وحدت نیوز(آرٹیکل)عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق میں فیصلہ آ چکا ہے ا ب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح امریکی حکومت عالمی اداروں کو بلیک میل کر کے انسانیت سوز مظالم کے مرتکب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی خاطر قوانین کی دھجیاں بکھیرے گی یا پھر اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے کیلئے انسانی حقوق کی اصل بنیاد کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
حال ہی میں عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court) نے اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب پر تحقیقات کرنے کا فیصلہ سنایا ہے جس کے بعد فلسطین کے مظلوم عوام نے امید اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کو فلسطینیوں کی جاری جدوجہد آزادی کے لئے اہم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ سرزمین مقدس فلسطین پر غاصب صہیونیوں نے عالمی استعماری قوتوں برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے سنہ1948ء میں ایک ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لا کر فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
البتہ تاریخ فلسطین کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلسطینیوں پر صہیونی مظالم کا سلسلہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا اور صہیونیوں کے مظالم کی تاریخ کو آج ایک صدی سے زائد بیت چکا ہے لیکن فلسطین کے عرب باشندے اپنی ہی زمین کی تلاش میں ہیں اور اپنے ہی وطن جانے سے محروم ہیں۔
غاصب صہیونیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیا، جلا وطن کیا، ان کے گھروں کو مسمار کیا یا تو قبضہ کر لیا گیااور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اس تمام مجرمانہ کارروائیوں میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے واضح طور پر اعلان سامنے آیا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر کئے جانے والے سنگین مظالم اور جرائم پر اسرائیل کے جنگی جرائم کے مرتکب ہونے پر تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے۔اس بیان کے سامنے آتے ہی جہاں فلسطینیوں نے خیر مقدم کیا ہے وہاں صہیونیوں کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف کی توہین کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیو ں کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکی سیکرٹری پومپیو نے بھی ہمیشہ کی طرح سے امریکی شیطانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کی کوئی ریاستی حیثیت نہیں ہے۔
دنیا یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ یہی امریکہ اور برطانوی سامراج ہی تھا کہ جس کی پشت پناہی کے باعث صہیونیوں نے فلسطین کی سرزمین مقدس پر ایک ناجائز اور جعلی ریاست بنام اسرائیل قائم کی تھی اور آج امریکہ کھل کر فلسطینی عوام کے حقوق کی مخالفت کر رہا ہے۔
یہی وہ نقطہ فکر ہے کہ جس کو آج دنیا کے باشعور اذہان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کی دنیا بھر میں مخالفت اس لئے کی جاتی ہے اور امریکہ مردہ باد کے نعرے دنیا بھر میں اس لئے گونج رہے ہیں کہ امریکی حکومت نے دنیا کے لئے انسانی حقوق کی تعریف کچھ اور کر رکھی ہے جبکہ اپنے مفادات کے لئے اور بالخصوص امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے دفاع اور اس کے جرائم اور مظالم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے انسانی حقوق کی تعریف کچھ اور ہے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام کو امریکی حکومت شاید انسانی حقوق کے زمرے میں لاتی ہی نہیں ہے۔
امریکی سیکرٹری پومپیو کے فلسطین مخالف بیان نے دنیا پر ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردوں اور دہشت گردی کی حمایت کی ضرورت ہو گی امریکی حکومت اور اس کے عہدیدار ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔جیسا کہ پومپیو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے کہ جسے قانونی ریاست یا جائز ریاست تصور کر لیا جائے؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل جس کے جرائم اور دہشت گردانہ کارروائیاں روزمرہ فلسطینیوں کے خلاف جاری ہیں ایسی دہشت گرد ریاست کی حمایت کرنے سے کیا امریکی حکومت نے امریکہ کی عوام کی تذلیل نہیں کی ہے؟امریکی عوام کو بھی چاہئیے کہ اگر وہ دنیا میں اپنے ملک کے خلاف نفرت کو کم کرنا چاہتے ہیں تو پھر امریکی حکومت کی ان تمام پالیسیوں کی مخالفت کریں جس کے باعث امریکہ مردہ باد کے نعرے دنیا بھر میں گونج رہے ہیں۔
پوری دنیا پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اسرائیل کو تحفظ دینے کی خاطر امریکہ اور اسرائیل نے مسلم دنیا میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی پرورش کی اور فلسطین کی مظلوم ملت کو گذشتہ ایک سو برس سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کیا دنیا میں اسرائیل سے بڑی دہشت گرد کوئی قوت موجود ہے؟ اور کیا اسرائیل جیسی دہشت گرد قوت کی حمایت میں سب سے آگے امریکہ کے علاوہ کیا کوئی اور حکومت موجود ہے جو اسرائیل کا دفاع کرے؟
