وحدت نیوز(آرٹیکل) حسب معمول رات کے ایک پہر گزرنے کے بعدجب گھر پہنچا تو دیکھا بجلی نہیں ہے۔ بجلی نہ ہونے پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا کیونکہ میں سکردو میں رہتا ہوں جہاں بجلی صرف یا ارباب اقتدار اور عہدہ دار کے گھر میں یا امیر کے گھرمیں ہوتی ہے۔ بے چارے عوام کے گھروں میں ، گرمیوں کے موسم میں جب پانی کی فراوانی ہوتی ہے تب بھی بجلی نہیں ہوتی ہے تو اب سردیوں میں کہاں بجلی ہوگی۔ جبکہ سنا ہے کہ سدپارہ ڈیم میں پانی لیکیج کا سوراخ اتنا بڑا ہوا ہے جس میں وزیر بجلی کو بھی ڈالا جائے تو سوراخ بند نہ ہونے پائے۔ اور گزشتہ دوماہ سے مسلسل ڈیم سے پانی کو ضائع کیا جارہا ہے جس کی وجہ سمجھنے سے میں آج بھی قاصر ہوں۔
بہر کیف بجلی کا انتظار کرتا رہا اچانک بجلی آگئی تو فورا وائی فائی آن کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کی تحریر نظر سے گزری جس میں موصوف نا معلوم نے ایم ڈبلیو ایم کے حوالے سے کچھ باتیں تحریر کی ہیں۔ موصوف مذکور کی کچھ باتوں نے مجھے بھی قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ میں تو حق اور حقیقت کا متلاشی ہوں جہاں حق اور حقیقت نظر آ جائے فورا کود جاتا ہوں۔ مجھے کچھ حق نظر آیا ایم ڈبلیو ایم میں جس کی وجہ سے اس سیاسی مذہبی پارٹی کا ایک ادنا سا نظریاتی کارکن ہوں۔ موصوف نا معلوم لکھتا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم ایک پریشر گروپ ہے مگر سیاسی جماعت نہیں ہے، کیونکہ ان کو سیاست نہیں آتی۔ میں موصوف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ سیاست سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اگر آپ کی سیاست سے مراد وہ ہے جو آج ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں ہورہا ہے، مثلا کرپشن' لوٹ کھسوٹ ' اقربا پروری اور اپنوں کوٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنا۔ تو جناب عالی! یہ سیاست نہیں ہے یہ تو لوٹ مار ہے۔ اگر آپ اسی کو سیاست سمجھتے ہیں تو ہمیں ایسی سیاست نہیں آتی۔ یہ والی سیاست ہم کرتے بھی نہیں۔ ایم ڈبلیو ایم اقدار اور میرٹ کی بات کرتی ہے جو کہ مقدس امر اور عبادت ہے۔ آپ کو یاد ہوگا اسی بلتستان میں نوکریاں بکتی تھیں، سرعام رشوت لیتے تھے، اور محکمہ ایجوکیشن کو اصطبل بنایا گیا تھا۔ سب سے زیادہ قانون شکنی ہوتی رہی۔ مگر آج الحمد للہ سر عام کسی کو نوکری فروخت کرنے کی جرآت نہیں ہوتی ہے تو یہ ایم ڈبلیو ایم ہی کی وجہ سے ہے۔
یوں تو بلتستان کا کونسا ایسا سیاست دان ہے جس نے مذہب کا سہارا نہ لیا ہو۔ آج جو بھی سیاست دان ہے تو مذہبی کارڈ اور علماء کی وجہ سے سیاست دان ہے اور انہی سیاست مداروں نے سب سے ذیادہ مذہبی کارڈ استعمال کرکے سیاست دان بنے اور سب سے ذیادہ مذہبی پارٹی کودھوکہ بھی دیا اور مذہبی پارٹی کے ساتھ خیانت بھی کی۔ گزشتہ الیکشن میں بھی ایک بے ضمیر نے مذہبی جماعت کا سہارا لیا اور مذہب کو گندا کرنے کے لئے ہاتھ پیر بہت مارا۔ مگر مرد حر آغا علی رضوی نے اس بے ضمیر کی مٹی پلید کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے نام کو داخل دشنام کیا۔ واضح رہے ضمیر کا سودا صرف اس نے نہیں کیا تھا بلکہ مبینہ طور پر شگر حلقے سے نمایندے عمران ندیم نے بھی ضمیرکا سودا کرکے بہت کچھ کمایا تھا۔ مگر ان کی ضمیر فروشی پہ سب خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے حلقے اور جماعت میں کوئی سید علی رضوی نہیں !!! مگر بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حلقہ 2 میں ایک ضمیر فروش کو ضمیر فروشی کی سزا ملی اسکا سارا کریڈیٹ ایم ڈبلیو ایم کو ہی جاتا ہے۔ جس نے جیتی ہوئی سیٹ کو قربان کیا مگر بے ضمیری کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا۔ آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم کو سیاست نہیں آتی ۔۔۔۔؟ سابقہ الیکشن گواہ ہے کہ پہلی مرتبہ سیاست میں آتی ہے ایک پارٹی اور دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پہ سامنے آتی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی اور سیاست کے میدان میں ماھر ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
