل بھی نہیں تھے، مسلمانوں کی سیاسی تربیت ،اجتماعی شعور  اور نظریاتی سدھار کے سامنے ہزار طرح کی رکاوٹیں تھیں۔

سیاست ،وطن، جمہوریت، آزادی، خودمختاری اور ملت کی ایک تعریف ہندو حضرات اور  کانگرسی علما اور دوسری تعریف   مسلم لیگ کے رہنما کر رہے تھے۔اگر بظاہر دیکھا جائے تو انتخابات میں شکست کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا، اپنے موقف سے عقب نشینی کر لینی چاہیے تھی اور اپنے نظریے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

بلکہ اس کے برعکس کانگرس کو  دو سال اور چند ماہ کے بعد  مستعفی ہونا پڑا اور مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 22 دسمبر 1939ء کو یوم نجات منایا۔اس کے بعد  آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس  تین دن کے لئے 22 مارچ۱۹۴۰ کو لاہور میں شروع ہوا۔اجلاس  کے ابتدائی سیشن سے  قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی خطاب  کیا، 23 مارچ کو مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی   جس کے بعد اس قرار داد کے حق میں تقاریر جاری رہیں اور  24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے یہ قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد لاہور کو اس وقت کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر  پیش کرنے کے لئے قراردادِ پاکستان کا نام دیا اور یوں یہی قراردادِ پاکستان ہی حصولِ پاکستان کے لئے مشعلِ راہ  بن گئی۔

۱۹۴۰ سے ۱۹۴۷ تک کے سات سالوں کے اندر مسلم لیگ نے مسلمانوں میں مطلوبہ  سیاسی بیداری بھی پیدا کی اور انہیں اس قرارداد کے مطابق ایک آزاد وطن بھی حاصل کر کے دیا۔ قائداعظم کی وفات کے چھے ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو دستور کے مقدمے کے طورپر قراردادِ مقاصد  منظور کی گئی اس قرارداد کےمطابق پاکستان نے ایک اسلامی جمہوریہ بننا تھا اور پہلا پاکستانی آئین  29 فروری 1956 کو منظور اور 23 مارچ 1956 کو اسے نافذ العمل ہوا۔چنانچہ    ۱۹۵۶ سے  تئیس مارچ کو سرکاری سطح پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا اوراس روز کوآج تک  کبھی ہم نے  یومِ جمہوریہ اور کبھی یوم پاکستان  کے نام سے منایا تاہم  اس دن کے ساتھ ہم آج تک  انصاف نہیں کرپائے، ہم نے نہ ہی تو اسلامی جمہوری اقدار کی پابندی کی اور نہ ہی پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی آبیاری کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم پاکستان کی کسی بھی سیاسی تنظیم کو پاکستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نہیں کہہ سکتے،  اور آج ہم پاکستان بننے کے  ۷۲ سالوں کے بعد بھی ایک قومی سطح کی قیادت کے حوالے سے بحران کے شکار ہیں۔

قراردارِ پاکستان کی روشنی میں پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو غیرِ خدا کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پناہ اور امان میں لانا اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہی قراردادِ مقاصد کا بھی لبِ لباب ہے  لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا پاکستان ہے ،جس میں آج بھی  قائداعظم کے مخالف کانگرسی علما کا قبضہ ہے،سیاسی پارٹیاں انگریزوں اور یورپ کی کاسہ لیس ہیں اور سیاسی لیڈر یوٹرن لینے پر عمل پیرا ہیں۔آج کا پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کا پاکستان نہیں بلکہ فرقوں، شدت پسندوں  اور دہشت گردوں کا پاکستان ہے، ہم بحیثیت قوم، قراردادِ پاکستان سے منحرف ہو چکے ہیں۔یہ انحراف اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اب  مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو نظریاتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے علاقائی مسئلے کے  طور پر پیش کرتے ہیں، ہم اب یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہم کس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اور کس کوچے میں کھڑے ہیں۔ہم اب تک اپنے ریاستی و نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں بھی فرق نہیں کر سکے، کہنے کو تو ہم نے ریاست ِمدینہ اور مدینہ  فاضلہ  کا خواب دیکھا تھا لیکن یقیناً ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے۔