خلاصہ یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق میں فیصلہ آ چکا ہے ا ب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح امریکی حکومت عالمی اداروں کو بلیک میل کر کے انسانیت سوز مظالم کے مرتکب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی خاطر قوانین کی دھجیاں بکھیرے گی یا پھر اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے کیلئے انسانی حقوق کی اصل بنیاد کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
ظاہری طور پر امریکی سیکرٹری کے بیان سے یہی واضح ہو رہاہے کہ امریکہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی تحققات کئے جانے کے حق میں نہیں ہے۔اگر امریکی حکومت کا اسرائیل اور ظالموں کے تحفظ کے لئے یہی دستور ہے تو پھر دنیا کی تمام حریت پسند اقوام او ر فلسطین کی آزادی خواہی کے لئے سرگرم عمل قوتوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے نعروں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کریں۔
دنیا کی ظالم قوتوں کو یہ بات جان لینی چاہئیے کہ ظلم کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی ہے اور بالآخر وہ دن قریب ہے کہ دنیا بھر میں مظلوم اقوام بشمول فلسطین، کشمیر، لبنان، عراق، شام، افغانستان، روہنگیا اور نیجیریا سمیت دیگر اقوام ان ظالم و جابر قوتوں کے ظلم و استبداد کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور وہ دن آئے گے او ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے۔
تحریر: صابر ابو مریم
وحدت نیوز(آرٹیکل) ’’قابل رحم ہے وہ قوم‘‘ یہ وہ تاریخی نظم ہے معروف لبنانی نژاد امریکی مصنف و شاعر خلیل جبران کا جو موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم گیلانی کو نا اہل کرنے والی سپریم کورٹ کے بینچ ممبر کے بطور اپنے ریمارکس میں لکھے۔ سپریم کورٹ کیطرفسے حکم پر گیلانی حکومت نے دو سال تک عملدرآمد نہیں کیا، یعنی آصف زرداری سمیت مشرف کیساتھ بینظیر کی این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کیخلاف کیسز کھلوانے کا کام نہیں کیا۔ نتیجتا عدلیہ کی توہین کا مرتکب قرار پاکر وزارت عظمیٰ سے جیالا وزیر اعظم نا اہل قرار پایا۔ یعنی کچھ اور نہیں بلکہ فوجی آمر صدر پرویز مشرف اور بینظر بھٹو کے درمیان این آر او کو سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرار دینا بنیاد بنی۔ آج "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کا خوبصورت نعرہ لگانیوالے بلاول بھٹو کو کوئی یاد دہانی کرائے، کہ اسی آمر جنرل کیساتھ انکی والدہ محترمہ این آر او کرکے واپس ملک آئیں تھی، اور انکے ایک وزیر اعظم کو اسی غیر قانونی این آر او کے طفیل سزا بھی ہوئی۔
اس تاریخی نظم میں سیاست دانوں، دانشوروں، اہل علم و دانش، سب کے کارتوت مختصر مگر جامع طور بیان ہیں۔ جیسے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں
اور جس کے دانشورمحض شعبدہ باز اور مداری ہوں
پی پی کی اور نون لیگ کی لیڈر شپ تب اسی فوجی آمر پرویز مشرف کیساتھ این آر او کرکے اپنے اقتدار کیلئے راہیں ہموار کرتے رہے۔ جب مشرف کی رخصتی کا وقت آیا ، اسی بلاول کی پی پی پی نے گارڈ آف آنر پیش کرکے رخصت کیا۔ اور جب نون لیگ کی حکومت میں مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی، تو پی پی والے نون لیگ پرمعترض تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علیخان کا جملہ تھا، 'مشرف کو گارڈ آف آنر دینے والے (یعنی پیپلز پارٹی والے) سیاسی ڈرامہ کر رہے ہیں'۔ نون لیگ نے مشرف کیخلاف بغاوت کا کیس تو کیا جس کا پانچ سال بعد اب فیصلہ آگیا، مگر انہیں ملک سے جانے کی اجازت بھی کسی اور نے نہیں بلکہ اسی نون لیگ نے دی۔ سو
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کوڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
در اصل مسئلہ اس ملک کا یہ نہیں تھا کہ 2007 میں سپریم کورٹ کے ججز کو معطل کیا اور اسی چیف جج نے پلٹ کر آرمی جنرل پر مقدمہ چلانے کا آغاز کیا۔ پی پی کی پانچ سالہ حکومت کے بعد نواز شریف نے آرٹیکل 6 کے تحت اسے غداری کا مقدمہ بنایا۔ بلکہ اصل ایشو اس رونے دھونے کا تھا جو ہر سیاستدان کا وطیرہ رہا ہے۔ وہی کہ ملک کی تاریخ میں جمہوریت سے زیادہ آمریت رہی۔ مشرف کی آمریت تو 2007 میں نہیں بلکہ 1999 میں شروع ہوئی تھی۔ آئین اور عدلیہ معطل، پی سی او کے تحت من مانی تب شروع ہوئے۔ مگر آٹھ سالوں کے تمام کئے دھرے پر خاموشی اور جانے سے ایک سال قبل کے کام پر ’’سزائے موت؟‘‘ یہ کیس کرنے والوں کی پرائریٹی ظاہر کرتی ہے، کہ مستقبل کیلئے سول سوپر میسی یعنی آئندہ ملک پر شب خون مارکر آمریت کے امکان کو روکنا چاہتے تھے؟ اور عدلیہ کی آزادی چاہتے تھے؟ یا پہلے پی سی او کے تحت جج بن کر بعد میں پی سی او کے ذریعے ’معطل ہونے والا جج یعنی افتخار چوہدری‘ اوراقتدار کی کرسی سے ہٹائے جانیوالا ’سیاست دان، یعنی نواز شریف‘ اس آمر سے اپنا بدلہ لینا چاہتے تھے عدلیہ کے ذریعے؟ اب یہ اور ایسے کئی سوالات سوشل میڈیا پر اٹھتا نظر آرہے ہیں۔
اور نظم میں مجموعی طور پر پورے قوم کی حالت بیان ہے تو اس حقیقت کیساتھ ؎
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کےجلوس کے سواکہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوااس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردنین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو
اور جس کا ہرطبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو
تحریر: شریف ولی کھرمنگی
وحدت نیوز(آرٹیکل) جدید دنیا میں غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کا کردار کافی حد تک بڑھتا چلا جا رہاہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کے قیام نے عوام کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے جیسے سنہرے خوابوں سمیت خواتین کی آزادی جیسے کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر نہ صرف بے راہ روی کو پروان چڑھایا ہے بلکہ ان ممالک میں عوام کے اندر ایسے گروہوں کو بھی جنم دیا ہے جو وقت آنے پر ان غیر سرکاری تنظیموں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنے ہی وطن کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔
ہم اس مقالہ میں تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک میں امریکی این جی اوز کے منفی کردار کو آشکار کرنے کی کوشش کریں گے۔خاص طور پر امریکن این جی اوز نے افریقا اور ایشیائی ممالک کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے اور یہاں پر امریکی مفادات کو ترجیح پر رکھنے کے لئے ان خطوں کے ممالک میں سرمایہ گذار ی کی جا رہی ہے۔
امریکن این جی اوز میں سر فہرست یو ایس ایڈ نامی این جی او یا ادارہ کہہ لیجئے شامل ہے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے ممالک میں اور اسی طرح سوڈان، مصر اور دیگر شمالی و جنوبی افریقائی ممالک میں امریکن این جی او ز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی ادارے کی جڑیں کافی مضبوط ہو چکی ہیں۔ جہاں یہ ادارے مختلف خطوں کے ممالک میں تعلیم اور صحت کا نعرہ لگا کر نام نہاد ترقی کے منصوبہ متعارف کرواتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ ان ملکوں کی جڑو ں کو کھوکھلا کرنے کے لئے بھی زہر گھولتے رہتے ہیں اور درست وقت پر اس زہر کو کار آمد بنانے کے لئے اس سے کام لیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں شمالی افریقائی ممالک سمیت مغربی ایشیائی مماک بشمول سوڈان، عراق، لبنان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے مشاہدہ اور تجربہ نے ا س بات کو مزید تقویت بخشی ہے کہ امریکن این جی اوز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی ادارہ ان ممالک میں حکومت مخالف احتجاجی تحریکوں کو امریکی حکومت کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے رخ موڑنے کا کام انجام دیتا رہاہے۔
اگر عراق کی مثال سامنے رکھی جائے تو مشاہدے میں آیا ہے کہ امریکن این جی اوز نے کئی ماہ قبل ہی عراق میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم کے نعرے دکھا کر انہیں امریکہ کا سفر کروایا جہاں پر ان کی خاص تربیت کے دوران اپنے وطن کے نظام کو مسترد کرنے کی خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی۔یہ عمل امریکن این جی اوز کی سرپرستی میں جاری رہا اور پھر نتیجہ میں دو ماہ قبل سوشل میڈیا سے ہی جمع ہونے والے چند سو لوگوں نے کہ جن کو انہی امریکی این جی اوز نے امریکہ کا سفر کروا کر تربیت فراہم کی تھی، انہوں نے عراق کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے تکنیکی ذرائع اور نعروں کا استعمال کیا جو یقینا ہرعام انسان کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں۔
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے اور نظام کو غیر فعال کرنے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور بد ترین تشدد کے نتیجہ میں کئی افراد کو جان سے مار دیاگیا۔۔۔
کئی ایک ایسی مستند ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں کہ جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انتہائی مہارت کے ساتھ مخصوص قسم کے اسلحوں سے لوگوں کو گولیاں ماری گئی ہیں اور اسی طرح ایمبولینسز سے نکال کر جوانوں کی قتل کئے جانے کی ویڈیوز اور پھر ایک نوجوان کو قتل کرکے نذر آتش کرنے اور برہنہ حالت میں چوک پرلٹکائے جانے کی ویڈیوز ایک مخصوص اور منفی طرز فکر کی ترجمانی کرتی ہیں۔
اس بارے میں خود عراقی حکومت کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ امریکی این جی او ز نے گذشتہ چند ماہ میں نوجوانوں کو امریکہ لے جا کر جس تربیت سے پروان چڑھایا ہے اس وقت موجودہ سیاسی بحران کو پیدا کرنے میں انہی این جی اوز کا منفی کردار واضح ہو چکا ہے۔
دوسری طرف لبنان میں بھی اکتوبر کے مہینہ میں اسی قسم کا احتجاج شروع ہو اجو چند دن بعد لبنانی وزیر اعظم کے استعفی کی صورت میں کامیاب ہوتا نظر آیا لیکن لبنان کے احتجاج میں بھی یوا یس ایڈ کے خصوصی افراد کی جانب سے مظاہروں میں بھرپور شرکت اور مظاہرین کی مدد کرنے کے ٹھوس شواہد نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ امریکی این اجی او ز اس ملک میں بھی جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کو پر تشدد رنگ دینے میں سرگرم عمل ہیں وہاں ساتھ ساتھ مخصوص گروہوں کی تربیت کے ذریعہ ملک کو غیر مستحکم کرنے اور سیاسی بحران کو پروان چڑھانے میں بھی پیش پیش ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سے شواہد سامنے آنے کے بعد لبنانی عوام نے احتجاج کو ترک کر دیا ہے جبکہ چند ایک لوگ ابھی بھی حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہیں، البتہ احتجاج سے باہر نکل جانے والی عوام کی ایک بڑی تعداد نے لبنان میں امریکی این جی اوز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی این جی او کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کرتے ہوئے اس ملک دشمن ادارے کے دفاتر کو بند کر دیا ہے۔
سوڈان کی اگر بات کریں تو یہا ں بھی ستمبر کے مہینہ میں شروع ہونے والا احتجاج حکومت کے مستعفی ہونے کا باعث بنا ہے اور اسی طرح مصر میں بھی احتجاجی نے جنم لیا تھا اور اب یہ صورتحال پاکستان میں بھی آن پہنچی ہے کہ گذشتہ دنوں طلباء یکجہتی مارچ کے نام پر امریکی زدہ کھوکھلے نعروں اور انسانیت کی تذلیل نے امریکی این جی اوز کی ممالک میں مداخلت کے راز کو فاش کر دیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عراق، سوڈان،لبنان اور پاکستان میں ہونے والے مختلف احتجاجوں میں ایک بات قدرے مشترک پائی گئی ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں کی کوئی واضح قیادت سامنے نہیں آئی ہے جبکہ ان مظاہروں میں بے راہ روی اور ملک دشمن نعروں سمیت انسانیت کی تذلیل پر مبنی اقدامات او ر امریکی سامراج کے پیدا کردہ کھوکھلے نعروں سے ایک بات واضح ہو ئی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں امریکی این جی اوز ان ممالک کی جڑو ں کو کاٹنے کا کام کر رہی ہیں۔عراق و لبنان یا سوڈان میں کیا ہونا ہے ہمیں شاید نہیں معلوم، لیکن پاکستان ہمارا دیس اور ہماری جان ہے یہاں پر اس طرح کے اداروں کی جانب سے ملک کی جڑوں کو کاٹنے کے اقدامات کو سختی سے روکنا چاہئیے۔
تحریر: صابر ابو مریم
وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ چار دھائیوں سے امریکہ اور غرب اس خطے میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پٹرول گیس اور دیگر وسائل کو لوٹنے کے لئے انھوں نے مختلف ممالک کے نظاموں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا. انکے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک ابھر کر سامنے آیا. انھوں نے خباثت سے مذھبی رنگ دیکر جہان اسلام کو سنی اور شیعہ میں تقسیم کرنے پر کام کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہمارے مخالف تو بس شیعہ مسلمان ہیں. اور سنی مسلمان ہمارے اتحادی ہیں. حالینکہ سب سے زیادہ نقصان ان ممالک کے عوام کا ہوا جہاں پر اکثریت اھل سنت مسلمانوں کی ہے. اور امریکہ وغرب کی ان مسلط کردہ جنگوں میں اگر کوئی اعداد وشمار پر نظر کرے تو سب سے زیادہ قتل ہونے والے بھی اھل سنت مسلمان ہی ہیں. اس وقت جب مقاومت کی حکمت عملی و استقامت اور جوابی کارروائیوں سے اس خطے میں امریکہ شکست سے دوچار ہے. اور دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
امریکہ اور غرب نے خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ وامارات کو لیبیا ، الجزائر ، تیونس ، مصر ، لبنان وسوریہ ، فلسطین وعراق اور یمن وبحرین سمیت دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر استعمال کر لیا ہے کہ اب سعودیہ کا چہرہ پورے جہان اسلام میں امریکی اشاروں پر ناچنے اور خطے کے ان مذکورہ ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے اور انکے امن امان کو تباہ برباد کرنے ، آباد وشاد ممالک کو ویران کرنے کے لئے دہشگردی کی کھلی مدد کرنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہے. اقوام عالم میں آل سعود کے خلاف بہت نفرتیں جنم لے چکی ہے. وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ کوئی مسلمان انہیں اپنا پیشوا وراھنما قبول کر سکے. اب انکےطاقتدار کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے اور انکی قیادت کا خاتمہ ہونے والا ہے . اقبال نے تو بہت عرصہ پہلے جہان اسلام کی نجات کا فارمولہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
مقاومت کا بلاک ہر گز فقط شیعہ بلاک نہیں بلکہ اس میں عراق ولبنان وشام وفلسطین ویمن کے اھل سنت صوفی ، مسیحی ، درزی ، ایزدی ، عاشوری ، علوی ، زیدی واسماعیلی. نیشنلسٹ وکیمونسٹ ولیبرل وغیرہ سب شامل ہیں . اور امریکہ واسرائیل کی استعماری پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور انکی غلامی کی بجائے انکے خلاف قیام اور ہر وسیلہ سے مقاومت کرنے کے موقف پر متحد ہیں۔
لیکن شاید امریکہ اور اسرائیل کی پیدا کردہ نفرتوں کا شکار مسلمان ابھی تک اس حقیقت کو درک کرنے کے قابل نہیں. اس لئے اب امریکہ کو شکست دینے والے مقاومت کے بلاک کے محور مرکز سے ھٹ کر سنی سیاسی اسلام کے دعویدار اخوان المسلمین جہان اسلام کو قیادت کا جدید نظام فراھم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. جبکہ سعودی عرب اب بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ھاتھ پاوں مار رھا ہے. انہیں ایرانی مسلمان بھائی کلمہ شھادت پڑھنے والا اسلام دشمن اور اسرائیلی وصہیونی ویہودی اسلام کا کا ھمدرد اور دوست نظر آتا ہے اس لئے ایران سے تعلقات منقطع کرتے ہیں اور امریکا وغاصب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر فخر کرتے ہیں۔
تاریخ عصر حاضر کے تناظر میں عالمی سنی قیادت
– پہلی عالمی جنگ سے پہلے جہان تسنن کی زعامت وقیادت ترکی کے پاس خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی۔
– اس کے کے بعد تدریجا سعودیہ کو یہ قیادت تفویض کی گئی. اور پورے سنی جہان اسلام کا سرپرست اور قائد وراھبر ال سعود کو بنایا گیا۔
– جب اردغان کو طاقتور کیا گیا تو اسے پھر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا خواب دکھایا گیا. اور اس نے سنی اسلام سیاسی ( اخوان المسلمین ) کو جذب کیا۔
– جب مصر میں محمد موسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے خلافت وقیادت سنی اسلام کی انگڑائی لی. سعودیہ نے جنرل سیسی کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا۔
– قطر کے اخوانی رجحانات نے اسے سعودیہ کا دشمن بنایا۔
– مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اسرائيل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور حماس کی حمایت کی . تو ملائشیا میں سعودی نواز حکومت لائی گئی۔
– نون پریس کی رپورٹ کے مطابق کوالمپور میں ہونے والی کانفرنس اپنی نوعیت کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس ہے۔
– 2014 کو مہاتیر محمد نے اقتدار میں آنے سے پہلے اسلامی مفکرین کی بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ” اسلام کا سیاسی وفکری نظام ” بلائی۔
– دوسری بین الاقوامی کانفرنس بھی کوالمپور میں بعنوان ” ترقی واستحکام کے لئے حریت ودیموکریسی کا کردار ” منعقد کی کئی۔
– تیسری بین الاقوامی کانفرنس اخوان کے نفوذ کے ملک سوڈان میں بعنوان ” الحکم الرشید ” یعنی حکومت راشدہ منعقد ہوئی۔
– چوتھی بین الاقوامی کانفرنس استنبول میں ” الانتقال الدیمقراطی ” منقعقد ہوئی۔
– ابھی 18 سے 21 دسمبر 2019 کو پانچویں کانفرنس بعنوان “قومی استقلالیت کے حصول میں تعمیر وترقی کا کردار ” اور امت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد ہو رہی ہے جس میں پانچ ممالک ملائشیا ، ترکی ، پاکستان ، قطر اور انڈونیشیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے البتہ شرکت کے لئے 50 کے قریب اسلامی ممالک کہ جن میں ایران بھی ہے ان کو دعوت دی گئی ہے. اس کے علاوہ جہان اسلام کے 450 مفکرین کو بھی ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے دعوت دی گئی ہے. کانفرنس کے انعقاد کے بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ یہ مفکر کیا فقط اھل سنت ہیں یا کسی شیعہ مفکر کو بھی دعوت ہے. یا پھر اھل سنت میں سے بھی فقط اخوان المسلمین عالمی کے مفکرین اور انکے طرفدار ہی مدعو ہیں یا دیگر اھل سنت مفکرین بھی شریک ہو رہے ہیں۔
– ملائشیاء کے وزیر اعظم مھاتیر محمد نے اپنے بیان میں جن زیر بحث آنے والے اہم مسائل کا تذکرہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
مسلمانوں کی مجبورا ھجرت ، اقتصادی مسائل ، قومی وفرھنگی شناخت ، اسلام فوبیا ، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرتیں ، انٹرنیٹ وٹیکنالوجی، ترقی واستقلال ، صلح امن اور دفاع ، استقامت اور حکومت راشدہ ، عدالت وآزادی وغیرہ شامل ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور ملیشیاء کے ساتھ ملکر امت کو درپیش مسائل کہ جن میں فلسطین اور روھینگیا کے مسلمانوں کے مسائل ہیں اس سلسلے میں تعاون کو بہتر بنائیں گے. اور ان مشکلات کا حل تلاش کریں گے۔
ترکی کے صدر کے مشیر یاسین اقطای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ سعودی عرب ،امارات ،اور مصر وغیرہ طاقتور ملک میانمار ، کشمیر ، فلسطین ، ترکستان ، سوریہ کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں جبکہ یہی وہ ممالک ہیں جو یمن ، لیبیا اور مصر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور جو کچھ ان پر گزر رہا ہے یہی ان مسائل کا موجب و منبع ہیں۔
ملائشیاء کانفرنس اور قضیہ فلسطین
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کو اولویت دی جائے گی. امریکی سفارتخانے کے قدس شريف میں منتقل ہونے اور اسے مقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی امریکی تائید کے بعد جب دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی گئی. تو اسی دوران اقوام متحدہ میں عربی واسلامی ممالک کی نمائندگی میں ترکی کے صدر نے قرار داد پیش کی اور موقف اختیار کیا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لئے اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں بلاواسطہ مذاکرات ہونے چاہئیں. جسے 128 اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا.
فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ھنیئۃ کی شرکت بھی متوقع ہے. امریکہ واسرائیل اب فلسطین کے مسئلے پر حماس سے معاملات پر راضی ہیں. بشرطیکہ اس کا عسکری ونگ کنٹرول ہو جائے. جیسے پہلے یاسر عرفات اور محمود عباس سے معاملات چلتے رہے اور حماس وجہاد اسلامی اور مقاومت کے باقی گروہ دشمن رہے. اب یوں نظر آ رھا ہے کہ حماس محمود عباس کی جگہ لینے والی ہے اور یہی معاملات کرے گی. اور پوری دنیا کے اخوان المسلمین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے ترکی اور قطر کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب ، بحرین، اردن ومصر کے تعلقات قائم ہیں. حماس اسرائیل مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد ملائشیا وپاکستان ودیگر اسلامی ممالک کے راستے ہموار ہو جائیں گے. فقط مقاومت کا بلاک کہ جس میں ایران ، عراق ، شام ، لبنان اور یمن و فلسطینی مقاومتی گروہ ہیں وہ غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل رہ جائیں گے۔
قطری اقتصادی تعاون اور مالی امداد کا منصوبہ
قطر گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے. اور اسرائیلی قطری تعلقات اور الجزیرہ کی شکل میں میڈیا کے شعبے میں تعاون بھی سب جانتے ہیں. قطر نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ملکر اقتصادی تعاون اور اسلامی ممالک کی ترقی کے لئے مالی امداد کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے. جس کے لئے تین مراکز بنائے جا رہے ہیں. مشرق وسطیٰ کے لئے مالی امداد وتعاون کا مرکز دوحہ میں اور یورپ کے لئے ترکی میں اور ایشیا کے باقی ممالک کے لئے کوالمپور میں مرکز بنایا جائے گا. اس پر دوحہ ، استنبول اور کوالمپور حکومتوں کے مابین معاملات طے پا چکے ہیں. اور تینوں مراکز کے لئے 3 ٹریلین ڈالرز کی امداد کا بجٹ بھی طے پا چکا ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کے مختلف علاقوں اوربڑے بڑے شہروں میں جانےاوربہت سارے اسلامی ممالک میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔کچھ اسلامی ممالک بہت دولت مند ہونے کے باوجود'تیل کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود ' قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجوداور زرخیز زمین اورکثیر المقاصد اسباب کے باوجودخط غربت کی لکیرسے نیچے ذندگی گزارنے پے مجبورہیں اوران ممالک میں یورپ والے جاتے ہیں اوران کو ہیومن رائٹس(حقوق بشر) پے درس دیتے ہیں۔تعجب میں تب اضافہ ہوجاتاہے جب یہ لوگ ان مسلمانوں کوحقوقِ بشر کاسبق سیکھاتے نظراتے ہیں جن مسلمانوں کواسلام نے چودہ سوسال پہلے ہی سب سے ذیادہ حقوق کاسبق سیکھایا تھا اور حقوق درس پڑھایا تھا۔دکھ توان مسلمانوں پر ہوتاہے جو ان کی مفاد پرستانہ باتوں سے یا متاثر ہوتے ہیں یاپھر ذاتی مفاداور شارٹ راستے سے امیر ہونے کی فکرمیں ان کے لئے استعمال ہوتے ہیں اوراپنی ساری انرجی ان این جی اوزکی کامیابی اورعلاقے کی غلامی کے لئے بالواسطہ یابلاواسطہ دن رات کام کرتے ہیں۔
حقیقت ہی ہے کہ اسلام نے ہمیں حقوق کاجوتصور دیا ہے ایساتصورنہ کوئی دے سکاہے نہ دے سکتاہے۔ لھذا حقیقی مسلم وہی ہے جوحقوق ادا کرتا ہو۔ یہاں تک کہاگیاہے کہ ایک انسان کی نسبت دوسرے انسان پرتیس قسم کے حقوق عائدہوتے ہیں۔ایک مسلم کی نسبت ایک مسلم پرتیس قسم کےحقوق عائدہوتے ہیں جومسلم ان حقوق کواداکرتا ہووہی مسلم ہے اورجوان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کوتاہو وہ مسلم نہیں ہے ۔اس کامطلب یہ ہواکہ اسلام سراپاحقوق کانام ہے ۔اورجوسبق حقوقِ بشرکا اسلام نے سیکھایاہے ایساسبق دنیاکاکوئی مذہب دے نہیں سکتا ہے ۔اج جوانوں کوبیدارہونے کی ضرورت ہے کہ جوانوں کولایعنی اورغیرمنطقی(بظاہردلکش حقیقت میں گمراہ کن) باتوں کے ذریعے سے گمراہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ کہاجاتاہے دین نے ہمیں کیادیاہے؟مذہب ہی سب سے بڑی رکاوت ہے ترقی کے لئے وغیرہ وغیرہ۔