ایم ڈبلیو ایم ہر جائز عوامی مطالبے میں صف اول میں رہی ہے۔ جتنی تحریکیں اور مطالبات اس ایک دہائی میں ہوئی ہے ان میں فرنٹ لائن پر کونسی جماعت نظر آتی ہے؟ انکی قیادت کس نے کی؟ یہ سیاست کا نہ آ نا کہلاتا ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔ ایم ڈبلیو ایم یہی سیاست کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ہر نا انصافی پر عوام کی آواز بنتی رہی ہے، آگے بھی بنتی رہیگی۔ عوام کے حق میں ہر جائز مطالبہ کرتی رہی ہے ، آگے بھی کرتی رہیگی۔ ہر کرپٹ چور اور اقربا پرور کیخلاف اٹھتی رہی ہے آئندہ بھی اٹھتی رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم ہر ناجائز کام کیخلاف بولتی رہی ہے، آئندہ بھی بولتی رہیگی۔ ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اور قائدین کی طرفسے اپنی تاسیس سے ابتک علاقے میں امن و امان کیلئے کوششیں بچہ بچہ تک کو معلوم ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم ہمیشہ علاقے میں اتحاد و اتفاق کے فروغ کیلئے صف اول میں رہی ہے۔
تعصب، پا بازی، لسانی و علاقائی اور مسلکی منافرت کے سد باب کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دہشت گردی اور حکومتی جبر کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند رہی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔ ہماری سیاست یہی ہے، ہم اسی کو سیاست سمجھتے ہیں، یہی سیاست ہم جانتے ہیں، اور ہم یہی سیاست کرتے رہیں گے۔ جن کاموں کو آپ سیاست سمجھتے ہیں وہ ہمیں آتی ہے تو بھی نہیں کرتے۔ اور ہمیں کوئی سکھانے کی کوشش کرے تو بھی ہم نہیں کریں گے۔ یہی آپ کا اعتراف ہے کہ ہم موجودہ دور میں رائج لوٹ کھسوٹ، ٹھیکیدار نوازی، کمیشن خوری، نوکری، پروموشن اور تبادلوں کو سیاست کے نام پر نہیں کرتے۔ ہم عوامی فنڈز کو منظور نظر لوگوں کی آشیربادی کیلئے اور عوام پر اپنا احسان سمجھ کر استعمال کرنے اور پیش کرنے کو بھی سیاست نہیں بلکہ منافقت سمجھتے ہیں۔ ہم ووٹ بنانے کیلئے تختیاں لگانے اور فیتے کاٹنے کو بھی سیاست نہیں سمجھتے، یہ بھی عوامی پیسے عوامی امور میں خرچنا ہے کسی سیاسی مداری کے گھر کے پیسے نہیں، نہ اسکا احسان ہوتا ہے عوام پر۔ ہم اقدار کی سیاست کرنا جانتے، قانون اور انصاف کی سیاست کرنا جانتے ہیں، عوامی آواز بننے اور عوام کا ساتھ دینے کی سیاست جانتے ہیں۔ اگر آپکے خیال میں ایسا کرنا سیاست ہے تو ہم یہی جانتے ہیں۔
ازقلم: شیخ فداعلی ذیشان
وحدت نیوز(آرٹیکل) عراقی کالم نگار ایہاب الجبوری نے 13 ستمبر 2019ء کو اپنے کالم میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا دورہ چین اور مختلف شعبوں میں اقتصادی معاہدے ان کے اقتدار کی بساط لپیٹ سکتے ہیں۔؟ اقتصادی ماہرین نے کہا یہ دورہ عراق کو اقتصادی لحاظ سے مستحکم کرنے کے لئے بہت اہم ہے۔ اس دورے کے موقع پر ہونے والے معاہدوں کے بعد چائنہ کی بڑی بڑی کمپنیاں عراق میں سرمایہ کاری کریں گی اور اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں نظام مواصلات میں بہتری آئے گی۔ بڑی بڑی شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھے گا۔ رہائشی و دیگر سہولیات کی اسکیمیں اور منصوبے شروع ہوں گے اور جدید طرز کے صنعتی و رہائشی و تجارتی شہر آباد ہوں گے، ملک خوشحال ہوگا۔ بغداد کو شمال و جنوب اور دور دراز علاقوں سمیت ہمسایہ ممالک ایران و شام و اردن سے جوڑنے والے موٹر ویز تعمیر ہوں گے۔ اس دورہ کے موقع پر 10 ارب ڈالرز کے چینی و عراقی مشترکہ "تعمیراتی فنڈ" کی بنیاد کے معاہدے پر دستخط بھی ہوں گے۔
عراقی وزیراعظم کے دورہ چین سے ایک ہفتہ پہلے 13 ستمبر 2019ء کے کالم میں ایہاب جبوری نے معروف صحافی اور مصنف محمد حسن الساعدی کا بیان نقل کیا کہ وزیراعظم اپنی سیاست پر قائم رہے گا اور ان کی حکومت کے خاتمے کی باتیں فقط رائے عامہ کو ان کے خلاف کرنے اور ان کی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔ عادل عبدالمہدی ایک اقتصادی انقلاب لائیں گے، حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا معیار ان اسٹراٹیجک مسائل و مشکلات کے علاج کرنے میں ہے، جن میں عراق پر بعض طاقتور اور خود غرض سیاسی شخصیات، پارٹیاں اور گروہ مسلط ہیں، جو عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی کے سامنے رکاوٹ بنتے ہیں۔
انڈیپنڈنٹ عربیہ کے مطابق وزیراعظم کے اس دورہ کے موقع پر چین اور عراق کے مابین 8 معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں نئے بجلی گھروں کی تعمیر، پانچ مشترکہ صنعتی شہروں کی تعمیر، جہاں پر عالمی معیار کے مطابق چینی مصنوعات بنائی جائیں گی اور اسی طرح مواصلات کے میدان میں چینی کمپنی ہواوی کئی پروجیکٹس شروع کرے گی، عراق کے انفراسٹرکچر کو مستحکم کرنے اور توانائی، مواصلات، ثقافت، ٹیکنالوجی اور تعمیراتی منصوبے اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے شعبوں میں معاہدے کئے گئے۔ بڑی تعداد میں وزراء اور گورنرز بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے، جنہوں نے بھی متعلقہ شعبوں کے معاہدوں پر دستخط کئے۔
عراقی وزیراعظم کو وطن سے وفا کی سزا
وزیراعظم کے دورہ چین کے دو دن بعد 25 ستمبر 2019ء کو معروف صحافی عمر ستار نے ذکر کیا کہ وزیراعظم کے دورہ چین کی وجہ سے عراقی پارلیمنٹ میں تنازعے و اختلافات نے جنم لیا ہے، ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ملک کی صورتحال کو بہتر کرنے اور عوام کی مشکلات و مسائل کو حل کرنے میں حکومت نے کچھ نہیں کیا نیز عادل عبدالمہدی کی موجودہ حکومت ایک ناکام حکومت ہے۔ 3 اکتوبر 2019ء کو صحافی نور ایوب اپنے کالم میں عراقی وزیراعظم کو سزا دینے کے منصوبے پر لکھتے ہیں کہ اس وقت امریکہ اور وزیراعظم کے مابین "معرکۃ کسر عظم" یعنی ایک دوسرے کی ہڈیاں توڑنے کا معرکہ جاری ہے، جس نہج پر حکومت جا رہی ہے، امریکہ اس سے بہت زیادہ حساس ہوچکا ہے۔
1۔ متعدد آپشنز پر عراقی حکومت کا سوچنا واشنگٹن کو ہرگز قبول نہیں۔
2۔ ہر وہ اقدام جس سے عراق امریکی جال سے نکلے، یہ بھی قطعاً امریکہ کو قبول نہیں۔
3۔ اور نہ ہی یہ قبول ہے کہ عراق امریکہ اور مغرب کی بجائے مشرقی بلاک کی طرف جائے۔
مصنف کہتا ہے کہ ایک اعلیٰ عراقی سورس نے نام ذکر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ دو بنیادی وجوہات کی بناء پر حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لایا ہے اور اس حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔
1۔ وزیراعظم کا دورہ چین اور عراق میں چائنہ کی سرمایہ کاری، امریکہ چین کے علاوہ جرمن کمپنیوں سے معاہدوں سے بھی غضبناک ہے۔
2۔ وزیراعظم کی جانب سے حشد الشعبی کے متعدد مراکز پر حملوں کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا جانا، جولائی اور اگست کے مہینوں میں ڈپلومیسی کے میدان میں عراقی حکومت نے اسرائیل کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں اور کھل کر اس کی مذمت کی نیز جواب دینے کے حق کی بات بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کا عراق میں اثر و نفوذ، شام کے ساتھ زمینی راستے البوکمال کی سرحد کو کھولنا بھی شامل ہے، اس طرح تہران، بغداد، دمشق سے بیروت تک راستہ کھل جاتا ہے۔ جس کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کہتے ہیں کہ یہ حزب اللہ اور خطے میں دیگر مقاومت کی تنظیموں تک اسلحہ کی ترسیل کا راستہ ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) جب عادل عبد المہدی نے عراق کی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اس وقت یہ ملک غیر ملکی قرضوں ، کرپشن اور بےروزگاری کی دلدل میں غرق ہو چکا تھا. داعش اور دیگر تکفیری دہشتگردی کے گروہوں نے اس کی تباہی وبربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. اجتماعی طور پر ملک کی عوام کے مابین کرد ، سنی اور شیعہ کی بلند دیواریں کھڑی کی جا چکی تھیں. ایسے حالات میں اس نے ملک کی تعمیر وترقی ، عوام کی فلاح وبہبود اور روشن مستقبل کے لئے"عراق اولا" کے عزم کے تحت اپنی سیاسی واقتصادی پالیسی بنائی. اور ملک کے زخمی جسم اور نظام کے لاغر بدن میں کینسر کی طرح پھیلے ہوئے اور راسخ شدہ جراثیم پریشان ہوئے. تمام تر خود غرض ملکی لٹیروں اور بیرونی استعماری طاقتوں کے لئے اسکی یہ روش ناقابل قبول تھی. اور انکے مفادات کا خطرہ لاحق ہو چکا تھا. اس لئے اب اس حکومت کا چلنا اور سیاسی استحکام اور اقتصادی پالیسیوں کا روکنا اندرونی مافیا اور بیرونی لٹیروں کے لئے ضروری ہو گیا تھا. اس لئے سب نے ملکر ایسے حالات بنائے کہ اسکو مجبورا استعفیٰ دینا پڑا. اور ملک وعوام کے مستقبل کو مجہول کی طرف دھکیل دیا گیا. اور دوسرے الفاظ میں عراق کے استقلال اور روشن مستقبل کی خاطر عادل عبدالمہدی نے ناتوان وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی سیاسی خود کشی کو قبول کیا لیکن مسلط کرپٹ نظام اور طاقتور طاقتوں کو ایک مرتبہ جھنجوڑ کر رکھ دیا.
عراقی وزیراعظم کے اھم اقدامات
1- عراق کی زیر بناء کو مضبوط کرنے اور اقتصادی طور پر استقلالیت کے لئے متعدد آپشنز کی طرف توجہ دی اور عراقی تیل کی فروخت کے لئے نئی منڈیوں کی طرف رخ کیا منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی عراق نے اردن اور مصر سے اس سلسلے میں اقتصادی معاھدے کئے. اور عراق جو کہ افریقی منڈی سے بہت دور تھا ان معاہدوں کے بعد اسے وہاں تک رسائی حاصل ہوئی. اس اقدام کی اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اگر ابنائے ھرمز کے ذریعے تیل کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا ہو جائے تو عراق کے پاس تیل کی ترسیل کے لئے ایک متبادل راستہ ہو گا.
2- اسی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے عراق نے بجلی کی پیدوار کے منصوبے کو ترقی دینے کے لئے جرمنی کی سیمنس کمپنی کے ساتھ ایک سنہری معاہدہ کیا. اور اسی بجلی پیداوار بڑھانے کے لئے الزبیدیۃ بجلی گھر اور صلاح الدین میں ایک بجلی گھر کے منصوبے کو وسعت دی.
3- زراعت کی پیداوار کو بڑھانے اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے. ملک کی غذائی امنیت کے استحکام کے لئے گندم کے ذخیرے کے لئے پائیدار کنکریٹ کے بڑے بڑے اسٹور تعمیر کئے. کہ جن میں چار ملین ٹن گندم اسٹور ہو سکتی ہے جس سے تین سال تک عراق کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے. کسانوں سے گندم کی خریداری کا آسان میکانیزم بنایا کہ جس میں بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے دور اور 6 لاکھ دینار فی ٹن کے ریٹ پر بے سابقہ اور بروقت فقط 72 گھنٹوں میں کسانوں کو مالیاتی ادائگیاں کی گئیں.
4- سب سے اھم اقدام 19 سے 23 ستمبر 2019 کا پانچ روزہ چین کا دورہ تھا کہ جس کے نتیجے میں " النفط مقابل الاعمار " یعنی تیل بالمقابل تعمیر عراق کا معاھدہ طے پایا. اور جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین دس سال کے دوران 500 بلین ڈالرز ٹریڈ کی سطح جا پہنچی. اور طے پایا کی چینی کمپنیاں فوری طور پر کام شروع کریں گی. اور عملی طور پر 40 چائنی کمپنیوں نے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کا کام شروع بھی کردیا.
یہ سارے اقدامات نہ تو کرپٹ سیاستدانوں کے لئے قابل قبول تھے اور نہ ہی عراق کے فیصلوں پر مسلط بین الاقوامی طاقتوں کے لئے قابل قبول تھے. چین کے ساتھ ان ھونے والے معاہدوں کے بعد عادل عبدالمہدی کے خلاف کرپشن کی عادی بااثر شخصیات اور بھاری بھاری کمیشن لینے والے گروہ اور استکباری طاقتیں سب ملکر سامنے آ گئے . امریکی صدر ڈونلڈ ٹرامپ نے ٹویٹ کیا. " کہ بالکل معقول نہیں کہ ہم عراق کو آزاد کرائیں اور معاملات غیروں سے ہوں " اور پھر تو ملکی وبین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا الیکٹرانک فورسسز نے عادل عبدالمہدی پر چڑھائی کر دی. اور عراق میں گذشتہ 16 سال سے ہونے والی ساری کرپشن ، بے روزگاری اور عوام کی محرومیوں کا زمہ دار فقط اور فقط عادل عبدالمہدی اور اسکی حکومت کو قرار دیا.
ملاحظہ: کالم کے اختتام پر رائٹر لکھتا ہے کہ عادل عبدالمہدی صحافیوں ، میڈیا اینکرز، بوٹ چاٹنے والوں اور مکھیوں کے چہرے صاف اور خوبصورت بنانے والوں کے حق میں بہت کنجوس تھا.
(عراقی رائٹر عبدالکاظم حسن الجابری کے کالم سے ماخوذ ، بتاریخ 12/11/2019 )
ترجمہ وتحریر: علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) دور حاضر میں مسئلہ فلسطین نت نئے پیچیدہ سیاسی نشیب و فراز کا شکار ہے۔ایک طرف عالمی سامراجی حکومت شیطان بزرگ امریکہ ہے کہ جس نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام سے تاحال اس جعلی ریاست کی بے پناہ پشت پناہی کی ہے اور فلسطین پر ناجائز تسلط کا دفاع کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے صہیونیوں نے فلسطین میں عرب فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور ان کو کچلنے کے لئے کھربوں ڈالر کا اسلحہ صرف امداد کے نام پر فراہم کیا ہے جس کے نتیجہ میں صہیونیوں نے گذشتہ ستر برس سے فلسطین کے مظلوم عوام کا خون پانی کی طرح بہایا ہے۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل نے صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام ہی نہیں کیا بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے اپنی گھروں سے بھی نکال باہر کیا ہے۔
آج فلسطینیوں کی زمینوں پر صہیونی بستیاں آباد ہیں جبکہ اس زمین کے اصل باسی مہاجر اور پناہ گزین بن کر دنیا کے مختلف ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی حکومتوں نے جہاں اسرائیل جیسی جعلی ریاست کے تحفظ کے لئے براہ راست سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو کھربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا ہے وہاں دوسری طرف اسی غاصب و جعلی صہیونی ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لئے خطے میں عدم استحکام پھیلانے اور خطے کی ریاستوں کو اسرائیل کے سامنے تسلیم کرنے کے لئے سات ٹریلین ڈالرز گذشتہ چند ایک سالوں میں شام، عراق اور لبنان جیسے ممالک میں دہشت گرد تنظیم داعش اور اس کے ہمنواؤں کے لئے خرچ کئے ہیں اور اس بات کا اعتراف امریکی حکومت کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ خود اپنی ایک تقریر میں کر چکے ہیں۔
آج مسلمان دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے اہم ترین مسئلہ فلسطین کا ہے۔ مسلم دنیا کے تمام مسائل کی فہرست میں فلسطین کا مسئلہ پہلے نمبر پر موجود ہے اور اس کے حل کے لئے اگر کوئی آسان اور موثر طریقہ اپنایا جا سکتا ہے وہ صرف اور صرف مسلما ن ممالک کی حکومتوں اور عوام کا باہمی اتحاد اور وحدت ہے کہ جو نہ صرف دنیائے اسلام کے سب سے بڑے اور اہم ترین مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے کارگر ثابت ہو گا بلکہ دنیائے اسلام کے دیگر تمام مسائل جو دشمن کی جانب سے صرف اسلئے پیدا کئے گئے ہیں کہ مسلمان حکومتوں کو ان میں الجھا کر رکھا جائے تا کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل محفوظ ہو جائے۔
یہا ں پر مجھے ایک واقعہ یا د آ رہا ہے کہ جب گذشتہ سالوں میں ایران اور یورپی ممالک کے پانچ ممالک کے مذاکرات یعنی پی فائیو پلس ون جاری تھے اور پھر ایک اہم ترین معاہدے پر پہنچے تھے تو اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ اسرائیل آئندہ پچیس برس کے لئے مسلمان دنیا کے خطرے اور بالخصوص اسرائیل کے دشمن ایران سے محفوظ ہو گیاہے لیکن دوسری جانب ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ جس میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح فلسطین کے عوام کے حقوق کا دفاع کرنے اور فلسطین کی آزادی کو یقینی اور حتمی ہونے کے ساتھ ساتھ وعدہ الہی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل ان شاء اللہ آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا۔
اس بیان کے بعد عرب دنیا میں بالخصوص اور یور پ میں مسلمان نوجوانوں میں جوش اور جذبہ کی نئی لہر دوڑ گئی تھی اور فلسطین کی آزادی کی تحریکیوں حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ نے اس بات کا خیر مقدم کرتے ہوئے عزم کیا تھا کہ خطے میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ہر سطح پر ناکام بنایا جائے گا۔بہر حال یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ دنیائے اسلام کے سب سے اہم مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے اسلامی دنیا کا اتحاد او آئی سی کی رسمی کاروائیوں سے بڑھ کر ہونا چاہئیے۔اس عنوان سے مسلمان و اسلامی حکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ فلسطین سمیت دنیائے اسلام کے تماممسائل کے حل کے لئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔
حالیہ دنوں ہی ذرائع ابلاغ پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا بھر سے ایران میں جمع ہونے والے اسلامی دنیا کے مایہ ناز مفکروں، مفتیان کرام، خطباء عظام اور اسکالروں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے نابودی کو یقینی قرار دیتے ہوئے عالم اسلام کی سربلندی کو حتمی و خدا کا وعدہ قرار دیا۔انہوں نے مسلم دنیا کے اسکالروں اور مفتیان کرام سمیت سیاسی ومذہبی شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل اور امت اسلامی کے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ مسلمان حکومتوں کو چاہئیے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اپنی متحدہ اور مشترکہ کوششوں کو سرانجام دیں اور باہم اتحاد اور وحدت کو عملی بنانے کے لئے کم سے کم درجہ کا اتحاد یہ ہے کہ مسلمان و اسلامی ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت یہی ہے کہ مسلم دنیا کے مشترکہ دشمن کو پہچانا جائے۔آج امریکہ جن مسلم ممالک کی پشت پناہی کرتے ہوئے مسلمان ممالک کو باہم دست و گریباں کرنے میں مصروف ہے کل یہی امریکہ ان مسلمان حکومتوں اور ملکوں کے خلاف بھی کسی قسم کے اقدامات سے گریز نہیں کرے گا۔
لہذا مسلمانوں کی نجات باہمی اتحاد میں ہے اور مسئلہ فلسطین کے درست راہ حل کے لئے مسلمانوں کا کم سے کم اتحاد یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں اور اتحاد کا بلند ترین مرتبہ یہ ہے کہ تمام مسلمان حکومتیں اپنے علم و تمد ن سے ایک دوسرے کی مدد کریں اور ترقی کی راہیں ہموار کریں۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر آج مسلمان حکومتیں اتحاد و یکجہتی کے کم سے کم درجہ کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیوں کو عالم اسلام و انسانیت کے سب سے اہم ترین مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اور فلسطین سمیت دنیا کے مظلوموں کی مدد کے لئے خرچ کریں تو یقینا یہ بات درست ہو گی کہ اسرائیل کی جعلی ریاست آئندہ پچیس برسوں میں دنیا کے نقشہ پر نہیں ہوگی۔آج مسلم دنیا میں فلسطین، کشمیر، یمن، عراق، افغانستان، برما اور دیگر کئی ایک مقامات پر مسلمان اقوام صرف اور صرف عالم اسلام کے کم سے کم درجہ کے اتحاد یعنی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے پرہیز کرنے کے متمنی ہیں۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے مختلف شہروں میں جانے کااتفاق ہوا اور کچھ موضوعات پہ تبادلہ خیال ہوا۔ اور اسی طرح گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا اور مختلف لوگوں سےملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ملے جلے اظہار خیال سے۔اور آج اپنے بچپن کے محلے کے ایک استاد سے" جوبہت کچھ اخلاقیات سیکھایاکرتے تھے " ان کی دکان پہ ملاقات ہوئی اور حالات حاضرہ پرتفصیل سے بات چیت ہوئی۔ لوگوں کی گفتگو' مختلف پارٹیوں کے چہل پہل 'سوشل میڈیاپرتشہیری مھم اور (لوٹوں کے پارٹیاں بدلنے کے انداز) نے مجھے بھی کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ اور قلم اٹھایا اور مندرجہ بالاموضوع پے لکھناشروع کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جب بھی کوئی سیاست کالفظ سنتاہے تو اس سے مراد لوٹ مار 'کرپشن'، اپنوں کو ٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنے اور اجارہ داری قائم کرلینے " کے معنوں میں لیتا ہے۔ سیاست مدار بھی انہی خامیوں اور گالیوں کے بل بوتے پر ذندہ رہتا، اورسیاست دان رہتا ہے۔ نتیجہ آج سیاست کا لفظ ایک گندا ترین لفظ تصورکیاجاتاہے۔جب کی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی سیاست ایک مقدس اور پاکیزہ لفظ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کامفہوم اورمعنی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کوتلاش کرنے کے لئے ہمیں کچھ تفصیل میں جانا ہوگا اور سیاست کے لفظ کی گہرائی میں جاناہوگا۔تاکی سیاست کامفہوم ہم پرواضح ہواوراس کی پاکیزگی ہم پرعیاں ہوتاکی معاشرے کاہرفرداس مقدس عبادت میں مشغول ہو۔لھذاپہلے ہمیں سیاست کے لفظی ولغوی معنی پھراس کے اصطلاحی معنی سے اشنا ہونا ہوگا۔ اہل لغت کے بقول "سیاست" کا لفظ ,ساس' سے مشتق ہے سیاسۃ البلاد تولی امورھا وتسییراعمالھاالداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیرشوونھا۔سیاسۃ الامرالواقع ای التسلیم بماھوواقع وکذالک سیاسی مشتق من سوس :الذی یعنی بشوون السیاسۃ 'الحقوق السیاسۃ "حقوق کل مواطن فی ان یشترک فی ادارۃ بلادہ اوممارسۃ اعمالہ الوطنیہ کالانتخاب ونحوہ : سیاست کالفظ ساسۃ سے مشتق ہے جس کالغوی مطلب تدبیرکرنا'انتظام کرنا'نظم ونسق پیداکرنا۔جبکی اصطلاح میں اس کامفھوم :ساسۃ البلاد تولی امورھا وتسییر اعمالھا الداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیر شوونھا یعنی سیاست کامطلب ملک کے امورکی سرپرستی کرنا'ملک کے داخلی اور خارجی پالیسی کواسان اورملک کے مفاد میں بنانا اورریاست کے امورکی بہترین تدبیرکرنا۔جبکی اصطلاح میں سیاست کامطلب یعنی اپنے گھر'محلے اورملک کی بہترین تدبیرکرنا 'ریاست کے ان امورکی تدبیرکرناجس کے مرتب کرنے میں اور اس کےفائدے میں تمام شہری شریک ہوں۔جیسے انتخاب وغیرہ۔یعنی ریاست کے وہ امور جس میں بلاواسطہ تمام شہری شریک ہوں اورریاست کے جملہ امورکےفوائدمیں بھی تمام لوگ مشترک ہوں۔
لغوی اوراصطلاحی مفھوم سے ہی پتہ چلاکہ سیاست سے مراد گھرکی تدبیر'علاقے کی تدبیراورریاست اورملک کی تدبیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ سیاست ہرگھرمیں ہو جس گھرمیں سیاست نہیں وہ ناکام ترین گھرانہ ہوگا۔سیاست ہرمحلے میں ہوجس محلے میں سیاست نہیں ہے وہ ناکام ترین محلہ ہوگا ۔سیاست ہرمسجد میں ہوجس مسجد میں سیاست نہیں ہےوہ مسجد'مسجدضرارکی طرح کی کوئی مسجدہوگی مسجد نبوی ص کی طرح کی کوئی مسجد نہیں ہوگی اورہرعالم کوسیاسی ہوناچاہئے اس لئے کے ہر دین ہررکن میں سیاست کاپہلوپایاجاتاہے لہذاسیاست کانہ انافخرنہیں بلکی نااہلی ہے۔ سیاست ہرملک میں ہوجس ملک میں سیاست نہیں ہے وہ ملک ناکام ترین ملک ہوگا۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ السیاسۃ لاتنفک عن الاسلام :کہ اسلام عین سیاست ہے ۔سیاست اسلام سے جدانہیں ہے۔پس اگر گھر کی تدبیر'محلے کے امور کی تدبیراورریاستی معاملات کی تدبیر کرناسیاست ہے تویہ عبادت ہے اور یہ عبادت ہرایک پر فرض اورضروری ہے "مگرملک پاکستان کاسب سے بڑاالمیہ یہ رہاہے اوررہے گاکہ اہل علم میدان ساست سے مکمل لاتعلق ہے، اورمیدان سیاست کوخالی چھوڑاہے۔ مگر جو میدان خالی ھوگااس نے تو پر ہونا ہی ہے، یا وہ میدان اچھے اوراہل لوگوں سے پرہوگا یا برے اور نا اہل لوگوں سے پر ہوگا۔ "چونکہ میدان سیاست اور حکومت ایک اہم ترین رکن اساسی ہے مملکت میں، جس کی وجہ سے رب کائنات نے قران کریم میں بھی جابجا واضح انداز میں سیاست حکومت اورحکام کے فرائض کوتفصیل سے بیان فرمایاہے جس کی تفصیل بعد میں بیان ہوگی ۔اسی طرح پیغمبراکرم ص نے بھی ایساطرزحکومت وسیاست اپناکے دیکھادیاہے۔اب ریاستی امورکی تدبیرکے لئے مدبر کا ہونا ضروری ہے اورمدبرہرکوئی تونہیں ہوسکتاہے بلکی ایک عالم 'فاضل اورملکی اوربین الاقوامی حالات پرمکمل گرفت رکھنے والاہی مدبرہوسکتاہے کیونکہ جس ملک کے چھوٹے سے چھوٹامعاملہ بھی بین الاقوامیں حالات سے جڑاہواہواس ملک میں ہرکوئی تدبیرنہیں کرسکتاہے۔ بلکہ تدبیر امور کے لئے ایک بین الاقوامی حالات پر یدطولی رکھنے والاعالم 'فاضل 'نظریاتی اورخوف خدارکھنے والے شخص کاہونا ضروری ہے ۔
حقیقت تویہ ہے کہ :گھرکےامور کوبھی چلانے کے لئے ایک ماھر 'حازق اوربہترین فردکا انتخاب کیاجاتاہے اوراس ماھر کے بغیر گھرکانظام نہیں چل سکتاہےاسی طرح محلے کے لئے بھی ایک ماھرفردکاانتخاب کیاجاتا ہے تاکی نظام بہتراندازمیں چل سکے۔ارے ایک ٹیم میدان میں اچھے کپتان کے بغیرمیچ کھیل نہیں سکتی ہے ۔اب گھراورمحلے کانظام ماھرکے بغیرنہیں چل سکتا ہے توملک کا نظام ایک نالائق'ان پڑھ اورخائن کے ذریعے کیسے چل سکتاہے ۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ ووٹ ایک امانت ہے جوکسی امین کو ملنا چاہئے۔اورمیدان سیاست کے لئےبھی ایک بہترین مدبرا' ماھرترین اورلائق فردکاانتخاب کرناضروری ہے تاکی بہترین انتظام وانصرام کے ذریعے سے ملک کومادی اوروحانی ترقی کی راہ پےگامزن کرسکے۔
اس کامطلب یہ ہواکی سیاست ہر گھر'علاقہ اورملک کاجز لاینفک ہے جس کے بغیر گھر اور علاقے کانظام چل نہیں سکتاہے۔ اسی طرح سیاست کے بغیر ملک کانظام بھی چل نہیں سکتاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ نظام مملکت کوچلانے کے لئے لوگ کس قسم کے فردکاانتخاب کرتے ہیں ۔اہل کاانتخاب کرتے ہیں یانااہل کا انتخاب کرتے ہیں ۔اب دوسراسوال یہ پیداہوتاہے کہ اہل سے کیامرادہے؟اس کاجواب بھی بلکل واضح ہے کہ :ملک کے معاملات کوچلانے کے لئے 'داخلہ اورخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لئے اورعوام کی فلاح وبہبود کے لئے فردکاانتخاب کیاجاتاہے تواس کے لئے اہل فردکاانتخاب کیاجائے۔اوریہاں اہل سے مراد پڑھالکھا، بین الاقوامی حالات پرگہری نظر رکھنے والا اور معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والاہو تاکی یہ منتخب اہل فردپانچ سال سیرسپاٹے میں مغرور ہوکے نہ گزارے بلکی انے والی نسلوں سے جڑے اوربین الاقوامی معاملات سے جڑے ہوئے مسائل کاحل نکالے اورعوام کی بھرپورخدمت کرے تاکی اگلے پانچ سال پھرخدمت کی بنیاد پر دوبارہ جیت جائے اور اس کی جیت یقینی ہو۔
لھذا اگر سیاست کامطلب مذکورہ بالامعنی میں لیاجائے توعبادت ہے اور اگرسیاست کامطلب ملک میں رائج طریقہ لیاجائے، یعنی سیاست سے مراد سیاست دان کی اجارہ داری 'کرپشن 'لوٹ مار'اقرباپروری'کمیشن خوری اوراپنوں کوٹھیکوں اورنوکریوں سےنوازنا ہے توسیاست عبادت نہیں ہے خیانت ہے۔اب اتے ہیں بلتستان میں مروجہ سیاست پے جہاں گذشتہ کئی سالوں سے مختلف نشیب وفرازدیکھااور مختلف علاقوں اورسیاست مداروں کوپڑھنے 'سمجھنے اورحالات کو بغور دیکھنے کاموقع ملاجس کے بعدپورے یقین واثق سے کہہ سکتاہوں کہ بلتستان میں سیاست دان عبادت نہیں خیانت کرتے ہیں کیونکہ یہاں سیاست دان کامحورتھیکہ دارہوتاہے اورتھیکہ دارکا محور سیاست دان ہوتاہے نتیجہ ٹھیکہ دارکےپورے کاپوراھم وغم ٹھیکہ ہی ہوتاہے جس کی بناپرہواکے رخ کے ساتھ ہی اپنارخ بھی بدل دیتاہے جس کی ضمیرکی قیمت بس ٹھیکہ ہی ہوتی ہے جس کاثبوٹ گذشتہ پی پی پی اور اج نون لیگ کے دورحکومت میں دیکھاجاسکتاہے اوراب مفاد پرست ٹولے کارخ پی ٹی ائی کی طرف ہوگیاہے۔کچھ خیانت کارتووہ ہے جوکمیشن 'ٹھیکہ اوراثررسوخ کے بل بوتے پرہی سیاست کرتے ہیں اورکچھ تو وہ ہیں جوٹھیکوں کی خریدوفروخت میں مشغول ہیں اگرسکردوشہر کے منصوبوں پرایمانداری سے پیسہ خرچ کیاجائے اورذیادہ بچت کی فکر نہ ہو تو سکردو جیسا چھوٹا سا شہرایک بے مثال شہربن سکتا ہے کسی ضلع کے نمائندہ کو%30 اے ڈی پی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔اب محترم قاری خودفیصلہ کرے کہ پاکستان میں بالعموم اور بلتستان میں بالخصوص سیاست عبادت ہے یاخیانت۔
تحریر : شیخ فدا علی ذیشان
سکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان (ضلع سکردو بلتستان )
وحدت نیوز(آرٹیکل)عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں روز بہ روز شدد آرہی ہے اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن اور اقتصادی مشکلات کے خلاف اٹھنے والی یہ مظاہرے اب عوام کے ہاتھوں سے نکل کر تیسری قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں۔ تقریبا دو ماہ سے جاری ان مظاہروں میں اب تک چار سو کے قریب جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہزاروں کے تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اس کے علاوہ سرکاری تنصیبات اور عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس وقت سب سے اہم بات مظاہرین کا اپنے اصل ہدف سے دور ہونا اور تشدد کی جانب بڑھنا ہے۔ خصوصا مذہبی حلقوں اور حشد الشعبی کے خلاف قدم اٹھانا ہے جنہوں نے ان کو داعش کے شر سے نجات دلایا تھا۔
معاملہ اب کرپشن اور اقتصاد کے دائرے سے باہر ہے اور حالات ایسے ہی برقرار رہے تو خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ مظاہرین کے درمیان سازشی عناصر نے نفوذ پیدا کیے ہیں اور وہ مظاہرین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان سازشی عناصر کو حکومت نے تیسری قوت قرار دیا ہے۔ تیسری قوت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عراقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ قوتیں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہیں جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ان مظاہروں کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر جگہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا کیوں نام آتا ہے مظاہرے تو عراقی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے ہی مطالبات کے حق میں تو یہاں امریکہ کا کیا کام؟ جواب یہ ہے کہ جہاں امریکی مفادات ہوتے ہیں وہاں پر مستحکم حکومت کبھی امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوتا، یہ بات ہم افغانستان سے لیکر افریقہ تک جہاں جہاں امریکہ ہے باخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر حکومت مستحکم ہوں اورعوام باشعور ہوں تو پھر امریکہ کے کالے کرتوت کھل جاتے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس وقت روس اور چین کے بڑھتے اثرورسوخ اور ایران سمیت مقاومتی بلاک کا مشرق وسطی میں بڑھتی کامیابی نے امریکی سپر پاور ہونے کے دعوے کو للکارا ہے اور شام، عراق اور لبنان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو منہ کی کھانی پڑی ہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عراق میں مظاہرین کا روخ تشدد کی جانب مڑ نا، ایرانی کونسل خانے کو جلانا اور عراقی مذھبی شخصیات کے دفاتر پر حملہ کرنا یہ عام عراقی عوام نہیں کرسکتے ہیں۔
امریکہ کو عراق کے مذھبی حلقوں سے شکایت کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بات بتاتا چلوں کہ امریکہ جس ملک میں بھی اپنا اڈہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلاتا ہے، سقوط صدام کے بعد داعش کا سر اٹھانا امریکی پلانگ کا حصہ تھا داعش کے ذریعے امریکہ نے بیک وقت شام اور عراق دونوں میں خانہ جنگی شروع کروادی تھی اور اسی بہانے امریکہ نے یہاں رہنا تھآ اور ان کے قدرتی وسائل پر ڈاکہ ڈالنا تھا۔ اب آئیں جواب کی طرف امریکہ کو دھچکہ اس وقت لگا جب عراق کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت آیت اللہ سیستانی نے داعش کے خلاف جنگ کا فتوی دیا جس کا اثر یہ ہوا کی لاکھوں کی تعداد میں عراقیوں نے لبیک کہا اور امریکی و داعشی عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ جس کا براہ راست نقصان امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو ہوا کیونکہ داعش کو بنانے ان کی تربیت کرنے اور ان کو فنڈنگ کرنے میں ان تین ممالک کا مستقیم ہاتھ تھآ۔
اب امریکہ عراق میں میں ناکام ہوچکا تھآ اُس نے جس مقصد سے داعش کو بنایا تھا اس کا سو فیصد ثمر اس کو نہیں ملا بلکہ اس کے برعکس عراق میں آیت اللہ سیستانی کے فتوی کی وجہ سے ایک ایسی قوت حشد الشعبی کے نام سے ابھر آئی جنہوں نے نہ صرف داعش کو شکست دی بلکہ امریکیوں کو بھی عراق چھوڑنے کا حکم دیا، دوسری طرف عراق کے رضاکار فورسیز نے اسرائیل کو بھی آنکھیں دیکھائی جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک دو بار عراق میں حشد الشعبی سے متعلق ملٹری بیس پر فضائی حملے بھی کئے۔ عراق میں حشد الشعبی کی بڑھتی مقبولیت اور عراق ایران کے بہتر ہوتے تعلوقات امریکہ اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔
دوسری جانب عراقی الیکشن میں امریکہ مخالف پارٹیوں کی کامیابی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ جب عوام حکومت سے اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ لئے سڑکوں پر نکل آئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہ ایک بہترین موقع ثابت ہوا اور انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عوام میں یہ باتیں پھیلانا شروع کیا کہ عراق کی اقتصادی بحرانوں کا اصل سبب حشدالشعبی، مقاومتی بلاک اور ایرانی اثرورسوخ ہے جسکی وجہ سے آج عراقی مظاہرین کا ہدف تبدیل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس وقت بد امنی پھیلانے والوں کی اکثریت کا تعلق امریکہ اور داعش حمایتی افراد سے ہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ابھی بھی عراقی باسی اور قبائلی افراد آیت اللہ سیستانی کی جانب دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کے حکم سے ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کا سر کچل سکے۔ مگر آیت اللہ سیستانی، مقتدا الصدر، عمار الحکیم سمیت اہم سیاسی و مذہبی شخصیات نے پُر امن مظاہرے کی حمایت اور حکومت سے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ہی پُر تشدد واقعات کا سختی سے مذمت کی ہیں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پر امن رہیں۔
اس وقت عراق کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ عوام عوام کے خلاف برسرپیکار ہے جن کو قابو کرنا حکومتی بس کی بات نہیں ہے اور آخر میں ان تمام مشکالات کا حل مراجع اور مذھبی شخصیات ہی نکال سکتی ہیں۔ امید ہے کہ اس دفعہ پھر امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام ہونگے اور انکے ناپاک عزائم خاک میں مل جائینگے، ساری دنیا کی نظریں آیت اللہ سیستانی پر ہیں اور مرجع تقلید حالات کی بہتری کی جانب پُر امید نظر آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ انشااللہ آئندہ جلد عراق کے حالات بہتری کی طرف لوٹ آئنگے۔
تحریر: ناصر رینگچن