منزل کھونے کا احساس بہت اہم ہے ،اس احساسِ زیاں کی حفاظت ضروری ہےلیکن فقط حالات کا نوحہ لکھنے، ماضی کا ماتم کرنے، کانگرس نواز مولویوں پر تنقید کرنے  اور حکمرانوں کو کوسنے سے تاریخ بدل  نہیں سکتی اور مستقبل سنور  نہیں سکتا۔اگر ہم نے  تاریخ کے دھارے کو بدلنا اور قومی مستقبل کو سنورنا ہے تو ہمیں  اپنے حال کو قراردادِ پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ہماری قومی ، سیاسی اور دینی  تنظیموں کو قرارداد پاکستان کو سامنے رکھ کر پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا بصورت دیگر اس کھوئی ہوئی منزل کو تلاش کرنا اور بھی دشوار ہو جائے گا۔جس طرح بیماری کے علاج کے لئے بیماری کا احساس ضروری ہے اسی طرح کسی بھی طرح کے زیاں کے جبران اور تلافی کے لئے اس زیاں کا احساس بھی ضروری ہے۔ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ جو قراردادِ پاکستان ہمارے اجداد نے پیش کی تھی ہم عملاً اس کو کھو چکے ہیں اب اس زیاں کی تلافی کا وقت ہے،قراردادِپاکستان سے لئے گئے ہر یو ٹرن نے ہمیں  ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں خزانوں کا خالی ہونا، تہی دست ہونا اور انفارمیشن و رابطے کی سہولتوں کا فقدان اتنا ضرررساں نہیں جتنا سیاسی رہنماوں کا اصولوں اور نظریات سے یو ٹرن لینا ہے، خصوصا ایسا یوٹرن جس کے بعد احساسِ زیاں بھی نہ رہے۔

 

تحریر:نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس کالم کو لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں خواتین کی عزت و عظمت اور آبرو سمیت ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہوں بلکہ یہ کالم اس لئے لکھ رہا ہوں تا کہ پاکستان میں عورت آزادی مارچ کے نام پر یا خواتین کے حقوق کے نام پر جو کچھ ننگ مارچ یا بے حیائی کا کلچر عام کرنے کی مغربی کوشش کی جا رہی ہے ا سکا کسی نہ کسی طرح راستہ روکا جائے اور ایوان حکومت تک کم سے کم کمزور ہی سہی آواز تو پہنچے۔آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی جانب سے اعلان کردہ ’’عالمی یوم خواتین‘‘ منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا جو مقصد اقوام متحدہ نے یا یوں کہہ لیجئے کہ اس دن کو قرار دلوانے والی استعماری حکومتوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ خواتین کو آزادی دینے سمیت خواتین کو مردوں کے برابر لانے کی بات کرتے ہیں یعنی ایک عورت اور مرد برابر ہوں ۔بظاہر تو یہ نعرے دل کو لبھانے والے ہیں ۔اور ان نعروں کو زیادہ اثر خود مغربی ممالک کے بجائے ہمارے مشرقی اور ایشیائی ممالک میں زیادہ نظر آیا ہے کیونکہ یہاں کی عورتوں نے اگر کسی کو اپنا آئیڈیل بنا رکھا ہے تو وہ مغرب کی عورت کو کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک کی خواتین نے اپنی ثقافت اور مذہبی روایات و رسوم کو فراموش کر دیا ہے اور مغرب کے دل لبھانے والے نعروں کی زد میں آ کر یہاں بھی آزادی آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ہیں۔

آٹھ مارچ سنہ2019ء کو مغربی استعماری قوتوں کی پیروی کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن بھی منایا گیا اور اس میں سب سے نمایاں کام ’’عورت آزادی مارچ‘‘ تھا جو ملک کے مختلف بڑے شہروں میں دیکھنے میں آیا ۔اس عورت آزادی مارچ کو ننگ مارچ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گاکیونکہ یہاں شریک خواتین کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز اور بینر ز آویزاں تھے ان پر بے شمری و بے حیائی پر مبنی ایسے نعرے درج کئے گئے تھے کہ جنہیں زباں بیان کرنے سے قاصر ہے۔عورت آزادی مارچ کے نعروں سے مقاصد واضح ہو چکے ہیں کہ در اصل ان کا ایجنڈا پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر عام کرنا ہے۔گذشتہ برس بھی اس طرح کے بے ہودہ اور فرسودہ نعروں کا استعمال کیا گیا تھا تاہم اس برس بات حد سے آگے نکل چکی ہے اور صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خواتین نے ہی اس خواتین مارچ کو مسترد کر دیا ہے اور اس وقت سوشل میڈیا پر خواتین کی بہت بڑی تعداد اس عورت آزادی مارچ یا ننگ مارچ پر شدید تنقید کر رہی ہیں کیونکہ کوئی بھی باعزت اور غیرت مند عورت اس طرح کی توہین کو برداشت نہیں کر سکتی ۔

آخر مغرب کو کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ انہوں نے عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کیا اور دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کی عورتوں کو اس کے جھانسہ میں لے کر انہیں اس قدر ورغلایا ہے کہ اب یہ خواتین اپنی آزادی کے نام پر بے حیائی کے کلچر کو عام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔مغرب اور استعمار گر قوتیں ہمیشہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں رہی ہیں اور اس کام کے لئے انہوں نے جنگوں سمیت نت نئے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے جس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔اب جدید دنیا میں انہوں نے سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کو اس کام کے لئے ایک مشن کے طور پر استعمال کیا ہے ۔بہر حال مغرب کا آزادئ نسواں کا یہ نعرہ جہاں مشرق کے دیگر ممالک میں پھیلا ہے وہاں اس نے مسلمان آبادی والے ممالک میں براہ راست اسلام کی خواتین سے متعلق حقوق اور فکر کو بھی حملہ کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ دراصل مغربی استعماری ممالک کا بنیادی ہدف بھی تھا۔آخر یہ مغرب کی بتائی ہوئی آزادی کس طرح کی آزادی ہے ؟ کیا مغرب کی طرح جس طرح عورت کا استحصال کیا جاتا ہے کیا اسی طرح کی آزادی پاکستان میں بھی مانگی جا رہی ہے ؟ کیا پاکستانی معاشرے کی عورت یہی چاہتی ہے کہ جس طرح مغرب میں عورت کو جنسی ہوس اور بھوک کے لئے استعمال کیا جا رہاہے اسی طرح کی آزادی یہاں بھی ہونا چاہئیے ؟ کیا پاکستانی معاشرے کی عورت واقعی یہی چاہتی ہے کہ مغرب و یورپ کی طرح پیدا ہونے والی اولادیں جن کو اپنے حسب نسب کی شناخت نہیں ہوتی اسی طرح کی اولادیں یہاں بھی آزادی کے نام پر پیدا ہوں ؟ یا یہ کہ جس طرح مغربی او ر یورپی ممالک نے عورت کو سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت اور ترقی کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کام کے لئے وہاں کی عورت کو جو کچھ کرنا پڑے وہ اس کو ننگ و عار نہیں سمجھتی تو کیاپاکستان مین بسنے والی خواتین بھی اسی طرح ایک آلہ کار بن کر استعمال ہونے کو ترجیح دیں گی؟۔میرا اپنا ذاتی خیال یہی ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے کی عورت اس طرح کی آزادی لینے سے بہت خود کو اس سے دور رکھنا ہی بہت عافیت جانے گی ۔لیکن کیا کریں کہ کچھ مغرب زدہ پاکستانی خواتین نے مغرب اور یورہپ کے ناپاک عزائم کو بڑھاوا دینے کے لئے آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر فحاشی اور بے حیائی کو عام کرنے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اس طرح کی بے حیاء خواتین کو ان کی اپنی کلاس میں ماڈرن یا پھر آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے ۔