اگرباریک بینی سے دیکھاجائے تویہ باتیں یاتواستعمارکی ہیں یا ان نام نہاد لوگوں کی ہیں جن کی ذندگی کاایک اہم دورانیہ لہو لعب میں گزرتاہے اوران کادل گناہوں کی وجہ سے مکمل سیاہ ہوجاتاہے۔وگرنہ جوکچھ دیاہے وہ دین نے ہی دیاہے۔اج معاشرے میں حیاہے'امن ہے'محرم اور نامحرم میں تمیزہے 'جرائم نہ ہونے کے برابر ہے اورایک دوسرے کااحترام ہے تودین ہی کی وجہ سے ہے۔ لھذا دین ہی نے حقوق انسانی کاتصورچودہ سوسال پہلے دیاہے یہ کسی مغرب کادیاہواتحفہ نہیں ہے ۔اسی وجہ سے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاتاہے; پہلاحقوق اللہ اوردوسراحقوق العباد/حقوق الناس ۔حقوق اللہ فرض ہیں اورحقوق الناس قرض ہیں ۔فرض شناس ہی قرض شناس ہوتاہے 'فرض اداکرنے والاہی قرض اداکرتاہے۔ پھرحقوق العباد کی ایک لمبی فہرست ہے منجملہ :یہ ہیں حقوق والدین'اولادکے حقوق'حقوق زوجین'رشتہ داروں کے حقوق'ہمسایہ کے حقوق'استاد کے حقوق 'طالب علم اورغیرمسلم کے حقوق۔
بلکی ہرانسان کی نسبت ہرانسان پرکوئی نہ کوئی حق عائدہوتاہے ہے۔جس کے دائرہ اختیارمیں جو آتا ہے اس کی نسبت سے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔ مثلاحاکم کے حقوق رعایاکی نسبت حقوق اوررعایاکے حقوق حاکم کی نسبت۔اوراگریہ نسبت خاص مدت کے لئے قائم ہوجائے مثلا ایک مسافرکے ساتھ چندلمحوں کے لئے صحبت ہوتوبھی حق عائد ہوتاہے۔جس کی تفصیل کتابوں میں موجود ہے یہاں ایک کتابچہ کاذکرضرورکروں گاجس کورسالۃ الحقوق کہاجاتاہے اوروہ امام زین العابدین ع کاہے جس میں امام ع نے بہت سارے لوگوں کاحق بیان فرمایا ہیں:اعلم ان اللہ عزوجل علیک حقوقامحیطۃ لک فی کل حرکۃ تحرکتھااوسکنۃ سکنتھااوجال حلتھااومنزلۃ نزلتھااوجارحۃ قلبتھا او الۃ تصرفت فیھافاکبرحقوق اللہ تبارک وتعالی علیک مااوجب علیک لنفسہ من حقہ الذی ھواصل الحقوق ثم مااوجب اللہ علیک لنفسک من قرنک الی قدمک فاما حق اللہ الاکبرعلیک فان تعبدہ ولاتشرک بہ شیئا اذا فعلت بلاخلاص جعل لک علی نفسہ ان یکفیک امرالدنیا و الاخرۃ۔ ترجمہ:جان لوخداوندعالم کے حقوق تمہارے پورے وجود کااحاطہ کئے ہوئے ہیں۔تمہاری کوئی حرکت'تمہاراکہیں جانا اورکسی الہ کااستعمال تک کے بارے میں پوچھاجائے گا۔
پس سب سے بڑاحق حقوق میں سے خداوندعالم کاہے جس کوخدانے فرض کیاہے تم پراپنے حق میں سے جوکی حقوق کی اصل اورجڑہے پھر خداوند عالم نے واجب کیا ہے تم پرتمہارے لئے سرسے پیرتک کچھ حقوق۔حقوق میں سے سب سے بڑاحق تم پرتمہارے رب اور پروردگار کا ہے۔اور تمہارے پروردگار کا حق یہ ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور زرہ برابر شرک نہ کرو۔اورگرتونے اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کی توتمہارے لئے دنیاواخرت میں یہی کافی ہے۔رسالۃ الحقوق کے اغازمیں امام زین العابدین ع نے پوروردگارعالم کاحق بیان فرمایاہے کہ:انسان دنیامیں خالق دنیا'مالک دنیا'رازق دنیا ' مدبر دنیااورحاکم دنیاوعالم کوپہچانے اس کی معرفت حاصل کرے اور اسی کی عبادت کرے۔حقیقت یہ ہے کہ جورب کوپاتاہے وہی دنیا اوراخرت میں کامیاب ہوتاہے۔سی وجہ سے حدیث نبوی ص ہے کہ اول الدین معرفۃ الجباراو اخرہ تفویض الامرالیہ۔کہ دین کی ابتداہی جبارخداکی معرفت سے ہوتی ہے اوردین کااخرتمام امورکواسی کے سپردکرناہے۔ یعنی پہلے اس پروردگارکی معرفت پھراس کی بندگی اورعبادت ہے۔کیونکہ معرفت اورعبادت لازم وملزوم ہے۔
تحریر: شیخ فدا علی ذیشان
(سکریٹری جنرل مجلس وحدت المسلمین ضلع سکردو)
وحدت نیوز(آرٹیکل) عراق تیل کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس پر گذشتہ 16 سال سے امریکی قبضہ ہے. اسے اقتصادی و سیاسی طور پر امریکہ نے مکمل طور پر جکڑ رکھا ہے. اور اسکے مقدر کے بڑے بڑے فیصلے امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتے. ملک کی سیکورٹی، اقتصادی و سیاسی پالیسیوں میں امریکہ اپنے تسلط اور نفوذ کے ذریعے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے. جب 25 اکتوبر 2018 کو عادل عبدالمہدی نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تو کیونکہ یہ شخص خود ماہر اقتصادیات ہے اس نے ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کے لئے جو روش اپنائی اس کی پالیسیوں اور اقدامات سے عراق امریکی ھاتھوں سے نکل رہا تھا. ایسے میں امریکہ نے اس کو راستے سے ہٹانے کے لئے اپنی پراکسیز میدان میں اتاریں. جنہوں نے کرپشن کے خاتمے اور عوام کی محرومیوں کا کارڈ استعمال کیا. تاکہ لوگوں کی توجہ امریکہ اور وزیراعظم عراق کے مابین حقیقی اختلاف اور اسکے محرکات و عوامل سے ہٹائی جاسکے. مقامی و بین الاقوامی میڈیا نے بھی انہیں پراکسیز کے پروپیگنڈے کو ان ناگہانی حالات کا موجب قرار دیا. اور یہ مطالبات بھی عوام کے دل کی آواز تھے اور انکے بنیادی حقوق کا تذکرہ اور کرپشن ومحرومیوں کے خاتمے کا مطالبہ ان کو سڑکوں پر لانے کا سبب بنا.
اس لئے ہم نے کوشش کی کہ قارئیں کو حقائق سے آگاہ کریں اور عراقی صحافت میں جو ابحاث حالات خراب ہونے سے پہلے چل رہی تھیں اسے انکے سامنے پیش کریں۔ اس لئے ہم نے اپنے پہلے مضمون میں سابق وزیراعظم عادل عبدالمھدی کے ان اقدامات کا تذکرہ کیا جو انھوں نے ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے دلیری کے ساتھ اٹھائے اور امریکی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر چین کا دورہ کیا. اور دوسرے مضمون میں تفصیل کے ساتھ لکھا کہ انہیں وطن سے وفا کرنے کے جرم کی سزا دی گئی. اور وہ بنیادی وجوھات جو حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں ان پر روشنی ڈالی. جبکہ تیسرے مضمون میں امریکی حکومت عراق کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے اسے امریکی صدر کے بیانات سے واضح کیا. اور عراق کے اس کرپٹ نظام کی تشکیل کے لئے کئے جانے والے امریکی اقدامات کو دلائل کے ساتھ بیان کیا.
اپنے تیسرے کالم میں ہم نے حوالے کے ساتھ بیان کیا کہ امریکی صدر کہتا ہے
1- عراق کی آرمی (سابقہ) کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کیا جا چکا ہے. اب انکے پاس ایک کمزور فوج ہے.
2- اور عراقی معاشرہ ایک کرپٹ معاشرہ ہے.
3- انکے لیڈر بدعنوان اور کرپٹ ہیں.
4- ایسے عراقیوں کا کوئی وجود نہیں. ( وہ کہ جس کو عراق کی فکر ہو ).
5- وہ مختلف گروہوں اور قبائل میں بٹے ہوئے ہیں.
امریکہ اس وہم میں تھا کہ اب وہ جو کچھ کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ لیکن وہ شاید بھول گیا تھا کہ عراق کی تاریخ بہت طولانی ہے اسے کوئی نہ ختم کر سکا ہے نہ ختم کر سکے گا. عراق کی تاریخ بشریت کی تاریخ کی ابتداء تک جا پہنچتی ہے . کیونکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام اور آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام اسی ملک عراق کے شہر نجف اشرف میں سردار الاولیاء امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے پہلو میں دفن ہیں. اور تا قیامِ قیامت یہ ملک رہے گا. اور اسی سرزمین پر وہ حکومت بھی قائم ہو گی جو پوری دنیا کے ظلم وجور کا خاتمہ کرے گی اور اسے عدل و انصاف سے پر کر دے گی. جس کی بشارت سردار انیباء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحکم خدا دے چکے ہیں.
امریکہ گذشتہ سالوں میں دیکھ چکا ہے کہ اب عراق وہ نہیں جو وہ بنانا چاھتا تھا. درست ہے کہ امریکہ نے عراقی فوج کو ختم کرنے کے بعد سوچا تھا کہ اب یہ ملک ایک کمزور ملک ہے. جس کے پاس کوئی دفاعی طاقت نہیں. اب اسے تقسیم کیا جا سکتا ہے اور اس پر داعش کو مسلط کیا جا سکتا ہے. اور وہاں پر مقدسات کی بیحرمتی کی جاسکتی ہے اور انہیں مٹایا جا سکتا ہے. لیکن اسے مرجعیت رشیدہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ جس کے ایک فتویٰ سے ایسی عوامی رضا کار فورس بن سکتی ہے جو اس کے غرور و تکبر کو توڑ سکتی ہے. اور اسکے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا سکتی ہے. اسے تاریخ سے عبرت لینی چاھیے تھی۔ ایک زمانہ تھا جب پورے کا پورا کفر اکٹھا ہو کر مرکز اسلام پر حملہ آور ہوا تھا اور اسلام کو نابود کرنا چاھتا تھا. تو اس وقت جس بابصیرت مجاھد سلمان فارسی کی کامیاب دفاعی پالیسی کو قبول کرتے ہوئے رسول اللہ نے شہر کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا تھا. کل ایمان امام نے بڑھ کر کل کفر کو شکست سے دوچار کیا تھا. آج پھر اسی سلمان کی قوم مجاھد اسلام حاج قاسم سلیمانی نے اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق دفاعی پالیسی مرتب کی اور خود اپنے جانبازوں کے ساتھ ملکر کر میدان عمل میں اترے اور مرجعیت کے فتویٰ کی لاج رکھی. جس کے نتیجے میں بہادر عراقی سپہ سالاروں اور مجاھدین نے حشد الشعبی تشکیل دیکر اس زمانے کے کلِ کفر کی بنائی ہوئی داعش کے ناپاک وجود سے سرزمین عراق کو پاک کیا. اور عراق کی تقسیم اور علحیدہ ملک کردستان کے قیام کا خواب چکنہ چور کیا. اس وقت عراق اور خطے میں شکست خوردہ امریکہ اپنے سامنے سے بڑی بڑی دفاعی لائنز کو ہٹانا ضروری سمجھتا ہے تاکہ اسکا استعماری تسلط قائم رکھ سکے۔ عراق میں امریکہ کے سامنے بنیادی دفاعی لائنز یہ ہیں۔
1- حشد الشعبی
2- مرجعیت رشیدہ کا نفوذ
3- عراقی و ایرانی ایمانی ر
شتہ اور باھمی تعاون.
4- محب وطن سیاسی لیڈرشپ.
اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے امریکہ جن قوتوں کو استعمال کر رہا ہے؟ ان کا اور اس حوالے سے پارلیمانی اتحادوں اور پارٹیوں کے کردار اور موقف کا تذکرہ ہم اپنے اگلے کالم میں کریں گے۔(جاری ہے)
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی