وحدت نیوز (آرٹیکل) آیت اللہ سید علی خامنہ ای جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے آئینی رہبرِ اعلی ہیں وہیں عالم تشیع کے فقیہ اور مرجع تقلید بھی ہیں۔ ایرانی نظامِ حکومت میں ملک کا سب سے بڑا منصب ولی فقیہ کا ہے جس پر ایک جامع الشرائط مجتہد بلواسطہ منتخب کیا جاتا ہے۔ (اہل علم کے درمیان ولی فقیہ کے انتخاب کے حوالے سے دو علمی نظریات پائے جاتے ہیں لیکن ہر دو صورت میں عملی نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب 88 رکنی مجتہدین کی شورای اکثریت رائے سے ایک جامع الشرائط مجتہد کو ولی فقیہ کے عہدے کے لیے چنتی ہے)۔ آیت اللہ خامنہ ای کی بطور ایک سیاسی رہنما خصوصیات کے علاوہ ان کی علمی حیثیت اور تقویٰ و پرہیز گاری بطور خاص دنیا بھر خصوصاً عالم اسلام اور خصوصاً عالم تشیع میں ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی بنیادی وجہ ہے۔ یعنی آیت اللہ خامنہ ایک دینی مرجع تقلید اور جامع الشرائط مجتھد ہونے کے ناطے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میں خاص قدر و منزلت کے حامل ہیں۔
گزشتہ چند دن سے کچھ پاکستانی اخباروں اور سوشل میڈیا کی خبروں میں آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں سے متعلق ایک خبر زیرِ گردش ہے۔ اس خبر کے مطابق ایران کے رہبرِ اعلی آیت اللہ خامنہ ای 2 کھرب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ اس خبر میں بتایا جا رہا ہے کہ بظاہر سادگی اور کفایت شعاری کی تلقین کرنے والے آیت اللہ خامنہ ای کے کل اثاثے ملکی قرضوں سے دوگنا اور مجموعی ملکی برآمدات سے زیادہ ہیں۔ اس خبر کا ذریعہ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے سے جاری اعداد و شمار بتایا جارہا ہے۔ پہلی نظر میں یہ خبر انتہائی پریشان کن ہے کہ ایک دینی رہنما اور فقیہ کے اتنے اثاثے کیسے اور کیونکر ہوسکتے ہیں؟۔ اسی پریشانی اور تشویش کیوجہ سے صبح سے متعدد احباب رابطہ کرکے تفصیلات پوچھ اور اس پر چند معلومات جمع کر کے ارسال کرنے کا تقاضا کر چکے ہیں۔ اسی تقاضے کے پیشِ نظر اس حوالے سے چند معلومات آپ عزیزوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے نے 25 اپریل سنہ 2019 کو اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کے ذریعے یہ بیان دیا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے کل اثاثے 2 کھرب امریکی ڈالر ہیں جبکہ ایران میں بہت سارے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ فیس بک کی اس پوسٹ کے مطابق کرپشن نے ایرانی نظام کو جکڑ رکھا ہے اور یہ نظام کے ہر حصے تک سرایت کر چکی ہے۔ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای پر اس الزام کی دلیل کیا تھی؟۔ اس کی بنیاد کس ادارے کی کونسی تحقیقات تھیں؟ عراق میں قائم سفارت خانے کی جانب سے ایک تیسرے ملک کے سربراہ کے بارے ایسے بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ وغیرہ وغیرہ جیسے سوالات سے فی الحال صرف نظر کرتے ہیں اور اس حوالے سے اسی قوی احتمال پر اکتفاء کرتے ہیں کہ یہ امریکی سفارت خانے کا ایک سیاسی بیان تھا جس کی بنیاد کسی قسم کی حقیقی تحقیقات نہیں تھیں۔ ورنہ وہ تحقیقات ضرور سامنے لائی جاتیں تاکہ اہل علم و دانش اس کی صحت پرکھ سکتے۔ عراق کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے اسی وقت امریکی سفارت خانے کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای پر اس الزام کو بے بنیاد اور دینی مرجعیت کی توہین قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی تھی۔
اس سے قبل دسمبر 2018 میں امریکی وزارت خارجہ نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان کے ذریعے آیت اللہ خامنہ ای پر کھربوں ڈالر اثاثوں کا الزام لگایا تھا۔ قبل ازیں نومبر 2013 میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کے عنوان سے 12 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں آیت اللہ خامنہ ای کے تحتِ اختیار ایک مالی اور فلاحی ادارے "ستاد اجرائی فرمان امام خمینی رح" کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس ادارے کے کل اثاثے 95 ارب ڈالر ہیں اور یہ ادارہ فردِ واحد آیت اللہ خامنہ ای کی ملکیت ہے۔ کیا یہ ادارہ آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت ہے اور وہ اس سے ذاتی مفاد لیتے ہیں؟۔ اس سوال کے جواب کے لیے اس ادارے کی قانونی حیثیت اور عملی فعالیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ایرانی دستور کی دفعہ 49 کے مطابق "حکومت پر لازم ہے کہ وہ ربا، غصب، رشوت، فراڈ، چوری، اموات کے اموال کی فروخت سے حاصل، موقوفات کے غلط استعمال کے ذریعے ہتھیائی اور سرکاری عہدوں کے غلط استعمال سے کمائی جانے والی دولت کو لیکر اس کے حقدار تک پہنچائے اور اگر مال کا کوئی مالک نہ ہو تو وہ مال بیت المال کو منتقل ہو جائے گا۔ اور یہ کام قانونی تشریفات اور تحقیقات اور شرعی قانونی ثبوتوں کی بنا پر انجام دیا جائے گا۔" شیعہ مکتبِ فکر کے علمی نظریے کے مطابق بیت المال کے تصرف کا اختیار صرف حاکمِ شرع کو حاصل ہے اور ایرانی نظام حکومت میں ولی فقیہ کو حاکم شرع کی حیثیت حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 49 پر عملدرآمد کے لیے ایران کی منتخب پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق چار طرح کے اموال ولی فقیہ سے متعلق ہیں۔ 1) حکمِ حکومتی سے حاصل کئے گئے اموال، 2) آئین کے آرٹیکل 49 پر عملدرآمد کے ذریعے حاصل ہونے والے اموال، 3) مجہول المالک، بلا صاحب اموال اور ارث بلا وارث، 4) خمس اور اہل ذمہ سے حاصل ہونے والے اموال۔
دنیا بھر کی طرح ایران میں بھی ان اموال کی جمع آوری اور مصرف کے لیے ایک قانونی میکانیزم ایجاد کیا گیا ہے۔ اس میکانیزم کو نافذ کرنے کے لیے جو ادارہ بنایا گیا ہے اس کا نام "ستاد اجرایی فرمان امام خمینی" ہے جو عہدے کے لحاظ سے سپریم لیڈر کے تحتِ اختیار ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کو رہبر معظم انقلاب منصوب کرتے اور یہ ادارہ آئینی لحاظ سے انہی کی زیرِ نگرانی چلتا ہے۔ ستاد اجرایی فرمان امام خمینی دو مختلف فیلڈز معاشی اور فلاحی شعبوں میں فعالیت کرتا ہے۔ معاشی شعبوں میں فعالیت کے لیے ملکی قانون کے مطابق 37 کے قریب معاشی کمپنیاں بنائی گئی ہیں جو ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دواسازی، تعمیرات، بینکنگ و چند دیگر شعبوں میں فعالیت کرتیں اور ملکی قوانین کے مطابق حکومت کو ٹیکس ادا کرتیں ہیں۔ ان کمپنیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سینکڑوں فلاحی شعبوں میں خرچ کی جاتی ہے۔ ستاد اجرایی فرمان امام خمینی مالی امور کے لحاظ سے عدلیہ سے وابستہ شعبہ احتساب کے سامنے جبکہ اندرونی طور پر سپریم کورٹ کے چند (ر) ججوں پر مشتمل نگران کونسل کے سامنے جوابدہ ہے۔
ستادِ اجرایی فرمان امام خمینی (رح) سپریم لیڈر کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی اب تک سپریم لیڈر کی جانب سے اس ستاد سے کوئی ذاتی مالی فائدہ اٹھانے کا ثبوت سامنے آیا ہے بلکہ یہ ستاد عہدے کے لحاظ سے سپریم لیڈر کے زیر اختیار ایک عام المنفعہ ادارہ ہے جس کے ذریعہ بیت المال میں شامل اموال کو ریگولائز کیا جاتا ہے۔ روئٹرز کی رپورٹ میں ایک عام المنفعہ ادارے کی ثروت کا حساب کتاب کر کے اسے آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت قرار دئیے جانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ایسے ہی جیسے ہم کسی وزارت خانے کے مجموعی اثاثوں کا تخمینہ لگا کر انہیں وزیر کی ذاتی ملکیت قرار دے دیں۔ قاری کی توجہ حاصل کرنے اور رپورٹ کو معتبر دکھانے کے لیے بعض جگہوں پر حقیقت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے بطور مثال اس رپورٹ میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے کہ "ستادِ اجرایی فرمان امام خمینی رح کے اثاثوں سے آیت اللہ خامنہ ای کے ذاتی استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے" جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ اثاثے آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں کیونکہ اگر ذاتی ہوتے تو وہ ان کا ذاتی استعمال کرتے۔ اس رپورٹ کے تناقض اس رپورٹ کو ناقابلِ اعتبار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح روئٹرز کی رپورٹ میں متعدد دوسری جگہوں پر بھی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔
پاکستانی اخباروں کے لیے خبر جعل کرنے والے نے فیس بک کی ایک مبہم پوسٹ کو بنیاد بنا کر ایک دینی رہبر اور عالم تشیع کے مرجع تقلید پر الزام لگایا ہے جو باعث افسوس اور صحافتی اقدار کے خلاف ہے کہ ایک اہم بین الاقوامی شخصیت پر بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے اتنا بڑا الزام لگا دیا جائے۔ یہ خبر جعل کرنے والے کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کی مالیت ملکی قرضوں سے دوگنا ہے یعنی بقول اس کے آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کی مالیت 2 کھرب ڈالر ہے تو ایران پر 1 کھرب ڈالر قرضہ ہونا چاہیے جبکہ بین الاقوامی اداروں کے آخری اعداد و شمار کے مطابق ایران کا ملکی قرضہ صرف 10 ارب ڈالر ہے۔ خبر بنانے والے نے یہاں بھی غلط بیانی سے کام لیا جو اس کی بدنیتی کی دلیل ہے۔
ایران سمیت ہر ریاست کے حکمران قابلِ تنقید اور قابل اعتراض ہیں۔ اس سے کفر صادق آتا ہے نہ کوئی بین الاقوامی یا قومی جرم سرزد ہوتا ہے لیکن کسی رہنما کے بارے خصوصاً ایک دینی رہبر اور فقیہ کے بارے بات کرتے ہوئے پیشہ وارانہ اصولوں اور اقدار کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لیکن پیسے اور شہرت کی لت نے ہمارے معاشرے سے اصولوں اور اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا حقیقی اثاثہ ان کی علمی حیثیت، پرہیز گاری اور دنیا کے کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دل میں ان کی محبت اور ان سے عشق ہے جو کسی خبر رساں ادارے کے تخمینوں میں آسکتا ہے نہ چھینا جاسکتا ہے۔ کچی دیواروں کے دو کمروں کے گھر میں رہنے والا یہ درویش سید ریاست کا منتخب آئینی سربراہ ہونے کے باوجود خزانہ داری سے تنخواہ لیتا ہے نہ کسی قسم کی مراعات۔ ذاتی زندگی کے اخراجات وجوہات شرعیہ سے بھی نہیں لیتا۔ لگژری گاڑی، کوٹھی یا بنگلہ تو دور کی بات اس کے پاس تو ذاتی سائیکل بھی نہیں ہے۔ چند چاہنے والوں کی طرف سے بھیجے گئے ہدیہ جات سے ذاتی زندگی کے اخراجات چلاتا ہے۔ چاہنے والوں کی طرف سے ملنے والے قیمتی تحفے اگر مالیاتی حیثیت میں ہوں تو بیت المال کو اور نوادرات کی شکل میں ہوں تو امام علی موسیٰ ابن رضا علیہ السلام کے حرم کے میوزیم کو ہدیہ کر دیتا ہے۔ ناجانے اس بوڑھے درویش سید پر کھربوں ڈالر کے اثاثوں کا الزام لگا کر دشمن کس کے ذہن میں کیا ڈالنا چاہتا ہے جبکہ ان کی زندگی آئینے کی طرح شفاف اور واضح ہے جس کا کئی بار دشمن بھی اقرار کر چکے ہیں کہ آیت اللہ خامنہ ای کے دامن پر ذاتی زندگی کے حوالے سے کوئی داغ نہیں ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید ابن حسن
وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام پورے کا پورا امن وآشتی، الفت و محبت سے عبارت ہے جس کی واضح دلیل اسلام "سلم " اور "ایمان" امن سے نکلا ہے، اور دونوں کا لفظی مطلب امن اور سکون ہے۔ اسلام کے امن اور سلامتی کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ جھتی ہے۔ کیونکہ اسلام کے امن واشتی کا تصور اتنا وسیع ہے کہ انسان کو بدگمانی کی زرہ برابر اجازت نہیں ہے۔ اور بدگمانی کو صریحا حرام قرار دیا اور قانون دیا کہ فعل المسلم یحمل علی الصحۃ۔ کہ فعل مسلم کی توجیہ کرے مگر کوئی بدگمانی نہ کرے۔ یعنی اسلام کا تصور امن و سلامتی اتنا وسیع ہے کہ کسی مسلم کو اتنی بھی اجازت نہیں ہے کی کوئی کسی پر اپنے ذھن اور خیال میں بھی تہمت کے تیر پھینکے۔ جب اسلام نے تہمت کے تیر پھینکے کو حرام قرار دیا ہے تو ناحق کسی کی جان کوقتل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ جوکچھ دنیا میں ہو رہا ہے یہ کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کی دنیامیں اسلام کے نام پر جو کچھ دہشت گردی اور انتہاء پسندی ہو رہی ہے اس کا اسلام سے کوسوں دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر استکباری، سامراجی اور عالم طاقتوں نے اسلام کے مقدس دین اور آئین سے دور رکھنے اور پوری دنیا پر تسلط اورحکومت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ اسلام تھا، کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان میں نمایاں فرق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ: اسلام کا ایک دائرہ ہے اور ایمان کا دوسرا دائرہ۔ اسلام ایک ظاہری شکل وصورت کا نام ہے جبکہ ایمان ایک باطنی کیفیت اور صورت کا نام ہے۔ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے لئے اسلام کے بنیادی عقائد کا اظہار زبان سے کافی ہوتا ہے۔ اور اسلمنا کہنا کافی ہوتا ہے جبکہ ایمان ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار صرف زبان سے ناکافی ہوتا ہے بلکہ: دل سے ایمان، زبان سے اقرار اور عمل سے اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا اسلام سے مسلم بنتا ہے اور ایمان سے مومن بنتا ہے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونا آسان ہے جبکہ دائرہ ایمان میں داخل ہونا سخت اور مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہر مومن مسلم ہوتا ہے مگر ہر مسلم مومن نہیں ہوتا ہے۔ جس طرح قران کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ: قالت الاعراب امنا، اعراب نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں کہہ دیں تم ایمان نہیں لائے ہیں بلکہ کہہ دو اسلمنا: ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے۔ (سورہ حجرات ۔) اس آیت سے اسلام اور ایمان کا فرق واض ہو رہا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق مسلم ہونا نا کافی ہے بلکی مومن ہونا ضروری ہے ۔مسلم ہونے کے لئے ارکان خمسہ کا اظہار ضروری ہے جس طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ :قال الرسول ص بنی الاسلام علی خمس :علی شہادۃ ان لاالہ الااللہ وان محمد اعبدہ ورسولہ و اقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ اس حدیث مبارکہ میں اسلام کے پانچ ارکان بیان ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ :اسلام کی بنیاد کلمہ شہادتین، اقامت صلاۃ، زکات کی ادائیگی، ماہ رمضان کا روزہ اور حج بیت اللہ ہیں۔ کلمہ شہادتین سے مراد خدا کی وحدانیت کا اقرار اور رسول اللہ ص کی رسالت اور عبدیت کا اقرار ضروری ہے۔ اقامت صلاۃ کا مطلب پانچ اوقات کی نماز بھی ضروری ہے۔ اسی طرح صاحب نصاب پر زکات جبکہ صاحب استطاعت (مستطیع) پر زندگی میں ایک بار حج واجب اور باربار حج کی سعادت حاصل کرنا سنت موکدہ اور مستحب عمل ہے۔
یہ تو ارکان اسلام ہیں۔ مگر قرآنی آیات میں اور احادیث مبارکہ میں ارکان ایمان مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف بیان ہوئے ہیں۔ جب ایمان کے بارے میں رسول اکرم ص سے پوچھا حدیث جبرئل ع میں تو آپ ص نے فرمایا کہ: ایمان دل سے معرفت ذبان سے اظہار اور اللہ، رسل، کتب، ملائکہ اور آخرت پر یقین سے عبارت ہے۔ اسی طرح پوچھا گیا حضرت علی ع سے کہ :یا علی ما الایمان؟ توحضرت علی ع نے فرمایا کہ الایمان علی اربع دعائم :علی الصبروالیقین والعدل والجھاد :یعنی ایمان کے چارستون ہیں اور وہ صبر، یقین، عدل اور جھاد ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے چار چار اجزاء ہیں۔ صبر کے چار اجزاء شوق، شفق، زھد اور ترقب (انتظار موت) ہیں۔ جس نے جنت کا اشتیاق پیدا کیا اس نے خواہشات کو بھلا دیا اور جسے جہنم کا خوف حاصل ہوا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔دنیا میں زھد اختیار کرنے والا مصیبتوں کو ہلکا تصور کرتا ہے اور موت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔ یقین کے چار اجزاء ہیں:ہوشیاری کی بصیرت، حکمت کی حقیقت رسی، حکمت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت گویا یقین کی چار بنیادیں ہیں۔ اپنی ہر بات پر مکمل اعتماد رکھتا ہو۔ حقائق کو پہچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دیگر اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرے اور صالحین کے کردار پر عمل کرے ایسا نہیں ہے تو انسان جہل مرکب میں مبتلا ہے اور اس کا یقین فقط وھم و گمان ہے یقین نہیں ہے۔ عدل کے بھی چار اجزاء ہیں : تہہ تک پہونچ جانے والی سمجھ ، علم کی گہرائی، فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔ اسی طرح جھادکے بھی چار شعبے ہیں: امر با لمعروف، نہی عن المنکر، ہر مقام پرثبات قدم اور فاسقوں سے نفرت و عداوت۔ گویا جھاد کا انحصار بھی چار میدانوں پر ہے۔ امر با لمعروف کا میدان، نھی عن المنکر کا میدان ، قتال کا میدان اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کا میدان۔ ان چاروں میدانوں میں جھاد کا حوصلہ نہیں ہے تو تنہا امر و نھی سے کوئی کام چلنے والا نہیں ہے اور نہ ایسا انسان واقعی مجاھد کہے جانے کے قابل ہے۔ اس کا مطب یہ ہوا کہ جھاد کے چاروں میدانوں میں اگر کوئی کام کرے تو جھاد کا حق ادا ہوگا وگرنہ تنہا امرونہی سے نہ کوئی مجاھد بنتا ہے اور نہ کوئی مبلغ اسلام۔
میرا سوال ان مبلغان سے ہے جوصرف امر و نھی کو ہی جھاد اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جبکہ باقی دو میدان کو مکمل نظر انداز کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کی تنہا امرونہی میں کوئی مشکل اور پریشانی نہیں ہے جبکہ قتال اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کے میدان میں جان کی بازی لگانا اور فاسقوں سے نفرت کے میدان میں ہر ایک کی دشمنی مول لینا پڑتا ہے نتیجتا مبلغان دین اور مفتیان اسلام تنہا امرونھی کرنے میں ہی اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ اور تنہا امرونھی کا فائدہ اتنا نہی ہوتا جتنا باقی دومیدانوں میں (قتال وفاسقوں سے نفرت)کے میدان کا فائدہ ہوتا ہے۔ قتال اور فاسقوں سے نفرت وعداوت کے میدان کوترک کرنے کی وجہ سے انسانی معاشروں میں فاسق وفاجرکی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔اور اگر فاسقوں سے نفرت کے قرانی اور نبوی نسخے پر عالم اسلام کے مسلمان اور علمائے اسلام عمل پیرا ہوں تو انسانی معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ اور انسانی معاشرے میں جرائم و کرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجائے۔ وگرنہ صرف مزمتی بیان یا جمعے کے خطبوں میں تذکرہ کرنے سے نہ کوئی مجاھد بنتا ہے اور نہ کسی کی ذمہ داری ادا ہوتی ہے۔ مگر ان دو میدانوں میں کودنے کے لئے پیغبراکرم ص جیسا دل اور سینہ، اخلاص اور کردار چاہئے۔ حضرت علی ع جیسا حاکم اور مبلغ کی ضرورت ہے۔ پس اسلام اور ایمان میں یہ فرق ہے کہ اسلام ظاہری شکل اور زبانی اقرار کا نام ہے جبکہ ایمان دل کی ایک باطنی کیفیت کا نام ہے اسی وجہ سے حکیم امت نے فرمایا تھا:
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اب ہر مسلمان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ صرف مسلم ہے یا مومن بھی ہے۔
تحریر : شیخ فدا علی ذیشان
(سکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع سکردو)
وحدت نیوز(آرٹیکل) قارئین محترم یہ پاکستان ہے اور بہت پیارا ملک ہے اس میں چار موسم ہیں ،لوٹ مار پر کوئی پابندی نہیں قتل و غارت گری بھی ہوسکتی ہے، جمہوری حکومت بھی ہوسکتی ہے اور مارشل لابھی، لیکن جو چیز ایک بار مہنگی ہو جائے وہ سستی نہیں ہوسکتی یہاں کوئی سیاسی جماعت ہو کوئی مذہبی جماعت ہو، کوئی سکالر ہو، کوئی عام آدمی ہو اپنی ہی بات کو صحیح سمجھتا ہے لہذا جہالت اپنے عروج پر ہے جس کو ہر مقام اور ہر جگہ حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
عزیزان محترم آج مجھے فقط اور فقط اسلام آباد پر ہی بات کرنی ہے میڈیا پر بار بار حکومتی ذمہ داران ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ حکومت اور جے یو آئی ایف کا ایک معاہدہ ہوا لہذا حکومت سمجھتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس کی پاسداری کریں گے اور معاہدے کے مطابق اسلام آباد میںقیام کریں گے جبکہ بعدازاں واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔ لیکن جب مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی کہ یہ عوام وزیراعظم کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے کی بھی قدرت رکھتی ہے ۔
وزیراعظم کو دو دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ استعفیٰ دیں ورنہ اگلا لائحہ عمل بتائیں گے۔ آپ نے بھی یہ بات سنی ہوگی لیکن مجھے عجیب سا لگا یعنی کوئی بھی شخص جب چاہے ۔پچیس تیس ہزار لوگ اکٹھے کرکے اسلام آباد آجائے اور وزیراعظم سے استعفی کا مطالبہ کردے کیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟میں اس کی حمایت نہیں کرتا جبکہ یہاں پر ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ ہوتے ہیں جو گڑبڑھ کرنے اور افراتفری پھیلانے میں ماہر ہوتے ہیں چونکہ بات اسلام آباد کی ہو رہی ہے تو آپ نے سنا ہوگا انصارالاسلام نامی عسکری ونگ جے یو آئی ایف میں بھی متحرک دکھائی دیتا ہے اور ڈنڈوں سے مسلح ہیں جبکہ مجھے یقین ہےان کے پاس اسلحہ بھی ہوگا۔
مجھے حکومت کی معصومیت پر ہنسی آرہی ہے کہ انہوں نے مولانا صاحب کی باتوں پر اعتبار کرکے کھلے عام اسلام آباد پر چڑھائی کا موقع دیا اگر دیکھا جائے تو ملک کے ایک مخصوص حصہ سےانکے چند ارکان پارلیمنٹ ہیں اور خود مولانا فضل الرحمن اپنی سیٹ جیت نہ سکے کے ۔اس بات سے انکار نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت معمولات مملکت چلانے میں متحد نظر نہیں آتی ۔مہنگائی اور بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، کشمیر جو ہماری شہ رگ حیات تھی اس کو انڈیا باقاعدہ کاٹ چکا ہے ہے ملکی معیشت انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔
اس کی وضاحت میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے ایک واقعے سے کرتا ہوں ایک دفعہ آپ کی عدالت میں ایک بچہ لایا گیا جس کے اوپر دو حواتین دعویدار تھیں یعنی ہر خاتون یہ کہہ رہی تھی کہ یہ اس کا بچہ ہے جب مولا علی علیہ السلام نے یہ معاملہ سنا تو آپ نے کہا کہ اس بچہ کو دو حصوں میں برابر کاٹ کر دونوں کو آدھا آدھا دے دیا جائے تو فورا ایک خاتون نے کہا نہیں اس کو کاٹو مت اس کو دوسری عورت کو دے دو میں اپنا مطالبہ واپس لیتی ہوں جس پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ اس عورت کو دے دو کیونکہ یہی اس بچے کی ماں ہے اس کے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ میرا بچہ زندہ رہے چاہے دوسری عورت کے پاس ہی رہے۔
اسی طرح اگر مولانا پاکستان کے ہمدرد ہوتے تو اس وقت یہ مسئلہ کھڑا نہ کرتے ،لیکن کیا کریں ان کے بڑے بھی پاکستان بننے کے مخالف تھے تو آج ان کا یہ عمل جائز ہے دراصل اگر کوئی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کے عام کارکن ہوتے تو بات سمجھ میں آتی تھی لیکن ان بنیاد پرست شدت پسند افراد کو اسلام آباد کی زمین پر بٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں ہے بلکہ یہ مسلح جتھے کا اسلام آباد پر حملہ ہے اور ملکی نظم ونسق کو تباہ کرنے کی سازش ہے اس کے عوامل کیا ہیں یہ تو اداروں کا کام ہے کہ وہ چھان بین کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس مارچ اور دھرنے میں شامل سیاسی جماعتیں اور ان کے چند کارکنان خود ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں اور خود مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا امتحان ہے جو انہوں نے خود سے اپنے سر پر ڈالا ہے اس سے پہلے کہ اسلام آباد کے حالات خراب ہوں اور پھر سارے ملک میں اس کے اثرات آئیں حکومت کو چاہیے کہ وہ حکومت میں رہ کر اتنے عرصہ میں جتنے پیسے کما لیتے تھے وہ دے دیئے جائیں اور ان کو فارغ کردیا جائے ورنہ یہ جو آزادی مارچ ہے اس کا مفہوم سمجھ سے بالاتر ہے اور ایسا نعرہ لگا کر ملک کو نازک صورتحال میں دھکیلنا اور سرعام ریاست اورریاستی اداروں کو دھمکیاں دینا ناقابل فہم اور ناقابل معافی جرم ہے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو مزید مولانا پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور ضروری اقدامات فور اٹھانے چاہیے بلکہ میں تو یہ کہوںگاچاہےکسی کو برا لگے اس علاقے کا سارا انتظام پاک آرمی کے جوانوں کو سنبھال لینا چاہیے کیونکہ پروٹیسٹر شدت پسند مذہبی انتہا پسندی کا شکار لوگ ہیں ۔جہاں خواتین صحافیوں کو کوریج کرنے سے روک دیا گیا ہے ان کے ذہنوں کی شدت پسندی کی واضح مثال ہے یہ کوئی دھرنا ورنہ نہیں ہے یہ ایک گروہ کا اسلام آباد پر حملہ ہے اور پاک فوج کو آگے بڑھ کر اس حملے کو روکنا چاہیے بصورت دیگر کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں حکومت وقت اور ادارے ذمہ دار ہوں گے اور یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی ۔بیس پچیس ہزار لوگ بائیس کروڑ عوام کے ملک میں اپنی من مانیاں کرتے پھریں اور ان کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔
ویسے مولانا کی دو دن کی مہلت اقتدار سے ان کی اداسی کا بھی پتہ دیتی ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا زیادہ لمبی عصابی جنگ نہیں لڑ سکیں گے کیونکہ اس بات کا ان کو بھی اندازہ ہوگا کہ دو دن کی مہلت سے وزیراعظم سے استعفی مانگنا مضحکہ خیز ہے لہذا اس فرسٹریشن اور جلد بازی میں مولانا کوئی غلط فیصلہ کرسکتے ہیں ان کا سارا سیاسی کیریئر ر داؤ پر لگ گیا ہے لہذا اس وقت سنجیدگی کی ضرورت ہے اور معاہدہ معاہدہ کاراگ الاپنے سے بہتر ہے عملی لائحہ عمل بنایا جائے اور پرامن طریقہ سے بغیر کسی نقصان کے ملک اور اسلام آباد میں بسنے والے شہریوں کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے۔
تحریر:آئی ایچ نقوی
وحدت نیوز(آرٹیکل) میں اپنے اس دوست کو نہیں بھول سکتا، جو آج سے تقریبا دس سال پہلے ہمارا کلاس فیلو تھا، ہم سب کو پرنسپل صاحب کے کمرے میں لے گیا، مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں محرم الحرام کے دس دن مکمل چھٹی ہونی چاہیے، مدیر صاحب نے ہماری بات سنی، ہمیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور انتہائی دھیمے لہجے میں کہا کہ آپ کی دس دن کی چھٹی کا امام حسینؑ سے کیا تعلق؟
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی کہ اگر آپ لوگ یہ مطالبہ کرتے کہ ان دس دنوں میں اس بین الاقوامی یونیورسٹی میں امام حسینؑ کے حوالے سے خصوصی سیمینارز اور محافل و مجالس کا اہتمام کیا جائے، میں آپ لوگوں کو شاباش دیتا کہ اگر آپ لوگ میرے پاس کچھ ایسی کتابوں کے تعارف کیلئے آتے جن کے مطالعے سے آپ امام حسینؑ کے اہداف اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے، بہترین مقالہ جات لکھ سکتے، اور لیکچرز میں ان علمی کتابوں سے استفاد کرتے، انہوں نے کہا کہ میں کتنا خوش ہوتا کہ اگر آپ لوگ سیرت امام حسینؑ کو سمجھنے کیلئے مقالہ نویسی کے کسی مقابلے کے سلسلے میں مجھ سے رہنمائی لینے آتے۔۔۔
قارئین یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ پرنسپل صاحب نے پورے دس دن کی چھٹی نہیں دی اور طبق قاعدہ نو اور دس محرم کو ہی چھٹی کی گئی۔ ان بقیہ آٹھ دنوں میں ہمارا وہ دوست یا تو کلاس میں آتا نہیں تھا اور اگر آئے بھی تو یہی گلہ کرتا تھاکہ میں ان لوگوں کی امام حسینؑ سے شکایت کروں گا، یہ پکے وہابی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پندرہ محرم الحرام سے ہمارے ٹرم کے امتحان شروع ہوئے تو اُن صاحب کا اعلان تھا کہ امتحان جانے اور امامؑ جانے، بہر حال حسبِ امید وہ صاحب ساری کتابوں میں فیل ہوگئے، اسی ربیع الاول میں انہوں نے عمامہ اور عبا قبا پہن لی اور تقریباً چند ہی مہینوں بعد ملت کی ہدایت کیلئے واپس پاکستان تشریف لے گئے۔۔۔۔آج کل مشہور علامہ ہیں۔
میں اپنے اس کلوس فیلو کو بھی فراموش نہیں کر سکتا جو انہی دنوں ہر کلاس میں آتے تو تاخیر سے لیکن کلاس سے نکلنے کی انہیں بہت جلدی ہوتی۔ ایک دن علم کلام کی کلاس میں ان سے استاد نے کچھ سوال پوچھے جن کے جوابات سُن کر ساری کلاس کشتِ زعفران بن گئی۔
کلاس کے بعد میں نے عرض کیا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں علمِ کلام میں مانے ہوئے استاد نصیب ہوئے ہیں، اس پر وہ زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ ہمارے عقائد کتابوں اور استادوں کے محتاج نہیں ہیں، ہمارے عقائد ہماری ماوں نے دودھ میں ملا کر ہمیں پلا دئیے ہیں۔ہم عقیدے اور معرفت کی اس منزل پر پیدا ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھنے یا کلاس میں جانے سے ہمارے علم، عقیدے یا معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بالکل صحیح فرمایا تھا وہ اس کے بعد سات آٹھ سال تک ہمارے ساتھ رہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس دوران واقعتاً ان کے علم، عقیدے اور معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آج کل وہ بھی پاکستان میں ہیں اور خیر سے وہ بھی علامہ ہیں۔
اس وقت اس ہستی کا ذکر کیسے نہ کروں کہ جس کے دعوے کے مطابق اس نے اجتھاد و عرفان کے خانوادے میں آنکھ کھولی تھی، وہ جب اپنا شجرہ نسب بیان کرتے تھے تو اکثر نئے اور پرانے مراجعِ عظام اور مجتھد ین کرام سے ان کی خونی رشتے داریاں ثابت ہو جاتی تھیں اور جب عرفا کا ذکر کرتے تھے تو وہ خود ہی عرفا کے خانوادے کے چشم و چراغ تھے لہذا انہیں شعرا کے اشعار کی طرح عرفا کی سینکڑوں کرامات ازبر تھیں۔ ان کا یہ بھی ادعا تھا کہ ان کے دادا نے دیوار پر بیٹھ کر گھوڑی کی طرح سے سواری کی تھی اور ایک درخت پر بیٹھ کر کشمیر کی سیر کی تھی۔
عرفان کی کلاس میں وہ اکثر استاد کو روک کر عرفانی قصہ سنانے کی اجازت مانگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے، وہ فرماتے تھے کہ یہ جو یہاں پر عرفان پڑھا ، سمجھا اور بتا رہے ہیں یہ سب ان کے اپنے ڈھکوسلے ہیں۔
البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ عرفان کے علاوہ دیگر کلاسوں میں بھی ان کی حالت قبلِ رحم ہوتی تھی، کئی مرتبہ انہیں استادوں سے نمبروں کی بھیک مانگتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔۔۔ کچھ سال انہوں نے بھی رگڑا کھایا، آج کل وہ بھی پاکستان میں دین کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں اور علامہ صاحب ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کی دینی مدارس سے بھی نکلے ہوئے ایسے بے شمار علامہ حضرات موجود ہیں جو تین چارسال فقط ادبیات اورایک حد تک اصول اورفقہ پڑھنے کے بعد قوم کو دن رات دین سکھانے میں مشغول ہیں۔ اس کے علاوہ جو ایک دو سال میں ہی علامہ بن جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔
ہر سال نجانے کتنے ہی اس طرح کے علامے پاکستان کے معاشرے میں منبر پرجلوہ افروز ہوتے ہیں اور محراب میں جگمگاتے ہیں۔ چنانچہ اب آپ پاکستان میں دیکھ لیں کہ پہلے کسی زمانے میں ذاکرین حضرات کے القابات پر علمائے کرام اور عام لوگ بھی اعتراض کرتے تھے لیکن اب علمائے کرام کہلوانے والوں کے القابات، ذاکرین سے بھی زیادہ لمبے چوڑے ہو گئے ہیں اور اب یہ رونقِ منبر بننے والے سب کے سب علامہ صاحب ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو ان القابات سے بچنا چاہتے ہیں لیکن فرشِ عزا بچھانے والے اگر علامہ سے کم کسی کو بلائیں تو محلے، علاقے اور شہر میں ان کی مجلس کا معیار گر جاتا ہے لہذا جو منع کرے اسے بھی زبرستی علامہ بنا دیا دیا جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان علامہ حضرات کی مجالس سنیں، آپ دیکھیں گے کہ ان کی علمی و تحقیقی سطح ایک ذاکر کے برابر ہی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چارہ ذاکر اتنے چھل بل نہیں جانتا جتنے یہ جانتے ہیں، ذاکر اگر غلو کرے تو بے چارہ سیدھا سادھا غلو اور شرک کرتا ہے اور انہیں چونکہ تھوڑی بہت مدرسے کی ہوا لگی ہوتی ہے ، اس لئے یہ تھوڑا بہت چھپا کر اور بات کو گھما پھرا کر غلو اور شرک کرتے ہیں، بس جو بات ایک ذاکر کرتا ہے، اس نے بھی کسی مدرسے کی تعلیمی نصاب سے حاصل نہیں کی ہوتی بلکہ وہ غریب کی اپنی محنت ہوتی ہے اور جو کچھ یہ علامہ حضرات بیان کرتے ہیں وہ انہوں نے بھی مدرسے سے بطورِ نصاب تعلیم نہیں سیکھا ہوتا، لہذا یہاں بھی غریب کی اپنی ہی محنت ہوتی ہے۔ لہذا دونوں طرف کے غریبوں کی گفتگو کی صرف لفاظی مختلف ہوتی ہے لیکن عملا اور نتیجے میں ان کی محنت کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔
مثلا!، ایک آدمی منبر سے عرفانی مسائل بیان کرتا ہے ، حالانکہ وہ حوزہ علمیہ میں عرفان کا طالب علم ہی نہیں رہا، معاشرے ، اقتصاد اور عمرانیات جیسے حساس موضوعات پر لب کشائی کرتا ہے لیکن بے چارے کی ساری اپنی محنت ہوتی ہے، وہ کسی موسسے یا مدرسے میں ان علوم کا طالب علم ہی نہیں رہا ہوتا، ایک علامہ صاحب آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں لیکن وہ علمِ تفسیر کے شعبے میں کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہوتے، ایک علامہ دہر عقائد کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے علم کلام کے شعبے میں کسی مدرسے میں حصولِ علم کا شرف ہی حاصل نہیں کیا ہوتا تو پھر ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ جب غریب نے اپنی ہی محنت کرنی ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ عمامہ پہنے یا جناح کیپ، وہ داڑھی بڑی رکھے یا چھوٹی، وہ سر کو ڈھانپ کر منبر پر بیٹھے یا ننگے سر کھڑا ہو جائے۔۔۔اس نے قوم کی خدمت کیلئے سارا خرچہ تو اپنی جیب سے ہی کرنا ہے۔
اس وقت رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای کے اس فرمان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ آج تحقیق کا مسئلہ صرف دوسروں کو دکھانے (تجمل گرائی) کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری بقا اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اربابِ اختیار کلمہ تحقیق سے کتنی گہری واقفیت رکھتے ہیں، لیکن میرا اس پر ٹھوس یقین ہے کہ آج ہمیں اپنی شناخت، اپنے وجود ، اپنے استقلال اور اپنے مستقبل کیلئے جو دو تین اہم کام کرنے چاہیے ان میں سے ایک علمی تحقیق ہے۔[1]
اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاد کا مطلب میدان میں ہدف و ایمان کی خاطر مجاہدت کے ساتھ موجود رہنا ہے، لہذا یہ جو جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم ہے، اس میں جہاد بالنفس کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہ میدان جنگ میں جا کر اپنی جان قربان کر دیں یہی جہاد بالنفس ہے!؟ نہیں جہاد بالنفس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رات سے صبح تک اپنے وقت کو ایک تحقیقی کام پر صرف کریں، آپ کو وقت گزرنے کا احساس نہ ہو، جہاد بالنفس یہ ہے کہ تحقیق کیلئے اپنی تفریح کو چھوڑ دیں، اپنے بدن کے آرام کو بھول جائیں، بہت سارے ایسے کاموں کو کہ جن سے آپ بہت ساری دولت کما سکتے ہیں ، انہیں چھوڑ دیں اور اپنے آپ اور اپنے وقت کو تحقیق میں صرف کریں۔[2]
اس کے بعد ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب یہ ہماری دنیا بہت بدل چکی ہے، یہ عہد دادی اماں اور نانی اماں کی کہانیوں کے بجائے تحقیق اور تخصص کا ہے، آج ایک طرف تو تعلیمی اداروں اور علمی محافل میں تحقیق کے بغیر کسی کا ایک لفظ قبول نہیں کیا جاتا اور لیکن دوسری طرف ہم علم کے نام پر اپنی مجالس و محافل میں کیا تقسیم کر رہے ہیں۔
ہم آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ ایک علمی تحقیق وہ نہیں ہوتی کہ کسی ڈائجسٹ یا اخبار کے مطالعے کی طرح اِدھر اُدھر سے چند باتوں کو اکٹھا کر کے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جائے، بلکہ ایک علمی تحقیق وہ ہوتی ہے، جس کے منابع کے درجات کا تعین ہوتا ہے، جس کا محقق علمی و تحقیقی معیارات کے مطابق تربیت یافتہ ہو تا ہے اور جس کے مفروضا ت کو پہلے ماہرین کی محفل میں نقد و بررسی کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور پھر اگر علمی ماہرین یعنی علما اس کی تصدیق کر دیں تو تب جا کر اس بات کو انسانیت کی خدمت اور ہدایت کیلئے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔یہ ہے وہ تحقیق جو اقوام کی شناخت ، وجود ، استقلال اور مستقبل کی بقا کے لئےمطلوب ہے۔ لیکن جہاں تخصص اور تحقیق کے بغیر ہی لوگ علامہ بن جاتے ہوں وہاں اقوام کا وہی حال ہوجاتا ہے جو آج ہمارا ہو چکا ہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) ابوبکر البغدادی ذرائع ابلاغ اور دنیا کے لئے ایک معروف نام ہے کیونکہ یہی وہ شخص تھا کہ جس کو داعش نامی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ اور قائد کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔ابھی گذشتہ دنوں امریکی صدر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ کچھ بہت بڑا ہوا ہے۔اس جملے کے لکھنے کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ اور ان سے متاثر خلیجی ذرائع ابلاغ نے ایک ہی خبر کی رٹ لگا دی کہ شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کا سربراہ ابو بکر البغدادی امریکی حملوں میں مارا گیا ہے۔
دراصل دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ پر امریکی وصہیونی لابی کا مضبوط کنٹرول دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو جس سمت چاہتا ہے موڑ دیتا ہے اور اہمیشہ مغربی سامراج نے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کے ذریعہ دنیا میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی رائے کو بدلنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکی صدر نے جو ابو بکر البغدادی کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے آخر کس حد تک سچائی رکھتا ہے یا یہ کہ اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟دنیا اس حقیقت کو اب بخوبی جان چکی ہے کہ امریکہ نے پہلے طالبان قیادت بنائی اور بعد میں اسی طالبان قیادت اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعہ ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔اب شام اور عراق میں خود امریکہ کی بنائی ہوئی داعش نامی دہشت گردتنظیم کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کو امریکہ نے ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
آج امریکی صدر نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے پیش رو امریکی صدور نے عراق اور شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے داعش نامی دہشت گرد تنظیم بنائی تھی۔یہ بات بھی واضح رہے کہ ابو بکر البغدادی کے پہلے بھی کئی مرتبہ مارے جانے کی اطلاعات مل چکی ہیں جن کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی اور اسی طرح حالیہ امریکی آپریشن میں بھی دہشتگرد تنظیم داعش کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کے قتل ہونے کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
امریکہ جو غرب ایشیا کے خطے میں سنہ2001ء کے بعد سے مسلسل فلسطین، لبنان، شام، افغانستان، عراق و ایران میں شکست کھا رہاہے اور خطے پر اپنا تسلط قائم رکھنے میں ناکام ہے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی مدد سے بھی اپنے ناپا ک عزائم کی تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
امریکی سرکار نے داعش کو اس لئے بنایا تھا تا کہ شام و عراق کو کنٹرول کر سکیں اور اسی طرح اس خطے کو کئی حصو ں میں تقسیم کریں جبکہ اس سارے عمل کا فائدہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں تھا کہ اسے تحفظ فراہم ہو سکے لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ کئی سال تک داعش نے شام و عراق اور لبنان کے علاقوں میں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرنے کے باوجود شکست کھا گئی ہے اور اب حال ہی میں امریکی صدر کا ابو بکر البغدادی کو قتل کردینے کے دعویٰ نے امریکی سرکار پر مزید سوالات اٹھا دئیے ہیں۔
غرب ایشیائی ممالک کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین امور سیاسیات کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایسے وقت میں شام کے علاقہ ادلب میں کاروائی کی ہے کہ جب پہلے ہی ترکی کی فوجیں اس علاقہ میں فوجی چڑھائی کر چکی ہیں۔یہ امریکی آپریش بھی ترکی میں موجود امریکی بیس سے کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید امریکہ کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ابو بکر البغداد ی ترک افواج کے ہاتھ زندہ سلامت آ جاتا ہے تو پھر امریکیوں کے بہت سارے ایسے راز جو دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں وہ سب کے سب آشکار ہو جائیں گے اور امریکہ کا سیاہ چہرہ مزید دنیا کے سامنے عیاں ہو جائے گا تاہم امریکی سرکار نے اس علاقہ میں جلد بازی میں کاروائی کرتے ہوئے ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا
دعویٰ کر لیا ہے۔کچھ ماہرین سیاسیات کاکہنا ہے کہ امریکہ کیونکہ شام و عراق میں داعش کا بانی ہے اور دنیا کو باور کروانے کی کوشش کر رہاہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں سرگرم عمل ہے تاہم اب ایسے حالات میں کہ جب شام، ایران، روس اور حزب اللہ نے مشترکہ طور پر لبنان، شام اور عراق میں داعش کا صفایا کیا ہے تو امریکہ خطے میں داعش کے خلا ف اس کامیابی کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے حصہ میں نہیں جانے دینا چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ امریکی سرکار نے بغدادی جیست دہشت گرد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر کے خطے میں داعش پر فتح حاصل کرنے کا تمغہ اپنے سینہ پر سجانے کی ایک ناکام کوشش کی ہے لیکن دنیا پہلے ہی اس بات کو جانتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہی ہیں کہ جنہوں نے خطے کے عرب خلیجی ممالک کے اشتراک سے نہ صرف داعش بلکہ متعدد کئی دہشت گرد گروہ تشکیل دئیے تھے کہ جن کا کام شام کی تقسیم، عراق کی تقسم اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچا کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی بقاء کویقینی بنانا تھا۔
چند ایک ماہرین نے امریکی سرکار کے داعش کے سرغنہ کو ہلاک کرنے کے دعویٰ پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا ہے کہ آخر ایسی کون سی قیامت آئی ہے کہ امریکہ نے گذشتہ سات برس میں تمام تر ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کو نشانہ نہیں بنایا اور سات سال تک شام و عراق میں داعش کی جانب سے جاری خونریزی پر کوئی ایسا حملہ سامنے نہیں آیا کہ جس میں داعش کے عمومی دہشت گردوں کو بھی قتل کیا گیا ہو۔آخر اب کس طرح امریکہ کو معلوم تھا کہ داعش کا دہشت گرد ابو بکر البغدادی ادلب کے علاقہ میں عین اسی مقام پر موجود تھاکہ جہاں امریکی فوج نے حملہ کیا او ر اسے ہلاک بھی کر دیا۔آخر یہ حملہ داعش کے شام و عراق میں قابض ہوتے وقت کیوں نہیں کیا گیا تھا کہ جس زمانے میں ابو بکر البغدادی جیسے دہست گرد کھلم کھلا علاقوں میں خون کا بازار گرم کر رہے تھے۔
یہ رائے رکھنے والے ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکہ دراصل روز اول سے ہی ابو بکر البغدادی کے ساتھ رابطے میں تھا اور خطے میں انارکی اور دہشت گردی کروانے کے لئے سرگرم عمل تھا تاہم اب بغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر کے امریکہ کھیل کو اپنی طرف پلٹ کر دنیا کے سامنے ہیروبننے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور شاید ایک بہانہ بھی تلاش کر لیا گیا ہے تا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلاء کو باعزت طور پر انجام دے پائے۔
ایک اور سیاسی رائے کے مطابق ماضی میں امریکی صدر نے طالبان دہشت گردوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کرنے کے اعلان کے بعد دوسرا امریکی الیکشن جیت لیا تھا تاہم موجودہ امریکی صدر نے بھی اپنے پیش روصدر کی روایت کے مطابق خود اپنے ہی پیدا کردہ دہشت گرد سرغنہ ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاکہ امریکی عوام آنے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب کر سکیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس خبر کو صرف ذرائع ابلاغ سے لیا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ اس ہلاکت کی تصدیق کی جائے۔بہر حال امریکہ خطے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے دہشت گردانہ عزائم پرپردہ ڈالنے کے لئے چاہے اپنے بنائے ہوئے ہزاروں ابو بکر البغدادی بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کر لے تو امریکہ کے انسانیت مخالف جرائم میں کسی طرح کمی نہیں آئے گی۔دنیا کی نظر میں امریکہ کل بھی لاکھوں مظلوم انسانوں کا قاتل تھا اور آج بھی امریکہ کی پوزیشن دنیا کے عوام کی نگاہوں میں ایک قاتل اور ظالم سے بڑھ کر نہیں ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل) خدا وند متعالی نے جس عالم میںہم رہ رہےہیں اسے " محل ابتلاء " اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ہے،" أ حسب الناس أن يتركوا أن يقولوا أمنا و هم لا يفتنون " .لہذا ھر ایک کو یہاں پرکھا جائے گا، جہاں افراد نے پرکھا جانا ہے وہیں انسانی معاشروں اور قوموں کو بھی آزمائشوں سے گزرنا ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو کہ ھمارا خالق، مالک اور رب ہے، یہ سب کچھ اس کے نظام ربوبیت کے تحت ہے ۔لہذا جس کا ایمان کا درجہ جس قدر بلند ھو گا اس کا امتحان بھی اتنا ھی مشکل اور سخت ھو گا، ( بقول شھید مطہری رہ کے جتنی انسان کی روح بلند ہوتی ہے اتنا ہی اس کا بدن تکلیف اور سختیوں میں رھتا ہے ، اس کی ایک بڑی مثال امام حسین علیہ السلام ہیں) ۔
اسی طرح اس عالم کے رب نے اس کی تقدیر میں امام عصر عج کے ظہور کو رکھا ہے، اہل ایمان کو اس پر مکمل یقین ھونا چاھئے کہ کچھ بھی ھو جائے آخری فتح ھماری ہے، ابھی اہل تشیع اور دنیا میں بسنے والے لوگوں نے کئی ایک نشیب و فراز سے گزرنا ہے، ھمیں مایوس نہہں ھونا چاھئے ۔جس دشمن کا ھمیں سامنا ہے، وہ شیطان بزرگ ھے، اس کا مادی جاہ و جلال مادہ پرستوں کی آنکھوں کو چندھیا دیتا ہے۔
جب کہ گزشتہ چالیس سال سے اہل ایمان اس کے مقابلے کے لئے میدان عمل میں موجود ھیں، اور خدا وند متعالی نے ان سالوں میں اپنی غیبی مدد اور عظیم کامیابیوں کی مدد سے نوازا ، جب کہ ظاھری لحاظ سے کامیابی کی کوئی صورت نہیں دیکھائی دیتی تھی ۔بالآخر اہل ایمان نے ان کھٹن مراحل سے گزر کر ھی عالمی سطح پر نفاذ عدل کے امام عصر عج کا ساتھ دینا ہے، کرپشن اور فساد سے پاک معاشرہ، جہاں عدل و انصاف ھو، ابھی تک مقاومت ظلم اور ظالموں کے ساتھ گرم جنگ میں اور کسی حد تک نرم جنگ میں کامیاب ھوئی ہے، لیکن نفاذ عدل کے لئے اور کرپشن سے پاک نظام چلانے والوں کی تربیت کے لحاظ سے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے ۔
دشمن سے گرم جنگ لڑنے سے زیادہ مشکل عدل کا نفاذ ھے، ابھی ہم (عالمی تشیع) نے اس وادی میں بھی آزمایا جانا ہے، امام عصر عج کو جہاں دشمن سے جنگ لڑنے والے افراد اور کمانڈ کرنے والے افراد کی ضرورت ہے وہیں پر عدل و انصاف کو نافذ کرنے والے ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ہم سب نے مسلسل ان سخت امتحانات سے گزرنا ہے ، مشکلات اور بحرانوں کو دیکھ کر ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور نہ ہی ہارے ہوئے لشکر کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی پر اترنا چاہئے، البتہ حقائق کا بیان ضرور ھونا چاہیں ۔اس وقت مقاومت کے بلاک کے بعض ممالک ایک ایسے فیز (مرحلے) سے گزر رہےہیں، جس سے پہلے ایران گزر چکا ہے اور ان حالات کی پیشن گوئی بھی کی گئی تھی ۔امید ہے کہ ان شاء اللہ گزشتہ امتحانات کی طرح مقاومت اس امتحان سے بھی سرخرو ھو کر نکلے گیاور دشمن رسوا ہو گا اور مایوس بھی ۔ ظہور امام عصر عج تک ھم نے (آزمائشوں کے) کئی ایک نشیب و فراز سے گزرنا ہے ۔ھماری گزشتہ تاریخ بھی اس پر گواہ ہے ۔یہی آزمائشیں حقیقی اور راسخ قیادت کو بھی سامنے لاتی ہیں ۔ابھی نجف اشرف میں حوزہ علمیہ اور عراق میں موجود لوگوں کو مزید " غربال " ھونا ہے ۔مزید سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا ھو گا، تا کہ "صامت " کے بجائے ایک ناطق حوزہ بن جائے ۔
ایران میں عظیم انقلاب اور ولایت فقیہ کی عظیم نعمت کے باوجود انقلاب اور علماء مخالف ایک بڑا طقبہ موجود ہے، انہیں جب موقع ملتا ہے وہ اپنا غصہ نکالتے ہیں، جب کہ اس وقت لاکھوں عراقی، امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں اور ان کے اداروں سے وابستہ بھی، ایک بڑا سیکولر اور قوم پرست طبقہ عراق میں موجود ہے جو کسی طور مذہبی عنصر کو اقتدار میں قبول کرنے کو تیار نہیں، الیکشن وہ جیت نہیں سکتے، لہذا ان کے پاس اس تخریبی راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
لہذا وہ لوگوں کی حقیقی مشکلات کے مسئلے کو عثمان کا کرتہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاھتے ھیں، عراق میں امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک کے سرمائے سے ھزاروں این جی اوز بنائی گئی ہیں جنہوں نے ایک طرف سول سوسائٹی کے نام پر مظاھروں میں بنیادی انسانی حقوق کا پرچم اٹھائے شریک ھوتی ہیں اور دوسری طرف دھشت گردی کے لئے تربیت شدہ افراد سے قتل و غارت گری کے ذریعے انتقام لیا جاتا ہے ۔البتہ یہ بات واضح ھے کہ اس طرح کے انسانیت سوز اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ دشمن مایوس ہے اور اسے کامیابی کی کوئی امید نہیں ۔
اللھم عجل لولیک الفرج