حالانکہ اگر یہی پاکستانی معاشرے کی مسلمان عورت اسلام کی بنیادی تعلیمات کو مطالعہ کرے اور اس کے بارے میں ادراک و فہم حاصل کرے تو اس کو اندازہ ہو گا کہ دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی ایسی فکر یا سوچ موجود ہی نہیں ہے کہ جس نے سب سے زیادہ حقوق خواتین کے لئے دئیے ہیں، شاید آج کی مغرب زدہ پاکستانی عورت یہ بھول چکی ہے کہ یہ اسلام ہی تھاکہ جب آیا تو بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ورنہ زمانہ جاہلیت میں اور مغرب کے افکار آزادئ نسواں میں کوئی فرق نہ تھا۔اسلام نے خواتین کے حقوق اور عظمت کو اجاگر کیا ہے لیکن آج کی مغرب زدہ عورتیں اپنی عزت کو خود چند نعروں کے عوض کھلے بازاروں میں تاراج کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔اسلامی تعلیمات نے عورت کو معاشرے کا عظیم فرد قرار دیا ہے جبکہ مغرب عورت کو پست ترین کردار کے طور پر پیش کر رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ چند مغرب زدہ خواتین مغرب کے اس بہلاوے میں اپنی عظمت کو تاراج کر رہی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں معاشروں کی پرورش کی ذمہ داری عورت کے کاندھوں پر ہے اور کہا جاتا ہے کہ عورت کی آغوش میں ہی اصل معاشرہ ترویج پاتا ہے اب اگر یہی عورت مغرب کے آزادی نسواں کے نعرے کا شکار ہو کر ننگ و بے حیائی کو پروان چڑھائے گی تو پھر پاکستانی معاشرہ میں پروان چڑھنے والی نئی نسلوں کا کیا ہو گا؟دنیا میں کئی ایک انقلاب آئے جن میں سے اسلامی دنیا میں آنے والا انقلاب ایران میں آیا جس کے بارے میں اس انقلاب کے بانی امام خمینی نے کسی صحافی کو سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میری فوج ماؤں کی گو دمیں ہے ۔کیونکہ آپ جانتے تھے کہ عورت کی آغوش ہی ایک اچھے اور یا پھر برے انسان کو پروان چڑھا سکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کہتی ہیں کہ عورت کی ذمہ داری مرد پر ہے اور مرد کا کام ہے کہ وہ محنت ومشقت کرے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے رزق کی تلاش میں محنت کرے جبکہ ایک عورت بھی گھر کی چار دیواری اور چادر کا تقدس رکھتے ہوئے گھر میں مشقت کرتی ہے یعنی وہ گھر کے کام کاج سمیت معاشروں کو اچھے انسان دینے کے لئے تربیت کرتی ہے۔اب اسلام کی تعلیمات کی رو سے دیکھا جائے تو مرد گھر سے باہر مشقت کرتا ہے تو عورت گھر کے اندر رہ کر مشقت کرتی ہے دونوں کی برابر مشقت ہے اور دونوں کے مشترکہ جدوجہد سے ایک خوبصورت معاشرہ پروان چڑھتا ہے اور عورت کو اپنے تحفظ کا احساس بھی رہتا ہے جبکہ پاکستان میں موجود چند ایک مغرب زدہ عورتیں شاید یہ سمجھ رہی ہیں کہ ننگ مارچ کر کے اور بے حیائی کے نعروں کو پلے کارڈز پر نشر کرکے شاید پاکستان کی یا اپنے گھرانے کی کوئی خدمت کر رہی ہیں تو انہیں جان لینا چاہئیے کہ مستقبل قریب میں ان کو اس بے حیائی اور فحاشی کے پروان چڑھانے کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں جن میں  حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ سیوطی آیت کریمہ "وَلَتَعْرِفَنَّ هُمْ فىِ لَحْن ِالْقَوْل" اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے، کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے۔(1) اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے، "ما کنا نعرف المنافقین علی عهد رسول الله(ص) الا ببغضهم علی ابن ابی طالب(ع)" ۔(2) پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

نسائی (متوفی 303ھ) نے خصائص امیرالمومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرار دیا ہے اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے تین  حدیثیں نقل کرتے ہیں، جن میں آپ ؐفرماتے ہیں، امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا (اسی طرح) منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے۔(3) خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں۔(4) جن کے مضامین اس طرح  کے ہیں:
1۔ انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عامة۔ حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے۔
2۔ لو اجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار۔ اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتے، تو خداوند جہنم کو خلق نہ کرتا۔
3۔ اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر (جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری) عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفا و مروہ  کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن (حضرت) علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

4۔ (من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی) جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے۔
5۔ (ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء) ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے۔
6۔ (من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن) جو شخص پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہو مگر علی ابن ابی طالبعلیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے۔
 اسی طرح شبلنجی شافعی  نے نور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیا ہے:
1۔ مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے، (والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق) خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی مجھ سے بغض نہیں کرتا۔
2۔ ترمذی ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں، (کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا)۔ (5) ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بےشمار حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔(6) کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھے گرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت  رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کو نفاق کا معیار سمجھا گیا۔ اس صورتحال میں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے تھے۔ گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے نزدیک آپ  سب سے زیادہ عزیز تھے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔

ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ (7) کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہٰذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیئے۔ محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ  کی تلاوت کی اس کے بعد کہا، پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔(8) اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ اس نے جواب دیا، ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے، علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔(9)

پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے، اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔ "ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثرهم علما و افضلهم حلما"(10) اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ (11) جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، "انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظمکم عند الله فریة" حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتا ہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیادہ برتر ہے۔

جابر اس کے بعد کہتے ہیں کہ آیت شریفہ "إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة" حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے "قد جاءخیر البریة" (12) اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاں سب کو بیان نہیں کر سکتے۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتے تھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے، اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہوا تھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہ علی علیہ السلام کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتے رہتے تھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب و کامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
2۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
3۔ خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
4۔ المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
5۔ نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
6۔ الریاض النضرۃ  ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
7۔ آل عمران 61۔
8۔ البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
9۔ طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
10۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
11۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
12۔ خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔

Page 11 of 70

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree